شکیلہ اختر کا شمار
اردو کے ان ابتدائی دور کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے افسانوں میں
عصری مسائل کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ خصوصی طور سے خواتین کے مسائل
اور ان میں بھی خاص طور سے بہار کے پس منظر میں عورتوں کے حالات اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو جتنی بہت خوبصورتی سے شکیلہ اختر
نے پیش کیا ہے۔ شکیلہ اختر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے دیہات
کی زندگی، لوگوں کے سماجی مسائل، زمیں دارانہ نظام، استحصال، بھوک افلاس،فاقہ کشی،
مزدوروں اور کسانوں کا استحصال، عورتوں کی گھریلو زندگی اور ان کے ساتھ ہونے والی تفریق،
ان کی نجی زندگی کے اتار چڑھاؤ، ان کے ذہنی، جسمانی اور جنسی استحصال پر بہت بے باکی
سے لکھا ہے۔ بعض اوقات ان کا یہ انداز بہت تلخ ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ
ہے کہ ان کے افسانے ان کے دور کی روداد ہیں۔ شکیلہ اختر نے اپنے گردوپیش میں جو کچھ
بھی دیکھا اسے الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ ملک کے عصری مسائل سے انھوں نے اپنے افسانوں
کا خمیر تیار کیا۔ موضوع خواہ کچھ بھی ہو جو بھی لکھا حقیقی انداز میں لکھا اور موضوع
کے ساتھ مکمل انصاف کیا۔ انھوں نے گھسے پٹے موضوع کی جگہ زندہ اور ایسے موضوع پہ لکھنا
مناسب سمجھا جو ابھی تک قاری کی نظروں سے اوجھل تھا۔
ان کے افسانوں کے بیشتر
موضوعات دیہی علاقے سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے مسلم گھرانوں کے نوجوان لڑکوں
اور لڑکیوں کے رومانی مزاج کو افسانوں میں بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے بیشتر
افسانوں کے عنوانات سے ہی نفس مضمون کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
شکیلہ اختر کے افسانوں
کے پلاٹ منظم،گٹھے ہوئے اور منطقی ربط رکھتے ہیں۔ انھوںنے افسانوں کی بنت بہت ہی چابکدستی
اور فن کاری سے کی ہے۔ ان کے افسانوں میں لفاظی نہیں ہے۔ وہ ہر واقعہ کو مقصد کے پیش
نظر بیان کرتی ہیں۔ ان کے افسانوی کردار زیادہ تر غریب عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ کردار
اپنی معاشرتی سطح اور معیار کے مطابق عکاسی کرتے ہیں اور اپنے ماحول اور فضا کے سیاق
میں بہتر رول ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے کرداروں کے ذریعے پیش کیے گئے مکالمے
کردارووں کی نفسیات کی غمازی کرتے ہیں۔
شکیلہ اختر کے بیشتر افسانے عورتوں کی نفسیات
پر مبنی ہیں۔ وہ بہار کے متوسط مسلم گھرانوں کی تصویریں کھینچتی ہیں جن کے چہروں پر
مٹے مٹے آثار نظر آتے ہیں۔ قصہ پن کی دلچسپی کے ساتھ ان کے افسانوں کے پلاٹ سیدھے
سادے کردار جانے پہچانے اور مکالمے آسان ہوتے ہیں۔
شکیلہ اختر اپنے تمام
افسانوں میں کردار نگاری، ماجرا سازی اور فضا آفرینی میں ماہر نظر آتی ہیں وہ اپنے
افسانوں میں اپنے قاری کو کہیں اور کبھی پیچھے چھوڑنے پر یقین نہیں رکھتی ہیں اور شعوری
طور پر یہ کوشش کرتی ہیں کہ ان کا قاری ان کی کہانی کا کوئی کردار بن کر ساتھ چلے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ شکیلہ اختر کی کہانیاں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور وہ کسی بھی زاویے
سے فرسودہ محسوس نہیں ہوتیں۔
شکیلہ اختر نے عورتوں
کی نفسیات پر بہت خوبصورتی سے لکھا ہے جس کی واضح مثال ان کا افسانہ ’مدو جزر‘ ہے جس
کا موضوع عورت کی بے لوث محبت ہے۔ نجمیٰ جو کہ اس افسانے کا مرکزی کردار ہے وہ پرویز
سے محبت کرتی ہے۔ پرویز بھی نجمیٰ سے محبت کرتا ہے لیکن اچانک پرویز کی طبیعت بہت خراب
ہوجاتی ہے اور اس کے بچنے کی امید نظر نہیں آتی۔ اس بات کا نجمیٰ پر بہت گہرا اثر
پڑتا ہے اور وہ دن رات ہسپتال کے سامنے پڑی رہتی ہے اور جب ہسپتال کی طرف سے ملنے کا
وقت آتا ہے تو وہ اس سے ملنے جاتی ہے۔نجمیٰ کی یہ حالت دیکھ کر بچے اس کا مذاق اڑاتے
ہیں لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔کچھ لوگ اس کی حالت دیکھ کر اسے پاگل سمجھنے لگتے
ہیں۔ نجمیٰ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت سمجھ رہی تھی لیکن پرویز صحت یاب ہونے
کے بعد رنگینیوں کا دلدادہ ہوچکا تھا۔ اس لیے نجمیٰ نے موت کے ہیبت ناک پنجوں سے تو
پرویز کی زندگی کو لڑکر چھین لیا تھا لیکن وہ جھوم جھوم کر چھاتی ہوئی رنگینیوں سے
پرویز کو نہ چھین سکی۔ وہ سسکتی رہی اور تڑپتی رہی مگر پرویز اسے واپس نہ مل سکا۔ پرویزدوسری
لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ اس افسانے میں شکیلہ
اختر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتیں محبت میں کیوں نہ ناکام ہوجائیں لیکن وہ کبھی
بے وفائی نہیں کرتی ہیں۔
اسی طرح اپنے ایک اور
افسانہ ’انتخاب‘ میں عام گھروں میں لڑکیوں پر ہونے والی سخت بندشوں کو بیان کیا ہے۔
ایک لڑکی جو اپنے ایک رشتہ دارلڑکے سے محبت کرتی ہے۔ ایک دن وہ لڑکا جب اس کے گھر آتا
ہے تو وہ اپنی رشتے دار ایک چھوٹی لڑکی کو ایک خط دیتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ اسے
بہت احتیاط کے ساتھ دینا تاکہ خط کوئی دیکھ نہ سکے۔ اس پورے واقعے کا چھوٹی لڑکی پر
بہت اثر پڑتا ہے۔ وہ اپنی بہن کی حالت کو دیکھ کر مسحور ہوجاتی ہے۔ وہ بھی اپنے لیے
ایک دوست کا انتخاب کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے آس پاس جو لڑکے ہوتے ہیں ان میں اسے
کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لہٰذا وہ اپنے لیے کسی دوست کا انتخاب نہیں کرپاتی۔ ایک
دن وہ یونہی قلم اور کاغذ لے کر بیٹھتی ہے کہ اچانک اس کی ماں کی نظر اس پر پڑجاتی
ہے اور وہ اسے بہت ڈانٹتی ہے۔ شکیلہ اختر نے یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ آج بھی
متوسط گھرانوں میں محبت کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور لڑکیوں پر سخت نظر رکھی جاتی
ہے۔
’تم کس نگری
میں بستے ہو‘ افسانے میں ایک طالبہ اور اس
کے پروفیسر استاد کی محبت کی داستان ہے۔ وہ دونوں اپنی حدود میں رہ کر محبت کرتے ہیں۔
پروفیسر ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا انتقال ہوجاتا ہے۔
کچھ دنوں بعدشیاما بھی ایک مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے چلی جاتی ہے۔ اس طرح دونوں
اس دنیا سے ایک نئی محبت کی خواہش لیے چلے جاتے ہیں۔
ایک اہم افسانہ’ آنکھ
مچولی‘ ہے۔ آپ بیتی کے انداز میں یہ افسانہ شکیلہ اختر کی اپنی کہانی بھی ہے اوران
کی طرح کی دوسری عورتوں کی بھی۔ چونکہ شکیلہ اختر کی گود ہری نہیں ہوئی تھی اس لیے
وہ اس درد کو بخوبی سمجھتی تھیں۔ لہٰذا انھوں نے اس حساس موضوع کو افسانے کی شکل میں
پیش کیا ہے۔شکیلہ اخترکے یہاں نہ صرف یہ کہ رومان بلکہ انسانی نفسیات اور سماجی معاملات
کے ان پہلوئوں کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے جن کا تعلق صنف نازک سے ہوتاہے۔ان کا
ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے کرب کو وسعت دے کر اسے ہمہ گیر بنا دینے کی
بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں، افسانہ ’آنکھ مچولی ‘ کے آغاز میں جو منظر اور ماحول پیش
کیا ہے وہ شکیلہ اختر کے گھر کے ماحول سے پوری طرح ملتا جلتا ہے۔ کہانی کا ہیرو فیض
ایک شاعر، ادیب اور نقاد ہوتا ہے۔ اس کے گھر ہر شام ملنے والے آتے ہیں، مختلف موضوع
پر بحث ہوتی ہے۔ لیکن فیض کی اہلیہ پروین جو کہ بچپن سے چنچل ہوتی ہے وہ اس ماحول میں
اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہے۔شکیلہ اختر اس کی منظرکشی کرتے ہوئے ایک عورت کے جذبات
کوبخوبی پیش کرتی ہیں۔
اکثر ناقدین اور تبصرہ نگاروں نے افسانہ ’آنکھ
مچولی‘ کو شکیلہ اختر کی آپ بیتی قرار دیا ہے۔ شکیلہ اختر بھی اولاد کی نعمت سے محروم
تھیں اس لیے اس افسانے کا موضوع بہت اہم ہے۔شکیلہ اختر کی طرح دیگر عورتیں جو اس تجربے
سے گزر رہی ہیں انھیں بھی یہ موضوع بہت اہم محسوس ہوتا ہے۔
’ بیچاری‘
افسانہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو شروع میں بہت امیر ہوتا ہے لیکن فضول خرچی کی
وجہ سے اس کی مالی حالت بہت خراب ہو جاتی ہے۔
غریب رہٹری پٹری والے
اور چھوٹے دکانداروں کی ابتر زندگی اور نام نہاد امیروں کا ان کے تئیں جو رویہ ہوتا
ہے اس کی بہترین مثال شکیلہ اختر کا افسانہ ’صدائے واپسیں، ہے اس افسانے کا موضوع بہت ہی حساس اور اہم ہے۔ اس افسانے
میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ موجودہ دور میں یہ چلن بن گیا ہے کہ لوگ بڑے
بڑے شاپنگ مال اوربڑی بڑی دوکانوں سے سامان خریدنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ گھوم
گھوم کر سامان بیچنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اس افسانے میں ایک ایسی عورت کی
کہانی ہے جو بارش میں بھیگ کر سبزیاں بیچتی ہے۔ بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اس کی آواز
میں کپکپی آجاتی ہے۔ آواز لگاتی ہوئی جب وہ ایک گھر کے سامنے پہنچتی ہے تو گھر کے
اندر بلا لیا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا حوصلہ تھوڑا بلند ہوتا ہے کہ اس کی سبزی فروخت
ہوجائے گی اسے ادھر ادھر پھرنے سے نجات مل جائے گی۔لیکن جب اس گھر کا باورچی سبزیوں
کو دیکھتا ہے تو سبزی فروش عورت کو بری طرح ڈانٹتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی سی سبزی ہے اور
تم اتنا شور مچاتی ہو۔ عورت اس گھر کی مالکن کی طرف دیکھتی ہے اور اس سے التجا کرتی
ہے لیکن وہ بھی منع کردیتی ہے اور وہاں سے چلی جاتی ہے۔
اس افسانہ میں شکیلہ اختر نے یہ بات عوام کے
سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں ان غریبوں کی مجبوری کو سمجھنا چاہیے اور وقت
پڑنے پر ان کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔ اسی طرح ’سوکھا ہوا پودا ‘ میں انھوں نے ایک غریب
رکشہ والے کی حالت زار کو بیان کیا گیا ہے۔ کس طرح ایک بیمار رکشہ والا دوسرے لوگوں
کو ہسپتال تک لے جاتا ہے لیکن خود غربت کی وجہ سے وہ ہسپتال کے اندر نہیں جاسکتا، اپنا
علاج نہیں کرواسکتا۔ غریب رکشہ والا بیمار ہوتا ہے لیکن اس کی مجبوری اسے آرام نہیں
کرنے دیتی۔ جب اس کے رکشے پر دو موٹے موٹے اور اچھے کپڑے میں ملبوس لوگ بیٹھتے ہیں
اور ڈاکٹر کو دکھانے جانے کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے اس کا
نقشہ شکیلہ اختر نے بہت صحیح طریقے سے کھینچا ہے۔
افسانہ ’کیڑے‘ میں
غریب بچوں کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سماج میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے
بچوں کی پرورش نہ کرپانے کی وجہ سے انھیں مشنری کے حوالے کردیتے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے
ہوتے ہیں جو بچپن میں ہی والدین کے سایے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان کا بڑا بھائی یا بہن
ان کی پرورش کرتی ہیں۔ لیکن یہ بچے تمام بندشوں سے آزاد جب دل کہے، جہاں دل کہے آسانی
سے کھیل سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کسی بڑے آدمی کے ساتھ رہنے لگیں تو وہاں کے ماحول اور
بندشوں سے وہ اکتا جاتے ہیں اور ان کو اپنی پرانی زندگی ہی اچھی لگتی ہے۔ وہ تمام آرائشوں
کو چھوڑ کر اپنی پرانی بستی میں لوٹ آنے میں ہی سکون محسوس کرتے ہیں۔
شکیلہ اختر نے ’ڈائن‘
افسانہ میں معاشرے کی عام فکری روش کو پیش کیا ہے مگر ڈائن عورت کے تعلق سے جو پلاٹ
اور موضوع تیار کیا ہے وہ انوکھا ہے کیونکہ یہ کردار یعنی ڈائن ایک غریب اور کسمپرسی
کی حالت میں زندگی گزارنے والی ایک مچھوارن کی کہانی ہے۔ اس کو اس کا سماج ڈائن کے
روپ میں دیکھتا ہے اور اس کی شکل وصورت کا بھی خوب مذاق اڑاتا ہے۔ جو انسانیت کے قطعی
منافی ہے۔ مگر وہ عورت اپنی سیرت و عمل کے اعتبار سے پاک و صاف ہے۔ لیکن معاشرے میں
جب کسی شخص کے تعلق سے کوئی منفی بات مشہور ہوجائے تو اس کی صفائی پیش کرنا انتہائی
مشکل ہوجاتاہے۔ غریب اور بدصورت عورت صبح صبح ایک گھر میں اپنا بقایا روپیہ مانگنے
پہنچ جاتی ہے۔ اس کو دیکھ کر گھر کے سارے افراد عجیب عجیب باتیں کرنے لگتے ہیں اور
چھوٹے بچے رونے لگتے ہیں۔ جب وہ اپنے آنے کا مقصد بتاتی ہے کہ گیارہ آنے باقی ہیں
اسے دے دیجیے تو گھر کی عورتیں اس عورت پر طرح طرح کے الزام لگاتی ہیں اور کہتی ہیں
کہ ہم نے آٹھ آنے اس وقت دے دیے تھے اب صرف تین آنے باقی ہیں اس بات پر وہ زور زور
سے رونے لگتی ہے۔ پر کوئی اس کا پیسہ واپس نہیں دیتا ہے۔
شکیلہ اختر کے اس افسانے
کا موضوع بہت اہم ہے۔ انھوں نے اونچی سوسائٹی کے لوگوں کو اس نہایت غریب اور ضرورت
مند بڑھیا کے ذریعے اس بات کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان غریبوں میں انسانیت،
احسان مندی اوراپنے بڑوں کا کتنا لحاظ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امیروں کو اپنے فرض کی
کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ انھیں صرف پیسے سے مطلب ہوتا ہے جب کہ ان کی مالی حالت بہتر
ہوتی ہے پھر بھی کسی غریب کو دینے سے کتراتے ہیں حرص کی وجہ سے ان کو کبھی سکون نہیں
ملتا ہے۔
شکیلہ اختر کی کہانیوں
میں صرف عورتوں کے دکھ درد ہی نہیں عصری مسائل کا خوبصورت اور فنکارانہ بیان بھی ہوا
ہے۔نکسلی تحریک،چائلڈ لیبر،اولڈ ایج ہوم اور سیکس جیسے موضوعات پر بھی انھوں نے کہانیاں
لکھی ہیں۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں جو سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں اور رشتے کا جو
نیا منظرنامہ سامنے آیاہے اس پر بھی ان کی صاف نظر ہے۔ مگر یہ بھی بہت واضح ہے کہ
انھوں نے فوقیت عورتوں کے مسائل کو ہی دی ہے اور عورتوں کی نفسیات اور سماجی ناانصافیوں
کو عورت کے نقطۂ نظر سے ہی پیش کیاہے۔ ان کے یہاں عورت کی سماجی حیثیت کے تعلق سے
ایک احتجاج ضرور ملتاہے،خواہ وہ احتجاج خاموش ہو یا بہ آواز بلند اور چونکہ یہ سارے
موضوعات، مسائل ان کے اپنے عہد کے ہیں اس لیے زبان، اسلوب، کردار اورفنی ٹریٹمنٹ بھی
ان کا اپنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض کہانیوں میں کچھ کمزور پہلو ہونے کے باوجود ان کی
’وحدت تاثر‘ میں قاری کی شرکت برابر بنی رہتی ہے۔
’پیاسی نگاہیں
‘ میں بیوہ عورتوں اور ان عورتوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جن کے شوہر یا تو بیمار
ہیں یا ان سے دور ہیں۔ ایسی عورتیں اپنی زندگی میں کتنی پریشان ہوتی ہیں اور سکون تلاشنے
کے لیے کیسے تاش اور دیگر تفریحی کھیل مل کر کھیلتی ہیں ااور اپنا دل بہلاتی ہیں اس
کا ذکر ہے۔ اس افسانے میں سماج کی آدھی آبادی کے مسائل کو عوام کے سامنے لانے کی
کوشش کی گئی ہے۔
سماج میں آئے دن زنا
بالجبر اور اغوا جیسے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی دولت کے زور پر
معصوم لڑکیوں کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔ شکیلہ اختر نے اس حساس موضوع پر بھی بہت خوبصورتی
کے ساتھ لکھا ہے۔ ’نفرت‘ میںسماج کے ان معمرہوس پسندوں اور وحشیوں کا ذکر ہے جو دوسروں
کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اور اپنے پیسوں کے زور پر معصوم اور کنواری لڑکیوں
سے شادی کے خواہاں ہوتے ہیں۔اس افسانے میں کوآپریٹو بینک کے ایک آڈیٹر کی رنگین مزاجی
کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس افسانے میں جس طرح
کھل کر یہ بات کہی گئی ہے کہ مرد بوڑھا ہونے کے بعد بھی شادی کرتا رہتا ہے لیکن عورتیں
بڑھاپے میں کبھی شادی نہیں کرتیں یہ مرد سماج کے لیے غور وفکر کی دعوت ہے، ساتھ ہی
لڑکیوں کے اندر حوصلہ پیدا کرنے کی ترغیب ان کی کہانیوں میں ملتی ہے۔
شکیلہ اختر نے عورتوں کی آزادانہ روش کے برے
نتائج کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ افسانہ ’بن تتلی‘ میں اسی کو پیش کیا
گیا ہے۔
شکیلہ اختر نے بچوں
کی نفسیات کو بھی بہت قریب سے سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا افسانہ ’خوش
بختا‘ کا مطالعہ کرتے وقت منشی پریم چند کا افسانہ ’عیدگاہ‘ یاد آجاتا ہے۔
موضوع کے اعتبار سے
یہ ایک اہم افسانہ ہے۔ اس افسانے میں بچے کی نفسیات اور اس کی فرض شناسی کو بیان کیا
گیا ہے۔
شکیلہ اختر نے بار
بار بے حس سماج کو جگانے کی کوشش کی ہے۔’گز بھرکفن‘ افسانہ بھی سماج کا آئینہ ہے۔
ایک طرف سماج میں ایسے لوگ ہیں جو بھوک اور بہتر علاج نہ ملنے سے مر جاتے ہیں اور مرنے
کے بعد ان کا سوگ منانے والاکوئی نہیں ہوتا،انھیں کفن تک نہیں ملتا ہے۔ دوسری طرف اسی
سماج میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا لیکن
ان کے کتے بدیسی کھانا کھاتے ہیں، ان کے علاج کے لیے بڑے بڑے ڈاکٹر آتے ہیں، مرنے
کے بعد باقاعدہ تعزیت ہوتی ہے اوراس کتے کو پھول دار قیمتی کپڑے کا کفن دیا جاتا ہے۔
موضوع کے اعتبار سے یہ بہت اہم افسانہ ہے۔ افسانے کے آخر میں ایک غریب ماں کی زبان
سے نکلے ہوئے الفاظ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
’’ آخری آرام
گاہ گدے دار تابوت میں جب کتے کے اس مر دہ بچے کو سلا دیا گیا تو نیلون کی خوبصورت
چادر سے ڈھانک دینے کے بعد بھی اس کا چہرہ جھلک رہا تھا۔ فوٹوگرافر نے کئی تصویریں
جب اتار لیں تب بڑھیا ھائر نے اپنے ڈھلکتے ہوئے آنسو کے ساتھ مردہ کتے کے بچے کو جھک
کر بڑی حسرتوں سے آخری بار پیار کیا تھا اورپھر تابوت میں کانٹیاںٹھونکی جانے لگی
تھیں۔
ڈاکٹر مائر کا ٹرانسفر
ہو چکا تھا مگر اس کو ٹھی کے احاطے میں ایک چھوٹی سی قبر پر ابھی تک لکھا ہوا رہ گیا
ہے۔
’’ ہماری محبتوں
کا چراغ اس اندھیرے میں بجھا ہوا ہے۔‘‘بانو ایک بار چیخ پڑی۔’’ہائے رے میری سہجادی
بیٹی! تورے ایک گج کپھن بھی نہ ملا۔‘‘
( لہو کے
مول،شکیلہ اختر، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ،1976، ص 174-75)
ایک غریب اور مجبور
انسان اپنی بربادی کے باوجود سرکار یا کسی بڑے آدمی سے کچھ نقد رقم پاجاتا ہے تو سب
کچھ بھول کر ایسا خوش ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اس کی بے حسی جھلکتی ہے لیکن اصل میں یہ
اس کی مجبوری ہوتی ہے اور وہ اس پل کو جی لینا چاہتا ہے۔ ’لہو کے مول‘ میں ایک غریب
خاندان کی کہانی ہے جو غربت کی وجہ سے ایک امیر کے گھرمیں نوکری کرلیتا ہے اسے سروینٹ
کوارٹر مل جاتا ہے تو وہ پورے خاندان کو بلا لیتا ہے۔ پورا خاندان بہت خوش رہتا ہے
عید اور دوسرے تہوار کے موقعے پر مالک کے بچوں کے پرانے کپڑے وغیرہ مل جاتے ہیں اس
طرح ان کی زندگی آرام سے گزرتی ہے اچانک اس کی ایک بیٹی نجمہ کا سڑک حادثے میں انتقال
ہوجاتاہے۔ مالک اس کو دلاسہ دلاتا ہے کہ میں ٹرانسپورٹ کے ڈی ایس پی کو فون کرکے پانچ
ہزار روپے دلا دوں گا۔بڑی تگ ودو کے بعد ایک ہزار ررپے مل جاتے ہیں۔اس کے بعد ان کی
زندگی میں تبدیلی آجاتی ہے۔
ایک ہزار روپے ملنے
کے بعد مناف میاںاپنے اور بچوںکے لیے خوب خریداری کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں یہ پہلی
عید ہوتی ہے جب گھر کے تمام افراد نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ خریداری کرنے کے بعد مناف کے
پاس سات سو روپے بچتے ہیں۔ عید کے بعد مناف اپنے گھروالوں کے ساتھ اپنے آبائی وطن
جانا چاہتا ہے۔
شکیلہ اختر نے اپنے بعض افسانوں میں اپنے جذبات
واحساسات کو بھی بڑی فنکاری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کردیاہے۔ آنکھ مچولی، ڈائن،
ٹوٹی ہوئی گڑیا، لہو کے مول ، آگ اور پتھر اور’آخری سلام‘ وغیرہ ان کی نمائندہ کہانیاں ہیں،
یہ ساری کہانیاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ ’آنکھ مچولی‘
افسانہ کو تواکثر ناقدین نے ان کی اپنی کہانی قرار دیا ہے۔ شکیلہ اختر نے اپنے افسانوں
میں سماج کی ان لڑکیوں کو متنبہ کیا ہے جو محبت کے دام میں آکر اپنے والدین اور اپناگھر
چھوڑ کر چلی جاتی ہیں اور بعد میں لوگوں کے لیے عبرت بن جاتی ہیں۔
’آخری سلام‘
کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید شکیلہ اختر جس وقت یہ افسانہ تحریر کر رہی
تھیں اپنی زندگی سے مایوس ہو چکی تھیں اور اس کہانی کے اہم کردار رادھا رانی کی درد
بھری کہانی میں وہ خود اپنی زندگی کی جھلک دیکھ رہی تھیں۔ شکیلہ اختر کی افسانہ نگاری
کے بارے میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’دراصل شکیلہ اختر کے افسانوں کا پس منظر
ہماری روز مرہ کی زندگی کا نشیب و فراز ہے۔ وہ اپنے اردگرد کے حالات وکوائف کی راز
داں ہیں اور انھیں بڑے سلیقے اور فنکاری سے اپنے افسانوں میں برتنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے یہاں غایت درجے کی دروں بینی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ گہری داخلیت کی بنیادوں پر
ان کے کئی افسانے عصمت چغتائی کے افسانوں سے ممتاز تر ہیں۔ شکیلہ اختر لحاف کی افسانہ
نگار نہیں ’ڈائن‘ کی افسانہ نگار ہیں۔ اس طرح ان کے افسانے حسن کے دلدل میں دھنستے
ہوئے معلوم نہیں ہوتے۔ نفسیات کے افق پر ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔‘‘ (تاریخ ادب اردو، ص 1188)
بہار کی خواتین افسانہ
نگاروں میں وہ سب سے زیادہ کامیاب اور بلند پایہ کہانی کار ہیں فن اور زبان وبیان پر
ان کی گرفت کافی مضبوط ہے پچپن سالہ ادبی زندگی میں انھوں نے جوادبی کا رنامے انجام
دیے وہ اپنی جگہ مسلم ہیں لیکن ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بہار میں بہت سی
خواتین افسانہ نگار اپنے فن کا جو ہر دکھا رہی ہیں۔
Nusrat Jahan
Delhi University
Delhi- 110007
Mob.: 7678451503
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں