19/9/23

اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ دسترس:منصور خوشتر

 

اجتبیٰ رضوی مختلف موضوعات پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سید اجتبیٰ حسن تھا اور تخلص رضوی رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش بہار کے ضلع چھپرہ میں 1908کو ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ ان کے والد سید اظہر حسین بہت مخلص او ر نیک صفت انسان تھے۔ اجتبیٰ رضوی صاحب کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی بہت ذہین و فطین تھے۔ 1925میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1927میں آئی اے بی۔ این کالج پٹنہ، 1929میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ 1929میں ہی ضلع اسکول چھپڑہ میں ملازمت شروع کردی۔  ملازمت کے تین سال بعد رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے اور چھ سال بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے 1937میں کلکتہ چلے گئے اور وہیں مولانا آزاد کی صحبت میں آگے کی زندگی گذارنے لگے۔ 1960سے قبل اجتبیٰ رضوی صاحب راجندر کالج چھپرہ میں شعبہ اردو کے صدر تھے اور تاریخ و فلسفے کا گہرا علم رکھتے تھے۔اس کے بعد1960میں وہ بحیثیت پرنسپل ملت کالج دربھنگہ میں اپنی خدمات دینے لگے۔ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے ذریعے ملت کالج کی صورت کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ ملت کالج کی عمارت کی تعمیر کا کام بھی اپنی نگرانی میں کرایا اور کالج کو ایک صورت دی۔ 1975 میں وہ متھلا یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر منتخب ہوئے اور وہیں سے 1984میں سبکدو ش ہوئے۔ ادبی دنیا ڈاکٹر محسن رضا رضوی کی احسان مند ہے کہ انھوں نے ’ذکر اجتبیٰ رضوی‘ کے نام سے کتاب مرتب کرکے ان کی زندگی کے مخفی گوشوں کواجاگر کرنے کی بھرپور سعی کی۔ پروفیسر اجتبیٰ رضوی نے شاعری کا آغاز 1924 میں کیا۔ ان کا 1954 میں پہلا مجموعۂ کلام ’شعلۂ ندا‘ منظر عا م پر آیا۔ اس مجموعے کے چند اشعار ملاحظہ کریں       ؎

قدم بوسیِ ساقی واجب شرع محبت ہے

محبت ہی خدا ہے اور محبت ہی خداخانہ

محبت سوز موسیٰ بھی ہے سحر سامری بھی ہے

یہی وحدت کا افسوں ہے یہی کثرت کا افسانہ

***

ماضی میں حال کو سموتے جانا

سرمایۂ ممکنات کھوتے جانا

ہستی کے مسافرو! یہ کیسا دستور

ساحل پہ اتر کے نائوڈبوتے جانا

***

تماشا کی وہ ارزانی وہ گنگا وہ صنم خانہ

بنارس کی سحرا شنان کی تقریب روزانہ

حرم والے ذرا کاشی کا منظر دیکھتے جائیں

کبھی دیکھیں گے جنت اور ابھی دیکھیں صنم خانہ

اجتبیٰ رضوی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ اپنی تقریر کے ذریعے وہ بے حس دلوں میں جوش و و لولہ بھرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی نظموں کا انداز بھی اوروں سے جداگانہ ہوتا تھا۔

محسن رضا رضوی ’ذکر اجتبیٰ رضوی ‘کو مرتب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کا پہلا اور آخری شعری مجموعہ ’شعلۂ ندا‘ 1954 کے اوائل میں ان کے قریب ترین دوست سید حسین احمد رعنا ایڈوکیٹ صدر گلی، پٹنہ سٹی نے لیبل لیتھو پریس پٹنہ سے شائع کیا۔ اس مجموعے میں رباعی، نظم، غزل اور قصیدے کے علاوہ تین عدد مثلث  اور آخر میں ابتدائی غزل گوئی کے کچھ نمونے شامل ہیں۔ رباعیات کے پانچ سلسلوں ’حکمت و حیرت‘ (79 رباعیاں) ’ساقی و مینا‘ (12 رباعیاں )، ’کوزہ و سبو‘ (6 رباعیاں)، ’نذر بارگاہ‘ (4 رباعیاں) اور ’سلک شکستہ‘ (16 رباعیاں) کے تحت کل 117  رباعیاں، منظومات کے تحت 29 پابند نظمیں، غزلیات میں دور اول(1929-1939) کے تحت 17 اور دور ثانی (1946-1954) کے تحت 25 غزلیں شامل مجموعہ ہیں۔

آزاد غزل کے بانی مظہر امام اجتبیٰ رضوی سے بہت قریب رہے۔ اپنے ایک مضمون ’اجتبیٰ صاحب‘ میں لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کو یاد کرنا اپنے ماضی کی راکھ کریدنے کے مترادف ہے۔ ماضی کی یادیں انسانی لاشعور کا بیش قیمت سرمایہ سہی مگر گردش ایام کو ہمیشہ پیچھے کی طرف موڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں بھی زوال عمر کے ساتھ یادوں کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ اس لیے اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ اہمیت کے پہلے تاثر کو یادوں کے دائرے میں لانا خاصا دشوار ہورہا ہے۔

علامہ جمیل مظہری اجتبیٰ رضوی کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی نے مجھے فلسفے اور تصوف کی چاٹ دلائی اور مجھے دشت تحیر میں تنہا چھوڑ کر خانقاہ خودی یا بے خودی میں گوشہ نشیں ہوگئے۔

(ماہنامہ ’آجکل‘ دہلی، مئی 1970)

رشید منظر اجتبیٰ رضوی کی شاعرانہ خصوصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’جہاں تک اجتبیٰ رضوی کی شاعری کا تعلق ہے، آپ کا انداز فکر صوفیانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ بھی ہے۔ ان کے متعلق نقادوں کا یہ خیال کہ ادق الفاظ کی کثرت نے ان کے کلام کو بھونڈا بنادیا ہے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں فارسی اور عربی کے نامانوس الفاظ کی کثرت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہایت عمدہ صاف اور پرتاثیر نظمیں بھی کہی ہیں اور غزلیں بھی لکھی ہیں۔ ‘‘(ماہنامہ ’صنم‘ پٹنہ، نومبر، دسمبر 1962)

اجتبیٰ رضوی کی غزلیں ان کی نظموں سے ہیئت اور انداز بیان کے اعتبار سے مختلف نوعیت کی ہیں لیکن تخیل و فکر کے اعتبار سے ان میں بہت حد تک مماثلت ہے۔ انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا ذہنی یکسوئی کے لیے پریشان رہے۔ وہ ایمان بالغیب کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا خود ان کے سامنے جلوہ گر ہوجائے۔ وہ تلاش و جستجو میں منہمک رہتے اور اس طرح کے اشعار کہتے      ؎

غبار بن کے آرزو رواں دواں ہے کو بہ کو

کہیں سے کچھ صدا تو ہو کہاں ہو تم کہاں ہو تم

اجتبیٰ رضوی کی تشکیک بسا اوقات اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ انکار و الحاد تک معاملہ پہنچ جاتا ہے۔ ان کے یہاں اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں جن میں بیزاری کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں:

ہر مذہب بے روح جسد ہے جذبے کی قلاشی ہے

راکھ کے تودے پجتے ہیں یہ کعبہ ہے وہ کاشی ہے

شرع کی قیل و قال سنی افسانہ دجلہ و حال سنا

ذہن کی وہ عیاشی ہے اور روح کی یہ عیاشی ہے

اجتبیٰ صاحب کے تجربات و مشاہدات نے یہ ثابت کیا کہ عقل کبھی کبھی گمراہی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ انھوں نے ایک عرصے تک فلسفہ و نظریات کو جن کی بنیاد عقل و فکر پر ہے اپنے لیے رہنما بنایا مگر ہمیشہ اپنے ضمیر کی تشنہ کامیوں سے الجھتے رہے۔ اس ضمن میں ایک شعر ملاحظہ کریں         ؎

وہ سوزن فکر جس نے اک دن یہ رخت تہذیب سی دیا تھا

اسی کی کاوش سے آج دیکھو یہ پیرہن تار تار بھی ہے

فکر و فلسفے سے مزین ہونے کے علاوہ اجتبیٰ رضوی کی غزلوں کا ایک حصہ غزل کا عام رنگ لیے ہوئے ہے جس میں چلتے پھرتے مضامین شامل ہیں۔ ان شعروں میں بڑی تازہ کاری اور تازہ خیالی ہے۔ ان میں اجتبیٰ صاحب اپنی خوشی اور سرشاری محبت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

مرا ذکر وفا لکھ کر مورخ یہ بھی لکھتا ہے

یہ اک رسم کہن تھی اب کہیں برتی نہیں جاتی

***

نہیں سہی مرے نالوں میں کچھ اثر نہ سہی

نظر کچھ آپ کی بے چین ہے ادھر نہ سہی

***

چمن اسے اتفاق کہہ لے گری تو ہے آشیاں پہ بجلی

نہ دو قدم آشیاں سے پیچھے نہ دو قدم آشیاں سے آگے

اجتبیٰ صاحب اپنی منظومات کی طرح اپنی غزلوں میں بھی ایک مخصوص لب و لہجے کے ذریعے اختصاص اور انفرادیت کے متلاشی ہیں اور انفرادیت کی کھوج نے ان کے یہاں ایسا تیور پیدا کردیا ہے جسے غزل کی نئی آواز کا اضافہ کہاجاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے اشعار میں فکری گہرائیوں اور فلسفیانہ نکتہ سنجیوں سے اس کی تلافی کی ہے۔  ان کے مجموعہ کلام میں بہت سے ایسے اشعار موجود ہیں جو قدیم مزاج کے غماز ہیں۔ چند اشعار        ؎

سر کو سینے پر کھ کے سن لیجے

آپ سے دل کو کچھ شکایت ہے

دل کی دھڑکن جو ہے مدارِ حیات

اک ذرا تیز ہو تو آفت ہے

***

تم کو بھی بھول جائیں یہ نوبت نہ ہوسکی

واحسر تاکہ ہم کو فراغت نہ ہوسکی

اجتبیٰ رضوی نے بہت سی رباعیاں بھی کہی ہیں۔ ان کی رباعیوں میں کلاسیکی شاعری کا عمدہ عکس موجود ہے۔ عشق کلاسیکی اردو شاعری کا اہم ترین جز ہے۔ اجتبیٰ رضوی نے بھی اس موضوع کو خوبصورتی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں واردات عشق میں زیادہ تنوع نہیں ہے۔ دو رباعیاں ملاحظہ کریں       ؎

وہ دن ہی بدل گئے وہ راتیں بدلیں

وہ حسرت و آرزو کی گھاتیں بدلیں

اب ہم ہیں اور ایک عالم اے دوست

دل کیا بدلا تمام باتیں بدلیں

***

ٹھٹھرے ہوئے دل میں ہے تہیج باقی

یاریت پہ ہے نقش تموج باقی

کب کا ٹوٹا یہ ساز ارماں لیکن

ہر تار میں اب تک ہے تشنج باقی

اجتبیٰ رضوی ہم عصر سیاسی تحریکوں سے خود کو الگ تھلگ رکھا۔ انھوں نے مولانا آزاد، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو پر نظمیں لکھیں لیکن ان کی نوعیت تہنیتی سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی رباعیوں سے گمان ہوتا ہے کہ عملی طور پر علیحدگی اختیار کرنے کے باوجود انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور سماجی شعور کا نچوڑ پیش کیا۔ اس نوعیت کی ایک رباعی ملاحظہ ہو        ؎

یہ دکھ، یہ درد، یہ مصیبت، یہ گناہ

یہ قسمت نسلِ آدم گم شدہ راہ

رہبر جو ملے وہ بن کے انجم چمکے

اور رہ گئی انسان کی تقدیر سیاہ

اجتبیٰ رضوی نے تصوف سے بھی روشنی حاصل کی۔ علم ومعرفت ہی کے ذریعے ان پر خالق و مخلوق کے رشتے کا انکشاف ہوا۔ اس حقیقت کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں         ؎

ہر شمع کو گل تا بہ سحر ہوجانا

ہر قصر کو اک روز کھنڈر ہوجانا

ہر کنگر ئہ سر بہ فلک کی تقدیر

ہے سنگ سر راہ گذر ہوجانا

اس طرح اجتبیٰ رضوی کی رباعیاں ان کی زندگی کے تمام نشیب و فراز، نقش و نگار اور رنگ و بو سے مملو ہیں۔ ان میں ذاتی و کائناتی تجربے اور مشاہدے ہیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اجتبیٰ رضوی کی غزلیہ، نظمیہ اور رباعیاتی شاعری کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان کی شاعری جہاں ایک طرف زندگی کے گہرے اور پیچیدہ مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہے، وہیں زندگی کے عمومی مسائل بھی پوری فنکارانہ مہارت کے ساتھ اجتبیٰ رضوی کی شاعری کے موضوعات بنتے ہیں۔ وہ حقیقت کو فن اور فن کو حقیقت بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔اجتبیٰ رضوی کی سب سے خاص بات یہی ہے کہ انھوں نے شعری افق پر اپنی ایک الگ شبیہ پیش کی ہے۔ شعرائے ادب کی کہکشاں میں اجتبیٰ رضوی کو ان کی خاص لفظیات اور طرزِ اظہار سے پہچانا جا سکتا ہے۔ یہی ان کا انفراد ہے۔بلاشبہ ان کے اشعار طویل مدتوں تک یاد کیے جائیں گے۔

Mansoor Khushter

Darbhanga Times

Purani Munsafi

Darbhanga- 846004 (Bihar)

Mob.: 9234772764

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...