اودھ جو کہ زبان و ادب کے فروغ کا اہم مرکز
رہا ہے اسی خطے میں بسا تہذیب کا شہر لکھنؤجس نے اپنے ادب و آداب سے پورے عالم میں
اپنی پہچان قائم کی ہے۔ شعر وادب اور اہل علم کے مرکز اس نگر کی ادبی روایتیں بھی شاہکار
رہی ہیں۔ لکھنؤیعنی علم و ادب کے گہوارے سے یوں تو کئی ادبی رسائل جاری ہوئے لیکن
نیادور کا شمار صف اول کے رسائل میں کیا گیا جبکہ یہ رسالہ ابتدا میں اس نام سے خصوصی
طور پر ادبی رسالے کی شکل میں جاری نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ
1947 کے بعد یعنی آزادی کے بعد حکومت اتر پردیش نے اپنی سرکاری اطلاعات اور اپنے منصوبے
و مقاصد کو بطور خاص اردو سے واقف عوام تک پہنچانے کے لیے ایک پندرہ روزہ رسالہ جاری
کیا جس کا نام ـ ــ’اطلاعات
‘ـ رکھا گیا،
اس میں محض سرکاری پریس نوٹ شائع ہواکرتے تھے۔ اس کے مدیرا علیٰ علی جواد زیدی تھے
جنھوں نے بہت آہستگی سے اس میں ادبی تخلیقات کو بھی جگہ دینا شروع کیا جس کی وجہ سے
کچھ عرصے میں ہی اس کا رنگ روپ بدلنے لگا۔ تب علی جواد زیدی نے اتر پردیش کے وزیر اعلٰی
ڈاکٹر سمپورنانند جی جو کہ نہ صرف اردو زبان جانتے تھے بلکہ شاعربھی تھے، انھیں ایک
تجویز پیش کی کہ اس رسالے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کا نام تبدیل کر دیا جائے
اور’ نیا دور ‘ رکھ دیا جائے۔ انھوں نے تجویز کو بخوشی منظور کر لیا۔
اس سلسلے کی پوری روداد علی جواد زیدی کچھ یوں
بیان کرتے ہیں :
’’
رسالے کا نام برابر کھٹکتا رہتا تھا۔’’اطلاعات۔‘‘ یہ بھی کوئی نام تھا ! وہ بھی ایک ایرانی روز نامے سے ماخوذ۔جہاں اس وقت
شہنشاہی نظام مسلط تھا ! نام پکارتا رہتا تھا کہ میں سرکاری رسالہ ہوں۔نیا نام کیا
ہو اس پر کافی غور وخوض کیا گیا۔کئی نام ذہن میں آئے۔اس میں ادبی شان بھی ہو اور سماجی
معنویت بھی۔انھیں میں ایک نام نیادور بھی ذہن میں آیا۔پہلے اس نام کا ایک رسالہ بنگلور
سے ممتاز شیریں اور صمد شاہین کی ادارت میں شائع ہوتا تھا لیکن وہ لوگ کاروبار بند
کر کے بیرون ملک چلے گئے۔اب یہ نام خالی تھا۔رجسٹرار نیوز پیپر س آف انڈیا سے دریافت
کر کے نام تبدیل کرنے کی تجویز میں نے ڈائریکٹر کی وساطت سے ڈاکٹر سمپورنانند جی کو
بھیجی۔ انھوں نے نام پسند تو کیا لیکن ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ کچھ اور نام بھی
سوچ لیے جائیں تو اچھا ہو۔میں نے کچھ اور نام بھی تجویز کر کے بھیجے لیکن اسی عرصے
میں وہ وزیر اطلاعات نہ رہے اور عارضی طور پر یہ محکمہ خود وزیر اعلیٰ پنڈت گووند بلبھ
پنت نے سنبھال لیا۔اب فائل ان کے پاس پہنچی تو انھوں نے نام ’پنچایتی راج‘ تجویز کر
دیا۔ اس کے مقابلے میں تو اطلاعات ہی غنیمت معلوم ہونے لگا۔ بارے سمپورنانند جی نے
پھر وزارت سنبھالی اور میں نے انھیں صورت حال سے آگاہ کر دیا۔انھوں نے میرے خیال سے
اتفاق کرتے ہوئے ’ نیا دور‘ نام کی منظوری دے دی۔اب صحیح معنوں میں اس رسالے کا نیا
دور شروع ہوا۔‘‘ (اشاریہ ماہنامہ نیا دور ص
: 143)
یوں ’اطلاعات‘ نے آگے بڑھتے ہوئے نیا دور میں
قدم رکھا اور ایک نئی ادبی منزل کی جانب خود کو گامزن کر لیا اور کبھی پیچھے مڑ کر
نہ دیکھا ہاں لیکن اس نے اپنے بنیادی مقصد کو بھی کبھی فراموش نہ ہونے دیا یعنی سرکاری
اطلاعات اس کا ایک خاص حصہ باقاعدہ بنی رہیں۔ اپریل 1955 میں نیا دور کا پہلا شمارہ
جاری ہوا۔
اور پھر قارئین نے دیکھا کہ یہ
رسالہ ماہ در ماہ اسم با مسمٰی بنتا گیا۔اس نے ادب کی ایک نئی تاریخ مرتب کرنا شروع
کی ادب کو ایک معیار بھی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
چونکہ نیا دور کے نام سے کسی نئے رسالے کو جاری
نہیں کیا گیا تھا بلکہ اطلاعات کی نوعیت بدلی گئی تھی لیکن یہ محض نام کی تبدیلی نہیں
تھی بلکہ سرکاری اطلاعات کے ساتھ ادبی تخلیقات کے امتزاج نے اسے ایک خوبصورت ادبی مرقع
بنا دیا۔ اس مرقع کی تمامتر خوبصورتی اور معنویت اس کے مدیران کی انتھک محنت،لگن اور
کوششوں کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ بلا شبہ ان مدیران نے خون جگر سے اس کی آبیاری اور نشو
ونما کی تھی۔
اسی ابتدائی دور میں خاص نمبرات کی شروعات بھی،
ا ٓزادی نمبر اور گاندھی جینتی نمبر سے ہوئی۔علی جواد زیدی صاحب کے بعد جتنے بھی مدیر
اس سے وابستہ ہوئے انھوں نے اسی نقش اولین پر قدم رکھتے ہوئے اسے نئی منزلوں کی طرف
گامزن رکھا۔
نیا دور کے مدیران گرامی میں علی
جواد زیدی، محمدفرحت اللہ انصاری،صباح الدین عمر،خورشید احمد،امیر احمد صدیقی،سید امجد
حسین،شاہ نواز قریشی، نجیب انصاری، سید خالد احمد، وضاحت حسین رضوی،سہیل احمد،عاصم
رضا، انجم نقوی، غزال ضیغم ہیں،موجودہ ایڈیٹر ریحان عباس ہیں
بحیثیت مدیرسب سے پہلا نام علی
جواد زیدی کا ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ ادبی تخلیقات کو رسالے کی زینت بنانے میں پیش
قدمی کی تھی بلکہ قارئین کے اشتیاق کو بڑھانے کے لیے’ ـ آپ سے
ملیے ‘ جیسے دلچسپ کا لم کا بھی آغاز کیا۔اس کا لم میں ملک کی اہم شخصیتوں کے خاکے
ہوا کرتے تھے۔یہ سلسلہ قارئین میں بہت مقبول ہوا۔اسی کے ساتھ علی جواد زیدی کے لکھے
اداریے بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے تھے ان کے اداریے ادب کی مقصدیت اورافادیت کو پیش
نظر رکھ کر لکھے گئے ہیںجو کہ قلمکاروں کو ادب کے مقاصد کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب
نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے جنوری 1957 میں تعمیری ادب نمبر بھی نکالا جو کہ
بہت مقبول ہوا۔
علی جواد زیدی کے دور میں اطلاعات نے نیادور کا روپ لیا اور پوری آب وتاب
کے ساتھ جگمگانے لگا لیکن اسی دوران ایک و اقعہ ایسا بھی رونما ہوا جس سے نہ صرف اس
کی چمک ماند پڑنے کا ہی اندیشہ پیدا نہ ہوا بلکہ گہن کے ہی پورے پورے آثار پیدا ہو
گئے۔اس واقعہ کو علی جواد زیدی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’نیا
دور پر ایک مشکل وقت بھی آپڑا تھا،میں مختصر سی رخصت پر لکھنؤکے باہر گیا اور میری
غیر حاضری کے دوران میرا کام میرے رفیق بلبھدر مشرا (ڈپٹی ڈائرکٹر ) معمول کے مطابق
دیکھنے لگے ان کے پاس معاوضوں کی رقم میں حاشیائی اضافے کی فائل بھیجی گئی کبھی کبھی
ایسا بھی ہو جایا کرتا تھا کہ محکمے سے نکلنے والے رسائل میں سے کسی ایک کے یہاں خصوصی
شمارے وغیرہ کی اشاعت کے باعث ماہانہ مقررہ رقم سے تجاوز ہو جاتا تھا لیکن ایسی کمی
بیشی اشاعت کے مجموعی بجٹ سے پوری کر لی جاتی تھی۔ یہ ایک معمول تھا اور دفتر نے ایسی
ہی تجویز رکھی بھی تھی۔مشرا جی نے اچانک یہ سوال اٹھا دیا کہ نیا دور کو بند کر دینا
چاہیے کیونکہ اب سرکاری زبان ہندی بن گئی ہے۔
اس کے بعد فائل نہایت تیزی اور خاموشی سے حد یہ ہے کہ سکریٹری محکمہ کے بالائے
سر آگے بڑھتی ہوئی وزیر اطلاعات کے پاس پہنچ گئی اور انھوں نے تعرض کے بغیر مہر تصدیق
ثبت کردی اور سکریٹریٹ کے قاعدے کے مطابق وزیر کے یہاں سے فائلیں واپسی سفر پر سکریٹری
کے پاس لازمی طور سے آتی تھیں، سکریٹری آنند نرائن سپرو آئی سی ایس سرتیج بہادر
سپرو کے فرزند تھے،انھیں یہ بات بے حد ناگوار گزری کہ اتنے اہم مسئلے سے متعلق فائل
بالا بالا وزیر کو بھیج دی گئی اس کے علاوہ انھیں یہ بھی حیرت ہوئی کہ راقم الحروف
نے ابتدائی منزلوں میں یہ تجویز،اختلاف و احتجاج کے بغیر کیسے قبول کر لی۔انھیں یہ
معلوم تھا کہ اردو سے متعلق تمام کام میری ہی وساطت سے انجام پاتے ہیں چنانچہ انھوں
نے مجھے بلا بھیجا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تب پہلی بار مجھے اس کاروائی کا علم
ہوا۔میں نے بتایا کہ یہ ساری کارروائی میری مختصر سی غیر حاضری کے دوران ہوئی ہے اور
مجھے تو اب پہلی بار معلوم ہو رہا ہے انھوں
نے مجھ سے تصدیق چاہی کہ رسالہ تو وزیر اعلا کے حکم کے بغیر جاری نہیں ہوا ہوگا ؟ میرے
اثباتی جواب پر انھوں نے ایک تفصیلی نوٹ براہ راست وزیر اعلا کو لکھوایا اور یہ بات
زور دے کر کہی کہ اس فیصلے سے اردو کا نہیں حکومت کا نقصان ہوگا کہ حکومت کی اطلاعات
اردو داں کو نہیں پہنچ سکیں گی اور اس سے اردو داں طبقے میں خواہ مخواہ کی بے چینی پیدا ہوگی۔وزیر
اعلا پنڈت گووند بلبھ پنت نے سکریٹری کی اس
رائے سے اتفاق کرتے ہوئے رسالے کو جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔یہ ایک بڑی کامیابی
تھی اور شعبہ اردو میں اس فیصلے پر جشن کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور رسالہ پوری آب و تاب سے ترقی کے زینے
طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔‘‘
(نیادور صف صدی نمبر
:نیادور کا زریں دور : علی جواد زیدی
ص 74 )
اس طرح یہ رسالہ اپنی بقا کی جنگ اپنے ابتدائی
مراحل میں ہی شروع کر چکا تھا لیکن اس کے مدیران
نے اسے ایسا معیار عطا کیا کہ پھر ایک طویل عرصے تک اس نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور ادب کی خدمت کرتا رہا۔
علی جواد زیدی نے گاندھی جینتی نمبر،جمہوریت نمبر،آزادی نمبر،تعمیری
ادب نمبر جیسے خصوصی نمبر شائع کیے۔ان کے بعد محمد فرحت اللہ انصاری نے جمہوریت نمبر
شائع کیا اور پھر صباح الدین عمر جب اس کے مدیر بنائے گئے تو انھوں نے رسالے کی توقیر
میں اضافے کی غرض سے اپنی تمامتر توانائیاں اس کی مرصع سازی میں صرف کیں۔
صباح الدین عمرنے اس ہنر کو ادبی صحافت میں بڑی
خوبی سے استعمال کیا،زبان و بیان پر ہی نہیں قواعد و عروض و قافیے سے واقفیت کی بنا
پر ایک ایک سطر ایک ایک مصرعے پر گہری نظر رکھتے انھیں درست کرتے جس کی بابت صلاح الدین
عثمانی لکھتے ہیں :
ـ ’’یہ ممکن نہ تھا کہ رسالے کی اشاعت میں کتابت کی
ادنیٰ سی بھی خامی رہ جائے اخبار و رسالے کے صفحات میں مضامین سجانے lay out
میں تو وہ ماہر تھے لکھنؤکے اچھے کاتبوں کا کہنا ہے کہ ان کے بعد
کتابت اور صفحات کے سجانے کا ہنر جاننے والا کوئی نہ رہ گیا۔‘‘
(صلاح
الدین عثمانی :صباح الدین عمر مرحوم،نیا دور
نصف صدی نمبر مارچ اپریل مئی 1995 )
اسی طرح ان کے اداریے بھی بڑی اہمیت کے حامل
ہیں۔ان کے ایک اداریے کے متعلق ڈاکٹر محمد
اطہر مسعود خاںلکھتے ہیں :
’’نیا
دور کی صحافتی تاریخ میں سب سے طویل اداریہ بھی صباح الدین عمر کا لکھا ہوا ہے جو
26 جنوری 1960کے شمارہ میں شائع ہوا۔یہ اداریہ بہت باریک کتابت کے ساتھ نیا دور کے
پانچ مکمل صفحات پر مشتمل ہے جو نیادور کی موجودہ کتابت یا کمپیوٹر کی ٹائپنگ کے لحاظ
سے کم از کم بیس صفحات کے برابر ہے۔یہ پورا اداریہ قومی اور بین الاقوامی طور پر جمہوریت
کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر
محمد اطہر مسعود خاں، سہ ماہی روح ادب، جولائی
تا ستمبر 2022، ص : 15)
صباح الدین عمر کی ادارت میں بھی
خصوصی نمبر نکلنے کا سلسلہ بر قرار رہا انھوں
نے ملک کے عظیم رہنماؤں کی رحلت پر خاص نمبرات کا اہتمام کیا۔مہاتما گاندھی نمبر،پنڈت
جواہر لال نمبر، لال بہادر شاستری نمبر،افسانہ نمبر،غالب نمبر،احتشام حسین نمبر،جمہوریت
نمبر اور اگست کے شمارے بھی نمبر ہی کی شکل میں شائع کیے یہ خصوصی نمبر قارئین کی دلچسپی
کا مرکز بنے۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین پر ایک خصوصی گوشہ ’نذر ذاکر ‘ جون 1969
میں شائع کیا۔ ان کے دور کے یہ خصوصی نمبرات دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور مستند
حوالے ہیں۔
مدیر سید خورشید احمد کی ادارت میں نیا دور
کے خاص نمبر شائع ہوئے ان کی مدت ادارت میں تقریباً آٹھ خاص نمبر منظر عام پر آئے۔ان
میں سے امیر خسرو نمبر، جمہوریت نمبر (2)،
انتودیہ نمبر،ترقیاتی نمبر،آزادی نمبر، مسعود حسن رضوی نمبر،عبد الماجد دریا بادی
نمبر کچھ اس انداز سے جلوہ افروز ہوا اس کی بدولت نیادور کے معیار میں زبردست اضافہ
ہوا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال، سلام مچھلی شہری،اور شمیم کرہانی
پر گوشے بھی نکالے۔اس کے علاوہ ان کی ایک اہم ادبی خدمت یہ بھی رہی کہ انھوں نے ابتدا
سے لے کر خود کے دور ادارت تک کے تمام شماروں کوایک فائل کی صورت میں یکجا کرکے یو
پی اردو اکیڈمی میں محفوظ کر دیا۔
امیر احمد صدیقی نے بھی خورشید صاحب کی قائم
کردہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اطفال نمبر، جمہوریت نمبر، آزادی نمبر، ترقیاتی نمبر،
منشی نول کشور نمبر، اندرا گاندھی نمبر،عثمان عارف نمبر، بہادر شاہ ظفر نمبر، منشی
دیا نرائن نگم نمبر،فراق نمبر حصہ اول،فراق نمبر حصہ دوم اور یاد رفتگاں نمبر وغیرہ
شائع کرکے اپنی کاوشوں کی دستاویز تیار کر ڈالی۔ نسیم انہونوی اور جمیل مہدی پرخصوصی گوشے شائع کرکے ان کی ادبی خدمات کو جاوداں کرنے کا اہم کام انجام
دیا۔
شاہنواز قریشی کی نیا دور سے وابستگی ایک طویل
عرصے تک رہی وہ دو مرتبہ اس کے مدیر بنائے گئے اور مدیر سے پہلے وہ جوائنٹ ایڈیٹر،
اور ایکٹنگ ایڈیٹرکے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ان کی ادارت میں جو خاص نمبر منظر عام
پر آئے ان میں قومی ہم آہنگی نمبر اور امبیڈکر نمبر، شمع حریت نمبر،وامق جونپوری
نمبر، اور کیفی اعظمی خصوصی نمبر نکالے جو کہ قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔
شاہنواز قریشی کے بعد نیا دور کی باگ ڈور امجد
حسین کے ہاتھوں میں رہی انھوں نے اپنی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے قومی
یکجہتی نمبر،اودھ نمبر حصہ اول، ضمیمہ اودھ نمبر،اودھ نمبر حصہ دوم، نصف صدی نمبر،گاندھی
نمبر، یادگار آزادی نمبر شائع کیا اودھ نمبر
بہت مقبول ہوا جو کہ بے حد یادگاری نمبر تھا۔انھوں نے شیخ علی حزیں پر ایک گوشہ بھی
شائع کیا۔اس کے علاوہ امجد حسین نے ادیب اور شاعر کو ملنے والے اعزازیے کی رقم میں
بھی اضافہ کروایا یہ تبدیلی بھی اہم تھی۔نجیب انصاری جو زیادہ تر سب ایڈیٹر اور جوائنٹ
ایڈیٹر تھے انھیں بھی نیا دور کی ادارت 6ماہ کے لیے ملی جسے انھوں نے اپنی صلاحیت سے نبھایا۔
نیا دور میں ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی جیسی
فعال شخصیت کا تقرر ہوا۔ ان کی ادارت میں سب سے پہلے مولانا محمد علی جوہر جیسا اہم
نمبر قارئین کے سامنے آیاجسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد تو وضاحت حسین رضوی
نے سلسلہ وار خصوصی نمبرات نکال کر اپنے ادارتی عہد کو جو کہ2004سے 2016 تک رہا؛
ایک تاریخی عہد میں بدل دیا۔ان کی انتھک محنت کی بدولت پچیس خصوصی نمبر شائع ہوئے۔مولانا
محمد علی جوہر، علی جواد زیدی نمبر، ڈائمنڈ جوبلی نمبر، انقلاب 1857، رشید حسن خاں
نمبر، قرۃالعین حیدر نمبر، شکیل بدایونی نمبر، رثائی ادب ( دسمبر 2009 )،میر تقی میر نمبر، عرفان صدیقی نمبر،
اردو صحافت نمبر، مجاز نمبر، احتشام حسین رضوی نمبر، رثائی ادب ( نومبر 2013) خمار بارہ بنکوی نمبر،منشی دواریکا
پرساد نمبر،ترقیات نمبر،رثائی ادب نمبر (دسمبر 2014) محمود الٰہی نمبر، علی برادران
نمبر،رثائی ادب نمبر(اکتوبر 2015)،جاں نثار اختر نمبر ( دو حصوں میں ) وجاہت علی سندیلوی
نمبر،نوائے رفتگاں نمبر اور میر انیس نمبر۔بلا شبہ اہم شخصیات پر معیاری مضامین لکھوانا
کوئی آسان کام نہ تھا جس کی بدولت نیا دور ایک ایسا شہ پارہ بن گیا جس میں ادب اور
ادیب دونوں ہی محفوظ ہو گئے ہیں۔انھوں نے کئی گوشے بھی شائع کیے جن میں عرفان صدیقی،
چودھری سبط محمد، منٹو، عصمت کے علاوہ بھی کئی ادیبوں پر ہیں۔
وضاحت حسین رضوی کی انتھک کوششوں کے طفیل اس کے
صفحات کی تعداد میں اضافہ ہوا نہ صرف یہ کہ
اس کے صفحات 32 سے 48 ہوئے بلکہ خریداروں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ
اضافہ انہی کی کوششوں سے ممکن ہو پایا۔ 2015 میں انھوں نے تخلیق کار کو ملنے والے اعزازیے
کی رقم کو دوگنا کرادیا یہ ان کی اردو دوستی کا بڑا ثبوت ہے،یہی نہیں انھوں نے رسالے
کو اپنی کوششوں سےI.S.S.N نمبر بھی دلایا جس سے اسکالرز مستفید ہو رہے ہیں۔
وضاحت حسین رضوی نے نیا دور کی بازیافت کا بھی کارنامہ انجام دیا۔انھوں نے نیا دور
میں جتنے خصوصی نمبر شائع ہوئے ان کے مضامین کو نصاب بندی کے تحت جدید تدوین کے ساتھ
دوبارہ منظر عام پر لانے کا کارنامہ انجام دیا جس سے ادب کے وہ قاری جو ان اہم شماروں
سے محروم رہ گئے تھے ان تک ان کی رسائی ہو گئی بلا شبہ اس کام کے لیے وہ مبارکباد کے
مستحق ہیں۔ان خصوصی نمبرات کی مقبولیت کے باعث بعض نمبروں کو ہندی قارئین کے لیے ہندی
میں بھی شائع کیا گیا۔ان میں مولانا محمد علی جوہر،مجاز، خمار بارہ بنکوی، اور دواریکا
پرساد افق بطور خاص ہیں۔ جبکہ وہ اور کئی خاص نمبروں کی منظوری لے چکے تھے مگر ان کے
تبادلے کے بعد وہ شائع نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر وضاحت حسین صرف ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک
قابل قدر محقق اور ادیب ہیں انھوں نے اردوناولٹ
پر تحقیق کی ہے۔ان کی تقریباً 10 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور وہ آج بھی پوری فعالیت کے ساتھ ادبی خدمات
انجام دے رہے ہیں۔
اس رسالے کو جاودانی عطا کرنے میں جہاں مدیران
کی کاوشیں ہیں وہاں اطہر مسعود کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا یقینا ایک ادبی بد دیانتی
ہوگی۔اطہر مسعود صاحب نے اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کا مو ضوع نیا دور کے اشاریے کو بنایا جو کہ ایک کار مشکل
تھا لیکن اس مرد خوش خصال نے اس جوئے شیر کو سر کر کے ہی دم لیا انھوں نے پہلے 1955سے 2001 تک کا کام مکمل کر کے
پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ڈگری لینے پر کام کو بند نہیںکیاوہ مستقل اس کی اشاریہ سازی
پر کام کرتے رہے 2020 تک کا اشاریہ مکمل کر
چکے ہیں۔ان کی اس عظیم ادبی خدمت کے لیے اردو ادب ہمیشہ ان کا احسان مند رہے گا۔
یہ رسالہ علم کا ایک ایسا مرکز بنا جس نے ذہن
جدید کی آبیاری میں بھی اپنا بڑا کردار ادا کیا کیونکہ یہاں جو اصول مرتب کیے گئے
تھے وہ تخلیق کے معیار پر مبنی تھے نہ کہ تخلیق
کار کی شخصیت پر۔یہی وجہ رہی کہ اتنے طویل عرصے تک ایک سرکاری سر پرستی میں نکلنے والا
جریدہ جانبداری کے الزام سے بھی بچا رہا اور اس بات سے بھی کہ یہ محض سر کاری نظریات
کی نمائندگی کرنے والا رسالہ ہے۔
المختصر نیا دور ادبی صحافت میں ایک نئے سورج
کی طرح طلوع ہوا’ تھا ‘جس کی ضیا تقریباً سات دہائیوں پر محیط رہی۔یہ ادب کا ایک برگ
ثمر دار ثابت بھی ہوا جس پر اردو ادب کی تمام اصناف بطور شاخیں پھولی پھلیں، مختلف
رنگ کی بہاریں خصوصی نمبر اور شماروںکی شکل میں لہلہائیں ادب کو ثمر دار کرتی رہیں۔نئی
نئی کونپلوں کی مانند ادیبوں اور شاعروں کی شناخت قائم کرتا رہا۔
لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صورت حال کچھ یوں
بدلی کہ بقول چکبست
؎
زبان حال سے یہ لکھنؤکی خاک کہتی ہے
مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا
نیا دور کا جسے ہم عہد زریں کہیں اپنی ابتدا
یعنی علی جواد زیدی سے ڈاکٹروضاحت حسین رضوی کی ادارت تک کا زمانہ رہا۔ڈاکٹر وضاحت
رضوی کے بعد سہیل وحید نے اسے سنبھا لا۔ دیدہ زیب انداز میں اورباقاعدگی سے رسالہ قارئین
کو ملتا رہا۔انھوں نے بھی نیادور کی روایت کے مطابق مجتبیٰ حسین خصوصی نمبر شائع کیا۔جو
کافی پسند کیا گیا۔نیا دور کے معیار کو سید عاصم رضا نے بھی برقرار رکھا انھوں نے گورکھپور
نمبر ترتیب دیا تھا، جو چند وجوہات کی بنا پر شائع نہ ہو سکا۔نیا دورجس نے اپنے اولین
دور میں ہی اپنے زوال کی سازشوں پر دستخط ہوجانے تک کے سانحے کو دیکھا تھا اور پھر
اسی محکمے میں ہی اپنی بقا کی کاوشوں کو بھی سراہا اپنے آپ کو قائم رکھا تھا ان کے
بعد یہ رسالہ رو بہ زوال بھی ہوا کیونکہ عاصم رضاکی زیر ادارت اس کا آخری شمارہ اکتوبر
2019 میں منظر عام پر آیا پھر غزال ضیغم مدیر رہیں لیکن انھوں نے کوئی شمارہ شائع
نہیں کیا پھر انجم نقوی آئے جنھوں نے ملازمت
سے سبکدوش ہونے سے پہلے ایک شمارہ جو کہ نومبر2019 سے اکتوبر 2020 کا عام شمارہ تھا
نکالا۔ان کے بعد غزال ضیغم دوبارہ اس کی مدیر
بنائی گئیں لیکن ایک بھی شمارہ منظر عام پر نہیں آ یا۔
غزال ضیغم کے ریٹائر منٹ کے بعد ریحان عباس
کو مدیر کی ذمے داری دی گئی، نیا دور اب پھر جاری ہو چکا ہے موجودہ مدیر نے مشترکہ
شمارے کے طور پر خوبصورت شمارہ جاری کیا۔اسی طرح انھوں نے فکشن نمبر بھی شائع کیا اور
امید ہے کہ یہ رسالہ اپنی اسی آب و تاب کو برقرار رکھے گا اور پھر ادب کی معاصر آواز
بن کر افق ادب پر جھلملائے گا۔
Dr. Ishrat Naheer
Asst.
Professor, MANUU, Lucknow Campus
504/122, Tagor Marg, Near Shabab Market
Daliganj,
Lucknow - 226020 (UP)
Mob.:
9598987727
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں