10/10/23

’خواب باقی ہیں‘ ایک تجزیاتی مطالعہ:سید وضاحت مظہر

 

انسائیکلو پیڈیا برٹا نِکا کے مطابق ’’سوانح نگاری کسی انسانی روح کی مہمات حیات کی ہو بہو تصویر ہے۔‘‘  اردو زبان میں اس صنف ادب کا چلن انگریزی ادب  کے توسط سے عام ہوا۔ حالی، سر سید احمد خا ں، شبلی، فرحت اللہ بیگ اور رشید احمد  صدیقی نے جدید معنوں میںسوانح نگاری  کے فن کو پروان چڑھایا۔سوانحی ادب میں اصطلاح خود نوشت سوانح عمری کا استعمال 1809میںشروع ہوا۔  فرہنگِ آصفیہ میں خود نوشت سوانح کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :’’سوانح عمری،اسم مذکر،سر گزشت کسی شخص کی زندگی کا حال،تذکرہ،کسی عالِم خواہ فاضل خواہ بڑے بڑے کام کرنے والے یا بہادر یا حاکم کے وہ واقعات جو اس کی عمر میں گزرے ہیں۔‘‘

وہاج الدین علوی نے اپنی کتاب ’’اردو میں خودنوشت سوانح :فن و تجزیہ‘‘میں خودنوشت سوانح نگاری کی مبسوط تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے لوازمات کی نشاندہی بھی کی ہے۔وہ لکھتے ہیں‘‘:

  1.      خودنوشت کسی فرد ِ واحد کی داستان ہوتی ہے جسے اُس نے خود اپنے قلم سے تحریر کیا ہو۔
  2.      خودنوشت سوانح نگاری کا محور مصنف کی ذات ہوتی ہے، دوسرے اشخاص یا واقعات کا ذکر محض ذیلی و ضمنی طور پر ہوتا ہے۔
  3.      خودنوشت سوانح میں سچائی کا عنصر ہوتا ہے۔
  4.      خودنوشت میں اُس فردِ واحد کے تجربات، مشاہدات اور جذبات کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے اور اُس کی نفسیاتی کیفیات کا پرتَو بھی دکھائی دیتا ہے۔
  5.  خودنوشت سوانح زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے۔ یعنی اِس میں صاحب ِ سوانح کی اپنی زندگی کے ہر دور کے نمائندہ واقعات ہوتے ہیں۔ اُس کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے نیز اُس کے عروج و زوال اور نشاط و غم کی داستان ہوتی ہے۔
  6.   خودنوشت کا فن ایک انتخابی فن ہے۔زندگی کے عریض و بسیط تجربات سے اہم اورنمائندہ نیز نتیجہ خیز واقعات کا انتخاب کر کے انھیں ایک تخلیقی مرقع میں سجایا جاتا ہے۔

(وہاج الدین علوی، اردو میں خودنوشت سوانح : فن و تجزیہ،مکتبہ جامعہ لمِٹیڈ،دہلی،1989، ص41 40-)

 خودنوشت سوانح نگار کے یہاںاپنے معاشرے کے مسائل سے واقفیت لازمی خصوصیات میں شامل ہے۔ اپنے معاشرے اور سماج سے مصنف کی گہری وابستگی اور اپنے ماحو ل اور زمانے سے اس کی آگہی اس کے قلم میں جھلکتی ہے اور وہ اپنے دور کی تہذیب و تمدن کی تصویر کشی کے ذریعے اپنی عصری آگہی کا ثبوت دیتا ہے کیونکہ مصنف اپنے عہد کے حالات و واقعات سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی تحریر کے توسط سے اس کا جابجااظہار کرتا ہے۔

اردو میں ابتدا ہی سے خود نوشت نگاروں نے اس ضمن میں گہرے عصری شعور کا ثبوت دیا اور یہ سلسلہ عصرِ حاضر میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔عصری آگہی کے تحت لکھی گئی اردو خود نوشتوں کی بہترین مثالیں مولانا جعفر تھانیسری کی خود نوشت’ کالا پانی‘،سید ظہیر الدین دہلوی کی خودنوشت’داستانِ غدر‘،نواب سلطان جہاں بیگم کی خودنوشت ’تُزکِ سلطانی‘خواجہ حسن نظامی کی خودنوشت ’آپ بیتی‘، سر سید رضا علی کی خود نوشت ’اعمال نامہ‘ سردار دیوان سنگھ مفتون کی خود نوشت ’ناقابلِ فراموش‘، ملّا واحدی کی خود نوشت ’میرے زمانے کی دلّی‘، عبد الماجد دریا بادی کی خود نوشت ’آپ بیتی‘، زہرا دائودی کی خود نوشت ’گرداب کی شناوری‘، قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت ’شہاب نامہ‘، گوپال متّل کی خود نوشت ’لاہور کا جو ذکر کیا‘، پروفیسر کلیم الدین احمد کی خود نوشت ’اپنی تلاش میں‘، مشتاق احمد یوسفی کی خود نوشت ’زر گزشت‘، وارث کرمانی کی خود نوشت ’گھومتی ندی‘، کشور ناہید کی خود نوشت ’بری عورت کی کتھا‘ رام لعل کی خود نوشت ’کوچۂ قاتل‘، رفعت سروش کی خود نوشت’بمبئی کی بزم آرائیاں‘ وغیرہ ہیں۔

اگر کسی مصنف کی زندگی کا بیشتر حصہ ادبی کاموں میں گزرا ہو تو جا بجا وہ ادبی مسائل کو حل کرتے ہوئے ہمعصر ادیبوں اور شاعروں سے اپنے باہمی رشتوں اور ادبی نوعیت کی معرکہ آرائیوں کا بھی ذکر کر سکتا ہے اور درجہ بندی کے لحاظ سے ایسی خود نوشت سوانح حیات ’ادبی خودنوشت سوانح عمری‘کہی جا سکتی ہے۔ اردو میں ادبی خودنوشت سوانح عمریوں کی بہترین مثالیں جگر  بریلوی کی کتاب ’حدیثِ خودی‘، پروفیسر اعجاز حسین کی ’میری دنیا‘، جوش ملیح آبادی کی ’یادوں کی برات‘، ڈاکٹر کلیم الدین احمد کی ’اپنی تلاش میں‘، رشید احمد صدیقی کی ’آپ بیتی‘، عبدالماجد دریابادی کی ’آپ بیتی‘، مرزا ادیب کی ’مٹی کا دیا ‘، قرۃ العین حیدر کی ’کارِ جہاں دراز ہے‘ اور پروفیسرآل احمد سرور کی ’خواب باقی ہیں‘تسلیم کی جاتی ہیں۔

جگر بریلوی کی خود نوشت ’حدیثِ خودی‘ 1959 میں شائع ہوئی۔ جگر بریلوی کی شاعری اور شخصیت درمیانی درجے کی مانی جاتی ہے۔ مگر انھوں نے اپنی خود نوشت میں اپنے داخلی اور خارجی رجحانات کو بخوبی پیش کیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے احساسات اور کیفیات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کا بھی خود تجزیہ کیا ہے۔خود نوشت ’میری دنیا‘ میںپروفیسر اعجاز حسین نے اپنے ذاتی حالات کے ساتھ میدانِ ادب میں اپنے کارہائے نمایاں کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔یہ آپ بیتی انھوں نے اپنے شاگردوں کے نام معنون کی ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اپنے شاگردوں سے ان کا گہرا لگائو تھا۔آپ بیتی’یادوں کی دنیا‘ میں ڈاکٹر یوسف خاں نے اپنے ادبی اور سیاسی تجربات و مشاہدات کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو قلمبند کرنے کے ساتھ اپنے ادبی کاموں کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے اہم سیاسی واقعات کو بھی ضبطِ تحریر کیا ہے۔ ’یادوں کی برات ‘میں شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی نے اپنی نجی اور ادبی زندگی کی کشمکش اورسیاسی حالات کے علاوہ اپنی شاعری اور مختلف اصنافِ ادب پر اپنے افکار پیش کیے ہیں۔ انھوں نے اس آپ بیتی میں بڑی راست گوئی سے کام لیا ہے۔اپنی شخصیت کے اچھے پہلوئوں کے ساتھ اپنی خامیوں کو بھی بلا کم و کاست قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔اردو زبان و ادب میں جوش کی خود نوشت سوانح عمری ’یادوں کی برات‘کا اہم اور مستقل مقام ہے۔ ڈاکٹر کلیم الدین احمد کی آپ بیتی ’اپنی تلاش میں‘ کا مطالعہ کرنے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ جتنے کامیاب ناقد رہے ہیں اتنے کامیاب خودنوشت نگار نہیں تھے۔ان کی آپ بیتی میں عجیب انتشار جھلکتا ہے۔ انھوں نے جابجا غیر ضروری واقعات قلمبند کیے ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی ایک نظم کو بھی اس میں شامل کیا ہے جس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ان تمام خامیوں کے باوجود یہ آپ بیتی مصنف کی ادبی زندگی کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ضرور کرتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کی تصنیف’آپ بیتی‘در اصل ڈاکٹر سید معین الرحمٰن نے مصنف کے خود نوشت سوانحی عناصر پر مبنی مضامین اور کتابوں سے اخذ کرکے ترتیب دی ہے۔ مرتب نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔اس مرتبہ خود نوشت سوانح حیات میں رشید احمد صدیقی کی زندگی کی بھر پور عکاسی ہوئی ہے۔عبد الماجد دریا بادی کی خود نوشت سوانح حیات کا عنوان بھی ’آپ بیتی‘ ہی ہے۔عبد الماجد دریا بادی ایک بڑے ادیب، صحافی اور مفسرِ قرآن تھے۔ انھوں نے اپنی آپ بیتی میں زندگی کے تما م اہم پہلوئوں کو دیانتداری اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس کتاب کا بنیادی عنصر اس کا اسلوب اوراس میں پائی جانے والی ادبیت ہے۔ان کی شخصیت ہی کی طرح ان کا اندازِ بیان بھی سچا،پاکیزہ اور شائستہ ہے۔اس خودنوشت سوانح حیات کا شمار اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں کیا جاتا ہے۔’مٹی کا دیا‘ مرزا ادیب کی خود نوشت ہے۔ یہاں مرزا ادیب نے اپنی خانگی اور ادبی زندگی کو بڑی صاف گوئی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کاا سلوب صاف ستھرا اوراچھوتا ہے۔ اس میں انھوں نے بچوں کی نفسیات کے نقطۂ نظر کو اپنایا ہے۔سیکڑوں صفحات پر مبنی قرۃ العین حیدر کی آپ بیتی ’کارِ جہاں دراز ہے‘کا اردو زبان و ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے حسب و نسب، عزیزو اقارب اور اسلاف کا بڑا تفصیلی خاکہ پیش کیا ہے۔ اس آپ بیتی میں مصنفہ نے اپنی زندگی کے داخلی اور خارجی پہلوئوں کو بھی فنی چابکدستی کے ساتھ بیان کیا ہے۔آپ بیتی کا بنیادی اسلوب افسانوی ہے۔اپنے اسلوب کی بنا پر اسے سوانحی ناول کے قریب تر مانا جاتا ہے۔ بیشک ’کارِ جہاں دراز ہے‘ مصنفہ کا ایک بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ یہ سب آپ بیتیاں ادبی خود نوشت سوانح عمریوں کے زمرے میں آتی ہیں۔

 ہر خودنوشت نگار خود نوشت سوانح عمری تحریر کرنے سے پہلے ہی سے اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اسے اس فن کے تقاضے کے تحت صداقت و دیانتداری سے کام لینا چاہیے، کیونکہ وہ خود ہی تصنیف کا ہیرو بھی ہوتا ہے اور راوی بھی تو اپنے آپ سے محبت اور سماج کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ بعض سچائیوں پر نقاب ڈال دے اور بعض حقائق کی ہو بہو تصویرکشی کے بجائے ایک متوازی تخیلی، تخلیقی پیکر تراشی کا مرتکب بنے جو دلچسپ بھی ہو اور اس کے خیالات و افکار کی توضیح و ترجمانی بھی کرتی ہو۔یہ متوازی پیکر تراشی یقینا اصل زندگی سے کسی حد تک جدا ہوتی ہے اور آپ بیتی کو صداقت و دیانتداری کے میزان پر کھرا نہیں اترنے دیتی ہے۔ لہٰذا،اکثر خود نوشت نگار اپنے ظاہر ی و باطنی حقائق کو پیش کرتے وقت سچائی و صداقت پر مبنی اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ شہرت طلبی کا جذبہ معمولی صلاحیت کے ادیبوں اور مصنفوں کو خود نوشت نگاری کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ہر کوئی ادیب و شاعر ایک  عدد خود نوشت لکھ کر اپنی شخصیت سازی کی تگ و دَو میں مبتلا ہو جاتا ہے اور صنفِ ادب کو اپنا تختۂ مشق بنانے پر آمادہ ہو نے لگتا ہے۔  اسی صورتِ حال نے شورش کاشمیری کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’بین الاقوامی ادب سے قطع نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔ ‘‘ شورش کاشمیری سے پہلے گوئیٹے نے اپنی زندگی کی روداد کو ’شاعری اور سچائی کا مرکب‘قرار دیا تھا۔غالباََ لفظ ’شاعری‘کا استعمال شورش کاشمیری اور گوئیٹے دونوں نے اندازِ بیان کے معنوں میں کیا ہے۔اسلوبِ بیان اور طرزِ نگارش میں دونوں میں تخلیقیت اور کشش تو مصنف حسبِ توفیق اور حسبِ صلاحیت  فطرتاً شامل کرے گا ہی، طرزِ نگارش کی انفرادیت کا کوئی بھی اہلِ نظر معترض کیوں کر ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر مظہر مہدی حسین خود نوشت نگاری کو مصنف کی ظاہری و باطنی زندگی کی کشمکش کی تخلیقی اظہار کا وسیلہ قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حقیقت و تخیل کی آمیزش ہی سے خود نوشت سوانح حیات موردِ وجود میں آتی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں :

’’خودنوشت سوانح میں مصنف کی شخصیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس کی زندگی کے وہ مختلف واقعات جو اس کی ظاہری اور باطنی زندگی کے درمیان کشمکش کا باعث ہوتے ہیں، اس کا موضوع ہوتے ہیں اور جن کا تخلیقی اظہار کرکے جن میں حقیقت اور تخیل دونوں کی آمیزش ہوتی ہے،مصنف خود کو ہلکا پھُلکا محسوس کرتا ہے۔‘‘

(ڈاکٹر مظہر مہدی حسین،مشمولہ،’بیسویں صدی میں اردو ادب‘دہلی، ساہتیہ اکادمی 2002ص335-336)

آل احمد سرور نے اپنی خود نوشت ’خواب باقی ہیں‘ کے دیباچے میں اس صنفِ ادب کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے :

’’خود نوشت سوانح عمری کا فن چونکہ محض نظارے نہیں، نظر کا بھی فن ہے۔ اس لیے سائنسی صحت اور واقعیت کے بجائے ایک مخصوص زاویۂ نگاہ کی اہمیت شاید یہاں زیادہ ہے۔ خو دنوشت تاریخ نہیں ہے مگر اس میں تاریخی حقائق ضروری ہیں۔ یہ واقعات کا خشک بیان بھی نہیں ہے۔ ان واقعات کے ساتھ جو کیفیات وابستہ ہیں ان کی داستان بھی ہے۔‘‘

(خواب باقی ہیں، آل احمد سرور،فکشن ہائوس،لاہور،1994،ص3)

پروفیسر گیان چند جین کا مقولہ ہے کہ آپ بیتی لکھنا تلوار کی دھار پر چلنے کے برابر ہے۔ سوانح  عمری بیانیہ صنف ہے جو تاریخ کی طرح مکمل غیر جانب داری اور صحت مانگتی ہے۔  انھوں نے بالکل درست فرمایا تھا کہ ’’خود نوشت سوانح لکھنا بڑے آدمیوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ ’خواب باقی ہیں‘  کوپڑھ کرپہلا  تأثریہی ہوتا ہے کہ ایک بڑے آدمی کی سوانح ہے جو اپنے زمرے میں بالیقین ممتاز ہے۔‘‘  یقینا  ــ’’خواب باقی ہیں ‘‘  ہر لحاظ سے اردو زبان و ادب کے ایک بڑے آدمی کی سوانح حیات ہے، جس کی شخصیت اور فن کی تحریکی و ترغیبی اہمیت مسلم ہے۔

پروفیسر آل احمد سرورکا شمار ملک کے ممتاز و معتبر ادیبوں، نقادوں اور شاعروں میں کیا جاتا ہے۔اردو ادب کیٍ تاریخ میں وہ ادبی تنقید کے حوالے سے اپنی خصوصی پہچان رکھتے ہیں۔ آل احمد سرور1911میں بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال 9فروری2002میں ہوا۔انہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ(1974) اور پدم بھوشن (1991)  سے نوازا گیا۔ ان کے آبا و اجداد مصر کے فرشور نامی قصبے سے ہندوستان آئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے۔ والد کے مختلف مقامات پر تبادلے ہوتے رہتے تھے۔لہٰذا وہ زمانۂ طالبِ علمی میں سیتا پور، بجنور،گونڈہ، غازی پور اور آگرہ وغیرہ میں رہے۔اس طرح ان کی تعلیم مختلف شہروں میں ہوئی۔انھوں نے آگرہ کے سینٹ جونسن کالج سے سائنسی مضامین سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہیں 1934میں لیکچرر کے منصب پر فائز ہو گئے۔آل احمد سرور کی آپ بیتی ’خواب باقی ہیں‘ 1990میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس میں حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔اس خودنوشت میں انھوں نے مختلف ممالک کے دوروں کا بھی ذکر کیا ہے۔اس آپ بیتی میں انھوںنے مولانا ابو الکلام آزاد،رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور احتشام حسین جیسی شخصیات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اگرچہ کہ آل احمد سرور ایک منفرد طرزِ تحریر کے مالک تھے۔مگر اس آپ بیتی میں اکثر جگہ ربط و تسلسل کا فقدان پایا جاتا ہے۔ آل احمد سرور کی ریاستِ رامپور سے بھی گہری وابستگی رہی تھی۔ انھوں نے وہاں رضا انٹر کالج میں پرنسپل کے طور پر کام کیا تھا۔یہاں ان کے خواجہ غلام السیدین،کرنل بشیر حسین زیدی،مولانا امتیاز علی عرشی، وجد علی خاں رشک، مولوی عبد السلام،کرنل عطا الرحمن اور بیگم قدسیہ زیدی سے گہرے روابط رہے۔ وہ رامپور کے لوگوں کی سرشت سے متعلق بڑے دلچسپ کلمات تحریر کرتے ہیں :

’’رام پور کے پٹھان بڑے مخلص ہوتے ہیں۔میرا قیام رامپور میں بہت مختصر رہا۔مگر وہاں میری بڑی پذیرائی ہوئی۔یہ لوگ خلوص کی بڑی قدر کرتے ہیں۔مزاج میں کچھ اکھڑ پن ہے مگر بڑی محبت کرنے والے،بڑے مہمان نواز،بڑے دل والے لوگ ہیں۔بدقسمتی سے یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔شہر سے باہر ایک چھوٹا سا طبقہ جدید خیالات والوں کا تھا۔ان لوگوں کے یہاں پردے کا رواج نہ تھا مگر شہر میں وہی پرانا ڈھرا تھا۔ عورتوں کی تعلیم کی طرف حکومت نے توجہ کی تھی مگر عورتوں میں شرح خواندگی خاصی کم تھی۔زیدی صاحب نے رام پور کی شکل دی تھی۔ اسٹیشن کے سامنے کا علاقہ بڑا خوبصورت تھا۔بڑی سڑکیں کشادہ اور ہموار تھیں۔شہر میں یہ بات نہ تھی۔زندگی کا محور نواب صاحب اور ان کا دربار تھا۔ زیدی صاحب کی کوشش سے کئی صنعتی ادارے بھی قایم ہو گئے تھے جن کی وجہ سے ریاست کی آمدنی بڑھی تھی اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی ملا تھا۔میری ملاقاتیں زیادہ تر عرشی صاحب،واجد علی رشک،مولوی عبد السلام،کرنل عطا الرحمن جو اقبال کے شاگرد رہے تھے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 123)

علی گڑھ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے کچھ عرصے بعد آل احمد سرور نے لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کا عہدہ سنبھالا۔یہاں کی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو آل احمد سرور نے بڑے موثر پیرائے میں اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔یہاں انہیں نور الحسن ہاشمی، محمدتقی، رشید جہاں، قاضی عبدا لغفار، چودھری محمد علی ردولوی، آنند نارائن ملا، ڈاکٹر فریدی،مسعود حسن رضوی ادیب، چندر بھان گپتا، سلام مچھلی شہری، رضیہ سجاد ظہیر،جوش ملیح آبادی، مانی جائسی، بسمل شاہ جہاں پوری،یگانہ یاس چنگیزی، احسن فاروقی، اثر لکھنوی، حسرت موہانی، علی عباس حسینی، وی پی مینن، کنہیا لال کپور، پرشوتم داس ٹنڈن، سمپورنانند وغیرہ کے ساتھ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے کے مواقع ملے۔باب بعنوان ’لکھنؤ‘21اگست 1946 سے  30نومبر 1955 تک کی روداد پر مشتمل ہے۔اپنے لکھنؤ پہنچنے کے فوری بعد جب وہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو اور فارسی پہنچے تو وہاں کے دلچسپ تجربات انھوں نے  باب ’لکھنؤ‘ میں خصوصی طور پر بیان کیے ہیں۔مثلاً:

’’لکھنؤ پہنچ کر میں نے دوسرے دن ہی شعبۂ اردو اور فارسی میں اردو کے ریڈر کا چارج لیا۔مسعود حسین رضوی صدرِ شعبہ تھے۔وہ میرے آنے سے کچھ خوش نہیں معلوم ہوئے۔احتشام حسین بھی اسی جگہ کے امیدوار تھے۔ان سے پہلے سے ملاقات تھی۔وہ اچھی طرح ملے۔ نور الحسن ہاشمی تو میرے آنے سے بہت خوش تھے۔ شعبے میں اس وقت عبد القوی فانی اور یوسف حسین موسوی فارسی میں لیکچرار تھے۔احتشام حسین اور نورالحسن ہاشمی اور محمد تقی اردو میں لیکچرار تھے۔محمد تقی نیک آدمی تھے۔جوانی میں انتقال کر گئے۔ یہ سابق لیکچرار سید محمد حسین کے صاحبزادے تھے۔ مسعود صاحب کا کمرہ الگ تھا۔ایک دوسرے کمرے میں ہم سب بیٹھتے تھے۔چند روز فانی صاحب اور موسوی صاحب دونو ںمسعود حسن رضوی صاحب کو میرے سامنے برا بھلا کہتے رہے۔وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح میں ان کے قریب ہو جائوں گا۔مگر دو تین دن ان کی کتھا سننے کے بعد میں نے کہہ دیا کہ مجھے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ مجھے مسعود صاحب کے خلاف کوئی محاذ بنانا ہے۔وہ جو صحیح بات کریں گے،میں اس کی تائید کروں گا۔غلط بات ہوگی تو ضرور اختلاف کروں گا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔اس زمانے میں ایم اے اردو میں چھ سات طالبِ علم تھے۔ہاں بی اے کے ہر کلاس میں سو سے اوپر طلبا ہوتے تھے اور ان میں غیر مسلم طلباکی تعداد بھی قابلِ لحاظ ہوتی تھی۔1947کے بعد غیر مسلم طلبا بہت کم ہو گئے مگر بی اے میں کچھ پھر بھی آجاتے تھے۔ لکھنؤ میں اس وقت ممتاز اساتذہ کی خاصی تعداد تھی۔ ‘‘(ایضاً، ص 126)

آل احمد سرور اردو کے اچھے نقاد،شاعر اور ادیب تھے۔انھوں نے تنقیدی نظریات پر بڑی اہمیت کی حامل کتابیں لکھیں اور وہ تا حیات مختلف ادبی تحریکات سے وابستہ رہے۔تعلیمی و تدریسی اداروں سے متعلق ان کے مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر انھوں نے یونیورسٹی اساتذہ سے متعلق جو بڑی بے باک سچائیاںاُجاگر کی ہیں،وہ عہدِ حاضر کی تلخ صداقتوں پر مبنی ہیں :

’’آزادی کے بعد یونیورسٹیوں کے وسائل میں بہت اضافہ ہوا ہے۔مگر کیا ہم ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ ان وسائل کا جائز استعمال کیا گیا ہے اور ریوڑیاں نہیں بانٹی گئی ہیں۔ باہر کے ملکوں میں اساتذہ کے چند سال کے لیے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔مگر یہ مدت تین سال سے زیادہ نہ ہو،اور کسی شعبے کے ایک تہائی سے زیادہ استادوں کو ایک وقت میں باہر جانے کی اجازت کسی حال میں نہ دی جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ مقبولیت کی ایسی ہوا چلی ہے کہ وائس چانسلروں کو ادارے کا مفاد دیکھنے کے بجائے چند اشخاص کا ذاتی فائدہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے استاد صارفیت  (consumerism)  کے چکر میں آگئے ہیں۔ ان کا یہ حق ضرور ہے کہ سماج انہیں مادی آسودگی اور ذہنی آزادی دے۔ مگر affluence تعیش ان کی زندگی کا نصب العین نہ ہونا چاہیے۔ممکن ہے کہ آج کل کی نسل کو میری یہ باتیں دقیا نوسی معلوم ہوں۔مگر میں کیا کروں۔میں علم کے گہواروں کو نفع کا کاروبار بنتے نہیں دیکھ سکتا۔ایسا نہیں ہے کہ آج کی یونیورسٹیوں میںسبھی گئے گزرے ہیں۔ان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہو گی جو ملک و قوم کی آبرو اور علم وفن کے چشم و چراغ ہوں گے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت اس ذیل میں نہیں آتی اور کسی طبقے یا ادارے کے متعلق اندازہ اس کی اکثریت سے ہی لگایا جاتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 349)

آل احمد سرور کی ملاقاتیں لکھنؤ کے اہلِ اردو سے ہونے لگیں۔یہاں کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں انھوں نے دلچسپی لینا شروع کی۔ لکھنؤ کے کافی ہائوس نے اردو و ہندی کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک دوسرے کو جذباتی طور پر باندھنے کا تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا۔ان سب باتوں کا  بیان وہ بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی سوانح عمری میں کرتے ہیں :

’’لکھنؤ آکر میں نے یہاں کے ادیبوں سے ملاقات کی۔ اثر  صاحب سے تو پہلے ہی ملاقات ہو چکی تھی۔ آنند نارائن مُلّا سے ملا اور جلد ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔وہ اکثر میرے یہاں آجاتے تھے۔ان کے ساتھ میں مرزا حسن عسکری سے ملنے گیا اور انھیں کے یہاں حضرت صفی لکھنوی سے بھی ملا اور ان کا کلام سنا۔ میرے پڑوس میں ڈاکٹر رشید جہاں بھی رہتی تھیں۔ان سے اور محمود الظفر سے اکثر ملنا ہوتا۔رشید جہاں بھی بے تکلف گھر پر آجاتی تھیں۔محمود الظفر سنجیدہ آدمی تھے۔کچھ انگریزوں کی سی کم گوئی بھی ان میں تھی۔مگر رشید جہاں کی شخصیت میں بڑی کشش تھی۔نہایت صاف گو مگر بڑی محبت کرنے والی۔ان سے سیاسی مسائل پر اکثر بحث ہوتی۔ مگر تعلقات کبھی مجروح نہیں ہوئے۔نسیم صاحب ڈاکٹر تھے اور شعر و ادب کے دلدادہ۔وحید الدین سلیم ان کے والد کے دوست تھے۔نسیم،سلیم صاحب کے قصے بڑے مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔اس زمانے میں  شام کی چہل قدمی کے بعد میں کافی ہائوس اکثر جاتا تھا۔ وہاں یونیورسٹی کے استاد،ہندی اردو کے ممتاز ادیب، طلبا، سیاسی کارکن سبھی آیا کرتے تھے۔یہیں بھگوتی چرن ورما، یشپال اور امرت لال ناگر سے ملاقات ہوئی۔ سب ہندی کے ممتاز ادیب تھے۔احتشام کبھی کبھار ہی آتے تھے۔وہ شام کو دانش محل میں بیٹھتے تھے۔وہاں مجاز اور سلام مچھلی شہری کافی ہائوس آتے تھے۔ڈاکٹر علیم تو اس قدر پابندی سے آتے تھے کہ اگر بارش ہوتی تو چھتری لے کر آتے تھے۔میں نے آنے کے چند ماہ بعد فیکلٹی میں یہ تجویز پیش کی کہ اردو کا شعبہ فارسی سے الگ کر دیا جائے۔مسعود صاحب اس کے مخالف تھے۔مگر فیکلٹی اور اکیڈمک کونسل میں یہ تجویز منظور ہو گئی۔اکیڈمک کونسل نے اردو کا الگ بورڈ آف اسٹڈیز بھی بنا دیا۔جس کے لیے باہر سے میں نے رشید صاحب اور قاضی عبد الغفار کا نام تجویز کیا۔مگر شعبے کی علاحدگی نا سازگار حالات کی وجہ سے اگزیکیوٹیو کونسل سے منظور نہ ہو سکی۔1947 آگیا تھااور فضا مکدّر تھی۔ ‘‘ (ایضاً، ص 128)

آل احمد سرور نے کچھ عرصہ شملہ میں بھی گزارا۔ یہاں وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز، شملہ میں بطور فیلو رہے۔انھوں نے آگے کشمیر کا بھی تفصیلی منظر نامہ پیش کیا ہے۔کشمیر کے شالی مار باغ، نشاط باغ، چشمہ شاہی جیسے قدرتی جاہ و جلال کی مصوری کے ساتھ وہاں کے سیاسی و سماجی تانے بانوں کا بھی اس خود نوشت میں تفصیلی ذکر ملتا ہے۔

’خواب باقی ہیں‘میں بہت سے مقامات پر بے ربطگی کا احساس ابھرتا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ تحریر میں موضوع سے مطابقت رکھنے والی باتیں ہوتی ہیں، لیکن سرور صاحب نے جو بات جہاں یاد آئی لکھ دی۔صفحہ نمبر 100  پر خالدہ ادیب خانم کی علی گڑھ آمد کے ذکر کے دوران ملک راج آنند نمودار ہو جاتے ہیں۔ پھر اسپین سِوِل وار میں ادیبوں کا کردار اُس کے فوراََ بعد ہی اِسی پیراگراف میں فراق گورکھ پوری کا تذکرہ سب کچھ گڈ مڈ کر دیتا ہے۔ عام قاری کو سطور بار بار پڑھ کر ربط ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اِسی طرف صفحہ نمبر110  پر علی گڑھ مسلم لیگ کا ذکر کرتے کرتے اچانک چارلی چپلن کی فلم دیکھنے اور اُس کے فن کے بارے میں بتاتے ہیں۔ صفحہ نمبر 121 پر ذاکر صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے امتیاز علی عرشی پر چھلانگ لگ جا تی ہے تو قاری جھنجھلا جاتا ہے۔ ‘

( ماہنامہ ’  سخن ور ‘   از مضمون    پروفیسر آل احمد سرور کی خودنوشت ’  آل احمد سرور کی خودنوشت ’خواب باقی ہیں‘کا تجزیاتی مطالعہ  از قدرت اللہ شہزاد،  اگست 2004، ص 22 )

ادبی جریدہ  ’ دستاویز‘  کے اردو کی آپ بیتیوںپر مبنی خصوصی شمارے میں ضیاء ندیم نے اپنے مضمون بعنوان ’ اردو میں خود نوشت سوانح عمریاں ‘  میں آل احمد سرور کی اس آپ بیتی کے ضمن میں بجا طور پر لکھا ہے :

’’سرور صاحب اردو ادب میں بحیثیت ادیب اور نقاد ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کی تنقیدی تصانیف کی طرح ان کی یہ خود نوشت بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ سرور صاحب نے مبالغہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے صرف ان حالات و واقعات کا ذکر کیا ہے جو حقائق پر مبنی ہیں۔ انھوںنے بہت سے ممالک کے دورے بھی کیے اور وہاں کے حالات بھی تحریر کیے، بعض شخصیات کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکر ذاکر حسین، رشید احمد صدیقی، سروجنی نائیڈو، جگر  مرادآبادی، یاس  یگانہ چنگیزی اور پروفیسر احتشام حسین شامل ہیں۔ سرور صاحب نے اپنے مخصوص طرز ِ تحریر سے آپ بیتی میں جان ڈال دی ہے۔ ان کی یہ خودنوشت ’ خواب باقی ہیں ‘  اردو ادب میں ایک اہم تخلیق کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘‘  

(دستاویز، دوحہ۔ دہلی، مضمون’  اردو میں خود نوشت سوانح عمریاں ‘  از  ضیاء ندیم،عالمی اردو ادب کاکتابی سلسلہ،2016، ص 53)     

 معروف محقق و ناقد خلیق انجم نے اس سوانح کو ایک عالم اور معلم کی سوانح قرار دیا ہے۔آل احمد سرور نے اس آپ بیتی میں بیانیہ انداز میں اپنے احوال قلمبند کیے ہیں۔ انھوں نے مناظرِ قدرت کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ مصنف نے واقعات کو بڑے دلچسپ لب و لہجے میں پیش کیا ہے۔انھوں نے اس آپ بیتی کو ادبِ لطیف کا حصہ بنا دیا ہے۔ کتاب’خواب باقی ہیں‘  کے مطالعے سے قاری کی نگاہوں میں ایک عہد کا مکمل ادبی،علمی اور ثقافتی منظر نامہ متحرک ہو جاتا ہے۔ بے شک آل احمد سرور کی یہ خود نوشت سوانح عمری اردو ادب کی ایک شاہکار کتاب ہے۔

مآخذ و مصادر

  1.      خواب باقی ہیں،آل احمد سرور،ایجوکیشنل بُک ہائوس،علی گڑھ،1991
  2.      ڈاکٹر مظہر مہدی حسین،مشمولہ،’بیسویں صدی میں اردو ادب‘دہلی،ساہیتہ اکادمی 2002
  3.      ماہنامہ ’  سخن ور ‘   از مضمون ’  آل احمد سرور کی خودنوشت ’خواب باقی ہیں‘کا تجزیاتی مطالعہ‘  ازقدرت اللہ شہزاد ،  اگست 2004
  4. دستاویز، دوحہ۔ دہلی، مضمون’  اردو میں خود نوشت سوانح عمریاں ‘  از  ضیاء ندیم،عالمی اردو ادب کاکتابی سلسلہ،2016
  5.       رقص شرر، ملک زادہ منظور احمد، رہبر آفسیٹ پرنٹرز، ترکمان گیٹ، دہلی، 2004
  6.      وہاج الدین علوی، اردو میں خودنوشت سوانح : فن و تجزیہ،مکتبہ جامعہ لمِٹیڈ،دہلی،1989


Dr.  Syed Wajahat Mazhar

T-116/1, Okhla Main Market,

Okhla Village,

New Delhi. 110025.

Mob..: No.7217718943

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...