مورخ، ادیب، صحافی، سوانح نگار، شاعر و فکشن نگار منشی محمدالدین
فوق بیسویں صدی کے نصف اول میں ادب و صحافت کے شعبے میں ایک اہم اور ممتاز شخصیت کے
بطور معروف ہوئے علمی وادبی مصروفیات کے علاوہ کئی تحریکوں میں سرگرمی سے شریک رہے۔
فوق نے اپنی پوری زندگی علمی و ادبی کاموں میں گزار دی۔
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بلکہ ایک ادارے
کی حیثیت رکھتے تھے۔ مورخ، شاعر، ناول نگار، معتبر صحافی، ناشر اور مصلح قوم اور ایک تحریکی آدمی ہونے کی
حیثیت سے وہ اپنے عہد میں بڑے فعال اور سرگرم عمل رہے ان کی زندگی کھلی کتاب کی طرح
تھی۔
فوق چونکہ اصلاً و نسلاً کشمیری تھے جن کے دل میں محبت کشمیر
کوٹ کوٹ کر رچی بسی تھی اگر خطہ کشمیر کو ان کے فنی سفر کا مرکز و محور بناکر دیکھا
جائے تو اردو ادب کی تاریخ میں ان کو جو اولیت اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں۔
فوق کی تحریروں کی خصوصیت
اصلیت اور سادگی ہے جو حالی کے بقول شاعر کی بنیادی خصوصیات میں سے ہیں سادگی فوق
کی زبان میں بھی ہے اور فکر میں بھی ہے زبان کی سطح پر سادگی شاعر کی قادرالکلامی کی
دلیل ہوا کرتی ہے۔
فوق کا نام کشمیر میں ایک درخشندہ ستارے کی مانند ہے وہ
ہرفن مولا تھے۔ انھوں نے ہر میدان میں اپنی
اہمیت کا لوہا منوایا ہے۔ صحافت اور تاریخ نویسی ان کا خاص میدان رہا ہے۔ فوق نے اپنی
تخلیقات کے ذریعے کشمیر اور اہل کشمیر کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور سوتی ہوئی روح
کو جھنجوڑا۔ اپنے اخبارات، رسائل اور دیگر تخلیقات کے ذریعے کشمیر اور اہل کشمیر کی
خدمت کرنے میں سر گرداں رہے۔
فوق اور اقبال فصیح الملک میرزا داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔
فوق نے لاہور میں علامہ اقبال کے ساتھ کئی
مشاعروں میں اپنا کلام پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ شاعری میں بھی ان کا بنیادی و اہم موضوع
کشمیر ہی ہے ساتھ ہی ساتھ وہ شاعری کے ذریعے پیغام امن و آشتی، یکجہتی و محبت اور
محنت و ریاضت بھی دیتے ہیں۔ ان کا شعری کلام شعری محاسن و خوبیوں کا جامہ پہنے ہوئے
ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں
کلام فوق اور نغمہ گلزار۔
فوق نے جو غزل اصلاح کے لیے داغ دہلوی کو بھیجی تھی اسکا
ایک شعر ہے ؎
اے صبا تجھ سے کھلے گی نہ میرے دل کی کلی
میں ہوں اس گل پہ تصدق جو گلستاں میں نہیں
داغ نے جواب میں مرحمت فرمایا ’’ فوق صاحب میں تمھاری طبیعت سے بہت خوش ہوا اصلاح
کو تم ایک غزل بھیجا کروـ‘‘
داغ کی اس سند استادی سے اپنے ذوق سلیم پر فوق کا اعتماد
پختہ ہو گیا ان کایہ شعر اس کی تصدیق کرتا ہے ؎
داغ کا فیض اگر یونہی رہے گا اے فوق
مان جائیں گے سخنور بھی فصاحت میری
فوق فطری شاعر تھے اور غزل، نظم، قصیدہ، رباعی اور مرثیہ
وغیرہ تمام اصناف سخن پر خوب دسترس رکھتے تھے۔ ان کے شعری مجموعے ’کلام فوق‘ کے محاسن
کا تذکرہ اکبرالہ آبادی کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
کلام فوق بلاشبہ قابل داد ہے جب خیالات اچھے ہوں تو کلام کیوں نہ اچھا ہو۔ کلام فوق میں فطری آرزوئیں بھی ہیں شوخی کا اظہار بھی ہے۔ نیچرل کیفیتوں
کا اظہار اور کشمیر کے نظاروں میں خوب جوش دکھایا ہے اور نظموں کے شان نزول نے تو آپ
کی جدت آفرینی کا رتبہ بہت بلند کر دیا ہے۔‘‘ (نقوش، شخصیات نمبر، حصہ دوم)
فوق جموں و کشمیر کے
صف اول کے مایہ ناز فکشن نگار تھے۔ آپ بلا شبہ جموں و کشمیر کے اولین افسانہ
نگار ہیں جن کے افسانوں کا اولین مجموعہ 1928 میں منصہ شہود پرآیا۔ فوق کی فکشن نگاری
مشرقی مزاج سے ہم آہنگ ہے فوق نے اپنے افسانوں کو ’حکایات‘ کا نام اس لیے دیا ہے کہ
ہماری تہذیبی، جمالیاتی اور ثقافتی زندگی میں قصہ و حکایات کی اہمیت، اظہر من الشمس ہے۔ ریاست جموں و کشمیر
میں اردو افسانے کا نقطہ آغاز کہاں اور کیا ہے؟ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بیسویں صدی
کے ابتدائی برسوں میں کشمیر کے مشہور مورخ،محقق، صحافی، شاعراور فکشن نگار محمد الدین فوق نے اہل کشمیر میں حب الوطنی، انسان دوستی، اعلی اخلاقیات اور سیاسی بیداری کے
جذبات پیدا کرنے کے لے ’حکایات‘ (افسانچہ یا منی افسانہ) کی ہئیت میں جو افسانے لکھے اور ریاست جموں وکشمیر
کے ابتدائی برسوں میں مختلف اخبارات و رسائل
میں شائع ہورہے تھے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’حکایات کشمیر‘ کے نام سے 1928 میں
شائع ہوا ۔ راشدالخیری‘ جوش اور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں کے طرز پر فوق کی کہانیاں
بھی مقصدی، اخلاقی اور اصلاحی نوعیت کی ہیں۔ فوق کے مختصر افسانوں کے تین مجموعے شائع
ہو چکے ہیں ’حکایات کشمیر‘ ’سبق آموز کہانیاں‘
اور ’دبستان اخلاق‘ مگر ان تینوں میں
’حکایات کشمیر‘ دستیاب ہے۔
فوق نے ناول بھی لکھے ہیں پہلا ناول ’انارکلی‘ 1900 میں شائع ہوا اس کے علاوہ‘اکبر‘‘ناکام‘ نیم حکیم خطرہ جان ’غریب الدیار اور ’عصمت آرا‘
قابل ذکر ہیں۔ ناولوں کے موضوعات بھی اصلاحی'
سماجی و معاشرتی طرز پر ہیں۔
فوق برصغیر کی پرانی علمی‘ اد بی و صحافتی محفلوں کے آخری
چراغ تھے آپ نے صبح طفلی سے شام پیری تک گیسوئے اردو کو سنوارنے میں حصہ لیا۔ اخبار نویسی کے علاوہ بے شمار کتابیں تصنیف کیں
جو مقبول و محبوب ہیں اور آپ کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔
آپ کے قریبی ساتھی عبداللہ قریشی اپنے مضمون ’منشی محمدالدین
فوق‘ میں لکھتے ہیں’’فوق صاحب ہنگامہ خیزیوں
سے الک گوشہ عافیت میں رہ کرخاموشی سے کام کرنے کے علاوہ خلوص و محبت و ہمت، شوخی و
ظرافت، جذبہ ایثار اور ذوق خدمت سے سرشار تھے۔ ان کی بذلہ سنجی، حاضرجوابی، خوش اخلاقی،
خوش مزاجی اور خوش مذاقی کی وجہ سے ان کے پاس بیٹھنے اٹھنے میں خاص لطف حاصل ہوتا ہے ؎
بہت لگتا تھا جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے
فوق میں ایک اچھے صحافی کے خصائص کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
انھوں نے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیت سے صحافت کا عمدہ اور دلکش نمونہ پیش کیا ہے۔ صحافت کا آغاز فوق نے’
پیسہ اخبار‘ سے کیا اس کے یکے بعد دیگرے چھ
رسالے جاری کیے جو کشمیر اور اہل کشمیر
کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی خدمات کے لیے وقف تھے فوق اپنے صحافتی وسائل سے دل و جان سے ملک و
قوم کی خدمت کرتے رہے۔ 1901 میں اپنا پہلا
اخبار ’پنجہ فولاد‘ جاری کیا۔ 1906میں ’کشمیری میگزین‘ اور 1912 میں ’اخبارکشمیر‘ جاری کیا۔ پہلے اخبار’پنجہ فولاد‘ کے جاری ہونے
پر علامہ اقبال نے لکھا تھا ؎
پنجہ فولاد اک اخبار ہے
جس سے سارا ہند واقف کارہے
ہے روش اس کی پسند خاص و عام
واہ واہ کیا معتدل اخبارہے
بقول عبداللہ قریشی’’
فوق صاحب نے ایک ثقہ انسان کی زندگی بسر کی
ساری عمر اخبار نویسی کی یا پھر تاریخ نویسی پر بیش بہا کتابیں لکھیں حوالہ نقوش نمبر(1897)
انھوں نے مولوی محبوب عالم سے اخبار نویسی سیکھی اور اس
میں اتنا کمال حاصل کیا کہ تمام بڑے بڑے صحافی ان کو مان گئے۔
’کوہ
نور‘ کے ایڈیٹر بھی رہے اپنا اخبار ’ پنچہ فولاد‘ جاری کیا جو 1960 میں بند ہو گیا۔ ’کشمیری میگزین‘ جسے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے انداز کا رسالہ قرار دیا ہے۔
’گلزار ہند‘ 1901 میں فوق صاحب کے ہاتھوں جاری
ہوا ’کشمیر گزٹ‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1933 میں سری نگر سے ہفتہ وار اخبار ’کشمیر جدید‘
جاری کیا۔ فوق کا دفتر ہمیشہ اخبار نویسی سکھانے
کی درسگاہ بنا رہا تھا۔ فوق کو جنون کی حد تک پیشہ صحافت سے لگن تھی اسی لیے انھوں
نے سرکاری ملازمت ترک کرکے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔
علامہ اقبال ایک خط میں فوق کو لکھتے ہیں
ڈیر فوق...‘کشمیری میگزین‘ دیکھتا ہوں تو اس میں جو کامیابی
آپ کو ہوئی اور ہورہی ہے اس لیے مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘
جگن ناتھ آزاد اپنی تصنیف
’اقبال اورکشمیر‘ میں رقمطراز ہیں
’’ماہنامہ
’کشمیری میگزین‘ 1935 میں کشمیرکی خدمت کے
لیے وقف تھا علامہ اقبال کو اس کے مدیر محمد الدین فوق سے ایک خاص تعلق خاطر تھا اور
اس میں اقبال کی بعض ایسی نادر تحریریں شائع ہوئی جن کا مطالعہ آج بھی فکر اقبال کے
مطالعے کے لیے اشد ضروری ہے۔
منشی محمد الدین فوق کو یہ بھی اولیت حاصل ہے کہ آپ نے علامہ اقبال کے حالات زندگی
لکھے
علامہ اقبال 23 اگست 1915 کو ایک خط میں فوق صاحب کے متعلق
لکھتے ہیں
مولوی محمدالدین فوق ایک صاحب
ذوق آدمی ہیں ان کی جدت پسند طبیعت ہمیشہ انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتی ہے... وہ
محنت سے گھبرانے والے نہیں۔ فوق کی تلاش (تحقیق)
قابل داد ہے اور انسانی قلب کی گوناگوں کیفیات پر نظر ڈالتی ہے۔‘‘ منشی محمد الدین فوق کی علامہ اقبال سے اکثر ملاقاتیں
رہتی تھیں جن میں عموماً شعرو شاعری کے تذکرے
رہتے تھے۔ دونوں کی طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی۔ فوق کا نام کشمیر کی ادبی
تاریخ اور صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ ہمیشہ وابسطہ رہے گا۔
بقول عبداللہ قریشی ’’منشی محمدالدین فوق نے ایک صحافی، ایک ادیب، ایک مورخ اور ایک شاعر و نثر نگار کی حیثیت سے اردو
زبان کی قابل قدر خدمات انجام دیں وہ اپنے پیچھے اتنے کارنامے چھوڑ گئے ہیں کہ دنیا
انھیں مدتوں نہیں بھلا سکتی۔‘‘
منشی محمدالدین فوق نے ادبی کام کے علاوہ کشمیری مزدوروں
کو بھی منظم کرنے اور ان کی پریشانیوں کو دور
کرنے کے سلسلے میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی انہی بے لوث خدمات سے متاثر ہوکر علامہ اقبالؒ نے انھیں
’مجدد کشامرہ‘ کا خطاب عطا کیا اور کہا ’’اگر آپ
کے قلم سے کشمیر کے باشندوں اور پسماندہ مسلمانوں میں زندگی پیدا ہو گی تو یہی خدمت
آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔‘‘
پروفیسر عبدالقادر سروری اپنی
تصنیف ’کشمیر میں اردو‘ میں رقمطراز ہیں
’’فوق
اچھے شاعر بھی تھے لیکن کشمیر کے اردو ادب
میں ان کا بڑا کارنامہ ان کی تاریخی اور سوانحی
تصانیف ہیں ان کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ بعض وقت گنتی مشکل ہو جاتی ہے خود فوق نے اپنی
تصانیف کی تعداد 70 بتائی ہے۔‘‘
فوق نے سرسید’شبلی‘ حالی اور شرر کی اپنے اپنے میدان میں تقلید کی اور ان کے ساتھ فوق
کی فنی مماثلتیں رواں ہیں۔ بقول کلیم اختر’’فوق ناول نویسی میں مولانا عبدالحلیم شرر
سے متاثر ہیں۔‘‘
فوق علمی و ادبی سرگرمیوں
کے علاوہ عملی طور پر بھی مختلف تنظیموں اور تحریکوں میں شامل رہے۔
تاریخ نویسی، سوانح نگاری، شاعری اور صحافت کے علاوہ فوق نے ناول
اور حکایات (افسانے) لکھے اور ایک غیر مطبوعہ ڈرامہ ’زمیندار کی سرگذشت‘ بھی لکھا۔
تاریخ نویسی فوق کے رگ وریشے میں پیوست ہے وہ کسی بھی صنف
پر قلم اٹھاتے ہوئے تاریخی پہلو کو کبھی نہیں بھول پاتے ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ بلکہ
عظیم المرتبت مورخ ہیں جس ادبی کارنامے نے
انھیں شہرت عام و بقاء دوام بخشی وہ تاریخ نویسی تھی تاریخ نویسی فوق کا پسندیدہ موضوع
رہا ہے۔ بحیثیت مورخ وہ برصغیر میں شہرت حاصل کرچکے ہیں اور مورخین کشمیر کی فہرست
میں صف اول کے مورخین میں شمار ہوتے ہیں۔ جموں
وکشمیر میں انھیں بحیثیت مورخ، افسانہ نگار،صحافی،
خود نوشت اور ناول نگار کے اولیت حاصل ہے۔
فوق نے سب سے پہلے اردو میں ’تاریخ کشمیر‘ لکھی اس کے بعد انھوں نے کشمیر اور کشمیر
کی تاریخ کے متعلق دو درجن سے زائد کتابیں
تالیف کیں جن میں ’تاریخ اقوام کشمیر‘ تاریخ پونچھ’ تاریخ بڈشاہی‘ تاریخ شالامار’ تاریخ
کا روشن پہلو‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
بقول عبدالاحد ’’ محمد الدین فوق نے کئی کتابوں کو ترتیب
دے کر کشمیرکے تاریخی مواد میں اضافہ کیا ہے اور کئی کشمیری مورخوں کو یہاں کے حالات
قلم بند کرنے کے لیے متحرک کیا ہے۔‘‘
اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ محمد الدین فوق کا شمار
بیسویں صدی کے صف اول کے مورخوں میں ہوتا ہے
اور ان کی تاریخی عظمت مسلم ہے۔
فوق کے نام اقبال کے22 خطوط
ملتے ہیں جو ’روح اقبال‘ میں شامل ہیں۔
فوق نے 100 سے زائد
کتابیں لکھیں چھ سات رسالے جاری کیے اپنے زمانے کی کئی تحریکوں میں
حصہ لیا۔ اس طرح وہ کامیاب صحافی' ادیب تاریخ
کے جید عالم اور اصلاح معاشرہ کے بہت بڑے داعی تھے۔
فوق کا مطالعہ تحقیقی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ مثلاً یہ بات تحقیقی نقطہ نظر سے تعجب خیز ہے کہ
اردو ادب کی تاریخوں اور ناولوں کے جائزوں میں فوق کا ناول نویسی پر کوئی مواد نہیں
ملتا جبکہ فوق کے دو ناول ’اکبر‘ اور ’انارکلی‘ 1900تاریخی ناول ہیں جو معاشرتی مسائل کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ فوق کثیر الجہات شخصیت
کے مالک تھے جن کے بند دریچوں کو وا کرکے اردو
ادب کے خزانے کو مزید مزین کرنے کی ضرورت ہے۔
مراجع و مصادر
- شیرازہ فوق نمبر،کلچرل اکیڈمی سرینگر
- ڈاکٹر صابر آفاقی
- محمد عبداللہ قریشی: حیات اقبال کی گمشدہ کڑیاں
- پروفیسر عبدالقادر
سروری:کشمیر میں اردو
- نقوش آپ بیتی نمبر لاہور جون 1964
- محمد الدین فوق تاریخ اقوام کشمیر مکمل
Altaf Ahmad
Research
Scholar, Dept of Urdu
University
of Kasmir
Sringagar-
19006 (J&K)
Email.:
altafnizami96@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں