زندگی ایک نامیاتی اور سیال حقیقت ہے۔ یہ ہر
لمحہ تغیر پذیر ہے۔ اس میں ٹھہراؤ نام کو نہیں۔ کائنات سے ہر لمحہ مختلف النوع لہریں
اٹھ اٹھ کر اس کا رخ بدلتی رہتی ہیں اور بسا اوقات اس میں بھونچال بھی لے آتی ہیں۔
انسان اپنی عقل وحکمت سے ان لہروں اور بھونچال کا سامنا کرنے کی کوششیں کرتا ہے مگر
کبھی کبھی اس کی ساری دور اندیشی اور منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ وہ قدرت
کے آگے بے بس اور مجبور محض بن جاتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے ؎
زندگی
ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ایسی ناگفتہ
بہ صورت حال کو آفات ارضی یا آفات سماوی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ وبا بھی ایک طرح
کی آفت ہے جس کے شکار بلا کسی امتیاز کے حاکم و محکوم اور امیر و غریب سب ہی ہوتے
ہیں۔
علما، صوفیہ اور اطبا نے اپنے اپنے طور پر وبائی
بیماریوں کی تشریح و تعبیر کی ہے اور احتیاطی تدبیریں بتائی ہیں۔ گھر کے اندر کی صفائی
ستھرائی، مخصوص غذا کا استعمال اور بعض چیزوں سے پرہیز یا چودہ دن کا قرنطینہ ان ہی
کے حصے ہیں۔ بعض علمائے اسلام نے اجتماعی مصائب اور وبا کے جلد خاتمے کے لیے اوقات
متعینہ کے علاوہ اذان دینے کو مستحب قرار دیا ہے۔ سائنسدانوں نے مادی وسائل سے کھوج
لگانے کی کوشش کی ہے کہ وبائی امراض کی وجہ کیا ہے؟ کون سا وائرس یا بیکٹیریا اسے سرعت
کے ساتھ پھیلاتا ہے؟ انسانی جسم کی قوت مدافعت اسے روکنے سے قاصر کیوں ہے؟ کس کیمیائی
مرکب سے اس کا زور توڑا جاسکتا ہے؟ اس کے اثرات ختم کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی کھوج بین
کے کچھ نتائج بھی سامنے آئے ہیں پھر بھی کچھ نکات اب تک مبہم ہیں۔ سائنس داں ان کا
حل تلاش کرنے میں مشغول ہیں۔
بہرحال عام طور پر اچانک پھیل جانے والی کسی
بیماری کی چپیٹ میں جب لوگوں کی بڑی تعداد آجاتی ہے تو اسے وبا کہا جاتا ہے۔ طاعون،
ہیضہ، چیچک، ٹائیفائڈ، ڈینگو، فلو، سوائین فلو، ایڈز اور کووڈ 19 سب کو اس زمرے میں
شامل کرلیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے کئی بیماریوں مثلا ہیضہ اور طاعون کی طویل تاریخ ہے اور سماجی تاریخ کے قدیم پنوں
میں وقفے وقفے سے ان کے پھیلنے، خوف و ہراس کا ماحول بنانے اور گاؤں کے گاؤں کو ویران
کردینے کا مفصل تذکرہ ملتا ہے۔ بعد میں دوسری بیماریاں بھی ان میں شامل ہوکر وبا کا
سلسلہ دراز کرتی گئیں۔
اجتماعی سطح پر پھیلنے والے ان سب امراض کے
لیے اردو میں ایک ہی لفظ ’وبا‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ ’ وبا‘ کی قسموں، ان کے دائرہ
کار اور اختصاصات کی زیادہ وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ اس ضمن میں انگریزی میں بہتر تصریحات
و توجیہات موجود ہیں۔ ’وبا‘ کو اس کے دائرہ اثر یا پھیلاؤ کے لحاظ سے Classify کیا گیا ہے اور الگ الگ نام دیے گئے ہیں۔
کسی مخصوص
علاقے یا موسم میں تیزی سے پھیلنے والی خاص بیماری کو علاقائی وبا (Endemic) کہتے ہیں جیسے ایک زمانے میں شہر کلکتہ کی خاص
بیماری ملیریا تھی جو عموما برسات کے بعد پھلتی تھی۔ اسی طرح ان دنوں ڈینگو دہلی کے
کئی علاقوں میں وبائی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
یہی اینڈیمک(Endemic) جب اپنے پنکھ زیادہ پسارتا ہے اور تیزی سے کسی
ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں کی بڑی آبادی کو متاثر کرتا ہے تو اسے ملکی وبا (Epidemic) کہتے ہیں۔ جیسے کئی برس قبل ایڈس کی وبا افریقہ کو گھیرے میں لیے ہوئے تھی۔
ان دونوں بیماریوں کے برعکس جب کوئی ملکی وبا
یعنی مختلف ملکوں اور براعظم میں پھیل کر بین الاقوامی صورت اختیار کر لے تو اسے عالمی
وبا قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ 2009 میں سوائین فلو ایک عالمی وبا کے طور
ابھرا تھا اور حالیہ برسوں میں کرونا وائرس یا کووڈ 19 عالمی وبا بن گیا ہے۔
جب تک کووڈ چین کے شہر ’ووہان‘ تک محدود تھا
تو علاقائی وبا (Endemic) تھا پھر
چین کے طول و عرض میں پھیلا تو ملکی وبا (Epidemic) بن گیا مگر اسے چین میں روکا نہیں جاسکا۔ مختلف
ملکوں کے لوگوں کے تجارتی سفر یا سیاحتی آمد و رفت کے سبب اس کے جراثیم چاروں طرف
پہنچ گئے اور ساری دنیا اس کی چپیٹ میں آگئی۔ سارے نظام کو درہم برہم کرتے ہوئے اور
لاکھوں لوگوں کو پلک جھپکتے ہی لقمہ اجل بنا تے ہوئے یہ ملکی وبا عالمی وبا میں بدل
گئی۔
یہاں یہ دہرانا لازمی معلوم ہوتا ہے کہ ادب
زندگی کا آئینہ، ترجمان اور ناقد ہوتا ہے۔ زندگی کی ساری جلوہ سامانیوں، رنگینیوں
اور پرفریب نظاروں کے ساتھ ساتھ اس کے کھرے، کھردرے، کریہہ اور ہولناک مناظر بھی ادب
کا مواد اور موضوع بنتے رہے ہیں۔ دوسری آفات سماوی و ارضی کی طرح وبائی امراض اور
اس کے تباہ کن اثرات کے تذکرے ادب میں ہوتے رہے ہیں۔ اردو ادب میں پرانی وباؤں یعنی
طاعون، بیضہ اور چیچک کی لرزہ خیزی کا بیان ناول، افسانہ اور شاعری میں ہلکے پھلکے طور پر ملتا ہے مثلا ڈپٹی نذیر احمد
کے ناول ’توبتہ النصوح‘ میں ہیضہ جیسے اینڈیمک پر اخلاقی دائرے میں کسی قدر گفتگو کی
گئی ہے۔ اسی طرح انتظار حسین کے ناول ’ بستی‘ کے ابتدائی حصے میں طاعون کے ایپیڈیمک
کا بیان ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے افسانہ ’ کوارنٹین‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں بیدی
نے وبائی حالات میں انسانی نفسیات کا بڑی باریکی سے جائزہ لیا ہے اور ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے کہ طاعون کے مریضوں کو جب کوارنٹین کیا جاتا ہے تو ان کے ذہن میں خوف و
دہشت کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ وہ ادھ مرے ہوجاتے ہیں۔ احساس تنہائی اور منفی خدشات
سے شدید نروس ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل اچھوتا پہلو ہے جسے بیدی نے اپنے افسانے
میں فنکارانہ سطح پر پیش کیا ہے۔
اردو شاعری میں بھی ضمنی طور پر کبھی کبھار
وباؤں پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ طاعون ایک پرانا وبائی مرض ہے اور ہندوستان میں
19 ویں صدی کے آخر میں بڑی آبادی اس کی زد میں آئی تھی۔ اکبر الہ آبادی اپنے مخصوص
انداز میں اس کا ذکر کرتے ہیں ؎
بچ رہے طاعون سے تو اہل غفلت بول اٹھے
اب تو مہلت ہے پھر اگلے سال دیکھا جائے گا
چیچک بھی ایک زمانے تک متحدہ ہندوستان میں وبائی
مرض (Epidemic) بنا رہا۔
گوگل پر کئی جید شاعروں کے شعر ملتے ہیں جن میں انسانی چہرے پر اس مرض کے منفی اثرات
کی عکاسی ہوئی ہے ؎
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
(میر)
داغ چیچک کے ہیں زیبا ذقن یار کے گرد
لطف رکھتا ہے لب چاہ چراغاں ہونا
(آتش)
تپ آئی تھی بچپن میں مجھے یاد ہے خوب
بن کے چیچک ہمہ تن آبلے تن پر نکلے
(امیر)
کلاسیکی عہد کی ایسی کوئی شعری تخلیق راقم الحروف
کی نظر سے نہیں گذری ہے جس میں مذکورہ وباؤں کی تباہکاریوں اور ہولناکیوں کا آنکھوں
دیکھا حال یا خیالی تصویر پیش کی گئی ہو۔ 20 ویں صدی میں وبائی چیچک کے سنگین نتائج
پر کئی افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ اس ضمن میں خواجہ احمد
عباس (بھولی)، بیدی (چیچک کے داغ)، مشتاق احمد نوری (وردان) وغیرہ کا ذکر کیا جاسکتا
ہے۔ اختر الایمان کی نظم ’کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام ‘ خاصے وسیع
اور گمبھیر معنوی تناظر کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں ذیلی طور پر یہ لائین ملتی ہے ؎
’چیچک کا ٹیکا بیماری
کو روکے رکھتا ہے۔ ‘
20ویں صدی کے اوائل میں
کلکتہ اور بنگال کے بعض علاقوں میں ایک ہلاکت خیز اینڈیمک ’سوکھیا‘ (Ricket) پھیلی تھی جس میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن
گئے تھے۔ کرشن چندر نے اپنے افسانے ’ ان داتا ‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے:
’’آج ہمارے سفارت خانے
کے باہر دو عورتوں کی لاشیں پائی گئی ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔ شاید
’ سوکھیا ‘ کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ادھر بنگال میں اور غالبا سارے ہندوستان میں
’ سوکھیا ‘ کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ اس عارضے میں انسان گھلتا جاتا ہے اور آخر میں
سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوکر مرجاتا ہے...
’سوکھیا‘ کی بیماری
کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ
میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں اور اب یہ بیماری ایک وبا
کی صورت اختیار کر گئی ہے۔‘‘
اردو کے علاوہ دوسری ہندوستانی اور غیر ملکی
زبانوں بالخصوص انگریزی اور فرانسیسی زبان
میں طاعون، ہیضہ اور ایڈز پر ادبیات موجود ہیں جن میں مریضوں کے دلخراش حالات اور آخری
لمحات کا جذباتی اظہار ملتا ہے۔ فرانسیسی مصنف البیر کامیو کا نوبل انعام یافتہ ناول
’طاعون‘ (1958) مترجمہ انیس ناگی(1993) اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ان موضوعات سے متعلق
چند نظموں کے اردو ترجمے بھی کیے گئے ہیں۔ ’ایڈز‘ پر اون شیرائبر کی نظم کا اردو ترجمہ
’ موت کی وادی‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے جو اس طرح ہے ؎
جون مرا نہیں ہے/وہ ابھی مرا نہیں ہے/لیکن
/وہ کبھی کبھار ہی ہوش میں آتا ہے/ اگر وہ مسکرا دے تو/ ہم کتنے خوش ہوتے ہیں/ جب
وہ چیختا ہے کہ گھر چلے جاؤ تو / ہم شکرگزار ہوتے ہیں کہ/ وہ بول سکتا ہے/ جب وہ انگلیاں
ہلاتا ہے تو/ ہم جان لیتے ہیں کہ/ ابھی اس میں جان باقی ہے/ کسی لمحے وہ بہتر لگتا
ہے کسی لمحے بدتر/ اب وہ زندگی کے اس مقام پر آگیا ہے جہاں / ہر دن،ہر گھنٹہ، ہر لمحہ
غیر یقینی ہوگیا ہے/ کون جانے کب / اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے! (ترجمہ خالد سہیل)
اردو کے قلمکاروں نے عموما ’ایڈز‘ جیسے کریہہ
مرض اور اس کے گھناؤنے اسباب پر خیال آرائی سے گریز کیا ہے۔
بہرکیف
حالیہ عالمی مہاماری کورونا وائرس (کووڈ 19)
کے دوران اردو کے قلمکاروں نے لاک ڈاون کا مثبت استعمال کیا ہے اور زیادہ باشعور
ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کووڈ کی تباہ کاریوں، نظام حیات کے بکھراو، سماجی اتھل پتھل،
انسانیت کے فقدان، لاک ڈاون اور قرنطینہ کی نفسیاتی اذیتوں پر خاص توجہ دی گئی۔ ناولوں،
افسانوں، انشائیوں، شاعری اور مضامین کا ایک نگار خانہ پیش کردیا ہے۔ نظموں اور منتخب
نگارشات کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے۔ شعری و نثری ادب پاروں میں سسکتے بلکتے مردوں
عورتوں اور بچوں کی بے بسی، خوف سے بھاگتے غریبوں، بھوکے مزدوروں کی بدحالی، تڑپتے
سسکتے لوگوں کی لاچاری، دوا اور آکسیجن کے لیے دوڑتے بھاگتے رشتے داروں، بے یار و
مددگار پڑے مریضوں، چوک چوراہوں پر آخری رسومات کی منتظر بے کفن لاشوں اور ندی نالوں
میں تیرتے مسخ شدہ جسموں کے دل دہلا دینے والے مناظر کی نہایت موثر عکاسی کی گئی ہے۔
اس طرح کے ادب کی تخلیق پچھلے دو برسوں یعنی 2020 اور 2021 میں ہوئی اور قارئین کے
ذہن و شعور میں اس کی گونج اب بھی موجود ہے۔ معروف فکشن نگار عبدالصمد نے اپنے ناول
’کشکول ‘ میں اس وبا کے ایک تاریک پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’ شہر خالی، کوچہ
خالی ‘ کا نام اور موضوع مشہور فارسی نظم سے مستعار ہے۔ یہ ناول کوویڈ سے شہروں میں
پھیلنے والی دہشت اور ویرانی کا عمدہ اشاریہ ہے۔اس پس منظر میں ناول نگار نے بڑی ہنرمندی
سے پرندوں کی چہچہاہٹ سے حیات کی امید جگائی ہے اور وبا کے منفی اثرات میں اثباتیت
کا پہلو نمایاں کیا ہے۔اس کے اختتامی حصے میں وبا میں مبتلا مریض کے نزدیک فاختہ کا پھدکنا زندگی کا ایک نفسیاتی پیغام دیتا
ہے۔
یہاں پروفیسر شاداب رضی مرحوم (شعبہ اردو، بھاگلپور
یونیورسٹی) کی نظم ’ کووڈ 19‘ کا ذکر بھی لازمی ہے۔ اس میں انھوں نے کوویڈ کی پراسرار وبا اور اس کے
جراثیم کے متعلق اپنے قیاسات اور جذبات کی بالکل منفرد اور موثر ترجمانی کی ہے ؎
ہلاکت خیز جرثومہ ’ کورونا‘/ زمیں زادوں کی
دانش کا کرشمہ ہے/ کہ اک قہر سماوی ہے/ بلائے بے دعا کہ اک وبائے بے مداوا ہے/کسی صورت
یقینی طور پر کہنا نہیں ممکن،/وجود اس کا ہو جیسے/ حل طلب کوئی معما / حقیر اتنا/ مثال
غیر مرئی نقطہ فرضی / نہ اس کی شکل و صورت،/ قد نہ قامت اور کوئی رنگت/ یہ ہے ذی روح
یا اس میں سرے سے جاں نہیں ہوتی / ابھی تک کچھ نہیں واضح / جسارت دیکھیے اس کی/ لیا
ہے پنگا اس نے اشرف المخلوق سے،/ جو ہے خود ہی خلیفہ بحروبر کا/ مگر اس پر بھی طاری
کر رکھا ہے / خوف مرگ اس نے،/ سراسیمہ سی ہے اب نوع انساں/ ساری دھرتی پر/ کہ جیسے
ساری دھرتی اک وطن ہو/ اور ساری قومیں اک شہری/ حریفانہ’کورونا‘ آدم و حوا کے بیٹوں
بیٹیوں کو / موت کی نیندیں سلاتا جارہا ہے/ نسل انسانی مٹاتا جارہا ہے / ہم گھروں میں
بیٹھے بیٹھے / شیخ سعدی کی دعا میں ہوں شریک / اک ذرا سے فرق سے/ کریما بہ بخشائے بر
حال ما / کہ ہستم اسیر کمند ’ وبا‘
ان ایام میں اردو ادب کا بڑا خسارہ ہوا، کئی
نامور ادیب و شاعر اس وبائی لہر کے شکار ہوگئے اور کئی قلمکاروں پر ماحول کی ہیبت ناکیوں
کے منفی اثرات مرتب ہوئے کہ وہ مختلف النوع ذہنی و قلبی الجھنوں اور بیماریوں میں مبتلا
ہونے لگے۔ پروفیسر شاداب رضی بھی غالبا ذہنی تناؤ کے سبب ہارٹ اٹیک سے ستمبر 2020 میں
ابدی نیند سو گئے۔ المیہ ہے کہ ان کی مذکورہ بالا نظم اسی سال ’آج کل' نئی دہلی، دسمبر
میں شائع ہوئی۔
اس تناظر میں معمر شاعر ضیا فاروقی کی نظم
’یا خدا رحم کر‘ دیکھیے۔ اس میں وبائی سانحات کا درد بھرے لہجے میں اثر انگیز اظہار
کیا گیا ہے ؎
کس کا ماتم کریں/ کس کو روئیں یہاں/ روز اک
حادثہ /روز اک سانحہ /کتنے اپنے گئے / کتنے پیارے گئے/ عشق والے گئے / حسن والے گئے/
کتنے عالم گئے / کتنے فاضل گئے/ کتنے شعر و ادب کے شناور گئے/ خانقاہ جنوں کے مجاور
گئے/ ہر طرف سنسنی/ ہرطرف بے بسی
کووڈ کی ہلاکت خیزی میں کمی آنے کے بعد کے
حالات کی بڑی اشاراتی ترجمانی ستیہ پال آنند نے اپنی نظم ’کرونا وائرس کے بعد‘ میں
کی ہے ؎
وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے/ دیکھتا ہے کہ دور
سے کوئی/ راہرو آئے اور وہ اس کو/ گھر میں مدعو کرے محبت سے/ بیٹھ کر گفتگو کرے اس
کو/ اس حقیقت کا کوئی علم نہیں؟/ شہر کی موت ہوچکی اور وہ/ اپنی کھڑکی سے جھانکنے والا/
اک اکیلا ہے ساری دنیا میں / نسل کا آخری نمائندہ!
مزید مثالوں سے اجتناب کرتے ہوئے یہ کہنا درست
ہوگا کہ کووڈ 19 کے دور میں ذاتی، معاشی، سماجی اور سیاسی حالات میں جو اتار چڑھاؤ
ہوا، انسانی چہروں کے جو خوشنما و بد نما رنگ
سامنے آئے، رشتوں کی پامالی کی جو بھیانک نظیر ملی، پرنٹ میڈیا سے دوری اور الیکٹرونک
میڈیا سے قربت کا جو رجحان ابھرا، وہ سب مل
ملا کر ایک طرف ہر سوچنے والے اور حساس آدمی کو جھنجوڑ رہا تھا، اسے ذہنی سطح پر کچوکے
لگا رہا تھا تاہم دوسری طرف نئے حربوں سے صارفیت بھی عروج پذیر ہورہی تھی۔صارفین کے
لیے نیا دروازہ کھولا جا رہا تھا اور آن لائن کاروبار کا فروغ ہورہا تھا۔ ان سب عوامل
کا ادبیات عالم پر گہرا اثر ہوا۔ بدلے ہوئے نظام حیات اور ماحول میں شعر و ادب کے لیے
نہ صرف وافر خام مواد فراہم ہوا اور موضوعات میں تازہ کاری ہوئی بلکہ نفسیاتی تجزیے کے نئے دروازے وا ہوئے۔
تخئیل کے تازہ کار زاویے ابھرے نیز ادبی اظہار و بیان کے جدید ابعاد اور امکانات پیدا
ہوئے۔
Prof. Rais Anwer
Maheshpatti
Rajtoli Lane
Darbhanga- 846004 (Bihar)
Cell: 7903767402 , 9471642697
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں