یہ
بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جگن ناتھ آزاد کی شاعری اور شخصیت اردو دنیا کے
لیے نہ صرف قابل رشک ہے بلکہ قابل قدر بھی ہے۔وہ نہ صرف ایک اعلیٰ پایے کے شاعر تھے
بلکہ ایک اہم ترین ادیب اور دانشور بھی تھے۔اردو نثرونظم پر جگن ناتھ آزاد کے بڑے
احسانات ہیں،کیونکہ آزاد نے چھوٹی عمر سے
ہی اپنے آپ کو اردو شعر وادب کے لیے وقف کردیا تھا۔ان کی ادبی وشعری زندگی کو مختلف
خانوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ نثر میں وہ بحیثیت محقق،نقاد،خاکہ نگار،سوانح نگار
اور ماہر اقبالیات کے طور پر بہت مقبول ومشہور رہے ہیں اور شاعری میں بحیثیت غزل گو،مرثیہ
نگار،نظم نگار اور رباعی گو کے طور پر اپنی قابلیت اور سخن شناسی کا لوہا منواچکے ہیں۔
جہاں تک جگن ناتھ آزاد کی حزنیہ شاعری کا تعلق ہے،اس سلسلے
میں یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح آزاد کو شاعری میراث میں ملی ہے،اسی طرح غم واندوہ بھی
انھیں میراث میں ملا ہے کیونکہ آزاد کے والد
محترم جناب تلوک چند محروم (جو استادالشعرا
تھے)کی زندگی بھی بہت حد تک غموں کی شکار رہی ہے۔ تلوک چند محروم کی پہلی بیوی کا عین
جوانی میں انتقال ہونا،ان کی بیٹی شکنتلا کا بچپن ہی میں داغ مفارقت دے دینااور پھر
سب سے بڑا صدمہ یہ کہ بیٹی ودیا (جس کی ماں پہلے ہی اس جہان ِ فانی سے کوچ کرگئی تھی)کا
اپنے سسرال والوں سے تنگ آکر خود کشی کرنا۔یہ ایسے دردناک اور دل شکن واقعات تھے جنھوں
نے محروم جیسے ممتاز شاعر کے دل ودماغ پر گہرے اثرات چھوڑے۔چنانچہ محروم کی شاعری میں
ان مایوس کن واقعات کی موثر ترجمانی موجود ہے۔
جگن ناتھ آزاد کی زندگی میں بھی اپنے والد ہی کی طرح کچھ
ایسے مایوس کن حالات وواقعات دَر آئے ہیں جنھوں نے آزاد کے ذہن ودل کو بہت غمگین
کردیا۔مثلاً آزاد کی پہلی شادی شکنتلا جی
سے ہوئی جو چھ سال کے بعد آزاد کو داغ مفارقت
دے کر عالم ارواح میں چلی گئی اور جگن ناتھ آزاد کو سونپ گئی دو بچیاں،نرملا
اور مکتا۔ان کے علاوہ ایک بیٹا بھی تھا جو بچپن ہی میں انتقال کرگیا تھا۔جگن ناتھ آزاد
پر غموں کی یلغار یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ انھیں تقسیم ہند کے سانحے کی صورت میں
اپنے مادر وطن (عیسیٰ خیل،مغربی پنجاب،پاکستان)کو نہ چاہتے ہوئے بھی خیر باد کہنا پڑا۔یہ
ایک ایسا صدمہ تھا جس کی گونج جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں سدا سنائی دیتی رہے گی۔
کوئی بھی شخص اپنے مادر وطن سے بچھڑنا نہیں چاہتا ہے لیکن جب ناخوشگوار حالات پیدا
ہوجاتے ہیں تو انسان اپنی جنم بھومی کی بو باس کواپنے آنسوؤں میں جذب کرلیتا ہے۔
وہ اپنے وطن اور وطن کی ہر شے کو الوداع کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔آزاد بھی ان تلخ تجربات سے گزرے ہیں۔جب 1947 میں ہندوستان
کا بٹوارہ ہوا تو بہت سے لوگوں کی طرح انھیں بھی اپنی خوشی اور مرضی کے خلاف ایک مقام
سے دوسرے مقام پر منتقل ہونا پڑا۔یہ ایک ایسا انقلابی قدم تھا جس نے جگن ناتھ آزاد
کی زندگی پر دیر پا اثرات مرتب کیے۔وہ اپنی جذباتی زندگی کا ایک انمول سرمایہ پاکستان
میں چھوڑ آئے اور وہاں کی یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ اپنے قلب نحیف میں چھپا کر
ہندوستان میں آگئے۔اس میں لاہور کی گلیاں اور چوبارے، دوستوں یاروں کا ایک بہت بڑا
حلقہ، دوستوں رفیقوں کے مکانات،اخبارات ورسائل کے دفتر، کتابوں کی دکانیں، درس گاہیں،مساجد،دریائے
راوی اور جہلم کا کنارہ…ان کے علاوہ اور بہت سارے مقامات،اپنے پرائے جن کے ساتھ آزاد
کا بچپن اور لڑکپن گزرا تھا،وہ سبھی یہاں آکر بہت یاد آئے۔یہی وجہ ہے کہ جگن ناتھ
آزاد کی شاعری میں غم کا پہلو مختلف صورتوں میں عیاں ہوتا ہے۔آزاد کی شاعری سے متعلق
مفتی فخر الاسلام ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں
’’آزاد
کی شاعری میں…المیہ کا احساس نظر آتا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان تما م ہنگاموں
کی سختیاں جھیلنے کا انھیں عملی تجربہ رہا ہے۔1947 میں انھیں اپنی اس دھرتی سے سارے
رشتے توڑ لینے پڑے جو ان کی جنم بھومی تھی‘‘
(’جگن ناتھ آزاد
فکر وفن‘از محمد
منظور عالم،ص21)
گویا معلوم یہ ہوا کہ جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں غم واندوہ
کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ان کا غم صرف رونے بسورنے
پر ہی مجبور نہیں کرتا بلکہ وہ اس غم کے ذریعے انسان کو ہمت وحوصلہ اور حالات سے جم
کر مقابلہ کرنے،محنت وکوشش سے زندگی کے خارستان سے گزرنے اور ایک بلند ہمت انسان کی
طرح زندگی کے غم کو اپنے سینے سے لگانے کا درس بھی دیتے ہیں۔بلاشبہ جگن ناتھ آزاد
ایک درد مند دل رکھتے تھے۔وہ دکھی دلوں کی درد مندی کو فوراًمحسوس کرتے تھے۔غالباً
یہی وجہ ہے جس نے آزاد کی شاعری کو آفاقیت اور ہمہ گیریت عطا کردی ہے۔وہ ایک سیکولر
ذہن انسان تھے۔ان کی نظر میں انسانیت عظیم ومقدس ہے۔ انسانی قدروں کے وہ ہمیشہ نہ صرف
پاسدار رہے ہیں بلکہ اپنی شاعری میں ان کے فروغ وبقا کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔اس لیے
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جگن ناتھ آزاد کی حزنیہ شاعری میں جہاں ان کی داخلی
واردات قلبی کا بیان موجود ہے تو وہیں ہندوستانی
مشترکہ تہذیب کی رنگا رنگی بھی نظر آتی ہے۔ان کی شاعری میں موضوعات کی بھر مار ہے
جو اس بات کا پتا دیتی ہے کہ سارے انسانوں کا درد آزاد کے دل میں ہے۔کیونکہ ان کی
شاعری میں جو کسک اور سوز وگداز ہے،جو اثر
انگیزی اور گھلاوٹ کے علاوہ ایک مخصوص درد وکرب موجود ہے وہ اس فتنہ پرور دور کی غمازی
کرتا ہے جب سارے رشتے ناتے ختم ہوچکے تھے اور انسان نے حیوانیت کا چولا پہن لیا تھا۔تقسیم
ہند کے لرزہ خیز حالات وواقعات نے آزاد کی جذباتی زندگی کی سطح کو کہیں سے کہیں پہنچادیا
اور اس کے بعد ہی ان کے ذہن ودل میں نئے تصورات وخیالات نے سر ابھارا یا وہ چشمے پھوٹ
پڑے جن کا آزاد نے بے حد اثر قبول کیا۔ان انسانیت سوز حالات میں یہ بھی ممکن تھا کہ
وہ سدا کے لیے ایک قنوطی،یاس پرست اور غم دوست انسان بن کے رہ جاتے لیکن چونکہ انھیں
اس دنیا اور اس میں بسنے والوں سے بے پناہ محبت تھی۔اس لیے انھوں نے عظمت ِ انسان کے
گیت گائے اور دوسروں کے غم کو اپنانے کی سعی کی۔جگن ناتھ آزاد اگر چہ 1947 کے خونی
واقعات کی لپیٹ میں خود بھی آچکے تھے لیکن ان کی امن پسند نگاہیں ہمیشہ انسانیت کے
ارد گرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ اسی لیے ان میں انتقام کا جذبہ ہرگز نہیں ابھرتا۔تقسیم ہند
کے پر آشوب دور میں تعصب اور تنگ ذہنیت کا شکار نہ ہوئے۔البتہ اپنے مادر وطن سے بچھڑنے
کے غم میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں
؎
کہو دیر وحرم والو!یہ تم نے کیا فسوں پھونکا
خدا کے گھر پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
نشان ِ برگ گل تک بھی نظر آتا نہیں ہم کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا گلستانوں پہ کیا گزری
وطن کی اے مقدس سر زمیں احساس بھی کچھ ہے
کہ تجھ سے چھٹ کے تیرے سوختہ جانوں پہ کیاگزری
تجھے اے کاش!دہلی اور شملہ یہ بتا سکتے
میانوالی کے صحرا ترے دیوانوں پہ کیا گزری
’جگن
ناتھ آزاد اور ان کی شاعری‘مشمولہ’نوائے پریشاں‘از
جگن ناتھ آزاد،ص 19)
مندرجہ بالا اشعار آزاد کے دکھ درد کی ہوبہو عکاسی کرتے
ہیں اور انھیں اس بات پر پورا یقین ہے کہ ہند کی تقسیم محض مذہبی جوش وجنون کی بنیاد
پر ہوئی ہے جس میں آزاد جیسے نیک دل انسان احساس بے دخلی کا شکار ہوکر اپنی معصومیت
کا رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ بار بار اس تباہی وبربادی کا ذکر کرتے ہیں جس کی
وجہ سے کوئی بھی چیز محفوظ نہیں ہے۔ملک کی آزادی کے بعد بھی سماجی وسیاسی حالات میں
کوئی بھی خوشگوار تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے بلکہ ظلم وستم،آپسی نااتفاقی،دغا وفریب،لوٹ
کھسوٹ اور ہر قسم کی برائی مسلسل پروان چڑھتی جاتی ہے جسے دیکھ کرجگن ناتھ آزادکہہ
اٹھتے ہیں ؎
آج بھی روح میں ہے درد کی دنیا آباد
دم بخود کانپتے ہونٹوں پہ فغاں آج بھی ہے
عندلیب آج بھی گلزار میں ہے محوِ فغاں
دردہر پھول کے سینے میں نہاں آج بھی ہے
یہ الگ بات ہے تو اس کو نہ دیکھے لیکن
ترے ماحول میں آہوں کا دھواں آج بھی ہے
رنگ محفل کا بدلتا نظر آتا ہی نہیں
ایک کا سود ہزاروں کا زیاں آج بھی ہے
آج بھی مفت نظر ہے وہی سینوں کا عناد
بند اخلاص ومحبت کی دکاں آج بھی ہے
(جگن
ناتھ آزاد’بیکراں‘ص20-21)
دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا غم بھی جگن ناتھ آزاد
کی شاعری میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔دنیا ان کے نزدیک عیش وعشرت اور سکون وراحت کا مسکن
نہیں بلکہ وہ گوتم بدھ کی طرح دنیا کو دکھوں کا گھر سمجھتے ہیں۔البتہ یہاں اتنا فرق
ضر ورہے کہ گوتم بدھ نے آدھی رات کو اپنے بیوی بچے کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی تھی
اور تارک الدنیا کے نظریے کو عملی جامہ پہنایا تھا جب کہ آزاد دنیا کو ترک کردینے
کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ دنیا کو دائمی گھر نہ سمجھتے ہوئے اس کے مصائب وآلام کا خندہ
پیشانی سے مقابلہ کرنے کا سبق دیتے ہیں۔اس موقعے پر یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
انسان کے لیے اگر سب سے بڑا کوئی غم یا دکھ ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اسے ایک دن اس
دنیا سے اپنا رخ موڑکر عالم آخرت کو لبیک کہنا ہے !جگن ناتھ آزاد نے ایک حساس شاعر
کی حیثیت سے اسی غم کا اظہار درج ذیل اشعار میں اس طرح کیا ہے ؎
جینا ہے غم سہنا ہے غم سہ کر مرجانا ہے
دل اور دل کی دنیا کا بس اتناافسانہ ہے
پھولوں کے متوالو کیا باغ سے پیار بڑھانا ہے
شاخ پہ دودن رہنا ہے گانا ہے اڑجانا ہے
(جگن
ناتھ آزاد’بیکراں‘ص61-62)
انسان کی زندگی دکھوں سے مبرا نہیں ہے۔ہر شخص کی زندگی میں
دکھ درد آتے ہیں۔لیکن بات محسوس کرنے اور نہ کرنے کی ہوتی ہے۔شاعر کے پاس چونکہ احساس
کی دولت ہوتی ہے،وہ اس دولت کو ایسا لب ولہجہ عطا کرتا ہے جس سے اس کی صحیح نمائندگی
ہوتی ہو۔اس طرح وہ ویسا ہی اثر دوسروں کے ذہن ودل میں منتقل کردیتا ہے جو اس نے خود
حاصل کیا ہوتا ہے۔جگن ناتھ آزاد کی شاعری پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ حالات کی تلخیوں
کو اپنی شاعری میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والا نہ صرف واقفیت حاصل
کرتا ہے بلکہ وہ آزاد کا شریک غم بن جاتا ہے۔ان کی بیشتر غزلوں اور نظموں میں انسان
کی خود غرضی،سسکتی ہوئی انسانی قدریں،ارضی مسائل کی تلخیاں،انسانی زندگی کو دوزخ بنانے
والوں کے خلاف بغاوت کے جذبات کارفرما نظر آتے ہیں۔وہ ایک خوشحال اور پر سکون معاشرے
کی تعمیر وتشکیل کے لیے مسلسل تڑپتے ہیں۔وہ
اچھی طرح جانتے ہیں کہ سماج میں ظلم کب اور کس طرح برپا ہوتا ہے۔انھیں اس بات پر بھی
کامل یقین ہے کہ اس دنیا میں خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے لیکن انسان کی شر پسندی
کے باعث رحمت خداوندی ہٹ جاتی ہے۔اس سلسلے میں آزاد کی ایک نظم’کلکتہ‘قابل ملاحظہ
ہے جس میں انھوں نے 1946 کے فرقہ وارانہ فساد کو اس طرح پیش کیا ہے کہ فساد کی پوری
تصویر آنکھوں میں گھوم جاتی ہے اور دل میں مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے۔ نظم کے چند بند
ملاحظہ کیجیے ؎
کلکتہ ہوا آگ کے شعلوں میں گرفتار
دیکھ اے دل آزادقیامت کا نظارا
لے آئی ہے تہذیب کہاں فکر ونظر کو
انساں کو نہیں ہستیِ انساں بھی گوارا
وہ آگ کے شعلوں میں تڑپتے ہوئے انساں
وہ خون کے دریاؤں میں بہتے ہوئے لاشے
دنیا ہے انھیں دیکھ کے انگشت بدنداں
اے اہل وطن تم نے دکھائے جو تماشے
یہ قہر خدا کا ہے نہ غصہ ہے قضا کا
یہ آگ خود انسان کی بھڑکائی ہوئی ہے
یہ ظلم،یہ بیداد،یہ لعنت،یہ تباہی
انسان کی انسان پہ خود لائی ہوئی ہے
(جگن
ناتھ آزاد’بیکراں‘ص79)
ایک مخصوص تاریخی واقعے کو شاعرانہ لب ولہجے کے ساتھ اس
طرح ادا کردینا کہ پورے واقعے کی تصویر قاری کے ذہن میں اترجائے اور اس کا دل تڑپ اٹھے۔جگن
ناتھ آزاد کو اس سلسلے میں خداداد ملکہ حاصل ہے۔وہ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اسے دل کی
گہرائیوں میں جگہ دیتے ہیں، اس کے بعد بڑے درد وکرب کے ساتھ اسے صفحہ قرطاس پر رقم
کرتے ہیں۔اس طرح ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حیات وکائنات
کاکافی گہرا مطالعہ ومشاہدہ کیا ہے۔زندگی نے ان کے ساتھ جس طرح کا بھی برتاؤ کیا،انھوں
نے اسے اسی طرح عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ماضی کی تلخ یادیں انھیں بار بار جھنجھوڑتی
ہیں۔زمانہ ٔ حال انھیں یاس وحسرت میں مبتلا کردیتا ہے لیکن مستقبل کے لیے پھر بھی وہ
دعوت فکر وعمل دیتے ہیں۔دراصل آزاد ہر وقت ایک شاندار مستقبل کے لیے بے قرار رہتے
ہیں۔وہ انسان کو زندگی کی مثبت قدروں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔البتہ ماضی کو وہ
ایک لمحے کے لیے بھی فراموش کرنا نہیں چاہتے۔ماضی کے ہولناک حالات وواقعات بالخصوص
اپنے چھوڑے ہوئے وطن کی محبت نے ان کی معصوم
وپرخلوص ہنسی میں غم کی چاشنی پیدا کردی ہے اور سب سے بڑا کمال یہ کہ آزادنے
1947 کے المناک حالات وواقعات کی جیتی جاگتی تصویر اپنی شاعری میں پیش کردی ہے۔شاید
ہی ان کا کوئی ہمعصر اس طرح سے پیش کرسکا ہو۔اس بیان کی تصدیق کے لیے ان کی ایک نظم’پناہ
گزیں‘ملاحظہ کیجیے ؎
خموشیوں میں حادثوں کی داستاں لیے ہوئے
دل حزیں میں درد وغم کا اک جہاں لیے ہوئے
نگاہ میں حدیث ِ جور ِ داستاں لیے ہوئے
رواں ہے ایک قافلہ
مکاں کسی کا جل گیا کسی کا گھر اجڑ گیا
کسی سے کوئی زندگی کا آسرا بچھڑا گیا
لٹی ہوئی بجھی ہوئی جوانیاں لیے ہوئے
رواں ہے ایک قافلہ
اگر چہ دور آچکے دھڑک رہے ہیں دل ابھی
قدم میں کپکپی سی ہے نظر ہے مضمحل ابھی
خموش لب پہ حشر نالہ وفغاں لیے ہوئے
رواں ہے ایک قافلہ
(’بیکراں‘ص
306-7)
’شکنتلا‘جگن
ناتھ آزاد کی ایک شاہکار نظم ہے جو انھوںنے اپنی جواں سال بیوی کی موت پر لکھی ہے۔یہ
نظم ان کی بیوی کے حسن اخلاق،اس کی بیماری اور موت کے علاوہ آزاد کے غمناک جذبات وکیفیات
کو محیط ہے۔آزاد اپنی اہلیہ کی بیماری کے دوران جن مصائب وآلام اور مشکلات سے گزرے
ہیں ان تمام کاذکر مذکورہ نظم میں موجود ہے۔نظم شروع سے لے کر اختتام تک پورے حزنیہ
مراحل سے گزرکر قاری کو آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے۔بیوی کی محبت اور اس کی ہمیشہ
کی جدائی نے آزاد کوانتہائی غمگین اور رقیق القلب بنادیا ہے۔اسی لیے وہ ’شکنتلا‘۔’ایک
آرزو‘اور’استفسار‘جیسے عنوانات کے تحت اپنی بیوی کو شاعرانہ خراج عقیدت پیش کر چکے
ہیں۔مذکورہ نظموں میں جگن ناتھ آزاد نے اپنی بیوی کے غم کو اتنی شدت سے پیش کیا ہے
کہ قاری خود بھی غمگین ہوجاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ؎
ریل گاڑی رک چلی ہے دھرم پور آنے کو ہے
ساغر لبریز آنکھوں کا چھلک جانے کو ہے
میں اسے لے کر خدا جانے کہاں پھرتا رہا
پتھروں پہ ڈگمگاتا جابجا گرتا رہا
کون کر سکتا ہے لیکن اے اجل!تیرا علاج
جب نہ منظور مقدر
ہو تو پھر کیسا علاج
اے گرفتارِ تپ کہنہ! قرارِ چشم دل
ایک مدت تک رہی ہے تو علیل ومضمحل
ایک مدت تک تجھے درد والم سہنا پڑا
دور گھر سے اسپتالوں میں تجھے رہنا پڑا
تجھ کو ہر بد ذائقہ کڑوی دوا پینی پڑی
مدتوں پینی پڑی بے مدعا پینی پڑی
پھیپھڑے پر وہ ترے جراح کے نشتر کی ضرب
یاد سے اس کی مرے احساس میں ہے درد وکرب
اب نہ روئے گی تو اپنی بچیوں کو دیکھ کر
اور اس معصوم کی خاطر نہ ترسے گی نظر
اب نہ ہم کڑوے دوا دارو پلائیں گے تجھے
اب نہ بیماروں کے بستر پر سلائیں گے تجھے
اے کہ گھبراتی تھی تو کڑوی دوا کے نام سے
آگ کے شعلوں میں جاسوئی ہے کس آرام سے
آسماں تک شعلے پہنچے اور تونے اف نہ کی
کس قدر حیران کن
ہے ارتقائے زندگی
روح باقی جاچکی ہے جسم فانی جل چکا
آج وہ میرا جہان شادمانی جل چکا
ہائے کیا نقشہ دکھا یا گردش ِ ایام نے
تونہیں ہے یہ ہیں تیرے پھول میرے سامنے
(’بیکراں‘ص122
تا 30)
نظم ’ایک آرزو‘اور ’استفسار‘سے ماخوذ اشعار بھی ملاحظہ
کیجیے جو جگن ناتھ آزاد کی حزنیہ شاعری ہی سے تعلق رکھتے ہیں ؎
اے شریک ِ رنج وراحت !زندگانی کی رفیق
چارہ سازِ درد،میری شادمانی کی رفیق
کاش مجھ کو تیری دنیا کا پتا دیتا کوئی
تو کہاں ہے مجھ کو اتنا ہی بتا دیتا کوئی
آگ کی منزل پہ تو میں خود تجھے پہنچا گیا
اس کے آگے کچھ نہ دیکھا میں نے شعلوں کے سوا
تو کہاں ہے اے مرے خاموش نالوں کی مکیں
ڈھونڈتی پھرتی ہے تجھ کو میری دنیائے حزیں
تو خدا جانے کہاں ہے اور کس عالم میں ہے
میں ہوں جس دنیا میں لیکن وہ سراپا غم میں ہے
یاد گاریں تونے چھوڑی ہیں جو دومیرے لیے
گرچہ قندیلیں ہیں دو وہ میری دنیا کے لیے
یہ بتا میں ان کو لیکن مطمئن کیوں کر کروں
چھیڑتی ہیں جب وہ تیرا ذکر ان سے کیا کہوں
جو بڑی ہے وہ تو میری مان بھی جاتی ہے کچھ
اس پہ جو گزری ہے آفت جان بھی جاتی ہے کچھ
آہ چھوٹی ہے جو لیکن اس کو سمجھائے تو کون
تو نہ واپس آسکے گی اس کو بتلائے توکون
جاں ہے ننھی سی مگر کس کرب سے لبریز ہے
نو دمیدہ اس کا یہ احساس کتنا تیز ہے
پوچھتی ہے مجھ سے اکثر ’کنتلا کب آئے گی‘
’اورجب
آئے گی تو میرے لیے کیا لائے گی‘
(’بیکراں‘ص143تا149)
ان اشعار میں جگن ناتھ آزاد نے اپنے غمزدہ دل میں اٹھتے
ہوئے طوفان کی صحیح عکاسی کی ہے۔ہر شعر میں ان کے خلوص وصداقت کی جھلکیاں موجود ہیں۔ان
کی شریک حیات کے غم نے انھیں ایک طرح سے معذور ومجبور اور نحیف ونزار بنادیا تھا۔آزاد
نے لفظیات اور تراکیب کے برمحل استعمال سے ایک مخصوص صدمے کو زندہ جاوید بنادیا ہے۔اس
طرح جگن ناتھ آزاد کاغم ان کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان کی شاعری کے قارئین
بھی اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کی حزنیہ
شاعری میں ان کا اپنا اور زمانے کا غم موجود ہے۔ ان لوگوں کا غم ہے جو 1947 کے خونی
واقعات کا شکار ہوئے۔گھر سے بے گھر ہونے کا غم،وطن سے بے وطن ہونے والوں کا غم اور
سب سے بڑا غم آزاد کے نزدیک زندگی اور انسان کا غم ہے کیونکہ زندگی نہ صرف تغیر پذیر
ہے بلکہ فانی بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں سوز وگداز اور غم واندوہ
کی کیفیات موجود ہیں۔
Dr.
Mushtaq Ahmed Wani
Asst. Professor, Dept of Urdu
Baba Ghulam Shah Badshah University
Rajouri - 185234 (J&K)
Mob.:
9419336120
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں