سرزمین دکن نے اردو کے علمی و ادبی سرمائے کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔یہاں کے ارباب علم و دانش اور ماہرین فکر و فن نے ہر دور میں اپنی فہم و فراست کے ذریعے علوم و فنون کو تقویت بخشی اور دکن کے مختلف حصوں میں شعر و سخن کی آبیاری کی،لیکن ادارہ جاتی طور پر ادب اردو کو فروغ دینے میں جامعہ عثمانیہ کا اہم کردار ہے۔اس ادارے نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنا دخل اور اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ہے۔
ڈاکٹر زور نے اپنی
تحقیقی صلاحیتوں کی بدولت کم وبیش چاردہائیوں تک اردو زبان وادب کی خدمت کی۔ ان کی
ادبی خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت اردو کے بلند پایہ
محقق صاحب نظر نقاد اور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مؤرخ، مدون، شاعر اور
افسانہ نگار بھی تھے۔ ڈاکٹرزورکی ادبی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد علی
اثر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ان کی
اولوالعزمی صرف صفحۂ قرطاس تک محدود نہ تھی۔ وہ ایک باعمل اور فعال شخصیت کے مالک
بھی تھے۔ انھوں نے ایک طرف ایک پروفیسر،ایک پرنسپل اور ایک صدر شعبہ کی حیثیت سے
سیکڑوں تشنگانِ علم کی پیاس بجھائی تو دوسری اور نہ جانے کتنے ہی علمی،ادبی اور
تحقیقی اداروں کے مشیراور سرگرم رکن کی حیثیت سے اردو کی بقااورفروغ کے لیے ناقابل
فراموش خدمات انجام دیں۔‘‘1
ڈاکٹرزورکی اردو
دوستی کی مثال ان کی تدریسی مصروفیات،متعدد مضامین اور کتابیں لکھنے،دکنی ادب پر
تحقیق،مخطوطات حاصل کرنے کے لیے ریاست حیدرآباد کے باہر اپنے آدمی بھیج کر بے
شمار قلمی مسودے جمع کرنے، ’ادارۂ ادبیات اردو‘کی بنیادڈالنے اور ’سب رس‘ جیسے
علمی جریدے وغیرہ سے دی جاسکتی ہے۔انھیں دکنی ادب کے ساتھ ساتھ دکن کی ہر چیزسے بے
پناہ محبت تھی اور اسی محبت کی بنا پر سرزمین دکن سے تعلق رکھنے والے شاعروں اور
ادیبوں کی نگارشات کو آنے والی نسلوں کے لیے مخطوطات کے تذکرے کی شکل میں محفوظ
کرلیا۔ ڈاکٹر زور کے انھیں کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے سید حرمت الاکرام لکھتے
ہیں:
ڈاکٹرزورنے اردو
کے لیے صر ف شاعرانہ الفاظ میں نہیں حقیقی معنوں میں اپنا لہو دیا ہے۔‘‘2
جہاں تک
ڈاکٹرزورکی علمی وادبی خدمات کامعاملہ ہے انھوں نے علم وادب کے شعبے میں بے شمار
نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔لیکن ’ادارۂ ادبیات اردو‘ کاقیام ان کی زندگی کا
اہم کارنامہ ہے۔محمد اسحاق ایوبی کے الفاظ میں:
’’اگر چہ
ادارہ 1931میں وجود میں آگیاتھالیکن اس کے کتب خانے کی داغ بیل صحیح معنوں
میں1933 میں پڑی۔یہاں پانچ ہزارسے زائد مخطوطات اور تقریباً پچیس ہزار مطبوعات
محفوظ ہیں۔‘‘3
’ادارۂ
ادبیات اردو‘ میں عربی، فارسی، ہندی، سندھی، پنجابی، اردو اور خاص کر دکنی مخطوطات
کا ذخیرہ کثیر تعداد میں موجود ہے اور انھیں مخطوطوں کی بنیاد پراس ادارے کا شمار
دنیا کے چند اہم کتب خانوںمیں کیا جاتا ہے۔ ادارے میں محفوظ ایک ہزار قلمی کتابوں
کی فہرست چھ جلدوں میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔جن میں سے پانچ جلد1943
سے1959 کے درمیان شائع ہوئی ہیںجس میں ایک ہزار ایک سوپچاس مخطوطات شامل ہیں۔چھٹی
جلد1983 میں اکبرالدین صدیقی اورڈاکٹر محمد علی اثرکی کوششوں سے اشاعت پذیر ہوئی۔
اس سلسلے میںڈاکٹر محمد علی اثر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹرزورنے
ایک ہزارایک سو پچاس مخطوطات کی وضاحتی فہرستیں پانچ جلدوں میں1943 اور1959 کے
درمیان شائع کیں۔ پانچویں جلد کی اشاعت کے چوبیس سال بعد1983 میں محمد اکبرالدین
صدیقی مرحوم اور راقم الحروف کے اشتراک سے چھٹی جلد کی اشاعت عمل میں آئی۔‘‘4
’ادارۂ
ادبیات اردو‘ کے ’تذکرۂ مخطوطات‘کی پہلی جلد 1943 میں شائع ہوئی۔پہلی جلد 396 صفحات
پر مشتمل ہے۔اس جلد میں 275 مخطوطات کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ہے۔ 1984 میں پہلی جلد
کا عکسی ایڈیشن ’ترقی اردوبیورو‘ دہلی سے شائع ہوا۔ڈاکٹر محمد علی اثر کے مطابق
’’راقم الحروف نے استاد محترم پروفیسر مغنی تبسم کے زیر نگرانی ’تذکرہ مخطوطات‘ کی
پہلی جلدکو ترمیم و اضافے کے ساتھ مرتب کیا ہے‘‘۔5 اس جلد میں کچھ مخطوطات ایسے ہیں جودنیا کے کسی
اور کتب خانے میں دستیاب نہیں ہیں۔ تقریباً پچاس مخطوطے ایسے ہیں جو خود مصنف کے
ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔یہ مخطوطات صرف دکنی شعرا یاادبا کی تصنیفات وتالیفات
پرہی مشتمل نہیں ہیں بلکہ لاہور، دہلی،آگرہ، لکھنؤ،رام پور،بریلی،قنوج اور کلکتہ
جیسے شہروں کے شعرا وادیبوں کی قلمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ بعض مخطوطات کو یہ شرف
بھی حاصل ہے کہ وہ ’’فرمارواؤںمثلاً محمد قلی قطب شاہ والی گولکنڈہ، علی عادل شاہ
ثانی والی بیجاپور، عبد اللہ قطب شاہ والی حیدرآباد،واجد علی شاہ والی لکھنؤاور
نواب یوسف علی خان والی رام پور کے رشحات قلم ہیں۔6 اس جلد میں825ھ سے 1319ھ کے درمیانی دور کی تقریباً پانچ سوسال کی
کتابوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔
’تذکرۂ
مخطوطات‘کی دوسری جلد 1951 میں شائع ہوئی۔اس جلد میں 554 مخطوطات کو شامل کیاگیاہے
جس میں عربی کے 48، فارسی کے 250،اردو کے 251 اور ہندی کے 5 مخطوطات کو موضوع بحث
بنایا گیا ہے۔ ’تذکرہ مخطوطات‘کی پہلی جلد میں جتنی محنت اور جاں فشانی کے ساتھ
تمام مخطوطوں کا مختصر خلاصہ مصنف کے واقعات زندگی، کتاب کی قدروقیمت اور اس کے
ماخذوں پر جس مدلل اور مفصل انداز میںبحث کی گئی ہے وہ دوسری جلد میں خال خال نظر
آتی ہے۔کیوں کہ پہلی جلد کے مقابلے میں دوسری جلدکے مخطوطات کی ترتیب کاکام ڈاکٹر
زور نے بہت ہی روا داری اور عجلت میں کیاہے۔اس کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے جلد دوم
کے دیباچے میں ڈاکٹر زوررقم طراز ہیں:
’’کل ہند
اردو کانگریس کے انتظامات اور اردو انسائیکلو پیڈیاکی ترتیب میں ارباب ادارہ ایسے
مصروف ہوگئے کہ راقم الحروف بھی تذکرہ نگاری کے سلسلے کو جاری نہ رکھ سکا ہے۔…اب
نہ اتنا وقت تھااور نہ اگلی سی صحت، اس لیے ضروری معلوم ہواکہ کم سے کم وقت اور محنت
میں زیادہ سے زیادہ مخطوطات کا ایک اجمالی تذکرہ قلم بند ہوجائے۔اسی مقصد کو پیش
نظر رکھ کر ’تذکرۂ مخطوطات‘ ادارہ کی یہ دوسری جلد مرتب کی گئی ہے۔اس میں پانچ سو
قلمی کتابوں کی تفصیلات پیش نظر ہوگئی ہیں۔‘‘7
وقت کی قلت اور
ڈاکٹرزورکی تمام تر مصروفیات کے باوجود دوسری جلد کے ’تذکرۂ مخطوطات‘ کی اہمیت
اپنی جگہ مسلم ہے۔جلد دوم میں14 مخطوطات کے مصنّفین ہندو ہیں۔علاوہ اس کے 23
مخطوطات ایسے ہیںجن کے کاتب ہندو ہیں۔اس جلد کے نصف مخطوطات توایسے ہیںجن کے
کاتبوں کے نام معلوم نہیں ہو سکے ورنہ یہ فہرست اور بھی طویل ہوسکتی تھی۔مثال کے
لیے چند مخطوطات کے مصنفوں اور کاتبوں کے نام ملاحظہ ہوں ؎
نمبر شمار |
مصنف یا مولف |
نام کتاب |
نمبر مخطوطہ |
1 |
لالہ تلسی رام |
رقعات |
27 |
|
|
بھاگوت گیتا |
94 |
2 |
نہال چند لاہوری 1217 |
مذہب عشق (قصہ بکاؤلی) |
121 |
|
|
مذہب عشق دوسرا
نسخہ |
151 |
3 |
لکشمی ناراین
شفیق |
قصیدہ در جواب
سودا |
136 |
4 |
نیم چند
حیدرآبادی |
گل باصنوبر |
169)ب( |
چند مخطوطات ایسے
ہیں جن کے کاتب ہندو ہیں ملاحظہ ہو
؎
نمبر شمار |
نام کاتب |
نام کتاب |
نمبر مخطوطہ |
1 |
لالہ دولت
رائے1192
|
دیوان فارسی میر
تقی میر |
43 |
2 |
رادھا کشن1192 |
دیوان اردو میر |
44 |
3 |
منوہر لال1191 |
دیوان ولی |
112 |
4 |
سورج بھان
گوڑ1306 |
منتخب دیوان
ناظم |
342 |
درج بالافہرستوں
کے درپیش مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ کوئی بھی زبان وادب کسی بھی قوم ومذہب کی جاگیر
نہیں ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹرزورکے خیالات ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ امر
بطورخاص قابل ذکر ہے کہ اس جلد دوم میںبھی متعدد کتابیں ایسی ہیں جن کا تعلق کسی
نہ کسی طرح ایسے حضرات سے رہاہے جو مسلمان نہ تھے۔ان فہرستوں کے مطالعہ سے معلوم
ہوگا کہ علم وفضل اور شعروا دب کسی ایک مذہب وملت ہی کا ورثہ نہیںاور نہ کوئی زبان
ہی کسی ایک فرقے کی ملک رہ سکتی ہے۔‘‘8
مندرجہ بالا حوالے
سے ڈاکٹرزورکے زبان وادب اور مذہب کے حوالے سے ان کے خیالات واضح ہو جاتے ہیں اور
ان کے یہ خیالات ایسے لوگوں کے لیے ایک مستند جواب بھی ہے جو کسی بھی زبان وادب کو
کسی خاص قوم ومذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔
’تذکرۂ
مخطوطات‘کی تیسری جلد ساہتیہ اکیڈمی کے اشتراک سے1957 میں شائع ہوئی۔ تیسری جلد
میں بیشتر اردو مخطوطات ہی شامل ہیں۔890صفحات پر مشتمل اس جلد میں صرف 200مخطوطات
کو شامل کیا گیا ہے۔باوجود اس کے کچھ جلدیں اور بیاضیں ایسی ہیں جن میں ایک ساتھ
کئی شاعروں و ادیبوں کے کلام موجود ہیں۔جلد سوم میں شامل مخطوطہ نمبر700میں
تقریباً 50سے زائد شعرا کے کلام کا نمونہ موجود ہے۔بطور مثال مخطوطہ نمبر700میں سے
چند شعرا و ادبا کے نام ملاحظہ ہوں:
|
سلام و مراثی |
قبل از1200ھ |
1 |
راجہ مکھن لال
مکھن |
ایضاً |
2 |
میر محمد علی
محب |
ایضاً |
3 |
رحم علی |
ایضاً |
4 |
ولی |
ایضاً |
5 |
معزز خان معزز |
ایضاً |
6 |
بابا شاہ
ابراہیم |
ایضاً |
تیسری جلد کے
اشعار سے اردو ادب کے متعدد ایسے شعرا اور ان کے مجموعے منظر عام پر آئے جس سے
ادبی دنیا اب تک ناواقف تھی۔ایسے گمنام شعرا اور ادیبوں کو دنیائے اد ب سے واقف
کرانے کا سہرا ’ادارۂ ادبیات اردو‘ اور ’ڈاکٹر زور‘ کے سر جاتا ہے۔ان شعرا میں
چند نام بطور مثال ملاحظہ ہوں:
1 |
فدوی اورنگ
آبادی |
دیوان |
2 |
واجد دہلوی |
دیوان |
3 |
بسمل مدراسی |
بیاض |
4 |
ملک محمد جوہر |
مثنوی جوہر عشق |
5 |
خالق |
مراثی |
اس کے علاوہ بہت
سے مصنّفین کی نئی کتابوں کے مخطوطوں کا حال اس جلد میں شامل کیا گیا ہے۔جن میں:
ملک خوشنود |
بازار حسن اور
نور نامہ |
ضیاء الدین
پروانہ |
دیوان دوم وغیرہ |
اس کے علاوہ اس
جلد میں کچھ ایسے نسخے بھی شامل کیے گئے ہیں جو ہندوستان کے دیگر کتب خانوں میں
نہیں ملتے،البتہ یورپ کے کتب خانوں میں یہ نسخے موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ایک
مخطوطہ’ماہنامہ جوہر‘جس سے حیدر آباد کے تہذیبی و علمی ورثے پر روشنی پڑتی ہے،جلد
دوم کا دوسرا عکسی ایڈیشن 1984 میںترقی اردو بیورو،نئی دہلی سے شائع ہوا۔
تذکرۂ مخطوطات کی
چوتھی جلد ساہتیہ اکادمی کے مالی اشتراک سے 1958 میں منظر عام پر آئی۔ جلد سوم کی
طرح جلد چہارم میں بھی 200 مخطوطات کو شامل کیا گیا ہے، جن میں بیشتر مخطوطات اردو
کے ہیں یا پھرفارسی کے وہی نسخے شامل ہیں جنھیں اردو کے شاعروں یا ادیبوں نے لکھا
ہے یا پھر کچھ ایسے نسخے بھی شامل ہیں جو اردو کتابوں کے ساتھ ایک ہی جلد میں شامل
ہیں۔
تذکرۂ مخطوطات کی
چوتھی جلد میں اعلیٰ درجے کی خوش نویسی کے نمونے جابہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس
لحاظ سے چوتھی جلد کو دیگر جلدوں پر اہمیت و فوقیت حاصل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے
ڈاکٹر محمد علی اثر لکھتے ہیں:
’’ا س
جلدکے مخطوطات نمبر892 تا899 ایسے نارد و نایاب اور بیش بہا نسخے ہیں جن کی خطاطی
سورت کے محمد زاہد علی ولد حسن محمد نے کی ہے۔جو اعلا پائے کے خطاط تھے۔‘‘9
جلدچہارم کا دوسرا
عکسی ایڈیشن 1984 میں ترقی اردو بیورو،نئی دہلی سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔
1958 میں
چوتھی جلد منظر عام پر آئی اور اس کے ایک سال بعد 1959 میں تذکرۂ مخطوطات کی
پانچویں جلد ساہتیہ اکادمی کے مالی اشتراک سے شائع ہوئی۔جلد پنجم کے دیباچے میں
ڈاکٹر زور لکھتے ہیں:
’’مخطوطات
ادارۂ ادبیات اردو کی توضیحی فہرست کی یہ پانچویں جلد ہے۔اس میں 250 مخطوطات سے
بحث کی گئی ہے اور اس کی اشاعت کے بعد ادارہ کے جملہ 1150 مخطوطات کے بارے
میں تفصیلات(پانچ جلدوں میں)منظرعام پر آرہی ہے۔‘‘10
اگر پانچویں جلد
اور دیگر جلدوں کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو ہمیں مصنّفین کے حالات زندگی کے سلسلے
میں صرف ماخذوں کی نشاندہی ملتی ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر زور دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’اس امر
کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ دوسری جلدوں کی طرح اس پانچویں جلد میں بھی مخطوطوں کی
خصوصیات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مصنفوں اور شاعروں کے حالات کی تفصیلات نہیں دی
گئی ہے۔ان کے بارے میں صرف حوالوں اور ماخذوں کی طرف اشارہ کر دیاگیا ہے تاکہ
تحقیق کرنے والے اصحاب کتابوں تک پہنچ جائیں۔ان جلدوں کی ترتیب کا بڑا مقصد یہی ہے
کہ ادارے میں جو مخطوطے ہیں ان کی نسبت اہل ذوق اصحاب اور تحقیق سے دلچسپی رکھنے
والوں کو علم ہو جائے کہ ادارہ میں کیا کیا کتابیں موجود ہیں۔‘‘11
ڈاکٹر محی الدین
قادری زور نے اپنی پوری زندگی ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کر دی۔اس کی زندہ
مثال ادارہ ٔ ادبیات اردو کا قیام اور تذکرۂ مخطوطات کی توضیحی فہرست ہے۔تذکرۂ
مخطوطات جیسا مستند کام کرنے کے لیے انہوںنے رات دن ایک کر دیا تاکہ اردو اور دیگر
زبانوں کی مایۂ ناز تصانیف کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جا سکے۔ان کی
محنت اور جاں فشانی کو دیکھتے ہوئے محمد اسحق ایوبی لکھتے ہیں:
’’راقم
الحروف نے اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے کہ ڈاکٹر زور مخطوطوں کی چھان بین اور کھنگالنے
کا کام کس طرح انجام دیتے تھے۔ سیکڑوں سال پرانی کتابوں کے گرد و غبار، خطرناک
جراثیم اور ناگوار بوکسی بھی شخص کو ان سے متنفر کر سکتی تھی لیکن ڈاکٹر موصوف ان
’آثار الصنادید‘کی قدر و قیمت کو اچھی طرح جانتے تھے۔ یہ زیادہ تر انہیں کی
کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اردو ادب میں جنوبی ہند کی ناقابل فراموش خدمات کا اعتراف
سبھوں کو کرنا پڑا۔‘‘12
مجموعی طور پر یہ
کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ادارۂ ابیات اردو کے قیام سے نہ
صرف اردو ادب کی خدمات کا کارنامہ انجام دیا ہے بلکہ تذکرۂ مخطوطات کو ترتیب و
تدوین کے ذریعے اگلی نسلوں تک پہنچانے کا کا م کیا ہے۔وہ تاعمر اردو ادب کے
کلاسیکی سرمائے کی حفاظت کے لیے کوشاں رہے۔ان کے مطالعے کی وسعت اور تحقیقی صلاحیت
کا اندازہ لگانے کے لیے ڈاکٹر حرمت الاکرام کے یہ الفاظ قارئین کے لیے دلچسپی سے
خالی نہ ہوں گے:
’’یہ
مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ان کی دوسری تصنیفات و تالیفات سے قطع نظر اگر
حیدرآباداور باقی پورے ہندوستان کے مخطوطات ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیے جائیں
تو اس میں حیدرآباد سبقت لے جائے گاجس کا سہرہ زورکی ذات واحدکے سر ہے۔‘‘13
حواشی
- ڈاکٹرزور کے مرتبہ تذکرہ مخطوطات،ڈاکٹرمحمد علی اثر،مشمولہ ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور: حیات، شخصیت اور کارنامے،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2005،ص351
- ایضاً، ص352
- ڈاکٹر زور اور مخطوطات کے تذکرے،محمد اسحق ایوبی،مشمولہ سب رس زور نمبر،اکتوبر،نومبر، دسمبر 1963، ص220
- ڈاکٹرزور کے مرتبہ تذکرہ مخطوطات،ڈاکٹرمحمد علی اثر،مشمولہ ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور: حیات، شخصیت اور کارنامے،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2005،ص353
- ایضاً
- تذکرہ اردو مخطوطات جلد اول،اعظم پریس حیدر آباد، 1943،ص14
- تذکرہ اردو مخطوطات جلددوم،ترقی اردو بیورو ایڈیشن،ص25
- تذکرہ اردو مخطوطات جلددوم،ترقی اردو بیورو ایڈیشن،ص26
- ڈاکٹرزور کے مرتبہ تذکرہ مخطوطات،ڈاکٹرمحمد علی اثر،مشمولہ ڈاکٹرسید محی الدین قادری زور: حیات، شخصیت اور کارنامے،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2005،ص357
- تذکرہ اردو مخطوطات جلد پنجم،ترقی اردو بیورو ایڈیشن،ص5
- ایضاً،ص5-6
- ڈاکٹر زور اور مخطوطات کے تذکرے،محمد اسحق ایوبی،مشمولہ سب رس زور نمبر،اکتوبر،نومبر، دسمبر 1963،ص222-23
- ماہنامہ سب رس، 1963
Dr. Mohammad Sharib
Assistant Professor
P.G. Department of Language & Literature
Fakir Mohan University,
Balasore- 756089 (Odisha)
Mob.: 7032775100
Email: mohdsharibkhan54@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں