آزادیِ
نسواں اور رومانوی ادب کے علم بردار احسان عبد القدوس(1919-1990) بیسویں صدی کے
مایۂ ناز عربی افسانہ نویس اور ناول نگار ہیں۔ان کی پیدائش 1919میں مصر کے شہر
قاہرہ میں ہوئی۔1942میں قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لا سے ایل ایل بی کی ڈگری
حاصل کی،مگر صحافت سے خاص دل چسپی کے باعث انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی بحیثیت
ایک سیاسی تجزیہ نگار اور عربی مجلہ’روزالیوسف‘جسے ان کی والدہ فاطمہ الیوسف نے
جاری کیاتھا، کی ایڈیٹر شپ سے شروع کی۔اپنے بے لاگ صحافیانہ تجزیوں کے سبب بے باک
صحافیوں میں شمار کیے جانے لگے جس کی وجہ سے انھیں دوبرسوں تک قیدو بند کی زندگی
بھی گزارنی پڑی۔علاوہ ازیں میدانِ صحافت میں مختلف مناصب پر فائز ہوئے اور آخر
میں جریدہ ’الأھرام‘ کے ایڈیٹر بھی منتخب ہوئے۔
احسان عبد القدوس نے بعد میں تصنیف و تالیف کے لیے خود کو وقف کردیا اور تادمِ حیات اسی میں مشغول رہے۔انھوں نے سینکڑوں افسانے اور متعدد ناول تحریرکیے جن میں اکثروبیشتر ٹیلی ویژن،سنیما اور ریڈیو کے ذریعے پیش ہوئے۔ موصوف نے اپنی تحریروں میں اجتماعی زندگی اور معاشرتی خرابیوں کو اجاگر کرکے سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھاہے۔ان کے مشہور ناولوں میں ’أنا حرۃ‘(میں آزاد ہوں)’الطریق المسدود‘(بند راستے)’شئی فی صدری‘(دل کا بھید)’لا انام‘(میں نہیں سوتی)’لا تترکونی ھنا وحدی‘( مجھے تنہا چھوڑ نہ جانا)وغیرہ ہیں۔نیز افسانوں میں ’زوجات ضائعات‘(لاچار بیویاں)’سیدۃ فی خدمتک‘( خانم حاضر ہے)’البنات والصیف‘ (دوشیزائیں اور موسمِ سرما)’فوق الحلال والحرام‘(حلال و حرام سے پرے)’بئر الحرمان‘(تشنگی)اور ’عقلی و قلبی( دل و دماغ)وغیرہ بہت مشہور ہیں۔پیشِ نظر افسانہ کا عربی عنوان ’اِضراب الشحاذین‘ ہے جواحسان عبدالقدوس کے آخر الذکر افسانوی مجموعے سے ماخوذ ہے۔
ایک نہایت دین دار شخص تھا جس کی
عادت تھی کہ وہ ہرسال رمضان کے مہینے کی پہلی رات میں’ ختم قرآن‘ کا اہتمام اور ’سیدہ
زینب‘ کے مقبرے پر جمع ہونے والے تمام بھیک منگوں کی دعوت کرتا تھا۔ان کی ضیافت کے
لیے وہ دو بچھڑے ذبح کرتااور کافی مقدار میں پکا ہوا چاول اور چپاتیاں ان میں تقسیم
کرتا تھا۔
ہرسال کی طرح امسال بھی اس نے اس
کا پورا بندوبست کرلیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں میں تسبیح لے کر اللہ کا ذکر کرنے
لگا اور اس کے اردگرد کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول تھے اوروہ شخص بھیک منگوں
کا انتظار کررہا تھا۔
روزہ افطاری کے اعلان کے لیے توپ
کے ذریعے گولہ داغے جانے میں محض ایک گھنٹہ باقی تھا، تاہم ابھی تک کوئی بھکاری وہاں
نہیں پہنچا تو اس دین دار شخص نے صورت حال کا جائزہ لینے اپنے نوکر کو بھیجا۔
تھوڑی دیر بعد نوکر ہانپتا کانپتا
آیا اور اس دین دار شخص سے کہنے لگا
’’تمام بھکاری آج آنے سے انکار کررہے ہیں!‘‘
اس شخص نے حیرانی سے آنکھیں اوپر
اٹھائیں اور پوچھا
’’انکار کررہے ہیں؛مگر کیوں ؟!‘‘
نوکر نے جواب دیا
’’ان لوگوں نے اپنی ایک یونین بنالی ہے اور ایک ٹانگ سے معذور
محمد نکلہ اور مفلوج و خارش زدہ ابورابیہ کو اپنا لیڈرچن لیا ہے!‘‘
اس شخص کو یقین نہیں ہورہا تھا،پھر
بھی اس نے پوچھا
’’ان کے لیڈروں نے تم سے کیا کہا؟‘‘
نوکر نے بدستور ہانپتے ہوئے جواب
دیا
’’ان لوگوں نے کہا کہ وہ بغیر کچھ شرطیں منوائے آپ کی دعوت
قبول نہیں کریں گے۔‘‘
اس شخص نے چلا کر کہا
’’شرطیں۔۔۔ خدا کی ذات بزرگ و برتر ہے،ان لوگوں کی اوقات بھکاری
کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ ہم تو انھیں اللہ کے واسطے کھانا کھلاتے ہیں اور وہ ہمارے ہی
اوپر شرطیں لگاتے ہیں۔۔۔وہ بھاڑ میں جائیں،انھیں کھانا کھلانا تو گھاٹے کا سودا ہے!‘‘وہ
بڑبڑانے لگا۔
نوکر اس شخص کے سامنے سے پیچھے
کھسکتا ہوا چلا گیا۔
دین دار شخص تھوڑی دیر تک سوچوں
میں گم رہا،ہر سال اس’ختم قرآن ‘اور دعوت کے اہتمام کی اسے عادت سی ہوگئی تھی،اپنے
کاروبار کے لیے اسے وہ نیک فال تصور کرتا تھا اور اسی کے دم پر محلے بھر میں نیک نام
و دین دار شخص کی حیثیت سے معروف تھا،نیز اس کا رعب و دبدبہ بھی قائم تھا۔ چنانچہ
’ختم قرآن ‘کی یہ رسم بھکاریوں کی شرکت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔یہ کتّے!
اس نے اپنے نوکر کو دوبارہ بلایا
اور پوچھا
’’بھکاریوں کی شرطیں کیا کیا ہیں!؟‘‘
نوکر نے جواب دیا
’’ان کا مطالبہ ہے کہ کھانے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو دس’ قِرش‘
(ایک سکہ جو مختلف عرب ممالک میں مختلف قیمتوں میں چلتا ہے) بھی دیے جائیں۔!!‘‘
دین دار شخص یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا
ہوا اور تیز آواز میں کہنے لگا
’’وہ ہماری سخاوت کا غلط فائدہ اٹھارہے ہیں اور وہ میرا گھر
برباد کرنے پر تلے ہیں، کتے!‘‘
نوکر نے ڈرتے ہوئے کچھ کہنے کی
جرأت کی
’’وہ کہتے ہیں کہ آپ کافی مال دار ہیں،اگرایک ایک بھکاری کودس
دس قرش دیدیں تو آپ کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔‘‘
وہ شخص پھر چیخنے لگا
’’ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں مل سکتی،بھاڑ میں جھونکو سب کو!‘‘
نوکر ابھی واپس پلٹناہی چاہ رہا
تھا کہ اس شخص نے اسے روک لیا اور حکم دیا
’’جاؤ ان بھکاریوں کو بلا لاؤ جو’جامع الحسین‘کے پاس کھڑے
ہوتے ہیں۔‘‘
نوکر نے مایوسی کے عالم میں جواب
دیا
’’ان میں سے کوئی بھی نہیں آئے گا، مجھے پتہ چلا ہے کہ بھکاریوں
نے آپس میں علاقے بانٹ لیے ہیں۔ ’جامع الحسین‘ علاقے کا بھکاری’سیدہ زینب ‘کے علاقے
میں نہیں داخل ہوسکتا۔‘‘
دین دار شخص نے ہاتھ ملتے ہوئے
اپنا سرہلایا،اس کی زبان پر بار بار یہی فقرہ آتا تھا
’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔ساری دنیا خسارے میں ہے، اب اس دنیا میں
بھلائی کی کوئی جگہ نہیں بچی!‘‘
اس شخص نے اپنا سر جھکا لیا اور
گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اب تو پورے سال نحوست چھائی رہے گی۔۔۔اس
کے کاروبار میں بھی نقصان کا اندیشہ ہے، مزید وہ اپنا رعب و دبدبہ اور پرہیز گار شخص
کی حیثیت سے اپنی شناخت بھی گنوا بیٹھے گا۔ وہ کہیں آجا نہیں سکتا۔لوگ اسے دیکھ کر
طعنہ ماریں گے کہ یہ وہی شخص ہے جس کی دعوت بھکاریوں نے ٹھکرا دی تھی۔
اچانک وہ سوچوں کے حصار سے باہر
نکلا اور اپنے نوکر سے سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا
’’جاؤ اور انھیں بتادو کے تمھاری شرطیں منظور ہیں۔ فوراً جاؤ،میری
کار لے جاؤ،افطار کے اعلان میں اب صرف آدھا گھنٹہ بچاہے۔‘‘
نوکر تقریباً بھاگتا ہوا گیا۔
اس شخص کو اب بھی کَل نہیں پڑ رہی
تھی، اسے خدشہ تھا کہ نوکر کہیں خالی ہاتھ ہی نہ لوٹ آئے۔اس لیے اپنے بیٹے کو بلایا
اور اس سے کہا
’’یہ نوکر بے وقوف ہے۔۔۔۔اس کے بس کا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔تم خود
جاؤ اور سارے بھکاریوں کو لے کر آؤ۔۔۔۔‘‘
صاحبزادہ ’سیدہ زینب‘مسجد گیا،
وہاں دیکھا تو سارے بھکاری ایک جگہ جمع ہیں،وہاںایک ٹانگ سے معذور محمد نکلہ اور اپاہج
و خارش زدہ ابورابیہ بھی تھا۔
صاحبزادہ انھیں دیکھتے ہی اپنے
باپ کے سے لہجے میں کہنے لگا
’’اب تمھیں کس چیز کا انتظار ہے ؟! میرے والد صاحب نے کھانے
کے ساتھ ساتھ اپنی تجوریاں تم پرکھول دی ہیں اور ہر شخص کو پانچ قرش بھی دینے کا فیصلہ
کیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی ایک بھکاری بلند آواز
میں بولا
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔چلو، یہ بہت اچھا موقع ہے اور نعمت خداوندی ہے۔‘‘
دفعتاً چھوٹے پہیے والے لکڑی کے
تختے پر بیٹھے ایک ٹانگ سے معذور محمدنکلہ نے اپنی گردن اونچی کرتے ہوئے کہا
’’نہیں۔۔۔ہم اسی وقت جائیں گے جب ہمارے سارے مطالبات اور شرطیں
مانی جائیں گی۔‘‘
اپاہج اور بغیر بازو والے ابو رابیہ
نے اپنا سرہلاتے ہوئے ہانک لگائی
’’ہمیں ایک جٹ رہنا چاہیے۔۔۔ہماری ایکتا زندہ باد!‘‘
دوسرے بھکاریوں نے بھی ہاں میں
ہاں ملائی اور زور زور سے دہرانے لگے
’’ہماری ایکتا زندہ باد۔۔۔۔ہماری ایکتا زندہ باد!!‘‘
ایک اور مفلوج و خارش زدہ بھکاری
نے ہانک لگائی
’’مال داروں کے مال سے ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں۔۔۔ مال داروں
کو بھی ہماری اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ہمیں مال داروں کی۔۔۔ اگر بھکاری نہ ہوتے تو سخاوت
کرنے والے بھی نہ ہوتے، لہٰذا تم اپنی مانگوں پر ڈٹے رہو۔۔۔تمھاری مانگیں جائز ہیں۔‘‘
اس کی بات سن کر بھکاریوں نے بھاری
اور سمع خراش آوازوں میںنعرہ لگانا شروع کردیا
’’ہماری مانگیں جائز ہیں۔۔۔انصاف زندہ باد!!‘‘
یہ ہنگامہ دیکھ کر دین دار شخص
کا صاحبزادہ ڈرسا گیا۔۔۔ بھکاریوں کے بدن سے پھوٹنے والی بدبو سے اسے زکام ہوگیا اور
اس کا جی متلانے لگا۔چنانچہ وہ وہاں سے نکل کر چند قدم چلا۔۔۔وہ ڈرا،سہما اور ناکردہ
غلطی کے احساس میں مبتلا تھا۔۔۔ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ دین دار شخص کا سکریٹری
دوڑا دوڑا آیا اور ان بھکاریوں سے کہنے لگا
’’آؤ۔۔۔ جناب نے تمھارے سارے مطالبات مان لیے ہیں، اب ہر
شخص کو منھ مانگی مراد ملے گی۔‘‘
یہ سنتے ہی خوشی کے مارے بھکاریوں
کی آوازیں بلند ہوگئیں اور وہ نعرہ لگانے لگے
’’مردم نواز آقا زندہ باد۔۔۔بندہ پرور زندہ باد۔۔۔اے نیکی
کرنے والے اللہ تعالیٰ تمھارا گھر آباد رکھے!!۔۔۔۔
پھر بھکاریوں نے ایک ساتھ گرج دار
آواز میں نعرہ لگایا
’’ہماری یونیٹی زندہ باد۔۔۔ہماری ایکتا امر رہے!!‘‘
Dr. Md. Qutbuddin
Associate Professor of Arabic
Centre of Arabic and African
Studies
School of Language,
Literature and Culture Studies (New Building)
Jawaharlal Nehru University
New Delhi- 11006
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں