قرۃ العین حیدر ایک معروف ناول نگار اور افسانہ نگار تھیں۔
ان کے مشہور ناول میں آگ کا دریا،آخر شب کے ہم سفر۔میرے بھی صنم خانے،چاندنی بیگم
اور کار جہاں دراز قابل ذکر ہیںاور افسانوں میںپت جھڑ کی آواز، فوٹو گرافر، گردش رنگ
چمن،چائے کے باغ، دلربا، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو وغیرہ اہم ہیں۔ان کے ناولوں کی
اہم خصوصیت شعور کی رو کی تکنیک ہے جس کو اردو ناولوں میں بحسن و خوبی برتا ہے۔ ان
کی تحریر کا اہم موضوع تقسیم ہند کا دردہے۔
سیر و تفریح کا شوق ان کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھا۔انھوں
نے اندرون ملک اور بیرون ممالک کئی اسفار کیے۔ ان کے سیاحتی شوق اور بے پناہ تحریری
صلاحیت کی وجہ سے کئی رپورتاژ وجود میں آئیں۔ان رپورتاژ کو سفرنامہ کے زمرے میںبھی
رکھا جا سکتا ہے۔کیونکہ ان تمام رپورتاژ کو دوران سفر ہی تحریر کیا گیا ہے۔جس میں ان
ملکوں کے تجربات و مشاہدات کو رقم کیا گیا ہے۔ان رپورتاژ میںکوہ دماوند، جہان دیگر،لندن
لیٹر،دکھلایئے لے جا کر انھیں مصر کا بازار وغیرہ اہم ہیں۔
قرۃ العین حیدر کوہ دماوندکا تذکرہ چھیڑ کر یہ تو صاف کر
دیتی ہیں کہ ان کا ارادہ ایران کی تاریخ اوراس کا جغرافیہ بیان کرنے کا ہے اور وہ بھی
آنکھوں دیکھا۔
کوہ دماوند سلسلۂ کوہ البرزمیں واقع ممکنہ طور پر فعال
آتش فشاں ہے جو ایران اور مشرق وسطیٰ کی بلند ترین چوٹی ہے۔فارسی دیو مالا، لوک کہانیوں
اور ادب میں اس کا خاص مقام ہے۔یہ بحر کیپسین کے جنوب ساحل کے قریب تہران سے چھیاسٹھ
کلومیٹر شمال مشرق میں آمل صوبہ مازندران میں موجود ہے۔وہ ایران کے اس وقت کا قصہ
سنانے چلی ہیں جب یہ فارس تھا اور وہ بھی نانی دادی والے انداز میں، اس ملک میں ایک
بادشاہ تھا نام اس کا کاکوس تھا بے حد رحم دل رعایا پرور پوری سلطنت میں امن و چین
تھا۔پوری عوام سکھ چین سے زندگی گزار رہی تھی۔ظالم سفید دیو قوی ہیکل جو انتہائی جسمانی
طاقت اور شیطانی دماغ کا مالک تھا۔ساتھ ہی جادو ٹونے کے اسلحے سے بھی لیس تھا اس کو
ایک آنکھ نہ بھایا سلطنت پر حملہ آور ہو گیا۔اپنے شیطانی جادو اور جسمانی قوت کے
زور پر ایسا طوفان برپا کیا کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔بادشاہ کاکؤس کو شکست ہوئی اس
کو اور اس کے سپاہ سالار اور دیگرلوگوں کو بندی بنا لیا۔سبھی کی آنکھیں پھوڑ دی۔سبھی
کوزمین دوز خفیہ غار میںلے گیا جہاں وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہتا تھا۔رعایا بے حال
پریشان اپنے راجا کے غم میں نڈھال ایسے میں رستم اپنے سات رفقا کے ساتھ مسیحا کی صورت
میں نمو دار ہوتا ہے۔وہ سفید دیو کے خفیہ مسکن کا پتہ لگاتا ہے۔پھر جنگ ہوتی ہے سفید
دیو مارا جاتا ہے۔ اس کا سینہ چاک کر اس کے کلیجے اور خون سے راجا اور سارے لوگوں کا
علاج کرتا ہے سبھی صحت مند اور بینا ہو جاتے ہیں۔قصہ کوتاہ ہفت خاں مرحلہ طے ہو جاتا ہے بادشاہ کواپنا تخت
اور رعایا کو اس کا من چاہا بادشاہ مل جاتا ہے۔
’’البرز
کی گونجتی ہوئی چٹانوں پر سیمرغ پروں میں چونچ چھپائے بیٹھا اونگھ رہا ہے۔اور با خبر
ہے کہ چند فرسنگ پر کاہ طالقان اور کیپسین کے درمیان پر اسرار جنگلوں،چراگاہوں میں
وراجنے والا لال دیو بغلیں بجاتا ہے کہ ہفت خاں طے ہوئی اور سفید دیو بالا خر مات کھا
گیا۔ سفید دیو اور ارژنگ دیو اور شیرا سپ،گشتہ سپ، جامہ سپ، مہرا سپ،ارجا سپ،اسفند
یار رستم رہا زمین پہ نہ بہرام رہ گیا۔بڑی سخت نیند آ رہی ہے۔‘‘
(کوہ
دماوند، قرۃ العین حیدر، ایجوکیشنل پبلی سنگ ہاؤس2000، ص45)
وہ دنیا کی بے ثباتی پر آنسو بہاتی ہیں اور علامتی طور
پر عالم فانی سے عالم باقی تک پہونچنے کا نسخہ بتاتی ہیں اور تب وہ ایک ادیب سے ایک
د م صوفی کا روپ دھار لیتی ہیں۔دلوں کا حال جاننے والا سیمرغ اور اپنے درمیان ایک چڑیا
کو پھدکتی ہوئی دکھاتی ہیں اور یہ سیمرغ ہفت
وادیوں کو کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد ملنے کا تصور کیا جاتا ہے۔پہلی طلب و جستجو
دوسری عشق تیسری معرفت چوتھی استغنا پانچویں توحید چھٹی حیرت اور ساتویں فنا اور جب
یہ ساری وادیاں طے ہو جاتی ہیں تو اس کی اپنی شکل اس منزل پہ موجود سیمرغ سے ملتی جلتی
ہے۔ ’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘کاعقدہ حل ہو جاتا ہے۔
طہران جسے اب اہل ایران تہران لکھتے ہیں۔سطح سمندر سے چار
ہزار فٹ کی بلندی پر البرز کے دامن میں واقع ہے۔ناصری کے مطابق تہران اور شمران دو
گاؤں تھے۔ منگولوں کے ہاتھ’رے‘کی تباہی کے بعد وہاں کے باشندوں کو ان گاؤ ں والوں
نے خوش آمدید کہا۔سولہویں صدی میں تہماسپ سفوی روضۂ حضرت شاہ عبد العزیز کی زیارت
کے لیے جاتے ہوئے تہران کو پسند کر لیا اور یہاں قلعے بنوائے۔ان کی دیواروں پر قرآنی
آیات نقش کروایا اور فصیل میں چود ہ پھاٹک لگوائے۔1788 میں شاہان قاچار نے تہران کو
اپنا دار الحکومت بنایا۔کاخ سعد اسی قلعے میں ہے اس کو رضا شاہ کبیر نے بنوایا تھااور
وہیں پر تخت طاؤس موجود ہے جس پر اب تک شہنشاہ ایران نشیں ہوتے ہیں۔ انھوں نے تخت
طاؤس کو آنکھ پھاڑ پھاڑ کے حیرت سے دیکھا جس کی سنہری پشت اور ہتھوں اور پایوں پر
فارسی اشعار کندہ تھے۔وہ اپنے تصور میں اس بات کو لانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مغل بادشاہ
محمد شاہ رنگیلے اس پر آخری بار جب بیٹھ کر اٹھے ہوں گے تو ان کو کیسا محسوس ہوا ہوگا۔جب
وہ اس پر نقش فارسی کے اشعار اپنے روز و شب میں اتار رہی تھیں تو کسی نے ان سے کہا
کہ اصل تخت طاؤس بانک ملی میںمحفوظ ہے یہ اس کی نقل ہے و اللہ عالم بالصواب۔
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ جب وہ تفریح میںحافظ شیرازی کے شہر
پہنچتی ہیں تو ان کے ہمراہ پترکار وہاں چائے خانے کی کثرت دیکھ کر بڑے پتے کی بات بولتا
ہے کہ یہاں تو شراب خانہ کی کثرت ہونی چاہیے۔وہ سہم جاتی ہیں کہ وہ جو شغل شراب بھی
کرتے ہیں کس شراب خانے کی بات کر رہا ہے۔حافظ شیرازی تو اس شراب عشق حقیقی کی بات کر
رہا ہے جس کا پیالہ پی کر منصور انا لحق کہتا ہوا دار پر ہنستے ہنستے جھول گیا۔اس نے
بڑا پیارا جواب دیا
’’دیدی
ہم کو معلوم ہے حافظ ہمیشہ پرماتما کے گیان کی بات بولتا تھا۔کچھ سناؤ نہ؟‘‘(ص60)
وہ اس جواب سے بے حد مسرورنظر آتی ہیں۔وہ لکھتی ہیں
’’
ہوٹل شیراز کے برآمدے میںلوگ باگ آرام کر رہے ہیں۔سارے
گورے اور میمیں آرام کرسیوں پر نیم دراز سرد و شیریں تربوز نوش کرنے میں مصروف ہیں
اور بیئر پی رہے ہیں۔‘‘(ص62)
اوروہ محسوس کر تی ہیںکہ ہوٹل کے باغ میں بلبل ہزار داستاں
نغمہ سرا ہے ؎
خون کرد در دلم اثر آواز عندلیب
گشتم چناں کہ ہیچ نماندم
تحملے
’’بلبل
کی آواز نے جب میرے دل پر اثر کیا میں ایسا ہو گیا کہ میرے اندر قوت برداشت نہ رہی‘‘
نوٹ(دیوان
حافظ میں اس شعرکا پہلامصرع اس طرح ہے
چوںکرد در دلم اثر آوازعندلیب)
وہ ایک دن شہر اصفہان بھی جاتی ہیں۔ اصفہان میں شاہ عباس
کی شخصیت کی جھلک ہر جگہ موجود ہے۔اس کا دور صفوی خاندان کا عہد زریں کہلاتا ہے۔اس
نے اپنے دار الحکومت اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو اصفہان نصف جہان کہنے لگے۔اس
کے وقت میں فنون لطیفہ خاص کر فن تعمیر اور فن مصوری کو بہت ترقی ملی۔ شاندار عمارتیں
تعمیر کی گئیں جامع مسجد،چہل ستون،زندہ رود،
ندی کے اوپر دو پل اور چہار باغ بہت مشہور ہیں۔ چہل ستون اورمسجد لطف اللہ کے بارے میں لکھتی ہیں
قصر چہل ستون میں اطالوی کاریگر فریسکو ٹھیک کرنے میں مصروف
تھا۔ایک فریسکو میں شاہ طہاسپ صفوی کے دربار میں ہمارا ہمایوںبے چارہ سانولا اور چھوٹا
سا، ایرانی بادشاہ کے سامنے دو زانو بیٹھا ہے۔اس کے مغل امرا بھی سانولے چھوٹے سے۔سامنے
رقاصہ ناچ رہی ہے۔ ملٹری ایڈ لینے آیا تھا۔مل گئی۔‘‘(ص66-67)
سیر و تفریح تاریخ و جغرافیہ آ پ کے سفر کا مقصد قطعی نہیں
تھا مگر یہ تو آپ کا وصف خاص تھا جو آپ کو ایران کی جہاں تہاں کی خاک چھنوا رہا تھا۔آپ
ان جگہوں سے لطف اندوز بھی ہو رہی تھیں۔حسین مناظر کو آنکھو ں میں سمیٹ رہی تھیں اور
عہد رفتہ کو آواز بھی دے رہی تھیں۔ حاصل شدہ نتائج اور معلومات کے موتی کو علم کے
خزانے میں جمع بھی کر رہی تھیں جو اردو ادب کے شہ پاروں میں ایک اضافہ ثابت ہوا۔ویسے
وہ اپنے مقصد اولین سے غافل بھی نہیں تھیں۔ملکہ فرح دیبا کی سوانح حیات کے لیے مواد
بھی اکٹھا کر رہی تھیں۔ لوگوں سے مل رہی تھیں۔ شاہی خاندان کے افراد سے گفتگو کر رہی
تھیں۔ اس سلسلے کی کتابیں بھی زیر مطالعہ تھیں، خود ملکہ علیا سے گھنٹوں گفت و شنید
اور غور وفکر بھی ہو رہی تھی۔کبھی خلوت میںکبھی جلوت میں کبھی کھلے میدان میں تو کبھی
بند کمرے میںکبھی دفتر میں تو کبھی یتیم خانہ کے انتظامیہ آفس میں۔ان کے چلنے کا ڈھنگ
ان کے رہنے کا انداز زندگی گزارنے کا سلیقہ شاہ کے ساتھ تعلق، عوام کے ساتھ سلوک، بزرگوں
سے احترام، حسب مراتب ادب وقت کی پابندی، ایفائے وعدہ اور بچوں سے شفقت سبھی کچھ جو
ایک ملکہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور سوانح حیات مرتب کرنے میں معاون ہو۔
ان کی یہ سوانح حیات انگریزی میں ’دی ایم پریس‘ کے نام لکھی
گئی تھی اور یورپ کی چھ زبانوں میں شائع کی جانے والی تھی۔مسودہ انھوں نے رمیش سنگھوی
کو لندن بھیج دیا۔اسی درمیان مارچ میں بے چارے رمیش سنگھوی ایک مہلک بیماری میں مبتلا
ہو کر فوت کر گئے اور مسودہ بھی گم ہو گیا۔اس کی کوئی دوسری کاپی مصنفہ قرۃ العین حیدر
نے نہیں رکھی تھی۔یہ تو وہی ہواکہ کہاں گئے تھے کہیں نہیں۔کیا لائے کچھ نہیں۔لیکن ایک رپورتاژ یا سفرنامہ ضرور وجود میں آگیا۔
جہان دیگر
اس سفرنامہ میں امریکہ کے سفر کی روداد ہے۔اس سفرکو انھوں
نے 18عنوانات کے تحت اپنے مخصوص علامتی انداز میں تحریر کیا ہے۔ اڑن ہاتھی اور بڑھیا
کا تنور منجانب یوحنا عارف،مور کی آخری آہ،گل آفتاب،صور اسرافیل، کوہرے میں جزیرے،خیاباں
خیاباں ارم، نادیہ لیلیٰ فاطمہ،ہواؤں کا شہر،دور کی بانسری سر، بانسری کے مختلف سر،سوپ
اور اوپیرا،شن شائن اسٹیٹ، فرشتوں کی ملکہ مریم کا شہر،کاؤ بوائے اور ریڈ انڈین، تین
ستارہ، ڈکسی مون اور الفا اور اومیگا۔
جہان دیگر اس سفرنامہ کا پہلا مضمون ہے۔ اس مضمون کے ذریعے
انھوں نے اپنی سوانح و کوائف کوواضح کیا ہے۔ اس مضمون سے نہ صرف ان کی شخصیت ابھر کر
سامنے آتی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس دو صفحے کے مضمون میںانھوں نے اپنی زندگی کے
تمام پہلوؤں کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔ان کی زندگی میں ان کے اپنوں کی اہمیت،ان
کے لکھنے کا انداز،ان کے لکھنے کی شروعات، ان کی تحریروں کی تحسین ان کی تحریروں کا
موضوع تقسیم ہند کا درد، ایک خوشگوار بچپن اور اس کی یادیں،گڈا گڑیوں کا گھر اورسہیلیاں،بھائی
بہنوں سے محبت اور ان سے جدائی، اپنی پسند و نا پسند، اپنی پہلی کہانی لکھنے کی داستان،
باتوں باتوں میں تاریخ و تہذیب کا بیان،محترم شخصیتوں سے اختلاف رائے رکھنے کا حسین
سلیقہ سبھی کچھ تو انھوں نے مختصر میںبیان کر دیا ہے اوران کی شگفتہ مزاجی کا عالم
ملاحظہ فرمائیے
’’موصوفہ
ایک شاعرانہ مزاج کی مالک ہیں۔ پھولوں اور قوس قزح سے سخت دلچسپی ہے۔موسیقی سے الفت
ہے۔فلسفے کی کتابوں کا مطالعہ کرتی ہیں۔ان کے کمروں کا رنگ ہلکا آبی ہے۔پردے چمپئی۔دریچوں
میں بنفشہ کے شگوفے پڑے مہکتے ہیں۔‘‘
(قرۃ
العین حیدر، مرتب جمیل اختر، آئینہ جہاں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی، ص103)
امریکہ کا شہر شکاگو انھیں تعلیم کا گہوارہ نظر آتا ہے۔
اکیلے اس شہر میں چھ یونیورسٹیاں ہیں۔وہ یونیورسٹی آف شکاگو کے صدر شعبہ اردو چودھری
محمد نعیم کی دعوت پر آئی تھیں۔ اس دوران انھوں نے شہر شکاگو دیکھا۔شکاگو ان کی نظر
میں امریکہ کا اہم ادبی اور تہذیبی مرکز ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ تفریح گاہ بھی ہے اور
فن پرستوں اور ڈاکوؤں کا اڈہ بھی ہے۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کس کو کون سی ہوا راس
آتی ہے۔شکاگو شہر کا تعارف انھیں کی زبان میں دیکھیے ؎
’’شکاگو
میں ان گنت تھیئٹر بھی ہیں، اوپیرا، بیلے، میوزیم۔ امریکہ کا اہم ادبی اور تہذیبی مرکزہے۔مشہور
زمانہ میوزیم کے سامنے طویل قطاریں اندر جانے کی منتظر تھیں۔پیرس سے تو لوس لا ترک
نمائش آئی ہوئی تھی۔یہی فن پرست شہر ڈاکوؤں کا اڈہ بھی ہے۔‘‘(ص166)
اکثر سفرناموں میں امریکہ کی اس تہذیب کو بڑے ہی مثبت انداز
میں پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن قرۃ العین حیدر سکے کا دوسرا رخ دکھاتی ہیں کہ ان تفریح
گاہوں میں موجودزیادہ تر بوڑھی عورتیں ہوتی ہیںجو تنہا وہیل چیئر استعمال کرتی ہیں
اور اکیلا پن امریکی تہذیب کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کی اولایں ان کے ساتھ زندگی نہیں گزارتیں۔
ساتھ ہی اس بابت بھی توجہ دلاتی ہیں کہ انھوں نے بھی اپنی جوانی میں کچھ کنسٹرکٹو کام
نہیں کیا تھا نہ جذباتی رشتوں کی قدر ہی کی
تھی۔اس لحاظ سے وہ مشرقی عورتوں کے حالات کا مقابلہ جب مغربی عورتوں سے کرتی ہیں تو
مشرقی عورتوں کے حالات ان سے بہتر پاتی ہیں
’’یہ
تنہا اداس بڑھیاں آج سے نصف صدی قبل جوان لڑکیاں رہی ہوں گی۔ اپنے شوہروں یادوستوں
کے ساتھ لگژری لائنزز پر یورپ کی سیاحت کے لیے جاتی ہوںگی آ ج کوئی بات کرنے کو روادار
نہیںتفریح گاہوں میں ان کی جگہ اوروں نے لے لی ہے۔‘‘(ص166)
شہر فلوریڈہ کو شن شائن سٹیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی
کی مناسبت سے انھوں نے اس کا عنوان شن شائن سٹیٹ رکھا ہے۔یہ شہر تیوہاروں اور قدرتی
مناظر کے لیے مشہور ہے۔اس شہر کو وہ رومانس اور لجنڈ کا شہر کہتی ہیں۔ یہاں ان کا قیام
سان فرانسسکو اور کیلیفوریا شہر میں رہا۔ امریکہ کی تعلیمی صورت حال سے وہ بہت متاثر
تھیں۔ امریکہ میں اس وقت یونیورسٹیوں کی تعداد 2000 تھی جب ہندوستا ن میں اس کا دس
فیصد بھی نہیں تھا۔سن شائن سٹیٹ کی خصوصیات کا بیان ان کی زبان میںملاحظہ کیجیے
’’امریکہ
میں دو ہزار یونیورسٹیاں ہیں۔ہر ریاست میں سرکاری یونیورسٹیوں کا ایک Complex ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اس ریاست کے چھ شہروں میں اسی نام سے موجود ہے۔مشہور عالم
’لیرل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے‘ کا حسین اور پر فضا کیمپس۔خود شہر سان فرانسسکو
دنیا کے حسین ترین شہروں میں سے ایک سرسبز پہاڑیاں،اونچے نیچے بل کھاتے راستے مورش
ہسپانوی طرز کے مکانات،عظیم الشان ڈاؤن ٹاؤن،تیز نیلا بحر الکاہل۔‘‘(ص192)
ایری زونا یہ امریکہ کے دوسرے صوبے کے مقابلے گرم تصور کیا
جاتا ہے۔یہ کیلیفورنیا کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور سرخ صحرائی حسن کی وجہ سے اس علاقے
کو ’’Painted
Desert کہا جاتا ہے۔یہاں دیو قامت کیکٹس پائے جاتے
ہیںاور چاروں طرف خشک پہاڑ ہیں۔اس پر ہسپانوی مکزیکن تہذیب کی چھاپ بھی ہے۔ اپاش قبیلے
سے بیس سال تک چلی جنگ 1886 میں ختم ہو گئی۔امریکی گوروں کے قبضے کے بعد گایوں کے ریوڑ
پالنے والوں نے اپنے مویشیوں اور گلوں کی حفاظت کے لیے جن لوگوں کو رکھا وہ ’’کاؤ
بوائے کہلائے۔یہ مخصوص لباس اور ہتھیار بند گھوڑوں پر سوار ہوکر ان پتھریلے اور صحرائی
علاقوں میں مویشیوں کی حفاظت کرتے تھے۔ اس طرح ایک مخلوط آبادی کا جنم ہوا۔
’’اس
دکان میں گھوڑوں کی مرصع زین چمڑے کے ملبوسات، ٹوپیاں، ایڑی والے مرصع جوتے، مرصع پیٹیاں
کٹار۔غرض یہ کہ پورا کا ؤ بوائے ساز و سامان بک رہا تھا۔ برآمدے کے باہر گھوڑا باندھنے
کی کھونٹیں بھی موجود تھیں۔ جب گلہ بانی کمپیوٹر اور راڈر اور Remote Control سے
شروع ہو جائیں گے۔‘‘(ص223)
’ریڈ
انڈین‘ سے گورے مہاجروں کی لڑائی تو ختم ہو گئی لیکن اصل باشندہ ہونے کے باوجود ان
کی حیثیت ایک پسماندہ طبقے کی ہے اور اپنے وجود اور بقا کی لڑائی وہ جس انداز سے لڑ
رہے ہیں انھیں مزید پسماندگی کی طرف لے جا رہی ہے۔وہ وہاں کے ریڈ انڈین کی حالت زار
دیکھ کر متعجب ہوتی ہیں کہ کیا وجہ ہے آج بھی اپنا مقام حاصل کرنے سے قاصر ہیں جب
کہ یہاں کالوںنے ہمت دکھائی لڑ بھڑ کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنا مقام حاصل کیا۔حالانکہ
یہ اتنا آسان نہیں تھالیکن انھوں نے زندگی کی یہ جنگ لڑی اور جیتی بھی۔ اس طبقے کو
بھی معاشرے میں اپنے حق کی آواز بلند کرنی چاہیے۔
Dr.
Adeela Jaseem
Asst.
Professor
K.S
College (LNMU)
Darbhanga- 846003 (Bihar)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں