جگن ناتھ آزاد اردو کے نامور شاعر تلوک چند محروم کے صاحبزادے
تھے۔ آزاد نے نثر اور نظم میں 70 کتابیں اور
سیکڑوںمقالات لکھے ہیں۔ایسے شعرا اور ادبا بہت کم ہیں،جو شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی۔اس
معنی میں وہ ایک کثیرالجہت فن کار ہیں۔اُن کا کل شعری سرمایہ9 مجموعوں پر مشتمل ہے۔اُن
کے شعری مجموعوںکے نام تاریخی ترتیب کے ساتھ یوں ہیں طبل و علم، بیکراں، ستاروں سے ذرّوںتک، وطن میںاجنبی،
نوائے پریشاں، کہکشاں، بوئے رمیدہ، گہوارۂ علم و ہنر، نسیم حجاز۔ان شعری مجموعوں کے
علاوہ آزاد نے مختلف موضوعات پر طویل نظمیں بھی لکھی ہیںجن میں اردو، ابو الکلام آزاد،
ماتم نہرو، شاعر کی آواز، اجنتا، دہلی کی
جامع مسجد، رفیع صاحب کے مزار پر اور ماتم سالک وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیںجس سے
ان کے ذہنی اور فکری ارتقا کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ان نظموں کے موضوعات کو
پڑھ کر ہی آزاد کی انسان دوستی اور وسیع المشر بی کا اندازہ ہوتا ہے۔جگن ناتھ آزاد
نے اپنی شاعری میں زندگی کے تجربات و مشاہدات کو بیان کیا ہے وہ اپنی شاعری میں زندگی
کے بیتے ہوئے سرد وگرم حالات کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کہیں اپنی ہجرت کے غم
بیا ن کیے اور کہیں انھیں 1947 کے خونین مناظر پر افسوس ہوتا ہے۔ آزاد کی شاعری ان
کے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے اور ان کی شاعری میں ان کے عہد کی جھلکیاں بھی دیکھنے
کو ملتی ہیں۔
آزاد کو بھی نہ چاہتے ہوئے لاہور سے دہلی ہجرت کرنا پڑی۔
آزاد کے یہاں تقسیم ملک، ہجرت،اور بے وطنی غم کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ یہ غم ان
کے شعری مجموعے ’وطن میں اجنبی‘1954 میں مکمل صورت میں نمایاں ہوا ہے۔یہ مجموعہ ایک
ایسے شاعر کی روداد ہجرت ہے جس نے تقسیم اور ہجرت کو نہ صرف دور کنارے سے دیکھابلکہ
خود بھی اس بھیانک حادثے سے دوچار ہوئے۔ انھیں اپنے آبائی وطن سے ہجرت کے مراحل سے
گذر کر دہلی آنا پڑا۔فراق گورکھپوری آزاد کی شخصیت اور شاعری پر اپنی رائے یوں دیتے
ہیں۔
’’تقسیم
ہندوستان نے حضرت محروم سے ضعیفی میںاور آزاد سے جوانی میںان کا محبوب خطہّ وطن مغربی
پنجاب چھڑوایا۔اس سانحہ نے آزاد کی شاعری میں نئی کسک اور نیا چٹیلا پن پیدا کر دیا
ہے۔چھوٹے ہوئے وطن کی محبت نے ان کی معصوم و پُر خلوص ہنسی میں آنسوؤں میں تبسم کی
جھلک پیدا کر دی ہے۔اس سے ان کا کلام اور بھی چمک اُٹھا ہے۔آزاد کے کلام میں پنجاب
کی یاد سے پیدا ہوئے اشعار ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جس خلوص کے ساتھ آزاد نے نئے
اور اجنبی ماحو ل کو اپنایا ہے وہ بھی قابل صد ہزار تحسین ہے۔‘‘
(جگن
ناتھ آزاد اور اس کی شاعری،حمیدہ سلطان احمد، نئی دہلی، مونومینٹل پبلشرز،1991، ص
36)
آزاد نے اپنے کردار اور اپنی ادبی خدمات کے ذریعے سے اردو
کو مالا مال کیا۔آزاد نے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی اپنی تخلیقات سے کی ہے۔انھوں
نے امن اور محبت کا درس دیا۔نہ صرف برصغیرہندو و پاک میںبلکہ پوری دنیا میں وہ اردو
کے سفیر مانے جاتے ہیں۔اس شعری مجموعے میں ہم ایک نئے آزاد سے متعارف ہوتے ہیں۔جو
حقیقی زندگی کے نشیب و فرازسے گزر چکا ہوتا ہے۔ تقسیم،فسادات اور ہجرت اس کا اہم موضوع
ہیں۔ ان تمام واقعات کو آزاد نے تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہجرت کے بعد وطن کی جدائی
کا جو درد ہوتا ہے اس کو آزاد نے ’وطن میں اجنبی‘ میں بہترین انداز میں واضح کیا ہے۔
مجموعے کے آغاز میں ہی آزاد نے میر انیس کے شعر کو سرورق میں جگہ دی ہے۔جو اس پورے
شعری مجموعے کا لب لباب ہے ؎
دشمن کو بھی اللہ چھڑائے نہ وطن سے
جانے وہی بلبل جو بچھڑ جائے چمن سے
’وطن
میں اجنبی ‘کو عبدالمجید سالک ایک طویل نظم
قرار دیتے ہیں۔ وہ ’وطن میں اجنبی‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں ؎
’’اس
کتاب میں بظاہر آزاد کی متعدد نظمیں جمع کی گئی ہیں۔لیکن جو روح اس میں مسلسل جاری
و ساری ہے اس کے اعتبار سے یہ متعدد نظمیں نہیں ہیں بلکہ ایک طویل نظم ہے جس کے مختلف
حصے مختلف بحروں اور مختلف زمینوں میں موزوں ہو گئے ہیں۔ہر بحر اور ہر زمین شاعر کے
ہنگامی جذبہ و احساس کا پتہ دیتی ہے۔پہلی مسدس تو پنجاب کا ایک مرثیہ ہے۔اور اس موضوع
پر اب تک جو بے شمار نظمیں کہی گئی ہیں ان میں اپنے درد و اثر کی وجہ سے بہت ممتاز
ہے۔‘‘(ایضاً، ص 270)
ہندوستان کی تقسیم کے سبب ملک میں افراتفری، خونریزی اور
ہجرت جیسے واقعات رونما ہوئے۔ جو صوبے ان حادثات کی لپیٹ میں سب سے زیادہ آئے ان میں
پنجاب اور بنگال سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ آزاد کا تعلق سر زمین پنجاب سے تھا۔ ’وطن
میں اجنبی‘ میں آزاد نے اپنی بے بسی کا رونا رویاہے۔ انھوں نے ’وطن میں اجنبی‘ کے
آغاز میں بطورِ تمہید کے پنجاب کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میںانھوں نے پنجاب کی
گذشتہ عظمت کے ترانے گائے ہیں،اور وہاں کے ہندو مسلم اتحاد پر رشک کیا ہے۔لیکن اس کے
بعد تقسیمِ ہند کے سبب پنجاب کی تباہی و بربادی کاذکر کیا ہے۔ملک کے دو لخت ہونے کے
ساتھ ساتھ پنجاب بھی دو لخت ہو چکا تھا۔آزاد کو اس تباہی و بربای کا شدت سے احساس
تھا ؎
فردوس کاعالم میرے پنجاب کی دُنیا
تسکین کے،آرام کے،اسباب کی دُنیا
سیلاب محبت کے وہ گرداب کی دُنیا
درد و تپش وسوزوتب وتاب کی دُنیا
وہ ارض حسیں خطۂ محبوب زمانہ
کرتا ہوں یہاں اس کی تباہی کا فسانہ
(وطن
میں اجنبی جگن ناتھ آزاد، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، جامعہ
نگر، نئی دہلی، ص 29)
آزاد نے ہندو مسلم اتحاد کی روشن مثال پیش کی ہے کہ کس
طرح دونوں قومیں ایک دوسرے کا پاس و لحاظ رکھتی تھیں۔دونوں قومیں ہندو مسلم اتحاد،اور
انسانیت کی بہترین مثالیں ہیں۔دونوں قوموں نے مل کر اس ملک کی حفاظت میںاپنی جان کے
نذرانے پیش کیے ہیں ؎
خود باغ کے مالی جو ہوئے باغ کے دشمن
اس خاک کا ہر گوشہ ہوا شعلہ بدامن
اپنا ہی چمن زار تھا اپنا ہی نشمین
شاداں ہوئے جلتا ہوادیکھا جو یہ گلشن
اس باغ کا تھا دھرم بھی ایماں بھی محافظ
ہندو بھی محافظ تھا مسلماں بھی محافظ
(ایضاً
ص 31)
آزاد پنجاب کی خستہ حالی اور تباہی پر بہت نالاں ہیں۔ وقت
بدلتے دیر نہیں لگتی،یہی کچھ پنجاب میں ہوا۔قوموں میں آپسی اختلاف اس قدر بڑھے کہ
ملک ہی دو لخت ہو گیا۔اس سے پیدا ہونے والے حادثات و واقعات انسانیت کے نام پر ایک
سیاہ دھبہ ہیں۔مذہب کے نام پر جنونیوں نے وہ کچھ کیا جس کی مذہب اجازت بھی نہیں دیتا۔تقسیم
کے وقت جو عصمت دری اورقتل و خونریزی کا بازار گرم ہوا اور تمام مذاہب کے جاہل لوگ
جس طرح اس میں شامل رہے یہ انسانیت کے بالکل خلاف ہے۔ اس پر تمام مذاہب کے جنونی لوگوں
کی آزاد نے پول کھولی ہے ؎
ہندو نے لیا وید کی عظمت کا سہارا
قرآں کے تقدس کو مسلماں نے پکارا
سکھ دھرم سے ہو دور کہاں اس کو گوارا
یوں لے کے زمانے میں مذاہب کا اجارہ
فردوس میں ان سب نے جہنم کو بسایا
پنجاب میں سامان قیامت نظر آیا
(ایضاً،
ص 31)
جگن ناتھ آزاد جب تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان کے
سفر پر روانہ ہوئے۔اپنے پرانے وطن جا کر انہوں نے اپنی بے وطنی کا اظہار کیا اور اپنے
پرانے وطن میں وہ ایک اجنبی بن کر آئے۔اس بات سے انہوں نے اہلِ پاکستان کو اشک بار
کر دیا۔انہوں نے اپنی غزل میں اس درد و غم اور بے بسی کو بیان کیا ہے۔یہاں پر شاعر
کا احساس اور فن ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں اشعار ؎
تیری بزم طرب میں سوز پنہاں لے کے آیا ہوں
چمن میں یاد ایام بہاراں لے کے آیا ہوں
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
نگاہوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن
کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں
تفکر میں جمال صبح تاباں لے کے آیا ہوں
(ایضاً،
ص 70)
جگن ناتھ آزاد نے اپنے سفر پاکستان کے موقع پر علامہ اقبال
کے مزار پر حاضری دے کر نذرانۂ عقیدت پیش کیا تھا۔اس کے ساتھ آزاد نے اقبال کے پیرایہ
بیان میں پیر رومی و مرید ہندی کی طرح اقبال سے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اقبال
سے جوابات بھی حاصل کیے ہیں۔اس طرح آزاد نے بہت سارے سوالات کو سمجھنے اور سلجھانے
کی کوشش کی ہے۔اقبال کے بعد آزاد نے مولانا تاجور نجیب آبادی کے مزار پر بھی حاضری
دے کر روح تاجور کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔تاجور آزاد کو اے پسر،اے شاگرد کہہ کر
نصیحت کرتے ہیںکہ تم کلام اور کردار کے ذریعے سے برصغیر کہ لوگوں میں محبت اور امن
کا پیغام دو،امن اور اتحاد،ہندو مسلم ایکتا کے داعی بن جاؤ۔اس سب کے بعد روح تاجور
آزاد سے ان کا کلام سننے کی فرمائش کرتی ہے۔غرض آزاد نے وطن میں اجنبی میں خیالی
ملاقاتوں کے ذریعے سے اپنے مقصد کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
تقسیم وطن کے نتیجے میں ملک کے جو بڑے صوبے سب سے زیادہ
متاثر ہوئے وہ پنجاب اوربنگال تھے۔یہ دونوں صوبے عمدہ کلچر،زبان، علم وادب، اور تصوف
کا مرکز تھے۔ لیکن تقسیم کے حادثے میں یہ صوبے شر انگیزی کی آگ میں جھلس کر راکھ میں
تبدیل ہو گئے۔ ’وطن میں اجنبی‘ میں آزاد ان ہی باتوں کی نشاندہی کرتے ہیں ؎
اسی ہندوستان میں دھرم کی مذہب کی دُنیا میں
تمدن کو جنوں کی لہر میں بہتا ہوا دیکھا
معین الدین چشتی کی زمیں پر،کرشن کے گھر میں
مسرت کو الم کی داستاں کہتا ہوا دیکھا
اسی پنجاب میں جس کی محبت کیش دُنیا میں
گورونانک نے اپنے دلنشیںنغمات برسائے
کیے بڑھ بڑھ کے افعال زبوں وہ ابن آدم نے
درندوں کو تو کیا ابلیس کو بھی جن پہ شرم آئے
(ایضاً،
ص 87)
آزاد نے ’وطن میں اجنبی‘میں سر زمینِ بنگال کو بھی موضوع
بنایا ہے۔انہوں نے بنگالیوں کی تاریخ،تہذیب ثقافت اور جذبۂ حُب الوطنی پر بھی روشنی
ڈالی ہے۔آزاد کے مطابق یہی وہ صوبہ ہے جہاں سب سے پہلے ہندوستان میں جدید تعلیم اور
ترقی کے آثار نظر آئے تھے۔ آزاد نے وہاں کی عظیم ہستیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔نیز وہاں
کے تاریخی اور سیاحتی مقامات کی بھی تعریف کی ہے۔ ان نظموں میں کلکتے سے ڈھاکہ جاتے
ہوئے چٹا گانگ،چٹا گانگ میں چند دن،مشرقی بنگال وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام نظموں میں بنگال
ہی موضوع سخن ہے۔اسی طرح بنگال میں تقسیم کے سبب پیدا ہوئے ماحول کو آزاد یوں بیان کرتے ہیں ؎
وہی بنگال گونج اُٹھا جنون انگیز نعروں سے
ترانے پیار کے قاضی جہاں گاتا رہا برسوں
اُسی کی سرزمیں پر خون انسان کی ہوئی بارش
جہاں جام وفا ٹیگور چھلکاتا رہا برسوں
(جگن
ناتھ آزاد اور اس کی شاعری: حمیدہ سلطان احمد، نئی دہلی، مونومینٹل پبلشرز،
1991، ص 269)
’وطن
میں اجنبی‘ میں کچھ نظمیں عالم خیال میں چند ملاقاتیں،کے عنون سے ہیں۔ان نظموں میں
آزاد نے ترقی پسند شعرا کو ذہن میں رکھ کر اپنے سوالات کا جواب تلاش کیا ہے۔ان شعرا
میں سجاد ظہیر،فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ممتاز حسین، ظہیر کاشمیری وغیرہ شامل
ہیں۔ یہاں یہ بات بھی با آسانی سمجھ میں آتی ہے کہ آزاد کی شخصیت نے ترقی پسند تحریک
سے بھی کچھ اثرات لیے ہیں۔ ’وطن میں اجنبی‘ کی نظموں کا یہ حصّہ معنوی اعتبار سے بھی
عمدہ ہے۔
’وطن
میں اجنبی‘میں شاعر نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کامرثیہ لکھاہے۔آزاد کا کمال یہ ہے
کہ انہوں نے اپنے احساسات،تجربات اور مشاہدات بھی بیان کیے لیکن کسی طرح کے منفی اثر
کا شکار نہ ہوئے انہوں نے اس ساری تباہی کی ذمے داری کسی ایک فرد یا قوم پر نہیں ڈالی
بلکہ حقیقت کے دونوں پہلووں کو واضح کر کے ملک کے اصلی دشمن یعنی انگریزی راج کے اصلی
چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ شاعر نے اپنے کلام کے ذریعے ہندوستانی قوم کو امن، محبت،وسیع
المشربی اور سیکولر اقدار کا درس دیا ہے جس پر وہ خود بھی عمل پیرا رہے۔
Dr.
Imtiyaz Ahmed
Ward No 4 Rahimabad
Bhatindi- 181152 (J&K)
Mob: 6005225633
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں