14/7/23

مختلف الجہات شخصیت ملک زادہ منظوراحمد:عادل احسان

 

پروفیسرملک زادہ منظور ا حمدکی شخصیت ہمہ جہت اور جامع الکمالات تھی۔ ملک زادہ منظور نے نظامت، شاعری، ادب، تنقید، صحافت، خاکہ، ناول، تذکرہ، نہ جانے کن کن موضوعات اور اصناف پر لکھا ہے، ملک زادہ منظور احمد کے کارناموں پر جس بھی زاویے سے گفتگو کی جائے ہر زاویہ فضل وکمال کے نئے باب کھولتا جائے گا۔ وہ ایک بہترین نثر نگار تھے، وہ ایسی خوبصورت اور دلکش، شگفتہ نثر لکھتے تھے جس نثر میں تصنع، بناوٹ اور آورد کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ اردو زبان وادب کے استادوپروفیسر ہونے کے ساتھ انگریزی زبان وادب سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا۔ ایک شاعر اور فکشن نگار کے طور پر بھی انھوں نے اپنی پہچان بنائی تھی۔ تحقیق وتنقید کے میدان میں بھی قیمتی کتابیں لکھی تھیں۔ ساری زندگی عوامی اور حکومتی سطح پر اردو زبان وادب کی آبیاری کرتے رہے۔اپنی موت تک اردو زبان وادب کے فروغ اور ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ اردو زبان کے تحفظ و بقا کے لیے ملک زادہ منظور احمد کی کوششیں، محنتیں اور جدو جہد ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہیں گی۔ ملک زادہ منظور احمد نے بہترین شاعری بھی کی، نظموں اور غزلوں میں افکار وخیالات کو پیش کیا۔ وہ شاعری میں بھی منفرد طرز اظہار کے مالک ہیں۔ملک زادہ منظور احمد کا شعری سرمایہ بہت زیادہ نہ ہونے کے باوجود اچھا ہے جو کچھ بھی ہے سراپا انتخاب ہے۔ان کی تمام حیثیتوں میں مشاعرے کی نظامت سب پر حاوی رہی۔ اردو دنیا میں آپ بحیثیت ناظم مشاعرہ مقبول رہے اور آپ کی یہ حیثیت اس قدر غالب رہی کہ اس نے ملک زادہ منظور کے دیگر ادبی پہلوؤں کو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا لیکن اردو زبان وادب کا طالب علم جب ملک زادہ منظور کی شخصیت اور حیات وخدمات کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے ان کی شخصیت اور خدمات کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ملک زادہ منظور احمد ان تمام صلاحیتوں اور خصوصیات کے ساتھ ایک کامیاب مدرس ومعلم بھی تھے۔ان کے کامیاب شاگردوں کی تعداد کافی ہے۔انھوں نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے بے شمار ذروں کو آفتاب وماہتاب بنادیا اور بہت سے قیمتی اساتذہ اور ادبا اردو دنیا کو عطا کیے۔انھیں نظم ونثر پر یکساں عبور حاصل تھا۔ماضی قریب میں اس طرح کی متنوع صفات اور جامع الکمالات شخصیتیں کم نظرآتی ہیں جن کے اندر بیک وقت قدرت نے اتنی خوبیاں رکھی ہوں۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمد بیک وقت اردو زبان و ادب کے معروف استاد،اچھے ناقد،کامیاب شاعر اور ایک عظیم ناظم مشاعرہ تھے۔انھوں نے اپنی نظامت کے فن سے مشاعروں کو ایک نئی بلندی عطاکی جس سے بعض مشاعرے بہت کامیاب ہوگئے اور بعض شعرا کو ایک نئی پہچان ملی۔ان کے اسی فن کی وجہ سے انھیں ایک کامیاب ناظم مشاعرہ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ ملک زادہ منظور اپنی آواز سے پورے ماحول کو اس طرح باندھے رکھتے تھے کہ سامعین خود کو دوسری دنیامیں پاتے تھے یا یوں کہیں کہ ان کی آواز سامعین کے دلوں پر راج کرتی تھی۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کے علم وفن کو پروفیسر خالد محمود اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اردو زبان و ادب کے معروف استاد،ذہین نقاد،اچھے شاعر اور بہت اچھے ناظم مشاعرہ تھے۔مشاعرے کی نظامت کو انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت سے فن بنادیا تھا۔ان کی آواز ان کے قد کی طرح بلند اور پاٹ دار تھی۔وہ بڑے اعتماد سے نظامت کرتے تھے۔ان کا اعتماد شعر وادب سے ان کی دلچسپی اور گہری واقفیت کا غماز تھا۔ان کے لہجے میں شائستگی اور فرخندگی کا امتزاج تھا۔جو بوقت نظامت سامعین کو بھلا معلوم ہوتا۔وہ جب شاعر کا تعارف کراتے تو ان کے انداز تعارف سے شاعر مسرور اور سامعین متاثر ہوتے۔‘‘    1

درج بالااقتباس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک زادہ منظور احمد کئی علم و فن میں ماہر تھے۔یہ اپنے علم و فن کو ماحول کے حساب سے استعمال کرتے تھے تاکہ اس کی چاشنی برقرار رہے اور سامعین اس سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اگر ان کے علم و فن کو سمجھنا ہے تو ہمیں ان کی تحریروں کا مطالعہ کرنا ہوگا تبھی اس کی تہہ تک جایاجا سکتا ہے اور ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھایاجا سکتا ہے۔کیونکہ وہ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے مشاعرے کی ضرورت اور موقع ومحل کے اعتبار سے فضا بندی نہایت ہی خوبصورت انداز میں کرتے ہیں جس سے قاری اس فضا کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکے گا۔

ملک زادہ منظور احمد اردو زبان وادب کے بہت بڑے شیدائی ہیں۔اردو زبان و ادب سے ان کا تعلق اس قدر ہے کہ یہ اس کو ہمیشہ بلندی پر لے جاناچاہتے ہیں تاکہ یہ زبان ہر خاص وعام پر اپنا غلبہ طاری کر سکے اور لوگ اس زبان سے لطف اندوز ہو کر اس طرف راغب ہوں۔ یہ اپنے ہر پروگرام میں زبان وبیان پر خاص طور سے توجہ دیتے ہیں۔جس سے عام قاری کو بھی تمام باتیں اچھی طرح سے سمجھ میں آجائیں اور وہ قاری اس زبان کی شیرینی سے پوری طرح تروتازہ ہو جائے۔ملک زادہ منظور احمد لفظوں کے استعمال اور واقعات کا نقشہ اس طرح پیش کرتے تھے کہ ساری چیزیں خودبخود آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتی تھیں۔ملک زادہ منظور احمد کی علمی بصیرت،خوبصورت اندازنظامت و خطابت اور صاف گوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فاروق ارگلی لکھتے ہیں:

’’ملک زادہ منظور احمد نے اردو شعر وسخن کی تاریخ میں اردو زبان کا عوامی اور تمدنی ادارہ ’مشاعرہ‘ کو اپنی غیر معمولی علمیت، بے کراں بصیرت،خوبصورت انداز خطابت اور پر اثر بلاغت کے ذریعے جو اعتبارووقار بخشا ہے وہ عدیم النظیر ہے،یہ بات دنیائے اردو میں مسلسل ہونے والے مشاعروں کے سامعین سے لے کر اس عہد کے تمام مقتدر اور جید ادبا، شعرا،ناقد ین کی دو نسلیں تسلیم کر چکی ہیں کہ اس فن میں کوئی ثانی نہ پہلے ہوا نہ اب ہے۔مستقبل میں بھی اس کی توقع اس لیے محال ہے کہ دور ساز شخصیتیں کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔یہ امر واقعہ ہے کہ مشاعروں کی نظامت کے وسیلے سے ملک زادہ منظور احمد نے اردو زبان، تہذیب اور اس کی آفاقی ثقافت کو جو بلندیاں عطا کی ہیں اور اس فن لطیف کو جس طرح تمدنی روایات واقدار کے احیا کی اساس بنایا ہے،ان کا مماثل فی الحال رُوئے ادب میں موجود نہیں ہے۔‘‘  2

اردو زبان وادب میں ایسے بے شمار ناقد گزرے ہیں جنھوں نے اپنے قلم کے جوہر سے اس میدان میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔اسی میدان کے ایک علمبردار ملک زادہ منظور احمد بھی ہیں جنھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت سے بہت سے ادیبوں اور شاعروں پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں اور انھیں اپنی کتاب ’شہر ادب‘ میں جگہ دی ہے۔اس کتاب میں نظیر اکبر آبادی، سید احتشام حسین، فراق گورکھپوری،منور رانا،سلیم جعفر وغیرہ جیسے ادیبوں پر اپنے خیالات و تصورات پیش کیے ہیں۔

پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور ان کی تحقیق کا موضوع ’مولانا ابوالکلام آزادفکر وفن ‘ تھا۔ملک زادہ منظور احمد نے اپنے تحقیقی مقالے میں جس طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیفات کا جائزہ لیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔چونکہ ان کو شروع سے ہی مولانا ابولکلام آزاد سے دلچسپی تھی اور یہ ان کی تحریروں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ملک زادہ منظور احمد کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر امام قادری رقم طراز ہیں

’’ابوالکلام آزاد کے سلسلے سے پہلے ملک زادہ منظور احمد نے جس تحقیقی اور تنقیدی کام کی داغ بیل رکھی،اس کی اساسی حیثیت اس بات سے سمجھنا چاہیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی میںان کی خدمات کے تعلق سے مضمون نویسی یا کتابی شکل میں کاموں کے تعارف وتنقید کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ 1958 میں وفات کے بعد ہی باضابطہ طور پر ابوالکلام آزاد کی علمی خدمات کے احتساب کا سلسلہ قائم ہوا۔ابتدائی دور میں قاضی عبدالغفار،محمد عتیق صدیقی اور مالک رام صاحبان کی خدمات بے شک وقیع ہیں لیکن اس کے بعد جن لوگوں نے ان سے بہتر علمی کام مکمل کیے،ان میں ملک زادہ منظور احمد اور پھر ابوسلمان شاہجہاں پوری،عبدالقوی دسنوی،ظ۔انصاری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں کیونکہ ان سب نے اس علمی سلسلے کو آگے بڑھایا۔ملک زادہ نے ابوالکلام آزاد کی ادبی شخصیت کو اجمال میں دیکھنے کی کوشش کی،سیاست اور مذہب سے علاحدہ ادب اور صحافت کے موضوعات کو زیادہ توجہ کے ساتھ موضوع بحث بنایا۔اسی وجہ سے ابوالکلام آزاد کے مجموعی علمی کام کی قدر وقیمت متعین کرنے میں ان کی کوششوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ان کی کتاب ’مولاناابوالکلام آزاد فکر و فن‘حقیقت میں ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو محمود الٰہی صاحب کی نگرانی میں گورکھپور یونیورسٹی میں مکمل ہواتھا۔‘‘  3

مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی خدمات کے تمام پہلوؤں پر ملک زادہ منظور احمد نے روشنی ڈالی  ہے۔انھوں نے ان کی انسان دوستی، مذہب،سیاست،صحافت اور ادبی دنیا کو جس نظر سے دیکھا اس کی ہو بہو تصویر پیش کرنے کی پوری کوشش کی جس سے ان کی حقیقی زندگی ہر خاص وعام کو معلوم ہوسکے اور اپنے اندر بھی انسان دوستی اور وطن پرستی کو محسوس کر سکیں۔ملک زادہ منظور احمدنے ان کی تخلیقات سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا یا اور ان کی تحریروں کو اپنے کلام میں ضم کر لیا جس سے ان کی تصانیف میں ایک نئی روانی پیدا ہو گئی۔مولاناابوالکلام آزاد نے جس طرح اپنی تصانیف میں سادہ اور عام فہم لفظوں کو جگہ دی ہے۔اسی طرح ملک زادہ منظور احمد نے بھی اپنی تحریروں میں سادہ اور عام فہم لفظوں کا استعمال کیا ہے۔جس سے عام قاری کو دشواری نہ ہو۔

غبار خاطرکا تنقیدی مطالعہ‘ملک زادہ منظور احمد کی دوسری تصنیف ہے۔انھوں نے اس کتاب میں مولانا آزاد کے خطوط،الہلال والبلاغ، تذکرہ، قول فیصل، ترجمان القران کے ساتھ ان کے اسلوب پر بحث کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی ساری تخلیقات کا بہت ہی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھااور ان کے اسلوب سے اپنی تحریروں کو نئی بلندی عطا کی۔ ملک زادہ منظور احمد نے جس طرح کا اسلوب اپنایا اس سے ان کے فن کو نئی بلندی ملی اور ان کے فن میں نکھار آیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی فلسفیانہ صلاحیت کو جس خوبی سے پیش کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ملک زادہ منظور احمد نے ان کے فن کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالی ہے اور ان کے اسلوب کو بڑی حد تک اپنی تحریروں میں اپنایا ہے۔غبار خاطر کے اسلوب پر بحث کرتے ہوئے ملک زادہ منظور احمد لکھتے ہیںـ

’’ مولانا کے یہاں انشا پردازی کے ایک سے زیادہ اسالیب ملتے ہیں،اور ان کا اسلوب تحریر موضوع کے ساتھ بدلتا رہتا ہے،اگر ہم ترتیب و تاریخ وار ان کی تحریروں کو پڑھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے انداز و اسلوب کا بڑا ہموار ارتقا ہواہے،ان کی شاندار اور پر اثر و پر شکوہ نثر الہلال اور البلاغ تک رہی لیکن غبار خاطر اور کاروان خیال کا اسلوب دوسرے مؤثرات خارجی کا نتیجہ ہے۔اسی لیے اس میں ادب کی گل کاریاں ہیں،تذکرہ میں ان کی طبیعت کا وہ نقشہ ہے جو انھیں موروثی طور پر ابتدائی ماحول سے ملا،لیکن غبار خاطر میں وہ رنگ ہے جو اکتساب اور ریاضت کے ذریعہ دن بہ دن نکھرتا اور سنورتا رہا ہے۔ ‘‘  4

ملک زادہ منظور احمد نے نظیر اکبر آبادی کے شاعرانہ کمالات کو نئے زاویے سے جانچا اور اسے نیا مقام دیاہے۔ نظیر اکبر آبادی نے جس طرح اپنی غزلوں اور نظموں میں عام انسانوں کی زندگی کو پیش کیا ہے۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ان کی بہت عزت تھی۔یہ صرف روایات وخیالات کے ہی نہیں بلکہ واقعات وحادثات کے بھی شاعر تھے اور اپنے کلام کو محبت کی سنی سنائی روداد سے پاک رکھتے تھے۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک حساس اور زندہ دل انسان تھے اور انسانی زندگی میں جنس اور جذبے کی جو اہمیت تھی اس کو وہ ہمیشہ فوقیت دیتے تھے۔وہ جس طرح کے واقعات، مشاہدات اور انداز بیان کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے تھے۔اس سے پوری فضا میں ایک رنگینی پھیل جاتی تھی جو ماحول کو خوشگوار بنانے میں بڑی مدد کرتی تھی۔نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر ملک زادہ منظور احمد اپنے خیالات ونظریات اس طرح پیش کرتے ہیں

’’ نظیر چونکہ روایات وخیالات کے نہیں بلکہ واقعات وحادثات کے شاعر تھے اس لیے انھوں نے اپنی غزلوں میں نہ تو محبت کی سنی سنائی روداد بیان کی اور نہ عاشق کی اس ناتجربہ کاری اور شرمیلے پن کو ابھارا جو اس عہد کی اردو غزل کا معمول بن گیا تھا۔وہ ایک حساس اور زندہ انسان تھے اور انسانی زندگی میں جنس اور جذبے کی جو اہمیت تھی اس کا عرفان رکھتے تھے۔وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ محض حسن بیان اور عروض کے معیارات کسی ادب کی پرکھ نہیں بن سکتے۔ ‘‘   5

 اردو ادب میں ملک زادہ منظور احمد کی حیثیت ایک کامیاب شاعر کی ہے۔انھوں نے اپنی شاعری سے جس طرح عوام کو جوڑا ہے وہ ایک مثال ہے۔چونکہ ان کا صرف ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر آیاجس کا نام ’شہر ستم‘ہے۔اس شعری مجموعے نے ہر خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔وہ جس طرح مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کئی شعری مجموعے ہونے چاہیے۔

عشق وعاشقی میں محبوب کے جذبات کی ترجمانی اس طرح پیش کرتے ہیں       ؎

چاند میں دیکھا تیرا چہرہ،پھول میں تیرا روپ

شمع جلی ہے تو پھیلی ہے تیرے بدن کی دھوپ

میٹھا درد جگا دیتی ہے کوئل کی ہر کوک

ساون ساون چوٹ لگی ہے جیٹھ جیٹھ پروائی

یاد تمھاری آئی ساجن جب بھی گھٹا لہرائی   

رقصِ شرر ‘ملک زادہ منظور احمد کی شاہکار تصنیف ہے۔ اس میں انھوں نے اپنی زندگی کے سبھی پہلوؤں پر گفتگو کی ہے اور ہر پہلو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ منظر عام پر لائے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں جس طرح کی روداد بیان کی ہے اس میں بڑی حد تک سفر نامے کا عکس جھلکتا ہے لیکن در حقیقت یہ ان کی خود نوشت ہے۔ ملک زادہ منظور احمد نے رقصِ شرر میں اس دور کی تاریخ کے ساتھ ایک نسل اور عہد کے عروج وزوال کی داستان بھی بیان کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تمام واقعات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ،عہدبہ عہد سارے واقعات وحالات سامنے آجاتے ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو ملک زادہ منظور احمد نے اپنی خودنوشت رقصِ شررمیں جس طرح کی فکری وفنی صلاحیت کو پیش کیا ہے۔اس میں بڑی حد تک ان کا اسلوب کا رفرما رہا ہے۔وہ جس طرح کا اسلوب اپنی تحریروں میں استعمال کرتے ہیں۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اس فن میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کی خودنوشت رقص ِشرر کے اسلوب پر بحث کرتے ہوئے پروفیسر ظفر احمد صدیقی رقم طراز ہیں

’’ملک زادہ کی نثری تصانیف متعدد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے،لیکن ان میں شاہکار کا درجہ ’رقصِ شرر‘ کو حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ ایک عہد آفریںکتاب ہے۔اس کا سب سے پہلا امتیاز اس کا دلکش نثری اسلوب ہے وہ ساحرانہ اسلوب جس کے ابتدائی نمونے ہمیں ’شہر سخن‘میں نظر آتے ہیں ’رقصِ شرر‘اس کانقطۂ عروج ہے۔خود مصنف نے اسے خودنوشت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔اس لیے یہ عرض کیا جاتا ہے کہ اردو کی نمائندہ اور قدر اول کی حامل آپ بیتیوں کی کتنی ہی مختصر فہرست کیوں نہ بنائی جائے ’رقصِ شرر‘ کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔ ‘‘    6

اس مختصر سے مقالے میں ان کی گوناگوں اور کثیرالجہات خدمات میں سے چند چیزوں کااجمالاًذکر کیا گیا ہے۔اوپر ذکر کیے گئے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اپنے وقت میں اردو زبان وادب کی ایک ایسی شخصیت تھے جنھیں اپنی زبان سے حد سے زیادہ لگاؤ تھا اور وہ اس کے فروغ وترقی کی خاطر ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی اردو زبان وادب میں عظیم الشان اور گراں قدر خدمات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم انھیں اردو زبان وادب کا عظیم محسن اور شیدائی کہہ سکتے ہیں۔

حواشی

  1.      تفہیم وتعبیر: خالد محمود، نور پرنٹنگ ایجنسی، سوئیوالان، دہلی، 2017، ص187
  2.      اردو ہے جن کا نام: فاروق ارگلی، ایم آر پبلی کیشنز، دہلی، 2010،ص 204
  3.  ملک زادہ منظور احمد شخصیت اور فن، ترتیب و تدوین: حکیم نازش احتشام اعظمی، اصلاحی ہیلتھ فاؤنڈیشن، نئی دہلی، 2016، ص 114
  4.       غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ: ملک زادہ منظور احمد، ساجد صدیقی بک سیلر اینڈ پبلشرز، لکھنؤ1971، ص145-46
  5.       انتخاب غزلیات نظیر اکبر آبادی، مرتبہ: ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، اترپردیس اردو اکادمی، لکھنؤ1983، ص11
  6. ملک زادہ منظور احمد شخصیت اور فن، ترتیب و تدوین: حکیم نازش احتشام اعظمی، اصلاحی ہیلتھ فاؤنڈیشن، نئی دہلی2016، ص20

 

Dr. Adil Ehsan

Dept of Urdu, B N Digree College

Near Bus Stand

Anjhi Railway Station Road, Ahah Abad

Hardoi - 241124 (UP)

Mob.: 8802188589

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...