13/9/23

وہ خود اپنی جگہ اک انجمن تھا [ولایت جعفری مرحوم کی یاد میں]: سہیل کاکوروی

 

ولایت جعفری صاحب  رائے بریلی کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اس خاندان کے افراد میں حب الوطنی کے جذبے موجیں مارتے تھے۔ ان کے پردادا مجاہد آزادی تھے جن کے خاندان سے تہذیب اور شرافت کی جو روایتیں ان تک پہنچی تھیں ان کی نہ صرف انھوں نے پاسداری کی بلکہ خود کو ایک مثال بناکر پیش کیا۔ ان پر دوران ملازمت بہت سخت وقت آئے لیکن ہمیشہ مسائل کو انھوں نے حکمت عملی سے حل کیا وہ خلوص سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ میں نے کبھی اس وقت بھی ان کی پیشانی کو شکن آلود نہیں دیکھا جب وہ کسی معاملے میں بہت پریشان بھی ہوئے۔ ان کی گفتگو ہمیشہ بہت دلنشیں ہوتی تھی۔ جب وہ دوردرشن میں ڈائرکٹر تھے  تو تخلیق کاروں اور فنکاروں کا وہاں ہجوم رہتا تھا۔ سبب یہ تھا کہ وہ باصلاحیت لوگوں کے قدردان تھے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی جو فنکار خصوصاً دوردرشن کے پروگراموں تک نہیں پہنچ پائے یا نہیں پہنچتے تھے اور جعفری صاحب کو اس کا علم ہوتا تھا تو وہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کرلاتے تھے یا اپنے ماتحتوں کو ہدایت کرتے کہ ان اشخاص کی تلاش کریں۔ اس میں وہ اپنے نظام کا قاعدہ مد نظر رکھتے اور ذاتی طور پر شخصیات کا خیر مقدم کرتے۔ ہر سطح پر محبت ان کا شیوہ تھا۔ رنگ منچ کی جتنی توسیع ان کے زمانے میں ہوئی وہ یادگار ہے۔ ٹی وی کے ڈراموں کے جب پروگرام تیار ہوتے تو اس میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود دلچسپی لیتے تھے اور مفید مشورے دیتے تھے۔ وہ اسکرین پلے لکھنے میں بھی مہارت رکھتے تھے اور انھوںنے حبیب تنویر جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے اور اکثر کہتے تھے کہ کہانی لکھنا میرے لیے سب سے زیادہ آسان ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی کہانی میرے ذہن میں ابھرتی ہے تو میں اپنے کو لکھنے سے نہیں روک پاتا ہوں۔ یہ بھی ہوا کہ سڑک پر خیالات کی موجیں اٹھنے لگیں تو کہیں سے کاغذ لیا قلم دستیاب تھا اور کہانی لکھ ڈالی۔ خیال کو نہیں جانے دیا۔بعد میں اسے سجانے سنوارنے کا کام کرتے۔تجربات کی بہتات تھی جو بیشتر ان کی تحریروں میں جگہ پاتی تھی۔ تحریر ان کے مزاج کی طرح ہی شگفتہ ہوتی تھی اور وہی مزاج شاعری میں بھی تھا۔ اس لیے ان کے اندر کے شاعر کی بالادستی ان کی ہر تخلیق میں نظر آتی تھی۔

مرحوم جاوید حمیدی نے بڑی مشکل سے کسی طرح دوردرشن کے پروگرام میں میرا داخلہ ممکن بنایا تھا۔اس وقت تک ان کے اختیارات محدود تھے اور اگرچہ میں دوردرشن پر اپنا پہلا پروگرام لائیو بہت کامیابی سے کرچکا تھا۔مرحوم جاوید حمیدی کے اختیار میں جو پروگرام تھااس میں انھوںنے میرے لیے جگہ بنائی اور اس وقت کے وائس چانسلر لکھنؤ یونیورسٹی پروفیسر ہری کرشن اوستھی سے انٹرویو کرا دیا اور مجھے کہا کہ پروفیسر ہری کرشن اوستھی جی بڑی شخصیت، مجاہد آزادی اور ڈائرکٹر ولایت جعفری کے استاد ہیں جن کا احترام وہ پاؤں چھو کر کرتے ہیں۔اگر کہیں کچھ برا ہوا تو سمجھوتمھارے راستے بند۔

میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اس پر غور نہیں کرتاکہ آگے کیا ہوگابلکہ ابھی کیا ہونا ہے اس پر میرا دھیان رہتا ہے۔ اسی عزم کے ساتھ میںنے بات چیت شروع کی۔ایک دم مجھے ریکارڈنگ روم کی طرف سے اشارہ ملا، اسے میں اختتام کا اشارہ سمجھا اور ابھی آپ کا شکریہ ہی کہا تھا کہ ہیجانی کیفیت میں جاوید بھائی نے پانچ منٹ باقی رہنے کا ہاتھ سے اشارہ کیا۔میں شکریہ کے بعد کیا کرتا، جملہ جوڑا، ’’میرے سوالوں کے جواب کا شکریہ اب اپنے متعلق آپ بتائیں‘‘ اور پانچ منٹ اسی میں بخوبی صرف ہو گئے۔اب سب لوگ جعفری صاحب کے کمرے کی طرف چلے۔ پروفیسر موصوف نے اپنے شاگرد سے میرے انٹرویو کرنے کے طرز کی اتنی تعریف کردی کہ جاوید صاحب وی آئی پی بک لے آئے جس پر اہم لوگوں کی رائے دوردرشن کی کارکردگی پر مثبت انداز میں اثر انداز ہوتی ہے اور وہاں  انھوں نے چند جملوں میں جس طرح فراخ دلی سے میری تعریف لکھ دی وہ اس وقت تک موجود رہے گی جب تک دوردرشن کا وجود قائم ہے، اور اس کا یہ اثر ہوا کہ جب میں ولایت جعفری مرحوم کے ساتھ ان کے استاد کو رخصت کرکے واپس لوٹ رہا تھاتو چند قدم چلنے کے بعد مجھے اپنے کندھے پر بڑے ہی مشفق ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا، یہ جعفری صاحب مرحوم کے ہاتھ تھے اور انھوںنے اجنبیت کی ساری دیواریں گرادیں اور حسد اور نفرت کے وہ در بھی اکھاڑ پھینکے جو میری راہ روکے تھے کیوں کہ در خیبر کے فاتح عظیم کی ہمت بے مثالی ان کے وجود میں خون بن کر گردش کررہی تھی اور مجھے بھی اس نسبت پر فخر ہے کہ میں بھی مولائے کائنات کی اولاد ہوں۔بہر حال مرحوم جعفری صاحب کے پاس روز آناجانا ہونے لگا۔ میں اپنی کامیابی کے سبب دوردرشن کے معزز پروڈیوسر جناب مظہر محمود صاحب کے بھی قریب ہوا۔ وہ بااختیار تھے اور ان کی فراخ دلی سے میری کمپیرنگ کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔مظہر صاحب کا ادبی شعورمیرے لیے راہ نما بنا اور ان کا خلوص باد موافق بن گیا۔ جعفری صاحب کو بہت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مظہر صاحب کا میرے ساتھ سلوک ہر طرح سے ان کے لیے اطمینان بخش تھا۔

ولایت جعفری صاحب کا ہر طرزعمل لائق تقلید تھا۔ انھوںنے لکھنؤ دوردرشن کے تمام پہلوؤں کا اپنی بصیرت سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے اسباب سنوارنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لائے اور نڈر ہوکر ان عناصر پر ضرب لگائی جو اس نظا م کی ترقی کی راہ میںرکاوٹ بنے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ سدھار دیا۔وہ بہترین افسانہ نگار اور شاعر تھے اور ادب سے ان کا لگاؤ بے مثال تھا۔ ان کے دور میں ہندی اردو کی ادبی نشریات کی سطح بھی بلند ہوئی کیونکہ ادب کی نزاکتوں پر جعفری صاحب کی نظر بہت پینی تھی۔میرے دوست اشعر   علیگ کی شاعری کے مداح تھے۔

شاید مظہر صاحب اس وقت رخصت پر تھے یا کسی دوسرے کام میں مصروف تھے ان کے اردو کے ادبی پروگراموں کی نشریات رکنا نہیں تھی اور مجھے حیرت کے ساتھ مسرت بھی ہوئی کی پروگرام میرے بہت پرانے دوست آلوک شکلا کو جعفری صاحب نے سپرد کردیے جو بنیادی طور پر ہندی کے ادیب اور کوی بھی تھے۔اصل میں انھوں نے کہا کہ ادب کی راہیں مضبوط ادبی شعور سے ہوتی ہیں اور جس میں یہ شعور ہوتا ہے وہی سرخرو ہوتا ہے۔ مجھ کو مظہر صاحب نے اپنے پروگرام ’آئینہ‘  میں اس طرح شامل کر دیا تھا آلوک شکلا نے بھی تقریباً وہی کام لیے جو مظہر صاحب لیا کرتے تھے اور جعفری صاحب راہ نمائی کیا کرتے تھے۔

مشکل کام اپنے ذمے لے کر بھی وہ کبھی ذہنی تناؤ میں نہیں رہتے بلکہ آسانیوں میں بہت زیادہ مطمئن نہیں رہتے تھے۔۔پوری زندگی انھوں نے غلط سے صلح نہیںکی اور سچ کے ہمیشہ پاسبان رہے۔اس میں مخالفتیں جھیلیں لیکن پروا نہیں کی، خیر کا پرچم بلند کیا اور اس کے علم بردار رہے۔جہاں تک میرا سوال ہے میں نے تو ان کو آئڈیل سمجھا اور ان کی ردائے محبت اور شفقت کے لطیف سائے  میرا وجود ہمیشہ محسوس کرتا تھا اور اب بھی کررہا ہے اور  ہمیشہ کرتا رہے گا۔

ولایت جعفری کا سب سے نمایاں کام روشنی اور آواز کی ٹکنیک پر تھا۔ وژن 1919 ان کا پہلا روشنی اور آواز کا پروگرام تھا اور اس نے ان کو روشنی میں لانے کا کام کیا۔ اس کے بعد تو متعدد پروگرام اس نوعیت کے انھوں نے کیے۔ لکھنؤ والوں نے تو ان پر تب پھول برسائے جب یہاں کی تاریخی عمارت بیلی گارد (ریزیڈینسی) میں ’بڑھتے قدم‘ عنوان سے شو چلا۔ یہ شو جنگ آزادی کے حقائق اور اس سے منسلک واقعات پر مبنی تھا۔ولایت جعفری اپنے اس نایاب تجربے کی بنا پر ایک معتبر ہدایت کار تسلیم کرلیے گئے اور ان کے حوالے سے ہی روشنی اور آواز سے اہل لکھنؤمتعارف بھی ہوئے۔ اس شو کا سلسلہ چلتا رہا۔ لوگوں کے قدم کئی کئی بار اس کی طرف بڑھے، جس نے ایک بار دیکھا اس کاشوق اسے پھر وہاں لے گیا۔جعفری صاحب اپنی اس کامیابی پر فخر ضرور کرتے تھے۔ غرور تو کبھی ان کے پاس سے گزرا ہی نہیں۔اس کے بعد انھوں نے کئی پروگرام روشنی اور آواز کے حوالے سے کیے اور ان کی تخلیقیت نے ان کو ہر قدم پر کامیابیوں سے ہمکنار کیا وہ جہاں رہے نیک نام رہے۔وژن 1919 بڑھتے قدم، بہادر شاہ ظفر، غالب، انارکلی، ممتاز محل۔ ان کے روشنی اور آواز کے اہم پروگراموں کے عنوان ہیں جو لکھنؤ، دہلی اور چنڈی گڑھ میں ہوئے اور ہر جگہ ان کی کامیابی بحیثیت ہدایت کار ان کا نام اس کی تاریخ میں بصد احترام درج ہو گیا۔

لکھنؤ دوردرشن میں بہت کچھ ان کے دور میں نیا ہوا۔ اسپانسرڈ سیریل کا بھی یہاں آغاز ان کے دور میں ہوا۔ ان کو لکھنؤ سے خاص انس تھا۔ وہ اس سرزمین کو گلزار محبت تصور کرتے تھے جہاں تہذیب اور تمدن کے پھول کھلتے تھے جن کے رنگوں سے ان کے احساس جمالیات کو فرحت حاصل ہوتی تھی جس کی بوئے دلنواز سے ان کی روح کو تازگی ملتی تھی۔ وہ جتنے دن تندرست رہے یہاں کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا حصہ رہے۔ چھوٹی نشستوں میں اپنی موجودگی درج کرانے میں کبھی گریز نہیں کرتے تھے اور جہاں پُرفکر مباحثے اور مذاکرے ہوتے تھے ان کی بات اور ان کا بیان قابل قدر ہوتا اور وہ اتنا اہم بیان ہوتا کہ اکثر وہ جلسوں کی خبروں کی سرخی بن کر جگمگا تا تھا۔ لکھنؤ  حلب آئینہ سازاں ہے اور وہ یہیں سے صاف وشفاف آئینہ بن کر نظروں کے سامنے آئے وہ دلوں میں سما گئے اور تھیٹر کی تاریخ میں شان سے درج ہوئے۔ ان کو یاد کرکے میں اپنا یہ شعر پڑھتا ہوں            ؎

کچھ پھول کھلا کر چلا گیا، کچھ خواب دکھا کر چلا گیا

اک آگ سی دل کی دنیا میں دلدار لگا کر چلا گیا

 وہ حب الوطنی کو جزو ایمان سمجھتے تھے اور خیر سگالی کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔دوستی اور تعلق نبھانے میں ان کا جواب نہیں تھا۔

علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر، مجروح وغیرہ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔و ہ جب دوردرشن کے ڈائرکٹر تھے تو ان شعرا کی لکھنؤ آمد پر کسی بھی طرح ان کی گفتگواور شاعری کی صدائیں محفوظ کرنے کی سعی کرتے تھے۔ نیشنل نیٹ ورک کے لیے سب سے پہلا بڑا مشاعرہ لکھنؤ دوردرشن میں ان کے دور میں ریکارڈ ہوا جس کا اہتمام اس وقت کے پروڈیوسر ڈاکٹر مظہر محمود نے کیا اور عہد ساز شاعروں کی کہکشاں ولایت جعفری صاحب کی رہنمائی میں سجی۔ وہ بزم عالی یادگار تھی، کیفی اعظمی صدارت کررہے تھے اور استاد محترم پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نظامت فرما رہے تھے۔ مشاعرے میں پدم شری شمس الرحمن فاروقی، عرفان صدیقی موجود تھے اور اس مشاعرے میں میرا ہونا میرے لیے باعث فخر تھا۔ جب مشاعرہ نشر ہوا اور  میں ملا تو مزاجاً ہنس کر جعفری صاحب نے کہا کہ یار تم نے تو پڑھنے میں اعتماد کی ایسی تیسی کردی۔  میری، اس پروگرام کے لیے منتخب کی ہوئی، غزلوں کی تعریف کی۔ میرا ایک شعر ان کو بہت پسند تھا اکثر پڑھتے تھے اور ان کی اہلیہ نے اسے ساز پرگایا بھی تھااور وہ شعر جعفری صاحب نے خاص کر اس سمینار کی اپنی تقریرمیں پڑھا تھا جو میری انجمن کی طرف سے بعنوان ’بقائے انسانی میں صوفیوں کا حصہ‘ پر منعقد ہوا تھا۔ وہاں موجود مشائخ کو مخاطب کرکے وہی شعر پڑھا          ؎

تقدیر بدل دے گا مری اس نے کہا ہے

اس شخص کو وشواس کا وردان ملا ہے

بہت محبت سے کہتے تھے بیٹا یہ امر شعر تم نے کہہ دیا۔ وہ عارضۂ قلب میں بھی مبتلا رہے،بلڈ شوگربھی رہی، لیکن عمل کی راہ میں گرد وغبار  پیدا کرتے رہے جو زبان کی بزم میں ان کی گلباریاں بھی بھلی لگتی تھیں         ؎

بہت باتوں میں جی لگتا تھا اس کی

وہ خود اپنی جگہ اک انجمن تھا

ولایت جعفری صاحب ایک ایسے شریف النفس انسان تھے جن کے لطف و کرم کو دیکھ کر انگریزی میں کسی ایسے انسان کے لیے ایک مفکر نے کہا ہے کہ’’ ایک شریف النفس انسان کی صفت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کوئی احسان کرتا ہے تو اس کو ہلکا کردیتا ہے تاکہ احسان اٹھانے والے پر بھاری نہ ہو اور وہ یوں کچھ دیتا ہے کہ جیسے وہ کچھ حاصل کررہاہے‘‘۔ اس لیے احسان جتانا تو دور وہ تو اس کا ذکر بھی پسند نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی یاد دلاتا تو بات ہی ٹال جاتے۔ان کی حیات میں میں نے ان پر ایک مضمون لکھا جو شائع ہوا۔ جس میں ان کی شفقتوں کا ذکر تھا، کہنے لگے تمھیں اتنی پرانی باتیں یاد کیسے رہیں۔میں نے کہا ان کی یاد میرا فرض ہے اور وہ میرے دل میں دائمی ہے۔ وہ ادا سے بس مسکراتے رہے۔

کثرت استعمال سے یہ جملہ بے اثر ہو گیا ہے کہ کسی کے جانے سے جو جگہ خالی ہوئی وہ آسانی سے نہیں بھرے گی، لیکن ولایت جعفری صاحب مرحوم کے انتقال پر یہ جملہ اپنی معنویت کے ساتھ میری اور بہتوں کی زبان پرہے کیونکہ ایسی ہمہ جہت شخصیت کے لیے اسے بولنا مناسب ہے۔

Mr. Suhail Kakorvi

C/o, National Tractors

City Hotel, B. N. Road, Lalbagh

Lucknow- 226001 (UP)

Mob.: 7897185376

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

رامپور میں تذکرہ نگاری کا اجمالی جائزہ، مضمون نگار: نظام الحسن

  اردو دنیا، نومبر 2024 علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1774میں   بہ حیثیت روہیلہ ریاست قائم ہونے والا یہ شہر...