14/1/24

ممبئی میں منعقدہ قومی اردو کتاب میلہ تاریخ ساز کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر کتاب و زبان سے محبت کرنے والے اہالیانِ ممبئی نے یہ ثابت کردیا کہ اردو کا مستقبل تابناک ہے : پروفیسر دھننجے سنگھ


ممبئی : قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام اور انجمن اسلام کے اشتراک سے  ممبئی کے بی کے سی گراؤنڈ میں 6 جنوری سے جاری کتاب میلہ 14 جنوری کو اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ میلہ کئی اعتبار سے منفرد اور کامیاب ترین ثابت ہوا۔ اس میلے میں خصوصا ممبئی کے اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے مجموعی طور پر پچاسوں ہزار کی تعداد میں شرکت کی اور کتابوں سے اپنی بے مثال محبت کا ثبوت دیا، خواتین بھی جوق درجوق اس میلے میں شریک ہوئیں، ان کے علاوہ مختلف اداروں اور انجمنوں نے بھی اس میلے میں غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا ۔

آج ایک عظیم الشان اختتامی اجلاس کا بھی انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر دھننجے سنگھ نے کی ، مہمان خصوصی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن اور نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز کے ممبر پروفیسر شاہد اختر، جبکہ مہمان اعزازی ڈاکٹر ظہیر قاضی، کونسل کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر محترمہ شمع کوثر یزدانی اور اجمل سعید تھے۔ نظامت کتاب میلے کے مقامی کوآرڈینیٹر امتیاز خلیل نے کی۔

انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے اس اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخ ساز کتاب میلہ ہے، جس نے ممبئی کے سابقہ کتاب میلوں کے تمام ریکارڈز توڑ دیے اور ممبئی کے‌ علاوہ دور دراز کے شہروں اور گاؤوں سے بھی لوگ صرف اس میلے میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اس میلے میں ممبئی کے اسکولوں کے طلبہ و اساتذہ نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی،  جس‌ سے ان کی زبان و ادب سے‌‌ محبت جھلکتی ہے ۔  انھوں نے ان تمام طلبہ، اساتذہ، اسکولوں کے ذمے داران اور میلے میں آنے والے سبھی شائقینِ اردو زبان کا شکریہ ادا کیا ۔ پروفیسر شاہد اختر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی کے اس تاریخی اور یادگار کتاب میلے میں شرکت کرکے مجھے بہت مسرت ہورہی ہے اور میں اہالیان ممبئی کو اردو سے اس غیر مشروط محبت کے اظہار کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ کتاب میلوں کا عوام کو کتابوں سے جوڑنے میں اہم رول ہے ، اس لیے اس کا انعقاد ہر تین چار ماہ میں کیا جانا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ کتاب کلچر فروغ پا سکے۔ انھوں نے میلے کے انعقاد کے لیے ممبئی کے انتخاب پر کونسل کے ڈائرکٹر و ذمے داران کی ستایش کی کہ انھوں نے ہندوستان کے سب سے بڑے صنعتی و ثقافتی شہر کا انتخاب کیا۔  پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ کونسل اور انجمن کے ذریعے منعقدہ یہ میلہ واقعی ایک میلہ ہی ہے ، جس میں لاکھوں کتابوں کی نمایش کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو کسی کے کہنے سے‌ زندہ نہیں ہے ، اس کے اندر خود اتنی قوت ہے کہ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس نے اپنی نئی نئی بستیاں بنالی ہیں۔ اردو میں ایسی شیرینی ہے، ایسی موسیقیت ہے کہ یہ سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے، اس لیے یہ زبان کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے بڑے ہی خوب صورت انداز میں اردو شاعری کی خوب صورتی، اردو لفظوں کی شیرینی ، اس کی وسعت پذیری اور ہر دل عزیزی پر روشنی ڈالی۔

پروفیسر دھننجے سنگھ نے اس میلے کی رنگارنگی اور اس کے تئیں اردو دوستوں کے والہانہ پن کے تئیں اپنی بے پناہ فرحت و مسرت کا اظہار کیا ۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے کہا کہ یہ ہندوستان کی مٹی میں ، اس کی فضاؤں میں گھلی ہوئی ہے۔ انھوں نے اس میلے میں بچوں کے جوش و خروش پر خصوصی مسرت ظاہر کی اور ان کی شایستگی، علم کی تشنگی اور جذبے کی ستایش کی۔ انھوں نے کہا کہ ممبئی کے اس کتاب میلے نے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ انھوں نے انفرادی و اجتماعی تعمیر و ترقی میں کتابوں کے رول کا بھی خصوصی ذکر کیا۔ پروفیسر سنگھ نے کونسل کے متعلقہ اسٹاف، انجمن اسلام، دیگر تمام معاون اداروں، صحافیوں، پبلشرز اور شائقین کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔اس موقعے پر سیفی بک ایجنسی کے سربراہ جناب سیفی نے‌ کتاب میلے کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کونسل نے اس میلے کا انعقاد کرکے ہمیں کتابوں کی نمایش کا بہت قیمتی موقع عنایت جس کے لیے ہم‌ شکر گزار ہیں ۔ اس اختتامی اجلاس کا اختتام کونسل کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر محترمہ شمع کوثر یزدانی کے اظہارِ تشکر پر ہوا ۔  

اس موقعے پر میلے کے دوران طلبہ و طالبات کے مابین سائنس کمپٹیشن، حب الوطنی گیتوں، بیت بازی، مباحثہ اور مونو ایکٹنگ کے مقابلوں میں اول ، دوم اور سوم انعامات حاصل کرنے والے بچوں اور بچیوں کو بالترتیب پانچ ہزار، تین ہزار ، دو ہزار اور ایک ایک ہزار کے تشجیعی انعام سے نوازا گیا۔ میلے میں کتابوں کے بیسٹ کلیکشن کا ایوارڈ الحسنات بک پرائیویٹ انٹرپرائز لمیٹڈ کو دیا گیا ، جبکہ کتابوں کی بہتر نمایش کا ایوارڈ ایم آر پبلی کیشنز کو ملا ۔ اس میلے کے انعقاد میں معاونت کرنے والے اداروں کو بھی نشان اعتراف سے نوازا گیا۔ قبل ازاں 'ہندی فلموں کا اردو ادب' کے عنوان سے ایک مذاکرے کا انعقاد ہوا جس کی نظامت مشہور شاعر و آئی پی ایس افسر خالد قیصر نے کی ۔ اس مذاکرے میں روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر شاہد لطیف نے فلموں کی بگڑتی ہوئی زبان پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ چوں کہ فلمیں معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں اور چوں کہ ہمارے معاشرے میں زوال آگیا ہے، تو اس کا اثر فلموں کی زبان اور گانوں پر بھی ہوا ہے۔ مکالمے یا گانوں میں مختلف زبانوں کا اختلاط بھی ایک مسئلہ ہے، جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔  انھوں نے کہا کہ ہمیں زبان کے معاملے میں حساس ہونا چاہیے۔   معروف سکرپٹ رائٹر و فلم ساز رومی جعفری نے کہا کہ فلموں میں لکھی جانے والی زبان میں کیرکٹر کو خاص طور پر دھیان میں رکھا جاتا ہے۔ کیرکٹر جس علاقے کا ہے اسی طرح کی بولی استعمال کی جاتی ہے، مگر جو عمومی بول چال استعمال ہوتی ہے وہ اردو ہی ہے جسے ہندی یا ہندوستانی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ عام بول چال کی زبان ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلموں نے اردو ادب کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے، ان کی وجہ سے ایسے علاقوں کے لوگ بھی اردو بولتے ہیں ، جہاں کی زبان اردو نہیں ہے۔مشہور اداکار جاوید جعفری نے کہا کہ اردو کی حصے داری ہندوستانی سنیما میں بہت اہم ہے اور آج انٹرنیٹ کی وجہ سے نئی نسل بھی اس طرف توجہ دے رہی ہے اور بچے اردو سیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے تلفظ کے حوالے سے کچھ مشکلات کا بھی ذکر کیا ۔ انھوں نے کہا کہ چوں کہ آج کا دور نہایت تیزی رفتار ہے ایسے میں ہم لوگوں پر دباؤ تو نہیں ڈال سکتے ، ہاں اپنی کوشش کرسکتے ہیں کہ اپنی زبان اور تہذیب کا تحفظ کریں۔ دانش جاوید نے کہا کہ ہندوستان کی پہلی بولتی فلم اردو میں تھی، زمانہ آگے بڑھتا رہا اور مختلف زبانوں میں یہ سفر جاری رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلموں اور ادب و زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

آج کے آخری سیشن  میں قومی مشاعرے کا انعقاد ہوا، جس کی نظامت خالد قیصر نے کی اور اسلم حسن، عزم شاکری، گوند گلشن، جیوتی ترپاٹھی، کنور رنجیت چوہان، خان شمیم، عبید اعظم اعظمی ، پرگیہ شرما، قمر صدیقی، راشد دموی، رفیعہ شبنم عابدی، رحمن مصور، سمیر سامنت، شاہد لطیف اور ذاکر خان ذاکر نے اپنا منتخب کلام پیش کیا۔ مشاعرے سے ہزاروں سامعین محظوظ ہوئے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ظفر گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری میں مٹی کی مہک، مضمون نگار: اشتیاق سعید

  اردو دنیا، نومبر 2024 ظفر گورکھپوری... درمیانہ قد، دھان پان جسم، کُشادہ پیشانی، سوچتی آنکھیں، بے لوث دِل، خوش مزاج طبیعت اور مکر و فریب...