اردو ادب کی دیگر اصناف
کی طرح،اردو نظم میں بھی خواتین نے اپنی تخلیقی استعداد کی بنیاد پر قابل قدر اضافے
کیے اور یہ اضافے روایتی یا تقلیدی قسم کے نہیں ہیں بلکہ ان میں جہاں ایک طرف موضوع
کی بوقلمونی ہے وہیں دوسری طرف لب و لہجے کی رنگارنگی بھی ہے۔کبھی ان کی نظموں کے سبک
اور مدھم لہجے قارئین کو ایسے ماحول اور فضا سے متعارف کرواتے ہیں جن میں ایک قسم کی
کاٹ اور پوشیدہ طنز موجود ہوتا ہے، تو کبھی گرجدار آواز میں بالواسطہ تنبیہہ بھی کرتے
نظر آتے ہیں۔نظم نگار شاعرات کی نظموں میں مختلف رویوں کو برتنے کے نئے نئے انداز
دیکھنے کو ملتے ہیں،جن میں یکسانیت نہیں ہے۔ ابتدائی نظم نگار خواتین کے یہاں نسائی
معاملات اور معروضات کا بیان ایک احتجاجی منظر پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے جن میں عورتوں
کے مسائل ان کی بے بسی، مرد اساس معاشرے کے ذریعے کیے جانے والے بے جا ستم اور پابندیوں
کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ان کی نوعیت محض عورت اور مرد کے ظاہری احوال و کوائف
ہی نہیں ہیں بلکہ داخلی کیفیت کی ان زنجیروں کو بھی ہلایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے روح
کے رین بسیرے میں زنگ آلود پڑی تھیں۔ خواتین
شاعرات نے ان کیفیات کو لفظوں کا تخلیقی پیرایہ کمال ہنرمندی سے پہنایا ہے جس
سے جذبے کی شدت تو ظاہر ہوتی ہی ہے۔ساتھ ہی یہ تمام نظمیں قاری کی فکر کو بھی انگیز
کرتی چلی جاتی ہیں۔یہ خواتین اپنی نظموں میں مظلومیت، سماجی آلودگی، تشخص کی پامالی
اورپدرسری نظام کی نام نہاد ناموس کے بیان میں، جھنجھوڑنے والے سوال بھی قائم کرتی
ہیں۔ ہندوستانی نظم نگار خواتین میں شفیق فاطمہ، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، رفیعہ شبنم
عابدی، بلقیس ظفیرالحسن، شہناز نبی، شائستہ یوسف، نسیم نکہت،شبنم عشائی، فوزیہ فاروقی،
اسنی بدر،عاتکہ ماہین وغیرہ قابل ذکر ہیں جب کہ پاکستانی خواتین میں سارا شگفتہ، عذرا
عباس، کشور ناہید، تنویرانجم، فہمیدہ ریاض، اداجعفری، سدرہ سحر عمران، فاطمہ مہرووغیرہ
قابل ذکر ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دیگر تخلیق کار خواتین بھی نظم کو اپنا پیرایہ
اظہار بناکر خیالات و معاملات کو مختلف انداز سے پیش کرنے میں کوشاں ہیں۔
نظم میں بھی چند دیگر
اصناف کی طرح اظہاروبیان کے امکانات زیادہ ہیں۔حالانکہ یہ صنف اوزان کی پابندی سے آزاد،
خیال کی جس تہہ داری اور دبازت کا تقاضا کرتی ہے وہ آسان نہیں ہے،کیونکہ یہ محض لفظی
گورکھ دھندا نہیں،بلکہ فکروخیال کے معنوی عمق کا ایک ایسا کولاژ ہے جس میں مختلف رنگوں
اور تصویروں کے کٹ پیسٹ سے، حقیقت کا رخ پیش کیا جاتا ہے۔ ان عوامل کو ملحوظ رکھتے
ہوئے نظم نگار خواتین نے،مرکزی خیال کو اپنے فکر و احساس اور الفاظ کے تخلیقی استعمال
سے ایسی کہکشاں میں پرویا ہے جس سے اظہار وبیان کی کئی سطحیں سامنے آتی ہیں اور یہ
صنف بیان کی وسعت کے حوالے سے مزید زرخیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ یوں تو خواتین نظم نگاروں کے
یہاں عالمی سطح کے یکساں موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان موضوعات کوپیرایہ بیان
کی مختلف صورتوں اور لب و لہجے میں پیش کیاگیا ہے۔اس ضمن میں جن نظم نگار خواتین کی
نظموں کا جائزہ لیا جائے گا ان میں شبنم عشائی، شہناز نبی، اسنی بدر کو شامل کیا گیا
ہے۔ ان شاعرات نے اپنے تخلیقی تجربات کے پیش نظر، موضوعات کے دائرے کوبھی وسیع کیا
ہے۔ ساتھ ہی،نظم کی تشکیل میں، اس کے کرافٹ کے عمل میں بھی توسیع واقع ہوئی ہے۔ان کے
یہاں تخلیقی وفورمختلف صورتوں میں اجاگر ہوتا ہے۔
اسی اعتبار سے ان کی نظموں کو موضوعات کی سطح پر پرکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
شبنم عشائی کا شمار
اس عہد کی اہم نظم نگار خواتین میں ہوتا ہے۔ان کی نظموں کے کئی مجموعے منظرعام پرآکر
قبول خاص و عام کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔شبنم عشائی کی نظموں میں محبت کے معنی محدود
نہیں ہیں بلکہ وہ محبوب کے علاوہ بھی دیگر رشتوں میں محبت اور توجہ کی متمنی نظر آتی
ہیں جہاں قربت اور اپنے پن کی تلاش میں،ہجر اور تنہائی کی کیفیت کا بیان حاوی نظرآتا
ہے۔ان کی نظموں میں جذبات کی رنگانگی اور رشتوں کی اہمیت کا ذکر قوی ہے خواہ وہ محبوب
سے ہو یا باپ سے۔شکوے شکایت کے انداز سے دکھ
اور نارسائی کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔لیکن ان کی اکثر نظموں میں عورت اور مرد کا کردار
موجود ہے۔شبنم عشائی کے یہاں خیالات سراسر ذاتی نوعیت کے محسوس ہوتے ہیں جو خود سے
جڑی اشیا اور افراد سے لگاؤ کی خاطر اکثر کرب میں مبتلا نظر ٓاتی ہیں۔عورت کو اپنے
شوہرکی جانب سے کس نوعیت کے خدشات لاحق ہوتے ہیں،دوسری عورت کا غم،یاپھر مرد کی طرف
سے دی جانے والی اذیتیں خواہ وہ غصے کی شکل میں ہو یاعورت کے جذبات و احساسات کی ناقدری
کی صورت میں، تمام تر درد خیال کے بہاؤ میں پرودیے گئے ہیں۔ان کی نظموں میں وفا،امید،اعتبار،
وعدہ،دغا،جھوٹ،سچ،عزت،دکھاوا جیسے معاملات کی بنیاد پر وجود ی ٹوٹ پھوٹ کا عمل نمایا
ں ہے۔نظم ؎
شک وشبہ کی کھرونچوں سے
وفا کا چہرہ
برباد نہ کرو
وفا خدا کے صحن کا پھول ہے
تم نے ویرانوں میں
بے اعتباری کے ناخن
بہت بڑھائے ہیں
معلوم ہے
درد کی شبنم
ہر صبح
اعتبار کا مصلیٰ بچھاتی ہے
…ایک لمحہ
مقدس جی لو
وفا کا سجدہ کرلو
شبنم عشائی کی نظموں
کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کسی خیال میں محو،اپنے مخاطب سے کلام کررہا ہے،جس
میں مکالمے کی نوعیت یک طرفہ ہے۔ان کے یہاں عورت کا کردار مظلوم و مقہور کے طور پر
ابھرتا ہے، جو حالات کی ستم ظریفی سے نالاں،زندگی سے بے زار ہوچکی ہے۔جذبات واحساسات
کے متواتر کچلے جانے سے مایوسی کی کیفیت پائداری اختیار کرچکی ہے۔لیکن اس بے بسی اور
درد میں بھی وہ اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے،اپنا حق طلب کرنا جانتی ہے۔ جہاں کھوجانے
کا خوف ہر پل موجود ہے لیکن اس خوف میں ایک عزم اور پختگی کا جذبہ بھی کارفرما ہے۔اس
قسم کے حساس معاملات و معروضات کا بیان شبنم عشائی نے اپنی نظموں میں نہایت خوش اسلوبی
سے کیاہے، جس سے معنی کی گہرائی کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے ساتھ ہی نسائی شعورو فکر کے ان نازک گوشوں
تک بھی رسائی ہوتی ہے جو مجموعی طور پرعورت کی داخلی کیفیات کو منعکس کرتے ہیںان میں
بعض دفعہ سوال و جواب قائم کرنے کے مختلف انداز بھی ملتے ہیں۔ایک نہایت عمدہ نظم ملاحظہ
فرمائیں ؎
میں نے انگلی نہیں
من سونپا تھا
تم نے رشتہ
انگلی کو پہنایا
من کا سناٹا
انگلی کا ہاتھ پکڑے
پرچھائیاں چنتا ہے
آوازیں بجھنے پر بھی
من کیوں رشتے بنتا ہے؟
کیا تمھارے من کے ہاتھ نہیں
جو دل کے سناٹے
کھول دیں
شبنم عشائی کی نظموں
کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ عورت ہر مقام پر مفعولی حیثیت رکھنے کے باوجود مضبوط فاعل
کردار کے طور پرموجود رہتی ہے۔ اظہار وبیان کی نوعیت میں وہ ایک آبجیکٹ صورت میں اپنی
ذات کا اظہار کرتی ہے لیکن مرد معاشرے کی نظر میں خود کو ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے پیش
کرتی نظر آتی ہے۔
شہناز نبی کی نظمیں
بھی باشعورنسائی فکراور سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل ومعاملات کی حامل منفرد شاعری
کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ’اگلے پڑاؤ سے پہلے‘ اور’ پسِ دیوار گریہ‘ ان کی نظموں کے مجموعے
ہیں۔ ان کی بعض نظموں کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی آواز میں سماج کی آواز اور ان کی ترجیحات
کو بھی شامل کرتی دکھائی دیتی ہیں جس سے ان کے یہاں پیش کردہ مسائل ذاتی نہ ہوکر اجتماعی
بن جاتے ہیں۔تاریخی اور مذہبی واقعات سے استفادہ کرتے ہوئے خیال کو،موجودہ صورت حال
کے تناظر میں پیش کرنے نیز عورت کے تئیں پسماندہ خیالات رکھنے والوں پر طنز کا رویہ
بھی ان کے یہاں ملتا ہے اس ضمن میں نظم ’حسینؓ! تومی کوتھائے‘ اور ’تاریخ کے مردہ خانے
سے‘ اہم ہیں۔ جن میں بیان کو استعاراتی طرز پرتشکیل دیا ہے۔ ان کے یہاں عورت روتی بسورتی،کم
ہمت اور لاچار نہیں ہے بلکہ باہمت اور پرعزم
ہے۔ ان کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ہے جن میں خودآگاہی کا عمل نمایاں ہے۔ دو نظریوں
کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نے اپنے پیچھے جس بھائی چارہ، رواداری،اخوت ومحبت جیسے انسانی
عناصر کو خیرآباد کہہ دیا تھا جہاں لکیر نے صرف سرحد ہی نہیں بنائی بلکہ دلوں میں
بھی لکیریں کھینچ دیں،اس کو حوالہ بناتے ہوئے شہناز بنی نے کمال فنی ہنرمندی سے خیالات
کو تشکیل دیا ہے جس میں آپسی برابری کو اہمیت دی ہے۔ ان کی نظم ’پاپ‘ اس ضمن میں قابلِ
تحسین ہے۔ نظم اس طرح ہے ؎
برا نہ مانو
نمازیں اب بھی یہیں پڑی ہیں
یہ سجدہ گاہیں اٹھا کے جانے کدھر چلے تھے
وہ صبح تم کو بھی یاد ہوگی
الگ تھے گھراور علیحدہ چولہے
تمھارے پرچم کا رنگ الگ تھا
وطن تمھارا نیا نیا تھا
سبھی تو بانٹا تھا آدھا آدھا
مگر پڑی ہے وہاں پہ اب تک
ہماری رادھا کی ایک پائل
ہمارے کرشنا کی ایک بنسی
پہ ہیر کیسے اٹھا کے دے دیں
کہاں سے لائیں تمہارا رانجھا
اس کا آخری حصہ یوں ہے ؎
جنھیں تھا سودوزیاں سے مطلب
وہ کاروبارِ جہاں سے رخصت
یہ آگ اب بھی بھڑک رہی ہے
چلو بزرگوں کا پاپ دھوئیں
ہمارے مندر سنبھالو تم سب
تمھاری مسجد کے ہم نگہباں
ان کی نظموں کا لب
و لہجہ کرخت اور تلخ آمیز ہے جو ہر مسئلے پر آواز اٹھاتا ہے۔ نظموں میں لفظیات کا
انتخاب خوب ہے جو نظم کوپیچیدہ بنانے کے ساتھ اس میں زور پیدا کرتا ہے۔ان کی اکثروبیشتر
نظموں میں ابہام ہے۔ لیکن یہ ابہام نظم کو معمہ نہیں بناتا البتہ یہ کہا جاسکتا ہے
کہ بعض نظموں کی کئی قرأت کے بعد ہی اس کی معنوی جہات آشکارہوپاتی ہیں۔
اسنی بدر(1971) کی
نظموں کا مجموعہ ــ ـ ’منظرنامہ
‘ کے عنوان سے شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔اسنی بدر کی نظموں میں خانگی اورمعاشرتی
زندگی کے معاملات کا بیان، ایک اجتماعی ثقافتی تجربے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ان کی
نظموں میں وہ کیسی عورتیں تھیں، مارہرہ، ہم ایسے قصبے والے تھے، خواب نگر، بہت جی چاہتا
ہے،اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔بچپن کی وہ یادیں جنھیں ہم سب اکثر کسی نہ کسی حوالے سے یاد
کرتے ہیں ان کے یہاں تصویروں کی شکل میں ڈھل
گئی ہیں۔ایسی تصویریں جو پل بھر میں ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہیں۔ان کی نظم ’سب
بھول گئی ہوںمیں‘ میں فراموشی کی جس متضاد
کیفیت کو پیش کیا ہے وہ کسی دوسری شاعرہ کے یہاں نہیں ملتی۔ بھول جانے کا یہ عمل، دراصل
سماج کو گذشتہ طرزحیات، یاد دلانے کی ایک کوشش محسوس ہوتا ہے جس میں جدید طرز زندگی
کو اپنا کر،ہم قدیم معمولاتِ زیست کی سحرآفرینیوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں، جو حقیقت
میں خواب بن کر رہ گئیں ہیں۔نظم یوں ہے
؎
کچھ یاد نہیں مجھ کو
سب بھول گئی ہوں میں
دل جیسا کھلا آنگن
گرتے ہیں جہاں جامن
ہر اینٹ میں ایک درپن
وہ میرا رخ روشن
کچھ یاد نہیں مجھ کو
سب بھول گئی ہوں میں
اس نظم کا آخری حصہ پوری نظم کی معنوی سطح
کو اجاگر کردیتا ہے کہ ؎
اے بادِ صبا جاؤ
مجھ کو نہ یوں چونکاؤ
میں نیند سے بے پرواہ
تم خواب نہ دکھلاؤ
کچھ یاد نہیں مجھ کو
سب بھول گئی ہوں میں
اس میں نیند سے بے پرواہ، خواب نہ دکھلانا،یاد نہیں ہونا،بھول جانا،یہ تمام تراکیب خیال کی فکری جہت کے ایسے متضاد تصورات کی بازیابی کا عمل بھی ہیں جو ہماری اجتماعی سائکی کا حصہ ہیں۔ ہمیں نیند اس وقت نہیں آتی ہے جب ہم کسی بات یا کسی چیز کو یاد کررہے ہوتے ہیں اور یہاں نیند سے بے پرواہی کا عمل،مسلسل یادیں ہیں، لیکن پھر یہ کہنا کہ کچھ یاد نہیں مجھ کو،اسنی بدر کے تخلیقی وفور کو پیش کرتا ہے۔یہاں لفظ خواب کا تخلیقی استعمال کمال خوبی سے کیا گیا ہے۔ ظاہرہے نیند نہ آنے کی صورت میں خواب بھی کوسوں دور ہوتے ہیں لیکن یہاں ـخواب سے مراد،وہی گزرے ہوئے واقعات ہیں،جن کو متکلم نے پوری نظم میں یادکیا ہے۔جس کو وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔اور اب ان کی حیثیت محض خواب کی ہے۔اسنی بدر کی نظمیں بظاہر گزرے ہوئے واقعات کا منظرنامہ معلوم ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ تہذیب وثقافت کا وہ سرمایہ ہیں جہاں سماجی اقدار پروان چڑھتی تھیں،جہاں رشتوں کی اہمیت کا احساس جاگزیں تھا،جہاں سیکھنے کا عمل ہرگام پر جاری رہتا تھا۔ دراصل یہ نظمیں تفریح گاہ نہیں بلکہ ماضی کا نوحہ ہیں۔ایسا ماضی جس سے ہم مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔قرابت داریاں ختم ہوچکی ہیں،سب اپنے خول میں بند ہیں۔جدید طرززندگی نے جن مصنوعی ترجیحات کو ہماری ذات کا حصہ بنادیا ہے،یہ نظمیں بالواسطہ اس پر ضرب کاری کرتی نظرآتی ہیں۔نظم خواب نگر ملاحظہ ہو ؎
جب چہرے پر شادابی تھی
کرنوں کی آنکھ گلابی تھی
جب لُو اور دھوپ میں پھرتے تھے
املی کے بوٹے گرتے تھے
چوٹی بندھ کر کھل جاتی تھی
امی کے ہاتھ نہ آتی تھی
چھجے پر چڑیا رہتی تھی
اور جمنا پاس ہی بہتی تھی
دورے سے ہنسی کے پڑتے تھے
غم سے مل جل کر لڑتے تھے
وہ وقت بڑا البیلا تھا
سب ساتھ تھے کون اکیلا تھا
اور نظم کا آخری حصہ ؎
یادوں کے وطن سوبار گئے
بوجھل لوٹے، لاچار گئے.
سب ساتھی پربت پار گئے
اس دوڑ میں ہم سب ہار گئے
اسنی بدر کے یہاں ماں
کا کردرا بھی جا بجا ملتا ہے اس کے علاوہ عورت کے حوالے سے بھی نظمیں کہی ہیں۔ عورت
کے تئیں جو رویہ ان کی نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ کہ عورت مرد کی خوشنودی کے
لیے بہت سے کام کرتی ہے،وہ باورچی خانے سے جڑی ہوتی ہے اور ایک مرد کے لیے خودکو سجاتی
سنوارتی ہے۔لیکن اس کے دل کے نہاںخانوں میں چھپی خواہشیں،مرد کو سمجھ میں نہیں آتیں
اور آخر کار وہ سوال کر بیٹھتی ہے۔نظم ’تمھیں کیا چاہیے‘‘ ملاحظہ
ہو ؎
نعمتوں سے سجی ہوئی میز
خوشبوؤں میں بسا سنگھاردان
لذتوں سے مہکتا ہوا باورچی خانہ
رنگوں سے ڈھکی ہوئی الماری
موجودگی سے بولتا ہوا کمرہ
آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھیں...
تمھیں کیا چاہیے؟
بولو
تمھیں کیا چاہیے؟
مذکورہ نظم کا یہ جملہـ’آنسوؤں
سے بھری ہوئی آنکھیں‘ اپنے اندر بے انتہا کرب لیے ہوئے ایک ایسا سوال ہے، جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ عورت مرد کی ہر خواہش پوری کرنے
کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے یہ سوال بھی جس میں
جواب ازخود موجود ہے، مرد کی روایتی ترجیحات میں شامل نظرآتا ہے، جس میں عورت کے احساسات وکیفیات سے صرف نظر
کرنے کا رویہ واضح ہے۔نظم ’عجلت‘ اور’ میرا خط‘ میں خارجی رویوں اور داخلی کیفیات کا
بیان کہیں بے بسی لیے ہوئے ہے تو کہیںاس میں انکشافِ ذات کاعمل نمایا ں ہے۔ اسنی بدر
کی نظموں کا لہجہ، احتجاجی اورانداز بلند بانگ نہیں ہے۔ایک بہاؤ کی کیفیت ہے۔ نیزسبک
اور نرم لہجے میں بھی، ترسیل کا عمل قوی معلوم ہوتا ہے اور ان کی نظموں کی فکری جہات
قاری پر آشکار ہوجاتی ہیں۔
موجودہ تانیثی شاعری میں ہندوستانی نظم نگار خواتین نے فکروخیال کو جن معنوی جہات پر تشکیل دیا ہے گرچہ وہ اردو ادب میں بہت نئے نہیں،مگرنسائی حوالے کے طور پر اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے محض تانیثی معاملات کو ہی اپنا محور ومرکز نہیں بنایا۔بلکہ دیگر مضامین و معاملات کو جس عدسے سے دنیا کو دیکھنے اور دکھانے کی جہد ان کی نظموں میں ملتی ہے اس کو نسائی نقطہ نظر کے وسیع فہم کی ایک صورت پر محمول کیا جا سکتا ہے جس میں تعبیر کے کئی پہلو پوشیدہ نظر آتے ہیں۔ مذکورہ نظموں کے مطالعے کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خیال کے تخلیقی استعمال اور اس کے بنیادی سروکار کو نظموںمیں جن پیرایوں سے ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اور فکری گہرائی سے، معنوی تعمق کی جو فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس حوالے سے تجربات کے مزید امکانات نظرآتے ہیں جو مایوس کن نہیں ہیں۔
Safeena Begum
Flat No.: 407, Tower B-17
Supertch Ecovillage-1
Greater Noida - 201306 (UP)
Mob.: 8171986935
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں