دارالمصنّفین اعظم گڑھ، قیام (1914)شبلی کی ہمہ جہت شخصیت کا فکری مرکز ہے اور ان کے بلند خوابوں کی حقیقی تعبیر بھی،یوں تو اس کا با قاعدہ قیام شبلی کی وفات کے بعد عمل میں آیا تاہم اس کا اصل اور بنیادی خاکہ شبلی کی زندگی میں ہی مرتب ہو گیا تھا،جس میں ان کے لائق شاگردوں، حمید الدین فراہی، سید سلیمان ندوی اور عبدالسلام ندوی کے ذریعے بعد میں مکمل رنگ بھرا گیااور اس طرح بقول خورشید نعمانی دارالمصنفین کے مقاصد حسب ذیل قرار پائے:
’’.1 ملک میں اعلیٰ مصنفین اور اہل قلم کی
جماعت پیدا کرنا۔
.2 بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور
ترجمہ۔
.3 تصنیف شدہ کتابوںاور دیگر علمی و ادبی
کتابوں کی طباعت و اشاعت کا سامان کرنا۔‘‘1
چونکہ شبلی عمدہ تحقیق،گہری
علمیت اور بہترین انشا پردازی کے نہ صرف یہ کہ نظری قائل تھے بلکہ زبردست عملی مثال
بھی تھے،یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رفقا نے دارالمصنفین کے مندرجہ بالا نظری مقاصد کے ساتھ
شبلی کی عملی کاوشوں کے تتبع کو بھی پیش نظررکھ کر آگے بڑھنے کی کوششیں کیں اوراسلامیات
و ادبیات کو مرکز بنا کر تاریخی،تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کی منفرد،متنوع اور جامع کتابیں
تصنیف کیں،جو نہ صرف یہ کہ اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی قدر و منزلت کی نگاہ
سے دیکھی گئیں اور تحقیقی ذوق کے لیے سامان تسکین بنیں۔آج بھی دارالمصنفین کی کیٹلاگ،
کتابوں کے مشتملات اور موضوعات کے تنوع کو دیکھ کر غیر معمولی حیرت ہوتی ہے۔ ذہن میں
یہ سوال بھی کوندتا ہے کہ کیا ایک ہی ادارے کے تمامتر افراد کی کاوشیں اتنی معیاری،تحقیقی
اور زبان و بیان کے اوصاف سے متصف ہو سکتی ہیں؟ اس کا جواب بھی ’اخلاص‘ اور
’اختصاص‘ جیسے الفاظ سے بن پڑتا ہے، ان الفاظ کے مکمل عناصر شبلی کے ساتھ ان
کے تربیت یافتگان میں یکساں طور پر پائے جاتے تھے،جس کی وجہ سے گرانقدر تصانیف کے غیر
معمولی ذخائرآج بھی علمی دنیا کے خوان نعمت کی زینت ہیں۔
دارالمصنفین کے اہم
معماروں اور رفقا میں سید سلیمان ندوی،عبدالسلام ندوی، شاہ معین الدین احمد ندوی، مسعود
علی ندوی،ریاست علی ندوی، سیدصباح الدین عبدالرحمن، ا بو الحسنات ندوی،ابو ظفر ندوی،عبد
الباری ندوی،سعید انصاری،عبد السلام قدوائی ندوی اور ضیاء الدین اصلاحی وغیرہ جیسے
اہم ناموں کے ساتھ ایک بہت ہی اہم اورمستند نام پروفیسر نجیب اشرف ندوی
(1900-1968)ـِِ کا بھی
ہے۔
نجیب اشرف ندوی ایک
طرف ندوۃ العلما لکھنؤ کے تعلیم یافتہ،شبلی کے فیض یافتہ اور سید سلیمان ندوی کے خاص
تربیت یافتہ تھے، تو دوسری طرف ان کا آبائی وطن دیسنہ،جائے پیدائش مہاراشٹر،اعلیٰ
تعلیم کے مراکز بہار، یوپی اور بنگال جبکہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے صوبے گجرات
اور مہاراشٹر تھے،اس طرح دیکھا جائے تو اہم ادارے سے استفادہ اور عظیم شخصیات کے زیر
تربیت ہونے کی وجہ سے ان کی علمی زندگی جہاں تحقیق کی گہرائی، تاریخ کی گیرائی اور
فکر کی بلندی کے اعتبار سے مضبوط، مستحکم اور پختہ نظر آتی ہے وہیں ملک کے الگ الگ
خطوں کی خصوصیات کو اپنے اندر جذب کر لینے کی وجہ سے ذہنی کشادگی،قلبی وسعت کے ساتھ
ان کی شخصیت بہت ہی معتدل اور متوازن معلوم ہوتی ہے،اس طرح کہنا چاہیے کہ دونوں ماحول
کے ملاپ سے جو آمیزہ تیار ہوتا ہے، اس سے نجیب اشرف ندوی کی علمی زندگی کے ساتھ شخصی
زندگی بھی ہم آہنگ نظر آتی ہے،جس کی کسی حد تک تائید صباح الدین عبد الرحمٰن کے ان
جملوں سے بھی ہوتی ہے:
ــ ’’ان کا
وطن بہار تھا،بچپن مدھیہ پردیش میں گذرا،تعلیم بنگال میں پائی،اپنی جوانی کے بہترین
ایام یوپی میں گذارے،ملاز مت بمبئی میں کی اور یہیں سپرد خاک بھی ہوئے، ان پانچوں صوبوں
میں رہنے کی وجہ سے ان میں پنچ شیل بے تعصبی،رواداری،فراخدلی،سیر چشمی اور حقیقت پسندی
آ گئی تھی۔‘‘2
نجیب اشرف ندوی کے
علمی کارناموں میں مقدمۂ رقعات عالمگیر 1926 اور رقعات عالمگیر 1926 کی تالیف کے ساتھ
لغات گجری 1962 کی تدوین اور مضامین و تراجم شامل ہیں، ابتدائی مضامین میں ’شیر شاہ
سوری‘ اور ’پان کی کہانی‘ اہم ہیں جو بقول ریاست علی تاج زمانہ کانپور 1916 اور پردہ نشین آگرہ 1920 میں شائع ہوئے3 عہدما قبل جوانی یعنی محض سولہ سے بیس
سال کی عمر میں تحریر کیے گئے یہ اور اس طرح کے دیگر مضامین نجیب اشرف ندوی کی دا رالمصنفین آمد کا سبب بنے،جس
کا اندازہ صباح الدین عبد الرحمٰن کے درج ذیل
جملوں سے لگایا جا سکتا ہے:
’’استاذی
المحترم نے ان کے جوہر کو اچھی طرح پرکھ لیا تھا اور اپنی محبت میں ان کو اپنا چھوٹا
بھائی کہتے تھے گو وہ سگے بھائی نہ تھے،انھوں نے ان کو دارالمصنفین اعظم گڑھ بلا لیا۔‘‘4
دارالمصنفین کی آمد
سے لے کر زندگی کے آخری پڑائو تک کے دورانیہ کو،علمی کارناموں کے اعتبار سے ریاست
علی تاج نے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور: 1921تا 1930 رفیق دار المصنّفین کی حیثیت سے۔
دوسرا دور: 1930 تا 1950 پروفیسر اردو کی حیثیت سے
تیسرا دور: 1950 تا دم آخر،اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی
کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے۔
مذکورہ تینوں ادوار
میں پہلے دس سالہ دور کو نجیب اشرف ندوی کے علمی اور تحقیقی کارناموں کے دور زریں سے
موسوم کیا جا سکتا ہے،دوسرے بیس سالہ دور میں وہ ایک کامیاب استاذ کی حیثیت سے تو نمایاں
نظر آتے ہیں لیکن بحیثیت محقق اور مئورخ اس سطح پر نظر نہیں آتے جس سطح پر ما قبل
کے تناظر میں ان سے امید کی جا سکتی تھی،اس دور میں انہوں نے اہم لیکچرز کے ساتھ ساتھ
مضامین و مقالات بھی قلمبند کیے لیکن ایک آدھ کو چھوڑ کر یہ مضامین معیار کے اعتبار
سے ان کی علمی زندگی کا شناخت نامہ نہیں بن سکے،جن کی طرف صبا ح الدین عبد الرحمن کے
مبنی بر شکوہ جملے کچھ اس طرح اشارہ کرتے ہیں:
’’ہندوستان
کے علمی ماحول کا یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ یو نیورسٹی میں آکر کوئی ٹھوس علمی کام کرنا
بھی چاہتا ہے تو نہیں کر پاتا،اسی لیے علمی اداروں کے بوریہ نشین اپنی بے سرو سامانیوں
اور مالی پریشانیوں کے باوجودجو کام کر جاتے ہیں وہ یو نیور سٹیوں اور کالجوں کے بڑے
آرام دہ ایوانوں میںنہیں ہو پاتے۔۔۔۔اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ علمی قوت حیدری کا بھی
مدار نان شعیر ہی پر ہے۔‘‘5
صبا ح الدین عبدالرحمن
کے مذکورہ جملوں میں بلا شبہ اختلاف کی گنجائش ممکن ہو سکتی ہے تاہم بحیثیت مجموعی یہ جملے سنجیدگی کے ساتھ غور
و فکر کے متقاضی بھی ہیں۔البتہ نجیب اشرف ندوی کے علمی کارناموں کے تیسرے دور کو با
لمقابل دوسرے دور کے اس اعتبار سے بہتر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ان کی علمی زندگی
کا رخ دوبارہ تحقیقی کاوش کی طرف مڑتا نظر آتا ہے،جس کی عملی شکل کے بطور ،لغات گجری،
کی تدوین کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
علمی کارناموں کے تینوں
ادوار کی روشنی میں چند قابل غور پہلو بھی سامنے آتے ہیںوہ اس طور پر کہ انھوں نے
تدریسی دور کے ما قبل اور ما بعد کے ادوار کو ہی علمی کاوش اور تحقیقی جد و جہد کے
لیے مختص کیا،اس کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں۔
.1 وہ تحقیقی کاوش اور تدریسی عمل کے اشتراک کو بہتر نہ تسلیم کرتے ہوں
.2 دونوں کے ساتھ انصاف نہ کر پانے کے ڈر
سے خود کو اس کا متحمل نہ سمجھتے ہوں
.3 یا پھر انھیں یہ لگتا ہو کہ دونوں پر
وقت صرف کرنے کی وجہ سے اختصاص کی عمارت میں شگاف پڑ سکتا ہے۔
مندرجہ بالا توجیہات
اس لیے بھی بہت حد تک مناسب معلوم ہوتی ہیں کہ نجیب اشرف ندوی کا ایک نظریہ ز ود نویسی
کی نا پسندیدگی کا بھی ہے ،جس کو عبد الستار دلوی کے ان جملوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا
ہے :
’’وہ اپنے
طالب علموں سے یہی چاہتے تھے کہ وہ کوئی ایک پائیدار اور ٹھوس کام کریں انتقال سے تقریباً
دو سال قبل مجھ سے انہوں نے کہا تھا،بیٹے! زود نویسی اچھی بات نہیں ہے،کوئی ایک کتاب
لکھ کے پھینک دو،یہی بڑی خدمت ہوگی۔‘‘6
محولہ بالا جملوں سے
کسی حد تک اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم بہت
حد تک اتفاق اس طور پر موزوں متصور ہوتا ہے کہ زود نویسی میں بیشتر تخلیق کاروں اور
محققین کا اپنی تمامتر تخلیقات اور تصانیف کے ساتھ مکمل انصاف ممکن نہیں ہو پاتا ہے،جس
کی وجہ سے بعض دفعہ فن کا قتل بھی ہوتا ہے،خیالات بھی تکرار کی منزل کو پہنچتے ہیں
اور تحقیق کی دقت نظری میں کمی بھی آتی ہے،ہاں!
البتہ مستثنیات تو ہر صورت حال کالازمہ ہیں۔
زود نویسی کی نا پسندیدگی
پر مبنی نجیب اشرف ندوی کے یہ جملے خود ان کی تحقیقی کاوش کے لیے موزوں ہیں،وہ عملی
طور پر زود نویس نظر نہیں آتے،یہی وجہ ہے کہ
تصنیف و تالیف کی دنیا میں ان کے یہاں
لفظ کثرت کے بجائے قلت کی حکمرانی نظر
آتی ہے لیکن اس قلت میں تحقیقی اور تاریخی کثرت اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ اس طرح
موجود ہیں کہ ان کی تصانیف کئی اہم اور ضخیم تصانیف کو اپنے اندر جذب کرتی ہوئی محسوس
ہوتی ہیں،نتیجتاً اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ قلت کو کثرت سے مبدل کرنے کی سوچ
سے با لا تر ہو کر نجیب اشرف ندوی نے ایک وقت میں ایک ہی عمل کی انجام دہی کو اپنے
لیے بہتر سمجھا ہو۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا
جا چکا ہے کہ نجیب اشرف ندوی کے علمی کارناموں کا دور زریں دارالمصنفین کا دس سالہ
دور ہے۔
اس دور کے مضامین بھی
تحقیقی اعتبار سے اہم ہیں جن میں تاریخ الدو لتین (1922)، کیا داراشکوہ مسیحی مرا۔؟
(معارف،اپریل 1928)، ایک تاریخی معمہ (معارف،
ستمبر 1928)، دو اہم تاریخی دستاویز (معارف،مارچ
1928)، اردو اور ہندو (معارف،اپریل1928)،اختیا رات بدیعی ( معارف،مارچ 1928)، اور تنقید
پنجاب میں اردو (معارف،اگست 1928 )وغیرہ شامل
ہیں۔
حافظ محمود شیرانی
کی معروف کتاب ’پنجاب میں اردو‘ پر نجیب اشرف ندوی کا بہت ہی اہم،تحقیقی اور معلوماتی
مضمون ہے،یہ جولائی 1928 کے معارف میں ذیلی عنوان ’مقالات‘ کے تحت شائع ہوا،اس میں علمیت،
دقت نظری،تحقیق کی گیرائی اور لسانی نقطئہ نظر کا بھی بہترین ثبوت دیا گیا ہے۔
اس مضمون کی خاص بات
مضمون نگار کی سنجیدگی، متانت، اور معتدل مزاجی جیسی صفات ہیں،اس کو اس پہلو سے بھی
دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں اردو 1928 میں منظر عام پر آئی یہ وہ وقت ہے جب مصنف
کی اس سے قبل کی تصنیف ’تنقید شعر العجم‘عروج کی منزل پر تھی،جس میں شبلی کی شاہکار
پر تحقیقی اور تنقیدی نقطئہ نظر سے اہم بحث کی گئی تھی،ایسے میں فطری تھا کہ اپنے محسن
اور مربی کے شاہکار پر تنقید کی وجہ سے نجیب اشرف ندوی کے اندر ایک قسم کی جذباتیت
اور رد عمل کی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی تھی،اس
کی ایک وجہ تو ’تنقید شعر العجم ‘ ہی ہو سکتی
تھی لیکن دوسری ایک اور وجہ جو جذباتیت کا
سبب بن سکتی تھی وہ عمر کے اعتبار سے عین جوانی کی منزل ہے۔واضح رہے کہ اس مضمون کی
اشاعت کے وقت بقول صباح الدین عبد الرحمٰن
’’نجیب اشرف ندوی اپنی عمر کے 28 ویں پڑائو میں تھے‘‘،ایسے میں جذباتیت سے قطع
نظر مضبوط استدلا لات اور قطعیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مضمون کو آگے بڑھانا تحقیق
کی بلند تر منزل کو واضح کرنا ہے۔
اس مضمون میں لفظ اردو
کے اولین استعمال،زبان کے معنی میں باقاعدہ مستعمل اور پنجابی گرامر کے الفاظ کی دلیل
کا رد جیسی چیزوں کو لے کر جس طرح سوالات قائم
کیے گئے ہیں یا بعض خامیوں کی جس انداز میں نشاندہی کی گئی ہے ساتھ ہی کچھ اضافی چیزیں
بھی جس طر ز پرشامل کی گئی ہیں،ان سب کے پیش نظر ڈاکٹر مسعود حسین خان کی،مقدمئہ تاریخ
زبان اردو،بہت حد تک اس مضمون کی توسیع نظر آتی ہے گو کہ مقدمے کی تفصیلات،استدلالات
اور سائنٹفک انداز کافی مضبوط،ترقی یافتہ اور Updatedہیں، اس کی وجہ ڈاکٹر مسعود حسین خان کی اسی موضوع پر
باقاعدہ تحقیق ہے لیکن نجیب اشرف ندوی نے صرف
ایک کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بھی ایسی جو کہ پہلی مرتبہ نئے انداز میں اردو کے
لسانی مباحث کو کسی قدر سائنٹفک انداز میں پیش کر رہی تھی،اس پر صرف ذاتی مطالعے کی
روشنی میں گفتگو اور محاکمہ کیا جو بہت ہی قابل قدر بات ہے
جس سے اس مضمون کی تحقیقی اور لسانی حیثیت مسلم ہو جاتی ہے۔
بلا شبہ اردو زبان
کے تاریخی اور لسانی مباحث کے ذیل میں دیگر اہم تصانیف کے ساتھ قدامت اور عمدگی کی
وجہ سے اس مضمون کی بھی اپنی خاص اہمیت ہے،اس کے ساتھ نجیب اشرف ندوی کی تحقیقی کاوشوں
کا اہم ترین مظہر،لغات گجری،کی تدوین بھی ہے،اس
کا مواد انہوں نے پنجاب میں اردو پر مضمون تحریر کرنے کے دوران ہی اکٹھا کیا تھا جس
کی مزید توسیع 1962 میں ہو سکی جس کا تذکرہ لغات گجری کے دیباچے میں درج ذیل الفاظ
کے ذریعے کیا گیا ہے:
’’1928 میں جب
محمود شیرانی مرحوم کی تاریخ آفریں کتاب،پنجاب میں اردو،شائع ہوئی تو میں دارالمصنفین
کے رفیق کی حیثیت سے کام کر رہا تھا،یہ کتاب مجھے تبصرے کے لیے دی گئی۔میں نے اس کا
با لاستیعاب مطالعہ شروع کیا اس میں امیر خسرو سے منسوب جن خیالات کا اظہار کیا گیا
تھا انہوں نے مجھ میں قدیم اردو الفاظ و زبان
کے مطالعہ کا شوق پیدا کر دیا۔‘‘7
’ لغات گجری
‘ در اصل نصاب نامہ کی طرز پر ایک نا معلوم
مصنف کا قدیم مخطوطہ تھا،جس کی دستیابی کے بعد
داخلی شہادتوں،تاریخی تناظر،باریک بینی پر مبنی تحقیقی مطالعہ اور علم لغت (Lixiography)کی مدد سے پروفیسر نجیب اشرف ندوی نتیجے کی
اس منزل پر پہنچے کہ ’لغات گجری‘کی حیثیت نصاب نامہ سے زیادہ اردو کی قدیم لغت کی ہے، اس طرح کئی برسوں کی تحقیقی
کاوش،علمی و عملی جد و جہد اور معاونین کے عملی تعاون سے 232صفحات پر مشتمل اس کے متن کی ترتیب پایئہ تکمیل
کو پہنچی،جس پر 50صفحات پر مشتمل عالمانہ مقدمہ
لکھ کر نجیب اشرف ندوی نے قدر و قیمت میں اضافے کے ساتھ متن کو تاریخی اعتبار سے استناد
کا درجہ اس طور پر عطا کر دیا کہ اس سلسلے یا اس طرز پر کام کو توسیع بخشنے کے ضمن
میں یہ معتبر حوالہ تسلیم کیا جا سکتا ہے،مقدمہ کے مشتملات کی جزئیات کے ذیل میں نجیب
اشرف ندوی نے ’لغات گجری‘کی اہمیت و ضرورت،
اردو کے ابتدائی نصاب ناموں کی تفصیلات اور
موجود متن کے تاریخی مباحث،لسانی خصوصیات
اور جغرافیائی تناظرات پر تجزیہ نگاری کے ساتھ جملے صرف کرنے کی کوشش کی ہے،ساتھ ہی اردو کے حوالے سے گجرات کی اولیت کو بھی مرکز نگاہ
بنانے پر انھوں نے کافی توجہ صرف کی ہے،مجموعی حیثیت سے ’لغات گجری‘کی تدوین نجیب اشرف ندوی کا اہم علمی کارنامہ ہے،جس کا اعترافیہ
شاہ معین الدین احمد ندوی کے یہ الفاظ بھی
ہیں :
’’گجری لغات
کی تصحیح و اشاعت،خصوصاً اس کا فاضلانہ مقدمہ ان کا ایک علمی کارنامہ ہے۔‘‘8
مضامین کے ذیل میں
’تنقید پنجاب میں اردو‘ کے علاوہ دیگر مضامین بھی اہم ہیں،تحقیقی اشتراک کے باوجود
ان تمام کی نوعیتیں مختلف ہیں اور براہ راست اردو کے تحقیقی و لسانی مشتملات سے علاقہ
بھی نہیں رکھتے جبکہ مضمون ’تنقید پنجاب میں
اردو‘ اردو کے تاریخی، مذہبی، تہذیبی اور لسانی مضمرات سے مملو ہے،مذکورہ کارناموں
کے تدریجی ارتقا اور باہم ادغام و اشتراک کی توجیہ یوں بھی موزوں متصور ہوتی ہے۔ ’تنقید پنجاب میں اردو‘ میں ایجاز کے لبادہ ہے میں
اس طرح ملبوس ہوا کہ قرات کے دورانیے میں ایسا
محسوس ہوتا ہے فاضل مضمون نگار نے متعلقہ مضمون
کی کسی کتاب کو Minimizeکر کے مضمون
کا پیرایہ عطا کر دیا ہو،اس کی وجہ غیر معمولی مواد کا تمامتر Dimensions کے ساتھ مضمون میں آمیز ہونا ہے،اسی مضمون
کے لیے حاصل شدہ مواد پر ’لغات گجری‘ کی تدوینی تعمیر اس بات کی غماز نظر آر ہی ہے
کہ یہ ایجاز پھر سے تدریجی طور پر اطناب کی طرف منتقل ہو گیا یعنی اس مضمون کے مواد
کو Maximize کر کے ایک اہم کتاب کی منزل پر پہنچا دیا گیا ہے جس کا
اشارہ ذکر کردہ دیباچے کے اقتباس میں بھی پنہاں نظرآرہا ہے
خلاصہ،یہ کہ نجیب اشرف
ندوی کی تمامتر تصانیف اور بیشتر مضامین میںجو
چیزیں یکساں طور پر پائی جاتی ہیں ان میں علمی مباحث،تحقیقی متانت،طبیعت کی سنجیدگی،
مدلل حوالے،زبان کی میانہ روی اور جذباتیت سے اجتناب جیسے اوصاف نمایاں ہیں،یہی وجہ ہے کہ ما ضی کے علمی
سرمایوں سے استفادہ کے ذیل میں نجیب اشرف ندوی
کے سرمایوں سے استفادہ اور ان سب کو نئی قرات سے گذارنا بھی علمیت کے مراحل
کے لیے ضروری متصور ہوتا ہے۔
حواشی
- خورشید نعمانی ردولوی،پروفیسر،دارالمصنّفین کی تاریخ اور علمی خدمات(اول) اعظم گڑھ،شبلی اکیڈمی،2003، ص 37
- صباح الدین عبدالرحمٰن سید، آہ! نجیب اشرف صاحب ندوی (مضمون) مشتملہ،ممبئی،نوائے ادب، جنوری 1969 ، ص 17
- ریاست علی تاج،نجیب اشرف ندوی شخصیت اور کارنامے، حیدر آباد،مکتبۂ شعر و حکمت،جنوری 1981، ص 101
- صبا ح الدین عبد الرحمن سید،آہ! نجیب اشرف صاحب ندوی (مضمون)مشتملہ ممبئی،نوائے ادب،جنوری 1969 ص7
- ایضاً
- عبد الستار دلوی،پروفیسر،مقالات پروفیسر نجیب اشرف ندوی، ممبئی،انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مارچ 2013، ص19
- ندوی،نجیب اشرف، لغات گجری، ممبئی، ادبی پبلشرز، شیفرڈ روڈ،1962 ماخوذ از دیباچہ صفحہ اول
- ماہنامہ شاعر،ممبئی،نومبر1968 ص55، بحوالہ سید نجیب اشرف ندوی،شمیم طارق،ساہتیہ اکادمی2006ص 56
Md.
Furquan Alam
E-2/4,
Okhla Vihar, Jamia Nagar
New
Delhi- 110025
Mob.: 8800514745
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں