فنکار یا تخلیق کا ر کافی حساس ہوتا ہے۔ کسی
بھی واقعے سے متا ثر ہو کر اپنے احساسات کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے تو وہ فن پارے
کی شکل میں منظر عام پر آتاہے۔ اور قاری اسے پڑھ کر لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ طارق جمیلی
نے بڑے خوبصورت انداز میں اپنے خیالات اور اپنے احساسات کو نظم ’پورنیہ‘ میں پیش کرکے
اردو ادب میں کارہائے نماں انجام دیا ہے ’ رہ کے وادی میں ہمالہ پہ نظر رکھتا ہے‘ مصرع
کو پڑھ کر ان کی فکری وفنی خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے جواس کے معیاری شاعر ہونے کا ثبوت
بھی دیتا ہے اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانش لکھتے ہیں:
’’اس
نظم میں شاعر کی باریک بینی اور نکتہ رسی کی داد
دیے بغیر نہیں رہا جاتا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ نظم پورنیہ کی منظوم تاریخ بھی ہے اور
ان کی محاکاتی شاعری کا نمونہ بھی، جہاں فطرت
کے آغوش میںپھیلے ہوئے رنگ مناظر کا شاعر
نے دلکش اور شگفتہ نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے ۔‘‘
(بحوالہ
مضمون پورنیہ اور طارق جمیلی: انتخاب پورنیہ ص40)
بیسویں صدی میں پورنیہ (جو سیما نچل کے نام
سے جانا جاتا ہے) کو ایسا مخلص ادیب و شاعر ملا جس نے اس کی اصل تصویر کھینچ کر ملک
و بیرون ملک میں شہرت دوام عطا کرنے کا موقع
دیا۔
طارق جمیلی نے پورنیہ کو تاریخ کے اوراق سے
نکال کر محاکاتی شاعری کا نمونہ بنا دیا۔ جس کے آغوش میں فطرت کی حسین منظر کشی کی
ہے۔ شاہ اکرام الحق اکرام نظم ’پورنیہ‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جناب
طارق جمیلی نے پورنیہ کے بکھرے ہوئے حسن و جمال سے بھر پور مناظر کو سمیٹ کر اس سلیقے
سے الفاظ و ترکیبات کا جامہ پہنایا ہے کہ پورنیہ ایک سپنوں کا دیش نظر آنے لگتا ہے
ان کے حساس دل ان مناظر کے پیچھے قدرت کی خاموش موسیقی کے سرگم سنائی دیتے ہیں۔ یہ
لوہے لکڑ کی تہذیب بھلے ہی پورنیہ کی شکل آنے والے زمانے میں بگاڑ کر رکھ دے لیکن
پورنیہ کا دلکش چہرہ طارق جمیلی کی نظم میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ ‘‘ (بحوالہ انتخاب پورنیہ، ص40)
طارق جمیلی نے نظم’پورنیہ‘ میں نہایت صاف و
سادہ الفاظ استعمال کرکے ایک رواں دواں شاعری کا دریا بہا دیا ہے۔جس کے سبب ان کی نظم
میں فکروفن کی بالیدگی نظر آتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ؎
بتا کس نے تجھے اس نام سے پہلے پکارا تھا
نگر کے روپ میں مجھ کو سنا کس نے سنوارا تھا
گھنے جنگل درختوں پیڑ پودوں کی قطاروں نے
کہ تالابوں میں پورنیوں کے پھولوں کی بہاروں
نے
بتا کس نے تری گردن میں ڈالی پیار سے بانہیں
لگائی کس نے ماتھے پر ترے اس نام کی بندی
بسایا تجھ کو پوروں نے سجایا سین نے تجھ کو
اس طرح استفہا میہ انداز بیاں نے نظم کی دلکشی
کو اور بڑھادیا۔ طارق جمیلی قاری کو آنے والے مصرعے میں حقیقت سے روشناس بھی کراتے
ہیں کہ پورنیہ شہر ہے وہاں کے گھنے جنگلوں کی وجہ سے یوں موسوم ہوا اس کی اصل’پوراارینہ‘
ہے جس کے معنی جنگل ہی جنگل ہوتے ہیں اور پورین لفظ سے کمل کے پھول کی طرف اشارہ ملتا
