25/7/23

آزادی کے بعد ہندوستانی سنیما کے 75 سال: واثق الخیر


سنیما، پردۂ سیمیں پر متحرک تصاویر کا ایک سلسلہ ہے۔ جو کسی واقعے یا کہانی کو بیان کرتا ہے۔ ٹامس ایڈیسن (Thomas Edison) نے 1889 میں ایک مشین ایجاد کی جس سے متحرک تصاویر دیکھی جاسکتی تھیں۔ 1894 میں دیوار کے ساتھ پردہ لگا کر اس پر متحرک تصاویر دیکھی گئیں۔ یہ سلسلہ مقبول ہوا تو اوپین ائیر تھیٹروں اور بڑے ہالوں میں اسکرین پر متحرک تصاویر دکھائی جانے لگیں۔ یہ خاموش تصاویر کسی مربوط کہانی پر مشتمل نہیں ہوتی تھیں اور ان کے ساتھ آواز شامل نہیں ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ مربوط کہانیاں شامل ہونے لگیں۔ 1903 میں The great train robbery نامی فلم ایک مکمل کہانی کی صورت میں پیش کی گئی۔ دنیا کی پہلی بولتی فلم 1926 میں بنائی گئی۔

ہندوستانی سنیما 100 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ان سو سے زیادہ برسوں میں بہت سے لوگوں نے کئی طریقوں سے ہندوستانی سنیما میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ تاہم اگر اس سفر کے آغاز کا سہرا دادا صاحب پھالکے اور اردشیر ایرانی کو دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تاریخ کی نظر میں پہلی ہندوستانی فلم بنانے کا کریڈیٹ دادا صاحب پھالکے کو 3مئی 1913کو ’راجہ ہریش چندر‘ کی وجہ سے ملا، جبکہ اس دور میں دوسرے ہدایت کار بھی فلم بنارہے تھے۔ راجہ ہریش چندر ایک خاموش اور سیاہ و سفید (Black & White)  فلم تھی۔ اس وقت سنیما بولتا نہیں تھا۔ بولنے والا سنیما 14مارچ 1931 میں اردشیر ایرانی کی ’عالم آرا‘ سے بنا۔ 1931 میں ’عالم آرا‘ سے فلمی جگت میں کرانتی آئی۔ فلمیں بولنے لگیں۔ اس کے ہدایت کار ایمپیریل فلم کمپنی کے مالک اردشیر ایرانی تھے۔ 1929 میں انھوں نے ایک بولتی امریکن فلم دیکھی جس کا نام تھا ’میلوڈی آف لائف‘ جو ان کے لیے مثال بنی۔ وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ امریکہ گئے تین مہینے بولتی فلم کی ٹریننگ لی۔ 1930 میں فلم ’عالم آرا‘ کی شوٹنگ شروع کی۔ اس فلم میں اس وقت کے مشہور اسٹار پرتھوی راج کپور، ماسٹر جے رام ویتھل، زبیدہ اور ایم ڈبلیو خان نے کام کیا۔ ہندوستانی سنیما میں ’دے دے خدا کے نام پر بندے‘ پہلا ہندوستانی سنیما کا گیت رہا۔ ساتھ ہی ساتھ اردشیر ایرانی نے ہندوستانی سنیما میں رنگ بھرنے کا کام بھی کیا۔ ہندوستانی سنیما کو 1937 میں پہلی رنگین فلم کا تحفہ دیا گیا تھا۔ فلم کا نام ’کسان کنیا‘ تھا۔ اپنے آپ کو 1913 سے 1931 تک لے کے جائیے اور اس جادو پر حیرت کیجیے جب چلتی پھرتی فلم بولنے لگی۔ بولنے ہی نہیں بلکہ گانے بھی لگی۔  ہندوستانی سنیما نے 1913 سے 2023 تک کئی رنگ بدلے، جہاں ایک طرف فلمیں بنانے کا انداز بدلا، وہیں دوسری طرف فلمیں دیکھنے کا انداز بھی بدلا۔ ہندوستانی سنیما کے اس سفر میں نہ صرف فلم سازوں نے بلکہ ناظرین نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

جب ہندوستان آزاد ہوا تو اداکاری کی دنیا پر دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور کا اسٹارڈم ابھر رہا تھا۔ وی شانتارام، گرو دت، راج کپور، بمل رائے، بی آر چوپڑا جیسے فلمساز سماجی عزم کے ساتھ فلمیں بنا رہے تھے۔ اس وقت سنیما ناظرین کو آگاہ کرنے کا بہترین ذریعہ تھا کیونکہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی اتنی رسائی نہیں تھی۔ سنیما کے جادوئی اثر نے ناظرین پر گہرا اثر ڈالا۔ پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی کو ہم ہندوستانی سنیما کا سنہرا دور مان سکتے ہیں اگرچہ فلمیں تکنیکی طور پر اس وقت کمزور تھیں لیکن کہانی، اداکاری اور گیت و موسیقی پہلے سے زیادہ بہتر تھی۔ بہت سے فلمساز اپنی فلموں کے ذریعے عوام میں تفریح کے ساتھ شعور بیدار کرنے کا کام بھی کر رہے تھے۔ شری 420، کاغذ کے پھول، مدھومتی، مغل اعظم، مدر انڈیا، پیاسا، حقیقت، نیچا نگر، چلتی کا نام گاڑی جیسی ثقافتی اور کلاسیکی فلمیں اس عرصے میں تیار کی گئیں۔ ہندوستانی سنیما سیاہ و سفید کی جگہ رنگین بھی اسی دور میں ہوا۔ اس دور میں فلموں کا کاروبار خوب پھلا پھولا اور بہت سے نئے سنیما ہال بنائے گئے۔

سینما تفریح کا سستا ذریعہ تھا۔ ایک ہی فلم ایک ہی شہر میں کئی بار سنیما ہالوں میں لگائی جاتی تھی۔ ستر کی دہائی کے اواخر اور اسّی کی دہائی کے اوائل سے تجارتی سنیما معیار کے لحاظ سے پستی کی طرف جا پہنچا۔ ان بیس بائس برسوں میں بننے والی زیادہ تر فلمیں متوازی اور سطحی تھیں۔ کہانی اور اداکاری کے نام پر ایکشن اور اشتعال انگیز مناظر کی بھرمار تھی۔ وی سی آر سنیما ہال کے سامنے ایک چیلنج بن کر ابھرا۔ امیر طبقے نے گھر بیٹھے وی سی آر پر سنیما دیکھنا شروع کیا۔ اس لیے اس طبقے کی پسند کے مطابق سنیما بننے لگے۔ اس دوران وی سی آر کے طوفان کی وجہ سے کئی سنیما ہال بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے اور فلم ڈسٹری بیوٹر معاشی مشکلات کا سامنا کرنے لگے۔

سنیما نے ستر اور اسّی کے دور میں ایک نئی شناخت بنائی۔ شیام بینیگل، مرنال سین، ستیہ جیت رے، منی کول، گووند نہلانی، کیتن مہتا، گوتم گھوش جیسے فلمسازوں نے تجارتی فلموں کے علاوہ مختلف قسم کی فلمیں بنا کر عالمی سنیما میں ہندوستان کا نام بلند کیا۔ بھلے ہی ان کی فلمیں پورے ہندوستان میں ریلیز نہ ہوپاتی ہوں لیکن یہ فلمیں فلم سوسائٹی کے ذریعے ناظرین تک پہنچتی رہیں اور ناظرین میں سینما دیکھنے کی سمجھ کو بیدار کرتی رہیں۔ یہ عمل گرچہ سست رہا لیکن آج اس کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہندی سنیما میں علاقائی فلموں نے بھی حصہ لینا شروع کیا۔ بنگالی، مراٹھی، ملیالم، آسامی اور دیگر زبانوں کے فلمسازوں نے بھی یادگار فلمیں دیں۔ لیکن ہندی سنیما نے اپنی پہچان کو باقی رکھا، یہ ضرور ہوا کہ اس میں علاقائی زبانیں داخل ہونی شروع ہوئیں جس کی وجہ سے ناظرین ہندی سنیما سے مزید جڑتے چلے گئے۔ 1947 سے 2000 تک ہندی سنیما کا جھنڈا بلند ہوتا رہا۔ اس دور میں ہندی سنیما میں بہترین ہدایت کار، فنکار، تکنیکی ماہرین آئے اور یادگار فلمیں دیں۔

نئی صدی شروع ہوتے ہی ہندوستانی سنیما جو اپنے کانٹینٹ کی وجہ سے زوال کی طرف جا رہا تھا، دوبارہ عروج پر پہنچ گیا۔ نئی صدی کے آغاز کو دو دہائی گزر چکے ہیں اور ان دو دہائیوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انٹرنیٹ نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور چیزوں کو آسان بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کچھ روایات وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ چکی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تبدیلی کی وجہ سے بہت سی چیزیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ لیکن ان دو دہائیوں میں سینما زیادہ ایڈوانس ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں جب ٹی وی آیا تو سینما کو ختم تصور کیا جانے لگا تھا لیکن سینما نہ صرف مضبوطی سے کھڑا رہا بلکہ آج ٹی وی کے لیے ایک مضبوط بیساکھی ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ جب او ٹی ٹی پلیٹ فارم وجود میں آیا تو سنیما کے سامنے ایک چیلنج کھڑا تھا، لیکن اس میڈیم کو بھی سنیما کی ضرورت ہے۔ دراصل سنیما، ٹی وی سیریلز اور ویب سیریز میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ویب سیریز بھی سنیما کا ہی ایک میڈیم ہے جو ایک طویل فارمیٹ میں ہوتا ہے۔

انٹرنیٹ نے سنیما کو نئی بلندیاں دیں۔ فلموں کو معاشی طور پر مضبوط کیا۔ آج یوٹیوب کے ذریعے 50 سال پرانی فلموں سے بھی پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ برسوں پہلے سنیما ہال فلمیں دیکھنے کا واحد ذریعہ تھے۔ ٹیلی ویژن میں فلموں پر اتنا زور نہیں تھا، لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں سنیما دیکھنے کے کئی میڈیم نے جنم لیا ہے۔ موبائل ایک شاندار انقلاب لایا۔ ساڑھے پانچ انچ کے اس ہینڈ سیٹ میں پورا سنیما ہال موجود ہے۔ انٹرنیٹ نے سنیما کو ذاتی بنا دیا ہے۔ ٹی وی پر جو بھی فلم دکھائی جا رہی ہے وہی آپ کو دیکھنی ہوتی ہے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے آپ اپنی پسند کے مالک بن گئے ہیں۔ آپ جو بھی فلم دیکھنا چاہتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور انٹرنیٹ پر دستیاب سائٹس کی ڈیمانڈبڑھ رہی ہے۔ ویب سیریز سامنے آئی ہیں۔ یہ بھی سنیما کی ایک شکل ہے۔ سنیما کو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پروڈیوسر نے اپنے ہدف کے ناظرین کے مطابق فلمیں، ٹی وی سیریل اور ویب سیریز بنانا شروع کر دی ہیں۔ اب سینما ہمارے لیے مختلف شکلوں میں دستیاب ہے۔

اگر ہم دو دہائی پہلے کے سینما پر نظر ڈالیں تو سینما فارمولوں میں بندھا ہوا تھا۔ پانچ فائٹ سین، پانچ گانے، پانچ کامیڈی اور پانچ جذباتی مناظر اور فلم تیار، لیکن آج ایسی فلمیں دیکھنے والے بہت کم ناظرین ہیں۔ اب اگر فارمولا فلمیں بن رہی ہیں تو اس میں ناظرین کے لیے بہت کچھ نیا مواد دینا ہوتا ہے۔ اگر دو دہائیوں میں سنیما کے موضوعات اور ہیئت میں بہتری آئی ہے تو اس کی بڑی وجہ انٹرنیٹ ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے شائقین دنیا بھر کی فلموں سے باخبر ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی ناظرین سمجھدار ہوئے، ہندوستانی سنیما بھی سمجھدار ہوگیا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہندوستانی سنیما نے پچھلی دو دہائیوں میں بہتری کی راہ لی ہے تو اس کی وجہ ناظرین کی سمجھ بوجھ اور انٹرنیٹ کا اہم کردار ہے۔ اگر دیکھا جائے تو متوازی اور کمرشیل سنیما کے درمیان کی لکیر دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ عام سینما برسوں پہلے بنتا تھا لیکن ان فلموں کے شو صرف بڑے شہروں میں دکھائے جاتے تھے۔ فلم سوسائٹیاں اپنے شوز کا انعقاد چھوٹے شہروں میں کرتی تھیں۔ لیکن اب ہر قسم کی فلموں کو سنیما ہال مل رہے ہیں کیونکہ ناظرین ان فلموں کو دستیاب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مواد پر مبنی فلموں کا بازار بڑھ رہا ہے۔

آج ناظرین ستاروں کی بجائے مواد کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹار نے بھی مواد کے ساتھ فلمیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ انھیں یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اگر وہ کچھ نیا نہیں دیں گے تو شائقین ان کی فلم بھی دیکھنے نہیں آئیں گے۔ عامر خان دنگل، تھری ایڈیٹس، پی کے جیسی فلمیں کرتے ہیں۔ سلمان خان بجرنگی بھائی جان کرتے ہیں یا سلطان؟ اکشے کمار ٹوائلٹ ایک پریم کتھا اور پیڈ مین جیسی فلمیں کرتے ہیں۔ دو دہائی پہلے اگر کوئی ان فلموں کا سکرپٹ لے کر ان ستاروں تک پہنچتا تو وہ انھیں فوراً باہر کا راستہ دکھا دیتے۔ چنانچہ نئی صدی میں سینما میں جو بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسٹار کی فلموں میں بھی کہانی، اسکرپٹ اور پیغامات کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ بڑے اسٹار نے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لی کہ اگر اسے زندہ رہنا ہے تو سامعین کو کچھ الگ اور منفرد دینا ہوگا۔

اس وقت ہر کوئی روزانہ فلمیں دیکھتا ہے۔ چاہے یہ ٹک ٹاک پر آنے والی 15 سیکنڈ کی فلم ہو۔ مختصر فلمیں ہوں، ٹی وی پر دکھائی جانے والی فلمیں، او ٹی ٹی پر دکھائی جانے والی فلمیں، ویب سیریز، سنیما ہال میں دکھائی جانے والی فلمیں، یوٹیوب پر دستیاب فلمیں، مختلف کمپنیوں کی لائبریریوں میں دستیاب فلمیں، ہالی ووڈ کی فلمیں، عالمی فلمیں ہوں۔ اگر آپ اس سے بھی مطمئن نہیں ہیں تو پھر بھی Tiktok جیسی ایپس موجود ہیں جہاں لوگ ویڈیو بنا کر پوسٹ کر رہے ہیں اور کچھ بہترین کام کر رہے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ فلمیں چاروں طرف دستیاب ہیں۔ جس کی وجہ سے ناظرین سنیما سے بہت زیادہ امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔

اگر ہم کمرشل سینما کی بات کریں تو گزشتہ دو دہائیوں میں ایسا سینما بنایا گیا ہے جو پہلے کبھی نہیں بنا تھا۔ آنند کمار جیسے عام نظر آنے والے انسان پر بائیوپک بنی۔ بیس سال پہلے اتنے عام آدمی پر فلم بنانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ نئی صدی کا سینما ہے۔ ہمیں ایک سے زیادہ بایوپک دیکھنے کو ملی ہیں۔ سربجیت، نیتا جی سبھاش چندر بوس دی فارگوٹن ہیرو، پان سنگھ تومر، مانجھی دی ماؤنٹین مین، نرجا، رنگ رسیا، پیڈمین اور علی گڑھ آج کے دور کی فلمیں ہیں۔ آج کے دور میں کھیل اور کھلاڑی بھی سینما میں داخل ہو چکے ہیں اور شائقین نے انھیں  ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ میری کوم، ایم ایس دھونی دی ان ٹولڈ اسٹوریز، بُدھیا سنگھ بورن ٹو رن، بھاگ ملکھا بھاگ، چک دے انڈیا، دنگل اور 83 جیسی کھیلوں پر مبنی فلموں نے شائقین کو مسحور کیا ہے۔

اس صدی سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہیروئن پر مبنی فلمیں نہیں چلیں گی۔ اگر ہیروئن پر مبنی فلمیں بنتی بھی تو وہ انتقامی موضوع پر فلمیں ہوتیں۔ مگر یہ تصور ٹوٹنے لگا۔ تنو ویڈز منو ریٹرنز اور رازی جیسی ہیروئن پر مبنی فلمیں بھی سو کروڑ کلب میں شامل ہونے لگیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے ان فلموں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ دپیکا پدوکون، کرینہ کپور، پرینکا چوپڑا، تاپسی پنو اور عالیہ بھٹ نے بھی اپنے طور پر کامیاب فلمیں دینا شروع کر دیں۔ نرجا، کہانی، تمھاری سولو، عشقیہ، بیگم جان، نو وَن کیلڈ جسیکا، مردانی، ویر دی ویڈنگ، سات خون معاف، گنگو بائی کاٹھیاواڑی، بدلہ، پنک جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ گزشتہ بیسں بائس برسوں میں راجکمار ہیرانی جیسے فلمساز نے سب سے زیادہ کامیاب فلمیں دیں۔ منا بھائی سیریز کی دو فلمیں، پی کے اور تھری ایڈیٹس کسی بھی زاویے سے کمرشل فلمیں نہیں لگتی ہیں۔ رشی کیش مکھرجی، گلزار اور باسو چٹرجی جس طرح کی فلمیں بنا رہے تھے راج کمار ہیرانی نے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا اور کامیابی حاصل کی۔ تفریح کے مناظر میں ہیرانی نے سماج کے تلخ حقائق کو ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ ناظرین نے اسے قبول کیا اور ظاہر کیا کہ وہ ایسی فلموں کے لیے تیار ہیں۔

نئی صدی میں فلموں کی پیشکش میں بھی کافی تبدیلی دیکھی گئی۔ کہانیاں سنانے کا انداز بدل گیا ہے۔ جب ہم انوراگ کشیپ کی دیو ڈی، انوراگ باسو کی برفی، نیرج پانڈے کی اسپیشل 26، سری رام راگھون کی اندھادھن دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تکنیکی صلاحیت کی وجہ سے کہانی کو بالکل مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ رنگوں کا تال میل، سنیماٹوگرافی، ایڈیٹنگ، ساؤنڈ کا طریقہ بہت بدل گیا ہے۔ اگرچہ مواد اب بھی ٹیکنالوجی پر بھاری ہے اور یہ ہمیشہ ہونا چاہیے کیونکہ مواد کے بغیر سنیما کی روح مر جاتی ہے۔

ہندی اور علاقائی زبان کے سنیما کے درمیان فاصلہ بھی کم ہوا ہے۔ آج ساؤتھ انڈین اسٹار فلمیں جیسے پربھاش، اَلو ارجن، یش، رام چرن تیجا، جونیئر این ٹی آر جیسے جنوبی ہند کے ستارے کی فلم باہوبلی، کے جی ایف، آر آر آر، پشپا کے طور پر پورے ہندوستان میں کامیابی ملتی ہے۔ ان فلموں کی ریلیز ہندی فلموں کی طرح ہوتی ہے۔ ملٹی پلیکس کا بھی اہم کردار ہے۔ ملٹی پلیکس کی متعدد اسکرینوں کی وجہ سے ہندی بولنے والے علاقوں میں دیگر زبانوں کی قابل ذکر فلمیں بھی دکھائی جارہی ہیں اور اس کی وجہ سے اچھی فلموں کی تلاش میں بھٹکنے والے شائقین کی پیاس کسی حد تک بجھ جاتی ہے۔

آج کا سنیما حقیقت کے قریب تر ہے۔ ناظرین اب نامکمل کرداروں کو زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ فلمیں روایتی ناظرین اور نئے شائقین میں توازن رکھ کر بنائی جا رہی ہیں۔ ٹی وی روایتی ناظرین کے لیے پروگرام بنا رہا ہے اور ویب سیریز نئے شائقین کو راغب کر رہی ہیں۔ فنکاروں اور تکنیکی ماہرین کے لیے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کو بھی مواقع مل رہے ہیں۔ اسّی اور نوے کی دہائی ہندوستانی سنیما کے لحاظ سے بہت اچھا تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ آج ہمیں اس دور سے آزادی ملی ہے۔ وکی ڈونر، مدراس کیفے، آئی ایم، انگلش ونگلش، پان سنگھ تومر، گینگ آف واسے پور، علی گڑھ، برفی، لنچ باکس، کوئین، حیدر، پیکو، پنک، مسان، این ایچ 10، اڑان، نیل بٹے سناٹا، نیوٹن، مکتی بھون ہمیں آنکھیں دیکھی جیسی بہترین فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ ان کے موضوعات اتنے منفرد تھے کہ 20 سال پہلے کوئی ان پر فلم بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ہندوستانی سنیما نے چین سمیت کئی ممالک میں اچھا بزنس کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔


Dr. Wasiqul Khair

Flat No. 302, Third Floor

Plot No. R 213/1, Sir Syed Road

Joga Bai Extention, Jamia Nagar

Delhi-110025 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...