12/12/23

اکیسویں صدی میں ناول نگاری اور چند غیرمسلم ناول نگار : مدثر احمد گنائی

 

اردو کی ترقی اور آبیاری کے حوالے سے جہاں مسلم قلمکاروں نے اپنے قلم سے اس زبان کو وقار بخشا وہیں غیر مسلم قلمکاربھی اس میں برابر کے شریک رہے ہیں۔جہاں تک اردو ناول میں غیر مسلم ناول نگاروںکی بات ہے تو اس حوالے سے بھی ہمیں بہت سے اہم نام دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں پنڈت رتن ناتھ سرشار،پریم چند،کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی،جوگندر پال،کشمیری لال ذاکر وغیرہ اہم ہیں۔چونکہ اکیسویں صدی کو فکشن کی صدی کہا جاتا ہے اس لیے راقم نے اس مضمون میں موجودہ صدی کے غیر مسلم ناول نگاروں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

کشمیری لال ذاکر

کشمیری لال ذاکروادیِ کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک  تھے جنھوں نے اردو کی بیشتر اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے، انھیں اردو، ہندی اور پنجابی تینوں زبانوں پر دسترس تھی۔وہ بیک وقت ایک افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، خاکہ نگاراور ایک صحافی کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔مختلف موضوعات پران کی سو سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میںکئی افسانوی مجموعے، ناول، ڈرامے، خاکے اور شاعری وغیرہ شامل ہیں۔جہاں تک کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری کا تعلق ہے،  تو انھوں نے اردو ادب کو کئی اہم ناول دیے جن میں سندور کی راکھ، سمندر،صلیب اور وہ، انگھوٹھے کا نشان، کرماں والی، دھرتی سدا سہاگن، لمحوں میں بکھری زندگی، ڈوبتے سورج کی کتھا، آدھی رات کا چاند، لال چوک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔کشمیری لال ذاکر کے اکثر ناولوں میں کشمیر کی دیہاتی زندگی کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ چونکہ ناول نگار اپنے سماج سے جڑا ہوا ہوتا ہے اسی کے پیش نظر کشمیری لال ذاکر نے بھی کشمیر کے سماجی و سیاسی مسائل کو اپنے ناولوں میں برتنے کی کوشش کی اور ایک صحت مند سماج کی خواہش بھی کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں انھوں نے اردو ادب کو تین ناول دیے جن میں آخری ادھیائے، دردِ بے زبان اور لال چوک شامل ہیں۔ ’آخری ادھیائے ‘ کا موضوع ایڈز کی جان لیوا بیماری ہے۔  ناول میںمصنف نے قارئین کو ان بچوں کی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کی ہے جن کے والدین اس جان لیوا بیماری کے سبب انتقال کر گئے اور اپنے بچوں کو لاوارث اوربے یارو مددگار چھوڑ گئے۔ ناول کا پورا تانا بانا اسی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ناول ’دردِبے زبان‘ میں سکم کے پس منظر میں مہاتما بدھ کے پیغامات کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناول ’لال چوک‘ کشمیری لال ذاکر کا آخری ناول ہے جو 1914 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں کشمیری لال ذاکر نے اپنے وطن کشمیر کے سیاسی منظر نامے کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔کشمیر کے تشویش ناک حالات اور پنڈتوں کی ہجرت کے ساتھ ساتھ کشمیر کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو مصنف نے کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ ناول ایک کولاج بن گیا ہے۔

جوگندرپال

جوگندر پال بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور وہ ایک معتبر افسانہ نگار کی حیثیت سے اردو ادب میں جانے جاتے ہیں۔ موصوف اپنی فکر و نظر سے ہی اردو ادب میں پہچانے جاتے رہے ہیں۔ اردو ناول نگاری میں بھی جوگندر  پال نے اپنا ایک مخصوص اور منفرد اسلوب اختیار کیا ہے جو انھیں اپنے معاصر ناول نگاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے بہت سے افسانے، افسانچے اور چار ناول لکھے ہیں جن میں ایک بوند لہو(1963)، نادید(1983)، خواب رو(1991) اور پارپرے(2004) شامل ہے۔اکیسویں صدی میں ان کا واحد ناول ’پارپرے‘ شائع ہوا جس کا موضوع بحر ہند میں واقع جزیرہ انڈمان نکوبار کی سیلولر جیل ہے لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ ’پارپرے‘ کے تناظر میں موجودہ دور کے ہندوستان کی سماجی و معاشی، سیاسی، تہذیبی و تمدنی، فرقہ پرستی،قومی یکجہتی اور عصری حسیت جیسے متعدد سماجی مسائل کو زیر بحث لائے ہیں۔ جوگندر پال کے حوالے سے پروفیسر قدوس جاوید اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

’’یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جوگندرپال کے افسانوں اور ناولوں میں اساطیری اور آرکی ٹائپ کے دانشورانہ برتاو سے حقائق میں بڑی تہداری اور گہرائی پیدا کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔‘‘

(مشمولہ ریسرچ جنرل ’دستک‘ بنارس ہندو یو نیورسٹی،شمار9،2022)

جتیندر بلو

اردو میں بہت کم ایسے لکھنے والے ہیں جنھوں نے جس صنف کو بھی ہاتھ لگایا اس میں اپنی انفرادیت قائم کی،جتیندر بلو کا شمار بھی انہی اشخاص میں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے افسانہ اور ناول دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور دونوں میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ جتیندر بلونے طویل مختصر افسانوں کے علاوہ تین ناول پرائی دھرتی اپنے لوگ،مہانگر اور ’وشواس گھات‘ لکھے ہیں۔  ان کے پہلے دو ناول بیسویں صدی میں ہی منظر عام پر آئے ہیں لیکن ان کا تیسرا ناول 2004 میں شائع ہواجو ہر لحاظ سے ان کے پہلے دو ناولوں سے بہتر ہے۔اس ناول کا موضوع زندگی کی وہ سچائیاں ہیں جن سے انسان ہر لمحہ دو چار ہو جاتا ہے۔اصل میں ناول نگار انسان کے اندر کی لالچ اور خود غرضی کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے جس کے لیے وہ اپنوں کا ہی استحصال کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور ان کے ساتھ وشواس گھات کر دیتا ہے جس سے انسانی رشتوں میں شگاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں مقیم برصغیر کے لوگوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔چونکہ مصنف خود کافی عرصے سے لندن میں مقیم رہ چکے ہیں اس لیے ناول میں لندن کے ماحول کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ناول سے چند سطور ملاحظہ فرمائیں:

’’بیرون ملک میں سکونت اختیار کرنے پر اسے گہرا احساس ہو چکا تھا کہ مغربی طرز زندگی کس قدر انفرادی، پیچیدہ، تیزگام اور مصروف ترین ہے۔مقامی لوگ ’وقت‘ کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟اس کے ساتھ پیسہ، مادی آسائش اور ذاتی خواہشات کیوں جڑی رہتی ہیں۔اور لوگ ان سے الگ کیوں نہیں ہو پاتے؟‘‘

نند کشور وکرم

چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف نند کشور وکرم نے افسانہ نگاری، ناول نگاری اور صحافت نگاری جیسی اصناف کے ذریعے اردو ادب میں اپنی پہچان بنائی۔ انھوں نے جہاں اردو افسانے میں اپنا الگ رنگ اختیار کیا وہیں اپنے ناولوں کے ذریعے بھی قارئین کو متاثر کیا ہے۔ ان کے کل دو ناول شائع ہو چکے ہیں جن میں پہلا ناول ’یادوں کے کھنڈر‘ ہے جو 1961 میں شائع ہوا نیز ان کا دوسرا ناول ’انیسواں اد ھیائے‘ 2008 میں شائع ہوا۔ اکیسویں صدی کی ناول نگاری کے فروغ میں ان کا ناول ’آخری ادھیائے‘ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے اپنے عقیدے کو پیش کیا اور بعض فلسفیانہ سوالات بھی کھڑا کیے ہیں۔ناول میں انھوں نے معروضی حقیقت نگاری پر زور دیا ہے اور آفاقی باتوں کو مسترد کیا ہے۔ ان کا مانناہے کہ میں کسی نا دیدہ خدا کو نہیں مانتا بلکہ میرے لیے نیچر ہی میرا خدا ہے۔یہ پورا ناول مصنف کے عقیدے کو سامنے لاتا ہے جس میں مصنف اپنے عقیدے کو سائنسی نقطئہ نظر سے دیکھتا ہے اس لیے وہ زندگی کے پورے فلسفے کو سائنسی زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی سعی بھی کرتا ہے۔مصنف کے مطابق کوئی یم دوت، کوئی ملک الموت، کوئی فرشتہ یا عزرائیل انسان کی روح نہیں نکالتا ہے بلکہ یہ سارے فرضی کردار ہیں جن کو قدیم انسانوں نے لاعلمی کی وجہ سے خلق کیا ہے۔ موت، خدا، جنت، جہنم،مذہبی عقائد وغیرہ جیسے سوالات کے ارد گرد یہ پورا ناول گھومتا ہے جس میں انسان کے مذہبی عقائد کے بجائے سائنسی معروضیت کو ترجیح دی گئی ہے:

’’72-73سال کی زندگی میں وکرم صاحب نے زندگی کو جیسا دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا، زندگی سے متعلق جیسے جیسے سوالوں سے گزرے، وہ سارے سوال ’انیسواں ادھیائے‘ کے طور پر قاری کے سامنے رکھ دیے۔‘‘

)مشمولہ :اردو ناول کا تنقیدی جائزہ،احمد صغیر، ص 208(

انل ٹھکر

انل ٹھکر ایک ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت ایک ادیب بھی تھے اور ڈراما نگار بھی، افسانہ نگار بھی تھے اور ناول نگار بھی نیز ایک بہترین ہدایت کار بھی تھے اور ایک بہترین مصور بھی۔انھوں نے ناول نگاری کا آغاز ہی اکیسویں صدی میں کیا۔ ان کے چھ ناول منظر عام پر آچکے ہیں جن میں اوس کی جھیل (2002)، خوابوں کی بیساکھیاں(2008)، رشتے (2012)، گم شدہ شناخت(2014)، پس اشک(2017) اور گناہِ کبیر(2019) قابل ذکر ہیں۔اوس کی جھیل ہندوستانی معاشرت کے ہر پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ معاشرتی انحطاط اور سماجی برائیوں کی صاف جھلکیاں اس ناول میں دکھائی دیتی ہے۔ رشوت، سیاسی سازشیں، مہنگائی، افلاس، سکولوں اور کالجوں میں داخلے کے لیے دھاندلیاں، پرموشن سے لے کر دفتر کی فائل تک سب رشوت کے دلدل میں گرفتار ہیں۔گویا یہ پورا ناول سماجی حقائق کو تخلیقی انداز میں قاری کے سامنے لانے میں کامیاب ہوا ہے۔اس ناول کے بارے میں سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں:

’’مجھے خوشی ہے کہ اردو میں ایک اچھے ناول کا اضافہ ہو رہا ہے جو ہماری معاشرت جو ’اوس کی جھیل‘ بن چکی ہے،کے کئی پہلوؤں کو محیط کرتا ہے۔ناول دلچسپ ہی نہیں، فکر انگیز بھی ہے۔سلیقہ سے لکھا گیا اور اہتمام سے پیش کیا گیا ہے۔‘‘

   (اوس کی رات، ص 12)

پس اشک‘ میں موصوف نے مسلمانوں کے شرعی مسئلہ تین طلاق کو موضوع بنایا ہے۔ انل ٹھکر نے اس موضوع پر اس وقت قلم اُٹھایا جب کوئی بھی مسلم قلم کار اسے برتنے سے کتراتا تھا۔اسی طرح ان کے دوسرے ناول بھی اپنے اندر موضوع اور اسلوب کی ندرت رکھتے ہیں۔

آنند لہر

آنند لہر پیشے سے وکیل ہیں لیکن وکالت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے قلم سے ادبی حلقوں میں بھی اپنا نام منوایا۔وہ ایک افسانہ نگاراور ڈراما نگار کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے ناول نگار بھی ہیں۔کئی افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے اب تک پانچ ناول اگلی عید سے پہلے(1998)، سرحدوں کے بیچ(2000)، مجھ سے کچھ کہا ہوتا(2002)، یہی سچ ہے(2008) اور نام دیو(2012) شائع ہو کر داد حاصل کر چکے ہیں۔آنند لہر اپنے افسانوں اور ناولوں میں ملک کی سرحدوں پر جنگ ختم کرنے، انسانی قدروں کو فروغ دینے اور انسانیت اور بھائی چارگی کو بڑھاوا دینے پر زور دیتے ہیں کیو نکہ صوبہ جموں سے تعلق رکھنے کے سبب انھیں سرحد کے انتشار انگیز حالات کا بخوبی علم ہے۔ناول ’سرحدوں کے بیچ‘ میں انھوں نے اسی انتشار انگیز ماحول کو پیش کیا ہے نیز اس ناول میں انھوں نے ہندوستان کی تقسیم اور سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کے مسائل کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ دوسرے ناولوں سے قطع نظر ان کا اہم ناول ’نام دیو‘ اپنے علامتی اسلوب کے سبب ادبی حلقوں میں اپنی اہمیت قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ناول میں انھوں نے علامتوں کے استعمال سے انسانی زندگی اور جنسی نفسیات کے سلسلے میں خاص فضا تیار کی ہے۔

 رینو بھل

 رینو بہل کاناول ’میرے ہونے میں کیا بُرائی ہے‘ 2017 میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک انفراد کا پتہ دیتا ہے۔جو اپنی نوعیت کا شاید پہلا ایسا ناول ہے جس میںTransgender(خواجہ سراؤں)کی زندگی کے متنوع مسائل کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس طرح یہ ناول موجودہ سماجی صورت حال کی ترجمانی میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔

آشاپربھات

دھند میں اُگا پیڑ‘کے بعد آشا پربھات کا ایک اور ناول ’جانے کتنے موڑ‘ 2009 میںمنظر عام پر آیا۔اس ناول میں عورتوں کے ساتھ ہو رہے مظالم کو موضوع بنایا گیا ہے۔ناول کا موضوع مرکزی کردار ’لتا‘کے ارد گرد گھومتا ہے۔جس میں اس کی دو زندگیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ ناول میں بھی عورت قدیم رسوم و روایات کی پاسداری کے لیے مجبور نظر آتی ہے۔ناول میں اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ’لتا‘ کی طرح تہذیبی پاسداری کے جبر میں تقریباً ہر عورت اپنے ارمانوں کا قتل کرتی ہے۔خواہشات کو کچل دیتی ہے اور اپنے جذبات کا جنازہ نکالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اکیسویں صدی کے غیر مسلم ناول نگاروں میں بلراج ورما ’ شب تار‘ (2002)، ’گوتم ‘ (2004)  اوررتن سنگھ ’سانسوں کا سنگیت‘ وغیرہ قابل ذکر ہیںجو اردو ناول نگاری کو وسعت دینے میں ہنوز اپنا زور قلم صرف کر رہے ہیں۔الغرض مسلم ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ناول نگار بھی اکیسویں صدی کو فکشن کی صدی بنانے میں یکساں طور پر اپنا زور قلم صرف کررہے ہیں۔

 

Mudasir Ahmad Ganie

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Hyderabad

Hyderabad- 500046 (Telangana)

Mob.: 7006824655


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...