24/6/24

مصور مناظر ابوالاسرار رمزی اٹاوی، مضمون نگار: اکمل نعیم صدیقی

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


علامہ سیماب اکبر آبادی کے فارغ الاصلاح تلامذہ میں شامل رمزی اٹاوی بھی اسی سلسلے کے شاعر ہیں، جو ادب کو محض انسان کی جمالیاتی جبلتوں کی تسکین کا سامان نہیں سمجھتے بلکہ ادب کو انسانیت کی خدمت کا آلہ کار گردانتے ہیں۔ رمزی اٹاوی کا نام ظہور احمد ،کنیت ابو الاسرار  اور تخلص رمزی ہے۔ دنیائے علم وادب میں رمزی اٹاوی کے نام سے مشہور ہیں۔ رمزی صاحب 1دسمبر 1912  کو اٹاوہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام منشی مولیٰ بخش رحمانی ہے۔ اٹاوہ کے اسلامیہ انٹر کالج سے 1929 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انجمن ہدایت اسلام میں انگریزی کے مدرس رہے۔ اسی زمانے میں شاعری کا شوق ہوا۔ 1932 میں جودھپور آئے اور محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ منشی کامل الٰہ آباد یونیورسٹی سے اور ایم اے انگریزی کی ڈگری علی گڑھ یونیورسٹی سے لی۔ ادیب کامل جامعہ اردو علی گڑھ سے اور ایڈوانس ہندی کا امتحان الٰہ آباد یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 1942 میں آپ کو جودھپور ریڈیو پر شعبۂ اردو کا انچارج بنایا گیا۔ 1977 میں راجستھان اردو اکادمی کے ممبر نامزد ہوئے۔ رزمی اٹاوی مشاعروں میں تحت اللفظ پڑھتے تھے اور پڑھے لکھے طبقے میں پسند بھی کیے جاتے تھے۔ رمزی     صاحب کی نیچرل نظموں سے متاثر ہو کر حضرت بیدل بدایونی نے ان کو ’مصور مناظر‘  لکھنا شروع کر دیا تھا۔رمزی صاحب کا کلام ہند و پاک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے۔تا دم حیات ان کی کوشش یہی رہی کہ سب قوموں اور فرقوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکے اور سب مل کر اس ملک و ملت کی فلاح و بہبودی کے لیے سعی کریں۔

رمزی اٹاوی کا شمار ان شاعروں میں کیا جاتا ہے جن کی نظر میں ادب صرف تفریح کا سامان نہیں ہے بلکہ یہ بامقصد ہوتا ہے۔ ہر ادبی تخلیق کے در پردہ ایک فکر کارفرما  ہوتی ہے اور ادیب کے پیش نظر ایک مقصد اور مدعا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمزی نے غزل کو پس پشت ڈال کر اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کے لیے نظم کے دامن کو تھام لیا۔ وہ ’ حریمِ نیاز ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ میں صالح ادب کا حامی ہوں۔ اس مقصد کے لیے میں نے جلد ہی غزل کہنا چھوڑ دیا اور نظم کہنے کی طرف مائل ہو گیا۔‘‘

(صحرا میں بھٹکتا چاند، راجستھان اردو اکادمی، جے پور، 2001، ص 141)

جب ادب بامقصد ہو جاتا ہے تو پھر وہ مہ جبینوں اور نازنینوں کی ادائوں اور ان کے رخ و رخسار اور گیسوئوں کے پیچ و خم اور صنم کدے و حرم کدے سے آزاد ہو جا تا ہے۔ اس کی فکر کا معیار بلند تر ہو جاتا ہے۔ اسے حیات و کائنات کے رموز نظر آنے لگتے ہیں۔زندگی اور موت کے درمیان موجود تمام راز آشکار ہونے لگتے ہیں۔ہر عقدہ کھلنے لگ جاتا ہے۔ پھر شاعر، شاعر نہیں پیمبر کی صورت ہو جاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق خود رمزی کرتے ہوئے کہتے ہیں           ؎

نہ دیار میں میرے مہ جبیں، نہ حسین عربدہ آفریں

نہ صنم کدے، حرم کدے، نہ ہجوم و لالہ و یاسمیں

نہ ہیں منتشر میرے دوش پر، وہ کسی کے گیسوئے عنبریں

میرا ملک شعرو سخنوری غم حسن و عشق سے ہے بری

کہ ازل سے مجھ کو عطا ہواہے مذاق شعر و پیمبری

جو شاعر غزل کے معنی صرف حسن و عشق کی باتیں کرنا سمجھتے ہیں رمزی کے نزدیک وہ ’’قدامت پرست شاعر ہیں۔‘‘ انھیں قدامت پسند شاعروں کو وہ عار دلاتے ہوئے رقم طراز ہیں           ؎

فسانہ تابکے دہرائے گا جذبات عریاں کا؟

پرستار تغزل، اے گناہ عشق کے بندے

کبھی اقبال کی صورت خودی کا گیت گایا ہے؟

کبھی اشعار کے نشتر سے پہلو گدگدایا ہے؟

جہاں والوں کو پہنچایا کبھی پیغام یزداں کا ؟

کبھی پیغمبرانہ نطق سے روحوں کو گرمایا ؟

رمزی اٹاوی کے پہلے طبع شدہ مجموعے ’صحرامیں بھٹکتا چاند‘ کے حرف آخر میں اشراق الاسلام ماہر رقم طراز ہیںکہ ’’آپ کی اکثر نظمیں شعریت، روانی اور منظر کشی کا جادو بکھیرتی ہوئی شروع ہوتی ہیں اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے مشرف بمقصد ہو جاتی ہیں۔‘‘(ایضاً، ص 141)

یہ بات سو فیصد درست ہے۔شاعری کے تعلق سے اپنے مضمون ’حدیث شعرو شاعری‘ میں آپ رقم طراز ہیں کہ ’’شاعر میں شعور و سلیقہ کمال درجے کا ہوتا ہے۔ شاعر اپنی پوری قوت صرف کرکے بحر جذبات کی تہ سے موتی نکالتا ہے۔ عرش تخیل کے تارے توڑتا ہے،موشگافی، دقیقہ سنجی کی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے۔‘‘

اسی مضمون میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’شاعری تو وہ وہبی بلکہ شعور ملکوتی ہے جسے قدرت نے صرف بعض مخصوص طبیعتوں میں ودیعت فرمایا ہے۔‘‘  اور کہتے ہیںکہ ’’اس میں شک نہیں کہ بعض اشعار میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، جب تک بات میں حکمت و حقیقت نہ ہوگی اثر بھی نہ ہوگا کسی حق بات کو موثر ترین پیرایہ میں ادا کرنا شعریت کا مرتبہ حاصل کرنا ہے، جب تک بات میں سوز و گداز نہ ہوگا شعر شعر نہیں ہو سکتا۔‘‘

 (حدیث شعر و شاعری، مطبوعہ شاعر، آگرہ، نومبر 1940)

رمزی اٹاوی کی شاعری کا جب آپ مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کو بارہا اقبال کی یاد آتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً اقبال کی ہی طرح انھوں نے بھی اپنی بات کہنے کے لیے نظم کا انتخاب کیا۔ان کے کلام میں بھی آپ کو اقبال کے جیسی فکر انگیزی، سنجیدگی، متانت، اصلاح قوم کا جذبہ، امت کی فکر، معنی خیز اصطلاحات، نادر تشبیہات، عمدہ الفاظ کا انتخاب، سلاست و روانی، مضامین کی وسعت، مناظرفطرت کی خوب صورت عکاسی اور قرآن و حدیث کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔ اسی طرح ان کی کئی نظموں کا انداز خطیبانہ ہے تو کئی نظمیں اقبال کی ہی طرح مکالماتی ہیئت لیے ہوئے ہیں اور تو اور اقبال ہی کی طرح آپ نے بھی بچوں کے ذہنی معیار کے مطابق، بچوں کے لیے بھی عمدہ اور معیاری نظمیں تحریر کی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ نظمیں اپنے قارئین تک پہنچ نہ سکیں۔ ہمارے فرائض، لڑکیوں کا گیت، چوزے کے ماتم میں، دعائیہ گیت، سونے کا پرنالہ، قلم، عالمی ترانہ، جوش عمل، محترم انسان اور سورج جیسی بہترین نظمیں اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

رمزی نے اقبال کی طرح ہی مکالماتی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ’مناظرہ‘ ان کی ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں ابلیس اور مومن کے مابین مکالمات کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نظم میں جہاں ابلیس اپنی طاقت و قوت کی بات کہتا ہے وہیں مومن اسے بتاتا ہے کہ تیرا انجام سوائے جہنم کے کچھ نہیں ہے جبکہ میں امتحاں کے بعد واپس جنت میں جاسکتا ہوں۔اسی طرح کی ایک نظم بعنوان ’دو مسافر‘ ہے جس میں انسان اور وقت کے مابین گفتگو پیش کی گئی ہے۔ انسان وقت سے کہتا ہے کہ تو مسلسل اپنی راہ پر گامزن ہے کبھی تو ایسا ہو کہ تو ٹھہر کر گھڑی دو گھڑی آرام کر لے۔ اس پر وقت کہتا ہے کہ میں انسان کی طرح سست اور غافل نہیں ہوں        ؎

کہیں نہ راہ میں ہو دیر ڈر رہا ہوں میں

خدا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں میں

سنا  نہ  مجھ کو  یہ  افسانہ  گل و شبنم

ابد کی سرحد آخر پہ جا کے لوں گا دم

اسی طرح ان کی دو نظمیں ’قدامت پرست شاعر‘ اور ’شاعر کا عہد نامہ‘ بھی اہم ہیں۔ قدامت پرست شاعر میں جہاں انھوں نے شاعری کو بامقصد بنانے کی طرف متوجہ کیا ہے اور شاعر کو غیرت دلانے کی کوشش کی ہے وہیں ’شاعر کا عہدنامہ‘ کے ذریعے انھوں نے ایک طرح سے شاعروں کے سامنے شاعری کا مینی فیسٹو اور منشورپیش کیا ہے۔

اسی طرح ان کی بہت سی نظموں میں ان کا خطیبانہ انداز دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی ایک بہت ہی خوبصورت نظم ہے جس کا عنوان ہے ’خطاب خاص‘ اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نظم ہمارے وطن عزیز میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں سے نہ صرف یہ کہ فرداً فرداً خطاب کرتی ہے بلکہ سبھی کو ان کی مذہبی تعلیمات اور عقائد کے ذریعے باہمی محبت اور اخوت کی جانب رغبت دلاتی ہے اور مل جل کر امن سے رہنے کی ترغیب دیتی ہے      ؎

پھر وہی جاری کرو  مہرو محبت کا چلن

پھر صدا دے کر بلائو اپنا وہ عہد کہن

اپنے روٹھوں کو منائو ہم بغل ہو ایک ہو

رسم الفت دیکھ کر دنیا کہے تم نیک ہو

’مادر وطن کا اپنے فرزندوں سے خطاب‘ ایک طویل نظم ہے جس میں وہ اس ملک کے باشندوں سے خطاب کرتے ہیں اور انھیں غیرت دلاتے ہوئے خون خرابا اور مارکاٹ سے رک جانے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ نظمیں ہند و پاک تقسیم کے بعد رونما ہونے والے مذہبی فسادات کے پس منظر میں تحریر کی گئی ہیں          ؎

کون سا مذہب ہے جس میں قتل و غارت ہے روا

یہ تباہی امن سوزی یہ  شرارت  ہے  روا

رشوت و اغوا  کی بے ہودہ  تجارت  ہے  روا

بے گناہوں پر ستم ہدم  عمارت  ہے  روا

کر  دیے تم نے فنا  اف  کیسے کیسے  دل دماغ

صبح سے پہلے بجھا کر رکھ دیے روشن چراغ

ان کے یہاں نظموں میں ایک جوش اور ولولے کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ فکر و بصیرت اور شعور و دانائی ان کی نظموں کا لازمی عنصر ہے۔ان کی نظمیں اسرار و رموز اور سرود ازل اس کی بہترین مثالیں ہیں          ؎

دونوں کے ارتباط سے رونق جہاں کی  ہے

کچھ خاک میرے سر کی ہے کچھ آستاں کی ہے

برسوں سے پڑھ رہا ہوں میں افسانہ حیات

اب  تک  نہیں  کھلا کہ عبارت کہاں کی ہے

[اسراو رموز]

مری لغزشوں نے گرا دیا،مجھے خاکدان خراب میں

میں وگرنہ خلد کی روح ہوں، جو رہی ہے اس کی جناب میں

یہ میں کن حدود میں آ گیا، کہ عدم سے بود میں آ گیا

قفس شہود میں  آ گیا،  فقط  ایک کن  کے  جواب  میں

[سرود ازل]

رمزی کی نظموں میں آپ کوان کا ایک اور انداز دیکھنے کو ملے گا اور وہ ہے موازنے کا انداز۔ حالانکہ اقبال کی نظموں میں بھی یہ رنگ پایا جاتا ہے مثلاً نظم پہاڑ اور گلہری میں پہاڑ کا گلہری سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح رمزی کی نظم ’تحقیق‘ میں تحقیق اور تقلید کا موازنہ پیش کیا گیا ہے اور تحقیق کی برتری کا اعلان کیا گیا ہے۔وہ تقلید کو مرگ دانش کہتے ہیں اور تحقیق کو ایک روشن دنیا سے تعبیر کرتے ہیں        ؎

تحقیق کی روشن  دنیا  میں ہر سمت چراغاں  ہوتا  ہے

تقلید کی اندھی دنیا میں ظلمت کا بیاباں ہوتا ہے

ہم خاک کی باتیں کرتے ہیں وہ خاک سے باتیں کرتا ہے

جو شخص محقق ہوتا ہے افلاک سے باتیں کرتا ہے

تقلید  تو  مرگ  دانش  ہے  پرواز  بشر کی کھوتی ہے

تقلید کی دنیا میں رمزی ذہنوں کی غلامی ہوتی ہے

وہیں نظم ’ارتقا و اتقا‘ میں ارتقا اور اتقا کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔اتقا کے بغیر ارتقا یقینی طور پر انسانیت کے لیے ہر دور میں مہلک ثابت ہوا ہے          ؎

جلوہ  ایجاد  پر  سائنس  شیدا  ہو گئی

اور اس سے آدمی کی موت پیدا ہو گئی

آدمی کے قلب سے خوف خدا جاتا رہا

ارتقا  کا  ہے  جنوں اور اتقا جاتا رہا

اسی طرح ان کی نظم ’تثلیث‘ ہے جس میں باری باری سے جنگ، ظلم اور عشق کا تبصرہ کرتے ہیں۔ اس نظم میں وہ جنگ کو تباہی ، ظلم کو شرارت اور عشق کو خدا کے نام سے تعبیر کرتے ہیں          ؎

جنگ ہے لاشوں کا ڈھیر، شور و شر و ازدہام

جنگ سم  زندگی،  جنگ  تباہی کا  دام

ظلم بھیانک ہنسی، ظلم جہنم کی  شام

ظلم  جنون  فساد، ظلم  شرارت  کا  نام

عشق  ازل  کا  جمال، عشق شگفت تمام

عشق ستاروں کی چھائوں، عشق خدا کا ہے نام

ان کی نظموں میں بھی حالی کی طرح مقصدیت کا غلبہ ہے اور ان کا عالمانہ اور خطیبانہ انداز ،ان نظموں کا خاصہ ہے مگر یہ قاری پر گراں نہیں گزرتا بلکہ ان کی نظموں میں موجودالفاظ کی سادگی، روانی، سلاست اور منظر نگاری کی وجہ سے نظم میں حسن اور کشش پیدا ہو جاتی ہے جوقاری کو نظم کے اخیر تک باندھے رکھتی ہیں۔ان نظموں میں سوز و گداز بھی ہے اور روح کے تار کو متحرک کرنے والی صدائے دل نواز بھی۔ ان کے کلام میں شعریت، معنویت، صالحیت، نصیحت اور فکرو بصیرت کے گوہر بہت سلیقے اور قرینے سے نظم کیے گئے ہیں۔ وہ سر سید، شبلی، حالی اور اقبال کی طرح ہی اپنی ہنر مندانہ شعری تخلیقات سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ایسا انقلاب جس میں طہارتِ فکر و نظر کا سامان اور نفاستِ فن کا امکان موجود ہو۔ وہ ایک صالح اورمثالی معاشرہ قائم کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں جس کی ایک جھلک وہ اپنی طویل نظم ’سمندروں کے آئینے‘ میں دکھاتے ہیں           ؎

میرے  تخیلات  کی  کوئی  حسین موج تھی

جو مجھ کو اس جہان سے فضائے نو میں لے گئی

یہاں کے سارے آدمی تھے بھولے بھالے فلسفی

دماغ  و  دل میں روشنی  جمیل و سادہ زندگی

نفس نفس میں  بانسری  نظر  نظر  میں  قیصری

زبان میں فسوں گری ،  کلام  میں  پیمبری

کوئی سحر کے  زمزموں  کا  کر  رہا  تھا  ترجمہ

کوئی ازل  کی  شام  کا  سنا  رہا  تھا  واقعہ

کوئی شفق  کی  سرخیوں  پہ کر  رہا  تھا تبصرہ

کسی  کا  شغل  چاندنی  کا  پر سکوں مطالعہ

[سمندروں کے آئینے]

اسی طرح ان کی ایک نظم ’منھ بولتی غزل‘ بھی فکرو بصیرت، علم و معرفت اور شعور و دانائی کے نور سے روشن کسی چراغ سے کم نہیں ہے۔ اس نظم میں مستعمل استعارات اور تشبیہات بھی اپنی ندرت، کمال خوبصورتی اور مناسبت کی اپنی مثال آپ ہیں۔ ظلمت کو افسردہ روشنی اورموت کو تمہید زندگی کہہ کر انھوں نے ان لفظوں کو نئی معنویت بخشی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار دیکھیے        ؎

تاروں کا ٹمٹمانہ دھڑکن ہے میرے دل کی   

یہ اضطراب پیہم ہے جان آب و گل کی

ظلمت  ہے  نام جس کا افسردہ روشنی ہے

کہتے ہیں موت جس کو تمہید زندگی ہے

اس آسماں سے آگے اک چیز دیکھتا ہوں

فردوس معرفت کی دہلیز  دیکھتا  ہوں

میری  نیاز  مندی  دیباچہ  غزل  ہے

میثاق  بندگی کی  منھ بولتی غزل ہے

[منھ بولتی غزل]

رمزی اٹاوی کے شعرستان میں عشق حقیقی کی سرمستی، حسن و وارفتگی، جمال و کمال، ترنم و تغزل کے ساتھ ساتھ مذہبی رحجانات کا غلبہ صاف طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہو یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ادیب کی پرچھائیں، اس کا عکس، اس کی شخصیت اور مزاج ،اس کی تخلیق میں شعوری اور لا شعوری طور پر شامل ہو ہی جاتے ہیں۔

مذہبی جنون ،قتل و غارت گری، باہمی نفرت و کدورت، ظلم و ستم اور جبر و اسبتداد کی آپ نے ہمیشہ تردید اور مخالفت کی ہے۔ وہ امن و محبت کے سفیر اور معلمِ اخلاق بن کر بردارانِ وطن کو آواز دیتے ہیں۔اپنی بہت سی نظموں میں آپ نے اس کو موضوع بنایا ہے خصوصاً تقسیم ملک کے بعد ہندو پاک میں ہونے والے خونی فسادات کے پس منظر میں آپ نے بہت ہی دردمندانہ طریقے سے اسے پیش کیا ہے۔مثلاً       ؎

پھولوں کی  دیکھتا  ہوں جہنم  کی  ریت  میں

جھلسی ہوئی بہار ہے شعلوں کے کھیت میں

ہر شے گراں ہے دہر میں ارزاں ہے صرف موت

ہر ذی نفس ملول ہے شاداں ہے صرف موت

رنگیں   ہیں   لہو   سے   الم  کی کہانیاں

قے کر رہی  ہیں خون کی زخمی جوانیاں

[پھولوں کے مقبرے]

شہر و جنگل میں  لہو  ہے کو ہساروں میں لہو

بہہ  رہا  ہے  آدمی  کا  سبزہ زاروں میں  لہو

اس طرف سے آ رہی ہے خون جلنے کی چراند

اس طرف سے بے کفن لاشوں کی زہریلی  سڑاند

شہر  غارت  ہو  گئے گلشن بیاباں ہو گئے

اہل  ساحل  اور  ساحل   نذر طوفاں   ہو گئے

[فانوس میں دبکے چراغ]

آدمیت  پی  رہی  ہے آدمیت کا  لہو

رو رہی ہیں نیکیاں اور شیطنت ہے سرخ رو

مختصر ہوتے چلے جاتے ہیں اسباب حیات

ہوتا جاتا  ہے معطل  سا  نظام  کائنات

   [دکھ کے سائے میں]

وہ خرابی کی ہے اس بھٹکے ہوئے انسان نے

اپنی آنکھیں بند کر لیں شرم سے شیطان نے

[خونی نمائش]

امن و اخوت اور رسم الفت کو عام کرنا ہمیشہ سے ان کا مقصد رہا ہے۔اسی لیے وہ صدا دے رہے ہیں کہ         ؎

جامِ صہبائے بقا پیتے رہو، پینے بھی دو

اس خدا کے ملک میں خود بھی جیو جینے بھی دو

اپنے روٹھوں کو مناؤ،ہم بغل ہو، ایک ہو

رسمِ الفت  دیکھ کر  دنیا  کہے تم نیک ہو

رمزی انسان اور انسانیت کے احترام کے قائل ہیں اسی لیے وہ اپنی نظم ’احترام انساں‘ میں رقمطراز ہیں          ؎

یہ سب کارخانہ بشر کے لیے ہے

یہ سارا  زمانہ   بشر  کے  لیے   ہے

کی قسم  شاہ کار خدا ہے

یہ  انسان آئینہ دار   خدا   ہے

خد ا کا  خلیفہ ہے مخدوم سب کا

ہیں سب اس کے خادم وہ ہے بندہ رب کا

کرو  آدمی  سے  محبت زیادہ

اسے  رب  نے  دی  ہے کرامت زیادہ

[احترام انساں]

رمزی نے نظیر اکبر آبادی کی طرح فاسد رسم و رواج اور امت کے نوجوانوں کی بے راہ روی پر بھی بڑے بے باکانہ انداز میں اپنے قلم کو تلوار کی مانند جنبش دی ہے۔ ان کی بہت سی نظمیں مثلاً کاروان نمود، باغی تتلیاں اور باغی بھنورے وغیرہ اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ نظم ’کاروان نمود‘ میں وہ جہیز کی لعنت کو بڑی چابک دستی اور بڑے روح پرور انداز میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ          ؎

ضو فشاں  یہ سیم گوں سوغات کا انبار  دیکھ

عرصہ ہستی میں آب و رنگ کا  بازار  دیکھ

کس طرح ہوتی ہے گھر کی زندگی دشوار  دیکھ

آنے والی پستیوں کے دور سے آثار  دیکھ

اس بہارستان میں بوئے خزاں پاتا ہوں میں

سینہ عشرت میں پلتی اک فغاں پاتا ہوں میں

[کاروان نمود]

اور جدید دور میں خواتین میں فیشن کی صورت گھر کر گئی عریانیت، کلب لائف، شراب اور سگریٹ نوشی پر حیرت کرتی ہوئی اور آنسو بہاتی ہوئی طویل نظم ’باغی تتلیاں‘  کے کچھ اشعار بھی دیکھتے چلیے        ؎

آہ  گلزار  تمدن  کی  یہ  باغی تتلیاں

جن کی بے باکی سے لرزاں زاہدوں کی نیکیاں

عظمت اسلاف اور ناموس سے منھ موڑ کر

آگئی  ہیں  خار زاروں میں  گلستاں چھوڑ کر

ماتم اے  ناموس، یہ کیا پر خطر نظارہ  ہے

حد فطری چھوڑ کر اب حسن  یوں آوارہ  ہے

[باغی تتلیاں]

خواتین کی طرح ہی انھوں نے مردوں کو بھی اپنے نشانے پر لیا ہے اور ان میں پیدا ہو چکی اخلاقی اور سماجی برائیوں کی جانب نہ یہ کہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ بہت سخت الفاظ میں غیرت دلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کی طویل نظم ’باغی بھنورے‘ سے چند اشعار ملاخطہ کیجیے         ؎

آدمیت کو  ہوا  ہے کیا  یہ  اخلاقی جذام

ارض   عالم کا  خلیفہ  اہرمن کا  ہے    غلام

مغربی عینک لگاتے  ہی  یہ  اندھے  ہو گئے

طالبان    روشنی   تاریکیوں   میں کھو   گئے

آنکھ اندھی، روح گندی، دل سیہ،  مردہ ضمیر

آدمی سوسائٹی کی لعنتوں میں ہے اسیر

ابو الاسرارمزی کو مصورِ مناظر اور نقاشِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی تقریباً تمام ہی نظمیں ان کے اس لقب کو صادق ثابت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مطالعہ فطرت، ریگستانی گائوں، سیر ماضی، آئینہ الہام، دو مسافر، شاعر فطرت جیسی بہت سی نظمیں ان کے نگار خانے میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ نظم ’ریگستانی گائوں‘ کا ایک بند دیکھیے جسے پڑھتے ہوئے آپ کی نظروں کے سامنے اس ریگستانی گائوں کا ایک ایک منظر ایسے گزر جائے گا کہ آپ خود اس گائوں میں اسی جگہ موجود ہیں جس کا ذکر شاعر کر رہا ہے اور ان مناظر کا آپ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔دیکھیے        ؎

گرد  و  غبار  ہر سو  جنگل  پہ  چھا رہا ہے

بستی  پہ  جیسے کوئی   آسیب  آ رہا  ہے

بھوری پہاڑیوں سے بھیڑیں گزر رہی ہیں

اونٹوں  کی کچھ   قطاریں  نیچے  اتر  رہی ہیں

تالاب کی طرف سے حوریں گزر رہی ہیں

مٹی  کی  گاگروں کو  پانی  سے بھر رہی ہیں

ماتھے پہ جن کے رنگین قشقے لگے ہوئے ہیں

گویا دھنک کے فیتے سر سے بندھے ہوئے ہیں

[ریگستانی گائوں]

اسی طرح ان کی نظم ’سیر ماضی‘ کو پڑھ کر آپ کو اختر شیرانی کی نظم ’ایک لڑکی کا گیت‘ ضرور یاد آئے گا           ؎

جہاں پیپل کے پتے  جھوم کر تالی بجاتے ہوں

جہاں بچے کسانوں کے گھنی چھائوں میں گاتے ہوں

جہاں بے باک ساتھی جھیل میں غوطے لگاتے ہوں

کبھی ایسا بھی ہوتا  ہے پھسل کر  ڈوب جاتے ہیں

وہ  بچپن کاش مل جائے تو کھلیانوں میں کھیلوں  پھر

وہاں جائوں میں اور زرخیز میدانوں میں کھیلوں پھر

[سیر ماضی]

رمزی نے ادب اطفال کی تخلیق کے لیے بھی اپنی صلاحیتوں اور شعور و فکر کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ادب اطفال کی تخلیق کوئی آسان کام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں بہت کم شاعر طبع آزمائی کو نا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کا ادب ایسا ہونا چاہیے جو ان میں تجسس ، تفکر اور تجدد کی صلاحیتیں پیدا کرے۔ ان میں جرأت وہمت پیدا کرنے، چیلنجزکو قبول کرنے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو پروان چڑھائے۔ بچوں کے ادب کو مثبت رجحانات کا حامل ہونا چاہیے تاکہ بچوں کی فکر وسوچ، ان کا رویہ اور ان کا عمل مثبت ہو سکے۔زبان سہل اور موثر ہونی چاہیے ، مضامین پر تجسس اور فکر انگیز ہونے چاہیے۔ ساتھ ہی دلچسپ ہونا پہلی شرط ہے جس کے لیے اس میں کسی مزے دار قصے، کہانی یا حکایت کو شامل کیا جانا چاہیے۔

ایک جوشیلی نظم ہے جس کا عنوان ہے ’جوش عمل‘۔ یہ نظم بچوں سے علم حاصل کرنے، قوم و ملت کا نام روشن کرنے، کردار کو بہتر بنانے اور نیک اعمال کے ذریعے آخرت کی تیاری کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں          ؎

کر ایسا کام جس سے قوم کا معیار اونچا ہو

بڑھیں علم و ہنر  انسان کا کردار  اونچا  ہو

پہاڑوں کو ہلا دے بحر کو زیر و زبر کر دے

ہوا کو روک دے تو بجلیوں کو بے اثر کر  دے

کمندیں آسماں پر پھینکنے کے ڈھنگ پیدا کر

تو سورج کی شعاعوں سے ہزاروں رنگ پیدا کر

[جوش عمل]

اپنی نظم بعنوان ’سورج‘ کے ذریعے انھوں نے سورج کی اہمیت و افادیت اور اس کے کاموں کو تفصیل سے سورج کی ہی زبانی بڑے سہل اور موثرانداز میںپیش کیا ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بتانا بھی نہیں بھولے ہیں کہ میری پرستش کرنے والے انسان دراصل جہالت کا شکار ہیں کیونکہ میں معبود نہیں ہوں بلکہ میں بھی خدا کی مخلوق میں شامل ہوں اور اسی کے حکم کی تعمیل میں مسلسل لگا ہوا ہوں         ؎

میں بے شک آگ کا گولا ہوں لیکن خاصیت یہ ہے

درختوں میں لگے میوے بنا ایندھن پکاتا ہوں

سنہری دھوپ کی  چادر  جہاں کو مفت دیتا ہوں

ہزاروں جانداروں کو میں سردی سے بچاتا ہوں

مجھے خالق سمجھ کر پوجنے  والے  ہیں  ظلمت  میں

میں خود مغرب میں جاکر پیش خالق سر جھکاتا ہوں

خدا  نے  مجھ کو  رمزی  خادم  عالم  بنایا  ہے

نظام  پرورش  اس  کا  زمانے کو سکھاتا  ہوں

مختصر یہ ہے کہ رمزی اٹاوی کے فن اور شخصیت کو کسی ایک مضمون میں سمیٹ پانا مشکل امر ہی نہیں بلکہ ناممکن عمل ہے۔ رمزی کے فکر و فن پر مختلف زاویوں سے گفتگو کی جا نی چاہیے اور ان کی شعری و نثری تخلیقات کو تحقیق کا موضوع بنایا جا نا چاہیے۔

 

Akmal Naeem Siddiqui

Faize Aam Masjid, G Sector

Partap Nagar

Jodhpur- 342003 (Rajasthan)

Mob.: 9413844624

Email.: vedandquraan@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن...