24/7/23

تعلیمی مسائل کی سماجی اساس: محمد شاداب عالم

 

تعلیم انسان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے انسانی فلاح و بہودی ممکن ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جس نے تعلیم کی ترقی کے بغیر منازل طے کیے ہوں تحقیقات اور اعدادوشمار بتلاتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان میں سے بیشتر ممالک نہایت ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ حالیہ Human Development Index 2022 یہ بتاتی ہے کہ جن ممالک کی شرح خواندگی دنیا میں بہتر ہے ان کی زندگی کا معیار بھی بلند ہے۔ ان کی سماجی ، سیاسی معاشی حالت ان ملکوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے جن کی شرح خواندگی مناسب نہیں ہے۔ معیاری تعلیم انسانی زندگی کو سنوارنے اور بہتر سے بہتر بنانے میں کافی اہم رول ادا کرتی ہے۔ اچھی تعلیم سماج میں معاشی مساوات اور سماجی ہم آہنگی کو قائم و دائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ متوازن اور صحت مند معاشرے کے فروغ کے لیے اچھی تعلیم وتربیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔

ابتدا سے ہی انسانو ںکو طرح طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے وہ قسم قسم کی مشکلات سے دو چار ہیں۔ مختلف شعبے سے جڑے ہوئے لوگوں کے مسائل مختلف ہوا کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بینک سے جڑا ہے توممکن ہے اسے بینک کو اچھی طرح چلانے میں بسا اوقات مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔اسی طرح اگر کوئی انسان محکمہ سراغ رسانی یا پولیس یا پھر محکمہ دفاع سے جڑا ہوا ہے تو اسے دفاعی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔غرض جو انسان جس شعبے سے جڑا ہوتا ہے عین ممکن ہے کہ اسے اس شعبے سے متعلق امور کی انجام دہی میں کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا ہو جو کہ ایک فطری بات ہے۔ٹھیک اسی طرح اگر کوئی انسان شعبہ تعلیم و تربیت سے منسلک ہے تو بہت ممکن ہے کہ اسے تعلیمی امور کی انجام دہی میں تعلیمی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔

یہ بات الگ ہے کہ دشواریوں کی سطح کیا ہے اس حساب سے دشواریوں کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنے اپنے میدانوں میں امور کی انجام دہی کے وقت کچھ نہ کچھ مشکلات اور مسائل پیش آتے ہیں جن کا ادراک یا تدراک ناگزیر ہو جا تا ہے۔ پیچیدہ مسائل بسا اوقات سرگرمی میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

یہاں پرتعلیمی دشواریوں کا سماجی تناظر میں جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کا اہم مقصد تعلیمی دشواریوں کا سماجی تناظر میں تجزیہ ہے اس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ تعلیمی دشواریوں کاتعلق سماج سے کس طرح سے ہے۔ تعلیمی دشواریوں کی سماجی اساس سماج کی وجہ سے پیش آنے والی تعلیمی دشواریاں ہیں۔

تعلیمی مسائل

تعلیمی مسائل سے مرادطلبا و طالبات کوتعلیمی میدان میں سماج کی وجہ سے ہونے والی دقت یا پریشانی ہے۔

تعلیمی مسائل کی وجوہات

 تعلیمی مسائل کی بہت ساری ممکنہ وجوہات یا عوامل ہو سکتے ہیں یہاں پر چند کو قلم بند کیا جا تا ہے۔

(1)   سماجی محرک(Social Factors of Academic Diffculties)  سماجی محرکات طلبا و طالبات کی تعلیمی سر گرمیوں کو بڑی حد تک متاثر کر سکتی ہیں یہ وہ محرکات ہیں جوطلبا و طالبات یہاں تک کہ اساتذہ کے درس و تدریس کو بھی متاثر کر سکتے ہیں تعلیمی میدان میں بڑھتے ہوئے صنف، ذات، ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر کیے جانے والے منفی امتیازات کو سماجی محرکات کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

(2)   سیاسی وجوہات (Policital Factors of Academic Difficulties)   حکومتیں اپنے شہریوں کو خواندہ یعنی تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں لیکن بسا اوقات حکومت اپنے شہریوں کے لیے ایسے قوانین وضع کرتی ہے جوطلبا و طالبات کی تعلیمی سرگرمیوں کومنفی انداز میں متاثر کرتی ہیں قدیم زمانے میں غلاموں اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پڑھنے لکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح امریکہ میں ایسے قوانین بنائے گئے جس کے تحت کالے اور گورے لوگوں کے لیے اسکول (Seprated School System) بنائے گئے ۔ایسے قوانین تعلیمی میدان میں بچوں کے لیے دشواریاں پیدا کرتے ہیں۔

3      معاشی محرکات(Eocnomic Factors) معاشی طور پر کمزور طبقہ کے لیے اپنی تعلیم کو جاری رکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا سمجھا جا تا ہے۔غیرمستحکم معاشی صورت حال سے بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گاؤں و دیہات یعنی دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے فصلوں کی کٹائی اور بوائی کے وقت اسکول نہیں جاتے ہیں۔ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں اس کا مشاہدہ عام ہے۔ اچھی تعلیم وتربیت کے لیے مناسب مقدار میں سرمایے کا ہونا نہایت ضروری ہے۔

4      ماحولیاتی محرکات(Envorinmental Factors of Academic Difficulties) مؤثر تدریسی عمل کے لیے پرسکون ماحول کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ مخدوش حالات اور غیر موافق صورت حال با مقصد اور مؤثر تدریسی سرگرمی کے لیے مانع ہے۔ بہتر تعلیم وتربیت کے لیے سازگار ماحول کا ہونا نہایت ضروری ہے۔غیر مناسب ماحول (Adverse Environment) طلبا و طالبات کی تدریسی واکتسابی سرگرمی(Teaching Learning Activities)  کومنفی انداز میں متاثر کرتا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں یا پھر مخدوش علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دینا آسان نہیں ہوتا ہے۔ نامساعد حالات اور ناساز موسم میں بھی تدریسی عمل عام معمولات کے حساب سے نہیں چل سکتا ہے۔ پہاڑی علاقوں اور بر فیلے علاقوں میں سطحی علاقوں کے مقابلے تعلیمی سرگرمیاں قدرے دشوار کن ہوتی ہیں۔اسکولی ماحول اور اسکول کی تعلیمی سرگرمیاں ،طلبا واسا تذہ کا شرح تناسب (Pupil Teacher Ratio)اسکولی عمارت، اساتذہ کا تدریسی طریقہ کار اور تدریسی اشیا اور کا ساز و سامان بھی ماحولیاتی عوامل میں شامل ہیں۔

5      حیا تیاتی مسائل(Biological Factors of Academic Difficulties) ایک عام بچہ ایک خاص بچے سے منفر دہوتا ہے۔ان کے پڑھنے لکھنے کی رفتار بھی جدا گانہ ہوتی ہے۔ان کے پڑھنے لکھنے کے طور طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔

(3)   مخصوص ضروریات کے حامل بچوں کی ضروریات (Children with special needs) عام بچوں کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں۔فطری طور پر گونگے اور اندھے بچوں کی اکتسابی صلاحیت عام بچوں سے مختلف ہوتی ہے غرض حیاتیاتی محرکات بچوں کی تعلیم کو بڑی حد تک متاثر کرسکتی ہیں۔

6      تعلیمی دشواریوں کی نفسیاتی وجوہات (Psychological Factors of Academic Difficulties) نفسیاتی وجوہات بھی طلبا و طالبات کی تدریسی واکتسابی سرگرمیوں کو بڑی حد تک متاثر کرسکتی ہیں۔ دنیا میں بہت سارے ایسے بچے بھی ہیں جو نفسیاتی مریض ہیں ایسے بچوں کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ تعلیمی دشواریوں کے بہت سارے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن یہاں پر تفصیل سے صرف اور صرف تعلیمی دشواریوں کا سماجی اساس کے تناظر میں تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

تعلیم وتربیت کی ترویج کے لیے معاشرے کا تعاون نہایت ضروری ہے۔ معاشرے نے تعلیم وتربیت کی اشاعت وترویج میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے۔لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ عناصر نے تعلیم کی ترویج و اشاعت میں رخنہ ڈالا ہے۔ تعلیم کی فروغ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔مثال کے طور پر قدیم زمانے کے سماج کو لے لیتے ہیں وہاں پر سماج میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ملتا ہے جو کمزور اور پسماندہ طبقوں کو صدیوں تک تعلیم سے محروم رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ آزادی سے قبل ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل نہیں تھے۔

عورتوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل نہیں تھے۔ ان کے لیے اسکول یا تعلیمی مراکز نہیں ہوا کرتے تھے۔ ودیاساگر، را مابائی اور فاطمہ شیخ جیسی عورتوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان میں خواتین بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ ہیں۔

ہندوستان میں شمولیاتی، مفت اور لازمی تعلیم کا تصور غالباً پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی (National Policy of Education 1968)میں پیش کیا گیا۔

ہندوستان کے طرز پر اور بھی دوسرے ممالک میں سیاہ فام لوگوں کو تعلیم وتربیت سے دور رکھا گیا۔سیاہ فام لوگوں کو بھی سفید فام کی اکثریت نے صدیوں تک تعلیم سے محروم رکھا۔

امریکی شہری حقوق کی تحریک جسےCivil American Rights Moment کہا جا تا ہے۔یہ تحریک سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے چلائی جانے والی ایک کامیاب اور طاقتور تحریک مانی جاتی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد (Institutional Racial Segregation) یعنی اداراتی سطح پر سفید فام لوگوں کا سیاہ فام لوگوں کے ساتھ رنگ ونسل کی بنیاد پرسماجی امتیازات ، سماجی علیحدگی اور حق رائے دہی سے محرومی کا خاتمہ تھا۔

امریکی شہری حقوق کی تحریک کا ہی نتیجہ ہوا کہ کل تک جو سیاہ فام لوگوں کے لیے اسکول اور کالج کے دروازے بند پڑے تھے وہ کھل گئے۔ سیاہ فام لوگوں تک تعلیم کی رسائی ہونے لگی بڑی تعداد میں سیاہ فام لوگ تعلیم یافتہ ہونے لگے۔ کچھ سماجی رسوم ورواج اور اداراتی قوانین بھی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں فرانس نے ایک بل پاس کیا جس کی رو سے طلبا و طالبات مذہبی لبادے میں کسی بھی تعلیمی مراکز میں داخل نہیں ہو سکتے ہے۔ اس طرح کے قوانین کی وجہ سے روایت پسند طلبا و طالبات کا ایک بڑا طبقہ تعلیم سے محروم ہوسکتا ہے۔ دنیا میں بہت ساری قومیں ایسی ہیں جنھیں اپنے شعائر اپنی تہذیب و ثقافت حد درجہ عزیز ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی ثقافت سے مصالحت کرنے کو تیار نہیں۔ بہت سارے عیسائی طلبا ایسے ہیں جنھیں صلیب سے حد درجہ عقیدت ہے وہ اسے اتارنہیں سکتے۔ اس طرح بہت سارے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبا ہیں جو تلک لگا نا پسند کرتے ہیں اسی طرح سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے پگڑی بڑی اہمیت رکھتی ہے ایسے خیالات رکھنے والوں کے لیے فرانس میں تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ تعلیم وتربیت کے دوران انھیں طرح طرح کے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہندوستان میں بھی تعلیمی مسائل کی سماجی بنیاد بہت پرانی ہے۔

Coeducation sysytem طلبا و طالبات کے لیے کس حد تک مفید ہے یہ ایک الگ بحث ہے اس سلسلے میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں ایک وہ طبقہ ہے جو مخلوط تعلیمی نظام کی وکالت کرتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ اس تعلیمی نظام کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے۔ Edward Clark کا ماننا ہے کہ’’ مخلوط تعلیمی نظام انسانیت اور خداکے روبرو ایک جرم ہے ‘‘۔روشن خیال طبقہ مخلوط تعلیمی نظام کی افادیت گناتے ہوئے تھکتا نہیں۔  بہر حال جو بھی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوط تعلیمی نظام قدامت پرست گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے تعلیمی دشواریاں پیداکرتا ہے۔ روشن خیال طبقے کو مخلوط تعلیمی نظام سے کوئی پرہیز نہیں ہے وہ اپنی لڑکیوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا وہیں پر دوسرا طبقہ قدامت پرستوں کا ہے جو اپنے لڑکیوںکوایسے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجنے سے گریز کرتا ہے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے۔ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی آج ہر مذہب میں کثیر تعداد ہی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا تعلق قدامت پرست طبقے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہند نے بذات خود پورے ہندوستان میں Kanya Vidyalaya کے نام سے سیکڑوں کی تعداد میں ایسے اسکول اور کالج قائم کیے جس میں صرف اور صرف لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ دہلی میں Govt. Sarvodaya Kanya Vidayala کے نام سے بہت سارے اسکول قائم کیے گئے ہیں۔ Kanya Vidayalaya کا لڑکیوں کی شرح ناخواندگی کودور کرنے میں اہم رول رہاہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی مجموعی شرح خواندگی اوسطاً قومی سطح سے کم ہے خاص کر مسلمانوں میں عورتوں کی تعلیمی شرح خواندگی نہایت کم ہے۔ کم ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہے۔ اس میں ایک اہم وجہ سماجی اسباب بھی ہیں۔ تقریبا آج بھی50 فیصد سے بھی زیادہ مسلمان عورتیں ناخواندہ ہیں۔2011 کی مردم شماری کے مطابق51 فیصد مسلم خواتین ناخواندہ ہیں۔ 15.14 پرائمری ،5.45 میٹرک، 1.9 انٹر، فیصد ٹیکنیکل ایجوکیشن اور 2.07 فیصد مسلم خواتین گر یجوئٹ ہیں۔ کرنا ٹک ہندوستان کا ایک اہم صوبہ مانا جاتا ہے وہاں کے مسلمانوں میں شرح خواندگی بہار کے مسلمانوں سے بہتر ہے۔ وہاں کی مسلم عورتوں میں بھی شرح خواندگی بڑی حد تک بہتر ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی تناظر میں تعلیمی مسائل کا مطالعہ اور ان کا تجزیہ کیا جائے تا کہ تعلیم کی ترویج واشاعت وسیع پیمانہ پر بلاتفریق قوم وملت ، ذات پات اور رنگ ونسل کے ہو سکے۔ ماہرین تعلیمات کو چاہیے کہ تعلیم کو سب کے لیے آسان بنانے اور تعلیمی دشواریوں کو کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اس اقدامات کیے جائیں تا کہ ہر طرح کی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

 

Mohd Shadab Alam

Research Scholar, Dept of Education & Training

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...