اردو رسائل میں عموماً ان ادبی مباحث اور مسائل پر زیادہ ارتکاز ہوتا ہے جن سے عوام یا معاشرے کا زیادہ گہرا رشتہ نہیں ہوتا۔ اردو زبان کے تعلق سے جو بھی گفتگو ہوتی ہے ان سے حقیقی صورتِ حال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ زبان کی زمینی صورت حال کیا ہے اس سے آگہی کے لیے ضروری ہے کہ تحریکات و رجحانات کے بجائے ان بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے جن کا زبان کے فروغ اور تحفظ سے تعلق ہے۔ عموماً اردو کے حقیقی مسائل سے اجتناب کیا جاتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ کن کن علاقوں میں اردو کی حقیقی صورتِ حال کیا ہے؟
ماہنامہ
’اردو دنیا‘ میں سوال نامے کے ذریعے دراصل اردو زبان کے بنیادی مسائل سے واقفیت حاصل
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیم،
تدریس اور دیگر سطحوں پر اردو زبان کی صورت حال کیا ہے اور وہاں کس طرح کی دشواریاں
اور مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جب تک اردو زبان کے بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے غور نہیں
کیا جائے گا تب تک اردو زبان کے تحفظ اور بقا کے لیے مربوط لائحہ عمل تیار کرنا مشکل
ہوگا۔
سوال زبانوں
کی موت کی وجہ کیا ہے؟
جواب بہت
سی ایسی زبانیں جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں، کہانیوں، گیتوں اور تاریخی روایات
سے بھرپور ثقافت کے خزانوں سے مالامال ہیں، لیکن ان کا اگلی نسل تک منتقل ہونا دشوار
ہوچکا ہے، کیونکہ ان کے پاس تحریری صورت میں کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ زبانیں مٹ گئیں تو
یہ انمول خزانہ بھی معدوم ہوجائے گا۔زبانیں ہی ثقافت کی محافظ ہیں، زبانوں کے بولنے
والے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار ا ن ہی زبانوں کے ذریعے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ
کسی خاص ثقافتی رنگ یا خیال کو کسی دوسری زبان میں اسی کیفیت کے ساتھ ترجمہ کرکے بیان
نہیں کیا جاسکتا۔اسی لیے کسی بھی زبان کو اپنی شناخت کوباقی رکھنے کے لیے زمانے کی
تبدیلوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔
س زبانوں
کو زندہ رکھنے کے لیے کون سا نیا طریقہ کار
اختیار کیا جانا چاہیے؟
ج انسان
ابتدا ہی سے ترسیل و ابلاغ کا عادی رہا ہے
خیالات کی ترسیل اور جذبات کے اظہار کے لیے انسان نے زبان کی ایجاد کی اور زندہ زبان
سے مراد وہ زبان ہے جسے لوگ ترسیلِ خیالات کے لیے استعمال کرتے
ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ترسیل و ابلاغ کا
موثر ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ آج سوشل میڈیا سے ہر فرد جڑا ہوا ہے۔کسی بھی زبان
کے لیے ضروری ہے کہ اس کی رسائی عام انسانوں تک ہوتب کہیں جا کر اس کی بقا اور ترقی
کے راستے کھلتے ہیں۔ساتھ ہی زبان کی آبیاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی لازمی
ہے۔
س زبان
کا تہذیب و ثقافت سے کیا رشتہ ہے؟
ج زبان
ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں تہذیب و ثقافت پروان چڑھتی ہے تہذیب و ثقافت کا عمدہ
وسیلہ زبان ہے اور ہرزبان کا ادب جب تخلیق کیا گیا اس وقت کی تہذیب و ثقافت کی وہ موثر عکاسی پیش کر تا ہے۔ ہندوستان وہ واحد ملک
ہے جہاں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں بولی جاتی ہوں گی۔ ملک
ایک لیکن ریاستیں الگ الگ یہ علیحدہ ریاستیں اپنی
علیحدہ علیحدہ تہذیب و ثقافت کو اپنی علیحدہ زبانوں کے ذریعے پیش کرتی ہیں،
لیکن اردو زبان کے حصے میں کوئی ریاست نہ آنے کے باوجود وہ پورے ہندوستان کے تہذیبی
و ثقافتی ورثے کی علمبردار ہے۔
س کیا
زبان کی موت سے انسانی ورثے کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہے؟
ج یہ
بات صد فی صد صحیح ہے کہ زبانیں اپنے آپ میں ایک خزانہ ہوتی ہیں اور اگر وہ ختم ہو
جائے توانسانی بقا کے لیے کافی مسائل درپیش ہوں گے کیونکہ نئی نسلوں کو ادب، اخلاق،
اقدار، زندگی کے نشیب و فراز وغیرہ کا علم حاصل کرنے کا زبان سے مؤثر کوئی دوسرا وسیلہ نہیں۔
س کیا
کسی زبان میں خواندگی، سائنسی،سماجی مواد کی کمی سے زبان پر منفی اثرات پڑتے ہیں؟
ج سماج
مختلف علوم و فنون اور زبانوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔کسی زبان میں خواندگی، سیاسی،
سماجی مواد کی کمی سے اگرچہ زبان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے لیکن اگر شرح خواندگی،
سائنسی،سماجی علوم میں اضافہ کیا جائے تو زبان اور سماج کو فروغ حاصل ہوگا۔
س موجودہ
دور میں اردو زبان کو خطرہ کس طرح لاحق ہے؟
ج جدید
دور میں نئی نسل اردو زبان کو شدت سے ترک کرکے
دیگر زبانوں کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور مغربی تہذیب و ثقافت کے سیلاب
کی وجہ سے دنیا کے بیشترممالک میں تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کے نقصانات اور فوائد بھی
ہیں اسی ٹیکنالوجی سے قدم سے قدم ملا کر چلنے،یا اردو زبان کو ذریعہ معاش بنا نے والے
اردو کا دم بھرنے والے اپنی اولاد کو اردو کے بجائے انگریزی زبان و علوم کو سیکھنے
کی ترغیب دیتے ہیں اس طرح کے اور بھی کئی نکات ہیں۔
س اردو
کا مستقبل کیا ہے؟
ج موجودہ
دور کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے جس طرح مختلف دستی
فنکاروں کو زوال آگیا۔ کتب خانوں کی اہمیت میں کمی، قاری کی تعداد میں کمی، یہ تمام
چیزیں اردو زبان کو زوال کی طرف دھکیل رہی ہیں۔دوسری جانب جہاں سوشل میڈیا تشہیر کا
بہترین ذریعہ ہے لیکن یہاں جو اردو زبان لکھی
جا رہی ہے اس میں اغلاط کی بھرمار دیکھی جا سکتی ہے جو اردو زبان کے زوال کا سبب بن
سکتی ہے برخلاف اس کے سوشل میڈیا کا استعمال اردو زبان کے فروغ کے لیے کیا جائے تو
ممکن ہے کہ اردو کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
س زبان
کی سطح پر جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کو روکنے
کے لیے کیا ترکیبیں استعمال کی جا سکتی ہے؟
ج ماحول
عمومی طور پر اکتسابی عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان جہاں اردو زبان
کی ابتدا ہوئی۔ یہاں کے موجودہ ماحول پر ہندی اور انگریزی زبان کا دبدبہ نظر آتا ہے۔
موجودہ دور کے طالب علم میں انگریزی، ہندی
اور اردو الفاظ میں کسی بھی قسم کے فرق کا احساس نہیں ہے ہمار ے علاقے کی صورت حال
یہ ہے کہ مراٹھی، ہندی انگریزی کا ماحول اردو کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دیتا ہے ساتھ
ہی ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے پروگرام اور موبائل پر مختلف اپلیکیشن وغیرہ پر آنے
والے اشتہارات میں کثرت سے ہندی اور انگریزی کے استعمال سے نئے طالب علم اور اردو زبان
کے طالب علم دونوں میں ایک طویل فاصلہ بناتا جا رہا ہے دوسری جانب اساتذہ بھی اس تبدیلی
کو محسوس کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں زبان کے فروغ کے لیے اردو کے سوشل میڈیا کے ذریعے صحیح املا اور تلفظ
کی تشہیر ہو، اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کی
سطح پر اردو زبان کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں
عمل میں لائی جائیں۔
سکیا اردو کی تنظیمیں، زبان سے زیادہ ادب
پر توجہ دے رہی ہیں اور زبان سے متعلق کتابوں کی اشاعت تقریبا ًرک سی گئی ہے؟
ج اردو
زبان کی کتابوں کی اشاعت کے متعلق کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کی اشاعت رک سی
گئی ہے اردو کے لکھنے والے اپنی زیادہ توجہ ادب پر مرکوز کرتے ہیں کیونکہ زبان سے متعلق
جہاںپڑھنے پڑھانے کا رجحان کم ہو گیا ہے اگر زبان سے متعلق عنوانات نصاب میں شامل رہنے کے باوجود اس کو تقربیاً جگہوں
پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سکیا کلاسیکیت، جدیدیت وغیرہ پر گفتگو سے
زبان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
ج یقینا
کلاسیکیت ہی وہ شے ہے جو زبان کو زندہ رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے کسی بھی
تہذیب و ثقافت کو منعکس ہونے کے لیے کسی نہ کسی زبان کا وسیلہ درکار ہوتا ہے۔ ہندوستانی
تہذیب و ثقافت کی علمبردارزبانوں میں اردو
زبان اپنا ایک مقام رکھتی ہے یا یوں کہیے کہ
مشرقی تہذیب و ثقافت کی علمبرداراردو زبان ہے۔جدیدیت پر گفتگو بھی زبان کے لیے واقعی نفع بخش ثابت ہوگی کیونکہ
جدیدیت کے ذریعے حال اور مستقبل میں رونما ہونے والے مسائل کا حل اور جدید وسائل سے
استفادہ کر کے زبان اپنی نئی منازل طے کرنے
میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
سآپ کے علاقے میں کتنے اردو میڈیم اسکول
ہیں اور ان میں اساتذہ کی تعداد کتنی ہے؟
ج ہمارے
علاقے میں انگریزی میڈیم اسکولوں کی بڑھتی
تعداد کے باوجود اردو میڈیم اسکولوں میں طلبا کی تعداد پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ شہر میں
تقریبا 25 اردو میڈیم اسکول ہیں، جن میں ضلع پریشد، سرکاری و نیم سرکاری بلدیہ (مونسپل
کارپوریشن) اداروں کا شمار ہوتا ہے ان میں اساتذہ کی تعداد 250سے 300 کے درمیان ہے۔
سآپ کے علاقے میں کتنی لائبریریاں ہیں اور وہاں کون سے اخبارات اور رسائل آتے ہیں؟
ج ویسے تو شہر کے کالجوں میں قومی و علاقائی
اخبارات اور رسائل پابندی سے طالب علموں کے مطالعے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن عام
شہریوں کے مطالعے کے ذوق کی آبیاری کے لیے بلدیہ (مونسپل کارپوریشن)کی شہر کے مختلف
علاقوں میں چار لائبریریاں موجود ہیں، اور ریاست
مہاراشٹرا کا پہلا ’اردو گھر‘ شہر میں ہونے کی وجہ سے یہاں کی لائبریری میں
بھی اردو کے مختلف اخبارات پابندی سے آتے
ہیں۔
سآپ کے علاقے میں کتنے اردو تنظیمی ادارے
اور انجمنیں ہیں اور وہ کس نہج پر اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں؟
ج شہر
میں مختلف تنظیمیں اردو کے فروغ کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں جن میں ’فروغ اردو فورم‘ بڑے فعال انداز میں اپنی
خدمات انجام دے رہی ہیں شہر کے ’اردو گھر‘کا افتتاح 2021 میں عمل میں آیامحبانِ کو امید ہے کہ یہاں سے اردو زبان کے فروغ کے اقدامات
انجام دیے جائیں گے۔
سآپ مقامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے
کیا کوشش کر رہے ہیں؟
ج اردو
زبان کے طالب علم کی حیثیت سے پچھلے چودہ برسوں سے شہر میں اردو درس و تدریس کے کام سے وابستہ رہا ہوں۔ میں ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں کہ اپنے طالب علموں میں اردو
ادب کے متعلق بیداری پیدا ہو۔ انھیں اردو زبان و ادب کی طرف مائل کر کے اردو کے فروغ
میں میں اپنا حصہ درج کراوں۔
سآپ کے ذہن میں اردوکے فروغ کے لیے کیا
تجاویز اورمشورے ہیں؟
ج میں
ایسا محسوس کرتا ہوں کہ جدید تہذیب یا مغربی تہذیب کے غلبے نے ساری دنیا میں ایک بے
چینی کی کیفیت پیدا کر دی جس کی وجہ سے انسانیت آج بھی سکون و راحت کی متلاشی نظر آتی ہے۔ یہ راحت و سکون انھیں
مشرقی تہذیب میں ہی مل سکتا ہے۔ مشرقی تہذیب و ثقافت کی زندہ جاوید مثال اردو زبان
و ادب ہمیں ہمارے ادبی ورثے کوآنے والی نسلوں تک عمدہ طریقے سے پہچانا ہوگا جوجدید وسائل کے استعمال سے
ممکن ہوسکتا ہے اور وہ آنے والی زندگیوں میں سکون و راحت کا باعث بنے گا۔ یہی کوشش
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کافی معاون ثابت ہوگی۔علاقائی سطح پر اردو میں عمدہ
خدمات انجام دینے والے شاعر، ادیب، صحافی وغیرہ کے لیے سرکاری اعزازات کا نظم رکھا
جائے۔سوشل میڈیا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا
جاسکتا لیکن اس کے مضر اثرات کا خیال بھی رکھا جائے۔
ساردو رسم الخط کی بقا کے لیے کیا کوششیں کی جا سکتی ہیں؟
ج کمپیوٹر
اور انٹرنیٹ کی ایجاد سے دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رو نما ہوئیں۔ 1980 میں د نیا
کی اکثر زبانوں کو کمپیوٹر میں استعمال کیا جانے لگا تھالیکن اردو زبان کے لیے بہت
ساری دشواریاں پیدا ہوئیں اور یہ احساس پیدا ہوا کہ اردو زبان اس تیز رفتارٹیکنالوجی کی زد میں آ کر ختم ہو جائے
گی۔1981 میں ’احمد مرزا جمیل‘ نے ’جمیل نوری نستعلیق‘ فونٹ کی ایجاد کی۔ اس ایجاد نے
اردو زبان کی ترقی میں پر لگا دیے اردو رسم الخط کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ
جدید برقیاتی دور کا ساتھ نہیں دے سکتی لیکن ’جمیل نوری نستعلیق‘کی ایجاد نے اردو کی
اس خامی کو دور کیا۔ اردو زبان کا معارف سافٹ ویئر ’ان پیج اردو‘ اسی نوری نستعلیق
کا مرہون منت ہے۔لیکن آج تقریبا 40 برس گزر
جانے کے بعد ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود اردو کے فروغ میں رسم الخط اہم رول ادا کرتا ہے‘‘ MSWord ’’میں
ہم بہ آسانی اردو رسم الخط تحریر کر سکتے ہیں لیکن‘‘ Google’’اور دیگرپلیٹ فارم اور موبائل
اپلکیشنو ں پر اردو رسم الخط آسانی سے استعمال کرنے کی سہولت فراہم کرنی ہوگی۔
س دوسری
علاقائی زبانوں میں اردو کے فروغ کی کیا صورت ہو سکتی ہیں؟
ج ہندوستان
میں ہر علاقے کی اپنی اپنی زبان ہی اس کی پہچان ہے ان علاقائی زبانوں کے بعد اگر کوئی زبان ہندوستان میں رائج ہے تو وہ اردو ہی ہے اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے جدید دور کے تمام
وسائل کو بروئے کار لانا ہوں گا مثلاً مشاعرے،بیت بازی، اخبارات کی اشاعت، اسکولی سطح
پر طرحی مشاعرے ان مشاعروں میں علاقائی زبان کی طلبا و اساتذہ کی شرکت کو بڑھانا ہوگا غیر اردو داں طبقے کے ساتھ اردو زبان میں گفتگو
اردو زبان کے فروغ کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔
سکیا آپ کے اہل خانہ اردو زبان میں لکھنا
پڑھنا اور بولنا جانتے ہیں؟
ج میرے
والدنے علاقائی زبان مراٹھی میڈیم سے اپنی
تعلیم مکمل کی لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ اردو زبان لکھ، پڑھ، بول اور سمجھ سکتے
ہیں۔ میری والدہ میرے، دوبھائی دو بہنیں اور اہلیہ نے بھی اردو میڈیم سے تعلیم حاصل
کی۔ میری دختر ’مائرہ فاطمہ‘ فرزند ’محمد ذہیب‘
کو اردو میڈیم اسکول میں داخل کیاگیا۔
سآپ کے بعد کیا آپ کے گھر میں اردو زندہ
رہے گی؟
ج ان
شاء اللہ! ضرور اورمیں اپنی اولاد کو اس عظیم زبان کی بقا کے لیے
ہمیشہ کوشاں رہنے کی ترغیب دوں گا۔
سغیر اردو حلقے میں فروغ اردو کے لیے کیا
حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے؟
ج علاقائی
زبانوں کے ساتھ اردو زبان کو موازناتی طور پر پیش کیا جائے۔ اردو پروگرام میں غیر اردو
داں طبقے کو مدعو کر کے اس پروگرام کی نظامت کواردو و علاقائی زبان میں انجام دیا جائے غیر اردو داں طبقے کواردو زبان سکھانے لیے مختلف قسم
کے پروگرام علاقائی سطح پر چلائے جائیں اور علاقائی زبانوں کے اساتذہ کو اردو زبان سکھائی جائے۔
سآپ کے علاقے میں کتنے کالجز، یونیورسٹیز
ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور اردو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟
ج ہمارے
شہر میں ایک یونیورسٹی ’سوامی راما نند تیرتھ مراٹھواڑاہ یونیورسٹی ناندیڑ‘ ہے لیکن افسوس کی بات یہ کہ مختلف کوششوں کے باوجودشعبہ
اردو کا قیام عمل میں نہیں آسکا، لیکن اس سے منسلک ڈگری کالجوں میں طلبا و اساتذہ
کی تعداد اطمینان بخش ہے۔ جونیئر کالجز کی تعداد 10 ہے لیکن کچھ مراٹھی میڈیم کالجوں
میں اردو بھی پڑھائی جاتی ہے۔
سملکی سطح پر غیر سرکاری تنظیموں سے اردو
کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کس طرح مدد
لی جا سکتی ہے؟
ج غیر
سرکاری تنظیموں کو اردو زباں کے ورثے سے واقف کرایا جائے۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی
اہمیت کا احساس دلایا جائے جو ملک میں امن
و سلامتی کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
Mohammed
Ismail
Assistant Profasser, Dept. of Urdu
Vasantrao Kale Senior College
Nanded-
431604 (Maharashtra)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں