5/4/24

حالی کا تصوروزن: ایک جائزہ، مضمون نگار محمد شاہنواز خان




حالی نے’مقدمہ شعروشاعری‘ میں شعرکے تصور وزن پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ پہلے ان کے تصور وزن کو پیش کردیا جائے۔

    ’شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں ‘کے عنوان کے تحت تصور وزن کے متعلق حالی لکھتے ہیں

 شعر کے لیے وزن ایک ایسی چیز ہے جیسے راگ کے لیے بول،جس طرح راگ فی حد ذاتہ الفاظ کا محتاج نہیں۔ اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔ اس موقع پر جیسے انگریزی میں دو لفظ مستعمل ہیں:ایک پوئٹری اور دوسرا ورس، اسی طرح ہمارے ہاں بھی دو لفظ استعمال میں آتے ہیں: ایک شعر اور دوسرا نظم اور جس طرح اُن کے ہاں وزن کی شرط پوئٹری کے لیے نہیں ،بلکہ ورس کے لیے ہے۔اِسی طرح ہمارے ہاں بھی یہ شرط شعر میں نہیں بلکہ نظم میں ہونی چاہیے۔

)مقدمہ شعر و شاعری، الطاف حسین حالی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، دہلی، 2018، ص43(

 ’’ عرب شعر کے کیا معنی سمجھتے تھے ‘‘کے عنوان کے تحت حالی عربوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عرب برجستہ اور دل آویز فقروں،مؤثراور دل کش تقریروںکو شاعری سے تعبیر کرتے تھے۔ نیز محقق طوسی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عِبری اور ُسریانی اور قدیم فارسی میں شعر کے لیے وزن حقیقی ضرور نہ تھا سب سے پہلے وزن کا التزام عرب نے کیا ہے۔ (مقدمہ شعرو شاعری ،ص44)

   تصور وزن پرگفتگو سے پہلے وزن کی حقیقت پرتھوڑی سی بحث مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ وزن کے تعلق سے ممتاز حسین اپنی کتاب’حالی کے شعری نظریات ـ:ایک تنقیدی مطالعہ‘میں لکھتے ہیں:

  تمام حکما اس امر پر متفق ہیں کہ وزن کا تعلق حسب ذیل باتوں سے ہے:

  1.   ادائیگی حرف کی مدت، زمان یا دوران۔ (Duration)  
  2.  ادائیگی حرف سے جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں ان کا حجم۔(Volume) یعنی بھاری، ہلکی، ثقیل، خفیف، بلند و کوتاہ آواز ۔                            
  3.  ان آوازوں کے سُر اور تال(Timing)  یعنی وہ وقفہ جو تکرار آہنگ کے درمیان متعین کیا جاتاہے۔

)حالی کے شعری نظریات ، ایک تنقیدی مطالعہ، ممتاز حسین، سعد پبلی کیشنز،کراچی ،1988ص6(

یہ بات واضح ہو کہ وزن کمیاتی یعنی Quantitative، یا کیفیاتی یعنی Qualitative ہوتا ہے۔ اردو میں وزن کا تعلق کمیاتی وزن سے ہے۔ اس میں مصوتے کی طوالت یااختصار مد نظر رہتا ہے، نہ کہ کسی آواز کو ادا کرنے میں کتنا زور صرف ہوا ہے۔ کمیاتی وزن میں ہر حرف کی آواز اپنی قدروقیمت رکھتی ہے۔ وزن کے تعلق سے مزید آگہی کے لیے عصر حاضر کے معتبراور دیدہ ور نقادشمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’عروض ،آہنگ اور بیان ‘کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

 شعر کی ماہیت کے بارے میں سب سے پہلے ارسطو نے اپنی’ بوطیقا ‘میں گفتگو کی ہے۔ اس کے ایک متنازعہ فیہ جملے نے متاخرین کووزن کے تعلق سے دو گروہ میں تقسیم کردیا۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ارسطو کے نظریۂ شعرپر ہی ایک نظر ڈال لی جائے۔ ارسطو کے حوالے سے یہ بات تقریباًتسلیم کر لی گئی ہے کہ وہ شعر میں وزن کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ وہ صرف کلام مخیّلہ کو شعر کہتا ہے، خواہ وہ موزوں ہو یا غیر موزوں۔جب کہ ارسطو کا نظریۂ شعردرج ذیل تین باتوں کی تفہیم پر مبنی ہے :

(1)  کلام مخیّلہ موزوں ،جسے وہ شعرکہتا ہے ۔جیسے ہومرکا کلام۔

(2)  کلام غیر مخیلہ موزوں ،جسے ارسطو شعر کہنے سے گریزکرتاہے ۔جیسے امپڈاکلیزEmpedoclesکامنظوم کلام ،جو علم طبعیات پر مبنی ہے ۔ ارسطو اس کے کلام کو منظوم ہونے کے باوجود شعر نہیں کہتا ۔ اور نہ ہی امپڈاکلیزکو شاعر مانتا ہے۔

(3) کلام مخیلہ غیر موزوں، جسے وہ شعر نہیں کہتا، بلکہ اسے شعر کے علاوہ کچھ دوسرا نام دینا چاہتا ہے، لیکن اُس وقت اس کے ذہن میں کوئی اصطلاحی لفظ نہیں تھا، جس سے وہ اسے موسوم کرتا۔ جیسے ’مکالمات افلاطون‘ باوجود کہ کلام مخیلہ ہے لیکن وہ اسے شعر کہنے سے گریز کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارسطو کو’کلام مخیلہ‘لیکن ’غیر موزوں‘کو شعر کہنے میں تأمل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ وزن کو شعر کے لیے غیر ضروری نہیں قرار دیتا ۔ 

حالی کا نظم اور شعر میںوزن کے تعلق سے تفریق کرنے کا نقطۂ نظر بھی در اصل ارسطو کے نقطۂ نظر کی وہ تفہیم ہے، جو بعد کے محققین نے اپنے طور سے کی ہے۔ ’بو علی سینا ‘نے اپنی کتاب ’الشفا ‘ میں ارسطو کے حوالے سے شعر اور نظم میں تفریق کے تعلق سے لکھا ہے۔بو علی سینا کی عربی عبارت کا فارسی ترجمہ ملاحظہ کیجیے :

 اما ارسطو میان شعر و نظم فرق گذاشتہ است، اصل شعر را در معنی و مضمو ن آں می جویدو صورت شعر را کہ مقید بہ وزن و قواعددیگرنظم است،جزماہیت ِاو نمی شمارد۔ و معتقد است کہ بسیار ے از سخنان منظوم را کی موضوع آنہا ،فی المثل پَزِشۡکی و طبیعات است از جنس شعر نباید شمرد۔ 

)ترجمہ فن شعر ابن سینا، از آقائے دانش پژوہ، بحوالہ حالی کے شعری نظریات،  ایک تنقیدی مطالعہ ،ص(

اس عبارت میں ارسطو کے حوالے سے چند باتوں کا دعوی کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ارسطو شاعری کا جوہر معنی و مضامین (کلام مخیّلہ(میں دیکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ موزوں کلام جو معنی و مضامین پر مشتمل نہ ہو، (کلام موزوں غیر مخیّلہ( وہ اسے شعر نہیں کہتا۔ تیسرا دعوی، صورت شعر یعنی وزن اور قواعد نظم کو شعر کی ماہیت کا جز وشمار نہیں کرتا، ابن سینا کا یہ دعوی ارسطو کے حوالے سے حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ارسطو نے شعر کی ماہیت سے وزن کو خارج کرنے سے گریز کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے۔ بو علی سینا ارسطو کے نظریے کی تشریح کرنے والوں میں سر فہرست ہیں۔ اس لیے ان کے نظریے کی جھلک بعد کے محققین کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔ محقق طوسی بھی ان کے خوشہ چیں رہے ہیں، جن کا حوالہ حالی نے بھی دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کی حالی نے بھی شعر اور نظم میں تفریق کا نظریہ یہیں سے اخذکیا ہے۔ حالی نے تصور وزن کے تعلق سے محقق طوسی کا حوالہ دیا ہے۔  اس لیے محقق طوسی کی عبارت بھی درج کی جاتی ہے۔

 پس شعر در عرف منطقی (ارسطو ( کلام مخیل است و در عرف متأخراں کلام موزوں مقفی۔چہ بحسب ایں عرف ہر سحنے را کہ وزنی و قافیتی باشدخواہ آں سخن برہانی باشدوخواہ خطابی وخواہ صادق و خواہ کاذب و اگر ہمہ بمثل توحید خالص یا ہذیانات محض باشد آں را شعرخوانند۔ واگر از وزن وقافیہ خالی بودواگرچہ مخیّل بودآنراشعر نخوانند۔وامّا قدماشعر کلام مخیّل راگفتہ اندواگرچہ موزون حقیقی نبودہ است۔ واشعارِ یونانیاں بعض چناں بودہ است ۔و دیگر لغات قدیم مانندعبری، سریانی، فرس ہم ،وزن حقیقی اعتبار نکردہ اند۔واعتبار وزن حقیقی بداں می ماند کہ اول ہم عرب را بودہ است ۔ 

)اساس الاقتباس ،چاپ دانشگا ہ تہران، بہمن1326، ص586، بحوالہ حالی کے شعری نظریات ،ایک تنقیدی مطالعہ ،ص 2)

اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ شعر منطقیوں (ارسطو) کی اصطلاح میںکلام مخیل ہے اور متاخرین (ارسطوکے بعد)کی اصطلاح میں شعرایسا کلام ہے جو موزوں و مقفّٰی ہو، یعنی متاخرین کے نزدیک اگر شعر میں وزن و قافیہ نہ ہو تو وہ شعر نہیں اگرچہ کلام مخیل ہو ۔اس اعتبار سے ہر وہ کلام جو موزوںو مقفیٰ ہو ،وہ شعر ہوگاگرچہ اس میں کچھ بھی پیش کیا گیا ہو ۔لیکن قدما (ارسطو )کے نزدیک شعر کلام مخیّل ہے اگر چہ اس میں وزن حقیقی نہ ہو ۔یونانی اور دیگر قدیم زبانیں جیسے ِعبری سُریانی وغیرہ میں بھی شعروزن حقیقی کے بغیر ہواکرتے ہیں۔  وزن حقیقی کا استعمال سب سے پہلے عربوں نے کیا ہے ۔

محقق طوسی کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے حالی نے یہ دعوی کیا کہ نفس شعر کے لیے وزن ضروری نہیں۔ جب کہ طوسی کی عبارت ہے ’قدما شعر کلام مخیّل راگفتہ اندواگرچہ موزون حقیقی نبودہ است ‘ یعنی ارسطو کلام مخیّل کو شعر کہتا ہے اگر چہ وہ موزون حقیقی نہ ہو ۔یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محقق طوسی ’موزون حقیقی‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے اورموزون حقیقی عربوں کے نزدیک وزن مع قافیہ ہے یعنی ایسا وزن جس میں قافیہ کی پابندی ضروری ہو۔ اوروزن کے ساتھ قافیہ کی پابندی عرب ہی کرتے تھے۔ دوسری زبانوں میں وزن کی پابندی تھی،قافیہ کی نہیں۔ اسی لیے محقق طوسی عِبری اورسُریانی کے لیے ’وزن حقیقی اعتبار نکردہ اند‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان زبانوں میں وزن کے ساتھ قافیہ کا استعمال ضروری نہیں تھا۔ یونانی زبان کے لیے محقق طوسی لکھتے ہیں ’واشعار یونانیاں بعض چناں بودہ است ‘۔یعنی یونانی زبان میں کبھی وزن کے ساتھ قافیہ کا استعمال ہوتا تھااور کبھی نہیں ۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ محقق طوسی نے مختلف زبانوں میں وزن کا کیا تصور ہے، اس پر گفتگو کی ہے۔ یہ دعوی نہیںکیاہے کہ شعر کے لیے وزن غیر ضروری ہے ۔

حالی نے ’ وزن حقیقی ‘سے کیا مراد ہے، اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر طوسی کے حوالے سے لکھاہے:

 عِبری اور سُریانی اور قدیم فارسی میں شعر کے لیے وزن حقیقی ضرور نہ تھا۔سب سے پہلے وزن کا التزام عرب نے کیا ہے۔

حالی کا آخری جملہ ’’سب سے پہلے وزن کا استعمال عرب نے کیا ہے‘‘محل نظر ہے کیونکہ طوسی نے موزون حقیقی کا لفظ استعمال کیا ہے اورموزون حقیقی کا مفہوم وزن مع قافیہ ہے ۔جیسا کہ اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔ حالی نے اس فرق کو نظر انداز کر دیا اور دوسری زبانوں کی شاعری کو بھی زیور ِوزن سے عاری ہونے کی بات کہہ دی۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ دوسری زبانوں میں وزن کے ساتھ قافیے کی پابندی ضروری نہ تھی ۔ 

حالی نے اپنے دعوے کومدلل اور جدید ذہن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے یوروپین محققین کا بھی حوالہ دیا ہے، لیکن نام درج نہیںکیا۔ حالی لکھتے ہیں :

 یورپ کا محقق لکھتا ہے کہ اگر چہ وزن پر شعر کا انحصار نہیں ہے اور ابتدا میں وہ مدتوں اس زیور سے معطل رہا ہے۔ مگروزن سے بلا شبہ اس کا اثر زیادہ تیز اور اس کا منتر زیادہ کارگر ہوجاتاہے ۔

    اس عبارت میں ’یورپ کا محقق ‘کی نشاندہی ممتاز حسین نے’ ورڈزورتھ ‘ سے کی ہے ۔ ورڈزورتھ کے ساتھ سرفلپ سڈنی اور شیلی کے حوالے بھی وزن کے غیر ضروری ہونے کے تعلق سے دیے جاتے ہیں،  جن کا نظریہ ٔ وزن ارسطو کے اسی متنازعہ فیہ جملے سے ماخوذ ہے، جس کی وضاحت اس سے پہلے کی جاچکی ہے ۔ 

عرب شعر کے کیا معنی سمجھتے تھے ‘کے عنوان کے تحت حالی عربوں کے برجستہ اور دل آویز فقروں، مؤثراور دل کش تقریروںکو، جنھیں عرب شعر سے تعبیر کرتے تھے، وزنِ شعر کے لیے غیر ضروری ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔ حالی کا مفروضہ یہ ہے کہ شعر کے لیے وزن کی شرط اگر ضروری ہوتی تو ان جملوں اور فقروں کو عرب شعر سے تعبیر نہ کرتے۔ اس سلسلے میں پروفیسر احمد محفوظ اپنے ایک مضمون ’حالی اور غزل کی تنقید‘میں لکھتے ہیں:

یہاں اس بات کا ثبوت فراہم نہیںکیا گیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کی قدیم شاعری میںجس طرح کے برجستہ اور دل آویزفقروں کی مثال لائی گئی ہے اور جنھیں عام بول چال کے مقابلے میں فوقیت رکھنے والے کہا گیا ہے، انھیں فی نفسہ شعر کی حیثیت حاصل تھی یا انھیں محض چند شاعرانہ خصوصیات کے حامل فقرے ہی سمجھا جاتا تھا کیونکہ شاعرانہ بیان کی صفات میں ندرت اور نرالا پن بھی شامل ہے۔ لہٰذا ممکن ہے قدیم عرب کے لوگ ایسے فقروں کی برجستگی اور ندرت کی بنا پرانھیں شاعرانہ انداز کے فقرے سمجھتے رہے ہوں اور ان کی نگاہ میںایسے فقروں کی حیثیت فی نفسہٖ شعر کی نہ رہی ہو۔

(حالی اور غزل کی تنقید ،پروفیسر احمد محفوظ،مشمولہ الطاف حسین حالی، تحقیقی، تنقیدی جائزے،مرتب پروفیسر نذیر احمد،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، 2002 ،ص427(

پروفیسر احمد محفوظ کی بات بالکل درست ہے کیونکہ شعر کے لیے جدلیاتی انداز بیان جس میں الفاظ کے مجازی معنی کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے، ضروری خیال کیا جاتا ہے۔  ان ناموزوں فقروں کو شعر کہہ دیناایسے ہی ہے جیسے کسی موزوں لیکن غیر مخیلہ فقرے کو بھی شعر کہہ دیا جائے۔ اس قسم کے تاثراتی بیان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ دونوں صورتوں میںشعر گوئی کی صلاحیت کے امکان کو روشن کرتے ہیں یا اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حالی نے شعر میں وزن کو غیر ضروری قرار دینے کے لیے عربی فقروں اور جملوں کا سہارا لیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے مشہور علمائے بلاغت کا نظریۂ  وزن بھی درج کر دیا جائے۔  ’قدامہ ابن جعفر ‘اپنی کتاب ’نقد الشعر ‘ میں لکھتے ہیں :

شعر اس موزوں اور مقفّیٰ قول کا نام ہے جس سے کسی معنی پر دلالت ہو سکے ۔

)نقد الشعر ،قدامہ ابن جعفر، ترجمہ محمد جعفر احراری، بحوالہ کلاسیکی تصورشعر، آفتاب عالم عارفی ،براؤن پبلی کیشنز ،نئی دہلی، 2018ص67

ابن خلدون تصور شعر سے بحث کر تے ہوئے ا پنے مقدمے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

ایک ایسا کلام موزوں و مقفّیٰ ہے جو معنی رکھے اور اس کے تمام اوزان ایک حرف روی پر مشتمل ہوں۔(ایضاً، ص67)

ابن رشیق شعر کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

شعر ذہنی نشاط اور اہتزاز نفس کا ذریعہ ہے ، جو دلوں کو گرماتا ہے اور روح کو تڑپاتا ہے، یہی شعر کا مقصد ہے اور اسی غرض سے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ (ایضاً ص68)

طہ ٰ حسین اپنی کتاب ’ادب الجاہلی‘ میںعربوں کے یہاں وزن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

تمام عرب ہر زمانے میں اس امر پر متفق الرائے رہے ہیں کہ شعر کے لیے موزوں ہونا ضروری ہے خواہ وہ کوئی سا وزن ہو جس کا شاعر قصد کرے ۔ کوئی عربی النسل آدمی شعر کا کوئی اور تصور ہی نہیں کر سکتا ہے سوائے اس کے کہ اس کے الفاظ اس عروضی مقیاس کے پابند ہوں یا یہ کہو کہ اس موسیقی (ترنم)والے معیار کے پابند ہوں جو قصیدے کے اشعار کے درمیان ایک قسم کی موزونیت پیدا کردیتا ہے۔

)ادب الجاہلی، مترجم، محمد رضا انصاری، بحوالہ کلاسیکی تصور شعر، ص68(

 طہ حسین نے حالی کے ایک عرصے بعد تمام عرب کے حوالے سے تصور وزن کے بارے میں جو بات کہی ہے، وہ اپنا محل رکھتی ہے ۔ 

حالی وزن کو شعر کی ماہیت اور اس کے اصلی عنصر ہونے سے خارج کرتے ہیں ،لیکن وہ بالطبع شاعر ہونے کے باوجود بطور نمونہ کوئی ایک شعر بھی ایسا پیش نہیں کرتے جو وزن سے عاری ہو، بلکہ وہ وزن کی اہمیت اورشعر میں وزن کے ذریعے جذبات کی ادائیگی اور تاثیر کے دوبالا ہونے کی بات کرتے ہیں۔

 

Mohd Shahnawaz Khan

B/3rd Floor, B20 Okhla Vihar

New Delhi- 110025

Mob: 9536673993

E.mail: shahnawazrazi73@gmail.com

 









کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں