4/9/23

تحریک آزادی میں ریاست رامپور کا کردار: رضوان لطیف خاں

 

اردو شاعری میں قومیت، حب الوطنی اور سیاسی حقوق کا احساس اسی وقت سے بیدار ہونے لگا جب 1857 کے بعد ہندوستان کے سیاسی اور معاشی زوال کی تصدیق ہوگئی اور ہندوستان پر برطانیہ کا باضابطہ تسلط تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن اس کا گہرا اور سودمند اثر بیسویں صدی کی شاعری (آزادی تک) میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں اردو شاعری پر قومی اور سیاسی تحریکوں کا گہرا اثر پڑنے لگا تھا اور جدوجہد آزادی کے لیے ذہنی فضا تیار کرنے میں اردو شاعری خاطر خواہ حصہ لے رہی تھی لیکن اردو شاعری کے محاذ پر حالی پہلے شاعر ہیں جنھوں نے غزل کو حسن و عشق کے مروجہ مضامین کے بجائے سماجی اور اجتماعی زندگی سے متعلق مسائل اور خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کی غزلوں میں ملک اور قوم کا درد اور آزادی وطن کی خواہش موجود ہے۔

مولانا حالی کی اس روایت کا اثر ان کے بعد آنے والی نسل کے شاعروں خاص طور سے اقبال پر بہت گہرا پڑا ہے۔ جن سے آگے چل کر ترقی پسندوں نے بھی اثر قبول کیا۔ اقبال ہندوستان کی آزادی کے سچے خواہاں تھے۔ معاشی انقلاب اور مزدور وسرمایہ دار کے تعلقات کا مطالعہ اقبال نے بہت باریک بینی سے کیا ہے لیکن اصل انقلاب وہ صرف معاشی انقلاب کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ ایک ایسے انقلاب کے مرید ہیں جو معاشی ہی نہیں وجدانی بھی ہو۔ جس سے انسان کا باطن آزاد ہو کیونکہ اصل آزادی تو اندرون کی آزادی ہے۔ اسی لیے اقبال کے یہاں خودی یا اپنے آپ کو پہچاننے پر بہت زور ہے          ؎

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

انھیں ہمیشہ اپنے ملک کی آزادی کا یقین تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ساری دنیا پر اب عوام کی حکومت ہوگی۔ اسی لیے وہ مزدوروں کو پیغام دیتے ہیں کہ اٹھو اور منظم ہو جاؤ کیونکہ مشرق و مغرب میں اب تمھارے ہی دور کا آغاز ہونے والا ہے       ؎

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے

کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

اس دور کے ممتاز شاعروں میں جوش ملیح آبادی بھی قابل ذکر ہیں۔ جوش بنیادی طور پر ایک رومان پسند شاعر تھے لیکن جہاں جذبہ آزادی اور حب الوطنی کا ذکر ان کی شاعری میں آیا ہے وہاں ان کا انقلابی رنگ بھی بہت گہرا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اردو شاعری کو سیاسی انقلاب کا تصور اقبال نے دیا تو جوش نے اسے انقلابی آہنگ عطا کیا۔ جوش کی شاعری میں انقلاب کی لے بہت تیز ہے جس کا رنگ ان کی غزلوں سے زیادہ گہرا ان کی نظموں میں نظر آتا ہے        ؎

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں

اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے

اٹھو کہ وہ بیٹھی دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

(نظم،شکستہ زنداں کا خواب)

انگریزوں کے خلاف جوش کا تیور ان کی نظم ’’نعرہ شباب‘‘ میں دیکھنے کے لائق ہے          ؎

دیکھ کر میرے جنوں کو نازفرماتے ہوئے

موت شرماتی ہے میرے سامنے آتے ہوئے

تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوں گا میں

ہڈیاں اس کفر و ایماں کی چبا ڈالوں گا میں!

پھر اٹھوں گا ابر کے مانند بل کھاتا ہوا

گھومتا، گھرتا، گرجتا، گونجتا، گاتا ہوا

ولولوں سے برق کے مانند لہراتا ہوا

موت کے سایے میں رہ کر، موت پر چھایا ہوا

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

جوش کی طرح اختر شیرانی بھی ایک رومان پسند شاعر تھے اور اردو کی رومانی شاعری میں ایک امتیازی مقام رکھتے تھے۔ لیکن وہ لیلیٰ آزادی کے عاشقوں میں بھی تھے اور جذبہ حب الوطنی ان کے رگ و پے میں اس طرح سرایت کیے ہوئے تھی کہ وہ بعض اوقات سلمیٰ کے عشق سے   زیادہ نگار آزادی کے دلدادہ نظر آتے تھے         ؎

عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے

عشق میری جان، آزادی میرا ایمان ہے

عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی

لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے

ان کے علاوہ چکبست، حسرت موہانی، صفی لکھنوی اور سیماب وغیرہ نے بھی اپنی شاعری میں بالواسطہ یا بلا واسطہ وطنی جذبات کا اظہار کیا۔ ناسپاسی ہوگی اگر اس دور کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے بسمل عظیم آبادی کی اس غزل کا ذکر نہ کیا جائے جو اس وقت بچے بچے کی زبان پر تھی اور جو آج ہندوستان کی آزادی اور انقلاب کی تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس غزل کے ایک ایک شعر میں جو انقلابی آہنگ ہے اور جس طرح سے جذبہ آزادی اور انقلاب کو محبوب بنا کر پیش کیا گیا ہے وہ ملاحظہ کریں         ؎

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار

لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار

آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے

مرنے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے

یہ غنیمت وقت ہے خنجر کف قاتل میں ہے

وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ

صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسمل میں ہے

آزادی وطن کا مطالبہ بیسویں صدی کے اوائل ہی سے ہونے لگا تھا۔ کیونکہ حکمران طبقے کے جبرو استبداد کے روبرو براہِ راست اظہار خطرے کا باعث تھا البتہ علامتوں کے استعمال کے لیے ماحول ہنوز سازگار تھا۔ اس میں قفس، آشیاں، نشیمن، گلستاں، صیاد اور بلبل جیسی علامات نئی معنویت کے ساتھ بڑی کثرت سے غزل میں استعمال ہوئیں        ؎

رودادِ چمن اس طرح سنتا ہوں قفس میں

جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا

(اصغر گونڈوی)

تعلقات چمن قطع کر رہی ہے صبا

قفس پہ گرتے ہیں تنکے میرے نشیمن کے            

(آرزو)

ہندوستان کی جنگ آزادی میں ترقی پسند تحریک کا رول سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تحریک میں تخلیق شدہ ادب ہندوستان کے عوام کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ بہت سارے اچھے اور نوجوان شاعر اس تحریک سے منسلک ہوئے اور اس وقت ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔اس تحریک کے ابتدائی دور میں نوجوان شعرا کا کلام سب سے پہلے حیات اللہ انصاری کے ہفتہ وار ’ ہندوستان ‘ کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ ابتدائی دور کی کچھ نظمیں نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر شمیم کرہانی کی نظم کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں جن میں وہ انقلاب کے نشے میں سر شار ہیں اور بڑی قربانی دینے کو اتاؤلے        ؎

طوفان میں کشتی کھیتے ہیں، کوہسار سے ٹکر لیتے  ہیں

ہم جنگ میں سر دیتے ہیں ہم پائوں ہٹانا کیا جانیں

وہ حسن و جوانی کی راتیں، وہ کیف وترنم کی باتیں

وہ لعل وگوہر کی برساتیں، ہم لوگ منانا کیا جانیں

بے خوف چلے سنگینوں پر، اور روک لی گولی سینوں پر

لکھا ہے ہماری جبینوں پر، ہم سر کو جھکانا کیا جانیں

( قومی سپاہی کا گیت)

انقلاب و آزادی اور سرفروشی کی تپش سلام مچھلی شہری کے کلام میں دیکھیے        ؎

مجھے نفرت نہیں ہے عشقیہ اشعار سے لیکن

ابھی اس کو غلام آباد میں، میں گا نہیں سکتا

مجھے نفرت نہیں ہے حسن جنت زار سے لیکن

ابھی تاب نشاطِ رقص محفل لا نہیں سکتا

مجھے نفرت نہیں پازیب کی جھنکار سے لیکن

ابھی دوزخ میں اس جنت سے دل بہلا نہیں سکتا

ابھی ہندوستاں کے آتشیں نغمے سنانے دو

ابھی چنگاریوں سے اک گل رنگیں بنا نے دو

(مجبوریاں)

خلیل الرحمن اعظمی کے مطابق اس دور کے شعرا  محبوب کے وجود کے ضرور قائل رہے لیکن عام طور پر محبوب سے یہ معذرت کی جاتی ہے کی جنگ آزادی کے دور میں وہ اس کی محبت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ مثال کے طور پر علی سردار جعفری کی نظم ’ انتظار نہ کر ‘ کے ایک ٹکڑے کو دیکھیں          ؎

میں تجھ کو بھول گیا  اس کا اعتبار نہ کر

مگر خدا کے لیے میرا انتظار نہ کر

عجب گھڑی ہے میں اس وقت آنہیں سکتا

سرور عشق کی دنیا بسا نہیں سکتا

میں تیرے سازِ محبت پہ گا نہیں سکتا

میں تیرے پیار کے قابل نہیں ہوں پیار نہ کر

نہ کر خدا کے لیے میرا انتظار نہ کر

ترقی پسند تحریک کے آغاز سے پہلے مجاز، مخدوم ، کیفی اعظمی، جاںنثار اختر  اور فیض احمد فیض  جیسے شعرا کے مختلف کلام ملتے ہیں جن کو عشقیہ شاعری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جب تحریک کا آغاز ہوا تو یہ شعرا  شعوری طور پر عشقیہ شاعری کرنے سے گریز کرنے لگے اور اپنے معشوق سے معذرت کر لی۔ کیونکہ یہ بدلتے ہوئے وقت کا تقاضا تھا کہ عشق و عاشقی پر سماجی ذمے داری کو فوقیت دی جائے۔  اس سلسلے میں فیض احمد فیض  کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ اور ’’ چند روز اور مری جان‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔

ساحر، مجاز، سردار جعفری، مجروح، مخدوم محی الدین وغیرہ نے بھی اپنی شاعری میں آزادی اور انقلاب کی آواز بلند کی اور اعلان جنگ کیا۔ مجاز کی انقلابی شاعری میں جذبہ آزادی والہانہ طور پر سامنے آتا ہے۔ انھیں ’انقلاب کا مطرب‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی انقلابی شاعری کی بہترین مثالیں ان کی نظموں انقلاب، مطرب سے، مزدور، ہمارا جھنڈا، نوجوان خاتون سے خطاب وغیرہ میں ملتی ہیں۔ ’نوجوان خاتون سے خطاب‘ ایک ولولہ خیز نظم ہے جس میں عورتوں کو موضوع بنا کر انھیں تحریک آزادی کی مہم میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس نظم کے آخری چار مصرعے ملاحظہ ہوں          ؎

سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے

 تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

    تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

جذبی نے بھی بیرونی سامراج کی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے ہم وطنوں کو انقلاب کا پیغام دیا          ؎

شریک محفل دار و رسن کچھ اور بھی ہیں

ستم گرو ابھی اہل کفن کچھ اور بھی ہیں

خاموش ہو کیوں نالہ کشان شب ہجراں

یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے

سردار جعفری نے انقلابی شاعری کو نئی توانائی دی اور اسے ایک نئے رخ سے آشنا کیا۔ اردو کی انقلابی شاعری میں ان کی نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ اور’ایشیا جاگ اٹھا‘ سب سے بھرپور اور صحیح نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی انقلابی نظموں میں سوزوگداز کے بجائے جاہ و جلال ہے اور وہ باعمل اور متحرک انسانیت کی انقلابی جدوجہد کو پیش کرتے ہیں۔

 مخدوم نے بھی بعض کامیاب انقلابی نظمیں کہی ہیں اور انھوں نے بھی انقلاب کے تصور کو ایک خوبصورت محبوب بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں تو انقلاب کی لے زیادہ تیز نہیں ہے لیکن جیسے جیسے مخدوم کا رشتہ محنت کشوں اور مزدوروں سے ہوتا گیا ان کی شاعری میں انقلاب کی دھار تیز ہوتی گئی جو عوام کے جذبات کی سچی ترجمانی کرتی ہے         ؎

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

اوپر جن شعرا کا ذکر ہوا ان میں سے فیض اور کسی حد تک جذبی کو چھوڑ کر زیادہ تر شعراکی پہچان نظم گو شاعر کی حیثیت سے ہے۔ دراصل حالی اور اقبال نے اردو شاعری کا جو رْخ غزل سے نظم کی طرف موڑا تھا اس روایت کو ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اور بھی فروغ حاصل ہوا۔ ترقی پسند تحریک نے نظم کو زیادہ متاثر کیا غزل کو کم۔ لیکن غزل بھی دھیرے دھیرے پنپتی رہی۔ یہاں پر ان دو شعراکا ذکر خاص طور سے کرنا ضروری ہے جنھوں نے اس دور میں بھی جب ہر طرف نظم کا بول بالا تھا، خالص غزلیں کہی ہیں اور اس طرح غزل کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہ شعرا ہیں جگر مراد آبادی اور مجروح سلطان پوری۔

جگر نے اس پرآشوب دور میں غزل کو نئی تب و تاب دی، وہ مکمل طور سے ایک غنائی شاعر ہیں۔ ملک کی بیداری اور حکومت کے ظلم و جبر کا احساس ان کے اشعار میں بے پایاں سرشاری کے ساتھ نمایاں ہوا ہے         ؎

یہ خون ہے جو مظلوموں کا ضائع تو نہ جائے گا لیکن

کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں

آسودہ ساحل تو ہے مگر شاید یہ تجھے معلوم  نہیں

ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں

جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر

جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

مجروح سلطان پوری نے بھی صرف غزلیں کہی ہیں۔ ان کا مجموعہ بھی ’غزل‘ کے نام سے ہی شائع ہوا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں انقلاب اور آزادی کے تصور کو نہایت حسین پیرایے میں پیش کیا ہے        ؎

آتی ہی رہی ہے گلشن میں اب کے بھی بہار آئی ہے تو کیا

ہے یوں کہ قفس کے گوشوں سے اعلانِ بہاراں ہونا تھا

مجروح اٹھی ہے موج صبا آثار لیے طوفانوں کے

ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوے رواں کچھ دور نہیں

سر پر ہواے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

اس دور میں سرخ سویرا یا سرخ رنگ اشتراکی نظام حیات کا مترادف بن گیا تھا۔ اسیری کے دوران کہی گئی فیض کی تمام غزلوں میں قید و بند کے خلاف احتجاج اور اشتراکیت کو معشوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مجروح بھی دوسرے شعرا کی طرح شمع سرخ کے پروانے ہیں         ؎

وہی مجروح سمجھتے تھے جسے آوارۂ ظلمت

وہی ہے ایک شمع سرخ کا پروانہ برسوں سے

شراب لال، شفق لال، جام و مینا لال

میری حیات کا ماحول ارغوانی ہے

ترقی پسند شعرا میں سے اکثر مقصدیت کے جوش میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ انھوں نے ادب کو پروپیگنڈا کی سطح تک پہنچا دیا اور ترقی پسند شاعری کا بڑا حصہ وقتی اور ہنگامی ہو کر رہ گیا۔ یہاں پر صرف انھیں شعرا کے اشعار پیش کیے گئے ہیں جنھوں نے ادب کی ادبیت کو برقرار رکھا اور علامتوں اور استعاروں کے استعمال سے انقلاب اور آزادی کے تصور کو حسین پیرائے میں پیش کیا ہے۔

اس دور میں جذبہ آزادی کی ترجمانی صرف ترقی پسند شعرا تک ہی محدود نہ تھی۔ بلکہ اردو کے بعض دوسرے شعرا جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں تھے، وہ بھی وقت کے تقاضوں کا ساتھ دیتے ہوئے حب الوطنی کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔ ان شعرا میں خاص طور سے جگت موہن لال رواں، برق دہلوی، اثر لکھنوی، تلوک چند محروم، افسر میرٹھی اور حفیظ جالندھری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔


Dr. Sajjad Rasheed

Lecturer Degree College

Hajan-193501 (J & K)

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...