20/9/23

شین مظفرپوری کی افسانوی کائنات:علاؤالدین خان

 

شین مظفرپوری(ولی الرحمن شیدا، پیدائش: جنوری 1920، باتھ اصلی،سیتا مڑھی، وفات:1996) کا ادبی سفر کم وبیش پانچ دہائیوں کومحیط ہے،  اس عرصے میں وہ مسلسل لکھتے رہے۔ عظیم آباد(پٹنہ)، دلی اور لاہور کی مجلسوں میں پیش پیش رہے اور خوب داد وتحسین حاصل کی لیکن گردش ایام اور ناقدین ادب کی بے رخی نے ان کی شہرت اور ادبی کارناموں پر تعصب وجانب داری کی ردا ڈال دی۔ جنھوں نے ان کے افسانوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کے افسانوی فکر وفن سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا تعلق شمالی بہار سے تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اس کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ثانوی تعلیم حاصل کی اور میٹرک کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ شین مظفر پوری کی بنیادی تعلیم اور ذہنی تشکیل اردو،فارسی کی مستحکم طرز پر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ زبان وادب کا صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔اس کا اندازہ ان کی تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔

شین مظفر پوری کا تعلق کسی اعلیٰ اور معاشی طور پر مضبوط گھرانے سے نہیں تھا،جس کی وجہ سے تاعمر غم روزگار سے نبردآزما رہے اور اس کا اثر ان کی تحریر پر بھی پڑا۔ اردو ادب میں ان کی پہچان ایک افسانہ نگار، ناول نگار،ڈرامہ نگار، انشائیہ نگار، خاکہ نگار اور صحافی کی حیثیت سے ہے لیکن فکشن نگار اور صحافی کی حیثیت سے زیادہ مقبول ومعروف ہوئے۔

انھوں نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا ’بے روزگاری ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھ کر کیا جو کلکتہ کے ہفتہ وار اخبار ’ہند‘ میں1938میں شائع ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان سیاسی وسماجی سطح پر کروٹیں لے رہا تھا۔انگریزوں کا زور کم ہورہا تھا اور آزادی کے نعرے ملک کے کونے کونے سے بلند ہونے لگے تھے۔سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف عالمی سطح پر تحریک شروع ہوچکی تھی۔مظلوم وبے کس مزدور اور کسانوں کے حق میں آواز بلند کی جانے لگی تھی،جس نے ہمارے ادب کو بھی متاثر کیا۔داستانوی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا کے مسائل کو ادب میں پیش کیا جانے لگا۔ ترقی پسند تحریک کی شروعات ہوچکی تھی جس نے ادب و حسن کے پیمانے اور معیار کو بدلنے پر غوروخوض کی دعوت دی۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر اردو افسانے نے قبول کیا ا ور دیکھتے ہی دیکھتے اردو افسانہ ادب عالیہ کے مقابل کھڑاہوگیا۔

شین مظفر پوری نے جب افسانہ نگاری شروع کی اس وقت ترقی پسندی اپنے عروج پر تھی اورصوبہ بہارمیں یہ صنف ابتدائی مراحل طے کرتے ہوئے دوسرے دور میں داخل ہوچکی تھی اور یہ دور بہار میں افسانہ نگاری کے اعتبار سے انتہائی اہم تھا۔ کیونکہ اس دورکے اہم لکھنے والوں میں محسن عظیم آبادی،سہیل عظیم آبادی، اختر اورینوی، شکیلہ اختر جیسے بڑے افسانہ نگاروں کا ایک قافلہ سانظر آتا ہے۔لہٰذا ایسے دور میں جب بہار میں افسانہ نگاری اپنے عروج پر تھی شین مظفر پوری نے بھی آہستہ آہستہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا اور یکے بعد دیگرے ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے، جن میں پہلا مجموعہ آوارہ گرد کے خطوط، 1946 میں شائع ہوا۔بعد ازاں اس مجموعے کا دوسرا ایڈیشن’بند کمرہ‘  کے نام سے شائع ہوا۔ساتھ ہی ساتھ ’دکھتی رگیں‘ اور’ کڑوے گھونٹ‘ بھی1946میں ہی شائع ہوا۔

دیگر مجموعے ’لڑکی جوان ہوگئی‘1956،’ دوسری بدنامی‘1965،’ حلالہ‘1976اور’ طلاق طلاق طلاق‘ 1987 میں چھپ کر منظر عام پر آئے۔ ابتدائی تین مجموعے کی اشاعت ایک ساتھ 1946میں ہونے کی وجہ سے کئی سوالیہ نشان کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ تخلیق کار کو ایک ہی سال میں تین تین مجموعے کی اشاعت پر مجبور ہونا پڑا۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ شین مظفر پوری کی ہجرت اور ان کی زود نویسی دونوں شکم کی آگ بجھانے کے لیے تھی۔اگر حالات سازگار ہوتے تو شین مظفر پوری کا فن بھی دوسرے بڑے افسانہ نگاروں کے ہم پلہ ہوتا۔اپنے ادبی سفر کی روداد کا ذکر کرتے ہوئے انشائیے کے مجموعے’آدھی مسکراہٹ‘کی ابتدا میں لکھتے ہیں کہ:

’’سنہ1937عیسوی میں ( عمر 17سال)بے سان وگمان ادب کا چسکا لگا تو ذہنی اور علمی دونوں اعتبار سے میں ناپختہ بلکہ مفلس تھا۔ علمی اعتبار سے تو آج بھی مفلس ہوں اور مفلس ہی مروں گا۔ ہاں تو ادبی دنیا میں جب میں نے آنکھیں کھولیں تو افسانے میں سب سے زیادہ کشش پائی اور ہوتے ہوتے 1940سے باقاعدہ افسانہ نویسی شروع کردی۔ مروجہ رجحانات کے مطابق میں سمجھا کہ افسانے بس حسن وعشق، غریبی، ناداری اور ظالم ومظلوم وغیرہ ہی کے لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ بعض وہبی صلاحیتوں کے طفیل اسی ڈگر پر تیزی سے چل پڑا۔۔۔۔۔ چل پڑا تو چل پڑا۔ مگر کسی خودرو پودے کی مانند۔ قدم بہ قدم کسی بیساکھی کے بغیر چلتے چلتے 1947میں وہ منزل بھی آئی جہاں یکایک محسوس ہوا کہ ع   مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں‘ ذہن وفکر کا انداز، فن کا مزاج اور تحریر کا رنگ روپ اپنے آپ بدلنے لگا۔تب تک صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرچکا تھا۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ صحافت نے بھی میرے فکر وفن کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔ تحریر میں تیکھا پن آنے لگا۔ اخبارات و رسائل میں طنزومزاح لکھنے کے بھی مواقع ملے۔ 1947 کے تقسیم وطن کے بعد ایک دوسری ہی دنیا سے پالا پڑا۔ زندگی اور سماج کا ماحول ہی کچھ سے کچھ ہوگیا۔ قلم کو نشتر اور زبان کو دھاردار بنانے میں مابعد 1947کے سیاسی اور سماجی عوامل، محرکات کی بھی کارفرمائی رہی ہے۔ ذہن وفکر نے نئی نئی کروٹیں لیں۔تاریخ کے بدلے ہوئے دھارے اور کئی سیاسی اورسماجی آب وہوا میں درجنوں افسانے اور کئی ناول لکھے۔‘‘

(آدھی مسکراہٹ،ص5،لیتھو پریس پٹنہ،1980)

مذکورہ بالا اقتباس سے افسانہ نگار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اورادبی سفر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ شین کے زندگی نامہ کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہو تا ہے کہ انھوں نے اپنا ادبی سفرتن تنہا طے کیا اور زندگی کے نشیب وفراز سے گزرے۔ وہ کسی شخصیت یا تحریک سے بھی کلی طور پر متاثرنظر نہیں آتے۔

ان کے افسانو ں کے موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ چہار دیواری کی زندگی، گھریلو زندگی کی ناہمواریاں، سماجی مساوات، تعصب، اخلاقی تنزلی، معاشی بدحالی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی، فرقہ و ارانہ فسادات اور جنسی مسائل پر عمدہ افسانے لکھے، جن کے مطالعے سے ان کے فکری رویے اوروسیع وعمیق مشاہدے کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ان کے افسانوں کے موضوعات شمالی بہار کے دیہات ہیں لیکن علاقائیت کے اثرات کے باوجود اس میں آفاقی رنگ بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کے کردار کا تعلق مفلوک الحال ادرنچلے متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں سے ہے، جن کی نفسیاتی، سماجی، تہذیبی وثقافتی الجھنوں کو انھوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔ڈاکٹرقیام نیر اپنی کتاب ’بہار میں اردو افسانہ :ابتداء تا حال ‘میں ان کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’چونکہ انھوں نے شمالی بہار کو بہت قریب سے دیکھا ہے، غریب اور نچلے طبقے سے برابر سابقہ پڑتا رہا ہے، مسلم گھرانوں کے معاشرتی ماحول سے کافی لگاؤ رہا ہے اس لیے ان کے یہاں زیادہ تر ان ہی کردار اور ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے یہاں غیر مسلم کرداروں پر افسانے، ڈرامے اور ناول وغیرہ نہ کے برابر ہیں۔‘‘

(بہار میں اردو افسانہ نگاری (ابتدا تا حال)،  قیام نیر،ص154، دی آزاد پریس، پٹنہ،طبع دوم 1996)

اپنے افسانوں کے موضوعات کے حوالے سے قیام نیر کے ایک سوال کے جواب میں شین نے خود ہی اس بات کااعتراف کیاہے کہ:

’’میں کسی خاص موضوع یا مسئلہ پر افسانے نہیں لکھتا۔ میرے افسانے رنگا رنگ ہیں۔ عام طور پر سماجی مسائل، انسانی نفسیات، حادثات، سیاسی غلط کاریاں وغیرہ میرے عام موضوعات ہیں۔۔۔۔ خدا ترسی اور خدا پرستی اور روحانی احساسات میرے فکر وفن میں under currentمحرکات کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ (ایضاً)

افسانہ’آوارہ گرد کے خطوط‘ شین کے پہلے افسانوی مجموعے میں شامل ہے۔یہ افسانہ خط کے فارم میں ہے اور سولہ خطوط پر مشتمل 70صفحے کاطویل افسانہ ہے۔ اس افسانے میں دو کردار ہیں۔ ایک آوارہ گرد اور دوسرا نسیمہ۔ یہ ان کے ابتدائی دورکا افسانہ ہے جس پر رومان پرستی غالب ہے اور یہ افسانہ نگار کے فکر وفن کا امتزاج ہے۔ سبھی خطوط میں زندگی کی نفسیاتی گتھیوں کو پیش کیا ہے۔ ان خطوں کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ آوارہ گرد عورت کے تئیں متعصب اور متنفر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے حاصل کر نہیں پاتا ہے۔ باوجود اس کے وہ عورت ذات پر طنز کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتاہے۔’آوارہ گرد کے خطوط‘کے آخر میں یہ عیاں ہوتا ہے کہ آوارہ گرد کو نسیمہ سے صرف اتنی شکایت ہے کہ اس نے آوارہ گرد کی دوران علالت عیادت نہیں کی۔یہی بے اعتنائی ان خطوط کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنا اورآخری خط میں اعتراف کرتا ہے کہ ’’آج ایک قاہر وجابر شہنشاہ ایک گداگر کے قدموں پر پیشانی رگڑ رہا ہے۔‘‘

(بند کمرے میں، افسانہ آوارہ گرد کے خطوط، پیش لفظ: بلقیس فاطمہ، ص15،رنگین کتاب گھر،دہلی، سنہ ندارد)

بلقیس فاطمہ آوارہ گرد کے خطوط کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:

’’روزمرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جنسی رجحانات کی کروٹوں کا نفسیاتی تجزیہ اس کے فن کا طرۂ امتیاز ہے۔ متوسط طبقے کا ماحول اس نے اپنی افسانہ نگاری کے لیے تقریباً مخصوص کرلیا ہے کیونکہ یہ درمیانی طبقہ سب سے زیادہ اصلاح اور توجہ کا محتاج ہے۔ اس میں اول وآخر طبقوں کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ انسانیت کی تعمیر اور تخریب کا دارومدار اسی طبقے پرہے۔ اس طبقے کی اخلاقی کمزوری، معاشی کشمکش، مفلس جوانی کی مریضانہ تشنگی اور اس کا ردعمل اس کے افسانوں کے نمایاں موضوع ہیں۔ اور تحلیل نفسی ان سب کا محور۔ پلاٹ اور موضوع کی شیر وشکر جیسی آمیزش کے اعتبار سے اس کے افسانے اردو کے ننانوے فیصد اچھے افسانہ نگاروں کے لیے قابل رشک ہیں۔‘‘(ایضاًص8)

شین کا تعلق ممتاز مفتی، حسن عسکری اور علی باقر کی جماعت سے تھا۔ انھوں نے جنس کے بیان میں کبھی بھی عصمت چغتائی اور منٹو کی پیروی نہیں کی بلکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں کردارکانفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے اس کے ذہنی  رویے کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’نہ جینے دو گے نہ مرنے دوگے‘ اور ’انمول‘میں جنس کا بیان ضمنی ہے اصل مسئلہ میاں بیوی کے درمیان رشتے اور برتاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔

اس افسانے میں شاہد اور رخسانہ کے باہمی محبت، برتاؤ اور تلخی سے ابھرنے والی کیفیت کو انتہائی فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ رخسانہ حسین ہے اور وہ چاہتی ہے کہ شاہد پر اس کی اجارہ داری ہو اور وہ اس کے حکم سے اپنی زندگی گزارے مگر ازدواجی زندگی کا تقاضا کچھ اور بھی ہوتا ہے۔  نتیجتاً روز بہ روز تلخی بڑھتی جاتی ہے اور شاہد رخسانہ کو طلاق دینے کا ذکرپڑوسن سے کردیتا ہے۔اس کے بعد گھر میں ہنگامہ کھڑ اہوجاتا ہے۔معاملہ کسی طرح رفع دفع ہوتا ہے لیکن رخسانہ کو شاہد کے رویے سے بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ اس کی بے اعتنائی برداشت نہیں ہوتی۔ا گرچہ رخسانہ نے شاہد کو رجھانے کے لیے سارے حربے استعمال کیے مگر وہ ناکام رہی۔افسانے میں افسانہ نگار نے جس طرح سے رخسانہ کے کردار کو پیش کیا ہے وہ ایک مضبوط کردار کی شکل میں ابھرا ہے۔ نیز افسانے میں واقعات کا تسلسل اور زبان وبیان کی برجستگی قابلِ تحسین ہے۔

افسانہ ’انمول‘ میں بارش نہ ہونے اور قحط کی وجہ سے عوام کی فاقہ کشی، مجبوری و بے بسی کو پیش کیا گیا ہے اور جینے کی تگ ودو میں عوام کس طرح مجبور وبے بس ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود ہوجاتی ہے، اس کی نہایت دردناک تصویر پیش کی گئی ہے۔اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حالات کے ہاتھوں انسان کس قدر لاچار ہوجاتا ہے کہ اناج کی قلت کی وجہ سے انوکھی کا باپ جب پورا علاقہ قحط اور فاقہ کشی سے نبردآزما ہے، اسی دوران اپنی بیٹی کی شادی بڑی سادگی سے کردیتا ہے تاکہ ایک فرد کے بوجھ سے نجات مل سکے۔ انوکھی جوان، حسین اور باکرہ ہے۔اسے اپنی عصمت اور پاک دامنی پر ناز ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بھی خود کو شوہر کے سپرد نہیں کرتی ہے بلکہ دست درازی کرنے پر شور مچانے کی دھمکی دیتی ہے۔انوکھی کے بھولے پن اور معصومیت کی وجہ سے اس کے سسرال والے میکے پہنچا دیتے ہیں۔ شادی سے قبل سکندر انوکھی سے محبت کرتا تھا لیکن انوکھی نہیں۔ انوکھی کو تو اپنی پاک دامنی کی فکر تھی کیونکہ محلے کی لڑکیوں کے کردار سے واقف تھی اسی لیے اپنی دنیا اپنی پاکدامنی تک محدودکر رکھا تھا۔قحط اور فاقہ کشی کی وجہ سے حالات بدتر ہونے لگے جس کا اثر انوکھی پر بھی پڑا اور انوکھی اپنی پاکدامنی کی پرواہ کیے بغیر سکندر سے اپنے پاکدامنی کا سودا کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کو موت کے منھ میں جانے سے بچاسکے:

’’یکایک مایوسی اور ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیارے میں روشنی کی ایک مدھم سی کرن جھلملائی۔ انوکھی کے دل سے ایک آواز نکلی جس کی گونج اس کے دماغ کے گنبد میں بھرگئی۔ ایک نام۔۔۔۔ سکندر، گاؤ ں کے خوش حال مودی کا لڑکا، انوکھی کا وہ مایوس عاشق جس سے ایک بار رات کے اندھیرے میں وہ ملی تھی اور جس کی تمنا کا خون کرکے اس نے فخر محسوس کیا تھا۔ اس کی یاد آتے ہی انوکھی کی آنکھوں میں زندگی کی رمق پیدا ہوگئی۔ بڑی دیر کی کشمکش کے بعد انوکھی نے جی کڑا کرکے ایک فیصلہ کرلیا۔ ایک ایسا فیصلہ جسے کرتے ہوئے وہ کانپ کانپ گئی۔ مگر ماں باپ اور بھائی بہن کی جان بچانے کو وہ سب کچھ قربان کرسکتی تھی۔‘‘

شین مظفر پوری کے تیسرے افسانوی مجموعے ’کڑوے گھونٹ‘ کے افسانے میں دستک، خسارہ،جراثیم اور بے زبان خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں جنس کا ذکر زیریں سطح پر ہے لیکن اصل میں ان کہانیوں میں سماجی ومعاشرتی زندگی کے نشیب وفراز کو بیان کیا گیا ہے۔وہاب اشرفی شین مظفر پوری اور جنس کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ البرٹوموراوِیا کی ’دی وومن آف روم‘ کو فخرسے پڑھنے  والے لوگ ’ش‘ کو فحش نگار کہتے ہیں۔ ش جنس پر لکھتے ہیں تو حصول لذت کے لیے نہیں، وہ ماحول اور سماج کی تمام تر گندگیوں کو ایک فنکار کی طرح دیکھتے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ یہ جراحی ناپسندیدہ ہوسکتی ہے لیکن غیر ضروری نہیں۔‘‘

(بہار میں اردو افسانہ نگاری، مرتب :وہاب اشرفی، افسانہ ’انمول‘، ص234،بہار اردو اکادمی، پٹنہ،1989)

آوارہ گرد کے خطوط‘ اور ’بند کمرے میں‘ ان کے دو افسانے ’بند کمرہ ‘اور’ حق تلفی‘۔ ان افسانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اگر دیانت داری کے ساتھ اردو افسانوں کا انتخاب تیار کیاجائے تو یہ دونوںمنتخب افسانوں کی فہرست میں ہوں گے۔علاوہ ازیں ’دوسری بدنامی‘ اور ’سرد جنگ‘ بھی ان کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

شین مظفر پوری نے افسانوں میں اپنے عہد اور سماج کی بھرپور نمائندگی کی ہے اور عصری مسائل پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ جن مسائل سے دوچار تھے اسے بطور خاص اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔

افسانہ’ دستک‘میں تقسیم ہند اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس افسانے میں مصنف کے مشاہدات، تجربات اور نظریات کی عکاسی واضح طور پرنظر آتی ہے۔ یہ افسانہ دراصل سوانحی افسانہ ہے جس میں شین نے معاشی نابرابری کی وجہ سے سماج میں کس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کی عکاسی کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف دولت پر قابض ساہوکار اور زمیندار ہیں جو غریبوں کا خون چوستے رہتے ہیں، دوسری طرف ایک ایسے فرد کا حال بیان کیا ہے جس کے کاندھے پر بہن کی شادی کی ذمے داری، بیوی بچوں کا بوجھ اور دوسرے مسائل اسے ہر وقت پریشان کیے رہتے ہیں۔ یہ فرد کوئی اورنہیں بلکہ خود افسانہ نگار ہے۔اس طرح افسانہ ’دستک‘ میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک غریب اور متوسط طبقے کا انسان تمام عمر ترس ترس کر جینے پر مجبور ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بیوی  دم توڑ دیتی ہے اور وہ اسے کاندھا بھی نہیں دے پاتا ہے۔ کیونکہ غم روزگار نے اسے در بہ در بھٹکنے پر مجبور کردیا افسانے کا اختتام المیہ ہے جس کے مطالعے سے قاری پر بھی حزن وملال کی کیفیت سی طاری ہوجاتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تمام مال ودولت صرف چند لوگوں کے قبضے میں ہیں جبکہ ایک بڑی آبادی بھوک وافلاس میں پوری زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اوریہ مسئلہ ہر دور میں سر ابھارتا رہا ہے۔ان کے افسانوں کی عصری معنویت کا جائزہ لیتے ہوئے شہاب ظفراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ:

’’بہترین ادب وہی ہوتا ہے جو کسی معین مکانیت اور محدود زمانیت کا قیدی نہ ہو۔ شین مظفر پوری کے افسانے اس لحاظ سے بڑے افسانے کہے جاسکتے ہیں کہ وہ عہد جس سے شین متصادم تھے اس کی ستم کوشیاں اب بھی جاری ہیں اور ان میں پیش کردہ مسائل سے آج بھی ہمارا معاشرہ دوچار ہے۔شین مظفر پوری کی کہانیاں اس عہد کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے مسائل کی بھرپور نمائندگی کررہی ہیں۔‘‘

(شین مظفر پوری کے افسانوں کی عصری معنویت، شہاب ظفر، مشاہیر دبستانِ بہار،مرتب: امتیاز احمد کریمی،ص275-76،اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں اپنے عہد کے معاشرے، اس کے مسائل اور مسائل کی چکی میں پستے ہوئے انسان کی بہترین تصویر کشی کی ہے او ر بحیثیت فرد انسان کو موضوع بحث بنانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل پر بھی زور دیا ہے۔ اوریہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ انسان خواہ جس روپ میں بھی ہو یا جو بھی کردار ادا کررہا ہو، کارزار حیات میں اس کا ہر عمل ایک نئے ردعمل کو جنم دیتا ہے اورنئی نئی کہانیوں کو جنم دیتا رہتا ہے۔اس طرح زندگی کا سفرجاری وساری رہتا ہے۔

 

Dr. Allauddin Khan

Department of Urdu

Rajendra College,

Jai Prakash University

Chhapra-841301 (Bihar)

Mob.: 9650663775

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...