14/9/23

رفعت سروش کی منظوم ڈراما نگاری اور تخلیقی جہات:ونود کمار


اردو میں منظوم ڈراما نگاری کی باقاعدہ ابتدا آغا حسن امانت لکھنوی سے ہوئی۔ انھوں نے ’اندر سبھا‘ کے نام سے منظوم ڈراما لکھا ہے جو 1853 میں اسٹیج کیا گیا جسے اردو کا پہلا ڈراما ہو نے کا شرف حاصل ہے۔منظوم ڈراما نگاری کا آغاز انیسویں صدی کے نصف میں ہوتا ہے اس کی تقلید میں اور بھی اندر سبھائیں لکھی گئیں جیسے اندر سبھا(مداری لال)راحت سبھا (منشی چتر بھوج سہای) جشن پرستاں (لال بھیروں سنگھ عظمت) وغیرہ۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں منظوم ڈراما لکھنے والوں میں طالب بنارسی،آغا حشر کاشمیری اور احسن لکھنوی ہیں لیکن اس دور کے منظوم ڈراموں میں نظم کے پہلوبہ پہلو نثر کا بھی استعمال ہو نے لگتا ہے، مکالمہ نگاری میں تصنع اور تکلفات برتے جانے لگے مگر بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں مقفی اور مسجع نثر کے استعمال میں کمی آنے لگی اور تیسری دہائی میں ان مکالموں کا زور ٹوٹ گیا جن میں تکلفات در آئے تھے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ  سرے سے منظوم ڈرامے کا چلن ہی ختم ہو گیا۔اسی دور میں پارسی تھیٹر نے اپنی آخری سانسیں لیں جس کے ساتھ ہی اردو ڈراما بھی اسٹیج سے رخصت ہو گیا انیسویں صدی میں جو منظوم ڈرامے لکھے گئے وہ خاطر خواہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے لیکن ان سے لوگوں میں ڈراما دیکھنے کا شوق پیدا ہوا  اور لوگ اپنی تسکین کی خاطر تھیٹر ہالوں میں جانے لگے۔

ڈراما اندر سبھاکو اوپیرا بھی کہا گیا ہے۔حالانکہ انیسویں صدی کے کسی ڈرامے میں اوپیرا کے اوصاف موجود نہیں ہیں کیونکہ وہ سب ڈرامے موسیقی کے اس تسلسل سے محروم ہیں جو اوپیرا کا وصف خاص ہے۔واجد علی شاہ کارادھا کنہیا کے قصے کو ڈانس ڈراما کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے اردو ڈرامے کی تاریخ میں ڈانس ڈرامے کی کوئی روایت قائم نہیں ہوئی اس کی وجہ یہ رہی کہ ڈراما محل کی چاردیواری میں کھیلا گیا جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد تک وہ ڈراما نہیں پہنچ سکا۔اگر دیکھا جائے تو باقاعدہ طور پر منظوم ڈرامے کا دور ریڈیو کے ذریعے شروع ہوا۔سلام مچھلی شہری،مختار صدیقی،رفعت سروش اور عمیق حنفی وغیرہ نے اس کی طرف توجہ کی، ان میں رفعت سروش کو خصوصی اہمیت حاصل ہے  انھوں نے منظوم ڈراموں کے علاوہ اوپیرااور ڈانس ڈرامے بھی لکھے ہیں اور نثری ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ رفعت سروش کے منظوم ڈراموں میں (زمین آدم،شعلہ آگہی،نئی صبح،شاہجہاں کا خواب، جہاں آرا،ایک ملکہ شعر وسخن :حبہ خاتون، ایک شہنشاہ عشق ووفا:جہانگیر،شکست زنداں اور نئی منزلیں اور اس دیوار کے سائے میں وغیرہ ہیں۔

 رفعت سروش کے منظوم ڈرامے دو طرح کے ہیں ایک وہ جو ریڈیو کے لیے لکھے گئے جیسے ’روح وقت ‘اور ’روشنی کا کارواں‘وغیرہ دوسرے وہ جو اسٹیج کے لیے لکھے گئے ہیں جیسے گھر کی جنت،شعلہ افسردہ،اسی دیوار کے سایے میں وغیرہ ہیں۔ ریڈیائی ڈراموں کو لکھتے وقت ریڈیو کے مقاصد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں آواز کے زیر و بم اور میوزک کے صحیح استعمال سے ہی ڈرامے کی فضا تیار ہو تی ہے۔اس کے علاوہ جو ڈرامے ریڈیو کے لیے نہیں لکھے جاتے ان میں اسٹیج کا خیال رکھتے ہوے ڈراما تحریر کیا جاتا ہے۔ اس میں روشنی کا اتار چڑھاؤ،کرداروں کی نقل و حرکت اور ان کی مناسبت سے مکالمہ نگاری اور انھیں کی زبانی جذبات،دکھ درد اور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ایسی صورت میں الفاظ کا انتخاب بہت چابکدستی سے کیا جاتاہے ورنہ الفاظ کا انتشار ڈرامے کا خون کر دیتا ہے۔  اس سلسلے میں رفعت سروش ایک کامیاب ڈراما نگار ہیں۔ رفعت سروش اپنی ڈراما نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ منظوم ڈرامے سے مجھے فطری مناسبت ہے مسلسل چالیس سال آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہنے کی وجہ سے اور ڈراما پروڈکشن سے براہ راست متعلق  ہونے کے باعث ڈراما نگاری میری تخلیقی سرگرمیوں کا بنیادی مرکز بن گئی ہے۔ میں نے46ء سے اب تک ان گنت منظوم ڈرامے لکھے اور پروڈیوس کیے کیونکہ یہ ڈرامے پیش کرنے کے لیے ہی لکھے گئے اور پروڈکشن کی تمام ضرورتوں اور ریڈیائی تکنیک کو مد نظر رکھا گیا اس لیے ان میں غیر ضروری الفاظ اور عبارت آرائی سے گریز کیا گیا ہے۔‘‘

(رفعت سروش: اسی دیوار کے سائے میں،دہلی؛ نورنگ کتاب گھر،1987، ص5)

رفعت سروش اپنے منظوم ڈراموں میں سماجی صورت حال، ملکی مسائل، گھریلو معاملات جیسے موضوعات پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ ڈراما ایک ایسی صنف ہے جو اپنا اثر قارئین و ناظرین پر بہت جلد مرتب کر لیتی ہے۔ چنانچہ ایسے سنجیدہ موضوعا ت کو کھیل کھیل میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ جس سے ناظرین بہت جلد متاثرہو جاتے ہیں۔ لکھی ہوئی تحریر سے صرف پڑھنے والا ہی لطف اٹھا سکتا ہے۔ ایک عام آدمی جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا وہ اس سے بہرہ ورنہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن ڈراما اپنا پیغام قاری و عامی دونوں تک یکساں پہنچاتا ہے اور دونوں قسم کے لوگ اس سے فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی لیے ڈرامے کا اپنا الگ مقام ہے۔رفعت سروش کا ڈراما ’’اسی دیوار کے سایے میں‘‘ عام گھریلو مسائل کے موضوع پر لکھا گیا ہے جو لوگوں کو روز مرہ کی زندگی میں پیش آتے ہیں اور ہر طرح کا انسان اس سے دوچار ہوتا ہے۔ان واقعات کو یاد کر کے افتخار کا دل آنسوؤں سے بھر جاتا ہے اور وہ کف افسوس ملتا ہے کہ آج اس کے گھر کی جوحالت ہے یہ پہلے نہ تھی۔ افتخار موجود کیفیت سے باہر نکلتا ہے اور پھر پرانی یادوں میں گم ہو جاتا ہے اور خاندان کے بکھر جانے پر افسوس کرتا ہے۔ اس منظر کی پیشکش رفعت سروش اپنے تخلیقی ذہن سے شعری پیکر میں یوں کرتے ہیں                    ؎   

گیا تھا چھوڑ کر فقط اس ارادے سے

مل  جائے گی پھر یہ گم گشتہ جنت

مگر اب یہاں کچھ نہیں ہے

فقط سوندھی مٹی کی خوشبو ہے باقی

یہ خوشبو مجھے کھینچ لائی ہے شاید

 یہ بے روح کوٹھی جو گم صم کھڑی ہے

مجھے ایسا لگتا ہے، تابوت  ہے یہ

قابل غور یہ بات ہے کہ رفعت سروش نے جس طرح افتخار کے جذبات کو پیش کیا ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ رفعت سروش انسان کے جذبات اور احساسات کو بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ رفعت سروش کی فنکاری نے اس ڈرامے کو اعلی درجے کی تخلیق بنا دیاہے۔ منظوم ڈراما لکھنا ایک جوکھم بھرا کام ہے اور وہ بھی پابند نظم میں۔ رفعت سروش نے پابند نظم میں ڈراما لکھنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کی دشوار گزار راہوں سے بآسانی گزر گئے، جس سے ان کی زبان و بیان اور فن شاعری پر مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے۔یہی نہیں کہ وہ فنی لوازمات پر دھیان دیتے ہیں بلکہ ایسی صورت میں بھی مقصد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔بعض بعض جگہ شاعری کے ایسے نمونے ملتے ہیں کہ قاری ان کی سحرانگیزی میں کھو کر رہ جاتا ہے، مثلاً زمین آدم اور شعلہ آگہی میں ان کی شاعرانہ قدرت اور سوچنے کی انفرادی قوت اپنی آب وتاب کے ساتھ نمایاں ہے۔

ایک ملکہ شعروسخن : حبہ خاتون

 بنیادی طور پر  حبہ خاتون اوپیرا کا مرکزی کردار ہے، جس کی زندگی کے تین مختلف پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حبہ خاتون دیہات کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی،جوان ہوئی اور اس کی شادی دیہات کے ایک نوجوان سے ہو گئی۔ خوبصورتی اور ذہانت کے ساتھ طبیعت شعر کی طرف مائل تھی لیکن حالات کی وجہ سے شعری ملکہ خاطر خواہ پنپ نہیں سکا، کیونکہ سسرال والے اس کی صلاحیت کو سمجھ نہیں سکے اور نہ اس کی قدر کی۔ سسرال والے اس کو  پریشان کر تے۔ چنانچہ حبہ خاتون سسرالی حالات اور اپنے فن کو مر تا دیکھ کر اداس رہنے لگی لیکن اس کی اداسی کا یہ دور تب ختم ہوا جب یو سف شاہ چک بادشاہ کشمیر نے اس کی سریلی آواز سنی اور جس کی وجہ سے وہ بادشاہ کے حرم میںداخل ہو گئی۔ یہ دورحبہ خاتون کے فن کی جلا اور خوشحالی کا دور ہے،مگر یہ دور دیر پا نہیں رہا۔ تیسرا دور حزن والم اور غم کا دور ہے۔ رفعت روش نے اس واقعے کو اپنے تخلیق کار ذہن سے منظوم شکل میں پیش کیا ہے۔

رفعت سروش کا کمال ہے کہ وہ قاری کو اپنی مٹھی میں رکھنے کا طریقہ خوب جانتے ہیں۔رفعت سروش جب موسیقیت کی طرف مائل ہو تے ہیں  تو اپنے آپ میں یکتا نظر آتے  ہیں۔ دیکھیے خود کلامی کی ایک جھلک،جس میں درد وغم اور موسیقیت کا حسین سنگم ہے:

حبہ خاتون:

دن ڈھل گیا تو چھوٹ گیا روشنی کا ساتھ

 دل ڈوبنے لگا تو گیا زندگی کا ساتھ

کنگن سے ہیں سجی ہوئی گوری کلائیاں

 لیکن فریب حسن ہیں یہ خود نمائیاں

آیا کسی کو راس نہ عشوہ گری کاساتھ

 دن ڈھل گیا تو چھوٹ گیا روشنی کا ساتھ

 حبہ خاتون گاتے ہوئے آہستہ آہستہ اسٹیج سے باہر چلی جاتی ہے، مگر اس کے گانے کی آواز مدھم مدھم سی آتی رہتی ہے۔دوسرے دروازے سے یوسف شاہ چک اپنے مصاحبوں کے ساتھ شاہانہ روی سے داخل ہوتاہے۔ گانے کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اس کی طرف کان دھرتا ہے اور کہتا ہے :

یوسف شاہ:

کس قدر پیاری صدا ہے سوز بھی ہے ساز بھی

 لطف آجائے جو ہو قاتل نگاہ ناز بھی

مصاحب:

لے کے آتا ہوں ابھی اس ماہ پیکر کی خبر

 میرے آقا کے لیے ہے یہ محبت کاثمر

مصاحب دروازے سے باہر نکل جاتا ہے اور تنہا یوسف شاہ رہ جاتاہے پھر وہ کہتا ہے:

یوسف شاہ:

 وادی کشمیر ہم ہیں ہم یہاں کے تاجدار

 زر، جواہر مال ودولت کا نہیں کوئی شمار

 ہم ہیں یوسف شاہ ہم پر اک زمانہ ہے فدا

 ہم کو لیکن بھاگئی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا

اوپیرا میں کہیں کہیں نثری انداز بھی پایا جا تا ہے، جو نا مناسب محسوس ہو تا ہے مگر وہ اتنا مختصر ہے کہ قاری و ناظر کے دلوں میں خلش پیدا نہیں کرتااور نہ ہی پیروں کی بیڑیاں بنتاہے۔ مثال کے طور پر:

ایک آدمی:

یہ آسماں، یہ ستارے یہ کہکشاں کیا ہے،

حبہ خاتون:

یہ سب خدا کی خدائی کا اک کرشمہ ہے

دوسرا آدمی: 

یہ روح کیا شے ہے اور دنیا میں آدمی کا وجود کیا ہے

حبہ خاتون:

یہ روح آئینہ خدا ہے

تیسرا آدمی:

بتائیے یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟

حبہ خاتون:

فریب ہستی ہیں اور خاک بننے والے ہیں

 رفعت سروش نے ڈرامج میں ایک ایسی عورت کو موضوع بنایا ہے جو شعر گوئی کاملکہ رکھتی ہے لیکن اس کے گھر والے اس کی اس پوشیدہ صلاحیت کو سمجھ نہ سکے سسرال والوں نے بھی اس کی قدر نہ کی۔ملکہ کشمیر ہو نے کے بعد اس نے مزدور اور کسان طبقے کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا اور رعایا کو خوش رکھنے کے لیے ان کی ہر طرح سے مدد کی۔

شاہ جہاں کا خواب

رفعت سروش کااوپیرا ’شاہ جہاں کا خواب‘ بھی ایک شاہکار ہے۔ شروع میں اس کا نام ’تاج کی کہانی‘ تھا، جسے ترمیم و اضافہ کرکے چند سال بعد ’شاہ جہاں کا خواب ‘ کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس میں تاریخی واقعے کو شعری انداز میں ڈرامائی صورت عطا کی گئی ہے۔ ’شاہ جہاں کا خواب‘ موضوعی اعتبار سے مغلیہ عہد کی تاریخ پیش کرتا ہے لیکن اس کے ضمن میں اس وقت کا ہندوستان اور اس کے حالات اور معا شرتی زندگی سب کچھ واضح صورت میں نمایاں ہیں۔ بنیادی طور پرکہانی جمنا کے کنارے محبت کی نشانی کے طور پر ایک شاندار محل بنوانے کی ہے، لیکن صرف تاج محل کی تعمیر کو الفاظ کا جامہ پہنانا مقصود نہیں ہے بلکہ ایک مغل بادشاہ کی زندگی کے ایک مخصوص پہلو کو اجا گر کرنا اور اس کی شان وعظمت کو بیان کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تاج محل کے وجود میں آنے کے عوامل بھی پیش کرنا ہے چنانچہ اسی مناسبت سے اس کے لیے الفاظ کا چناؤ، اس کی ہیئت اور اس کی ویسی ہی فضا بندی کرنا، جس سے اس کے مکمل خدو خال آشکارا ہو سکیں،ایک مشکل ترین کام ہے۔ رفعت سروش نے اس مشکل کو بڑی مہارت سے حل کیا ہے۔ اس اوپیراکی خصوصیت یہ ہے کہ اسے اوپیرا اور ڈانس ڈراما دونوں صورتوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں ڈاکٹر قاضی عبدالستار رقم طراز ہیں :

’’ رفعت سروش نے اس دشواری کو جس طرح آسان بنادیا ہے وہ داد کا مستحق ہے مشلاََشاہ جہاں کا خواب ایک متھ(Myth) ہے۔ جس پرتاریخ کی دھوپ چھاؤں کے پردے پڑے ہوئے ہیں شاعر نے اس نازک اور بحث طلب سوال پر اپنی شعریت سے اس طرح ناخن زنی کی ہے کہ اگر ایک حجاب اٹھاہے تو ایک حجاب پڑا ہے۔‘‘

(رفعت سروش، شاہ جہاں کا خواب،نئی دہلی؛ نورنگ کتاب گھر، 1980 ،ص8)

رفعت سروش کی ابلاغی ذرائع اور اوپیرا کی جزئیات پر بڑی گہری نظر ہے۔موسیقی کے تانے بانے اور اسٹیج کے لوازمات سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔یہ ساری خوبیاں اس اوپیرا میں مکمل طور پردیکھنے کو ملتی ہیں، جو کہ اوپیرا کی یک سوئی کا باعث ہیں۔ رفعت سروش ناظرین کو اپنی پکڑ میں رکھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں، جس کے مد نظر شاہجہاں کا خواب میں رفعت سروش نے اوپیرا کے پہلے ایکٹ اور  پہلے سین سے لے کر دوسرے سین تک پورے مضمون کا ایک اجما لی جائزہ پیش کر دیا ہے۔اس میں شاہ جہاں کی ممتاز سے بے پناہ محبت اور محبت میں بے قراری کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ساتھ ہی ایک باوقار اور شان و شوکت والے  بادشاہ کی زندگی جو اب قید کی حالت میں ہے، لیکن تاج محل کے دیدار سے اس میں رمق باقی ہے۔اس کا اندازہ رفعت سروش کے چار مصرعوں سے لگایا جا سکتا ہے:

مگر جب بادشاہ کا صبر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور تسلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ جہاں آرا سے مرنے کی تدبیر پوچھنے لگتا ہے اور جہاں آرا سے مخاطب ہوتا ہے۔ (مکالمہ نگاری)

شاہجہاں:

جہاں آرا! کوئی صورت بتاو جلد مرنے کی

 طلسم زندگی کے دشت وایواں سے گزرنے کی

جہاں آرا:

جو ہو تاریخ کی عظمت کا عنواں، مر نہیں سکتا 

 بنائے اک نئی جنت، جو انساں مر نہیں سکتا

فکر غالب

 یہ ایک ڈانس ڈراما ہے جس میں کچھ تمثیلی کردار بھی ہیں،  جیسے ’وقت‘ او ر’ تاریخ‘۔ ڈانس ڈرامے میں رقص ایک کلیدی حصہ ہے۔ اس میں الفاظ سے زیادہ جسم کی حرکات و سکنات بہ زبان رقص فن پارے کی ادائیگی کرتے ہیں۔ چنانچہ رقاص اگر ماہر ہے تو موضوع کی ادائیگی عمدہ طریقے پر ہو گی ورنہ فن پارہ جاں بلب ہو جائے گا۔بہر حال فکر غالب میں غالب کی عظمت کی گواہی تاریخ اور وقت سے دلائی گئی ہے، اور ان کے کلام کی روشنی میںغالب کی فکری عظمت کا احاطہ کیا گیا ہے دیکھیے:

تاریخ:

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم

 یہ بیان غالب  کا روح بند کی آواز ہے

(پس منظر سے غالب کی آواز گونجتی ہے)

وقت:

ہیں سبھی گلشن کی رونق سب سے ہے رنگ بہار

 لالہ و گل ہوں کہ نسریں ہم کو سب پر ناز ہے

غالب کی قدرو منزلت کے لحاظ سے تاریخ اور وقت نے جو گواہی دی ہے۔ اس سے غالب کی اہمیت اور عظمت کا خاکہ بنتا ہے۔ اس لحاظ سے ڈراما تخلیق کار کی عمدہ کوشش ہے، لیکن ڈرامے میں کہیں کہیں غیر ضروری جزئیات شامل ہیں جو کم و بیش ڈرامائی فضا کو متأثر کرتے ہیں غالب کے اشعار کی جو وضاحت جابجا کی گئی ہے وہ غیر ضروری ہے، لیکن ڈرامے کی زبان بہترین ہے اور اظہار، ترسیل، پس منظر،لباس،حرکت اور روشنی کے حسین امتزاج سے ناظرین کو اس کا اندازہ نہیں ہو تا ہے۔ کیونکہ رفعت سروش نے ان سب کو بڑی فن کاری سے جمع کیا ہے جس کی وجہ سے ڈراما تاثر قائم رکھنے اور غالب کا خاکہ پیش کرنے میں مکمل طور سے کامیاب رہتاہے۔

جہاں آرا

جہاں آرا شاہ جہاں بادشاہ کی پہلی اولاد تھی۔ بادشاہ اسے اپنے دل و جان سے چاہتا تھا۔ شہزادی جہاں آرا بہت ہی سمجھ دار اور ہوشیار تھی۔یہی وجہ تھی کہ بادشاہ بھی سلطنت میں اپنی بیٹی سے مشورہ لیتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شہزادی خوبصورت اور حسین بھی تھی،لیکن شہزادی کے ساتھ ایک دو روح فرسا واقعات رونما ہوئے، جن سے بادشاہ اور محل میں رہنے والا ہر ایک شخص متاثر ہوا۔30 برس کی عمرمیں شہزادی آگ سے جل گئی اور دوسرے یہ کہ شہزادی کے جلنے کے بعد بادشاہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنا دربار دو تین دن تک نہیں لگایا۔ شہزادی کی بخشش کے لیے دعائیں کی جانے لگیں۔ ہدیہ و تحائف تقسیم کیے جانے لگے۔چنانچہ ان واقعات اور ان کے اثرات کو اوپیرامیں خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ پورے اوپیرا میں ویسے تو بہت سارے کردار ہیں، لیکن ان میں سے دو کردار جہاں آرا اور دوسرے دارا مرکزی کردار ہیں۔ اوپیرا کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بادشاہ کا جہاں آرا کے ساتھ سلوک کیسا تھا اور شہزادی کا بادشاہ کے ساتھ انداز تکلم کیسا تھا۔ اس میں خادمائیں بھی ہیں اور بہن بھائی بھی۔لہذا ان کے ما بین گفتگو اور ادب و لحاظ کیسا ہوتا تھا، اوپیرا میں یہ پوری طرح آشکارا ہے۔ اوپیرا میں نغمگی ہے اور مختلف صورت حال کو واضح کرنے کے لیے بحور و اوزان میں تبدیلی بھی کی گئی ہے۔ یہ تبدیلی رفعت سروش کے تخیل کی بلندی، فنی مہارت اور ذہنی ارتقا کی مضبوط دلیل ہے۔ جب بھی کو ئی فن پارہ تخلیق کار کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنا سانچہ ساتھ لے کر آتا ہے۔ اس کو مثال سے یوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مغلیہ دور کے کسی کردار کو اوپیرا کا موضوع بنائیں اور موسیقی زمانہ حال کے مطابق ہو تو یہ نامناسب ہے۔کیونکہ جب ہم نے مغلیہ دور کے کردار کو اپنا موضوع بنایا ہے تواسی اعتبار سے ذہن میں مغلیہ دور کا خاکہ، اس دور کا رہن سہن، معاشرت، آپس کی بات چیت اور دلبستگی کے آلات کا نقشہ بھی آگیا،  لہٰذا ان لوازمات کے ساتھ اگر کردار کو بیان کیا جائے گا تو وہ اپنے پورے خدوخال کے ساتھ آشکار ہوگا۔ بشرطیکہ صنف کی تکنیک ملحوظ خاطر ہو۔ یہی ہے فن پارے کا اپنے ساتھ سانچہ لے کر آنا۔ بہر حال اس اوپیرا میں کہیں رباعی کی ہیئت ہے،تو کہیں غزل،مناجات کورس،قوالی اور آزاد نظم کی۔اس اوپیرا کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں نثر کا استعمال ذرہ برابر بھی نہیں کیا گیا ہے۔دیکھیں دار و جہاںآرا کے بیج کی گفتگو جو ان کی بے تکلفی کی طرف اشارہ کرتی ہے:

جہاں آرا:

شکریہ، مگر دارا

 عمر کی حقیقت کیا

 سانس آنی جانی ہے

 آنکھ بند ہو جائے

 پھر یہ سب کہانی ہے

دارا:

کون سی حقیقت ہے

 اور کیا کہانی ہے

 آج کیوں یہ سب سوچیں

 آپ کا جنم دن ہے

رفعت سروش کے منظوم ڈراموں کا مجموعی جائزہ لینے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک غنائیہ شاعر ہیں۔منظوم ڈراموںاور اس کی وہ قسمیں جو انھوں نے لکھی ہیں ان میں نغمگی کی ایک لے، مکالمے چست اور پلاٹ گٹھا ہوتاہے۔رفعت سروش نے مختلف مو ضوعات کو اپنے منظوم ڈراموں کے ذریعے پیش کیا ہے اور ہر ایک کا حق بہتر طور پر ادا کیا ہے۔ مکالمہ نگاری، جذبات نگاری، رجائیت، عہد و ماحول کی عکاسی،المیہ نگاری، جوش و جذبات کا ابھار، موضوع کے لحاظ سے الفاظ کا مناسب استعمال،غیر ضروری اشیا سے گریز، تفصیل طلب گفتگو کو چھوٹے چھوٹے فقروں میں بیان کرنا وغیرہ رفعت سروش کے منظوم ڈراموں کی خصوصیات ہیں۔ رفعت سروش اپنے منظوم ڈراموں میں ایک نئی تکنیک استعمال کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ ابتدائیہ میں ہی موضوع خیال کو پیش کر دیتے ہیں۔ خواب اور تعبیر خواب،حبہ خاتون اور شاہ جہاں کا خواب وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں،جو یہ غمازی کرتے ہیں کہ رفعت سروش قادرالکلام شاعر ہیں اور فن پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ رفعت سروش کے منظوم ڈرامے اردو ادب میں بیش بہا اضافہ ہیں اور ان کی بڑی اہمیت ہے۔

Vinod Kumar

R/o Chack Nathal, Ward No 2, P/O : Sanji Morh

Tehsil: Marheen,

Distt: Kathua- 184148 (J&K(

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مضمون اور اس کا فن، ماخذ: اردو ادب میں مضمون کا ارتقا، مصنفہ: سیدہ جعفر

  اردو دنیا،اکتوبر 2024 مضمون کا آغاز مضمون یا ’’اسّے ‘‘(Essay) اپنی اصطلاحی شکل اور اپنے لفظی پیکر کے اعتبار سے مغرب کی دین ہے اور مغ...