سابق راجپوتانہ اور موجودہ راجستھان کی واحد مسلم افغان ریاست ٹونک (محمدآباد) کے بانی نواب امیرالدولہ بہادر عرف امیرخاں کی حیات کا کثیرعرصہ انگریزوں کے خلاف نبرد آزمائی میں گزرا۔ اس نبردآزمائی میں اکثرانھوں نے انگریزوں کوشکستِ فاش دی۔ لیکن بالآخر تنہارہ جانے پر بحالتِ مجبوری اور بادلِ نخواستہ امیرخاں نے ایک باعزت معاہدے کی رو سے 1817 میں ریاست ٹونک حاصل کی تھی۔ اس کی اہم وجہ بقول ڈاکٹر مجمدار یہ تھی کہ ’’ایسے نازک مرحلے پرہندوستان میں کوئی طاقت امیرخاں کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ‘‘ 1
چونکہ نواب امیرخاں اور اُن کالشکر فطری طورپر
انگریزوں کے حریف تھے۔ ظاہر ہے وہ اس معاہدے سے قلبی طور پر خوش ہونے والے نہیں تھے۔
یہی جذبہ اُن کی اولاد واحفاد میں بھی کارفرماہونالازمی تھا۔ بعدوفات امیرخاں اُن کے
فرزند ارجمند وزیرمحمدخاں 1834 میں مسند نشیں
ہوئے۔ اُن کا عہدِ حکومت تقریباً 30 سال
1864 تک رہا۔ مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی سے وزیرمحمدخاں کا نہایت قریبی رشتہ
تھا۔ وہ اُن کی والدہ امیربیگم کے حقیقی خالو تھے۔ وزیرمحمدخاں کی تربیت بھی قلعہ معلی
دہلی میں ہوئی تھی۔ اکبر شاہ ثانی نے انھیں ’وزیرالدولہ امیرالملک بہادر نصرت جنگ‘
کے خطاب سے سرفراز کیاتھا۔
نواب وزیرالدولہ اپنے والدماجد نواب امیرالدولہ
کی طرح سید احمدشہیدؒ کی تحریکِ آزادی ِ ملک سے وابستہ تھے۔ آپ سید صاحب سے گہری
عقیدت رکھتے تھے اور مع اہل خانہ اُن سے بیعت بھی تھے۔ ریاست اور حکومت برطانیہ کے
مابین ہوئے معاہدے کے تحت نواب وزیرالدولہ نے کھلے طورپر تو مجاہدین ِ آزادی کاساتھ
نہیں دیا، البتہ درپردہ وہ مجاہدینِ آزادی کوبھرپور مالی واقتصادی تعاون کرتے رہے۔
اُن کے کئی حقیقی رشتے داروں، احباب وفوجی ملازمین نے نہ صرف پہلی جنگِ آزادی 1857 میں حصہ لیا۔ بلکہ سرگرمی سے جنگ کرتے ہوئے
جامِ شہادت بھی نوش کیا۔ مؤرخ ہنومان سنگھل اپنی اہم تصنیف ’تاریخ ریاست ٹونک‘ میں
ناتھورام کھڑگاوت کی کتاب ’رول آف راجستھان ان دی اسٹرگل آف 1857‘ کے
حوالے سے لکھتے ہیں :
’’حالانکہ
نواب خود انگریزوں کے بہترین فرماں روا اور وفاداروں میں اونچے مقام پر فائز تھے۔ لیکن
ان کے فوجیوں اور کئی رشتے داروں نے نہ صرف بغاوت کی، بلکہ دہلی تک پہنچ کر اپنی بغاوت
کا اعلان بھی کیا۔‘‘ 2
نواب وزیرالدولہ کے سید احمدشہیدؒ سے گہری عقیدت
وبیعت ہونے کے سبب کئی موقعوں پروہ اُن کی تنظیم ’تحریک محمدیت‘ کی مال واسباب سے مدد
کیاکرتے تھے۔ اس کی تفصیلات آپ کی اہم تالیفات وصایائے وزیری، اور وقائع احمدی میں
بطورِ خاص موجود ہیں۔ وقائع احمدی ضخیم کتاب ہے جو کئی جلدوں میں تحریر ہوئی ہے۔ مشہور
ہے کہ یہ تصنیف ریاست ٹونک کی تاریخی مسجد قافلہ کے احاطے میں صاحبزادہ محمدعلی خاں
کے زیرِ نگرانی تحریر کی گئی ہے۔ جب سید احمدؒ اور سید اسمٰعیلؒ بالاکوٹ میں شہید ہوگئے
تو نواب وزیرالدولہ نے ان کے اہل وعیال، مہاجرین ومجاہدین ِ آزادی کوٹونک کے محلہ
قافلہ و محلہ غول میں جگہیں دے کر نہ صرف بسایا بلکہ اُن کی بیواؤں کی بھرپورمددبھی کی۔
اس سلسلے میں دہلی میں مقیم ٹونک کے مشہور ادیب
ومؤرخ سیدساجدعلی ٹونکی نے اپنی اہم تصنیف’’ٹونک میں اردو کافروغ‘‘ میں لکھا ہے کہ
:
’’نواب
وزیرالدولہ کے دورِ حکومت کاسب سے اہم واقعہ
1857 کی جنگ ِ آزادی کاہے۔جب بڑے بڑے علما وفضلا، ادبا وشعرا اپنے جان ومال
کی حفاظت کے لیے اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے نواب وزیرالدولہ نے نہ صرف مہاجرین کوٹونک
میں پناہ دی بلکہ ان لوگوں کو ٹونک کے مغربی علاقے کے محلہ غول میں آباد کیا۔‘‘ 3
سیداحمدشہیدؒ کی بیواؤں، اولاد واحفاد ودیگر
لواحقین کو بھی مذکورہ محلہ غول وقافلہ (ٹونک) کی حویلیوں ومکانات میں بسایاگیا۔ نواب
وزیرالدولہ نے سید احمدؒ او رسید اسمٰعیلؒ کے اہل خانہ کی سکونت کے پختہ انتظامات کیے
تھے۔ سیداحمدشہیدؒ کی زوجہ سیدہ زہرہ سے ایک لڑکی سیدہ سائرہ کی ولادت ہوئی تھی۔ سیدہ
سائرہ کے لڑکے سید اسحٰق عرف کلومیاں (سیداحمدشہیدؒ کے نواسے) سے منسوب حویلی محلہ
غول سے ملحق علاقے میں آج بھی موجود ہے، جس کا راہِ عام والا ایک بڑا حصہ ’عظمت منزل‘
کے نام سے شناخت کیاجاتاہے۔ سیداحمدشہیدؒ کی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی سے متعلقہ
مجاہدین ومہاجرین کے سلسلے کے بعض خاندان آج بھی مذکورہ علاقے میں سکونت پذیرہیں۔
نواب وزیرالدولہ کو سیداحمدشہیدؒ سے انتہائی
قلبی عقیدت ونسبت تھی۔ اس کاثبوت اُن کی اہم تالیف وصایائے وزیری سے بھی فراہم ہوتاہے،
جس میں بارہا سیداحمدؒ کا ذکرمختلف مقامات پرکیاگیاہے۔ وصایائے وزیری کے حوالے سے مشہور
عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی مابہ الامتیاز تصنیف ’سیرت سیداحمدشہیدؒ
‘ میں لکھا ہے کہ :
’’اس
کتاب میں مختلف مناسبتوں سے پینسٹھ مقامات پر نواب صاحب نے عاشقانہ وارفتگی اور مریدانہ
عقیدت مندی کے ساتھ حضرت سید صاحب اور آپ کے رفقا کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے حالات
وکمالات درج کیے ہیں۔‘‘ 4
سیداحمدؒ کی شہادت کے بعداسی نہج پر ہندوستان
کے تمام مذاہب کی عوام اور والیانِ ریاست نے متحدہوکر 1857کی پہلی جنگِ آزادی میں
حصہ لیا۔ اس جنگ کی قبل از وقت شروعات ہونے اور کسی منظم منصوبے کے تحت نہ ہونے کی
وجہ سے اپنے مقصد میں یہ جنگ ناکام تو ہوئی مگر یہ جنگ ہندوستانیوں کو نعمتِ آزادی
سے آشنا کرانے، وطن کی محبت سے سرشار کرانے، عوام میں جذبۂ آزادی بیدار کرانے، عوام
کو ایک نئی راہِ آزادیِ ملک سے ہمکنار کرانے میں کامیاب ہوئی۔ بعدمیں اسی راہ پر چل
کر برٹش حکومت سے نجات حاصل کرکے ملک آزاد ہوا۔
اولین جنگِ آزادی میں شریک نواب وزیرالدولہ
کے حقیقی رشتے داروں میں برادر صاحبزادہ محمدمنیرخاں کے علاوہ اُن کے ماموں میرعالم
خاں وعظیم اللہ خاں نے بطورِ خاص حصہ لیاتھا۔ ان میں صاحبزادہ محمدمنیرخاں کو تو بیڑیاں
ڈال کر قلعے میں قیدکردیاگیاتھا۔ کچھ عرصے میں اُن کا وہیں انتقال بھی ہوا۔ اسی طرح
عظیم اللہ خاں بھی قلعے میں بند کرکے نظربندکردیے گئے۔ اور میرعالم خاں شدیدجنگ میں
شہید ہوگئے۔ اُن کے دولڑکوں شیر عالم خاں اور شاہ عالم خاں کوزخمی حالت میں گرفتار
کرکے قید کردیاگیا۔
دراصل میرعالم خاں دہلی کے آخری مغل تاجدار
بہادر شاہ ظفر کے اقربا میں تھے۔ وہ بادشاہِ دہلی کی کمک رسائی اور جنگِ آزادی میں
شریک ہونے کی غرض سے دہلی جارہے تھے۔ نواب وزیرالدولہ نے برطانیہ حکومت کے دباؤ میں
سپاہی بھیج کر انھیں روکناچاہا۔ لیکن میرعالم خاں نے رکنے کے بجائے سپاہیوں سے جنگ
کرنابہتر سمجھا۔ اس جنگ میں میرعالم خاں موقعے پرہی شہید ہوگئے۔ ٹونک میں یہ سانحہ
میرعالم خاں کے مکان سے ملحق گھیر میں واقع ہوا۔
عہد حاضر کے مشہور شاعر،صحافی،
مصنف ومترجم مرحوم مخمورسعیدی واُن کے برادر خورد فضل الرزاق خاں ارشد عرف چھوٹے میاں
شیرعالم خاں کے پوتے اور میرعالم خاں کے پرپوتے تھے۔ اُن کے اہل وعیال آج بھی یہاں
سکونت پزیر ہیں۔ ریاست ٹونک میں جنگ آزادی
1857ء سے متعلق شہادتوں میں مقامی طور پر میرعالم خاں اولین شہید تھے۔ فضل الرزاق
خاں ارشد (برادر خورد مخمور سعیدی) نے اپنے ایک مضمون ’جنوں کی حکایاتِ خونچکاں‘ میں
لکھا ہے کہ :
’’میرعالم
خاں صاحب کے دونوں بیٹے شاہ عالم خاں اور شیرعالم خاں جومیرعالم خاں کی شہادت کے بعدزخمی
حالت میں گرفتار کرلیے گئے تھے اور قلعہ امیرگڑھ میں قید کردیے گئے تھے، کچھ مدت بعد
نواب صاحب جاؤرہ نے وزیرالدولہ پرزور ڈال کر انھیں اپنے پاس بلالیاتھا۔ برسوں بعد
وہ ٹونک واپس آئے۔‘‘ 5
ریاست ٹونک سے ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگوں کی فوج
دہلی جنگ میں شامل ہونے پہنچی تھی۔ جوماہ اگست
1857 میں دہلی کی مختلف جنگی جھڑپوں میں حصہ لیتی رہی۔ ان میں کئی افراد شہیدہوئے
تو کئی گرفتار۔ ان جانباز شہیدوں میں خود نواب وزیرالدولہ کے پٹہ بازی کے استاد اور
غالب کے دوست دہلی کے طالع یارخاں کے فرزند اسفندیار خاں اور صفدریار خاں کابھی نام
شامل ہے۔ اس کاذکرمرزا غالب نے اپنے ایک مکتوب میں نہایت پُر سوز انداز میں کیاہے،
وہ لکھتے ہیں :
’’طالع
یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کرآئے تھے۔ غدرکے سبب نہ جاسکے۔ یہیں (دہلی)
رہے۔ بعد فتحِ دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ طالع یارخاں ٹونک میں زندہ ہیں
پر یقین ہے مردہ سے بدتر ہوں گے۔‘‘ 6
دراصل طالع یار خاں کے دونوں فرزند دہلی میں
بہادر شاہ ظفر کے حفاظتی دستے میں ملازم تھے۔ جب ایک انگریز افسر نے بادشاہ سے بدکلامی
کی تو اسفند یارخاں سے وہ برداشت نہیں ہوئی اور انھوں نے اُسے گولی مارکر وہیں ختم
کردیا۔ اس واقعے کاذکر بھی مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں اس طرح کیا ہے :
’’غدرمیں
طالع یار خاں ٹونک میں تھے۔ لیکن اُن کے بیٹے اسفند یار خاں اور اصغریار خاں دہلی میں
تھے۔ اور بہادر شاہ ظفر کی سرکار میں ملازم ہوگئے تھے۔اسفندیار خاں نے بادشاہ سے سخت
کلامی پر ریزیڈنٹ انگریز کومثمن برج پر چڑھتے ہوئے گولی سے ٹھنڈاکردیاتھا۔ جب بادشاہ
مقبرہ ہمایوں چلے گئے تو دونوں بھائی الور (راجپوتانہ) منتقل ہوگئے تھے۔ ‘‘ 7
بعد میں مخبروں کی اطلاع پر انھیں الور سے گرفتار
کرکے دہلی لایاگیا۔ مقدمہ چلنے کے بعدانھیں پھانسی کی سزا دی گئی۔ دہلی منتقل ہونے
سے قبل طالع یار خاں کے دونوں لڑکے ٹونک میں ہی ملازم ومقیم تھے۔ طالع یار خاں قدیم
دہلی کے علاقے بلی ماران کے ساکن تھے۔ مرزا غالب ان کے نزدیک ہی گلی قاسم جان میں رہتے
تھے۔ غالب اور طالع یار خاں کے درمیان باہم مراسلت ودوستانہ مراسم تھے۔ اس سلسلے کاایک
اہم مضمون ٹونک کے تاج الادبا مولانا منظورالحسن برکاتی نے بعنوان ’غالب کے ایک دوست
‘ماہنامہ ’شاعر‘کے ماہ فروری 1970 کے شمارے میں شائع کروایاتھا۔ بعض حوالوں سے یہ واضح
ہوتا ہے کہ نواب وزیرالدولہ نے طالع یار خاں اور اُن کے لڑکوں کو رہائش کے واسطے ایک
حویلی ڈیڑھ سو روپیہ ماہانہ وظیفہ پھربعدمیں
ماہانہ وظیفہ کے بدلے ایک گاؤں وزیرپور جاگیرمیں عطاکیاتھا۔ ڈاکٹرابوالفیض عثمانی
(مرحوم) اولین صدرشعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج ٹونک نے بھی اس ضمن میں جو تحقیق کی تھی
اس کے مطابق ڈیڑھ سو روپیہ ماہانہ وظیفہ کے عوض گاؤں وزیرپور جاگیرمیں دینے کا ثبوت
فراہم ہوتا ہے۔ انہو ں نے اپنے تحقیقی نتائج کے آخرمیں لکھا ہے کہ :
’’……چنانچہ
تلاش کے بعد ایک اور سندملی جو 2؍ذی قعدہ 1271ھ مطابق 1854 کی تحریر شدہ ہے۔ اس میں استا د طالع
یار خاں اور اُن کے دونوں صاحبزادے صفدر یار خاں اور اصغر یار خاں کو ڈیڑھ سو روپیہ
ماہوار کے بجائے ایک گاؤں الموسوم ’وزیرپورہ‘ جاگیرمیں عطا کرنے کاثبوت ملتا ہے۔‘‘ 8
نواب وزیرالدولہ کے عہدمیں ریاست ٹونک سے پہلی
جنگِ آزادی 1857 میں شریک ہونے والے افراد
میں غیرمسلم حضرات بھی شامل تھے۔ واضح ہو کہ نواب وزیرالدولہ نے ہندوؤں کے عدالتی
معاملات کے فیصلوں کے لیے مفتیان کرام کے ساتھ ہندو پنڈتوں کابھی تقرر کیاتھا۔نواب
وزیرالدولہ کی فوج کے غیرمسلم حضرات میں بعض سردار بھی شامل تھے۔ مقامی غیرمسلم عوام
وافسران نے بھی مجاہدینِ آزادی کاپورا ساتھ دیاتھا۔ ریاست کے وجود سے متعلق معاہدہ
کرانے والے ریاست ٹونک کے اولین وکیل رائے نرنجن لال کے بیٹے برج لال کے مجاہدینِ آزادی
کا ساتھ دینے کاذکر مختلف حوالوں سے کتب میں موجود ہے۔
ریاست ٹونک کے پرگنات میں بھی پہلی جنگ ِ آزادی
کے اثرات رونما ہوئے۔ بالخصوص پرگنہ نیماہیڑہ کے حاکم بخشی غلام محی الدین خاں و پردھان
پٹیل تاراچند نے نیمچ چھاؤنی کے باغی فوجیوں او رمجاہدینِ آزادی کا حد درجہ تعاون
ومددکی تھی۔
19؍ستمبر
1857 کو کپتان شاروس نے کرنل جیکسن کے ساتھ 83 ویں کمپنی کی انگریزی فوج کو نیماہیڑہ
کے قریب لاکر عامل کوحکم دیا کہ نیماہیڑہ میں ٹونک نواب کے جو 300 فوجی ہیں وہ اپنے
ہتھیار انگریزفوج کے سامنے رکھ دیں۔ فوج کے منع کرنے پرعامل اور غلام محی الدین خاں
دونوں نے کرنل جیکسن کے پاس پہنچ کر کہا کہ وہ خود تو اپنے ہتھیار دے سکتے ہیں لیکن
فوج نے منع کیا ہے۔ شاروس نے تھوڑے وقفے سے عامل کو پھر کہلوایا کہ اگر فوج نہیں مانتی
تو وہ (عامل اور حاکم) فوراً کپتان کے سامنے حاضر ہوں۔ جب حالات زیادہ بگڑنے لگے تو
فوجیوں نے پرکوٹے کے دروازے بندکرتے ہوئے اُن پر توپیں چڑھا کر مقابلے کی تیار ی شروع
کردی۔ صرف 300 کی تعداد والی فوج نے پوری کمپنی کی انگریز فوج کا رات بھر ڈٹ کرمقابلہ
کیا۔ اس ضمن میں مؤرخ ہنومان سنگھل نے لکھا ہے کہ :
’’کپتان
شاروس نے غصہ میں پوری رات توپوں کی مدد سے پرکوٹہ توڑنے کی ناکام کوشش کی۔ رات میں
ہی بخشی غلام محی الدین خاں بچے ہوئے فوجی دستے کے ساتھ فرار ہوگئے۔ حملے میں دو انگریز
بری طرح زخمی ہوگئے اور ایک انگریز نائک ماراگیا۔ پندرہ بیس فوجی بھی کام میں آئے۔
صبح انگریزوں نے نیماہیڑہ پرقبضہ کریونین جیک لہرادیا۔ پردھا پٹیل کوگرفتار کرکے اُسے
مجمعِ عام میں توپ سے اڑادیاگیا۔‘‘ 9
اگرچہ بخشی غلام محی الدین خاں کے حوصلے آخرتک
بلندرہے اور وہ انگریزی فوج سے مزیدجنگ کرناچاہتے تھے، لیکن بزرگان ِ شہرکی فہمائش
ودباؤکے سبب انھوں نے نیماہیڑہ چھوڑا۔ ’تاریخ دورِ ایام‘ میں ناظم اصغر علی نے ان
کے حوصلوں کی بلندی سے متعلق لکھا ہے کہ
:
’’اگرچہ
غلام محی الدین خاں کی جرأت میں تزلزل اور اس کے استقلال میں اب تک بھی کسی قسم کی
کوئی لغزش نہیں تھی، لیکن نیماہیڑہ کی فضا پر رات کی قدرتی تاریکی محیط ہوجانے سے جب
اس لڑائی کاسلسلہ رک گیا تو نیماہیڑہ کے کاروباری آدمیوں نے التجا کے ساتھ اُس کویہ
سمجھاکر لڑائی سے روکا کہ دشمن کی فوجی قوت کے مقابلے میں نیماہیڑہ کی فوجی جمعیت کم
ہے۔ گولی، باروٗد وغیرہ کامیگزین بھی تھڑگیاہے۔‘‘
10
چنانچہ بخشی غلام محی الدین خاں یہاں سے نکل
کر مندسور علاقے کے باغیوں میں جاملے۔
نواب وزیرالدولہ کے عہدحکومت میں ایک طرف تو
آزادیِ ہند سے متعلق ملک میں جنگی جھڑپوں کاماحول تھا۔ دوسری طرف قتل وغارت گری کی
وجہ سے دہلی اور لکھنؤ کی ادبی محفلیں اُجڑ چکی تھیں۔ بالخصوص دہلی کے حالات ناگفتہ
بہ ہورہے تھے۔ ایسے عالم میں نواب وزیرالدولہ نے کئی آفت زدہ علما شعرا وادبا کی بخوبی
سرپرستی کی۔ چونکہ نواب صاحب کی تربیت قلعہ معلیٰ دہلی میں ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے غالب
ومومن سے اُن کے گہرے تعلقات تھے۔
سیداحمدشہیدؒ کی نسبت سے مومن سے اُن کا تعلق
پیربھائی کاتھا۔ مومن ایک خوددار شاعر تھے لیکن انھوں نے اپنے مخصوص تعلق کے سبب نواب
وزیرالدولہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھاتھا۔ اسی طرح غالب نے اُن کی شان میں دو قصیدے،
ایک قطعہ ’حسنِ طلب‘ تحریرکیے تھے۔ زمانۂ غدر میں دیگر ریاستوں ودبستانوں سے ٹونک
آئے شعرا، علما وادیبوں میں ظہیر دہلوی، انور دہلوی، اسدلکھنوی، مولانا حیدر علی رامپوری،
مولوی بہادر علی دہلوی، (مصنف امیرالسیر فی سیدخیرالبشر) مولوی عبدالغفار بنگالی، سراج
الرحمٰن خاں، مولوی محمدعلی سواتی، مولوی امام الدین کشمیری وغیرہ کے اسمائے گرامی
خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
ان میں ہر شخصیت بذاتِ خود ایک دبستان سے کم
نہ تھی۔ ظہیردہلوی واسد لکھنوی اردو کے دو مرکزی دبستانوں کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان
دونوں کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ اس وقت ٹونک میں موجود تھا۔ ظہیردہلوی کی حیات کا
ایک بڑا عرصہ ریاست ٹونک میں گزرا۔ انھوں نے دیگر نوابین کا عہد بھی دیکھا۔ اُن کے
تین دیوان ریاست ٹونک میں ہی شائع ہوئے تھے۔ جگن ناتھ پرشاد فیض نے تذکرہ گلزارِ سخن
میں لکھا ہے کہ :
’’آپ
کے (ظہیردہلوی کے) تین دیوان ریاست ٹونک میں شائع ہوچکے ہیں چوتھابھی قریب اختتام ہے۔‘‘ 11
پہلی جنگِ آزادی 1857 سے متعلق ظہیر دہلوی
کی اہم تاریخی تصنیف ’داستانِ غدر‘ کی تکمیل بھی ٹونک میں ہونا بتائی جاتی ہے۔ یہ ایک
خود نوشت سوانح کے علاوہ غدرکی مستند تاریخ بھی کہلاتی ہے۔ یہ کتاب (داستانِ غدر) 1910ء میں شائع ہوئی۔ دہلی کی تباہی سے متعلق ظہیر
دہلوی کے بعض اشعار آج بھی زبان زد ہیں۔ مثلاً
؎
ہم نشیں قصہ دہلی نہ سنانا ہرگز
زخمِ نو داغِ کہن پر نہ لگانا ہرگز
بھولے ہوئے افسانۂ دل یاد کریں گے
اُجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کریں گے
کہیں آرام سے دو دِن فلک رہنے نہیںدیتا
ہمیشہ اک نہ اِک سرپر مصیبت آہی جاتی ہے
مرزا غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر نے نواب وزیرالدولہ
کی مدح میں تحریرکیے گئے قصائد میں اُن کی قدردانیِ علم وہنر، سخاوت اور ادب نوازی
کی تعریف کی ہے۔ ان میں پہلا قصیدہ جوفارسی شاعر عرفی کی زمین میں ہے، اس کے مطلع میں
نواب صاحب کی مدح اس طرح کی گئی ہے ؎
اے ذات تو جامع صفت عدل وکرم
دے بر شرف ذات تو اجماعِ اُمم را
دوسر ا قصیدہ غالب نے عیدالاضحیٰ 1267ھ کی تہنیت میں تحریرکیاتھا۔ جس کامطلع اس طرح
ہے ؎
عیدالاضحیٰ بہ سرِ آغاز مستان آمد
وقت آراستن حجرہ ایواں آمد
ان دونوں قصائد کے عوض نواب صاحب نے مرزا غالب
کو خاطر خواہ صلے سے بھی نوازاتھا۔گہرے مراسم کی وجہ سے غالب نے اپنی تقریباً تمام
تصانیف شائع ہونے پرنواب وزیرالدولہ کو بطورِ خاص ارسال کی تھیں۔ ’مہر ِ نیم روز‘
(1854) کے علاوہ غدر کے حالات اور خود کی سرگذشت سے متعلق تصنیف ’دستنبو‘ جب 1858 میں
شائع ہوئی تو اس کا ایک نسخہ غالب نے حسب روایت نواب صاحب کوارسال کیاتو اس کی لوح
پر یہ قطعہ بھی تحریرکیا ؎
نذرِ نواب وزیرالدولہ
آں محیط کرم ودانش وداد
ہمہ بدیں حیلہ مگر یاد آید
غالب خستہ کہ رفتہ است زیاد 12
دستنبو کا ایک اردو ترجمہ مخمورسعیدی نے اپنی تصنیف ’1857 کی کہانی مرزا غالب کی زبانی‘
مطبوعہ 2007 میں بھی کیاہے۔
الغرض نواب وزیرالدولہ پہلی جنگِ آزادی
1857 میں انگریزوں سے معاہدے کی سختی کے سبب خواہ اُن کے ظاہری وفادار کہلاتے ہوں مگر
در حقیقت وہ درپردہ غازیانِ ملت ومجاہدینِ آزاد ی کواپنے دامن ِ فیض سے آسودگی ومالی
اعانت فراہم کراتے رہے۔ ان کے حقیقی رشتے دار، احباب وفوج سے منسلک افراد وغیرہ نے
انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لے کرشہادتیں حاصل کیں۔ نواب وزیرالدولہ نے غدرسے متاثر
آشفتہ حال اور آفت رسیدہ عوام، ماہرِ فن شعرا علما وادبا سبھی کے لیے اپنے در وا
کر انھیں حسب ِ صلاحیت مناصب ومراتب عطاکیے تھے۔ باصلاحیت شخصیات کو گراں قدر صلہ اور
انعام واکرام سے بھی نوازا۔ پہلی جنگِ آزادی اور اس سے پیدا شدہ حالات ونتائج کے مد
نظرایک نسبتا ً چھوٹی ریاست کے نواب وزیرالدولہ کے ذریعے مذکورہ پسِ پردہ کیے گئے اصلاحی
واعانتی اقدامات کے ساتھ اُن کی سخاوت، علم دوستی وادب نوازی کو تاریخِ اولین جنگ آزادی
میں نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
حوالہ جات ـ:
- An Advance History of India by Majumdar Page - 707
- تاریخ ریاست ٹونک : ہنومان سنگھل، ص 149
- ٹونک میں اردو کافروغ : سید ساجدعلی ٹونکی، ص 24
- بحوالہ سیرت سیداحمدشہیدؒ : مولانا ابوالحسن علی ندوی، ص 113
- بحوالہ جنگِ آزادی کے اولین مجاہدین اور بہادر شاہ ظفر : مرتبہ ڈاکٹر ودیا ساگرآنند، ص 267
- بحوالہ اردوئے معلیٰ، ص 234
- بحوالہ عودِ ہندی، 1858،ص 57
- بحوالہ نخلستان، جے پور جولائی تاستمبر 1981، ص 68
- تاریخ ریاست ٹونک : ہنومان سنگھل (اخذ شدہ) صفحہ 151-152
- تاریخ دورِ ایام : ناظم اصغر علی 1924، ص 37
- تذکرہ گلزارِ سخن : جگن ناتھ پرشاد فیض 1908ء، ص 278
- بحوالہ 1857 کی کہانی مرزا غالب کی زبانی (دستنبواور خطوطِ غالب کے حوالے سے ) : مخمورسعیدی 2007، ص 22
Dr. Rashid Miyan
(H.O.D.), Department of Urdu
Govt. College
Tonk-304001 (Rajasthan)
Mob: 7240302056
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں