5/4/24

آج کے ناولوں کے اسلوب و اظہار پر بدلتی ہوئی تہذیب کا اثر ہے: شہاب ظفر اعظمی



 موجودہ دور میں’ڈاکٹرشہاب ظفراعظمی‘ اردو فکشن کی تنقید کا ایک معتبرنام ہے۔ اپنے منفرد انداز اور اسلوب کی وجہ سے انھوں نے ناولوں اور افسانوں کی تنقید میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے دوسری اصناف میں بھی گراں قدر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔اب تک ان کی پانچ کتابیں…’اردو ناول کے اسالیب، جہان فکشن، متن اور معنی، مطالعات فکشن، قرأت مطالعہ و محاسبہ‘ شائع ہو کر پوری اردو آبادی سے داد تحسین وصول کر چکی ہیں۔ وہ تنقید میں تعمیری نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ انھیں ان کی ادبی تصانیف پر مختلف انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ پیش خدمت ہے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی سے ایک ملاقات کا تحریری منظر نامہ۔ 

مسرت جہاں: آپ اپنے سوانحی حالات اور کارناموں سے روشناس کرائیے۔

شہاب ظفر اعظمی: میری پیدائش یکم اپریل 1972 کو گیا (بہار) میں ہوئی۔ میرے والد کا نام عبدالبر اعظمی ہے اور وہ عالم دین تھے۔میری ابتدائی تعلیم والد ماجد کے زیر سایہ ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مگدھ یونیورسٹی سے بی اے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی ایڈ مکمل کیا۔ ایم اے کی تعلیم جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پوری کرنے کے بعد میری تقرری آرہ کے ایک ہائی اسکول میںہو گئی۔ اسکولی درس و تدریس کے ساتھ میں نے پی ایچ ڈی کے کے لیے مقالہ لکھنا شروع کر دیا تھا جس پر پروفیسر حسین الحق کی نگرانی میں مگدھ یونیورسٹی نے ڈگری تفویض کی۔ اسی درمیان 2003 میں میری تقرری شعبہ اردو، پٹنہ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر ہوئی۔اس وقت سے اب تک وہیں مصروف کار ہوں۔میری شادی شمع انجم بنت خلیل الرحمن مرحوم سے 2002 میں ہوئی۔دو بیٹے شایان ظفر اور فرحان ظفر زیر تعلیم ہیں۔ میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک  ہفت روزہ اخبار ’رفاقت‘سے کیا۔ میرا پہلا مضمون ’رفاقت‘ میں جذبہ عشق کے عنوان سے شائع ہوا۔

م ج: آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیںاور دادو تحسین حاصل کر چکی ہیں، مگر جو داد ’اردو ناول کے اسالیب‘کو ملی۔ وہ کسی اور کتاب کو نہ مل سکی۔

ش ظ ا: ’اردو ناول کے اسالیب‘ میرے تحقیقی مقالے کا ایک حصہ ہے۔ اس مقالے میں پہلی مرتبہ اسلوب کے حوالے سے ناول کی تاریخ و تنقید کی گئی تھی اس لیے یہ کتاب قارئین کو زیادہ پسند آئی۔

م ج:ادب میں اردو فکشن کی صورت حال اور اہمیت کیا ہے؟ کل سے آج تک اردو فکشن کے سفر پر کچھ بتائیں؟

ش ظ ا:اردو فکشن کے سرمائے میں بنیادی حیثیت مختصر افسانے اور ناول کو حاصل رہی ہے۔ اِس لحاظ سے اردو فکشن نے اب تک تقریباً ڈیڑھ صدی کا لمبا سفر طے کیا ہے۔ اِس مدت میں اس نے مزاجی اعتبار سے پانچ ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور بیسویںصدی کی ابتدا تک کا ہے جب فکشن ناول تک محدود تھا اور فنی وموضوعاتی سطح پر نذیر احمد کے ناولوں سے امراؤ جان ادا تک سارے تجربات اسی میں کیے جارہے تھے۔ دوسرے دور کو 1936تک لے جایا جا سکتا ہے جب افسانہ منظرعام پر آیا اور اس میں اصلاح پسندی، حب الوطنی اور مثالیت پسندی کا رجحان غالب رہا۔ تیسرا دور 1936 سے 1960 تک ہو سکتا ہے جس میں حقیقت نگاری، اشتراکیت اور رومان پسندی کی لہر ملتی ہے۔ چوتھے دور کو 1960 سے 1980 تک پھیلا سکتے ہیں جب فکشن بالخصوص افسانے میں حقیقت نگاری، علامت نگاری، ابہام، پیچیدگی، انسان کی بے چہرگی اور اقدارکی شکست وریخت کو بنیادی اہمیت حاصل رہی اور قاری کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا۔ 1980 کے بعد کا زمانہ مکمل طور پر نئی تلاش اور نئی بصیرت کا منظر نامہ سامنے لایا جسے اردو فکشن کی واپسی کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس زمانے میں فکشن نے غیر ضروری اور نامانوس علامتوں سے دامن چھڑا کر ایک نئے تیور کے ساتھ زندگی کا ہاتھ تھاما۔ انتظارحسین، قاضی عبدالستار، الیاس احمد گدی، شفیع جاوید، احمد یوسف، نیرمسعود، عابدسہیل، اقبال مجید، عبدالصمد، حسین الحق، مشتاق احمد نوری، شموئل احمد، شوکت حیات، صلاح الدین پرویز، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق، جوگندر پال، مشرف عالم ذوقی، طارق چھتاری، ترنم ریاض، شفق، غضنفر، ساجد رشید، مظہرالزماںخاں، غزال ضیغم، شاہد اختر، عشرت ظفر، رحمان عباس، اشعر نجمی، اسلم جمشیدپوری،  شفیع مشہدی، اقبال حسن آزاد اور محمد علیم جیسے بہت سارے فکشن لکھنے والوں نے فکشن کی حسیت میں تبدیلی لانے کی شعوری کوشش کی۔ اِن سب نے مل کر تھیم، ہیئت اور محاورے کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا جس نے اردو فکشن کو اچانک ثروت مند اور مختلف بنادیا۔ عالمی ادب میں فکشن کی پیش رفت اور اس کے تخلیقی امکانات کی توثیق سے اس کی ادبی حیثیت مسلم ہوگئی۔ اب فکشن محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ اعلیٰ فن پاروں کی طرح زندگی، معاشرے اور کائنات کے رازہائے سربستہ کی بصیرت افروزی کا موثر وسیلہ بھی بن گیا۔ جدید فکشن کا یہ دور اِس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ کہانی کا کینوس تمام برا عظموں تک پھیل گیا،جس سے ہمارا فکشن نگار عالمی انسانی برادری کو ایک اکائی کے روپ میں دیکھنے، دکھانے پرکھنے اور تجربہ کرنے پر قادر ہوگیا ہے۔ یعنی یہ بات اب بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ اردو فکشن اس دور سے آگے نکل گیا ہے جسے ’’عبوری دور‘‘ سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اردو فکشن اب روبہ ترقی ہے اور ایک وقیع اور امکان خیز صنف کے طور پر اپنی انفرادی حیثیت اِس حد تک منوا چکا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے موجودہ صدی کو اردو فکشن کی صدی قرار دے دیا۔

م ج: پروفیسر نارنگ کے اِس بیان پر ایک بڑا حلقہ چیں بجبیں ہوا، آپ کا کیا خیال ہے؟

ش ظ ا: مجھے اِس بیان میں کوئی قابل اعتراض یا تعجب خیزوجہ نظر نہیں آتی۔ موجودہ صدی کو اردو فکشن کے نام معنون کرنے کا    ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اردو شاعری کم رتبہ ہوگئی، یا آج اردو شاعری روبہ زوال ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا۔ شاعری کے بغیر ادب کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ ہماری شاعری کی مرکزیت غزل سے ہے اور غزل کو اردو میں وہی درجہ دیا جاتا ہے جو ہندوستانی تہذیب میں تاج محل کو حاصل ہے۔ سات آٹھ سوسالوں کے ہند اسلامی کلچر کی جو روح اردو شاعری بالخصوص غزل میں سمٹ آئی ہے اس کا جواب نہیں، لیکن آج غزل کے پہلو بہ پہلو فکشن نے بھی اپنا مقام بنالیا ہے۔ کوئی ایک صنف ادب میں کسی دوسری صنف کو دباتی نہیں ہے، ادب کو مزید دولت مند بناتی ہے۔ غزل اور شاعری کی اہمیت بلاشبہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن آج فکشن کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو فقط شاعری کی زبان نہیںپریم چند، منٹو، عینی آپا، انتظار حسین، جوگندرپال، عبدالصمد، سلام بن رزّاق اور مشرف عالم ذوقی کی زبان بھی ہے۔ اِس کا ہر گز یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ میں شاعری کو فکشن سے کم رتبہ سمجھتا ہوں۔ دراصل میں ادب میں فوقی درجہ بندی کا قائل نہیں۔ ایسی اصناف ادب جو بنیادی طور سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایک پیمانے سے جانچی نہیں جا سکتیں۔ ایسی تمام اصناف کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، خواہ وہ شاعری ہو، افسانہ ہو، ڈرامہ ہو یا ناول !

م ج:ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ افسانہ یا کہانی کا کینوس بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے یہ دوسرے درجے کا ادب ہے، کیا صحیح ہے؟ 

ش ظ ا:بالکل نہیں، بھلا حضرتِ معترض سے کون کہے کہ شاعری میں تو ہماری پہچان غزل سے ہے جس کا ہر شعر مفرد اور مکمل ہوتا ہے۔ اس سے چھوٹا پیمانہ اور کیا ہو سکتاہے؟ دوہا صرف دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہائیکو کے لیے تین مصرعے کافی ہیں۔ دراصل ادب کی شناخت چھوٹے بڑے پیمانوں سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی انفرادیت اور پیشکش اسے شناخت عطاکرتی ہے۔ کوئی فن پارہ قاری کے جمالیاتی تقاضوں کی کس حد تک تکمیل کر رہا ہے؟ یا قاری کے تہذیبی اور جذباتی عناصر کی کس قدر نمائندگی کررہا ہے؟ یہ باتیں فن پارے کو پہچان دیتی ہیں۔ فکشن ہماری تہذیب، ہمارے جذبات اور ہمارے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل صدیوں سے کررہا ہے اس لیے پیمانوں، اصولوں اور درجہ بندی وغیرہ کے اعتراضات سے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اِسے فکشن کا جادو ہی کہا جائے گا کہ وہ صنف جس میں اعلیٰ درجے کے ادب کی تخلیق ناممکن قرار دی گئی تھی بعد میں تو جہ کامرکز بن گئی اور گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں سب سے زیادہ سمینار، مذاکرے، جلسے فکشن اور فکشن کی تنقید پر ہوئے جن میں ان لوگوں نے بھی حصہ لیا جو اسے قابل اعتناہی نہیں سمجھتے تھے۔ آج ہندستان اور پاکستان کی ادبی فضا میں افسانوی ادب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور کتب ورسائل کا بڑا حصہ فکشن اور فکشن پر گفتگو کا احاطہ کر رہا ہے۔

م ج:آج فکشن تنقید میں کون لوگ دلچسپی لے رہے ہیں؟

ش ظ ا:مجھے بے حد افسوس ہے کہ اچھے ناقدوں کی ایک بڑی کھیپ مثلاََ پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، سید محمد عقیل، ابوالکلام قاسمی،اسلم آزاد، مشرف عالم ذوقی،مولابخش وغیرہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔(ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں)۔فی الوقت علی احمد فاطمی، ارتضٰی کریم، محمود واجد، اعجاز علی ارشد، صغیرافراہیم، اسلم جمشیدپوری، مہدی جعفر، خورشید احمد، احمد صغیر، نسیم احمد نسیم،صفدر امام قادری، حقانی القاسمی، خورشید حیات، ابوبکر عباد، ہمایوں اشرف، نعیم انیس، غالب نشتر، سلمان عبدالصمد، شہناز رحمن، سفینہ بیگم، نورین علی حق اور ضیاء اللہ وغیرہ فکشن کی نظریاتی اور عملی تنقید کے نہایت عمدہ نمونے پیش کررہے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز قوی تر ہوتا جا رہا ہے۔

م ج:آپ کی نظر میں فکشن تنقید کیسی ہونی چاہیے؟

ش ظ ا:فکشن کی تنقید صبر طلب اور نسبتاً مشکل کام ہے کیونکہ یہ ناقد سے متعدد تقاضے کرتی ہے۔ مثلاً پوری کہانی پر نظر ہونا، کہانی کی جزئیات، زبان، قصہ پن اور فن قصہ نگاری سے واقفیت، اسلوب اور موضوع میں ہم آہنگی وغیرہ فکشن کی تنقید کے اہم اجزا ہیں، جو ناقد سے گہرے اور مسلسل توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ کسی فکشن نگار کی قدر سنجی کے لیے اس کی جملہ تصانیف کے علاوہ پورے افسانوی ادب کا مطالعہ بھی خاصا وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔ شاید اسی لیے پروفیسرگوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ 

’’اچھے شعر کا معاملہ نسبتاً اتنا مشکل نہیں، اچھی کہانی کے ساتھ بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔‘‘

م ج:کیا شاعری کی تنقید کم مایہ یا آسان ہوتی ہے؟

ش ظ ا:اس بیان کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ شاعری کی تنقید کم مایہ ہوتی ہے بلکہ اردو زبان وادب کی تاریخ وتہذیب نے وہ مخصوص ذہن پیدا کردیا ہے کہ ادب کی تعبیرو تفہیم کا عمل شاعری سے شروع ہوتا ہے اور اکثرشاعری پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ایک عظیم کلاسیکی ورثے کے طور پر بھی شاعری نقادوں کے لیے ہمیشہ  توجہ کا مرکز رہی ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے بعض ناقدین فکشن کی تنقید میں بھی شاعری کی تنقید کی طرح اشاروں، کنایوں اور علامتوں میں بات کرنے کے فیشن میں مبتلا نظر آتے ہیں جن کی تحریریں بعض اوقات علامتی افسانوں سے بھی زیادہ گنجلک اور ثقیل ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف بعض نقاد فکشن کی روح کو چھونے کے بجائے اسے نثری روپ میں منتقل کرکے اس کی تلخیص پیش کرنے کو ہی غایت نقد سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ اصل مقصد یہ جاننا ہے کہ افسانہ یا ناول کن لسانی اور ہیئتی وسائل کو کام میں لے کر تخلیق کا درجہ حاصل کرسکا ہے۔

م ج:میں نے دیکھا ہے کہ فکشن تنقید میں اسلوب کو آپ بہت اہمیت دیتے ہیں،کیا سبب ہے؟

ش ظ ا:فکشن کے مطالعے کے ضمن میں کرداروں، واقعات، تہذیب ومعاشرے اور سماجی ونفسیاتی عوامل کے ساتھ کلیدی اہمیت اس لسانی برتاؤ کو حاصل ہے جو کہانی کی تشکیل کرتا ہے۔ظاہر ہے کہانی کا ہر جملہ اور ہر لفظ اور اس کا محل استعمال اور اس کے سیاقی تلازمات تخلیقی تجربے کو متشکل کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ادب کو غیر ادب سے جو چیز امتیاز بخشتی ہے وہ ’اسلوب‘ ہے۔ یہ بات فکشن پر سب سے زیادہ صادق اس لیے آتی ہے کہ فکشن نگار کا مقصد قاری تک صرف کہانی، کردار، فضا اور معاشرتی، بشریاتی اور ثقافتی معلومات پہنچانا نہیں بلکہ کہانی کے لسانی برتاؤ سے کرداروں کے اندرونی تضادات، جذباتی تہہ داریوں اور حیات وکائنات کی پیچیدہ اور مشکل سے مشکل آگہی سے اسے باقاعدہ متعارف کرانا بھی ہے۔ چنانچہ نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کہانی کا اسلوبیاتی ولسانی تجزیہ کرکے اس تجربے کو بھی پہچاننے کی سعی کرے جس نے افسانے یا ناول کو تخلیقی شناخت عطا کیا ہے اور جس نے کہانی میں طلسمی کیف واثر پیدا کردیا ہے۔ فکشن کی اسلوبیاتی و لسانی ساخت کا ایسا ہی مطالعہ تنقید کے تفاعل کو متعین کرتا ہے۔

م ج:کچھ اپنے تنقیدی نظریات کے بارے میں بتائیے؟

ش ظ ا:اپنے نظریات کے بارے میں خود کچھ اظہار خیال کرنا اس لیے مناسب نہیں سمجھتا کہ میری تحریریںخود اس کا اظہار ہیں۔ اس کے علاوہ میں یوں بھی کسی ادّعا کا قائل نہیں۔ میں نقاد اور ادیب بھی کہلوانا پسند نہیں کرتا کیونکہ میں خود کو ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم سمجھتا ہوں جس کا مطالعہ بہت محدود اور جس کی نظر بہت کمزور ہے۔ ایک طالب علم اور قاری کی حیثیت سے میں جو کچھ پڑھتا ہوں اس پر اپنے خیالات یا تاثرات کا اظہار کرتا ہوں یہ ضروری نہیںکہ ہر شخص میری ہر بات سے اتفاق کرے۔ اختلاف بھی فکر کو مہمیز کرتا ہے بشرط یہ کہ اس کی بنیاد تنگ نظری اور عصبیت پر نہ ہو۔ اگر میری تحریریں سوچنے پر مجبور کریں اور ان سے نئی فکر کے راستے کھلیں خواہ ان کی سمت مختلف ہی کیوں نہ ہو تو یہی بہت ہے۔ مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ اپنی تحریروں میں کوئی نئی اور انوکھی بات پیش کررہا ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں مضامین سپرد قلم کرتے ہوئے ایماندارانہ نقطۂ نظر اختیار کرتاہوں اور کوشش کرتا ہوںکہ موضوع کے اندرون میں داخل ہو کر ایسے نتائج اخذ کر سکوں جو قارئین کو مطمئن کریں اور انھیں فن پارے یا فنکار کی تحریروں کے مطالعے کے لیے مہمیز کرسکیں۔ میں کوشش کرتاہوں کہ موضوع سے انصاف کیا جائے اور مصنف یا متن کا مثبت اور غیر جانبدارانہ مطالعہ سامنے آئے۔ میں خواہ مخواہ نکتہ چینی، جارحانہ اظہارخیال اور ا ستہزائی لب ولہجے کو سخت معیوب سمجھتا ہوں۔ میں ہمدردانہ اور تعمیری نقطۂ نظر کا حامی ہوں کیونکہ میرا ایقان ہے کہ مصنف یا ادیب اپنی تخلیقات میں زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کی عکاسی اپنے طور پر بہتر سے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ زندگی کے تجربات کو اپنے نقطہ نگاہ سے پیش کرتا ہے۔ وہ خود کو تجربات کی بھٹی میں جلاکر، ناکامیوں اور محرومیوں میں تپا کر اپنے زمانے کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ یعنی اپنے افکاروتجربات کو تخلیقی اور فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کی ہر پیش کش آپ کو مطمئن کرے یا آپ کے معیار پر پوری اترے، مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کا مذاق اڑا کر یا اس کی منفی نکتہ چینی کرکے اس کا حوصلہ پست کر دیا جائے۔ اچھے نقاد کا فرض ہے کہ وہ تخلیق کے سیاہ وسفید اور اچھائی، برائی سے مصنف کو آگاہ کرے مگر اِس طرح کہ اسے نقاد اپنا ہمدرد ورہنما محسوس ہو دشمن جاں نہیں۔ مثبت اور تعمیری تنقید سے فنکار کو سمت ورفتار ملتی ہے اور خوشی بھی۔

م ج:اردو ناول کی پیش رفت کیا تھم گئی ہے؟

ش ظ ا:میرا خیال ہے کہ اردو ناو ل موضوعات،افکار اور اسالیب اظہار کے میدان میں بتدریج ارتقا کی طرف گامز ن ہے۔اردو کے نئے ناول مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے عکاس اور پاسباں ہیں۔آج کے ناول صرف تفنن طبع یا وقت گزارنے کی چیز نہیںہیں۔اِن میں ہم حالات سے جوجھتے جدوجہد کرتے انسان کی پوری زندگی دیکھ سکتے ہیں۔بدلتی ہوئی زندگی اور تغیر پذیر سماج کی ہر دھڑکن ان میں محسوس کر سکتے ہیں۔اردو ناول کی تاریخ میں آج کے بہت سے ناول اضافہ ثابت ہو رہے ہیں۔نت نئے تجربات ہو رہے ہیں،معنی کی تعبیریں وقت کے ساتھ بدلتی ہیں۔ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔اِنہی ناولوں میں سے کوئی بڑا ناول بھی نکلے گا جو دنیا کو حیرت زدہ کر دے گا۔ اسلوب و افکار کی سطح پر جو تجربات ہو رہے ہیں وہ ان خوش آئند اور روشن امکانات کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں جو اکیسویں صدی میں اردو ناول کا مقسوم ہوں گے۔

م ج:اکیسویں صدی میں اردو کے اہم ناول کون کون سے آئے ہیں؟

ش ظ ا:اکیسویں صدی میں ناول کی رفتار حوصلہ افزا ہے۔صرف بہار جیسے ایک صوبے سے تقریباً 35سے 40 ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ناموں کو شمار کروانے میں چھوٹ جانے کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے مگر چند اہم ناولوں کا بھی ذکر کیا جائے تو اکیسویں صدی میں ناول کی تاریخ شکست کی آواز، مہاماری، وش منتھن، پلیتہ،چراغ تہ داماں، جنگ جاری ہے،پوکے مان کی دنیا،نالۂ شب گیر، بادل، کئی چاند تھے سر آسماں،برف آشنا پرندے، اندھیرا پگ،  موت کی کتاب،صدائے عندلیب بر شاخ شب، میرے نالوںکی گمشدہ آواز، خدا کے سائے میں، آنکھ مچولی، ایوانوں کے خوابیدہ چراغ، کہانی کوئی سنائو متاشا، اگر تم لوٹ آتے، دھند میں اگا پیڑ، کالی ماٹی، لیمینیٹڈ گرل، دکھیاری، گرداب، تخم خوں، لفظوں کا لہووغیرہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان ناولوں میں موجودہ  یا گذشتہ زندگی کو اس طرح سمیٹ لیاگیا ہے کہ شاید ہی عوام و خواص کی زندگی کی کوئی صورت ان کی گرفت اور اظہاریت سے چھوٹی ہو۔اکیسویں صدی کا یہ عرصہ ناول کی تخلیق کے لحاظ سے بھرپور رہا ہے۔

م ج:اکیسویں صدی میں خواتین ناول نگاروں پر روشنی ڈالیں۔

ش ظ ا:اکیسویں صدی میں جن خواتین کے ناول میری نظروں سے گزرے ہیں ان میں ساجدہ زیدی (مٹی کے حرم) ثروت خان(اندھیرا پگ) ترنم ریاض (برف آشنا پرندے) شائستہ فاخری( نادیدہ بہاروں کے نشاں، صدائے عندلیب بر شاخ شب)صادقہ نواب سحر( کہانی کوئی سنائو متاشا)افسانہ خاتون (دھند میں کھوئی ہوئی روشنی) نسرین ترنم( ایک اور کوسی)  آشا پربھات (دھند میں اگا پیڑ) نیلو فر ( اوٹرم لین) نشاط پیکر ( شمع ہر رنگ میں جلتی ہے) نصرت شمسی( اوڑھنی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تانیثیت اکیسویں صدی کا اہم رجحان ہے جس نے اِن ناولوں میں جگہ بنائی ہے۔عورتوں کے مسائل،حقوق کی پامالی، نسائی استحصال اور معاشرے کے جبر یہ نظام کے خلاف خواتین کا احتجاج ان ناولوں میں محسوس کیا جا سکتاہے۔

م ج:اعلیٰ اور معیاری ناولوں کی تخلیق میں کیا فرق ہے؟

ش ظ ا:اعلیٰ اور معیاری ناول قاری کو زندگی کی بصیرت عطا کرتا ہے۔اچھا ناول معاشرہ،فرد اور ذات کے نہ صرف خارجی عوامل و عناصر کو پیش کرتاہے بلکہ داخلی تضاد و تصادم اور اس کے محرکات کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ یہ کسی قوم،سماج یا معاشرے کی فکری و نظریاتی فضا کا اظہاریہ ہوتاہے …ناول زندگی کا جزو نہیں کل ہے۔اس میں ایک وسیع سیاسی،معاشی اور معاشرتی زندگی کو سمیٹنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔بڑا ناول مصنف کے مخصوص وژن یا نقطۂ نگاہ سے قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑا یا معیاری ناول محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں بلکہ اعلیٰ فن پاروں کی طرح زندگی،معاشرے اور کائنات کے رازہائے سربستہ کی بصیرت افروزی کا موثر وسیلہ بھی ہوتاہے۔

م ج:ناول کی بہ نسبت افسانہ کی طرف عام رجحان زیادہ کیوں ہے؟

ش ظ ا:اِس کا بہت آسان جواب جو ہمیشہ دیا جاتا رہاہے وہ یہ ہے کہ افسانہ مختصر ہوتاہے اس لیے زیادہ پڑھا اور لکھا جاتاہے۔ناول،ضخامت کے اعتبار سے بڑا اور منصوبہ بند طریقے سے لکھا ہوا فن پارہ ہو تاہے اس لیے نسبتاً کم تعداد میں سامنے آتاہے۔ لہٰذا کم پڑھا بھی جاتا ہے۔ آج کی بے انتہا مصروف زندگی میں ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل وغیرہ سے جو وقت بچ جاتا ہے اس میں قاری افسانہ تو آسانی سے پڑھ لیتاہے،ناول کے لیے اسے خاص طور پر وقت نکالنا پڑتاہے۔اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ناول کی طرف قاری کا رجحان کم ہوا ہے۔بقول فاروقی صاحب اردو معاشرے میں عمومی طور پر قرۃ العین حیدر،انتظار حسین اور عبداللہ حسین کا نفوذ ان کے معاصر شعرا سے بڑھ کر ہے۔

م ج:کیا جنس اور عورت کے بغیر اردو میں معیاری ناول نہیں لکھا جاسکتا؟

ش ظ ا: نہیں۔جس طرح ایک نارمل اور کامیاب زندگی کے لیے عورت کا وجود ضروری ہے اسی طرح اچھے ناول میں عورت کا کردار اہم ہے۔وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔کہا جاتا ہے کہ ناول زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے، تو ناول کی کائنات بغیر عورت کے کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ 

م ج:زوال آمیز تہذیب کے بدلتے نقش کو آج کے کن ناول نگاروں نے موضوع بنایا ہے؟

ش ظ ا:21  ویں صدی کے جن ناولوں کا میں نے ذکر کیا ان سب میں زوال پذیر تہذیب کے بدلتے نقش بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں،مگر خاص طور سے مشرف عالم ذوقی، عبدالصمد، حسین الحق، شموئل احمد، پیغام آفاقی، حبیب حق، احمد صغیر، شائستہ فاخری، رحمان عباس اور غیاث الدین کے ناولوں میں قدروں کے زوال کی عکاسی نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

م ج:آج کے ناول نگاربدلتے اسلوب واظہار کے معاملے میںکس حد تک مطمئن ہیں؟

ش ظ ا:گزشتہ دو دہائیوں میں جو ناول سامنے آئے ہیںان میں فکر،ہیئت اور اسلوب کی سطح پر مختلف تجربات کی کوششیں ملتی ہیں۔ان تجربات میں زبان اور اسلوب واظہار کے تجربات سب سے نمایاں ہیں۔ آج کے ناولوں کے اسلوب و اظہار پر بدلتی ہوئی تہذیب کا اثرہے اور نت نئے موضوعات کا بھی۔اس اسلوب میں پرانی صورتیں تیزی سے بدل رہی ہیں۔کلاسیکی اصول و ضوابط بے ترتیبیوں اورتضادات میں رل مل کر اس طرح آرہے ہیںکہ اسالیب کا تمام رکھ رکھائو پیچھے چھوٹتا جا رہاہے۔اس میں روایت سے انحراف،پرانے اسلوب سے بیزاری اور بندھے ٹکے اصولوں سے علیحدگی کو آسانی سے محسوس کیا جاسکتاہے۔زبان،جذبہ اور خیال سب مل کر ایک بہت ہی نیا اسلوب بنا رہے ہیں جس میں نہ تزئین کاری ہے اور نہ فطرت کی پینٹنگ۔ہاں بدلتی ہوئی قدروں اور حقیقتوں کا احساس ضرورہے۔بدلتی ہوئی قدریں زندگی میں تہذیب کی پالش گوارا نہیں کرتیں اس لیے ناول کے اسلوب سے رنگینی ختم ہو تی جارہی ہے اور اس نے جذباتیت سے بھی ہاتھ کھینچ لیاہے۔سنجیدہ سے سنجیدہ اور دل ہلا دینے والا واقعہ غیر جذباتی الفاظ میں سامنے آتاہے اور صرف واقعہ بتا کر گزر جاتاہے۔یعنی یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ناول کے نئے اسلوب و اظہار پر عقلیت اور سوجھ بوجھ کا دائرہ حاوی نظر آتاہے۔اور آج کے ناول نگار اِس بدلتے اسلوب سے پوری طرح مطمئن بھی ہیں۔





 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں