اثر انصاری صاحب کاپورا نام ابوبکر انصاری ہے اور ادبی دنیا
میں اثر انصاری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اثر انصاری کی پیدائش یکم جنوری 1923 کو مئو
ناتھ بھنجن کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور یہ شہر ایک عرصے سے صنعت پارچہ بافی میںہندوستان
اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک شناخت ر کھتا ہے۔ان کے والد محمد مصطفی صفا اس وقت
کے جید عالم اور مشہور شاعر تھے۔ گویا کہ اثر صاحب کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ان کی
ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اثر صاحب نے ہائی اسکول 1943-44 میں جیون رام انٹر کالج
سے پاس کیا۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک تعلیمی سلسلہ منقطع رہا، پھر کسی طرح 1945-46 میں
گوورنمنٹ کالج الہ آباد سے انھوںنے انٹر میڈیٹ پاس کیا۔ اس کے بعد نامساعد حالات نے
ان کے آگے کی تعلیم مسدود کردی۔ علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی کاموں سے انھیں خاصی
دلچسپی تھی۔
اثر صاحب کا کارو باری مشغلہ تجارت ہے، ان کا فارم ـ’فائن
ٹیکس‘ ادبا و شعرا کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ یہاں پر مئو کے نامور شعرا اکٹھا ہوتے
تھے اور محفلیں سجتی تھیں۔ دانشکدہ اردو لائبریری کے صدر اور بزم ادب مئو ناتھ بھنجن
کے سکریٹری بھی رہے۔ ’نوائے دارالعلوم ‘ اور نکھار میگزین کے مدیر اعزازی بھی رہے۔
مشاعروں میں کم شامل ہوتے تھے۔، والد بزرگوار سے چھپ کر شاعری کرتے تھے لیکن بعد میں
ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔
اثر انصاری کی ادبی خدمات اثر انصاری کا تخلیقی اور ادبی سفرتقریباً ساٹھ
سالوں پر مشتمل ہے ان ساٹھ سالوں میں انھوں نے جو کچھ لکھا اس میں بہت سا کلام ضائع
ہو گیا لیکن جو کچھ محفوظ رہ گیا وہ درجہ ذیل تصنیفات وتالیفات میں شامل ہے ان کا پہلا
شعری مجموعہ ’کم و کیف‘ اور آخری مجموعہ ’ نوائے سروش‘ ہے۔ اسی طرح نثر میں ان کی
پہلی کتاب ’سفر حج کے شب و روز‘ اور آخری
کتاب ’اردو شاعری میںہندو تہذیب کی عکاسی ‘ہے۔
کم و کیف یہ اثرانصاری کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو 1974میں
شائع ہوا اور جس میں 1962 سے 1972 تک کی غزلیں شامل ہیں اس مجموعے میں کل 78 غزلیں
اور سترہ قطعات شامل ہیں۔
افکار پریشاں یہ اثر انصاری کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو صرف غزلوں
پر مشتمل ہے،یہ 1980 میں شائع ہوا آپ کی غزلیہ شاعری کا بہترین نمونہ ہے اس مجموعے
میں 1955 سے1960 تک کی غزلیں اور کتاب کے ابتدائی صفحات میں 1974 سے 1980تک کی کچھ
غزلیں شامل ہیں یہ مجموعہ کل ایک سو گیارہ غزلوں پر مشتمل ہے۔
زبان غزل یہ اثر انصاری کا تیسرا مجموعہ کلام ہے جو 1987میں
شائع ہوا اس میں کل اکسٹھ غزلیں ہیں اس مجموعے میں شامل غزلیں ’کم و کیف‘ اور ’افکار
پریشاں ‘ میں شامل غزلوں کے مقابلے زیادہ پختگی اور فنی بالیدگی سے پر ہیں جو اثر انصاری
کے تخلیقی ارتقا کو سمجھنے میں معاونت کرتی ہے۔
آئینہ در آئینہ یہ اثر انصاری کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو صرف نظموں
پر مشتمل ہے یہ مجموعہ1992میں شائع ہوا جس میں 1942 سے 1992 تک کی نظموں کا انتخاب
شامل ہے جس میں ایک نعت اور مختلف موضوعات پر لکھی گئیں 48 نظمیں ہیں مختلف علمی اور
ادبی وسیاسی شخصیات پر لکھی گئی بارہ اور چھ نظمیں ایسی ہیں جو مختلف اداروں پر لکھی
گئی ہیں۔
پیراہن گل یہ اثر انصاری کا پانچواں شعری مجموعہ ہے جو
1997 میں شائع ہوا اس مجوعہ کلام میں ایک حمد پاک ایک عدد نعت شریف کے علاوہ کل 59
غزلیں شامل ہیں اس مجموعے کی غزلوں میں عصری حسیت اور فکرو فن کی پختگی پچھلے مجموعوں
کے مقابلے میں کافی توانا ہے۔
سفر حج کے شب و روز یہ اثر انصاری کی پہلی نثری تصنیف ہے جو 1980 میں
شائع ہوئی یہ در اصل ان کے پہلے سفر حج (1979)کی ڈائری ہے جس میں انہوں نے ایام حج
کے حالات و واقعات کو بڑے دلکش انداز میں قلم بند کیا ہے۔
تذکرئہ سخنوران مئو یہ اثر انصاری کی دوسری نثری تصنیف ہے جو لکھی تو
بہت پہلے گئی تھی لیکن 1980 میں شائع ہوئی اس میں کل اکیاون شعرا کے تذکرے ہیں یہ کتاب
مئو ناتھ بھنجن کی علمی، ادبی اور تہذیبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
دبستان شبلی کے نامور انشا پرداز یہ اثر انصاری کی تیسری نثری تصنیف ہے جو 1990 میں
شائع ہوئی اور جس میں دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے وابستہ بعض علمی ادبی شخصیات کے تصنیفی
اور تالیفی کارناموں کا تعارف اور ان پر سیر حاصل بحث کے ساتھ ان کے ادبی و تنقیدی
مقام و مرتبے کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب اثر انصاری کی نثری اور ان کے
تحقیقی اور تنقیدی نقطئہ نظر کا عمدہ نمونہ ہے۔
اردو شاعری میں ہندو تہذیب کی عکاسی: یہ اثر انصاری کی اہم ترین تحقیقی اور تنقیدی کتاب ہے جو 2001 میں شائع ہوئی اس کتاب میں اثر انصاری نے بڑی دیدہ ریزی سے اردو کی ان شعری تخلیقات کا انتخاب اور ان کا تجزیہ پیش کیا ہے جس میں ہندو تہذیب اور مذہب و عقائد اور شخصیات کا بیان پایا جاتا ہے۔
نوائے سروش: یہ اثر ا نصاری کی حمد و نعت کامختصر ترین انتخاب
ہے اور اس کو ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی صاحب نے ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب کل پانچ حمد اور
چودہ نعت شریف و سلام پر مشتمل ہے۔ کتاب کے شروع میں مرتب نے اثر انصاری کی حمدیہ اور
نعتیہ شاعری پر ایک مختصر دیباچہ بھی قلم بند کیا ہے۔ یہ کتاب 2001 میں شائع ہوئی ہے۔
(اثر
انصاری حیات ا ور خدمات، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، ص145-47)
اثرانصاری بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ اس کا سبب صرف
یہ نہیں کہ ان کا بیشترشعری سرمایہ غزل کی ہیئت میں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس تہذیبی
ماحول کے پروردہ ہیں۔ ان کی شخصیت کا بہترین اظہار غزل کے ہی پیرایے میں ہو سکتا تھا۔
کیونکہ غزل کی صنف ان کے مزاج اور طبیعت کے عین مطابق ہے۔
اثر انصاری کی غزلوں کے تنقیدی جائزے کے لیے اردو غزل کے
ارتقا پر بھی نظر ڈالنی ہوگی تاکہ اس کے تناظر میں اثر انصاری کی غزلیہ شاعری کی اہمیت
اور اس کے شعری و فنی مقام و مرتبے کا صحیح صحیح ا ندازہ کیا جا سکے۔ اور ایسا کرنے
کے لیے اردو غزل کی تاریخ کا اجمالی جائزہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(اثرانصاری حیات اور خدمات، ڈاکڑ ایم نسیم اعظمی، ص153)
’کم
و کیف ‘ گو طباعت کے لحاظ سے نقش اول ہے تا ہم یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے اس میں
1962 سے 1972 تک کی غزلوں کا انتخاب پیش کیا
گیا ہے اس مجموعے سے اثر صاحب کی غزل گوئی کی تمام خوبیاں سامنے آجاتی ہیں، فنی لحاظ
سے جہاں یہ ان کا بہترین مجموعہ ہے وہیں فکری لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، موضوعات
میں تنوع ہے فکر میں بلندی ہے، روایت کے ساتھ جدت کے عناصر بھی جلوہ گر ہیں، خود اعتمادی
اور بلند آہنگی سے تخیل کو شعر کا جامہ پہنانہ اور فنکارانہ بصیرت کے جلوے اپنی تمام
تر رعنائیوں کے ساتھ اس مجموعے میں موجود ہیں۔
اثر انصاری کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ان کا تغزل ہے وہ
ہر قیمت پر اسے برتتے اور عزیز رکھتے ہیں، یہی تغزل ان کی غزلوں میں ذوق وجدان کو متاثر
کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، سوزو گداز اور سلیقۂ اظہار قاری کے وجدان میں تحریک پیدا کر
دیتے ہیں کسی شاعر کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ ا س کا کلام سامع کے د ل و دماغ میں
ارتعاش پیدا کردے، اثر صاحب کے کلام میں یہ قوت بدرجہ اتم موجود ہے، چند اشعار ملاحظہ
ہوں ؎
تاج داری کی تمنا شہر یاری کی بات
آدمی کو کھا گئی سرمایہ داری کی
ہوس
بتاؤکچھ غم دوراں کی تلخیوں کا علاج
میں باز آیا مئے خوشگوار پینے سے
مجھ کو دیکھو، مجھے سمجھو، مری فریاد سنو
نقش ہوں صفحۂ ہستی پہ گواہی کی
طرح
’کم
وکیف‘ اور ’افکارپریشاں‘ کے بعد اثر صاحب کا تیسرا شعری مجموعہ ـ’زبا
ن غزل‘ شائع ہوا، پہلے کی شاعری کے مقابلے میں ان کے بعد کے کلام میں زیادہ پختگی،
زیادہ فنی شعور، زیادہ حسن و لطافت، زیادہ دلکشی، زیادہ تنوع اور زیادہ رعنائی و زیبائی
ہے، اصلاً یہ مجموعہ اثر صاحب کی شاعری کے دور شباب کا نمونہ ہے، چند اشعار ملاحظہ
ہوں ؎
خود اپنی ذات سے انسان بے خبر کیوں ہے
شعور دیدہ وری ہے تو کم نظر کیوں
ہے
مصلحت اندیشیوں میں دب گئی آواز حق
کون میری جرات شعلہ بیانی لے گیا
زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے مگر اب تک
تمھاری یاد دعائے سحر میں رکھتا
ہوں
صلہ ملے نہ ملے اپنی خوش بیانی کا
کھلا ؤ پھول مگر حکمت و معانی
کا
یوں تو اثر انصاری صاحب کے مختلف
شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، انھوں نے خاص طور پر صنف غزل میں خوب زور آزمائی کی
ہے اور ان کی بہترین غزلوں کا مجموعہ ’زبان غزل ہے‘ جو1987میں منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ان کے
دیگر مجمو عے ’ کم و کیف‘ 1974، ’افکار پریشاں‘ 1980، ’آئینہ در آئینہ‘ 1992 ’اور پیراہن گل‘ 1997میں شائع ہو چکے ہیں۔ حمد اور نعت کا مجموعہ
’نوائے سروش‘ کے نام سے دادِ سخن حاصل کر چکا ہے۔ نثری کتب میں ’سفر حج کے ’شب و روز
‘ (سفر نامہ) 1979، ’تذکرئہ سخنوران مئو‘
(مئو کے شعرا کا تذکرہ) 1981،’دبستان شبلی
کے نامور انشا پرداز‘ 1990 اور’اردو شاعری میں ہندو تہذیب کی عکاسی‘ 2001میں شائع ہونے
والی نثری کتب میں شامل ہے۔
انصاری صاحب کی ہمہ گیر شخصیت اور ادبی خدمات پر اب تک مختلف
اعزازات و انعامات سے انھیں نوازا جا چکا ہے۔ اتر پردیش اردو اکادمی سے ان کی تصانیف
پر متعدد ایوارڈ ملے ہیں۔ آل انڈیا میر اکادمی نے ’امتیاز میر‘ سے دانشکدہ اردو لائبریری
نے ’ہلال دانش‘ کے اعزاز سے سر فراز کیا اور نکھار پبلیکیشن نے انھیں ان کی خدمات پر
نکھار ادبی ایوارڈ (گولڈ میڈل) سے سرفراز کیا ہے۔
اثر صاحب کی پسندیدہ صنف غزل ہے۔غزل گو شاعروں میں انھیں
اصغر گونڈوی اور حسرت موہانی بہت زیادہ پسند ہیں اور نظموں میں جوش اور اقبال نے انھیں زیادہ متاثر کیا ہے۔ جب ہم ا ثرانصاری
کی غزل گوئی کاجائزہ لیتے ہیں تو روایت اور جدت پسندی کا خوبصورت امتزاج پاتے ہیں۔
اس سلسلے میں ان کی غزل ’زبان غزل ‘ سے چند
شعر ملاحظہ ہوںـ ؎
غزل ثقافت و تہذیب کا حسیں سنگم
روایتوں میں بھی جدت ضرور چھاہے
ہے
بیان حسن و عزت کے ساتھ ساتھ غزل
نزاکت غم
ہستی ضرور چاہے ہے
(زبان غزل، ص8)
اثر انصاری کے یہاں بھی حسن و عشق اور حسن و شباب کے متعلق
کو ا ئف سے بھر پور اشعار پائے جاتے ہیں
؎
اندازئہ شباب کہاں تھا شباب میں
خالی رہی
فریب نظر انتخاب میں
(اثر
انصاری فکرو فن کے آئینے میں، ص59)
غزل کا وسیلہ اظہار ان کے تخلیقی
تجربوں کو راس آتا ہے۔ وہ شعر غزل یا تخلیقی اکائی میں اپنے فکروفن کے جوہر دکھاتے
ہیں اور اسی پیمانہ صفات میں اپنی مجروح اناؤں، ناآسودہ خوابوں اور نیم جاں ارادوں
کے جلوے بکھیر تے ہیں۔ زندگی کی آہنی دیواروں سے ٹکرانے اور چلچلاتی دھوپ میں سفر
کرنے سے انساں کی جو نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ اس کا اظہار بھی زبان غزل میں کرتے ہیں۔
اثر کی شاعری کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرکے اندر اور باہر کا موسم ایک ساہے،یہی
وجہ ہے کہ ’زبان غزل‘ میں روایت بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہ بولتی ہوئی روایت
نئی زندگی سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بے قرار نظر آتی ہے۔
ان کے یہاں عرفان و تصوف کی ایک
ہلکی سی لہر بین السطور میں پڑھی جا سکتی ہے۔ وہ ظاہر و باطن کے فرق کو جانتے ہیں اور اخلاق و اوصاف باطن کے ادراک کے باوجود
حقائق سے آنکھ بند نہیں کرتے ؎
آدمی کوئی ہو چہرے سے نہ پر کھا جائے
کیا ضروری ہے کہ اندر بھی ہو باہر
جیسا
(زبان غزل، ص23)
اثر انصاری صاحب نے حسن و عشق کی بھی بات کہی ہے، اس
کے بغیرتغزل کا سفر ممکن کب ہے لیکن وہ قریب رہ کر بھی کچھ دور دور رہنے کی لذت کے
شناسا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوری اور قربت کا رشتہ عرفان کے رشتے کی پہچان ہے اور یہی
محبت کا درد بنتا ہے اور مسرت کی حسی کیفیات میں غم کی آمیزش وذوق نظر پیدا کرتا ہے
اور اسی غم کی آنچ میں گھل کر جذبہ عمل اور عشرت و جد و جہد کا ظہور ہو تا ہے ؎
ساتھ رہ کر بھی نہ احساس ہوا قربت کا
فاصلہ باقی ہے لب تک مہ و اختر
جیسا
ذہن پر یادوں کا اک دھندلا سا سایہ چھوڑکر
وقت اپنے ساتھ ماضی کی کہانی لے
گیا
اثر انصاری صاحب نے اپنی غزلوں
کے ذریعے تاثر اور طنز کا کام بھی کیا ہے۔ انھوں نے اچھوتے خیال اور موثر تجربے سے
سجاکر بعض پیکر ایسے تراشے ہیں جو حقیقی اور علامتی شاعری کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
اثر صاحب نے وقت کے تقاضوں کا بہت خیال رکھا ہے اور زندگی کی تابناکی کو بھی دیکھا
ہے اور عمل و یقین کی بھی بات کی ہے
؎
سورج کی روشنی کو مقید تو کرلیا
دل کا سیاہ خانہ منو ر نہ
کر سکے
تم کسے الزام دو گے آدمی کی بھیڑ میں
آلگا سر پر کوئی پتھر اگر پھینکا ہوا
زبان غزل کے مطالعے سے یہ بات صاف
ظاہرہو جاتی ہے کہ اثر صاحب ایک کلاسیکی شاعرہیں۔ آپ کی تمام تر شاعری فیشن پرستانہ نقالی سے پاک ہے، بلکہ اس میں احساس
و جذبات کی صداقت اور عصری آگہی کے عناصر ملتے ہیں اور صحیح معنوں میں آپ کی تمام
تر غزلیں اس پر استوار ہیں اور آپ کا شعر حیات انسانی کی ترجمانی کر تا ہے۔
ان کی غزلیں روایات کی لطیف ترجمانی کرتی ہیں اور جدید رنگ
و آہنگ میں قوس و قزح کے خوبصورت رنگ بھی بکھیرتی ہیں۔ اثر انصاری کی غزلیں سوزو گداز،
عصری حسیت اور خیالات کی رعنائیوں کے ساتھ فنی تنوع سے آراستہ ہیں۔ ’افکار پریشاں
‘ سے’پیراہن گل‘ تک کا ان کا شعری سفر تقریباً نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ ’پیراہن گل‘
کی منزل تک آتے آ تے ان کے اشعار میں فنی
شعور کی پختگی، مہارت حسن بیان کی خوبی، اور اس کی دلکش فکر و نظر کے پھول کھلاتی ہیں۔
کلاسکی رچاؤ جذبے اور احساس کے ساتھ اظہار بیان کی لطافطوں اور ندرتوں سے مزین ان
کی غزلیں ذہن و دل کے دریچے وا کردیتی ہیں
؎
کیا چمن میں کوئی
پیراہن گل چاک ہوا
عطر میں ڈوبی ہوئی باد صبا لگتی ہے
ہم بھول نے والے کو بہت یاد کریں
گے
ایک خاص تعلق تھا محبت کے سبب کا
تیری نظروں سے بھی ملتا ہے بہاروں
کا سراغ
کیا ضروری ہے نسیم سحری کے ساتھ رہے
(اثر
انصاری پر چندتحریریں، ڈاکڑایم نسیم اعظمی، ص106-7)
غرض اثر صاحب نے اپنی شاعری میں مختلف فکرو انداز کو برتا
ہے جو ان کی وسعت نظری اورذات و کائنات کے گہرے مطالعے و مشاہدے کی وجہ سے ممکن ہو
سکا، ان کے کلام کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم ان کی شاعری اور کلام سے ان کے
عہدکی ایسی تصویر یں بنا سکتے ہیں جو یقیناً سچی اور جیتی جاگتی ہوںگی اور یہی ان کی
شاعری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
ماخذ
- اثر ا نصاری حیات ا ور خدمات، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، عدیلہ پبلی کیشنز، ڈومن پورہ، مئوناتھ بھنجن، یوپی، 2007
- اثرانصاری فکر و فن کے آئینے میں، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، نکھار پبلی کیشنز، ڈومن پورہ مئوناتھ بھنجن، یوپی،1998
- اثرانصاری پر چند تحریریں، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، عدیلہ پبلی کشنز، ڈومن پورہ، مئوناتھ بھنجن، یوپی،2011
- نقد سخن، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، عدیلہ پبلی کیشنز، ڈومن پورہ، مئوناتھ بھنجن، یوپی،2010
- تذکرئہ سخنوران مئو، ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی، نکھار پبلی کیشنز، ڈومن پورہ مئوناتھ بھنجن، یوپی،1998
- کم و کیف، اثر انصاری، اسرار کریمی پریس الہ ا ٓباد، 1974
- افکار پریشاں، اثر انصاری، نکھار پبلی کیشنز، مئوناتھ بھنجن، یوپی،1980
- زبان غزل، اثر انصاری، نکھار پبلی کیشنز، مئوناتھ بھنجن، یوپی،1987
- آئینہ در آئینہ، اثرانصاری، نکھار پبلی کیشنز، مئوناتھ بھنجن، یوپی، 1992
- پیراہن گل، اثر انصاری، سرفراز آفسیٹ پریس مئو، 1997 ّٗٗٗ
Dr. Atiqur Rahman
Assistant Professor of Persian
Dept. of Arabic, Persian, Urdu & Islamic Studies
Bhasha Bhavana,Visva-Bharati
(A Central University)
Santiniketan, West Bengal, India
Mobile: 9635193411
Email: atiqura044@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں