11/12/23

محسن کاکوروی کی نعت گوئی: ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں: سعود عالم

نعت ایک ایسی صنف سخن ہے جو غزل کی ہیئت میں بھی لکھی جاتی ہے اور قصیدے کی ہیئت میں بھی۔ مثنوی کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے تو رباعی ودیگر اصناف کی ہیئت میں بھی۔ اسی طرح نعت مسدس اور دیگر فارمیٹ میں بھی لکھی جاتی ہے لیکن نعت کے لیے جتنی موزوںقصیدہ اور غزل کی ہیئت ہے دوسری کوئی ہیئت نہیں۔باوجود اس کے محسن کاکوروی کے قصیدے کے علاوہ مثنویوں میں بھی جا بجا نعتیہ عناصر نظرآتے ہیں۔

محسن کاکوروی نے اپنا پہلا قصیدہ سولہ سال کی عمر میںلکھا تھا جو ’گلدستہ کلام رحمت ‘ کے نام سے 1258ھ بمطابق 1842 میں منظر عام پر آیا۔ یہ دراصل ان کا نعتیہ قصیدہ تھا، جس کا مطلع کچھ اس طرح ہے      ؎

پھر بہار آئی کہ ہونے لگے صحرا گلشن

غنچہ ہے نامِ خدا نافۂ آہوئے ختن

محسن کاکوروی کا سب سے مشہور قصیدہ مدیح خیر المرسلین ؐ ہے۔ یہ قصیدہ 1293ھ بمطابق1876ء میں منصۂ شہود پر آیا،(یعنی 34سال بعد) جس کا مطلع کچھ اس طرح ہے     ؎

سَمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

برق کے کاندھے پر لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل

جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ امل

قصیدے کا پہلا جز تشبیب ہوتا ہے،جس کو نسیب بھی کہتے ہیں۔ تشبیب میں ہرطرح کے مضامین کی گنجائش ہوتی ہے۔(عربی قصیدے کی روایت تھی کہ ابتدا میں شاعر اپنے عہدِ جوانی کو یاد کرتا تھااور محبوبہ کے قبیلے کے آثار و باقیات کو دیکھ کر آنسو بہاتا تھا۔ یہ روایت کئی سو سال تک رہی۔ ایرانی شعرا نے تشبیب میں دو نئے عناصر کا اضافہ کیا۔ عارفانہ/ حکیمانہ تشبیب اور دوسری بہاریہ ) محسن نے یہ قصیدہ بہاریہ روایت کی پاسداری میں لکھا۔ بہار یہ کی جگہ ’برشگالی ‘ موسم برشگال ’بہار ہند‘بھی کہا گیا۔ محسن نے اس قصیدے کو مرزا سودا کے لامیہ قصیدے کی تقلید میں لکھا، جب کہ سودانے عرفی سے لیا، ممکن ہے عرفی نے انوری و خاقانی کا تتبع کیا ہو۔بہرحال سوداکی تشبیب یکسر بہاریہ ہوتی ہے، مثلاً ’’اٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستان سے عمل۔ محسن نے اس میں یہ جدّت پیدا کی کہ بہار کی جگہ برشگا ل کو لے آئے اور مبالغے میں کمی نہیں کی، اور ایک اجتہاد یہ کیا کہ اس وقت کے شمالی ہند کے ہندو تمدن اور رسوم ورواج کو منظرنامے کا حصہ بنادیا۔  اس وجہ سے لوگوں نے محسن کاکوروی کے مذکورہ بالاقصیدے پر اعتراض کیا اور کہا کہ محسن نے نعتیہ قصیدے کا آغاز کاشی، متھرا، گوکل اور گنگا جل جیسے الفاظ سے کیسے کیا جو کہ نعت کے بالکل خلاف ہے یعنی نعتِ رسولؐ میں مناسبات کفر کا استعمال غیر مشروع ہے۔چنانچہ اس اعتراض کا جواز امیر مینائی نے صحابی رسول حضرت کعب بن زہیربن ابی سلمیٰ کے ایک قصیدے سے نکالا جس میں کعب نے ابتدائے اسلام میں اللہ کے رسول کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا تھا جس سے خوش ہوکر اللہ کے رسول نے انھیں اپنی ردائے مبارکہ عنایت کی تھی،جس کی تشبیب بھی غیرمشروع تھی۔ یہ قصیدہ دنیائے ادب میں ’قصیدہ بردہ‘کے نام سے موسوم ہے   ؎

بَانَتْ سُعادُ فَقَلْبِی الیومَ متْبولُ

مُتَیَّمٌ إثرَھا، لَمْ یُجْزَ، مکبُولُ

وَمَا سُعَادُ غَدَاۃَ الْبَیْنِ إذْ رَحَلُوا

إلاَّ أَغَنُّ غَضِیْضُ الطَّرْفِ مَکْحُولُ

مذکورہ بالا اشعار سے یہ جواز نکالا ہے کہ قصیدے کی تشبیب میں ہرطرح کے مضامین کی گنجائش ہوتی ہے۔ایسے میں محسن کاکوروی کا اپنے نعتیہ قصیدے میں ان الفاظ کا استعمال کرنا جو خالص ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کرتےہیں،کسی بھی صورت میں غیرموزوں وغیرمشروع نہیں۔

یاد رہے کہ معترضین کے جواب میں خود محسن کاکوروی کوصفائی کے طور پر چند اشعار پیش کرنے پڑے، وہ کہتے ہیں        ؎

پڑھ کے تشبیب مسلماں مع تمہید و گریز

رجعت کفر بایماں کا کرے مسئلہ حل

کفر کا خاتمہ بالخیر ہوا ایماں پر

شب کا خورشید کے اِشراق سے قصہ فیصل

ظلمت اور اس کے مکارِہ میں ہوا طولِ سخن

مگر ایمان کی کہیے تو اسی کا تھا محل

مدعا یہ ہے کہ رندوں کی سیہ بختی سے

ظلمتِ کفر کا جب دہر میں چھایا بادل

ہوا مبعوث فقط اس کے مٹانے کے لیے

سیفِ مسلول خدا نورِ نبیِ مرسل

محسن کاکوری نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت پورے ہندوستان میں اور بالخصوص لکھنؤ میں شیخ امام بخش ناسخ (1254ھ 1838) کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔ آتش، مصحفی، غالب اور مومن سب کے سب طرز ناسخ کے قائل تھے اور ان کے پیروکار بھی۔ یہ لوگ اس وقت ناسخ کے کلام کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔ یہ منظر بالکل ویسا ہی تھا جیسے کم وبیش دو سو سال قبل دیوان ولی کی دہلی آمد پر شاہ حاتم اور ان کے معاصرین نے رنگ ولی کو دیکھا تھا اور قبول کیا تھا۔ اس تناظر میں غالب لکھتے ہیں:

’’مومن خاں نے شاہ نصیر کے طرز کو چھوڑ کر ناسخ کے طرز پر غور کیا، اور فارسی کی تراش خراش پر توجہ کی۔ ادھر میں نے بھی ۔۔۔۔‘‘

(بحوالہ، جلوۂ خضر، ج،اوّل، صفیر بلگرامی، ص237، آرہ، بہار1884)

ایسے حالات وماحول میں بھلا کیسے ممکن تھا کہ محسن کاکوروی شاعری کے اس چڑھتے سورج سے دور رہتے۔ وہ اسی سرزمین میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اوراسی ہندوستانی فضا میں پروان چڑھے۔یہ ملک کئی ہزار برس قدیم تہذیب کا وارث ہے، حکمت ودانائی اور فنونِ لطیفہ کی سرپرستی میں روم اور یونان اس کے شاگرد کہے جاتے ہیں۔ یہاں ایسی عبادت گاہیں ہیںجہاں لوگ زیارت کو جاتے ہیں۔ یہاں ایسے دریا ہیں جن کی تقدیس کی جاتی ہے۔ ایسے میں ہندوستانی شعراکی شاعری میں اس کا اثر تو آنا یقینی تھا اوریہی تمام چیزیں محسن کاکوروی کی شاعری میں جا بجا نظرآتی ہیں۔ محسن نے اپنی شاعری کا رنگ ناسخ کے ر نگ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی راہ الگ بنانے کی کوشش کی تھی، اس سلسلے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے اس کے بارے میں جمیل جالبی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’محسن کاکوروی نے موضوع کی مناسبت سے عشق اور جذبے کو اپنی شاعری میں قائم کیا اور ناسخ لکھنوی کی مضمون آفرینی کو قبول کرتے ہوئے بھی، ہندی الاصل الفاظ کو اپنے کلام میں پوری طرح استعمال کیا اور ہندومسلم کلچر کی روایت اور رنگ کا ایسا امتزاج پیش کیا جو محسن کی انفرادیت اور ان کی اصل پہچان ہے۔ــ‘‘

(بحوالہ مضمون،محسن کاکوروی کی شعری کائنات،ص90)

اگر ہم اس قصیدے کے پہلے شعر پر غور کریں تو اندازہ ہوگاکہ شاعر کس چابک دستی سے الفاظ کو استعمال میں لایا ہے۔محسن نے اس قصیدے میں کاشی، متھر اور گنگا جل جیسے الفاظ استعمال کرکے ہمارے سامنے ہندو تہذیب کے کچھ بنیادی رنگ ابھار دیے ہیں۔ دوسرے شعر میں گوکل اور اشنان جیسے الفاظ نے اس تصور کو مزید واضح کردیا ہے۔ ہندی الفاظ کی کثرت سے گرچہ عربی وفارسی الفاظ( برق، صبا اور سروقداں) دب کر رہ گئے ہیںباوجود اس کے ان الفاظ کی انفرادیت پر کوئی آنچ نہیں آتی بلکہ ان کی امتزاجیت سے ان میںمزید چار چاند لگ جاتا ہے۔ ’برق‘ عربی زبان کا لفظ ہے، ’صبا‘فارسی کا لفظ ہے اور ’سروقد‘بھی عجم کی تہذیبی روایت کو سامنے لارہا ہے۔ خاص طورپر ’سروقد‘ کا تصور ہندو تہذیب واساطیر سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ہندو جمالیات میں قامتِ بالا کا کوئی تصور نہیں۔ محبوب کے قامت کی درازی خالص اسلامی عجمی تصور ہے، جس کی اپنی جمالیات ہے۔ اس تصور کو غالب نے بھی نکھارا ہے         ؎

سایے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

تو اس قدوقامت سے جو گلزار میں آوے

الغرض ’سروقدان گل‘ کی ترکیب میں ’گوکل‘بے شک ہندی الاصل لفظ ہے لیکن ’سروقد‘ کا تصور اسلامی تہذیب کی یاد دلاتا ہے۔اس اعتبارسے اگر دیکھیں تو صرف یہی دو شعر برصغیر میں پروان چڑھنے والی ہند اسلامی تہذیب کی صورت گری کے لیے کافی ہیں۔

محسن کاکوروی کا کلام ہندوستانی تہذیب کا عدیم المثال کارنامہ ہے۔ وہ ہندومسلم کلچر کے پروردہ تھے۔ عالم طبعی اور عالم خاکی دونوں کا وہ احترام کرتے تھے۔ان کے کلام میں اجتماع ضدین کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔اردو ادب میں روز اول سے رام چندر اور شری کرشن اور دیگر ہندو میتھولوجی کو جگہ ملتی رہی ہے اور اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو سیکولر زبان کی حیثیت سے اپناالگ مقام رکھتی ہے۔ ایسے میں محسن کاکوروی کے کلام میں ہندوستانی تہذیبی عناصر کا پایا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔محسن نے عالم طبعی کو جس کیف کے ساتھ قبول کیا اور اپنی شاعری میں برتا اس کی مثال ان کی دیگرنظموں میں بہت کم دیکھنے ملتی ہے لیکن جہاں تک ان کے نعتیہ قصیدے کا تعلق ہے تو اس میں فطرت اور انسان ایک دوسرے میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ عوام کا بیان فطرت کی اصطلاح میں اور فطرت کا بیان انسانی زندگی کی اصطلاح میں، ضم ہوگئے ہیں۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں ان کے قصیدے سے یہ اشعار         ؎

خبر اڑتی ہوئی آتی ہے مہابن میں ابھی

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

دھر کا ترسا بچہ ہے برق لیے جل میں آگ

ابر چوٹی کا برہمن ہے لیے آگ میں جل

ابرِ پنجاب تلاطم میں ہے اعلیٰ ناظم

برق بنگالہ ہے ظلمت میں گورنر جنرل

جو گیا بھیس کیے چرخ لگائے ہے بھبھوت

یا کہ بیراگی ہے پربت پہ بچھائے کمبل

خوب چھایا ہے سر گوکل ومتھرا بادل

رنگ میں آج کنہیا کے ہے ڈوبا بادل

دلِ بے تاب کی ادنیٰ سی چمک ہے بجلی

چشمِ پُر آب کا ہے ایک کرشمہ بادل

راجا اندر ہے پری خانۂ مے کا پانی

نغمۂ نے ہے سری کرشن کنہیا بادل

مذکورہ بالا اشعار کے بارے میں محمد حسن عسکری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’محسن نے عناصر فطرت میں ایسی زندگی کی لہر دوڑائی ہے، روحِ فطرت کی تازگی اس طرح نچوڑی ہے، انسان اور فطرت میں وہ انضباط پیدا کیا ہے کہ صرف ہند اسلامی تہذیب میں نہیں بلکہ پوری اسلامی تہذیب میں اس نظم کا ایک خاص مقام ہے۔‘‘       

(بحوالہ،مضمون،محسن کاکوروی،ص82-83)

محسن کی شاعری کا بڑا حصہ نشاطیہ لے اور راگ سے تخلیق ہوا ہے۔ وہ رسول اللہ ؐ کے واحد حقیقی عاشق ہیں جو وہ شوخی بھی کرتے ہیں اور اس شوخی میں ہندو تصور بھکتی (عشق) کا اثر بھی ملتا ہے، لیکن وہ حد ادب کو پار نہیں کرتے۔محسن کا معشوق ہر دم نئے نئے دل کش رنگ اور دل فریب روپ میں سامنے آتا ہے۔

محسن کاکوروی نے فطرت کے علاوہ مقامی عناصر میں سرشار ہوکر بھی اپنی شاعری میں اسلامی تصورات کو پیش کیا ہے۔ہندوستان میں ایسے کئی اہم مقامات ہیں جن کا ذکر انھوں نے اپنے اس قصیدے میںکیا ہے۔ان میں، کاشی،متھرااور گوکل قابل ذکر ہیں۔کاشی:جسے بنارس اور ونارس بھی کہتے ہیں،یہ شمال مشرقی ہند میں اساطیری دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے۔اسے مندروں کا شہر بھی کہتے ہیں اور یہ تقدس کے اعتبار سے ہندوستان کے (ہندؤں کے نزدیک) سات بڑے تیرتھوں میں غالباً سرفہرست ہے۔یہ شہر عین گنگا کے کنارے آباد ہے، ہندو متھ کے مطابق گنگا ندی اس شہرکے قدموں میں بہہ رہی ہے،یعنی شہر کا تقدس اپنی جگہ، لیکن گنگا کا تقدس باقی ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ متھرا: ہندؤں کا ایک مقدس مقام ہے جو آگرہ سے بیس اکیس میل شمال مشرق میں دریائے جمنا کے کنارے آباد ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ سری کرشن مہاراج کی جنم بھومی ہے جو ہندؤں کے اوتار ہیں۔گوکل: متھرا سے پندرہ میل دور ایک قصبہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کرشن مہاراج کا بچپن اسی قصبے میں گزرا تھا۔ گنگا: ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق گنگا کا پانی مقدس ترین ہے، قرب وجوار اور دور دراز کے علاقوں میں بھی لوگ از راہِ عقیدت اُسے منگواتے/لاتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔یہ تمام تلمیحات چشم زدن میں ہمارے سامنے ہندو تہذیب کے بنیادی رنگ اُبھار دیتی ہیں، اسی طرح دوسرے شعر میں ’’گوکل ‘‘او ر ’’اشنان‘‘ جیسے الفاظ اس تصور کو مزید واضح کردیتے ہیں۔

اس قصیدے کا مرکزی کردار ’بادل‘(میگھ ) ہے۔ ہندی اور سنسکرت شاعری میں ’میگھا‘کو خاص اہمیت حاصل ہے۔مہاکوی کالی داس کی شہرۂ آفاق نظم’میگھ دوت‘ (قاصد ِ ابر) اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ محسن کی تشبیب ’بادل‘ بھی کچھ یہی بیان کررہی ہے کہ وہ برق کے کاندھے پر، گنگا جل کاشی سے متھرا اور گوکل کی طرف لارہا ہے تاکہ متھرا اور گوکل والوں کو بنارس کے سفر کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔

اس قصیدے میں ’بادل‘ کے قافیے پر دو غزلیں ہیں۔ ایک غزل دورانِ تشبیب کی ہے۔یعنی بحرِ ظلمات کی اور دوسری غزل گریز کے بعد کی ہے۔ دونوں غزلوں کے فرق سے اندازہ ہوجائے گا کہ شاعرنے کس خوبی اور جدت ادا سے انھیں استعمال کیا ہے۔دونوں کے بیانیے، دونوں کی روایات اوردونوں کی تلمیحات مختلف ہیں، باوجود اس کے دونوں ایک ہی قصیدے کا جزولاینفک ہیں۔ یہی ہماری تہذیب اور سنسکرتی کی انفرادیت ہے جو ادب اور سماج دونوںکو آپس میں جوڑتی ہے۔موازنہ کے طور پر ملاحظہ ہوں دونوں غزلیں        ؎

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

تیرتا ہے کبھی گنگا، کبھی جمنا بادل

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برج میں آج سری کرشن ہے کالا بادل

خوب چھایا ہے سر گوکل ومتھرا بادل

رنگ میں آج کنہیا کے ہے ڈوبا بادل

سطح افلاک نظر آتی ہے گنگا جمنی

روپ بجلی کا سنہرا ہے روپہلا بادل

بجلی دو چار قدم چل کے پلٹ جائے نہ کیوں

وہ اندھیرا ہے کہ پھرتا ہے بھٹکتا بادل

میری آنکھوں میں سماتا نہیں یہ جوش وخروش

کسی بے درد کو دکھلائے کرشمہ بادل

دلِ بے تاب کی ادنیٰ سی چمک ہے بجلی

چشمِ پُرآب کا ہے ایک کرشمہ بادل

تپشِ دل کا اُڑایا ہوا نقشہ بجلی

چشمِ پُرآب کا دھویا ہوا خاکہ بادل

اپنی کم ظرفیوں سے لاکھ فلک پر چڑھ جائے

میری آنکھوں کا ہے اُترا ہوا صدقہ بادل

دیکھتا گر کہیں محسن کی فغاں و زاری

نہ برستا کبھی ایسا نہ گرجتا بادل

اب ان کی دوسری غزل کے اشعار ملاحظہ کیجیے جو گریز سے پہلے کے اشعار ہیں          ؎

کیا جھکا کعبے کی جانب کو ہے قبلہ بادل

سجدے کرتا ہے سوئے یثرب و بطحا بادل

چھوڑ کر بت کدۂ ہند و صنم خانہ برج

آج کعبے میں بچھائے ہے مصلاّ بادل

بحرِ امکاں میں رسولِ عربی درِّ یتیم

رحمتِ خاص خداوند تعالیٰ بادل

قبلۂ اہلِ نظر کعبہ ابروے حضور

موئے سرقبلہ کو گھیرے ہوئے کالا بادل

دور پہنچی لبِ جاں بخش نبی کی شہرت

سن ذرا کہتے ہیں کیا حضرتِ عیسیٰ بادل

چشمِ انصاف سے دیکھ آپ کے دندان شریف

دُرِّ یکتا ہے ترا، گرچہ یگانا بادل

تھا بندھا تار فرشتوں کا درِ اقدس پر

شبِ معراج میں تھا عرشِ معلّیٰ بادل

توٗ وہ فیاض ہے دَر پر ترے سائل کی طرح

فلک پیر کو لایا دیے کاندھا بادل

تیغِ میدانِ شجاعت میں چمکتی بجلی

ہاتھ گل زارِ سخاوت میں چمکتا بادل

ان دونوں غزلوں کے درمیان حسین گریز کا استعمال ہوا ہے۔یاد رہے، ہدایت کا متلاشی کبھی مایوس نہیں ہوتا، وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ پورب، پچھم ہر طرف جاتا ہے اور آخری سانس تک کامیابی کے پیچھے لگا رہتا ہے اور ایک نہ ایک دن اسے ضرور کامیابی ملتی ہے۔ شاعر نے ان کواشارہ، کنایہ، استعارہ اوراسلامی تلمیحات کی روشنی میں بخوبی استعمال کیا ہے   ؎

گرتے پڑتے ہوئے مستانہ کہاں رکھا پاؤں

کہ تصور بھی جہاں جا نہ سکے سر کے بل

یعنی اس نور کے میدان میں پہنچا کہ جہاں

خرمنِ برقِ تجلی کا لقب ہے بادل

تار باران مسلسل ہے ملائک کا ورود

پئے تسبیح خداوند جہاں عزوجل

کہیں طوبیٰ کہیں کوثر کہیں فردوسِ بریں

کہیں بہتی ہوئی نہر لبن و نہر عسل

گلِ بیرنگیِ مطلق کے لہکتے گلزار

بے نیازی کے ریاحیں کے مہکتے جنگل

باغِ تنزیہہ میں سرسبز نہالِ تشبیہ

انبیا جس کی ہیں شاخیں عُرفا ہیں کونپل

اس حسین گریز کے بعد شاعر مدح کی طرف لوٹتا ہے اور انوارِ عالم کا ایسا نقشا کھینچتا ہے کہ سارا مدوجزر اسلام آنکھوں کے سامنے نظرآنے لگتا ہے۔ اور تمام معترضین کوبھی جواب مل جاتا ہے کہ یہ قصیدہ گل وبلبل کی زبان میں یا پرندوں اور حیوانوں کے استعارے میں نہیں بلکہ بادل اور بارش کے استعارے میں بیان ہوا ہے، کیوں کہ بادل رحمتِ خداوندی اور عطائے آسمانی ہے۔وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہاں کس طرح کی بارش ہے، ضلال وظلمت کی یا نورِ ہدایت کی، وہ اس طلب میں کاشی اور متھرا جاتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ شاید بادل کی گردش ان ہی دو شہروں میں محصور ہے اور ایک خاندان یا ذات کے لیے محدود ہے۔ اور اس کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ بادل سیاہ اور بھیانک ہوں اور ساری دنیا میں صرف انھی کا عمل دخل ہو   ؎

کالے کوسوں نظرآتی ہیں گھٹائیں کالی

ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل

اور یہ’ ابر سیاہ‘ان منازل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سے سارے عالم کے لیے خیر وبرکت کا مینہ برسا کرتا تھا۔ دین براہیمی کا جو مرکز تھا          ؎

جانبِ قبلہ ہوئی یورشِ ابرِ سیاہ

کہیں پھر کعبہ پہ قبضہ نہ کریں لات و ہبل

لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان مقاماتِ زیارت میں جہاں لوگ ہدایت کے لیے جاتے ہیں ان کے لیے یہی ’بادل‘ ابررحمت بن جاتا ہے۔اور اسلام کی علامت بن جاتا ہے۔

اس کے بعد شاعر مدح کی طرف لوٹتا ہے۔ مدح کے بعدمحسن نے اس قصیدے کا اختتام مناجات پر کیا ہے۔

اس قصیدے کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے یہ ہے:

’’محسن کاکوروی کی نعتوں کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہندوستانی کلچر اسی طرح شامل ہے جس طرح عربی وفارسی کلچر معنی واظہار کے رگ وپے میں شامل ہے۔میر انیس کے مرثیوں میں حضرت امام حسین اپنے طور طریقوں، ادب آداب اور طرزِ فکر وعمل سے لکھنوی دکھائی دیتے ہیں لیکن محسن کی نعتوں میں ان کا ممدوح اپنے اصلی روپ میں قرآن وحدیث کے مستند حوالوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور ساتھ ہی ہندومسلم کلچر محسن کے مزاج، ان کے بیان اور فکر میں موجود رہتا ہے۔ان نعتوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نعتیں صرف اور صرف ’’ہندو مسلم کلچر‘‘ کا پروردہ ہی کہہ سکتا تھا۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے محسن کی جو شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے اس کے دو پہلو اہم ہیں۔ ایک ان کا عقیدہ وایمان جس پر وہ پوری طرح عامل ہیں اور دوسرے یہ پہلو کہ ان نعتوں کا شاعر عرب میں نہیں، بلکہ ہندوستان میں رہتا ہے جہاں کی روایتِ فکر میں کرشن اور بھگوت گیتا دونوں کے اثرات شامل ہیں۔‘‘

 

Dr. Saud Alam
Dept of Urdu
C. M. College
Darbhanga- 846004 (Bihar)
Mob: 9818675498
saudalam1983@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...