19/7/23

عربی ادب کا ایک ناول ’لقیطہ‘ اور سماج کی تصویریں

 


عربی ادب کا ایک ناول ’لقیطہ‘ اور سماج کی تصویریں

تعریف

ادب کی مختلف اصناف، ناول، قصّے کہانیاں، ڈرامے وغیرہ انسانی وجود اور اس کے ارد گرد کے ماحول سے متاثر  ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ ادب انسانو ں کے بنائے ہوئے سماج کا آئینہ ہے۔ جس کا عکس کبھی سفید تو کبھی سیاہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے انھیں گوشوں کو چھوتا ہوا ایک ایسا ناول جو سماج کے سیاہ پہلو کو قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ اس ناول کو عربی ادب کے مشہور ناول نگار اور ادیب عبد الحلیم عبدللہ نے لکھا ہے اور اس میں  انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے انسانوں کے احساسات اور روزمرّہ کی زندگی کی مشکلات کو قلم بند کیا ہے۔ ان کا یہ ناول اس اعتبار سے ایک مثالی ناول کی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ سماج کے اس طبقے سے واقف کرواتا ہے جس کو ہم یتیم کے نام سے جانتے ہیں۔ فی الواقع یہ ناول ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو یتیم ہے۔

انیسویں صدی کے دور میںجہاں عربی ناول نگاری میں ادیبوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے جن میں نجیب محفوظ ، طہ حسیں، السید مصطفی لطفی منفلوطی، عبد الرحمن منیف، یوسف ادریس، احسان عبد القدوس اور دیگر ناول نگاروں کے نام شمار ہوتے ہیں۔ انھیں میں ایک نام عبد الحلیم عبداللہ کا آتا ہے، وہ ایک مصری ناول  نگار اور قصّہ نگار  ہیں۔ ان کی تحریر میں مختلف رنگ نمایاں ہیں جس میں موضوعات کی کثرت ہے۔ ان کے سماجی، ریلیسٹک ناول، رومانٹک ناول اور فلسفیانہ ذوق و فکر اپنے قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔ مصر کے اجتماعی حالات کو عبد الحلیم عبداللہ نے اپنے ناولوں اور قصے کہانیوں میں بھرپور طریقے سے پیش کیا ہے۔ وہ ایک فلاسفر ، ایک ادیب، ناول نگار اور بیک وقت سماج کی اصلاح کے داعی بھی ہیں جنھوں نے سماج میں گھلی ہوئی برائیوں کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ ان پر مختلف سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ یہ ناول 1945 م میں شائع ہوا۔ان کی یہ تصنیف بڑی ہی باریکی سے سماج میں ہو رہے حادثات اور ان کے ہونے والے اثرات کی منظرکشی کرتا ہے۔ جہاں محبت کرنا اور اس کے بعد دھوکہ دینا ایک عام مشغلہ بن چکا ہے۔بعض لوگ اس کو ایک ترقی یافتہ سوچ یا سیکولر فکر کا نام  دے دیتے ہیں۔ جہاں ایک انسان دوسرے کو صرف اپنے مفاد اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس سے ایک سیڑھی کی طرح کام لیتا ہے۔

لیلیٰ کی کہانی

لقیطہ ایک ایسی مجہول شخصیت کی کہانی ہے جو  تلخ حقائق سے روبرو کراتی ہے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے جہاں چند لوگوں کو سڑک کے کنارے نوزائیدہ بچی ملتی ہے جس کو کسی نے اس ویران سڑک کے کنارے چھوڑ دیا تھا۔ مگر اس کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ وہ ابھی بھی سانس لے رہی تھی۔ لوگوں کی نظروں میں افسوس اور تعجب سے زیادہ حقارت کا پہلو غالب تھا۔ وہ لوگ اس کو ج نامی یتیم خانے میں لے جا کر چھوڑ آتے ہیں۔

ہذا ما تھامست بہ الأفواہ في الصباح الباکر في ملجأ اللقطاء، لما دخلتہ طفلۃ جدیدۃ في یومہا الثاني۔

(لقیطہ، محمد عبدالحلیم عبداللہ، ص 1)

’’یہ رزیلہ کی بیٹی ہے، صبح تڑکے یتیم خانہ ج میں تمام لوگوں کی زبان پر یہی جملہ تھا۔ یتیموں کے اس ٹھکانے پر جہاں آج دوسرے دن اس نئی بچی کو لایا گیا  تھا۔‘‘

 یہاں سے اس کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی یتیم خانے میں زینب نامی  ایک عورت جو اس بچی کی پرورش کرتی ہے اور اپنا دودھ پلاتی ہے۔ جو کہ خود بھی ایک یتیم تھی۔ اس طفلہ کا نام  لیلیٰ رکھا گیا جو کہ بے حد خوبصورت تھی اور ایسا بھولاپن اور سادگی کہ دیکھتے ہی پیار  آئے۔  وہ اس سے بے حد محبت کرتی ہے۔ لیلیٰ کو دنیا میں جو پیار ملتا ہے یہیں ملتا ہے۔ اس نے اس یتیم خانے میں سترہ سال گزارے اور اب اس کی یہاں سے جانے کی باری تھی ایک ایسی دنیا میں جو بالکل اس کے لیے نئی تھی۔ اس کا مزاج ایک نرم پتے کے جیسا تھا جو کہ پیار اور محبت اور اپنے لوگوں کے لیے ہمیشہ تڑپا کرتا تھا اور محبت  ملنے پر لہلہانے اور کھلکھلانے لگتا۔  وہ خود اپنی ذات سے پوچھا کرتی کہ اس کو اس طرح کیوں پھینک دیا گیا، اس کا کیا قصور تھا ؟

ج سے نکلنے کے بعد وہ ایک ہسپتال میں نرس کے طور پر خدمت کرتی ہے جہاں اس کی ملاقات ڈاکٹر ک سے ہوتی ہے۔ لیلیٰ کو کبھی  سوالوں نے اکیلا نہیں چھوڑا اور نہ ہی لوگوں کی کھسپھساتی زبانوں اور سوالوں سے بھری نظروں نے۔ وہ جہاں بھی گئی لوگوں کے تانے اور چبھتے ہوے رویے  اس کو ملے اس کا ایک ہی قصور تھا کہ اس کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ وہ ایک مجہول شخصیت کی مالک تھی۔ اس کے خاندان کا کچھ پتا نہیں تھا حتیٰ کہ اس کی ماں کون تھی  جس نے اس کو ایسے ہی کسی بیکار شے کی طرح چھوڑ دیا تھا۔ لیلیٰ مختلف سوالوں سے گھری ہوتی تھی جو خود بھی اس کے اندرغوطے لگاتے رہتے تھے۔ لیلیٰ اس ہسپتال میں کافی رغبت کے ساتھ اپنا کام انجام دے رہی تھی مگر اس کے ساتھ  دوسری نرسوں سے اپنا پن نہیں ملا حتیٰ کہ ایک انسان کے طور پر ملنے والی عزت بھی اسے نصیب نہیں ہوئی۔ ہمیشہ ان نرسوں کی کوشش رہتی کی وہ اس کو اس ہسپتال سے باہر کا راستہ دکھا سکیں۔ ایسے حالات نے لیلیٰ کو مایوسی سے بھر دیا اور اس فکر کو اس حادثے نے اور طول دیا۔ جب دوسری نرسوں نے اس کی کردارکشی کی۔ اس حادثے نے اس کی زندگی کو پر امید نہیں رہنے دیا۔ اپنی ماں کے چھوڑے جانے کے بعد وہ اس تنہائی میں جی رہی تھی جہاں روشنی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ کہتی ہے 

انا التي خلقت وحدي کأننيحواء ہذا الزمان۔(المصدر السابق، ص 131)

’’مجھے اکیلے ہی پیدا کیا گویا کہ میں اس زمانے کی حوا ہوں۔‘‘

 ان حالتوں میں وہ اپنی ذات سے ہی سوال کرتی کہ اس کی ماں کون ہے ؟ کیوں اس کی ماں نے اسے چھوڑ دیا ؟ مگر ان سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ 

انہی حالات میں ایک دن لیلیٰ کو ایک خط موصول ہوتا ہے جس میں ایک نئی نوکری کی پیش کش ہوتی ہے اور لیلیٰ یہاں سے کوچ کر جاتی ہے۔مگر اسکندریہ پہنچ کر بھی وہ اپنے ذہن میں اٹھتے سوالوں سے آزاد نہیں ہو سکی تھی۔ جب وہ اسکندریہ کے اسٹیشن پر اترتی ہے تو لوگوں کی بھیڑ میں وہ اپنے ماں اور باپ کو تلاش کرتی اور سوچتی ہے

لعل أبي وأمي بین الذین أری... لعل أمي تلک الملففۃ التي وراء ھا الخادم، أو تلک السافرۃ التي ستسافر وحدھا، أو تلک التي تنادی علی الفاکہۃ! ولعل أبي ہذا السید الذي یرکض بجوارہ أو ھذا الذي یعمل بالمحراث، أو صاحب ہذا المقہی القریب من المحط... کل ہذا جائز، وجائز ألا یکون لي أبوان في ہذا البلد ولا في أی بلد آخر، فربما کانا من تحت التراب۔

(المصدر سابق، ص 146)

’’ کاش میرے ماں باپ انھیں لوگوں میں سے ہوتے جنھیں میں دیکھ رہی ہوں، وہ خادم کے پیچھے لپٹی اور سمٹی کھڑی ہے، یا وہ مسافرہ جو اکیلے سفر کرنے والی ہے یا  وہ جو پھلوں کے بیچنے والوں کو  آواز دے رہی ہے۔

میرا  باپ شاید وہ شخص  جو اپنے گھوڑے پر سوار  ہو رہا ہے،  یا کہ وہ شخص  جو کدال سے کام کرتا ہے، یا پھر  اس کافی ہاؤس کا مالک جو کہ اسٹیشن کے قریب ہے۔

یہ تمام چیزیں ممکن ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شہر میں میرے والدین نہ ہوں اور نہ کسی اور شہر میں۔ اور شاید کہ وہ دونوں زمین کی تہہ میں ہوں۔‘‘

اس ہسپتال میں اس کی ملاقات ڈاکٹر جمال سے ہوتی ہے، جمال کو لیلیٰ کی سادگی اور لطیف طبیعت سے محبت ہو جاتی ہے۔ مگر لیلیٰ اس نئی محبت اور  اپنے پن سے واقف نہیں تھی اور وہ اپنی ذات سے جڑے سوالوں کے جواب  تلاش کرنا چاہتی تھی۔ جمال لیلیٰ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنا ہم سفر بنانا چاہتا ہے۔ پھر لیلیٰ کو بھی جمال سے محبت ہو جاتی ہے  اور جمال کی ضد کے بعد وہ اس بات پر راضی ہو جاتی ہے مگر جمال کے والد اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔ انھیں صرف اپنی عزت کی پرواہ تھی۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے خاندان کا تعلق کسی ایسی لڑکی سے ہو جو کہ مجھولہ ہے، جس کی کوئی پہچان نہ ہو، جس کے خاندان کا کچھ علم نہ ہو۔ دوسری طرف جمال لیلیٰ سے جھوٹ بولتا ہے کہ اس کے خاندان کے افراد اس کے لیے راضی ہیں۔ وہ اپنے والدین سے کہتا ہے کہ لیلیٰ ایک مالدار اور شہرت مند تاجر کی بیٹی ہے تاکہ اس کے خاندان والے اسے قبول کر لیں۔ مگر جمال کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں  ہو سکا۔ کیونکہ دودھ بیچنے والی کوکسی نے بتا دیا تھا کہ لیلیٰ ہسپتال ک میں کام کرتی تھی۔ اس کے بعد جمال کے والد لیلیٰ کے بارے میں معلومات کرنے کے لیے ک ہسپتال جاتے ہیں اور انھیں ساری سچائی سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ اتفاقاً اسی دن لیلیٰ کی حقیقی ماں ہسپتال میں اپنی بیماری کا علاج کرانے آتی ہے اور لیلیٰ کو دیکھ کر پہچان جاتی ہے۔ کیونکہ آج بھی اس کے پاس اپنی چھوٹی مولودہ کے سنہرے بال تھے اور اسے بتاتی ہے کہ تو میری بیٹی ہے میں ہی تمہاری ماں ہوں۔

وأخرجت غدائرھا من تحت المندیل۔

فکادت تفلت من فم لیلی صرخۃ، وقالت لھا بصوت مخنوق وھي تتلفت حولھا في ذعر أنت أمی... أنت أمی ولا شک۔

(المصدر السابق، ص 204)

اس نے رومال کے نیچے سے اس کی بالوں کی چوٹی کو نکالا۔

قریب تھا کہ لیلیٰ کے منہ سے چیخ نکل پڑے، اس نے ٹوٹتی آواز میں کہا،

تم میری ماں ہو، بے شک تمہی میری ماں ہو۔‘‘

لیلیٰ کی ماں اس کو اپنی آپ بیتی سناتی ہے اور بتاتی ہے کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دیا تھا پھر مجھے ایک شخص سے محبت ہو گئی۔کچھ دن کے بعد وہ بھی مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ ایسی حالت میں میرے پیٹ میں ایک نئی جان پل رہی تھی۔اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے  اور خود گھر والوں نے مجھے گھر سے باہرنکال دیا۔  اس کے بعد میری زندگی بڑی مشکلوں میں گھر گئی تھی۔ دونوں ماں اور بیٹی گہرے احساسات اور آنسوؤں میں لبریز ہو جاتے ہیں۔

اب دونوں خاندان آمنے سامنے ہوتے ہیں جہاں اب لیلیٰ کو اس کی ماں مل چکی ہے لیکن جمال کے والد اس بات پر راضی نہیں ہوتے ہیں۔ بالآخر  ان سبھی باتوں سے لیلی بے حد مایوس ہو جاتی ہے۔ سماج کے برے عکس و آئینے کو تو اس نے بچپن سے ہی دیکھا تھا، اب ان تمام حادثات نے اسے تھکا کر چور کر دیا تھا۔ اس کہانی کا  اختتام بڑا ہی مایوس کن اور درد بھرا  ہوتاہے جہاں لیلیٰ کو سرجری کے دوران سرجیکل چاقو  سے ایک ایسا زخم لگتا ہے جو اس کے پورے جسم کو زہر سے بھر دیتا ہے جس کے سبب اس کی موت ہو جاتی ہے۔

سماج کی کئی تصویریں

لقیطہ صرف ایک کہانی نہیں ہے جہاں ایک یتیم لڑکی اپنی زندگی سے جڑے ہوئے رشتوں کو تلاش کرتی ہے اور وہ خود کی بھی شناخت کرنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ یہ کہانی مختلف زاویے سے سماج کے آئینے کو پیش کرتی ہے۔ آج جہاں یتیم بچوں کی تعداد بڑھ  رہی ہے جس کے متعدد اسباب ہیں جن میں والدین کا گزر جانا یا پھر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک گزر گیا ہو، والدین نے خود ہی بچے کو چھوڑ دیا ہو اپنی خودغرضی کی وجہ سے یا سماج کے ڈر سے، یا لڑکی پیدا ہونے پر ، پہلے محبت اور پھر شادی کا وعدہ کرکے ایسے مقام پر پہنچا دینا جہاں نہ صرف خود بلکہ ایک ننھی سی جان کی بھی زندگی بے حد مشکل ہو جاتی ہے۔ یا پھرماں کو اپنے ہی خاندان سے مجبور ہوکر اپنے ہی بچے کو  اپنے آپ سے جدا کرنا  پڑتا ہے، اس کے علاوہ بہت سے اسباب ہیں یا یوں کہیں کہ ان اسباب کے علاوہ برائیواں زیادہ ہیں۔ اب رہی اس بچے یا بچی کی بات جسے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہو اس کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، مگر اس کو ایسی سزا ملتی ہے جسے وہ عمر بھر جھیلتی ہے۔ کہیں اپنے وجود سے جڑے سوالوں سے تو کبھی سماج کے بنے ہوئے سانچے میں فٹ ہونے کے لیے اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔

عام طور پر لوگ یتیم سے بعض اوقات نرمی اور انسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کو مدد  فراہم کرتے ہیں۔ مگر ایسے پڑے ہوئے بچوں سے اکثر لوگ نظر اور دامن دونوں بچا کر ہی نکلتے ہیں۔ اس میں ان بچوں کا قصور کیا ہے۔ اس کہانی میں یتیم کی جو بات کی جا رہی ہے وہ ایک ایسی یتیم نہیں جس کے ماں باپ گزر گئے ہوں بلکہ ایک ایسا یتیم ہے جو دو لوگوں کی شادی کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ اسی موضوع کے بارے میں زینب نے کہا تھا جس کو عبد الحلیم نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیے

لا فرق بیني و بین أم ہذہ الطفلۃ، الا أنني أحببت فتزوجت وہي أحبت ولم تتزوج۔ وجمع بین و بیني زوجي حب و شریعۃ، وجمع بینہا و بین رجلہا جب بلا شریعۃ۔

 (المصدر السابق، ص 12)

’’مجھ میں اور اس بچی کی ماں میں کوئی فرق نہیں فرق صرف یہ ہے کہ میں نے محبت کی اور  میری شادی ہو گئی، جبکہ اس کی ماں نے محبت کی مگر شادی نہیں کر سکی۔ میرے اور میرے شوہر کے درمیان پیار  اور  قانون کا میل ہے جبکہ اس کی ماں اور اس کے باپ کے درمیان محبت بغیر قانون کے ہے۔

خلاصہ

عربی ادب کا یہ ناول ایک بڑی اہمیت کا حامل ہے  اور ناول نگار نے اس شاہکار کو لکھ کر قارئین کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ وہیں سماج میں ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ  ہونے والے رویے کو بڑی باریکی سے  پیش کیا ہے اور ان جیسے ناولوں کی بدولت ہمیں اپنے رویوں اور برتاؤ پر دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف لیلیٰ کی کہانی ہے بلکہ ہمارے اپنے سماج کی کہانی ہے اور یہ ناول جہاں ایک بچی کے پیدا ہونے، اس کا بچپن، اور جوانی تک کے تمام مرحلے کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے وہیں اس کی ذہنی الجھنوں اور فکروں کے بارے میں بھی روشنی ڈالتا ہے۔ وہ ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کے جوابات شاید ہی کسی کے پاس ہوں۔

اس ناول کے ذریعے ناول نگار نے مصری سماج کی عکّاسی کی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ ہم سبھی کے سماج کی تصویریں پیش کرتا ہے جن میں مشابہت کا پہلو نمایاں ہے چاہے وہ کسی بھی  ملک کا سماج ہو۔ جہاں سماج میں رہ رہے دو لوگ بنا نکاح کے ایسے رشتے بناتے ہیں جس سے ایسی ہی نہ جانے کتنی مختلف لیلیٰ کی پیدائش ہوتی رہے گی جسے سماج قبول نہیں کرتا ہے۔ ماں چاہتی  بھی ہو تو  سماج کے ڈر سے اس نوزائدہ بچی کو ایسے ہی کسی سڑک کے کنارے چھوڑ دینا پڑتا ہے۔

اس ناول میں مختلف پہلو ہیں جو کڑوی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں جن میں نچلے طبقے اور اونچے طبقے کے درمیان کی کھائی کو بھی پیش کیا گیا  ہے۔ جہاں نچلے طبقے کا انسان حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اچھے کردار اور حسن اخلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہیں اگر وہ کوئی عورت ہو تو اس کی پریشانیاں دوگنی ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسے ہی مقام پر جہاں جمال کے والد جمال سے لیلیٰ کے بارے میں  کہتے ہیں

أنا لا أعارض في شیٔ مادامت طبقتہا غیر نازلۃ۔ (المصدر السابق، ص 183)

’’مجھے صرف  اس سے غرض  ہے کہ اس کا  سماج اور معاشرہ اس کا طبقہ پسماندہ اور  دبا کچلا  نہ ہو۔

ان سب کے علاوہ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو سماج میں امید کی چھوٹی سی کرن کے مانند ہیں، جو کہ تبدیلی لانے کی قابلیت رکھتے ہیں اور انسانیت کے پہلو اور اس پر بھروسہ کرنے کی ہمت دلاتے ہیں۔ایسا ہی ایک کردار ہے زینب کا جو ایک یتیم بچی کو اپنا دودھ پلاتی ہے اس کو پالتی ہے، اس کو انسیت اور محبت کے ساتھ ساتھ ماں کا پیار بھی دیتی ہے۔ زینب کے علاوہ ایک ایسا کردار ہے جو صحیح سمت کی طرف جدّوجہد کرتا ہے اور اپنے گھر والوں سے اخلاق اور کردار کو نسب، نسل، درجہ، رنگ پر فوقیت دینے کی بات کرتا ہے۔ سماج کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جو سماج کو ایک صحیح آئینہ دکھا سکیں۔

Priti Bhartiya

ND-4, Delhi University Women Association

Unversity of Delhi

Chatra Marg

Delhi- 110007

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...