18/9/23

قیصر شمیم بحیثیت مترجم شاعر:بدرمحمدی

شاعری احساس کی ترجمانی کا عمل ہے۔ یہ احساس نازک خیالی سے بھی پیدا ہوتا ہے اور مطالعۂ کائنات سے بھی۔ حالی نے مطالعۂ کائنات کو شاعری کی دوسری شرط میں شمار کیا ہے کہ نسخۂ کائنات اور نسخۂ فطرت انسانی کا مطالعہ غور سے کیے جانے سے شاعری کے لیے خام مواد ملتا ہے اور شاعری وقیع ہوتی ہے۔ مطالعۂ کائنات کے لیے سیر دنیا ضروری ہے جیسا کہ سعدی شیرازی نے کیا تھا۔ سیر دنیا اور لوگوں سے ملنے ملانے کی خاطر سفرشرط ہے۔ البتہ گھر بیٹھے بھی افراد سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس ملاقات سے تجربات کا دھنی بنا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ویسی شخصیت کا ہونا لازمی ہے۔ گھر بیٹھے سیر کائنات کا دوسرا ذریعہ ہے، مطالعۂ کتب۔ چنانچہ کتابوں کی ورق گردانی سے، انسانی زندگی میں پیش آنے والی مختلف حالتوں کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا، مشاہدے میں آنے والے امور کو ترتیب دینا، عام آنکھوں سے مخفی خواص اور کیفیات کا مشاہدہ کرنا، فکر میں مشق و مزاولت سے مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں اخذ کرنے کی قوت پیدا کرنا اور اس سرمایہ کو اپنی یاد کے خزانے میں محفوظ رکھنا ممکن ہوتا ہے اور یہی چیز حالی کے یہاں مطالعۂ کائنات کی حصولیابیاں ہیں۔ الغرض مطالعۂ کتب سے بھی قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا ملتی ہے، جس سے شاعری نشوونما پاتی ہے۔ شاعر اس طرح سے بھی کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعے میں مستغرق رہتا ہے۔ کہنہ مشق، قادرالکلام اور استاد شاعر جناب قیصر شمیم کے یہاں یہ سب چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔

قیصر شمیم نے خود کو زبان و ادب اور علم و فن کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے۔ وہ با کمال شاعر و ادیب اور با ذوق قاری بھی ہیں۔ ان کی وابستگی درس وتدریس سے رہی ہے۔ معلم ہونے کے باعث مطالعے کے تئیں وہ ثروت مند رہے ہیں۔ انھوں نے اردو کے روایتی اور غیرروایتی رجحانات کے ساتھ ساتھ فارسی، بنگلہ، ہندی اور انگریزی کے رجحانات کا بھی مطالعہ سعادت مندی سے کیا ہے۔ اپنے مطالعے کی عادت کے سبب انھیں ہر چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ حاصل ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینۂ خیال میں جمع کرنے کی ان میں پوری صلاحیت موجود ہے۔ قیصر شمیم نے بنگلہ آبادی کے درمیان رہ کر اردو ادب کی آبیاری کی ہے۔ ایسے میں بنگلہ ادب کا اثر قبول کرنا فطری ہے۔ چنانچہ اپنے مطالعے کی بنیاد پر بنگلہ کا اہم ادبی سرمایہ خاصی مقدار میں انھوں نے اردو میں منتقل کیا ہے۔ پرائمری اور سکنڈری بورڈ کی متعدد کتابوں اور بعض مشہور ڈراموں کا انھوں نے اردو ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی اور ہندی سے بھی کہانیوں اور نظموں کے ترجمہ میں دلچسپی لی ہے۔ قیصر شمیم نے اردو کے دوسرے شعرا اور دیگر زبانوں کے بے شمار شعرا کی شاعری کے حوالے سے ڈھیر ساری باتیں کہی ہیں۔ مطالعے کی زیادتی کے باعث اپنی پسند کی چیزوں کو اردو میں جمع کرنے پر وہ کاربند رہے ہیں۔ چنانچہ چیخوف کی بہت سی روسی کہانیوں کا ترجمہ انھوں نے اردو میں کیا ہے، یعنی ترجمہ نگاری ان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس فطری شاعر نے دوسری زبانوں کی کئی نظموں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ میرے پیش نظر قیصر شمیم کی ایسی درجن بھر نظمیں ہیں جو شعری مجموعہ ’زمیں چیختی ہے‘ میں شامل ہیں۔

یہ درجن بھر نظمیں نصف درجن شاعروں کی ہیں۔ ان بارہ نظموں میں گیارہ نظمیں بنگلہ ادب کی ہیں اور ان میں پانچ نظمیں رابندر ناتھ ٹیگور کی ہیں۔ ٹیگور کی بہت سی چیزوں کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوا ہے۔ انھوں نے اپنی چیزوں کا خود بھی ترجمہ کیا ہے۔ چنانچہ ’گیتانجلی‘ کا انگریزی ترجمہ نسبتاً زیادہ مقبول و معروف ہوا تھا۔ یہ ترجمہ اتنا اعلیٰ تھا کہ اس پر انھیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ قیصر شمیم نے ٹیگور کے سرمایۂ سخن سے پانچ موتیوں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں ہر ایک کی حیثیت درآبدار کی ہے۔  آغاز ’اکلا چلورے‘ سے ہوا ہے۔ ٹیگور کی یہ شہرۂ آفاق نظم عالمی ادب کی نمائندگی کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’اکلاچلو رے‘ اپنے عہد میں ایک نعرہ بن گیا تھا۔ قیصر شمیم نے اردو شاعری کو اس نعرے کی توضیح سے واقف کرایا ہے اور اس سلسلے میں شیریں بیانی سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’اکلا چلو رے‘ سے زیادہ غنائیت ’تنہا چل بھیٔ تنہا چل‘ میں ہے۔ مجروح کے یہاں تنہا چلنا ہے اور کارواں بن جانا ہے جبکہ ٹیگور کے یہاں اکیلا چلنا ہے اور اکیلے ہی چلتے رہنا ہے، اس نظم میں راہ کے کانٹوں کو خون بھرے تلوؤں سے تنہا کچلنے کا درس دیا گیا ہے۔ اپنے دل کو ہر لمحہ جلنے والی مشعل بنا لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غرض کہ بہر صورت سفر جاری رکھنا ہے۔ چلتے رہنا ہے اور تنہا چلتے رہنا ہے۔ کہتے ہیں اکیلا،حق پر قائم رہنے والا، چلتا ہے۔ اس طرح یہ نظم حق پر قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔

قیصر شمیم نے رابندر ناتھ ٹیگور کی تین ایسی نظموں کا ترجمہ شامل کیا ہے جو ڈرامائی مکالمے پر مشتمل ہیں۔ یہ نظمیں ہیں ’تر کی بہ ترکی‘، ’غرض کا رشتہ‘ اور ’رشتہ داری‘۔ یہ تینوں نظمیں مختصر ہیں۔ البتہ اوّلین دو نظموں میں مکالمہ طرفین کا ہے جبکہ تیسری نظم میں ایک سمتی مکالمہ ہے۔ ’ترکی بہ ترکی‘ میں ایک نا کارہ بھڑ اور شہد کی مکھی کے مابین گفتگو ہے۔ ناکارہ بھڑ شہد کے چھتیّ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اسے احمق گردانتی ہے۔ اس کے ناز کو بے جا ٹھہراتی ہے۔ جواب میں شہد کی مکھی عجز و انکسار سے کام لیتی ہے اور حجّت سے اجتناب کرتی ہے، البتہ یہ چیلنج کرتی ہے کہ یہ حقیر کام بھی تم سے ممکن نہیں۔ ٹیگور کی یہ نظم اور علامہ اقبال کی نظم ’ایک پہاڑ اور گلہری‘ ایک ہی قبیل کی ہیں۔ دونوں کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی بھی مخلوق کی ادنیٰ کاریگری بھی کم نہیں کہ یہ دوسرے سے ممکن نہیں۔ لہٰذا کسی کی کارکردگی کو حقیر سمجھ کر اس کا مذاق اڑانا اچھا شعار نہیں۔ نظم ’غرض کا رشتہ‘ بھی مکالماتی پیرائے میں ہے لیکن اس میں مکالمہ دو ذی حیات کے بیچ نہیں بلکہ زر کی تھیلی اور بھیک کی جھولی کے مابین ہے، زر کی تھیلی سے بھیک کی جھولی نے شکایت کی کہ ہم دونوں ایک خاندان کے ہیں مگر تم مغرور ہو اس قدر مغرور کہ رشتے داری سے بھی دور ہو۔ رشتے ناتے بھلاکر بیٹھی ہو۔ یہ سن کر زر کی تھیلی گویا ہوئی کہ میرے پاس جوزر ہے وہ تمھارے پاس ہوتا تو تم بھی وہ سب کرتی جس کی مجھ سے شکایت ہے۔

ٹیگور کی نظم ’رشتہ داری‘ میں کروسین سے جلنے والے ایک بڑے لیمپ کا تخاطب مٹی کے دیے سے ہے، یہاں متکلم گویا ہے اور حاضر خاموش۔ دیے کا بھائی کہہ کر پکارنا لیمپ کو پسند نہیں اور یہ ناپسندیدگی اس قدر ہوئی کہ گلا تک دبانے کی بات کہہ دی۔ بڑے لیمپ کو اپنی اوقات اس دم سمجھ میں آئی جب آسمان سے چاند نمودار ہوا اور دونوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ اس گھڑی بڑا لیمپ چھوٹے دیے کو خود بھائی کہہ کر بلانے لگا۔ اس نظم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ طاقت ہونے پر کوئی بھی اتراتا ہے اور وقت مصیبت صلح چاہتا ہے۔ درج بالا نظموں میں بھڑ، شہد کا چھتہ، زر کی تھیلی، بھیک کی جھولی، لیمپ اور دیا سب استعارے ہیں۔ یہ نظمیں علامتی ہیں۔ ان میں شاعر کا بیان استعاراتی ہے۔ اس زمرے کی ایک اور نظم ہے مسافر (یاتری)۔ اس نظم میں مسافر کے حوالے سے باتیں کہی گئی ہیں۔ اس میں دنیا کو نائو اور آدمی کو مسافر بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ سب کو اس نائو سے پار اترنا ہے۔ نائو پرسوار مسافروں کا سفر مختلف وقتوں میں مختلف گھاٹوں پر تمام ہونا ہے۔ یعنی مسافر کا یہ سفر تھوڑی ہی دیر کا ہے۔ سفر ختم ہونے پر کوئی نہیں رکے گا۔ اس نظم میں فلسفۂ حیات کا شاعرانہ بیان ملتا ہے۔

بنگلہ ادب میں ٹیگور کے بعد قاضی نذرالاسلام کا نام آتا ہے۔ دونوں معاصرین ہیں۔ دونوں کی حیثیت اردو کے انیس و دبیر کی طرح ہے۔ نذرالاسلام کو بنگال کا عہد آفریں شاعرتسلیم کیا جاتا ہے۔ توانائی، جوش اور نشاط روح کی کیفیتیں یکجا ہو کر ان کے کلام میں حرکت پیدا کرتی ہیں۔ قیصر شمیم نے ترجمے کے لیے قاضی نذرالاسلام کی جس واحد نظم کا انتخاب کیا ہے، وہ ہے ’’قلی۔ مزدور‘‘۔ اس نظم کے انتخاب کی وجہ یہ بھی ہے کہ قیصر شمیم کا آبائی وطن انگس، جوٹ مل کا علاقہ تھا۔ جہاں کے مزدوروں کے زرد ماحول کو انھوں نے قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے کرب کو محسوس کیا تھا۔ مزدوروں کے معاشرے کا پروردہ شاعر شیب پور میں منتقل ہوا تو یہاں بھی اسے صنعتی مزدوروں کے پسماندہ علاقے سے دو چار ہونا پڑا۔ غریب، مزدور کی دکھ بھری زندگی کی مکمل تصویر، مسلسل قیصر شمیم کے سامنے رہی ہے۔ چنانچہ اپنے تلخ تجربے اور مشاہدے کو قاضی نذرالاسلام کے خیالات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے منظوم ترجمہ میں نئی حسیت اور سچائی کے عناصر بھردیے ہیں۔ اس نظم میں مزدوروں کے کارنامے بتائے گئے ہیں کہ ہتھوڑی اور کلہاڑی چلا چلا کر مزدوروں نے پہاڑوں کا جگر چاک کیا ہے۔ مزدور ہی انسان اور دیوتا ہے۔ انھیں کے درد بھرے سینے پر چل کر نیا سورج آتا ہے۔ ان کے قدموں کی دھول پیشانی پر لگانے کی ضرورت ہے لیکن ان کا حال زار ناگفتہ بہہ ہے۔ اس لیے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا مزدور لوگ اس طرح ساری دنیا میں مار کھاتے رہیں گے۔ اسی تناظر میں کارل مارکس نے ’دنیا کے مزدورو ایک ہو‘ کا نعرہ دیا تھا۔ چنانچہ اس نظم میں کارل مارکس کے نعرے کو اس طرح پیش کیا گیا ہے ’’تمام زمانوں، تمام ملکوں کے تمام انسان آئیں اور ایک مرکز پہ کھڑے ہو کر سنیں ایک ملن کی بانسری‘‘۔

شاعری کا تعلق انقلاب سے بعد میں ہے پہلے رومان سے ہے۔ہر زبان کی شاعری میں رومان کا موضوع لازماً ہوتا ہے۔ اس کے بغیر شاعر یا شاعری نامکمل اور بے مزہ ہے۔ چنانچہ قیصر شمیم نے بھی ترجمے کے سلسلے میں ایک عدد رومانی نظم کا انتخاب کیا ہے اور یہ نظم ہے نیریندرناتھ چکرورتی کی ’’تم سے کہا تھا‘‘۔ معاملات عشق میں اکثر محبو ب کا وعدہ عاشق سے ہوتا ہے اور وہ بھی پرفریب وعدہ مگر اس نظم میں عاشق ہی محبوب سے آنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ خوبصورت اور مشکل راستوں سے خوبصورت لمحے میں آنے کا وعدہ۔ کسی صورت آنے کا وعدہ۔ حالانکہ بدن کا جوش ختم ہوچکاہے۔ خون کی روانی تھم سی گئی ہے۔ خیال دھندلا گیا ہے مگر کیا گیا وعدہ اسے یاد ہے۔ عاشق کا جانا، جانا نہیں ہوتا۔ اس کا آنا معنی خیز ہوتا ہے۔ اس نظم میں محبت کی جلوہ سامانیاں ہیں، سینے کی دبی چنگاریاں ہیں، دل کی اچھلتی کودتی حسرتیں ہیں۔

تمنائوں میں الجھنا انسان کی فطرت ہے۔خواہشیں ہر دل میں پیدا ہوتی ہیں۔ آدمی ان خواہشوں کا محاسبہ کرتا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی خواہشوں کا بھی۔ نیریندر ناتھ چکرورتی کی بنگلہ نظم ’امل کانتی‘ اسی مضمون پر مشتمل ہے۔ جس کا ترجمہ قیصر شمیم نے کیا ہے۔ الگ الگ انسان کی خواہش الگ الگ نوعیت کی ہے اور اس کی تکمیل بھی الگ الگ ڈھنگ سے ہوتی ہے۔ عام طور پر معلم، معالج اور وکیل بننے کی آرزو کی جاتی ہے مگر دھوپ بننے کا خواب چیزے دیگر ہے۔ اس شرمیلی دھوپ کا خواب جو بارش، عفوو کرم کے موقع پر کوّئوں کی صدائوں سے گونجتی شام کو سیاہ وسفید جامنوں کے پتوں پر چپکی رہتی ہے۔ منظر کشی سے پُر اس نظم میں پیش کی گئیں تصویریں مختلف زمانوں کی ہیں۔ اسکول کے دور کی، اس کے بعد کی، دوسروں کی کامیابی کے عہد کی اور امل کانتی کے چھاپا خانے میں کام کرنے کے دنوں کی کہ کس طرح دھوپ کی طرح چمکنے کا خواب دیکھنے والا تاریک چھاپا خانے سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنی نہیں کسی دوسرے کی روداد پیش کی ہے اور اسے اپنی روداد بنانے کی کوشش کی ہے۔ خواہش کے حسرت بننے کا نوحہ پیش کیا ہے۔ امل کانتی کی دھوپ بننے کی خواہش وہ خواہش ہے جس پر شاعر کا دم نکلتا دکھائی دیتاہے۔

قیصر شمیم نے بنگلہ کے علاوہ دوسری زبانوں کے ادب کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ اس کا ثبوت ومل کمار کی ہندی نظم ’ایک جلتے ہوئے شہر کی سیر‘کا ترجمہ ہے۔ ہندی سے انھیں اس قدر قربت رہی ہے کہ ان کا ایک ہندی شعری مجموعہ ’تری دھارا‘کے نام سے 1996 میں منظر عام پر آچکا ہے۔ قیصر شمیم کو ہندی اور ہندی والوں سے راہ و رسم رہی ہے۔ بہت سے ہندی والے ان کے دوست اور شاگرد بھی ہیں۔شاید اسی کے باعث ہندی نظم ’ایک جلتے ہوئے شہر کی سیر‘ کے ذریعے انھوں نے نذرِ آتش شہر کی سیر کرائی ہے۔ اس نظم میں سماج میں پائی جانے والی کثافتوں کے خلاف احتجاج ہے۔ یہ اس شہر کی غم بھری داستان ہے جو تباہیوں کی نذر ہو گیا ہے۔ اردو اور ہندی ادب میں اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں مگر اس نظم میں بربادیوں کا منظر جس انداز سے پیش کیا گیا ہے وہ جداگانہ ہے۔ شاعر ایک جلتے ہوئے اور شیشے کی طرح پگھلتے ہوئے شہر میں ہمیں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ یہاں مرنے والا مرنے سے پہلے اورمرتے ہوئے پانی مانگ رہا ہے۔ اس شہر میں تتلیوں کے پر نوچے گئے ہیں۔ پارکوں کی گھاس کچلی گئی ہے۔ دیواریں ڈھائی گئی ہیں۔ آگ لگائی گئی ہے۔ چیختے ہوئے درختوں اور روتی ہوئی ندیوں کے اس شہر میں سب کا اعتماد لوٹا گیا ہے۔ معصوم بچوں کی آنکھوں میں ٹوٹے خواب اور آنسو ہیں۔ قتل گاہوں میں لاشوں کا انبار ہے۔ اس جلتے ہوئے شہر میں لہکتے ہوئے شعلے، راکھ کا ڈھیر ہے۔ بے زباں گلیوں اور زخمی سڑکوں کی خاموشیاں ہیں۔ منڈلاتے ہوئے گدھ اور اونچائی پر بیٹھے چیل ہیں۔ ہر طرف عدم سلامتی کا احساس ہے۔ سینے کے اندر زخم اور زخموں پر چھڑکا ہوا نمک ہے۔ المختصر شاعر وہ منظر دیکھ رہا ہے جو دیکھا نہیں جاتا۔ وہ قہر سامانی ہے کہ ’’زمیں چیختی ہے‘‘۔

ان ترجمہ شدہ نظموں کی خوبی یہ ہے کہ ترجمے کی زبان میں وہی متن ہے جو اصل زبان میں ہے۔ اس فن پارے میں واقعیت، تجربے کی عمومیت، خلوص اور صداقت ہے۔ ان نظموں کے انسلاکات اور موضوعات سے ان کی فطری جہات کا اندازہ ہو تا ہے کہ کس طرح نظریات، خیالات، جمالیات اور اخلاقی قدروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اصل کیفیت کے ساتھ افکا ر و نظریات کوشعر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ شعر کی روح کو قائم رکھتے ہوئے فکر کی گہرائی و گیرائی کوایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ترسیل میں آسانی پیدا کی گئی ہے۔ قاری کو حقائق سے روشناس کرایا گیاہے۔ مترجم نے خود بھی حظ اٹھا یا ہے اور ہمیں بھی محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ قیصر شمیم نے ادب کو پڑھا ہے سمجھا ہے اور اپنی قوت و صلاحیت کا جادو جگاتے ہوئے اردو ادب میں اہم اضافہ کیا ہے۔ ادب کی، ادبی اقدار کی، ادب کے نئے رجحانات کی اور ادب کی افادیت کی تشہیر کی ہے۔ ان سے اردو ادب کی جہتیں وسیع اور کشادہ ہوئی ہیں۔ کسی شاعر کی نظم کا ترجمہ اصل فنکار کو آئیڈیل بنانا ہے۔ قیصر شمیم کا آئیڈیل ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام ہی نہیں بنگلہ کے اور بھی شاعر ہیں۔ شاعری نقالی ہے اور ترجمہ کی شاعری نقالی کی نقالی، ہنر مندانہ نقالی۔ شاعری کسی خیال کو شعری جامہ پہنانے کا نام ہے۔ قیصر شمیم نے ان ترجمہ شدہ نظموں میں دوسرے کے خیال کو خوب سے خوب تر انداز میں پیش کیا ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے راجہ بھرتری ہری کا خیال مستعار لے کر یہ شعر کہا ہے      ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

قیصر شمیم نے نرم و نازک کلام پیش کر کے پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹا ہے۔ چونکہ مترجم خود ایک تخلیقی فنکار ہے، لہٰذا کمالِ ہنر مندی سے اس نے یہ ترجمہ شعری اصول کے ساتھ کیا ہے۔ قیصر شمیم نے ترجمہ یوں کیا ہے جیسے یہ ان کی اپنی زبان کی شاعری ہو۔ لہٰذا ان نظموں کے تخلیقی ترجمہ میں زبان و بیان، لب و لہجہ اور اسلوب و آہنگ کو دیکھا جائے۔ قیصر شمیم نے ان نظموں کے عنوان کا بھی ترجمے کیا ہے اور نفس مضمون کا بھی۔ یہ سارا ترجمہ انھوں نے مفاہیم کی قربت و صحت کے ساتھ کیا ہے۔ترجمے کی خوبی کے سبب ہر لفظ آئینہ صورت ہو گیا ہے۔ اس شفاف ترجمے میں متبادل اور مناسب اصطلاح سے زندہ تاثر قائم کیا گیا ہے۔ ترجمہ براہ راست ہے اور اس میں بے محاورہ زبان کا استعمال ہو اہے۔ قیصر شمیم نے حسب ضرورت اردو ہندی، انگریزی اور بنگلہ الفاظ سے استفادہ کیا ہے۔ ہندی چھندوں اور روپوں کا استعمال قیصر شمیم کے اسلوب کی اہم خصوصیت ہے۔ لفظوں کے اندرون میں پوشیدہ حرارت سے وہ پوری طرح واقف ہیں۔ انتخاب لفظ پر انھیں قدرت حاصل ہے۔ لفظوں کو سیاق و سباق کے حوالے سے برتنا وہ خوب جانتے ہیں۔ قیصر شمیم اردو اور ہندی کے نرم و نازک الفاظ قرینے سے ترتیب دینے کا ہنرخوب جانتے ہیں۔ الفاظ کے سادہ اور دل کش برتائو سے وہ آشنا ہیں۔ الفاظ کے استعمال میں وہ مناسب و متوازن احتیاط کے قائل ہیں۔ اشارے کنائے کی باریکیوں سے آشنا ہیں۔ تشبیہات و استعارات کے برتائو میں فنی چابکدستی سے کام لیتے ہیں۔ متذکرہ نظموں میں کھردرے لہجے کا بانکپن اور فطری شعور ملتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظم کے کینوس پر الفاظ و تراکیب اور شعور و افکار کا رنگ بھرنے میں قیصر شمیم کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ نظم کے لیے زبان و اسلوب کی حد تک جس سنجیدہ ڈکشن کی ضرورت ہوتی ہے، وہ یہاں کارفرما ہے۔

استاد شاعر ہونا فخر کی بات ہے مگر قیصر شمیم ایسے استاد شاعر ہیں کہ شاگرد کو ان کے شاگرد ہونے پر فخر ہے۔ بنگال اور بیرون بنگال کے سو سے زائد شعرا کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ وہ خود بھی شمس مظفر پوری، پروفیسر عباس علی خاں بیخود اور پرویز شاہدی کے شاگرد رہے ہیں۔ جس شاعر نے تین تین اساتذہ سے تربیت پائی ہو اور جس نے سو سے زائد شاگرد کی تربیت کی ہو۔ ایسے شاعر کا شعری رموزو نکات سے بخوبی واقف ہونا فطری ہے۔ چنانچہ قیصر شمیم نے نوک پلک کو سلیقے سے سنوار کرچیزوں کو پیش کیا ہے۔ فکر انگیز نظموں کے ترجمے میں پختہ کاری دکھائی ہے۔ یہ آورد کی شاعری ہے مگر اس میں آمد کا رنگ وآہنگ ہے۔ زبان اور اصول کے ساتھ تہذیب کا بھی ترجمہ ہوا ہے۔ تہذیبی شعور اور فنی اسلوب نے ان نظموں کو انفرادیت بخشی ہے۔ درجن بھر نظموں کا ترجمہ معنی رکھتا ہے۔ ان میں پابند نظمیں بھی ہیں اور آزاد بھی، طویل بھی ہیں اور مختصر بھی۔ موضوع اور اسلوب سے روشناس کراتی ہوئی خود کار اور کارگر ہیئتیں ہیں۔ قیصر شمیم کے شعری اثاثے میں صرف اتنی ہی نظمیں ہوتیں تو بھی ان کا تشخص واضح ہوتا کیونکہ ان میں پہچانی آواز یا پہچان لی جانے والی آواز ہے۔ یہ نظمیں سادہ بھی ہیں، جوش سے بھری ہوئی بھی اور اصلیت پر مبنی بھی۔ ان میں خیال کی بنیاد ایسی چیزوں پر ہے جو درحقیقت وجودرکھتی ہیں۔ غرض کہ حالی نے شعر کی جو خوبیاں بتائی ہیں، وہ ان نظموں میں ہیں۔ ایک ایسے مترجم کی شاہکار نظمیں پڑھ کر قاری کا محظوظ ہونا یقینی ہے، جس میں دوسرے کی تخلیق کو اپنا بنا کر پیش کرنے کی ہنر مندانہ صلاحیت ہے۔

Dr.Badr Mohammadi

AT - Chandpur Fatah

P.O. - Bariarpur - 843102

Distt - Vaishali (Bihar)

Cell - 9939311612

E-mail:badrmohammadi1963@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...