22/9/23

مولانا عبدالماجد دریابادی کی ڈرامانگاری:شہباز ارشد

 

مولاناعبدالماجددریابادی کی ولادت اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کے مشہورقصبہ ’دریاباد‘کے ممتازاورذی علم قدوائی خاندان میں17مارچ 1892 کوہوئی۔ دریاباد ان کاآبائی وطن تھالیکن ان کے خاندان کے اکثر افرادلکھنؤ میں بودوباش کرتے تھے۔عبدالماجددریابادی اچھی تعلیم کے لیے لکھنؤجیسا شہرچھوڑ کر اپنے آبائی قصبے دریابادمیں بس گئے تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعدبھی انھوں نے دریاباد میں رہنا پسند کیااور اپنی زندگی کے تقریباً 55سال دریاباد میں گزارے۔

مولاناعبدالماجد دریابادی بلندپایہ فلسفی، بہترین صحافی، عظیم ادیب، بہترین مصلحِ ادب اورایک قادرالکلام شاعر تھے۔ انھیں شعروشاعری سے خاص شغف تھالیکن انھوں نے کبھی بھی بلاضرورت شاعری نہیں کی۔ اس لیے ان کا بہت زیادہ کلام تونہیں ہے لیکن جو کچھ ہے بہت خوب ہے۔ شاعری سے بھی انھوں نے قوم وملت کی ترقی اور اصلاح کی کوششیں کی۔ مولاناعبدالماجد دریابادی کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن کی شخصیت اپنے ہم عصروں میں مسلم تھی۔ان کے بارے میں مولاناابوالکلام آزادنے اپنے خیالات کااظہاران جملوں میں کیاہے:

’’آج کل کے نوجوان تعلیم یافتہ اصحاب  میں بعض  اشخاص ایسے بھی ہیں جن کو عام حالت میں حق امتیاز  واستثنا حاصل ہے اورہماری مایوسیوں میں وہ اپنے اندر ایک  نشان امیدرکھتے ہیں۔ میں ان کی  وقعت کرتا ہوں۔ انھیں چند لوگوں میں میرے عزیزدوست مسٹر عبدالماجد بی اے بھی ہیں مجھ کو یقین ہے کہ ان کاذوق علمی اردوزبان کو ان شاء اللہ بہت فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

(بحوالہ عبدالماجددریادی، سلیم قدوائی، ساہتیہ اکادمی، پہلاایڈیشن 1998، ص 24)

مولانادریابادی کو صنف ڈراماسے بھی بچپن ہی سے دل چسپی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں انھوں نے خود ڈرا مہ میں حصے لیا۔یہ ذوق جوانی میں بھی باقی رہا۔ ڈرامے سے دل لگی کی وجہ سے وہ تھیٹربھی پہنچے اوریہ ایک بار نہیں باربار ہوا۔ وہ اکثر ڈرامادیکھنے اسٹیج اورتھیٹر کا طواف کیاکرتے تھے۔

جب انھیں لگاکہ ڈرامابینی وقت گزاری کے سواکچھ نہیں تو اپنے قیمتی وقت کو علم وہنرکے حصول میں صرف کرنے کا عزم کیا، لیکن ڈرامے سے دل  چسپی ہمیشہ دل کے ایک گوشے میں باقی رہی۔

انھوں نے بچپن میں اردوڈرامے کو ایسی حالت میں دیکھا تھاکہ نہ اس فن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اورنہ  ہی کسی ادیب کواس صنف ادب کی اصلاح کی پرواہ تھی۔ ایک مدت کے بعدفن ڈراماکی حیثیت میں کچھ تبدیلیاں  ضرورآئی تھیں، کچھ بڑے ادیبوں نے ڈرامے کی زبان و بیان کی اصلاح کے لیے اپنی توجہ بھی اس طرف مبذول کی تھی، لیکن اردوڈراماابھی تک شریفوں کافن نہیں بن سکا تھا۔ اردوڈرامے کی ایسی صورتِ حال دیکھ کر مولانا دریابادی سن شعورہی سے دکھی تھے۔ پھر اردوڈرامے سے بچپن کی دل چسپی نے بھی انھیں مجبور کیاکہ فن ڈراماکی اصلاح ہونی چاہیے اور انھوں نے ایک معاشرتی ادبی اصلاحی ڈراما ’زودپشیماں‘ تصنیف کیا، جس کا اصل مقصد ڈراما کی زبان کی اصلاح تھی۔

ڈراما ’زودپشیماں‘کو انھوں نے بمبئی کے سفرکے دوران ٹرین میں لکھاتھا،جو پہلے ماہنامہ’الناظر‘ میں قسط وار شائع ہوا۔اس کی پہلی قسط جون 1916 میں شائع ہوئی اور پھرمسلسل کئی قسطوں میں شائع ہوتا رہا۔ بعد میں یہ ڈراما کتابی صورت میں بھی منظرِعام پرآیا۔ کتاب میں بھی ڈرامانگار کے نام کی جگہ’ناظر‘لکھاگیا۔خودمولانادریابادی نے ذوالفقاربخاری کو ایک خط میں لکھاہے :

’’ایک نئی چیزآپ کوبتادوں جوآپ کے علم میں نہ ہوگی۔ اپنی نوعمری کے زمانے میں میَں نے ایک ڈراما ’زودپشیمان‘ لکھا۔ ماہنامہ النّاظرلکھنؤمیں 1915 میں قسط وار نکلتارہا، ڈراما  نگاری ا س وقت متانت علم کے منافی تھی۔ اپنانام چھپاکرمحض تخلص ’ناظر‘ بنناپڑاتھا۔‘‘

(مکتوبات ماجدی (جلداول)، ادارۂ انشائے ماجدی،کلکتہ،سنہ اشاعت 1982،ص183)

اقتباس بالامیں مولانادریابادی نے ’زودپشیماں‘ کی اشاعت کاسال 1915لکھاہے جب کہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتاہے کہ زودپشیماں کی پہلی قسط جون 1916 میں منظرِعام پرآئی تھی۔

’ناظر‘، مولانا دریابادی تخلص کرتے تھے۔ ڈراما ’زودپشیماں‘ میں نام کی جگہ تخلص استعمال کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تویہ تھی کہ اس زمانے میں ڈرامے کو  شجرِ ممنوعہ سمجھاجاتاتھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ خودمولانااس کی زبان سے مطمئن نہیں تھے نیز اس میں فنی لوازمات کا فقدان تھا۔ انہی چندوجوہات کی بناپر جب ڈاکٹرمحمد حسن نے مولانا دریابادی کو’زودپشیماں‘کو اسٹیج کرنے کی اجازت کے لیے خط لکھاتو14مئی 1956 کو اس خط کا جواب، مولانا  دریابادی نے اس طرح دیا:

’’آپ کا خط پاکرآپ کی ستم ظریفی کا قائل ہوگیا۔ تھیٹر کو  فروغ دینے کی کوشش  میں ترغیب وتحسین کی تو قع مجھ  دقیانوسی  ملامدیرِصد  ق سے  ع

عشق ومزدوریِ عشرت گہِ خسروکیاخوب!‘‘

’زودپشیماں‘ بالکل نوعمری کی تصنیف ہے  ا ور  وہ بھی  بڑی حد  تک قلم برداشتہ۔ شیکسپیئرکانشہ اس  وقت سوار تھا اوردوچارکتابیں فن پر الٹی سیدھی پڑھ ڈالی تھیں اب اگر کتاب پرنظر ثانی کروں توپچاس فیصدی بدل ڈالوں۔ ایسی کتاب کوآپ یاد ہی کیوں دلاتے ہیں جس کے ذکر ہی  سے شرمندہ ہواجاتاہوں‘‘(ایضاًص182)

مولانادریابادی نے زودپشیماں کواسٹیج کرنے کی اجازت دینے میں شش وپنج کی جو وجہ مذکورہ بالااقتباس میں بیان کی ہے وہ اپنی جگہ یقیناًدرست ہے جس کی طرف ڈاکٹرعشرت رحمانی نے بھی  اشارہ کیاہے،لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں مہذب مسلم معاشرے میں ڈرامااور تھیٹرعزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے؛ اور مولانادریابادی ایک معززگھرانے کے چشم وچراغ تھے؛ اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جگ ہنسائی ہو۔

’زودپشیماں‘جب ماہنامہ الناظرمیں قسط وارچھپ رہا تھا تو اس ڈراماکوکسی نے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی، لیکن جب وہی ڈراماکتابی شکل میں منظرعام پر آیا تو عبدالحلیم شرر،سیدسلیمان ندوی، سجاد حیدریلدرم اور مرزا ہادی رسوا جیسے اردوکے نابغہ روزگارکے دیباچے کتاب میں  موجود تھے۔ سیدسلیمان ندوی مرحوم نے تو زود پشیماں کی تعریف میں یہاں تک لکھاہے کہ:

’’اگرقلت ضخامت وصفحات کوئی عیب نہ ہوتومیں کہہ سکتاہوں کہ اس سے بہترکوئی ڈرامہ علم وفن کی حیثیت سے ہماری زبان میں نہیں لکھاگیا۔‘‘

(بحوالہ عبدالماجددریابادی، سلیم قدوائی،ساہتیہ اکادمی، پہلاایڈیشن 1998، ص 61)

مولانادریابادی نے اس ڈراما میں کم سنی کی شادی کے نقائص اورسماج میں اس سے مرتب ہونے والے مضر اثرات کوبڑی خوبی سے پیش کیاہے۔ یہ ایک اصلاحی ڈراما ہے جس میں فنی لوازمات کافقدان ہے، لیکن مکالموں کی برجستگی اور اندازِبیان بے حددل کش ہے۔مکالمے کی پیشکش میں کہیں کہیں طوالت اورخطاب سے کام لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔زبان وبیان کی اگر بات کی جائے تواس کی زبان صاف اور سادہ ہے، جس کااعتراف تمام ناقدوں نے کیاہے۔

مولانا دریابادی نے ’زودپشیماں‘ کو خالص ادبی پیرایے میں تخلیق کیا تھا۔ اس ڈرامے سے ان کا مقصد شہرت یا واہ واہی نہیں تھی بلکہ اردوڈرامامیں جوخامیاں اور بے راہ رویاں روایتاًچلی آرہی تھیں ان کے سدّباب کی یہ ایک چھوٹی سی کوشش تھی۔زودپشیماں کے دیباچے  میں الناظرکے ایڈیٹرنے لکھاہے کہ:

’’اب ہمارے ایک لائق دوست مسٹر ’ناظر‘نے ان اصلاحی تجاویزکی بناپرجومروجہ ڈراموں کے متعلق ان کے ذہن میں تھیں، ایک ڈرامالکھاہے جس میں اپنے خیال کے مطابق انھوں نے ان تمام معائب کورفع کرنے کی کوشش کی ہے جورائج الوقت ڈراموں میں نمایاں  طورپرنظرآتے ہیں‘‘(عبدالماجددریابادی احوال وآثار،ص 484)

’زودپشیماں‘ کے مطالعے سے ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ڈرامے کی صنف کوادبی حیثیت دینے کے لیے اس زمانے میں صرف عام قلم کار ہی کوشاں نہیں تھے بلکہ عبدالماجددریادی جیسے ماہرادیب اورانشاپردازشخصیت بھی اسے ادبی صنف بنانے کے لیے مستعد تھے۔

مجموعی اعتبار سے یہ کہاجاسکتاہے کہ’زودپشیماں‘فنی اعتبارسے بہت کامیاب ڈراما تونہیں ہے۔تاہم ادبی زاویے سے ان کی حیثیت مسلم ہے۔  پھرمولانادریابادی نے اس ڈرامے کو ادبی حیثیت کے پیش نظرہی لکھا تھا۔ ان کامقصد اسے اسٹیج کرانابالکل نہیں تھا۔اس لیے انھوں نے اس ڈرامے میں فنی لوازمات سے زیادہ ادبی تقاضے کو برتنے کی کوششیں کی ہیں۔

مولانادریابادی کا دوسرا ڈراما ’بدسرشت‘ہے۔ یہ ایک نامکمل ڈراماہے۔ جس کی ایک قسط ماہنامہ ’النّاظر‘ کے اپریل  1917 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نامکمل ڈرامے کاذکرمولانانے کہیں نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی خود نوشت ’آپ بیتی‘ میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے۔ ڈاکٹرتحسین فراقی  پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس  کا مفصل  تذکرہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں :

’’دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد حسن  اور ذوالفقار بخاری صاحبان  کے نام خطوط اور ’آپ بیتی‘ میں ماجد نے محض اپنے ایک  ڈرامے  ’زودپشیماں‘ کا ذکر کیا ہے اور کچھ  اس طرح گویا انھوں نے  دوسرا کوئی  ڈراما  نہیں لکھا جبکہ انھوں نے’زودپشیماں‘ کے علاوہ ’بدسرشت‘ کے نام سے بھی اس کے بعدایک ڈرامالکھناشروع کیاتھاجوبوجوہ مکمل نہ ہوسکالیکن جس کی ایک قسط ماہنامہ ’النّاظر‘ ہی میں اپریل 1917 کوشائع ہوئی۔‘‘(ایضاً،ص 482)

’النّاظر‘ کے ایڈیٹر ’بدسرشت‘ کے دیباچے میں ’نظرے  خوش گزرے‘کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’ہمارے دوست مسٹر ناظر کا  ایک ڈراما ’زودپشیماں‘ کے نام سے سال ِگزشتہ شائع ہوچکاہے اوراگرچہ جیسی  خواہش تھی ارباب ِذوق نے اس  کے متعلق توجہ کے ساتھ اظہارِخیال نہیں فرمایا،تاہم توقع کے مطابق  اکثر حضرات  نے اسے پسند فرمایا۔ ’بدسرشت‘ کے نام سے دوسرا ڈراما مسٹر  موصوف نے لکھا ہے  جو اس  پرچے کے ساتھ بصورتِ کتاب شائع کیاجارہا ہے تاکہ آئندہ چل کر علٰیحدہ چھاپنے کی زحمت نہ رہے۔ڈراماکے مکمل ہوجانے پرسرورق ان اصحاب کی خد مت میں  بھیج دیا  جائے گا جواس کی خواہش فرمائیں گے۔‘(ایضاًص 490)

مولانا دریابادی کے اس دوسرے ڈرامے ’بدسرشت‘  میں بھی ’زودپشیماں‘ کی طرح ان کی اپنی تین غزلیں شامل ہیں لیکن بہ مقابلہ ’زودپشیماں‘کی غزلوں کے،بہت کمزور ہیں۔ بدسرشت ایک معاشرتی واصلاحی ڈراما ہے۔ جس کی کہانی کاخلاصہ یہ ہے کہ محسن حسین  نام کے کردارکا ایک سابق بہنوئی محمداکرم ہے جومعمرہونے کے باوجود اپنی بڑی بھابی جوچودہ سال  پہلے بیوہ ہوچکی ہے؛ اس کے گھر پیغامِ نکاح بھیجتاہے اور یہ پیغام ِنکاح محض ہوس ِزرپرستی کے سبب ہے کیونکہ اس بیوہ کے نام جائیداد کا ایک بڑا حصہ ہے؛ جس پر قابض ہونے کے لیے شادی ایک آسان ہتھیارہے۔ ڈرامے کے ثانوی کردارمحمداکرم کابیٹا اوربیٹی الفت آراہیں۔ الفت آرانئی نسل کی پڑھی لکھی، باوقار اور مذہب لڑکی ہے لیکن اس کا ہونے والا شوہر ’محمد‘ رشوت دہی اورکم علمی کے باعث بدنام ہے۔

مولانادریابادی کے اس نامکمل ڈرامے کے مکالمے بہت چست اورکرداروں کی شخصیت کے مطابق ہیں۔ تمام کرداروں میں سب سے دلچسپ کردارمحمداکرم کاہے جوایک شاعربے محل ہیں۔ مہمل اوربے محل شعرکہنااس کی فطرت میں داخل ہے۔ اپنا تخلص ’چپیق‘کرتا ہے۔ ڈرامے کے چوتھے سین میں ڈرامانگار نے مشاعرہ کے عنوان سے شاعری کی جو سبھا منعقد کی ہے وہ ا پنی ہیئت، دلچسپی اور طرز سے  فرحت اللہ بیگ کے یادگارمشاعرے ہی کی طرح معلوم ہوتاہے۔ تاہم مولانادریابادی نے اپنی فنی چابک دستی سے اس سبھاکوبے حددل کش اوراثرآفریں بنادیاہے۔

بہرکیف!مولانادریابادی کے یہ دوڈرامے ہی ڈرامے کی دنیامیںان کی یادگارہیں، اس سے زیادہ اس میدان میں گرچہ ان کی خدمات نہیں ہیں لیکن ان دو ڈراموں کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتاہے کہ انھیں اس فن سے مکمل واقفیت تھی۔

 

Shahbaz Arshad

Asst Prof., Dept of Urdu

Khwaja Banda Nawaz University

Gulbarga - 585104 (Karnataka)

Mob.: 6281262057

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...