5/4/24

قومی یکجہتی کا نمائندہ شاعر: نظیراکبرآبادی، مضمون نگار: جواد حسین


بہت سارے باصلاحیت اور صاحب کمال لوگ کسی لابی یا گروپ کا حصہ نہیں بن پانے کی پاداش میں گمنامی کی زندگی گزارتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں جو معمولی صلاحیت کے باوجود باکمال لوگوں میں شمار ہی نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ہر محفل اور ہر جگہ صف اول کے مالک بنے بیٹھے ہوتے ہیں، یہیں پر ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ باکمال اور صاحب استعداد لوگوں کو چاہے زندگی میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل پائے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں، مگر بعد از مرگ ایسے لوگوں کے فن کا اعتراف دنیا ضرور کرتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اردو کے عظیم شاعر نظیر اکبر آبادی کے ساتھ بھی ہوا، انھوں نے معلم کی حیثیت سے زندگی گزاری اور پوری زندگی اردو شاعری کے گیسو سنوارتے رہے، لیکن اپنے زمانے میں چونکہ وہ کسی گروپ کا حصہ بن سکے، نہ ہی کسی امیر یا وزیر کی انھیں پشت پناہی حاصل ہوسکی، اسی لیے انھیں جو مقام و مرتبہ ملنا چاہیے تھا وہ ان کے حصے میں نہیں آسکا۔ رشید خاں نے انتخاب نظیر اکبر آبادی کے ’تعارف‘ میں لکھا ہے

 ’’ایک بات اور، کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظیر کی سماجی حیثیت بھی، ان کے راستے کا پتھر بن گئی۔ وہ ایک معلم تھے جس کی پشت پر نہ تو کسی معروف خاندان کی درویشی، سیادت یاسپہ گری کا پشتارہ تھا اور نہ کوئی ایسی ذاتی وجاہت حاصل تھی، جس کو اس زمانے میں قابل لحاظ سمجھا جاتا ہو، باتیں کرتے تھے سوفی صدی عام لوگوں کی زبان میں اور کہتے تھے وہ باتیں جن کو گفتگو کا موضوع تو سمجھا جاتا تھا، شاعری کا موضوع نہیں بنایا جاتا تھا، اس عہد کے معروف شاعروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی نسبت ضرور شامل تھی جس کو سماجی سطح پر قابل توجہ سمجھا جاتا تھا اور ایسی نسبتوں نے شخصیت کے نقش کو ابھارنے میں بہت مدد دی ہے۔‘‘

نظیر کا زمانہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر سے انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی تک کا زمانہ ہے۔ وہ 1740 میں پیدا ہوئے اور نوے سال کے قریب عمر پاکر 1830 میں چل بسے۔ ان کا اصل نام ولی محمد تھا اور وہ محمد شاہ ثانی کے دور میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن احمد شاہ ابدالی کے حملے کے بعد وہ دہلی سے آگرہ چلے گئے اور یہاں تاج گنج میں انھوں نے سکونت ہی اختیار نہیں کی بلکہ پوری زندگی یہیں بسر کردی، یہاں تک کہ اُن کے اِس وطن ثانی کی نسبت ہی ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا جزو لاینفک بن گئی۔ نظیر فارسی کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت عربی بھی جانتے تھے، برج بھاشا سے بھی واقف تھے، درس و تدریس ان کا مشغلہ تھا اور یہی ذریعہ معاش۔ آخر عمر میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور یہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔ اس بات پر نظیر کے سارے سوانح نگار متفق ہیں کہ انھیںمجلسی زندگی بہت عزیز تھی

’’وہ ایک یار باش آدمی تھے اور ہر طبقے اور مزاج کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ جوانی میں بڑے رنگین مزاج تھے۔ کھیل کود، پتنگ بازی، پیراکی، ورزش، کبوتر بازی ان کی دلچسپیوں میں شامل تھے۔ مسلمانوں اور ہندوئوں کے تہواروں میں حصہ لیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ آزادانہ زندگی کی تصویروں نے ان کے کلام میں غیر معمولی وسعت اور رنگا رنگی پیدا کی ہے۔ روایتی شاعری کرنے کے علاوہ نظیر نے عوامی شاعری بھی کی۔ یہی ان کی پہچان بن گئی۔ ان کی عوامی نظموں میں ہندو مسلم روایات، تہواروں، مختلف مذہبوں کی برگزیدہ ہستیوں، ہندوستان کے مناظر، پرندوں، جانوروں، موسموں، پھلوں اور کھانوں کا غیر رسمی انداز میں ذکر ہوا ہے… نظیر کا ذخیرۂ الفاظ بھی حیرت انگیز حد تک وسیع تھا۔‘‘  (جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، ج1)

بلاشبہ نظیر کے یہاں ذخیرہ الفاظ کی یہ وسعت اور عوامی شاعری کی یہ شان و شوکت اسی لیے پیدا ہو سکی ہے کہ وہ قومی یک جہتی کے علمبردار تھے اور ہمارے شعر و ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی محنت اکارت نہیں گئی اور ان کے اسی مزاج اور رویے نے ان کو دائمی عزت، شہر ت اور شناخت بخش دی، یہاں تک کہ آج بھی نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں او ر یہ حقیقت بھی ہے چونکہ ان کے مضامین کو دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی زندگی، ماحول و معاشرت کی بحسن و خوبی ترجمانی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نسبت کے سہارے کے بنا ان کی شاعری کی مقبولیت اُس عہد میں بھی کم نہیں تھی اور آج بھی اس کی معنویت و مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

یہ بات پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے بھی بہت بڑے نمائندہ شاعر تھے۔ یہاں نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے حوالے سے ’قومی یکجہتی‘کی وضاحت سے قبل ’قومی یکجہتی‘ کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قومیت کا مشترکہ باطنی احساس ہی قومی یکجہتی کا اولین زینہ اور ستون ہے۔ آج سے برسوں پہلے اثر لکھنوی نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ــ’درس اتحاد‘ اس نظم میں انھوں نے ’قومی یکجہتی‘کا مرکب لفظ تو استعمال نہیں کیا ہے پر لفظ ’یکجہتی‘ کا مفرد لفظ ضرور استعمال کیا ہے۔اس نظم کو پڑھنے کے بعد یہ پوری طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ قومی یکجہتی کیا ہے؟اور عدم یکجہتی کی صورت میں شاعر کے قلم سے وجود میں آنے والے الفاظ شاعر کی اندرونی اور باطنی کیفیت کو بایں طور ظاہر کرتے ہیں کہ درد وکرب اور قلق و اضطراب کی پوری دنیا سامنے آجاتی ہے۔اثر لکھنوی کے اشعار ملاحظہ فرمائیں        ؎

الفت ہوئی رسم پارینہ

ہے اس کی جگہ دل میں کینہ

اگلوں کے چلن ہم بھول گئے

وہ رسم کہن ہم بھول گئے

آپس کی رواداری  اٹھی

 الفت اٹھی یاری اٹھی

وہ یوگ رہا نہ وہ پریت رہی

بس ایک نفرت کی ریت رہی

یکجہتی جب مفقود ہوئی

اور فکر زیان و سود ہوئی

وہ جذب کی طاقت سلب ہوئی

توفیق ہدایت سلب ہوئی

مذکورہ اشعار کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکجہتی کے لیے آپسی محبت و بھائی چارگی اور الفت و مودت نہایت ضروری ہے۔یہ یکجہتی کے قیام کا وہ جوہر نایاب ہے جسے کسی بھی صورت میں آپس سے رخصت نہیں ہونے دینا چاہیے۔چونکہ اس کے بغیر ہمارا قومی اتحاد واتفاق منتشر ہو جائے گا اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائے گا اور جب ایک ساتھ مختلف مذاہب اور عقائد کے مل جل کر رہنے والے افراد کے درمیان سے یہ چیزیں رخصت ہو جاتی ہیں تو نفرت،عداوت،دشمنی،بغض،کینہ اور آپسی بے زاری کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔اور یہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے حد درجہ نقصان کا باعث ہوجاتا ہے۔ جہاںتک ہمارے ملک کی بات ہے تو قومی یکجہتی اور آپسی رواداری کی ایسی مثال دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی مل سکے۔

ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس ملک میں صدیوں سے مختلف مذاہب اور مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں،کبھی اس ملک میں ہندوؤں کی حکومت رہی تو کبھی مسلمانوں کی، لیکن کبھی بھی کسی دور میں مذہب اور زبان کی بنیاد پر دونوں قوموں کا تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوا۔ اور جب اس ملک کو انگریزوں نے غلام بنایا  تو سبھی مذہب کے لوگوں نے مل کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔اور قومی یکجہتی کی ایسی مثال قائم کی کہ انگریزوں کو اس ملک سے جانا پڑا۔ اور اس ملک کی دو مشہور زبانیں ہندی اور اردو جو آپس میں سگی بہنیں ہیں ان دونوں نے قومی یکجہتی کے فروغ  میں خوب خوب جوہر دکھائے۔اردو نے تو اسے مضبوط ومستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اور آتش نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ  ؎

بت خانہ کھود ڈالیے مسجد کو ڈھائیے

 دل کو نہ توڑیے کہ خدا کا مقام ہے

اردو کے اور بھی کئی شعرا ہیں جنھوں نے قومی یکجہتی،مشترکہ تہذیب اور باہمی اتحاد و اتفاق پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار اپنی تخلیقات میں کیا ہے۔

 اگر انھوں نے عوامی جذبات و خیالات کا لحاظ کرتے ہوئے موسم برسات، جاڑے کی بہاریں، طفلی، جوانی، بڑھاپا، مفلسی، کوڑی نامہ، پیسہ نامہ، روٹیاں، چپاتی نامہ، آٹا دال، موت، فنا نامہ، فقیروں کی صدا، بنجارا نامہ، توکل، آدمی نامہ، دنیا، دنیا کے عیش و عشرت اور’دنیا دار المکافات ہے‘ وغیرہ جیسی نظمیں لکھی ہیں اور رنگا رنگ اور نوع بہ نوع مضامین پر طبع آزمائی کی ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر لسانی ملک میں بسنے والے مختلف ادیان و مذاہب کے تیوہاروں پر بھی پوری توجہ دی۔ مثلا سکھ مذہب کے عظیم رہنما گرونانک شاہ کے بارے میں مسدس کی ہیئت میں پوری نظم ان کی کلیات میں موجود ہے۔ اس نظم کا پہلا اور آخری بند ملاحظہ فرمائیں  ؎

ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں، وہ پورے ہیں آگاہ گرو

وہ کامل رہبر جگ میں ہیں، یوں روشن، جیسے ماہ گرو

مقصود، مراد، امید، سبھی بر لاتے ہیں دل خواہ گرو

نت لطف و کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرباہ گرو

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو، واہ گرو

جو ہر دم ان سے دھیان لگا، امید کرم کی دھرتے ہیں

وہ ان پر لطف و عنایت سے ہر آن توجہ کرتے ہیں

اسباب خوشی اور خوبی کے گھر، بیچ انھوں کے بھرتے ہیں

آنند، عنایت کرتے ہیں سب من کی چنتا ہرتے ہیں

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو، واہ گرو

پوری نظم اور خاص طور سے مذکورہ دونوں بند پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سکھ دھرم کے ماننے والوں کی گرونانک کے تئیں جو گہری عقیدت اور محبت وابستہ ہے، اس کی بہترین عکاسی یہاں کی گئی ہے۔

 مذہبی شخصیات پر جب شاعر قلم اٹھاتا ہے تو عموماً یہ خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے کہ اس کا بیان مبادا اُس شخصیت کے ماننے والوں کو اعتراض کا موقع دے دے یا مقطع میں کوئی ایسی بات آپڑے جو خود شاعر کے ہم مذہب افراد کو انگشت نمائی کا موقع دے جائے، لیکن یہ نظیر کا بڑا کمال ہے کہ وہ اس راہ میں سلامت روی سے ہمکنار ہوئے ہیں اور عقیدے اور عقیدت کے فرق پر کسی طرح حرف نہیں آنے دیا ہے اور ایسا دراصل اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ انھوں نے بہر صورت قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے مزاج سے شعوری انداز میں کام لیا ہے۔ قومی یکجہتی کا اصل تقاضا احترام مذاہب ہے اور روایات و مذاہب کا احترام نظیر کی شاعری کے لفظ لفظ نہیں گویا حرف حرف سے ہیرے کی کنی کی مانند دمک رہا ہے۔

 ہندوستان کی کثیر مذہبی تہذیب و ثقافت اور تیوہاروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور آپسی محبت و بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اگر ایک طرف نظیر نے شب برات، عید الفطر، حضرت سلیم چشتی، عشق اللہ اور ’رہے نام اللہ کا‘ وغیرہ جیسے عنوان کے ساتھ متعلقہ مضامین کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے تو دوسری طرف بلدیوجی کا میلا، مہادیوجی کا بیاہ، ہولی، ہولی کی بہاریں، دوالی اور ’راکھی‘ جیسے عناوین کے ساتھ نظمیں لکھ کر قومی یکجہتی اور آپسی محبت و بھائی چارگی کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔

ہولی‘ برادران وطن کا ایک اہم تیوہار ہے۔ ہولی کے موضوع پر نظیر نے یکے بعد دیگرے تین نظمیں لکھی ہیں۔ پہلی نظم ’ہولی‘ مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی ہے، جب کہ دوسری نظمیں ’ہولی‘ اور ’ہولی کی بہاریں‘ مخمس کی ہیئت میں ہیں۔ ان تینوں نظموں کو پڑھنے کے بعد بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اس تیوہار کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ان کا اپنا ہی تیوہار ہے۔ ان کی اس تیوہار کی ساری جزئیات سے گہری واقفیت برادران وطن سے میل جول اور محبت کی عمیق نشانی اور علامت کو ظاہر کرتی ہے، ان تینوں نظموں کا ایک ایک بند ملاحظہ کریں        ؎

معمور ہیں خوباں سے گلی، کوچہ و بازار

اڑتا ہے ابیر اور کہیں پچکاری کی ہے مار

چھایا ہے گلالوں کا ہر اک جا پہ دھواں دھار

پڑتی ہے، جدھر دیکھو اُدھر رنگ کی بوچھار

ہے رنگ چھڑکنے سے ہر اک دنگ زمیں پر

ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر

                (ہولی)

دوسری ’ہولی‘ نظم سے ایک بند دیکھیں ؎

کچھ طبلے کھٹکے، تال بجے، کچھ ڈھولک اور مردنگ بجی

کچھ جھڑبیں بین، ربابوں کی، کچھ سا رنگی اور چنگ بجی

کچھ تار طنبوروں کے جھنکے، کچھ ڈھمڈھمی اور منھ چنگ بجی

کچھ گھنگھرو کھٹکے جھم جھم جھم، کچھ گت گت پر آہنگ بجی

ہے ہر دم ناچنے گانے کا یہ تار بندھایا ہولی نے

(ہولی)

تیسری نظم ’ہولی کی بہاریں‘ کا ایک بند بھی ملاحظہ کیجیے ؎

گل زار کھلے ہوں پریوں کے، اور مجلس کی تیاری ہو

کپڑوں پر رنگ کے چھینٹوں سے خوش رنگ عجب کل کاری ہو

منھ لال، گلابی آنکھیں ہوں اور ہاتھوں میں پچکاری ہو

اس رنگ بھری پچکاری کو، انگیا پر تک کر ماری ہو

سینوں سے رنگ ڈھلکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

(ہولی کی بہار)

اس طرح نظیر اکبر آبادی نے دیوالی اور راکھی کے تیوہاروں کا بھی نہایت خوبصورت اور خوشنما منظر پیش کیا ہے، جو یقینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انھیں اس دیش کی قومی یکجہتی سے بہت گہرا پیار اور لگائو تھا اور وہ برادران وطن کے تیوہاروں اور ان کی تہذیب و ثقافت کو بہت ہی قریب سے جانتے تھے۔

Dr. Jawwad Husain

Asst Prof. Head Depf of Urdu

L N D College

Motihari- 845401 (Bihar)

Mob.: 9931689647


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں