15/9/23

قبول عام ناول نگار— عادل رشید: محمد تنویر

مقبولِ عام ادب کی تاریخ بھی ادبِ عالیہ کےساتھ ساتھ چلتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تعلق اردو ادب سے بہت گہرا رہاہے۔ پھر بھی ہمارے ناقدین اور محققین مقبولِ عام ادب کے مقبول ناول نگاروں کو ادبِ عالیہ کا حصہ ماننے کو با لکل تیار نہیں ہیں۔ مقبولِ عام ادب سے تعلق رکھنے والے بے شمار مصنّفین ہیں جنھوں نے اردو ناول نگاری اور اردو ادب کو اپنی تخلیقات کے ذریعے بہت بڑا سرمایہ عطا کیا ہے۔ جن میں کچھ مقبولِ عام ادب کے ناوِل نگاروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

عادِل رشید، اکرم الہ آبادی، رضیہ بٹ، شکیل جمالی، گلشن نندہ، اے آر خاتون، ایم اے راحت، سراج انور، کرشن گوپال عابد، سعید امرت، اے حمید، عارف مارہروی، اِظہار اثر، رئیس احمد جعفری، قمر جائسی،قیسی رامپوری،مائل ملیح آبادی، مجا ور حُسین رضوی،محی الدّین نواب، م کے مہتاب، نسیم انہو نوی، نسیم حجازی، ابنِ صفی، تیرتھ رام فیروز پوری، دت بھارتی،ستیہ پال آنند،مخمور جالندھری، مرزا فدا علی خنجر لکھنوی، خان محبوب طرزی وغیرہ وغیرہ۔

عادل رشید مقبولِ عام ادب کا ایک ایسا ہی نام ہے جو اب گمنامی کا شکار ہو چلا ہے۔ ایک وقت ایسا تھاجب اُن کے ناول بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے تھے۔ قارئین ان کے ناولوں کا بے صبری کے ساتھ اِنتظار کرتے تھے۔ عادل رشید اگر آج کے دور کے ہوتے تو اُن کی حیات وخِدمات پر یقینا دو چار رسالوں کے نمبر نکل چکے ہوتے،اور اگر نمبر نہیں بھی ہوتے تو گوشے تو ضرور آچکے ہوتے، یا کچھ کتابیں تو ضرور ان کے نام سے آچکی ہوتیں۔مگر وہ زمانہ اور تھااس وقت اردو معاشرے میں کچھ بڑے نام ایسے تھے جو اپنا مقام بنا چکے تھے اور اردو ادب میں ان کی ایک نمایاں پہچان بن چکی تھی۔ ان ناموں کی وجہ سے عادِل رشید کا فن دب کر رہ گیا ہمارے ناقدین اور محققین نے ان کی طرف اپنی نظر ہی نہیں ڈالنی چاہی۔ عادِل رشید اُن مقبول ادیبوں جیسے ہی تھے جنھوں نے قلیل معاوضے پر اپنی صلاحیتیں قربان کر دیں:

’’ان کا اصلی نام ’سید منظورالحق‘ تھا۔ عادِل رشید 20 نومبر1920 کو نارہ میں پیدا ہوئے۔یہاں ان کی ننیہال تھی۔‘‘

(عالمی اردو ادب،مقبولِ عام نمبر،مالک رام،اگست 2015، ص16)  

نارہ  (ضلع الہ آباد)  اتر پردیش میں واقع ہے۔ عادل رشید ایک جاگیر دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے،ان کے والد سید محمدفضل الحق ضلع الہ آباد،تحصیل سراتھو، قصبہ رشید مئی کے جاگیر دار تھے۔عادلِ رشید کے دادا،پر دادا  اپنے علاقے کے قابل حکیم تھے،ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کا پوتا بڑا ہوکر حکیم بنے،ابھی عادل سال بھر کے بھی نہ ہو پائے تھے کہ دادا اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی والدہ  امۃ الفاطمہ کی تمنا تھی کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر ادیب یا بیرسٹر بنے،مگر افسوس کہ وہ بھی 8 سال کی عمر میں عادِل رشید کو چھوڑ کر اس دنیا سے رُخصت ہو گئیں۔مگر خُدا نے ان کی تمنّا پوری کر دی، ان کا بیٹا بڑا ہوکر ادیب بن گیا۔ عادل رشید نے تو اس دنیا کو الود اع کہہ دیااور اپنے پیچھے چھوڑ گئے اپنی 150 سے زائد تصانیف،جس کی بدولت عادل رشید آج بھی اردو ادب میں زندہ جاوید ہو سکتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کا اپنا ایک الگ مقام بن سکتا ہے۔اپنے کام کی زیادتی اور ہر وقت لکھتے رہنے کے سبب وہ بیمار بھی ہو جاتے تھے۔

’’اسی طرح کی شکایت محسوس کی تو علاج کے لیے ناناوتی اسپتال(ممبئی) میں چلے گئے۔وہیں پیر کے دِن 3جنوری 1972 صبح کے ساڑھے تین بجے دِل کی حرکت بند ہو جانے سے اِنتقال کیا اور اسی شام جو ہو کے قبرِستان میں سپردِ خاک ہوئے۔‘‘

(تذکرئہ معاصرین’حصہ دوم‘ مالک رام،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،ص 17)

عادل رشید کا بچپن اپنے محلّے کی لائبریری میں زیادہ گزرا،علم و ادب کا ذوق ان کو اپنی والدہ سے ورثے میں ملاتھا۔وہ اپنے محلے کی  رفیع الزماں لائبریری میں جاتے اور رسالوں کا مطالعہ کرتے، ان کو لکھنے کا شوق بھی یہیں سے پیدا ہوا۔ صرف 15 سال کی عمر میں ہی انھوں نے اپنا پہلاافسانہ ’قرض‘ کے نام سے لکھا تھا۔جو کانپور سے شائع ہونے والے رسالے ’مستورات‘ کے خاص نمبر (1935) میں  چھپا تھا۔اتنی کم عمری میں افسانہ لکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں قابلیت کی کمی نہیں تھی۔ان کو خداداد صلاحیت حاصل تھی۔اپنے افسانے ’قرض‘تک ان کے قارئین ان کو ’سید محمد منظورالحق میئوی‘ کے نام سے جانتے تھے۔اس کے بعد انھوں نے شاعری شروع کر دی عادِل تخلص رکھا اور رشید میئوی وطن سے نسبت ملا لی،لیکن بعد میں احساس ہوا کہ نسبت کبھی میوی چھپ جاتی ہے تو کبھی میٹوی،اس سے تنگ آکر انھوں نے اس نسبت کو ہی ختم کر دیا اور صرف عادِل رشید بن گئے۔عادِل رشید کے نام سے اتنے مشہور ہوئے کہ آ ج تک لوگ ان کو اسی نام سے جانتے ہیں،ان کے اصلی نام منظور الحق سے کم لوگ ہی واقف ہیں۔

مالک رام نے عالمی اردو ادب کے مقبولِ عام ادب نمبر جو اگست 2015 میں شائع ہوا تھا، اس میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’عادل رشید بھی مقبول عام ادب میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وہ ایک زودنویس ادیب تھے۔ ہر مہینے ایک ناول لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے کوئی ڈیڑھ سو کے قریب ناول لکھے۔ جیسے لرزتے آنسو وغیرہ۔اُن دنوں اِن کے ناولوں کی بڑی مانگ تھی اور وہ دھڑا دھڑ بکتے تھے،علاوہ ازیں وہ شاہد،حجاب وغیرہ رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔‘‘

(عالمی اردو ادب،مقبولِ عام ادب نمبر،مالک رام، اگست 2015،ص 216)

عادل رشید ابھی 8 برس کے ہی تھے کہ والدہ چھوڑ کر چلی گئیں،گیارہ برس کی عمر میں کانپور چھوڑنا پڑ گیا، فساد کی وجہ سے الہ آباد میں سکونت اِختیار کی اس وقت وہ اپنے خاندان کے ساتھ کانپور میں ہی قیام پذیر تھے، 15 برس کے تھے کہ والد نے دوسر ی شادی کرلی، اسی دوران عادل رشید کو ’ شاہد ‘ رسالے میں ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے گھر اور والد دونوں کو چھوڑکر بریلی چلے گئے۔کچھ عرصے بعد بریلی سے دہلی اور پھر  اے آر کاردار (پروڈیوسر اور ڈائریکٹر) کی دعوت پر فلموں کی کہانی لکھنے کے لیے دہلی سے 350 روپے کی مستقل آمدنی چھوڑ کر ممبئی اپنی قسمت آزمانے چلے گئے۔ جہاں انھوں نے اے  آر کاردار  کے جھوٹے وعدے کی وجہ سے فاقہ کیے، بازار کی پٹریوں پر راتیں گزاریں او ر پھر ممبئی سے ہی انھوں نے اپنے ناول لکھنے کا سفر شروع کیا۔’میر صاحب‘  ان کا پہلا ناول تھا  جو ستمبر 1944 میںالہ آباد پبلشنگ ہائوس،الہ آباد سے پہلی بار شائع ہو ا تھا۔ عادِل رشید نے ناول کے علاوہ کچھ افسانے بھی لکھے ہیں۔’خزاں کے پھول ‘ کے نام سے ایک رپورتاژ لکھا جو1949 میں شائع ہوا۔ یہ رپورتاژ یکم نومبر1948 میں احمدآباد میں ہوئی کانفرنس کی ہے، اس کانفرنس میںاردوادب سے تعلق رکھنے والے کئی مشہور مصنّفین شامل ہوئے تھے۔ عادل رشید کے ساتھ ممبئی سے احمدآباد کے اس سفر میں شامل ہوئے مصنفین کی اس جماعت میں اِن کے ساتھ کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،علی سردار جعفری، ساغر نظامی،ساحر لدھیانوی،کیفی اعظمی،نیاز حیدر، حبیب تنویراور ہارون خوشتر شامل تھے۔ اس رپورتاژ میں عادِل رشید نے سفر کے واقعات، کانفرنس کا منظر،صدارتی خطبات،وہاں پڑھی جانے والی غزلیں اور نظمیںاور اپنی کہانی ’اور ایک سال گزر گیا‘ کو پیش کیا  ہے۔

خزاں کے پھول بھی عادل رشید کی طرح گمنامی کی دنیا میں کھو سی گئی تھی۔اس کو دوبارہ مرتب کر کے شائع کرنے کا موقع مجھ راقم الحروف کو ملا جس کو 2022 میں اپلائڈ بکس دریا گنج کے ذریعے شائع کروایا۔ اس رپورتاژ کے مقدمے میں عادل رشید کے 87 ناولوںکے ناموں کے سا تھ کچھ افسانوں کے ناموں کی فہرست بھی درج ہے’ آئینے ‘کے نام سے خاکے بھی درج ہیں۔اس کے علاوہ فلمی شخصیات پر ایک تذکرہ ’ فلمی مہرے (ایک اچھوتی پیشکش)‘کا ذکر بھی ہے۔

 عادل رشید نے’ آئینے ‘کے نام سے خاکے لکھ کر اردو ادب کے لیے خاکہ نگاری میں بھی اِضافہ کیا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کے فساد پر بھی ایک کتاب ’فسادی ادب‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔انھوں نے تذکرہ نگاری میں بھی ہاتھ آزمایا ہے۔ 1957میں فلمی مہرے (ایک اچھوتی پیش کش) جو الہ آباد پبلشنگ ہاوئس، الہ آباد سے شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے کچھ فلمی شخصیات کے تذکرے لکھے۔اس تذ کرے میں 44 فلمی شخصیات شامل ہیں۔ان سبھی سے عادل رشید کے بڑے ہی قریبی تعلقات رہے ہیں،اس تذکرے میں عادل رشید نے ان شخصیات کو ممبئی میں پیش آنے والی ابتدائی زندگی کی کشمکش کا ذکربھی کیا ہے اور ان کو ممبئی شہر میںکن کن مشکلوں سے گزرنا پڑا تھا، اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ عادل رشید نے اپنی زندگی کے کچھ واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔کہ وہ کس طرح ممبئی گئے اور وہاں کے شروعاتی حالات کس طرح کے تھے اور فلمی شخصیات کے ساتھ ان کے تعلقات کس طرح کے تھے یہ بھی بیان کیا ہے۔

اس تذکرے میں جن اہم شخصیات کا ذکر کیا ہے ان میں نوشاد، نرگس،بھا رت بھوشن،ثریّا،دیو آنند،دلیپ کمار، نمی،اشوک کمار،کے۔آصف،میناکماری،  کے۔ ایل۔ سہگل اور راج کپور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔  عادِل نے کچھ فلموں کی کہانیاں بھی لکھیںجیسے ولی کی فلم ’ زمانے کی ہوا‘ کی کہانی،یہ فلم جنوری 1954کو ریلیز ہوئی تھی۔عادل رشید نے پہلی بار ’دیوکا رانی ‘ کی فلم ’اچھوت کنیا‘پر تنقید کی تھی،راج کپور کی فلم ’آگ‘ پر اپنا ریویو بھی دیا تھا کہ وہ اپنی پہلی ہی فلم میں بڑا ڈائرکٹر بن کر سامنے آیا ہے،عادل نے بھوپال میں ایک فلم کمپنی بھی کھولی تھی اور ایک فلم بنائی جس میں اجیت کے ساتھ گیتا بالی ہیروئن تھی پر افسوس کہ فلم ڈائرکٹ نہیں ہو سکی۔ نعت اور قوالی بھی لکھی، (H.M.V CO.)  ہز ماسٹرز وائس کمپنی میں ان کے گانوں کے گرامو فون بھی ریکارڈ ہوئے، شاہد اور حجاب رسالے کے مدیر اور ناشر بھی تھے۔ بچوں کے لیے کچھ کہانیاں بھی لکھی ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں چوہوں کی حکومت، بچوں کی حکومت ، ایران کی شہزادی، چین کی شہزادی ۔

عادِل رشید کے ناولوں کا ڈنکا صرف ہندوستان میںہی نہیں بج رہا تھا بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی وہ اپنے ناولوں کی وجہ سے کافی مشہور تھے۔وہاں کے پبلشرز بھی ان کے ناول شائع کیا کرتے تھے۔اردو زبان کے علاوہ ان کے ناو ل ہند ی زبان میں بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ اتنی صلاحیتوں کے باوجود پتہ نہیں کیوں  ہمارے ناقدین اور محققین نے ان کے ساتھ اتنی بڑی نا انصافی کی ہے۔ان کو ادب میں جگہ نہیں دی گئی جب کہ ان کے ناولوں میں ناول نگاری کا فن بھرپور انداز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

عادِل رشید ناول کے فن کا وہ ہیرا ہے جس نے نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسرے لکھنے والوں کو بھی انھوں نے اپنے رسالوں میں مواقع دیے۔انھوں نے ہی پہلی مرتبہ ’ہاجرہ مسرور‘ کے افسانوں کو  شاہد اور حجاب میں جگہ دی۔ عادِل رشید نے نہ صرف ان کو اردو ادب میں روشناس کرایا بلکہ معاوضہ بھی دیا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی، یہاں تک کے ان کے افسانوں کو جگہ جگہ سے سنوارا بھی۔ عادل دوست بھی کمال کے تھے انھوں نے ولی کی فلم ’پتلی ‘ کی کہانی کرشن چندر کو لکھنے کے لیے دے دی، کیونکہ اس وقت کرشن چندر کے حالات سازگار نہیں تھے۔ عادل رشید مقبولِ عام ادب کے وہ ادیب ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں،ان کی زندگی کا مقصد حقائق کی گہرائیوں تک اتر کر معاشرے کو سنوارنا تھا۔وہ سماج کے حالات اپنے آنسوؤں اور خون سے لکھتے ہیں۔اسی لیے ان کی طرزِ نگارش میں ایسا اثر اور زندگی ہے جسے کبھی فنا نہیں۔وہ ایک حساس ذہن کے مالک تھے،اور اپنے ناولوں کا مواد اپنے آس پاس کے حالات سے ہی متاثر ہو کر لیا کرتے تھے۔ وہ ملک اور قوم سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے اسی لیے ان کے موضوع سوئے ہوئے ذہنوں کو بیدار کر دیا کرتے تھے۔وہ اپنے ناولوں میں پلاٹ، کردار، مکالمہ، منظر، جذبات،اسلوب اور تکنیک ان سب باتوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اپنی انہی باتوں کی وجہ سے عادل رشید ناول کے فن میں کامیاب ناول نگاروں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ عادل رشید نے اپنی زندگی میں قریب 150 ناول اور کچھ افسانے بھی رقم کیے، ان کے کچھ ناولوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ میر صاحب، روپ، جب محبت جاگتی ہے،  لبِ بام،دلہن،بربط کے تار، گلشن، وہ آئے گی،سشما،جرم و سزا،نگاہِ جمال،چراغِ محفل اور چودھویں کا چاند وغیرہ۔اور ان کے  افسانوں میں دکھتی رگیں(افسانوں کا مجموعہ)، درندے، سب رنگ (افسانوں کا مجموعہ)، دو لاکھ روپے کا نوٹ (افسانوں کا مجموعہ)،  ایک پتھر ایک پھول،حسن جو روح میں ہے ا ور فسادی ادب (مرتب شدہ)  وغیرہ شامل ہیں۔

 

Mohd Tanveer

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

1 تبصرہ:

  1. تنویر صاحب، براہ کرم رابطہ کیجیے:
    zest70pk@gmail.com
    عادل رشید صاحب کی آپ بیتی اور ان کی اہلیہ کا ان پر لکھا خاکہ، اپنی مرتبہ کتابوں میں شامل کیا ہے، اسی سلسلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...