ہے۔ اس طرح منظر کشی کا عمدہ نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ طارق جمیلی نے تاریخ کی نشاندہی
کرتے ہوئے راجہ پورن کا ذکر کیا ہے جس نے پورنیہ کو اسی سلطنت کی راجدھانی بنایا تھا
اور بنگال کے آخری راجہ لکشمن رائے سین نے آباد کیا اس طرح سات مصرعوں سے قاری کو سب کچھ پتہ چل جاتا ہے جس کی تلاش ایک مورخ کو
ہمیشہ رہتی ہے یہ سماجی علوم سے طارق جمیلی کی دلچسپی کا بھی پتہ دیتی ہے شمس جلیلی
(پورنیہ) طارق جمیلی کی نظم ’پورنیہ‘ پر گراں قدر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’جناب
پروفیسر طارق جمیلی نے اپنی نظم پورنیہ میں ضلع پورنیہ اور دیارپور نیہ کے جغرافیائی
ماحول اور مناظر قدرت کی منظر کشی تو کی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ دینی، اخلاقی، سماجی حالات
اور کیفیات کا بھی نہایت ہی دلکش پرائے میں اظہار کیا ہے ۔‘‘
(بحوالہ
: مضمون مشہور عالم نظم’پورنیہ‘پر کچھ، از انتخاب پورنیہ ص6)
طارق کی نظم’پورنیہ‘میں کیفیت اور فضا بندی
کا انداز نرالا ہے۔ وہ ایک حساس اور باریک بیں شاعر اور حقیقت شناس نظر کے مالک ہیں۔
پورنیہ کی پرسکون رومانی فضا، شبنمی ٹھنڈک، شعلہ ابراہیم کی سی نرمی، سیمل اور کنول
کی دلفریب رنگینیاں ان کی شاعری کو ساز دل کا نغمہ بنا دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ترہت
سے پورنیہ کا سفر کے اجنبی ہونے کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ چند اشعار بطور خاص ملاحظہ ؎
اجنبی شہر کا میں اجنبی شہری ٹھہرا
اجنبی قطروں سے بنا ہے سمندر گہرا
ایک برسات میں پتھر پہ دوب اگتی ہے
کل جہا ں پرتھی ندی آج وہاں سبتی ہے
دیکھتے دیکھتے ہی شہر میں کھنڈرڈھلتے
اتنے عرصے میں تو دشمن بھی ہیں اپنے بنتے
آبھری بزم میں سینے سے لگالوں تجھ کو
تو مجھے اپنا کہے، میں کہوں اپنا تجھ کو
نظم کے مطالعے سے یہاں کی ندیاں، برسات، پھونس
کے مکانات، یہاں کی آتشزدگی، شادی بیاہ کی رسمیں، سودخور مہا جن، پچھوا اور پوربی ہوائیں سب کے سب قاری کو
مسحور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مشتاق احمد نوری اپنے مضمون طارق جمیلی اور نظم ’پورنیہ‘ پر اظہار خیال کرتے
ہیں:
’’پورنیہ
کو جتنا طارق جمیلی نے سمجھا، محسوس کیا اور دل کی گہرائیوں میں اتارا، اتنا شاید پورنیہ
والوں نے بھی نہیں سمجھا۔ پورنیہ کی عظمت کے اگر کسی نے گیت گائے، اس کی خوبیوں کو
اجاگر کیا۔ اس کے موسم اس کے ریت و رواج اس
کی فصلوں اور اس کی محبتوں کو گیت کے مالے میں پیرو یا و ہ صرف طارق جمیلی ہیں۔ اتنا
ڈوب کر اتنی طویل نظم لکھنا سب کے بس کا روگ نہیںـ۔‘‘ (بحوالہ
انتخاب پورنیہ ص 15)
نظم (پورنیہ) کو اگر ایک جملے میں لکھا جائے
تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر دنیا میں منظوم تاریخ نویسی کے مقام کا تعین کیا جائے گا تو
ایک نام نظم’پورنیہ‘کا بھی ہوگا۔
یہ نظم صرف خارجی شوا ہد کے ساتھ آگے نہیں
بڑھتی بلکہ اس میں سماجی و تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی پہلوؤں کی جلوہ گری بھی نظر
آتی ہے۔ اور ایسامحسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے طویل عرصے تک اس کا محاسبہ کیا ہے اور مختلف
تجربات و مشاہدات سے دو چار ہوکرمنظوم کیا ہے۔
نظم ’پورنیہ‘ ایک طویل نظم ہے جس میں تقریبا
ایک سو دس (110) اشعار ہیں اور بحروں کا بدلنا بھی اس نظم کو منفرد رنگ و روپ دیتا
ہے۔ اس میں نغمگی بھی ہے اور تر نم بھی، آشفتہ بیانی بھی ہے اور تاریخ دانی بھی، قدرتی
مناظر بھی ہیں۔کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظم کو پڑھنے کے بعد قاری پورنیہ کی سیر
کو جائے اور وہاں وہ سب نہ ملے جس کا ذکر اس نظم میں پورے زورشورسے کیا گیا ہے، لیکن شاعر کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ جب خوبیاں
بیان کرتا ہے تو قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ اور اس معاملے میں طارق جمیلی کو معراج
حاصل ہے ان کی شاعری الہامی شاعری کے زمرے میں چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر علیم اللہ حالی نظم
پورنیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’پروفیسر طارق جمیلی کے شعری سرمائے کا سب سے قیمتی
حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے مناظر وماحول کے متنوع پہلو پیش کیے ہیں کہیں گیت
کے انداز بیان، کہیں فطرت کے پرکشش مناظر کی صورت میں، کہیں اپنے مسکن ودیار پورنیہ
کی نیم قصباتی فضا کی پینٹنگ اتارتے ہیں غرض طارق جمیلی نے جگہ جگہ فطرت نگاری اور
منظر کشی کے سلسلے میں اپنی بہترین ہنرمندی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (بحوالہ انتخاب پورنیہ،
ص 25)
طارق جمیلی نے نظم پورنیہ لکھ کر پورنیہ کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی نہیں کیا بلکہ اردو ادب میں شہر پورنیہ کی حقیقی تصویرپیش کرنے
میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اگرچہ عہد قدیم سے شہروں پر نظمیں لکھی جا رہی ہیں، غالب،
صفی لکھنوی، اور حرمت الااکرام ایسے نام ہیں
جنھوںنے مختلف شہروں پر نظمیں لکھ کر اس عہد کی تصویر کشی کی ہے، دلی،لکھنؤ، ممبئی،
دکن، عظیم ا ٓباد اور بنارس جیسے بڑے شہروں
پر بھی نظمیں لکھی گئی ہیں ــــــــــــــــ پورنیہ نظم کی معنوی خوبیوں کے پیش نظر شمس جمیلی
نے بہت فکر انگیز جملے تحریر کیے ہیں :
’’پورنیہ
(پورین) کنول کا دیش رہا ہے یہاں کے شعر و ادب کے دیش میں گل بوٹے کھلانا طارق جمیلی
کا حصہ ہے جناب طارق نے اس نظم کو تخلیق کر کے پورنیہ کے تمام قرضے مع سود بیباق ادا
کر دیا ہے، یہ ادبی شہہ پارہ زعفران زار کشمیر ہے جو جنت نگاہ بھی ہے اور فردوس
گوش بھی ۔‘‘ (ایضاً، ص 40)
طارق
صاحب کی علمی و ادبی اور فنکارانہ صلاحیتوں سے متاثرہو کر انھیں کئی اعزازات سے نوازا
گیا، میتھلا یونیورسٹی یوتھ فیسٹیول ایوارڈ
1984کلا ساہتیہ پنچ یوم، پریم چند ایوارڈ
1994گرو نانک جینتی ایوارڈ 2005 بہار اردو اکادمی سہیل عظیم آبادی ایوارڈ 2013 بہار اردو اکادمی سہیل عظیم آبادی ایوارڈ 2015 اور شان سیمانچل ایوارڈ 2019 طارق جمیلی کی ادبی زندگی 1952 سے شروع ہو
کر زندگی کے آخری ایام تک رہی۔ اب تک ان کی متعدد کتابیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے مثلاً:
آگ اور پانی (ڈرامہ) (1967)، شکست کی آواز (ڈرامہ)، (1980)،
نظم پورنیہ (1985)، آزاد شرارے (انشائیے) (1987)، سورہ یٰسین
2007،قلم جاگ رہا ہے (انشائیے) (2007)، جذب دروں (شاعری) (2009)، عرش گیاوی حیات و خدمات (تحقیق)
(2009)، نقش جمیل۔ اور مقالات طارق جمیلی (2021)
احسان قاسمی پروفیسر طارق جمیلی کے حوالے سے ان کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’طارق
جمیلی صاحب اردو ادب اور گنگا جمنی تہذیب کا
ایک روشن منارہ اور شاید ایک مٹتی ہوئی تہذیب
کی آخری
نشانی بھی، ان سے مل کر جو حاصل کرنا چاہتے ہو کر لو یہ متانت، یہ سنجیدگی،یہ وقار، یہ خلوص، یہ شفقت،
یہ محبت، یہ ایمانداری، یہ صبر، یہ سکون، یہ
تحمل، یہ بردباری، یہ قناعت، یہ گہرا ئی و گیرائی،یہ ادب نوازی، یہ منکسرالمزاجی، یہ علم بانٹنے کی چاہت... زندگی میں لوگ بہت سارے ملیں گے، مگر ایسا استاد
پھر نصیب نہ ہوگا بے شک غزل گو ملیںگے، نظم نگار ملیں گے، افسانہ نگار ملیںگے، انشا پرداز ملیںگے، ڈرامہ نگار ملیںگے، محقق اور
تنقید نگار ملیں گے مگر یہ سارے اوصاف کسی
ایک مرکز پر جمع ہو جائیں ایسا کوئی شخص نہ ملے گا۔‘‘ (مقالات طارق جمیلی، ص 204)
طارق جمیلی کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ
اردو ادب میں جو مقام ملنا چاہیے وہ اسے میسر
نہیں ہوا یہی نہیں ناقدین اور قلم کاروں نے بھی
کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے
طارق جمیلی نام و نمود اور جھوٹی تعریف کے قائل بھی نہیں تھے وہ ادب کے ایک
سپاہی کی طرح اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ عصر حاضر کے حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’پروفیسر
طارق جمیلی کا شمار ایسے افراد میں کیا جا
سکتا ہے جن کے حصے کی شہرت دوسروں کو مل گئی اور غیر معمولی استعداد اور اہلیت کے با
وجود اردو معاصر منظر نامہ پر ان کا نام ثبت
نہ ہو سکا۔ طارق جمیلی کو اس کا گلہ نہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ گلوبلائزیشن کے اس
دور میں جب دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی
ہے تو چھوٹے شہروں کی بنیاد پر تنقید اور تاریخ
میں اس طرح کی المیاتی صورت حال کیوں کر پیدا ہوئی ہے ۔‘‘ (ایضاً، ص 192)
یہ قدرتی مناظر کی دھوپ چھائوں اور ان کی مترنم
بحروں نے نظم کی چاندنی کو بکھیرکر رکھ دیا ہے اور الفاظ کی نشست و برخاست نے نظم کو
پرلطف بنا دیا ہے۔ ان کے شعری سرمائے میں سب سے قیمتی حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے مناظر
و ماحول کے متنوع پہلوپیش کیے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ طارق جمیلی نے
نہ صرف پورنیہ سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے بلکہ اس کی پوری تاریخ اور اس
کے تمام حسن و جمال کو اس نظم میں سمیٹ لیا ہے۔ الغرض طارق جمیلی کی طویل نظم ’پورنیہ‘
اپنے خوبصورت انداز بیاں اور فطرت نگاری کے لیے ممتاز ہے۔ جو ان کے ہم عصروں کو نصیب
نہیں ہے۔ آخر میں میں اپنی بات طارق جمیلی کی اس شعر پر ختم کرتا ہوں ؎
اک چہرہ ہوں میں بھی مجھے اس کی نہ خبر تھی
آئینہ دیا جس نے میرے ہاتھ وہ تم ہو
چھن جائے جو یادوں کا خزانہ تو
کرم ہو
لیکن نہیں بھولوں گاجو اک بات وہ تم ہو
Md. Marghoob Alam
Asst Prof., Dept of Urdu
Ram Krishna College
Madhubani - 847211 (Bihar(
Email: marghoobmd6@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں