ہم ملک ہندوستان کے باشندے ہیں ہمارے ملک میں جوطریقہ ہائے
علاج موجود ہیں۔ان میں طب یونانی اور آیوروید نہایت قدیم ہیں۔طب یونانی آج اردو زبان
میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔اس کے نسخے بھی اردو زبان میں لکھے جاتے ہیں جبکہ آیوروید
ہندی زبان میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن آیوروید کی ہندی زبان پرسنسکرت کا غلبہ
ہوتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ طب یونانی کی بقا اردو کے دم سے ہے جبکہ آیوروید کو سنسکرت
زندہ کیے ہوئے ہے۔یہ دونوں طبی علوم نہایت قدیم ہیں۔ یونان کو طب یونانی کا اولین گہوارہ
ہونے کا شرف حاصل ہے۔اسقلی بوس طب یونانی کا بانی مانا جاتا ہے۔اس فن کو باقاعدہ مدون
اور مرتب شکل میں بقراط نے پیش کیا۔ جالینوس اور دیگر اطبا نے اس فن کو یکتائے روزگار
بنا دیا۔ ارسطو کی خدمات بھی طب یونانی میں نہایت اہم ہیں۔ اس نے علم تشریح اور علم
الادویہ میں نہایت اہم معلومات پیش کیں۔جالینوس نے تمام طبی شعبوں پر کتابیں لکھی۔
وہ صفِ اول کا ماہر تشریح البدن ومنافع الاعضا تھا۔جالینوس طبی علوم وفنون کا بہت بڑا
ماہر گزرا ہے۔1
جالینوس کے بعد یونان میں جب طب کی طرف سے غفلت اور سرد
مہری کا مظاہرہ ہوا اس وقت طب یونانی کے طبی وعلمی سرمایے کو عربی زبان میں منتقل کیا
گیا۔عرب اور ایران کے اطبا نے طب یونانی کی بقا اور ترقی میں اہم خدمات انجام دیں۔بیت
الحکمت میں طب یونانی کی کتابوں کے عربی زبان میں تراجم ہوئے۔ہندوستان میں پیدا ہونے
والی طب جسے آیوروید کہا جاتا ہے۔اس کی ابتدا ویدک دور ہی میں ہو گئی تھی۔اتھروید
میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہے۔ویدک دور ہی میں علم تشریح کے
کافی تجربات کیے گئے یہیں سے آیوروید کی ابتدا ہوئی۔آیوروید کے ماہرین نے کئی صدی
قبل مسیح دواؤں میں کام آنے والی جڑی بوٹیوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لی
تھیں۔
چھٹی صدی قبل مسیح سے بہت دنوں پہلے اتریہ اور کیتھل نامی
دو طبیبوں نے آیوروید کی باقاعدہ تعلیم شروع کر دی تھی۔ان کے چھ شاگرد بھی تعلیم وتعلم
میں مشغول رہے جن میں اگنی ویش بڑی شہرت کا حامل ہے۔مشہور طبیب چرک، اگنی ویش ہی کا
شاگرد تھا۔چرک کو فن طب کا امام مانا جاتا ہے یہ تکشیلا کے دارالعلوم سے وابستہ تھا۔
فن طب پر اس کی کتاب سام ہت ایک عظیم الشان تصنیف ہے جس میں جملہ طبی علوم وفنون کے
ساتھ ہی مثالی شفاخانے کی خصوصیات اور کشتہ جات کا بیان ہے۔فن جراحی بھی آیوروید میں
قدیم زمانے سے موجود ہے کاشی کے دارالعلوم میں سشرت نامی طبیب سرجری کا درس دیا کرتا
تھا۔اس نے فن طب اور جراحی پر ایک کتاب لکھی جس میں فن جراحی کے ایک سو ستائس آلات
کا ذکر کیا ہے۔ہندوستان کے اطبا نباتی ادویہ کے ساتھ معدنیات کا بھی بڑی مہارت کے ساتھ
استعمال کیا کرتے تھے۔ کشتہ سازی میں انھیں امامت کا درجہ حاصل تھا۔چرک اور سشرت کے
علاوہ پتنجلی،ناگ ارجن،ساگرہوترا وغیرہ آیوروید کے اہم اطبا ء گزرے ہیں۔سید سخی حسن
نقوی آیوروید کی ترقی اور اہم تصانیف کا ذکر کرتے ہوتے رقم طراز ہیں
’’چھٹی
صدی عیسوی تک فن طب وجراحی میں خاطر خواہ اضافے ہوگئے۔خصوصاً دواسازی یا عطارے کے فن
کی تدوین اسی زمانہ میں ہوئی۔کیمیا نباتات (باٹنی) اور طب نے مل کر ترقی کی راہیں طے کیں۔تعلیمی درس گاہوں میں طب اور
جراحی کا درس برابر دیا جاتا رہا۔ طلباء لاشوں کو چیر تے پھاڑتے، مختلف تجربات کرتے
اور مریضوں کے آپریشن کرتے۔ بودھ خانقا ہوں اور جین مذہب کے تعلیمی مرکزوں میں طب
کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ دی جاتی تھی۔ملک میں جگہ جگہ اسپتال قائم تھے جن کی نگرانی
قابل وید اور طبیب کرتے تھے۔اس دور میں فن طب پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں۔فن طب
کے ایک ماہر مادھو اکرنے ایک کتاب ’رگونی ون چیہ‘ تصنیف کی۔اسی دور میں دھنوونتری نے
جو چندرگپت وکرمادتیہ کے نو رتنوں میں سر فہرست تھا،طب کی ایک فرہنگ تیار کی جسے دھن
ونتری نگھنتوکہتے ہیں۔اس فرہنگ کی طبی دنیا آج تک قدر کرتی ہے۔‘‘ 2
طب یونانی اور آیوروید کا آپسی رشتہ اسلامی دور کے اولین
مرحلے ہی میں قائم ہو گیا تھا۔عہد عباسی میں یہ رشتہ اور بھی مستحکم ہوا،عہد عباسی
میں عربوں نے سنسکرت میں لکھی گئی کتابوں سے بھرپور استفادہ کیا۔چرک سمہتا اور سشرت
سمہتا کے عربی زبان میں تراجم ہوئے۔ خلیفہ ہارون رشید نے اسلامی مملکت کی راجدھانی
بغداد میں طب کی درس گاہ اور اسپتال قائم کرنے کے لیے ہندوستان سے اطبا کو بلایا۔ ان
اطبا میں منکہ،کنکہ، ہندی، صالح بن بہلہ، شاناق ابن دہن وغیرہ شامل ہیں۔
سنسکرت میں تصنیف کردہ کتابیں عہد منصور میں ہی بغداد پہنچ
چکی تھیں اور عربی زبان میں علوم وفنون کے تراجم پہلی صدی ہجری کے وسط سے شروع ہو چکے
تھے جب تک اہل عرب کا مرکز شام تھا یونانی سریانی زبانوں سے تراجم ہوئے جب بغداد دارالخلافہ
بنا تو ہندوستان وایران کی زبانیں بھی تراجم کا حصہ بن گئیں۔اس طرح ہندوستانی آیوروید
سے طب یونانی کو مستفید ہونے کا موقع ملا اور سنسکرت سے بھی عربی میں اہم تراجم ہوئے
یہ سارا کام عہد عباسی میں انجام پایا۔طب یونانی اور آیوروید کے حسین امتزاج کے بارے
میں
حکیم آغا اشرف رقمطراز ہیں
’’دولت
عباسیہ کا سب سے بڑا طبی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے معاشرتی احتیاجات وضروریات کے پیش
نظر یونانی اور آیورویدک کو یکجا کر دیا۔ طب یونانی کی رگوں میں آیور ویدک کا خون
داخل کرکے مستقبل میں اسے مکمل طب مشرق بن جانے کی پوری صلاحیت بخش دی اور یوں گنگا
جمنا اور دجلہ وفرات کا سنگم بنا دیا۔علوم وفنون کسی ملک وقوم کی میراث نہیں۔ہر زندہ
قوم اس کی وارث ہے۔وہ کسی فن کو اپناکر اس میں ترقی کی گنجائش پیدا کر سکتی ہیں۔‘‘ 3
خلیفہ منصور کے زمانے میں اہل ہند سے جو علمی تعلقات قائم
ہوئے اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ ہارون رشید کے زمانے میں یہ تعلقات
وسیع اور مزید مستحکم ہو گئے۔ہارون رشید مبتلائے مرض ہوا، بیماری شدت اختیار کر گئی
بغداد طبیبوں کی آماجگاہ تھی مگر کسی کے علاج سے افاقہ نہ ہوا،اس وقت ہندوستان کا
ایک طبیب جو فلاسفر بھی تھا عام شہرت رکھتا تھا اور چونکہ دربار ِ خلافت اور فرمان
روایاں ہندوستان سے دوستانہ مراسم قائم تھے اور باہم خط وکتابت رہتی تھی،سب نے اس طبیب
کو بلانے کی رائے دی غرض وہ طبیب طلب کیا گیا اور بغداد میں برامکہ کے ہسپتال میں مہتمم
اور افسر مقرر کیا گیا سنسکرت کی علمی کتابیں اکثر اس نے ترجمہ کرائیں۔ چنانچہ سشرت
کی کتاب ’سشرت سمہتا‘جودس بابوں میں اور سامیکا جس میں زہروں کے علاج کا بیان ہے اس
نے ترجمہ کیا۔
رشید کے دربار سے کئی اور اطبا وابستہ تھے معالج کی حیثیت
سے انھیں مہارت حاصل تھی اور وہ کامیاب بھی تھے ان کی مہارت و قابلیت کا فائدہ یہ ملا
کہ وہ دارالترجمہ میں شامل کر لیے گئے اوردربار عباسی میں ان کی قدر و قیمت بڑھ گئی۔ہندوستانی
اطبا میں منکہ الہندی،کنکہ الہندی، جوارالہندی، ابن دہن الہندی،صالح بن بہلہ الہندی،حسن
بن صالح بہلہ،خاطف الہندی و غیرہ مشہور ہیں۔ان اطبا کی عربی میں ترجمہ کردہ کتب کا
ذیل میں مختصر اًذکر کیا جارہا ہے۔
منکہ الہندی نے کتاب السموم چانکیہ کی مشہور کتاب جو سنسکرت
میں تھی اس کا فارسی میں ترجمہ کیا یہ کتاب بعد میں عربی میں منتقل کی گئی،چرک سمہتا
ہندوستان کے مشہور رشی وید چرک کی سنسکرت زبان میں کتاب ہے منکہ نے اس کا فارسی زبان
میں ترجمہ کیا بعد میں عبداللہ بن علی نے عربی میں ترجمہ کیا،سشرت سمہتا مشہور جراح
وطبیب سشرت کی سنسکرت کتاب کا منکہ نے عربی میں ترجمہ کیا،تفسیر اسما عقا قیر الہند
کے نام سے یہ سنسکرت میں تھی۔ اس کا منکہ نے عربی میں ترجمہ کیا۔یہ کتاب ایک دوا کے
مختلف ناموں سے بحث کر تی ہے، کنکہ الہندی کی تصنیف کردہ کتابوں کے بھی عربی تراجم
کیے گئے یہ بھی اہم ہندی طبیب تھا۔کنکہ کی کتابوں کی تفصیل حسب ذیل ہے جن کے عربی تراجم
ہو چکے ہیں۔کتاب النموفی الاعمار،کتاب القرانات الصغیرۃ،کتاب القرانات الکبیر ۃ،کتاب
اسرار الموالید،اس کی ایک اہم کتاب ستاروں کی گردش کے بارے میں ’کتاب فی احداث العالم
والدور فی القران‘بھی ہے۔4
ہندی؍سنسکرت
سے عربی فارسی تراجم کے سلسلے میں طبقات الاطبا،کتاب الفہر ست کو ملا حظہ کیا جا سکتا
ہے، دیگر علوم وفنون کے تراجم سے قطع نظر یہاں صرف تراجم کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان اطبا اور ان کی تصنیفات وتراجم نے طب ِیونانی پر گہرا
اثر چھوڑا، عربوں نے ہندی طب سے بھرپور استفادہ کیا جس کی گہری چھاپ واثرات مشہور عربی
مصنفین وا طبا کی کتابوں میں نظرآتے ہیں۔زکریا رازی کی الحاوی، ابن طبری کی فردوس
الحکمت،ابن بیطار کی کتاب الجامع، نو ح القمری کی غنی منی جیسی کتابیں ان کتابوں کے
حوالوں سے بھری پڑی ہیں۔علم الادویہ میں تو خاص طور پر ہندی طب کا گہرا اثر ورسوخ نظرآتا
ہے۔ صیدلہ، اطریفل، سام پٹ گجریٹ جیسی اصطلاحیں ہندی طب سے ماخوذ ہیں اور کئی ادویہ
کے نام خالص ہندی ہیں کشتہ بھی ہندی طب کی ایجاد ہے۔
عرب اطبا نے سنسکرت کی تصانیف سے بھرپور استفادہ کیا زکریا
رازی چرک کو فن طب میں سند مانتے ہیں،اپنی کتاب الحاوی الکبیر اور دوسری کتب میں چرک
کا ذکر بھی کیا ہے بعض مقامات پر حوالے کے طور پر اس کی عبارت بھی نقل کی ہے۔ شیخ بو
علی سینا نے سشرت کی کتاب سے استفادہ کیا ہے جونکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن سینا نے
اپنی کتاب القانون کی کتاب اول فصل 23 میں سشرت کی بتلائی ہوئی چھ قسموں کا ذکر کیا
اور وہی نام لکھے ہیں۔
طب یونانی عربی اور فارسی کے واسطے سے اردو زبان میں منتقل
ہوئی ملک ہندوستان میں طب یونانی نے آیوروید سے بھرپور استفادہ کیا خاص طور پر ویدک
دواؤں سے یونانی اطبا نے کافی استفادہ کیا طب یونانی میں ابن بیطار کی جامع الادویہ
میں چودہ سو مفرد دواؤں کا تذکرہ ہے لیکن جب ماضی قریب میں حکیم اعظم خاں اور حکیم
نجم الغنی کی کتابیں منظر عام پر آئیں تو ان میں ہزاروں دواؤں کا مفصل ذکر موجود
ہے۔ حکیم اعظم خاں کی محیط اعظم اکسیر اعظم اور حکیم نجم الغنی کی خزائن الادویہ میں
ہزاروں دوائیں نظرآتی ہیں۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ طب یونانی میں ادویہ
کے ہزاروں نام شامل ہوئے ہیں۔وہ آیوروید اور ہندوستانی جڑی بوٹیوں کے ہیں جن میں سے
اکثر سنسکرت زبان سے بعینہ لے لیے گئے ہیں۔اس بات کی تصدیق علم الادویہ کے سلسلے میں
لکھی گئی کتابوں میں درج ناموں سے بھی ہوتا ہے۔آج طب یونانی میں تقریباً ہزاروں دوائیں
مستعمل ہیں لیکن اس کا ذخیر ہ نہایت وسیع ہے اس ذخیرے کی وسعت کے لیے آج اردو زبان
میں موجود طب یونانی کو سنسکرت کے ناموں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔طب یونانی کا
تو یہ مزاج رہا ہے کہ اسے جہاں بھی جو چیز اپنے فائدے کی ملی جس کے ذریعے طب کو ترقی
حاصل ہو سکے،اسے اپنانے میں اطبا نے کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیا ہے حکیم عبدالحمید
اس سلسلے میں رقمطراز ہیں
’’جہاں
تک طب یونانی کا تعلق ہے اسے شدھ اور اشدھ کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے جدید وقدیم
کا امتیاز اس کے لیے بے معنی ہے وہ فطرتاً ہمیشہ اشدھ رہی ہے ہر بر اعظم اور ہر بڑے
خطہ اور عظیم تہذیبوں سے اس کا واسطہ رہا ہے اور ہر جگہ اور ہر تہذیب کا اثر وہ قبول
کر تی رہی ہے اس کے طریقہ ہائے علاج اس کا علم الادویہ اور دواسازی سب اس کی بین الاقوامیت
کا واضح ثبوت ہیں اس کی دواؤں کے اکثر نام ان ممالک سے منسوب ہیں جن سے اس طب کا تعلق
رہا ہے ہند سے قدیم تعلق نے اس کو بہت سے ہندی خدوخال دیے ہیں اس کے لیے یہ ممکن ہی
نہیں کہ وہ شدھ کی تنگنائے میں داخل بھی ہو سکے جو ہمیشہ اور ہر جگہ سے غذا حاصل کرتی
رہے گی۔‘‘ 5
آج طب یونانی میں کشتہ جات بنانے کا جو عمل موجود ہے یہ
مکمل طور پرآیوروید اور سنسکرت ہی سے ماخوذ ہے۔کشتہ جات کی تیاری میں جو اصطلاحات
والفاظ طب یونانی میںموجود ہیں اور اردو رسم الخط میں استعمال ہو رہے ہیں وہ سنسکرت
ہی سے ماخوذ ہیں مثلاًپٹیایا پٹ، گج پٹ، بھانڈپٹ، بودھر پٹ،کپوت پٹ،لکھ پٹ،ککٹ پٹ،
کنبھ پٹ،مرد بھانڈ پٹ وغیرہ اردو زبان میں استعمال ہو رہے ہیں۔ادویہ کی تیاری میں جن
آلات کا استعمال ہو رہا ہے ان میں عرق و روغن کشید کرنے یا طلا بنانے کے لیے بھی خالص
سنسکرت کی ویدک اصطلاحیں مستعمل ہیں پتال جنتر،بالو جنتر،ڈول جنتر،جل جنتر،بودھر جنتر،کچپ
جنتر، گربھ جنتر،اپ دھات وغیرہ اصطلاحات سنسکرت سے آئی ہیں اور اردو زبان میں استعمال
کی جا رہی ہیں اسی طرح حکیم کبیر الدین نے لغات الادویہ کے نام سے ایک علم الادویہ
کی طبی لغت لکھی ہے جس میں ہزاروں ایسی دواؤں کے نام موجود ہیں جو سنسکرت کے ہیں بطور
نمونہ کچھ ایسی سنسکرت ادویہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جسے اب طب یونانی میں پڑھا اور لکھا
جاتا ہے جس طب یونانی کی تعلیم وتعلم کا ذریعہ اردو زبان ہے اور نسخہ نویسی بھی اردو
زبان ہی میں کی جار ہی ہے کچھ ادویہ کے نام ملاحظہ کریں
’’آریوت،
املتاس، آرکتمول، گڑہل، آسوری، رائی، آلابو، کدو، آشوک، آلا پالا، آکلی، نرور،
آمرا، آم، آمل، ترش، ملکی، آملہ، آملکیدل، تیج پات، آنڈہا، منڈہا، آدرتنی،مروڑپھلی،
آدنتی، کانجی، آئرس، اپرسا، آوانک مکھی، برمڈنڈی۔‘‘ 6
جہاں تک آیوروید کی سنسکرت طبی تصانیف کا ترجمہ بلاواسطہ
اردو زبان میں کیے جانے کا تعلق ہے تو کسی اہم کتاب کا سراغ نہیں ملتا جبکہ عربی اور
فارسی کے واسطے سے ان کتابوںسے اخذ کی گئی باتیں اردو زبان میں منتقل کی گئی ہیں۔ایک
کتاب امرت ساگر جو بھاشا زبان میں لکھی گئی تھی پنڈت پیارے لال نے منشی نول کشور کی
خواہش پر امرت ساگر کو اردو زبان میں منتقل کیا تھا 564 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں
امراض اور دواؤں کے نام اس طرح منتقل کیے گئے ہیں کہ اصل نام سنسکرت بھا شا اور ہندی
زبان کے ہیں ان کی تشریح وتوضیح یونانی اصطلاحات و الفاظ کے ذریعے کی گئی ہے ایک مفید
اور اہم ذخیرہ سنسکرت ہندی اور بھا شا زبان کے ساتھ اردو زبان میں منتقل ہو اہے کچھ
اصطلاحات و الفاظ ملاحظہ کریں
مرگانگ (سونے کی راکھ)،ناس(نک چھنکنی )، کٹکا (گولی)، رس(کشتہ)،آمو
(عرق)، چورن (پھنکی)، پاگ (معجون)، برن (گھاؤ زخم )،ادھو بایو (پیٹ کی ہوا کو روکنا،
و شابادھا (پاخانہ روکنا)، موتربادھا (پیشاب روکنا)،بھوکھ(بھوک،بید(وید،حکیم )،زور
(قوت)، عارضہ (درد)، سنپا ت(تین اخلاط، اجیرن جیر(تپ کہنہ)، ہل جور(فساد خون)، پر سوتکا(پرسوتنی
بخار)، ایشار (اسہال)، دم(خون)، اشلشما (بلغم)، شوک (ریخ)، روگ (بیماری)، پیلیا (یرقان)،
سوانس (دمہ)، اونمار(خفقان)،اردت(لقوہ)، کشٹ روگ (مرض جذام) وغیرہ صدہا اصطلاحات سنسکرت
کی ہیں۔ یہ صرف باب اول سے بطور نمونہ درج کی گئیں۔‘‘
امرت ساگر میں اوزان کے پیمانے بھی ہندی اور سنسکرت زبانوں
کے استعمال ہوئے۔مثلاًتانبا2 شان (تولہ)،کشتہ ابرک 4 شان،کشتہ لوہا 8 شان اور نشک،
قرش (تولہ)، ثار،پل،پنیری،ٹنک کے علاوہ گھریلودیسی اوزان کے مقداری پیمانے مثلاً دھیلہ
بھر،ٹکہ بھر،پیسہ بھر بھی امرت ساگر کے اسلوب تحریر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔بحیثیت مجموعی
امرت ساگر میں طب یونانی کی اصطلاحات اور الفاظ کے پہلو بہ پہلوسنسکرت ہندی اور مقامی
بھا شا کے ہزار ہا الفاظ کا ایک نیا گنجینہ اردو زبان میں اضافہ ہو تا ہے۔جن میں اکثر
الفاظ اور مصطلحات معمولی صوتی اور صرفی تبدیلی کے عمل سے گزرکر اردو میں رواج عام
کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔‘‘ 7
مذکورہ بالا تفصیل سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے
کہ آج اردو زبان میں پھلنے پھولنے اور ترقی پانے والا علم طب یونانی اور سنسکرت زدہ
ہندی یا خالص سنسکرت کا مرہون منت آیورویدکا رشتہ قدیم اور مستحکم ہے طب یونانی نے
آیورویدسے علم الادویہ خصوصاً مفردات، علم کشتہ سازی اور صیدلہ میں بھر پور استفادہ
کیا ہے اورسنسکرت کے الفاظ و اصطلاحات اردو زبان میں ترقی پذیر ہیں۔ سنسکرت کے یہ نام
اردو زبان و ادب میں ترقی کر رہی طب یونانی کے لیے کوئی اجنبیت نہیں رکھتے اردو رسم
الخط میں ہی انھیں لکھا جاتا ہے اس طرح یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ طب یونانی
کے واسطے سے ہزاروں سنسکرت کے الفاظ و اصطلاحات اردو زبان میں شامل ہیں اور سنسکرت
کے گہرے اثرات اردو زبان پر مرتب ہوئے ہیں۔
حواشی
- تاریخ ِطب ابتدا تا عہد حاضر،حکیم سید محمد حسان نگرامی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،2009، ص118
- ہمارا قدیم سماج،سید سخی حسن نقوی،ترقی اردو بیورو،نئی دہلی، 1980، ص57
- تاریخ ِطب،حکیم آغا اشرف،محبوب بک ڈپو،بہرام خاں دہلی،1996، ص169
- تاریخ ِطب ابتدا تا عصر حاضر،حکیم سید محمد حسن نگرامی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی2007، ص201,202
- ارشادات محسن طب،حکیم عبدالمجید،مرتب خاور ہاشمی،آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس،دہلی 2005، ص25
- لاثانی لغات الادویہ المعروف لغات کبیر حنفی حکیم کبیرالدین، تدوین مرتب،ٹھاکر شرما،عثمان پبلی کیشنز
- امرت ساگر اردو ترجمہ پیارے لال صاحب کشمیری،تیج کمار پریس وارث نول کشور پریس،لکھنؤ،1970
Dr. Abdus
Samee
B N Digree College
Shah Abad
Hardoi- 241124 (UP)
Mob.: 9170389242
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں