میرٹھ جن ادبا اور
شعرا کے حوا لے سے پو ری دنیا میں ایک دبستاں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ان میں ایک
معتبر نام سحر عشق آبادی کا ہے۔ سحر عشق آبادی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر لسان
و عروض بھی تھے۔ آپ عزیز لکھنوی جن کولسان العصرکے خطاب سے نوازا جا چکا ہے، کے شا
گردوں میں سے تھے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس کسی نے بھی عزیز لکھنوی کے شاگردوں کا
ذکر اپنی کتابوں اور مضامین میں کیا ہے انھوں نے سحر عشق آبادی کو عزیز کے شاگردوں
میں شمار نہیں کیا ہے۔لیکن خود سے سحر عشق آبادی عزیز لکھنوی کا شاگرد ہونے پر فخر
کرتے ہیں۔ عزیز لکھنوی کے وہ شا گرد جن کا خاصا نام ہے انھوں نے بھی کبھی سحر عشق آبادی
کو عزیز لکھنوی کے شاگردوں میں شمار نہیں کیا ہے جب کہ وہ سحر عشق آبادی کو عزیز لکھنوی
کے پاس آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ سحر عشق
آبادی فن شاعری اور زبان کے اپنے عہد کے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور انھوں نے
عزیز کے شاگردوں کی شاعری کی اچھی خاصی بخیہ ادھیڑی تھی۔ علامہ سحر عشق آبادی کسی
کو خا طر میں نہیں لاتے تھے۔ان کے تعلق سے وریندر پرکاش سکسینہ لکھتے ہیں:
’’سحر عشق آبادی یگا نہ چنگیزی کی طرح اکھڑ بندہ تھا اس لیے ادبی دنیا
کے لوگ آپ سے نفرت کا جذ بہ رکھتے تھے۔وہ اردو فن پر اتھا رٹی تھے۔ان سے بڑا اردو
فن کا جاننے والا اس دور میں کوئی پیدا نہیں ہوا اس کا اعتراف سبھی اردو حلقوں نے کیا
ہے۔‘‘
(سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ)
سحر عشق آبادی کی پیدا ئش14ستمبر1903
کوعشق آباد(شہر میرٹھ) میں ہوئی تھی۔آپ کا پورا نام بھگوان چند سحر عشق آبادی تھا۔
آپ میرٹھ کے مشہور بھٹناگر کائستھ خاندان سے تھے۔ آپ نے لکھنؤ سے ابتدائی تعلیم
حاصل کی اور وہیں عزیز لکھنوی سے اصلاح لینے لگے۔عمر کے آخری پچیس سال آپ نے دہلی
میں گزارے۔یہاں آپ ’شان ہند‘ نامی اخبار سے وابستہ تھے اور ظفر ادیب کے ہمراہ رہا
کرتے تھے۔ آپ کا انتقال31؍ مارچ 1978 کو دہلی
میں ہوا۔
آپ عروض و زبان کے
اپنے عہد کے بڑے عالم مانے جاتے تھے۔ آپ کے سامنے کسی کا طوطی نہ بولتا تھا۔ یوں بھی
آپ لسان الہند عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے اور لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کا ذکر آپ کے
یہاں اکثر ملتا تھا۔ غلط الفاظ اور محا وروں کے استعمال سے آپ کو بہت چڑ تھی اسی وجہ
سے آپ نے ایسے لوگوں کی جن کے یہاں الفاظ یا محا وروں کا غلط استعمال ملتا تھا بہت
سخت گرفت کی۔آپ لکھنو ٔ کی زبان کے نہ صرف مداح تھے بلکہ کلمہ بھی پڑھتے تھے۔اپنے
بارے میں خود لکھتے ہیں:
’’میں نے عمر کا بیشتر حصہ علم اور تجدید عروض کی بھینٹ کردیا۔عروض
کے باب میں کسی زندہ انسان کازیر بار احسان نہیں۔ اس وقت تک جتنی کتابیں عروض پر لکھی
گئی ہیں وہ سب نا مکمل و غیر تسلی بخش ہیں اگر خلیل ابن احمد بصری اور محقق طو سی میری
مدد نہ فر ماتے تو میں اس فن کی گرد بھی نہ پاسکتا۔‘‘
اتنے بڑے عالم اور
شاعری کے فن کے ماہر سحر عشق آبادی کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس میں
جہاں ان کے ہم عصروں کی ادبی چشمک نظر آتی ہے وہیں خود علامہ سحر عشق آبادی کا وہ
غرور اور تعلّی بھی شامل ہے جس کے سبب آپ کسی کو بھی خا طر میں نہیں لاتے تھے۔ آپ
ثروت میرٹھی سے فن شعر پر مشورے کرتے تھے۔ آپ نے زبان اور عروض کی باریکیاں ثروت میرٹھی
سے سیکھیں،لیکن افسوس آپ نے کبھی اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ راقم کو نگار عظیم ( ثروت میرٹھی کی بیٹی)نے بتایا کہ سحر
عشق آبادی کے کئی خطوط ہیں،جن میں انھوں نے ثروت میرٹھی سے بہت کچھ سیکھنے کا ذکر
کیاہے۔
آپ کی زندگی میں آپ
کا ایک مجموعہ ’گل بانگ‘ کے نام سے شائع ہوا جن کو ان کے عزیزشاگرد نند لال پروا نہ
نے1965 میں کافی اہتمام کے ساتھ شائع کیا تھا۔ ’گل بانگ‘ میں علامہ سحر عشق آ بادی
کی معروف نظمیں، غزلیں اور رباعیاں شامل ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ نظم اور غزل کے ماہر
شاعر ہونے کے بعد بھی سحر عشق آ بادی کو اپنے عہد میں نہ غزل گو شاعر کی حیثیت سے
اور نہ نظم باف کی حیثیت سے شمار کیا گیا۔ عزیز لکھنو ی کے شاگردوں میں غزل گو شعرا
میں اثر لکھنوی، جگر بریلوی، تسکین قریشی اور امن لکھنوی کا نام لیا جاتا ہے جب کہ
آپ کی غزلیں آپ کے ہم عصروں سے کسی طور کم نہیں ہیں۔
’ گل بانگ‘ آپ کی نظموں اور غزلوں کا مجمو عہ ہے جو کسی طور اپنے معاصرین
کے مجموعوں سے کم تر نہیں ہے۔ غزلوں کے علاوہ
نظموں میں بھی آپ کا فیض بولتا ہے۔ مفتون شکوہ آبادی آپ کے مجمو عے کے تعلق سے لکھتے
ہیں:
’’میں نے گل بانگ کا لفظ لفظ غور سے پڑھا۔ جس سلاست روا نی سے تمام
فنی قیود کو پیش نظر رکھ کر صاحب گل بانگ نے نادر جو ہر پیش کیے دنیائے ادب میں نہ
کہیں دیکھے نہ سنے۔‘‘
(سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ، ص11)
علامہ عشق آ بادی
کی نظموں اور غزلوں میں ایک طرح کی روا نی اور سلاست پائی جاتی ہے۔ الفاظ کا انتخاب
اور محاوروں کا بہترین استعمال آپ کے ماہرفن ہو نے پر دال ہے۔
علامہ سحر عشق آ بادی
نے شاعری کے فن اور عروض کے تعلق سے کئی کتابیں تحریر کی تھیں جن میں سے کوئی بھی ان
کی زندگی میں شا ئع نہ ہو سکیں۔ آپ کی مشہور کتابوں میں ’عیوب فصاحت ‘کا شمار ہو تا
ہے۔ یہ کتاب شعرا اور ادبا کے لیے بہت ضروری ہے۔ بڑے بڑے استاد شعرا کے یہاں ان کے
کلام میں فصا حت کے بے شمار عیوب ملتے ہیں۔یہاں تک کہ داغ کے یہاں بھی بہت سے عیوب
نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب فصاحت کے عیوب پر کھل کر بحث کرتی ہے۔’’سحر العروض‘‘ یہ کتاب
بھی اب تک شائع نہیں ہو پائی۔ لیکن اس کتاب میں عروض کے فن پر مدلل بحثیں اور مضا مین
موجود ہیں۔ اس کتاب کے بعض مضامین ادبی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ خود علامہ سحر عشق
آ بادی اپنی اس کتاب کے تعلق سے فر ماتے ہیں:
’’تیسری تا لیف سحر العروض ہے۔ اس فن پر مشہور و معروف مؤلفین کی کتابیں
پڑھ کر دل بہت کڑھا۔ انہوں نے اس عمل کی گتھی سلجھانے کی کوشش میں اور الجھا کر رکھ
دی اور مجھے سحر العروض لکھنے پر مجبور کیا۔ ان کی سعی لا حاصل۔اکثر رسا لوں کے ذریعے
نذر ناظرین کر چکا ہوں۔ آپ اس کے مطا لعے سے مستفیض ہو کر فر مائیں گے کہ واقعی ہر
تائید یا تردید معقول دلیلوں سے کہی گئی ہے۔‘‘ (سحر عشق آ بادی، ویریندر پرشاد سکسینہ،
ص14)
سحر عشق آبادی کے
ہم عصروں میں میرٹھ کے روش صدیقی، حفیظ میرٹھی، انجم جمالی،حقی حزیں وغیرہ کا شمار
ہو تا ہے۔ تسکین قریشی اور جگر بریلوی سے آپ کے دوستا نہ تعلقات تھے۔ جگر بریلوی نے
عمر کے آخری حصے میں میرٹھ کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ اس کے باوجود علامہ سحر عشق
آ بادی کو میرٹھ کا ادبی ما حول پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ عشق آ
باد لگایا لیکن اپنے ماہر فن ہو نے کا جو زعم ان کے اندر تھا اس نے آپ کو میرٹھ ہی
کیا پوری ادبی دنیا میں الگ تھلگ کردیا تھا۔یہاں تک کہ اسماعیل ڈگری کالج میں ایک بڑا
ادبی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت غلام الثقلین نے کی تھی اور جس میں خوا جہ احمد فاروقی،
مالک رام اور جگر بریلوی نے اسماعیل میرٹھی کی ادبی خدمات پر مقالات پیش کیے تھے۔ ایسے
بڑے جلسے میں بھی علامہ سحر عشق آ بادی کو شامل نہیں کیا گیا۔ دوسرے میرٹھ میں ایک
بڑی کائستھ کانفرنس بھی آپ کے زمانے میں ہوئی جس کی صدارت گو پی ناتھ امن نے کی تھی
جس میں اس زمانے کے سر کردہ کائستھ شعرا اور ادبا نے شر کت کی تھی،آپ کو اس کانفرنس
میں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ ان سب کے باوجود آپ کو میرٹھ سے گہرا لگا ؤ تھا۔ آپ
مولا نا محمد حسین شو کت میرٹھی،اسماعیل میرٹھی، قلق میرٹھی اوربیاں میرٹھی کے معتقد
تھے جب کہ روش صدیقی اور جگر بریلوی سے آپ کا دوستا نہ تعلق تھا۔ میرٹھ عشق کا ایک
ثبوت نظم ’عشق آباد‘ ہے جو آپ کے مجمو عۂ کلام ’گل بانگ‘ میں شامل ہے۔ چند اشعار
ملا حظہ ہوں ؎
عشق آباد
کہتے ہیں دل سے اہل
عشق آباد
حسن پائندہ باد عشق
آباد
لوگ کہتے ہیں اب جسے
میرٹھ
ہاں وہی تھا وہی ہے
عشق آباد
عشق خیز ارض ہے بحسن
کمال
حسن بار آسمانِ عشق
آباد
خاکِ عشاق جم کے مرکز
پر
بن گئی سر زمینِ عشق
آباد
تتلیاں سی تھرکتی ہیں
پریاں
بے خزاں ہے بہارِ عشق
آباد
سحر عشق آ بادی کو
غزلوں کے ساتھ نظموں پر بھی کا فی دسترس تھی۔ آپ نے متعدد نظموں کے ذریعے نظم نگار
شعرا میں الگ مقام پیدا کیا۔ ان کی مشہور نظموں میں عشق آ باد،میں غزل کہتا ہوں،ماں
مریم، کے علاوہ کرشن پر لکھی گئی آپ کی متعدد نظمیں آپ کی شناخت ہیں۔آپ کی نظموں
میں الگ طرح کی روانی ملتی ہے۔ آپ کی نظموں میں شا عری کا فن بدرجۂ اتم ملتا ہے اور
ایک الگ فہم کا والہانہ پن جو آپ کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔
آپ نے بے شمار ربا
عیاں بھی لکھی ہیں۔ آپ کی ربا عیوں کا ایک انتخاب گل بانگ‘ میں ’خیام سے پہلے‘ کے
عنوان سے شامل ہے۔ان ربا عیات میںجہاں ان کا اپنا مذہب اور اس کے متعلقات نظر آتے
ہیں وہیں اللہ رب العزت اور اس کے تعلق سے مضامین بھی آپ کی رباعیات کا موضوع بنتے
ہیں۔ رباعیات کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ سحر عشق آبادی کی رباعیات اپنے معاصرین
سے کسی طور کم نہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی رباعیات کا کوئی مجمو عہ ان کی زندگی میں
شائع نہیں ہو سکا جب کہ ان کے معاصرین کے ربا عیات کے مجموعے شائع ہوگئے تھے۔ چند رباعیاں ؎
قول عزیز
نقاد ہو منصف تو ہے
میرا محبوب
ہو دشمن فن کوئی حاسد
مغضوب
بے منت استاد ہو اصلاح
بنقد
ہے قولِ عزیز لکھنوی
یہ کیا خوب
بر ہم کا سپنا
برھمانڈ ہے کیا برہم
کا سپنا زاہد
اس بات پر ایمان نہ
لانے کی تھی ضد
کل دیکھا وہ بے نیاز
کل سویا ہوا
یہ سچ ہے ترے سر کی
قسم اے ملحد
سحر عشق آبادی اپنی
غزلوں کے لیے مشہور ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عزیز لکھنو ی کے معروف غزل گو شعرا میں سحر
عشق آبادی کا نام شامل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ ادبی چشمک
اور علا مہ سحر عشق آ بادی کے مزاج کاکٹر پن اور خود کو دوسروں سے بر تر سمجھنے نیز
معاصرین کی غزلوں میں عیوب تلاش کر نے کے عمل کے سبب ہے۔ نا انصا فی بھی ہے کہ انھوں
نے ہمیشہ سچ اور حق بات کہنا اپنا شیوہ بنا لیا تھا اور وہ ماہر شاعری اور عروض و فن
کے سبب اپنے معاصرین کی غزلوں اور نظموں میں
فصاحت اور بلاغت کے عیوب تلاشتے تھے۔ یہ باتیں انہیں ایک اچھا ناقد ثا بت کرنے کے لیے
کا فی ہیں۔ یہ ان کی اور اہل میرٹھ کی بد نصیبی
ہے کہ ایسے ماہر فن غزل گو شاعر کو مناسب مقام نہیں ملا۔ آپ کی غزلوں میں روا یت کا
احترام تو ملتا ہی ہے کہیں کہیں روا یت سے انحراف بھی آپ کی پہچان ہے۔ خاص لفظیات
کا استعمال اور ایک الگ قسم کا رو مان آپ کی غزلوں کی شناخت ہے۔ چند اشعار پیش ہیں ؎
آہ کرتا ہوں تو آتی
ہے پلٹ کر یہ صدا
عاشقوں کے واسطے بابِ
اثر کھلتا نہیں
رفتہ رفتہ ہی نقاب
اٹھے گی رو ئے حسن سے
وہ تو وہ ہے ایک دم
کوئی بشر کھلتا نہیں
خرمنِ جاں کے واسطے
شعلۂ طور بن گیا
جیسا عطا ہوا مجھے
ایسا نہ کوئی پائے دل
سحر وہ حسنِ بے نیاز
آئے نہ بے نقاب کیوں
پردہ دوئی کا اٹھ چکا،
تھا یہی مدعائے دل
فرشتے بھی پہنچ سکتے
نہیں وہ ہے مکاں اپنا
ٹھکانا ڈھونڈے دورِ
زمیں و آسماں اپنا
خدا جبار ہے ہر بندہ
بھی مجبو ر و تابع ہے
دو عالم میں نظر آیا
نہ کوئی مہرباں اپنا
علامہ سحر عشق آ بادی
کے شاگردوں کا جہاں تک سوال ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے درجنوں شاگرد ایسے
ہیں جنھوں نے آپ سے شاعری کے فن پر اصلاح لی اور اپنے فن میں کمال حاصل کیا۔ حد تو
یہ ہے کہ ابر گنو ری اور رمز گنوری بھی آپ سے مشورے کیا کرتے تھے۔ سنتوش کما ر کوکب،
گو کل چند نارنگ وغیرہ نے بھی آپ سے شعرو شاعری میں اصلاح لی ہے۔لیکن آپ کے شاگرد
عزیز نند لال پروا نہ اور رام پرکاش زار علامی نے آپ کا کا فی نام کیا۔ یہ دو علامہ
کے ایسے شاگرد ہیں جو فن شاعری سے بھی واقف تھے اور اپنے زمانے کے اہم شعرا میں شمار
ہوتے تھے۔خاص کر زار علامی کی بات کی جائے تو وہ عروض کے فن میں یکتا تھے اور ان کا
شمار اپنے عہد کے اساتذۂ سخن میں ہو تا تھا۔
علا مہ سحر عشق آبادی
کو ادبی دنیا تو ادبی دنیا، میرٹھ نے بھی فرا موش کردیاہے۔ جب کہ عشق آ باد تخلص رکھنے
والے اپنے عہد کے اکیلے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے شاعری میں تو کمال حاصل کیا ہی عروض
اور زبان کے بھی ماہر کہلائے۔ اپنے زمانے میں علامہ سحر عشق آ بادی بے نظیر تھے۔ ساہتیہ
اکا دمی،دہلی نے ہندو ستانی ادب کے معما ر سیریز کے تحت وریندر پرشاد سکسینہ کا مونو
گراف سحر عشق آ بادی شائع کر کے جہاں علامہ کو بہتر خراج پیش کیا ہے وہیں ایک عالم
اور شاعر کو گمنامی سے بچا لیا ہے۔
Prof. Aslam
Jamshedpuri
Dept of Urdu
Chaudhary Charan Singh University, Ramgarhi, Meerut- 250001 (UP)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں