24/6/24

شعرائے ناموران امرتسر، مضمون نگار: ریحان حسن

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024

 


امرتسرہمیشہ سے علمی و ادبی مرکز رہاہے۔یہاں اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے مختلف علمی وادبی مجالس قائم تھیں۔ امرتسرمیں اردو زبان وادب کو فروغ دینے میں مشاعروں کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جس میں ہرمکتب فکرکے افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔  یہ مشاعرے امرتسر کے باشندگان کے اردو سے دلی محبت کا ثبوت بھی ہیں اور اردو سے دلچسپی کا مظہر بھی۔ان مشاعروں نے نئی نسل کو بھی اردو کی جانب راغب کیا۔ آج بھی یہاں اردو زبان سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں،یہی نہیں کہ یہاں کے باشندے صرف اردو سے محبت کا دم بھرتے ہوں بلکہ یہاںکے لوگوں نے اردو کے فروغ کے لیے عملی اقدامات بھی کیے ہیں جس بنا پر اردو کی بیشتر اصناف میں اہل پنجاب کی نمائندگی نظر آتی ہے۔صنف شاعری میں تو پنجاب والوں نے اپنی ذہنی جودت اور فکری بصیرت کا جو ثبوت دیا ہے اس سے اردو شاعری کے اثاثے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا اس مقالے میںامرتسرکے ان شعرا کا ذکر کیا جا رہا ہے جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان کے فروغ میں حصہ لیا۔

اوم پرکاش بھنڈاری قمر جلال آبادی

 امرتسر کے ان شعرا میں تھے جنھوں نے شعر و ادب کی دنیا میں علم و فضل کے گہرے نقوش ثبت کیے۔ ان کی ولادت 28؍ فروری1917 کو جلال آباد ضلع امرتسر میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1933 میں کپور تھلہ سے میٹرک پاس کرنے کے بعد روزانہ ’پرتاپ‘ کے ادارتی اسٹاف میں 1935 میں شامل ہوئے اور اپنی محنت و لگن سے دنیائے صحافت میں بھی اپنی شناخت بنائی۔ ترقی کے پر لگے تو ’ملاپ‘ میں چلے گئے لیکن ان کی خوب سے خوب تر کی جستجو نے انھیں قرار نہ لینے دیا بالآخر ’سٹار ویکلی‘ کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے جہاں سے نہ جانے کتنے ہی ادبا و شعرا کو ادبی دنیا سے انھوں نے متعارف کرایا۔ جن میں ایک اہم نام قتیل شفائی کا بھی ہے۔ پھر انھوں نے صحافت کی پرخار وادیوں کو خیرباد کہہ کر 1940 میں بطورنغمہ نگار پنچولی پکچرز لاہور سے تعلق قائم کرلیا نیز 1943 میں انھوں نے پربھات فلم کمپنی کو بھی اپنی خدمات دیں۔ قمر جلال آبادی کو دنیائے شاعری میں جو شہرت و ناموری حاصل ہوئی اس میں فلمی دنیا سے وابستگی کا بھی اہم حصہ ہے۔ انھوں نے ڈیڑھ سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے جس بنا پر ہندوستان کے گلی کوچوں میں بھی بچے بچے کی زباں پر ان کا نام زباں زد ہوگیا ایسا نہیں کہ ان کی شاعری محض عوام کے لیے ہوبلکہ انھوں نے شاعری کے قواعد و ضوابط کی بھی پابندی کی ان کا کلام زبان و فن کے اغلاط سے پاک ہی نہیں ہوتابلکہ کلام میں تخیل کی رفعت اور انداز نگارش میں بھی ندرت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کلام ملاحظہ ہو    ؎

عشق میں کتنے عاشق ہوئے ہیں فنا دل مٹائے گئے سر اچھالے گئے

جو نہ دل کھو سکے جو نہ سر دے سکے وہ تری انجمن سے نکالے گئے

خوب ساقی کی محفل کا دستور تھا اس کو رندوں کا دل رکھنا منظور تھا

ہوش میں جو رہے ان کو پوچھا نہیں گرنے والے لپک کر سنبھالے گئے

حسنِ رنگیں کی جلوہ گری ہے عجب یاد کچھ بھی نہیں یاد اتنا رہا

تیرے آتے ہی سارے اندھیرے گئے تیرے جاتے ہی سارے اجالے گئے

حسن میں اب ادائوں کی نرمی کہاں عشق میں اب خطائوں کی گرمی کہاں

شمع بجھ بجھ گئی جام گر گر گئے میکدہ لٹ گیا پینے والے گئے1

قمر جلال آبادی کی اس قبیل کی شاعری میں حسن و عشق کے بیان کے ساتھ ساتھ زندگی کے تجربات اور کائنات کے سربستہ اسرار کا بیان جس انداز سے ملتا ہے اس میں ان کا حریف ملنا آسان نہیں، ان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ شاعر و ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب اور شاعرگر بھی تھے۔ انھوں نے ادبی دنیا میں شعرا کو متعارف کرانے میں جو اہم رول ادا کیا ہے اسے ادبی دنیا فراموش نہیں کرسکتی۔

باوا بلونت

علم و ادب کی دنیا میں جو شہرت و مقبولیت باوا بلونت کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی۔ان کی پیدائش اگست 1915 میں واگھا بارڈر کے نزدیک نیشٹا گائوں ضلع امرتسر میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام ٹھاکر دیناناتھ تھا۔ روزی کی تلاش میں دہلی کا سفر کیا اور ’نویگ‘ پریس میں پروف ریڈنگ کا کام کیا 1992 میں گرمی کے زمانے میں لو لگنے کے سبب سڑک پر گر گئے اور ان کی موت واقع ہوگئی۔2

ان کی کتابوں میں امر جیت، مہاناچ، سگندھ سمیر، جوالا مکھی، بندر گاہ ہیں۔ اس کے علاوہ پنجابی زبان میں مضامین کا مجموعہ ’کس کس طرح دے ناچ‘ اور بابا بلونت سنگھ کی منتخب نثر معروف و مشہور ہے۔ در اصل وہ سنسکرت، ہندی، پنجابی، اردو و فارسی پر غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے پہلی کتاب جو لکھی وہ اردو زبان میں ہی تھی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ اردو زبان میں 1930 میں ’شیر ہند‘ کے نام سے شائع ہوا جسے انگریز حکومت نے ضبط کرلیا۔ ان کی شاعری کلاسیکی ادب کا شاہکار نمونہ تھی ڈاکٹر محمد اقبال کا اثر ان کی شاعری میں صاف صاف جھلکتا ہے۔ در اصل شاعری کا یہ مجموعہ عوام کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انھوں نے رقم کیا تھا۔ باوا بلونت سنگھ معاشرتی نظام سے متاثر ہوکر شاعری کرتے تھے۔ اس لیے عوام میں بیحد مقبول ہوئے۔ساتھ ہی ان کے اشعار میں دینی، مذہبی مضامین اور رومانیت کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے امن قائم کرنے اور دنیا سے غیر رسمی چیزوں کو دور کرنے کے لیے اپنا قلم اٹھایا۔

بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس مجموعۂ کلام میں بیشتر کلام انقلابی خیالات اور جذبات کے ترجمان تھے چونکہ اس مجموعے میں انگریزوں کی غلامی کا جوا اتار کر پھینک دینے کی ترغیب دی گئی تھی لہٰذا انگریز حکومت نے کتاب کو ضبط کرنے کا حکم صادر کیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کی آئندہ نسل باوا بلونت سنگھ کی شاعری کے رنگ  و آہنگ سے واقف نہ ہوسکی۔

 برج موہن لال تکوزیبا

شعر و ادب کی دنیا میں شناخت بنانے والے شعرا میں ایک اہم نام پنڈت برجموہن لال تکوزیبا کا بھی ہے۔ وہ ہندو سبھا کالج امرتسر میں پروفیسرکے عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی تھی۔ علم و ادب سے دلچسپی ابتدا سے ہی انھیں رہی۔ چنانچہ شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔  امرتسر سے نکلنے والا رسالہ چمن میں آپ کا کلام عاشقان ادب کی پیاس کو بجھانے میں پیش پیش تھا۔ ان کی ایک غزل چمن میں ’زمزمۂ تغزل‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو     ؎

خامشی کہہ رہی ہے یہ غنچۂ نو بہار کی!

منہ پہ ہے مہر گولگی دل میں ہوس ہے یار کی

پار نہ دل کے ہو سکا جدّ و جہد ہزار کی

طاقتیں دیکھ لیں ترے خنجر دلفگار کی

اس نے نظر جو پیار کی غیر پہ بار بار کی

ہم نے اٹھا کے تیغ خود اپنے جگر کے پار کی

کس طرح راہ لیں نہ ہم ہجر میں کوئے یار کی

آس نہ جب ہو دید کی تاب نہ انتظار کی

کیسے چمن میں دل لگے کیا ہو خوشی بہار کی

جب نہ امید ہو کوئی آمد گلعذار کی

طرز جفا میں کیا کہوں اپنے ستم شعار کی

رکھّی بغل میں ہے چھری بات ہے منہ پہ پیار کی

دل کو، جگر کو، سینے کو میں بھی کڑا نہ کیوں کروں

تیز بہت ہے آج کل نوک نگاہ یار کی

آبلہ ہائے بیشمار، داغ ہزار آشکار

کیا کیا بنی ہیں صورتیں دل میں مرے غبار کی

عشق بتاں میں ٹھوکریں کھائیں ہر ایک گام پر

زیبا پر اب بھی راہ حق تم نے نہ اختیار کی3

زیبا کی شاعری میں فنی چابکدستی کی کارفرمائی جا بجا نظر آتی ہے۔ ان کا یہ مخصوص لب و لہجہ اور خصوصی رنگ غزلوں میں قاری کو متوجہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا غزل بہت ہی سادہ اور صاف ہے لیکن ان اشعار میں بھی زندگی کی حرارت موجود ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ الفاظ کو نئے مفاہیم عطا کرنے کے ہنر سے برجموہن لال زیبا بخوبی واقف ہیں۔

پرشوتم لال ضیا

پرشو تم لال ضیا امرتسر کے شعرا میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ امرتسر میں ان کی ولادت ہوئی۔ وہ بہترین غزل گو، معتبر نظم نگار اور مشہور افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے کلام میں تخیل کی نزاکت اور معنی آفرینی بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ ان کا جو مخصوص رنگ تھا اس کی بدولت انھیں اپنے معاصرین میں امتیاز حاصل تھا۔

امرتسر کے شعرا میں ضیاء نے اردو غزل میں جو نیا لب و لہجہ پیش کیا اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کلام میں علمیت کا اظہار، تخیل کی بلندی اور فکر کی جو جامعیت نظر آتی ہے وہ امرتسر کے شعرا میں انھیں امتیاز و انفراد عطا کرتی ہے۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کی نظمیں بھی بے مثال ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم’طلوع آفتاب‘ ملاحظہ ہو        ؎

عروس شب نے سمیٹا ہے زلف برہم کو

ہے خیر مقدم دو شیزۂ سحر منظور

عجب ہے عارض گردوں پہ ہلکا ہلکا نور

عیاں ہوئی خط ابیض سے جلوہ رانیِ طور

بجا ہے خوف شکستِ جمود انجم کو

عروسِ شب نے سمیٹا ہے زلف برہم کو

اٹھایا چہرے سے محبوبۂ سحر نے نقاب

طیور کیف نوا سب ہیں زمزمہ پیرا

وہ زمزموں سے طلسم سکوتِ شب ٹوٹا

شفق نے وقفِ گریباں کیا ہے ہاتھ اپنا

ہے غرق بحرِ تجلّی سفینۂ مہتاب

اٹھایا چہرے سے محبوبۂ سحر نے نقاب

ہے دلنشیں شہ خاور کی کشتیِ زرّیں

بہا کے لے گئی خوابوں کی بے حسی کو نسیم

فضا میں رقص کناں ہے سرور بیز شمیم

تو محوِ خوابِ گراں ہے ابھی تلک بھی ندیم

ضیائے صبح میں ہاں چھیڑ نغمۂ رنگیں

ہے دل نشیں شہ خاور کی کشتیِ زریں4

ضیا کی نظموں کے موضوعات نو بہ نو ہوتے ہیں۔ ان کی نظمیں ہیئت کے اعتبار سے بھی منفرد ہوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں روانی اس قدر ہوتی ہے کہ طوالت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے فطرت کے مناظر کو اپنی نظموں میں جس خوبی سے نظم کیا ہے وہ لائق تحسین و آفریں ہے۔

پرتھوی راج ہوش

امرتسر کے قدآور اور بلند پایہ شعرا میں پرتھوی راج ہوش کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے نئی آبادی کرم پور امرتسر کو اپنا مستقر بنایا تھا۔ سن طفولیت ہی سے شاعری کی طرف ملتفت ہوئے۔ آپ نے بیک وقت اردو، فارسی، ہندی اور پنجابی زبانوں میں شاعری کی جس میں ایثار و محبت، تہذیب و تمدن اور حب الوطنی کے پیغامات کو نظم کرکے پیغام محبت کو عام کیا۔پرتھوی راج ہوش نے جملہ اصناف سخن مثلا فرد، مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع ومثمن وغیرہ میں اخلاق و ہمدردی اور ایثار و محبت کے مضامین کو نظم کیا۔ دو سو سے زائد غزلیں کہیں، رباعیات و قطعات کا مجموعہ ’گلزار ہوش‘ کے نام سے چھپ کر مقبول ہوچکا ہے۔ ان کے کلام میں صوفیانہ رنگ غالب ہے۔کلام میں پندو نصائح کے مضامین بکثرت ملتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے محور کا ذکر اپنی ایک نظم ’’میری شاعری میں اور وہ‘‘ میں اپنے تخیلات کا اظہار کرتے ہیں          ؎

مری شاعری درد والوں کی دنیا

مری شاعری آہ و نالوں کی دنیا

مر ی شاعری خستہ حالوں کی دنیا

مری شاعری پائمالوں کی دنیا

میری شاعری ہے غریبوں کا رونا

میری شاعری ہے نصیبوں کارونا

میری شاعری آرزو ہر کسی کی

میری شاعری جستجو ہر کسی کی

میری شاعری گفتگو ہر کسی کی

میری شاعری ہو بہو ہر کسی کی

ہے  تصویر کھینچی  ہوئی زندگی کی

ہے  تفسیر لکھی  ہوئی زندگی کی

مصور ہوں میں میری تصویر غم ہے

مدبر ہوں میں میری تدبیر غم ہے

مقرر ہوں میں میری تقریر غم ہے

محرر ہوں میں  میری تحریر غم ہے

میری ابتدا انتہا غم ہیں دونوں

میرا واقعہ ماجرا غم ہیں دونوں5

ظاہر ہے کہ شاعر میں شدت احساس اور درد دوسروں کی بنسبت زیادہ ہوتاہے یہی شدت احساس ہوش کے یہاں بھی ہے۔ ان کے یہاں منافرت اور تفرقے کو بڑھاوا دینے والے مضامین شاذ ہی نظر آئیں گے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعے فرض شناس ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ ان کا یہ کہنا تھا          ؎

عبادت سے ریاضت سے زیارت سے کہیں بڑھ کر

 میں اپنے فرض میں ہی بندگی محسوس کرتا ہوں

پرکاش ناتھ پرویز

سر زمین امرتسر کے لائق و فائق فرزند پرکاش ناتھ پرویز کا شمار اردو دنیا کے خوش فکر شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ 25؍اکتوبر کو 1930میں قصبہ رام داس ضلع امرتسر میں لالہ رام جی داس کے گھر پیدا ہوئے۔ (حساب کتاب) کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے جہاں شاعرانہ ماحول دور دور تک میسر نہیں لیکن ایسے غیر شاعرانہ ماحول میں بھی انھوں نے شاعری کی شمع کو روشن رکھا۔ 1959 میں ’شفق زار‘ کے نام سے قطعات کا مجموعہ شائع کرایا اور  1962 میں غزلیات اور منظومات کا مجموعہ ’جادۂ منزل‘ کے نام سے چھاپا۔جسے ادبی دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔

ان کی غزلیں اور نظمیں سلاست، روانی اور تازہ کاری کے ساتھ ساتھ افراط و تفریط سے پاک ہیں۔ ان کے نعتیہ کلام میں بھی صداقت بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔ انھوں نے شاعری میں خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس فنکاری کا ثبوت دیا ہے اسے آنے والی نسلیں فراموش نہیں کرسکتیں۔

دھرم پال مرواہا جگر

دھرم پال جگر جالندھری اردو کے قادرالکلام سخنور تھے۔ در اصل اصناف شعر میں بھی انھوں نے طبع آزمائی کامرانی کے ساتھ کی ہے۔ ان کی پیدائش 17؍ جنوری 1935 کو امرتسر کے موضع سارنگدیو میں ہوئی۔ لیکن تعلیم اور عمر کا ابتدائی حصہ جالندھر میں گزارنے کے سبب جالندھری نام کا جزو لا ینفک بن گیا۔وہ پنجاب بجلی بورڈ میں انجینئر تھے انھیں شعر و ادب سے دلچسپی اوائل عمر ہی سے تھی۔ ساحر سیالکوٹی اور جوش ملسیانی سے انھوں نے شاعری میں مشورہ کیا۔ان کے شعری مجموعوں میں سوز جگر اور لخت جگر کو قبول عام حاصل ہوا۔جگر کا کلام نفاستِ بیان اور لطافت خیال کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کے کلام میں جدّت، خیال آفرینی، ترنم اور جو اثر ہے وہ بہت کم شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ان کا یہ کہنا بجا ہے   ؎

بات جو حق کی ہے حق والے سنا دیتے ہیں

لوگ بے شک انھیں سولی پہ چڑھا دیتے ہیں

ڈال کر عکس وہ آئینے میں بھر دیتے ہیں رنگ

ورقِ سادہ کو تصویر بنا دیتے ہیں

سو بہاروں سے بھی پھول اتنے نہ کھلنے پائیں

جتنے اک جنبش لب سے وہ کھلا دیتے ہیں

خونِ ناحق نہیں پروانوں کا دیکھا جاتا

ہم چراغوں کو سرِ شام بجھا دیتے ہیں

مجرمِ عشق ہوں میں سب سے بڑا جرم ہے عشق

جو سزا مجھ کو وہ دیتے ہیں بجا دیتے ہیں

امتحاں اہل ہوس کا ہے عبث، یاد رہے

جان دیتے ہیں تو ارباب وفا دیتے ہیں

ایسے لوگوں سے جگر کیا ہو توقع ہم کو

قتل کرکے بھی جو احسان جتا دیتے ہیں6

مندرجہ بالا اشعار میں جگر جالندھری کے واردات قلب، مطالعے کی وسعت اور مشاہدے کی گہرائی بدرجۂ اتم نظر آتی ہے۔ انھوں نے زندگی کی صداقتوں کو جس خوبی سے بیان کیا ہے وہ بے مثال ہے۔کہا جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد وہ اپنے گھر سے نکلے اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہ چلا۔

 رام رتن مضطر

رام رتن مضطر یکم ستمبر 1906 میں موضع تھریے وال ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا امرتسر میں مستقل قیام رانی کا باغ میں تھا۔آپ کے والد کاشتکار تھے

 ان کے کلام میں تخیل کی بلندی اورمضمون آفرینی کے ساتھ عشقیہ بیان قابل غور ہے     ؎

کھو گیا ہوں راہ وفا میں کچھ اس طرح

ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جائو کدھر کو میں

کیا دے سکے گا کوئی فریب نظر مجھے

پہچانتا ہوں خوب ہر اک کی نظر کو میں

پھوٹے گی یاس سے بھی کوئی آس کی کرن

تاریک شب میں ڈھونڈ رہا ہوں سحر کو میں

رہ رہ کے یاد آتی ہیں باتیں نئی نئی

اک اک قدم پہ روکتا ہوں نامہ برکو میں

تجھ سے پھر ایک تیرِ نظر کی ہے آرزو

پاتا ہوں آج درد سے خالی جگر کو میں

اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں

تکتا ہوں صبح و شام تری رہ گزر کو میں

مضطر یہ بات قدرِ ہنر کے خلاف ہے

منہ کس طرح لگائوں کسی بے ہنر کو میں 7

مضطر کا یہ کلام ان کے زبان و بیان پر قدرت کا اظہار ہے۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے آسان اور عام فہم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ان کے کلام میں جو نرمی دیکھنے کو ملتی ہے وہ خصوصیت انھیں امرتسر کے شعرا کی بھیڑ میں امتیازی مقام عطا کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں عہد حاضر کی جو عکاسی کی ہے وہ انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔

رام رتن مضطر کی غزلوںمیں فصاحت و بلاغت،سادگی اور نفاست دیکھنے کو ملتی ہے۔ انھوں نے غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی کہیں۔خصوصاً انھوں نے جو رباعیاں کہی ہیں ان میں ان کا فن بولتا نظر آتاہے    ؎

جب میں نے کیا قصدِ گنہ دل نے کہا ہے

    دیکھے  نہ  زمانہ  تو  خدا  دیکھ  رہا  ہے

اک وہ بھی ادا ہے تری اک یہ بھی ادا ہے

     در  اصل  کوئی  چیز  فنا  ہے نہ بقا ہے8

ستیہ پال ملہوترہ عارف

 نام ستیہ پال ملہوترہ عارف کی پیدائش 7؍ فروری1924 میں ہوئی۔ انھوں نے عمر کا بیشتر حصہ خواب غفلت میں گذارا۔ پھر طبیعت شاعری کی جانب ملتفت ہوئی اور پینسٹھ سال کی عمرمیں 1994میں پہلا مجموعۂ کلام ’حرف حرف‘ کے نام سے منصۂ شہود پر آیا۔ دوسرا مجموعۂ کلام1999 میں ’عقیدت‘ کے نام سے شائع ہوا۔ چھ سال بعد تیسرا مجموعۂ کلام ’درِ مرشد پر‘ کے نام سے چھپا۔

انھیں مترنکو دری اور کالی داس گپتا رضاسے شرف تلمذ تھا۔ان کے کلام کو فنّی کسوٹی پر تو نہیں تولا جاسکتا البتہ ان کے کلام سے قاری کو حظ ضرور حاصل ہوتا ہے اوریہی عارف کا ہدف بھی تھا کہ قاری کلام کو پڑھ کر لطف اندوز ہوسکے۔ ان کی شاعری تلاش حق کی شاعری ہے۔ وہ خدا کی رحمتوں کا گن گان جس طرح کرتے ہیں وہ قابل رشک ہے۔ ان کے کلام میں ہمیں سادگی و بے تکلفی بھی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں خاصان خداکے تئیں جو جذبۂ عقیدت و محبت کا اظہار ملتا ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام میں دوہے کے علاوہ قطعات بھی کافی تعداد میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ شاعری میں قطعہ کو کافی مقبولیت حاصل رہی ہے لیکن کم ہی ایسے شاعر ہیں کہ جنھوں نے اس صنف میں نئی راہ بنا کر اپنی اہمیت تسلیم کرائی ہو۔ عارف اردو کے ان شعرا میں ہیں جنھوں نے اس راہ میں بھی اپنی اہمیت منوائی۔ ان کا ایک مشہور قطعہ ہے        ؎

دل کس نے دیا ہے مجھے اس درد سے لبریز

 کس  نے مجھے یہ درس محبت کا دیا ہے

عزت سے محبت سے مجھے ملنے لگے لوگ

اعزاز یہ جو ہے مرے مرشد کی عطاہے9

صداقت تو یہ ہے کہ ان کا سرمایۂ شاعری جستجو، عقیدت اور لگن کی شاعری ہے۔ انھیں جو خاصان خدا سے عقیدت و الفت ہے اس کا اظہار اپنے اشعار میں کرتے ہوئے وہ نہیں تھکتے۔ اس طرح ان کا سرمایۂ شاعری اخلاق و نصیحت، عشق و عقیدت اور تلاش و جستجو کے مضامین سے پر ہے جو ان کے خدا ترس ہونے کی دلیل ہے۔

ستیہ پال طالب

ستیہ پال طالب کی بنیادی حیثیت شاعر کی ہے لیکن ایک حلقہ صحافی کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات کو سراہتا ہے اور وہ اس لیے کہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو جالندھر میں ملازمت ہی نہ کی بلکہ ریڈیو میں ایسے پروگرام بھی ترتیب دیے کہ جس کی بدولت برقی ذرائع ابلاغ کو ترقی حاصل ہوئی لیکن ان کی شاعری میں جو جذب و کشش ہے وہ انھیں ایک اچھا اور اہم شاعر تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

ساقیا  جام  پلا  پھر  سے گھٹا چھائی ہے

ورنہ ایسے میں تیرے فیض کی رسوائی ہے

ہم نے کل ہی تو نہ پینے کی قسم کھائی ہے

ابر  پھر  اٹھا ہے  پھر توبہ پہ بن آئی ہے

غم دوراں غم جاناں غم ہجراں  طالب

زندگی لائی  تو  کیا میرے لیے لائی ہے

ستیہ پال طالب کے اس لب و لہجے میں ان کا فکری رویہ اپنے خاص اسلوب میں جب ڈھل کر سامنے آتا ہے تو وہ اردو کے قاری کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ان کے کلام میں جو رومانی کیفیتیں نظر آتی ہیں وہ اردو شاعری کا ایسا حصہ ہے جن سے ان کی شاعری کی منفرد شناخت بنتی ہے۔

ضیا فتح آبادی

امرتسر کے مشاہیر ادب میں ایک اہم نام مہرلال سونی ضیا کا بھی ہے۔ جن کا وطن مالوف تو فتح آباد ضلع امرتسر ہے لیکن ان کی پیدائش 9؍ فروری1923 کو کپورتھلہ (پنجاب) میںہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے انگریزی زبان میں ایم اے کی سند حاصل کی بعدہ ریزور بینک آف انڈیا میں ڈپٹی چیف آفیسر کی حیثیت سے ملازمت کی، شعر و سخن کی دنیا میں آپ کو فرخ امرتسری، فیروز الدین طغرائی اور علامہ سیماب اکبر آبادی سے شرف شاگردی حاصل رہا۔ آپ نے اردو زبان کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ غزلوں کے مجموعے ’حسن غزل‘ اور ’دھوپ اور چاندی‘ کے نام سے منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ نیز نظموں کا مجموعہ ’نور مشرق ‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ غزلیں، نظمیں، گیت اور رباعیات کا مجموعہ ’گردراہ‘ اور قطعات کا مجموعہ ’طلوع‘ کے نام سے شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکا ہے نیز ایک کتاب ’شعر اور شاعر‘ (تذکرہ) بھی ہے جو اردو زبان و ادب کے شائقین کے لیے خاصی اہمیت کی چیز ہے۔ضیا قادرالکلام شاعر ہیں وہ جس رنگ میں کہتے ہیں خوب سے خوب تر کہتے ہیں۔ امرتسر کے غزل نگاروں میں ان کی غزل بہت جاندار ہوتی ہے بطور مثال ان کی ایک غزل ملاحظہ ہو   ؎

جلووں سے معمور ہیں ہم

پردوں میں مستور ہیں ہم

ذوقِ عمل پر شرمندہ

سعی نامشکور ہیں ہم

قطرہ قطرہ ہیں دریا

ذرّہ ذرّہ طور ہیں ہم

کالے سورج سے کہہ دو

شمع شب دیجور ہیں ہم

ہم آہنگ یک جہتی

آوازِ جمہور ہیں ہم

کچھ مرنے کا خوف اور کچھ

جینے پر مجبور ہیں ہم

زخمی سینہ گیتی کا

رستا ہوا ناسور ہیں ہم

کیسا علم، کہاں کا ہوش

سودائی مشہور ہیں ہم

سولی دیکھی، بھاگ چلے

کہتے تھے منصور ہیں ہم

ہم سے اتنے پاس ہو تم

تم سے جتنے دور ہیںہم

اڑیں تو رشکِ قوس قزح

گریں تو چکنا چور ہیں ہم

ہاں روندو، پامال کرو

خود دار اور غیور ہیں ہم

بزم میں نظاروں کی ضیا

ناظر یا منظور ہیں ہم10

بلا شبہ ان کی غزل میں غزل کا حسن بھی ہے اور تغزل کی رعنائی بھی۔ انھوں نے سہل ممتنع میں اپنے افکار و خیالات کو جس خوبصورت پیرائے میں نظم کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

کرپا رام شرما ناظم امرتسری

کرپا رام شرما ناظم منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ ان کی پیدائش 8؍ نومبر 1891 میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام پنڈت رام رتن تھا ابھی ولادت کے بیس دن ہی ہوئے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا چنانچہ ان کے ماموں پنڈت گنگا بشن نے ان کی پرورش کی، ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی چند ماہ بعد گورنمنٹ اسکول امرتسر کی برانچ میں داخلہ لیا۔ پنڈت بیج ناتھ ہائی اسکول سے انٹرنس کا امتحان دے کر خالصہ کالج سے کیمسٹری اور فارسی میں 1913 میں بی۔ اے کیا اور اکتوبر 1913 میں خالصہ کالج میں ملازم ہوگئے۔

ڈاکٹر سیف الدین کچلونے 1913-14 میں بزم ادب کی بنا ڈالی تو آپ بزم کی مجلس مشاعرہ کے سکریٹری منتخب ہوئے لیکن افسوس کہ جب 1919 میں مارشل لا کے حادثے کے سبب یہ بزم درہم برہم ہوگئی تو دیوان امرناتھ محسن، غلام قادر فرخ اور ایمن صاحب کے ایما پر امرتسر میں بزم سروش کی بنا رکھی گئی۔ اس بزم کے منشی غلام قادر فرخ صدر تھے اور پنڈت کرپا رام شرما ناظم اس بزم کے معتمد منتخب کیے گئے۔ بزم کے سالانہ اجلاس میں ناظم نے ’اردو خانم کا استغاثہ‘ نامی عنوان سے مضمون پڑھا جسے بے حد پسند کیا گیا۔

1924 میں خالصہ کالج مینیجنگ کمیٹی سے مسٹر واڈن پرنسپل کے مستعفی ہونے پر ناظم نے بھی کالج سے استعفیٰ دے دیا اور تجارت کرنے لگے لیکن ناگزیر وجوہات کے سبب تجارت کے پیشے کو چھوڑنا پڑا بالآخر 1930 میںلا کالج لاہور میں داخلہ لیا اور 1932 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرکے امرتسر میں وکالت شروع کی۔ 1934 میں دیوان امرناتھ محسن کی بے دقت وفات کے بعد ’بزم سروش‘ کے 1938 تک سکریٹری رہے لیکن افسوس کہ 1938 میں دختر کی وفات کے سبب بزم سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔

پنڈت کرپا رام شرما ناظم اچھے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر ہی نہیں شعرا کے نسل کی رہنمائی و سرپرستی بھی کرتے رہے۔ غزل سے انھیں خاص دلچسپی تھی۔ ان کی غزلوں میں محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی پائی جاتی ہے ساتھ ہی حسن و عشق کے مضامین میں بھی فکر اور نصیحت کے مضامین ملتے ہیں ان کا کہنا ہے      ؎

دیکھنے والوں میں چشم قیس ہی شامل نہیں

کون سا ذرّہ ہے جو معشوق کا محمل نہیں

ہے تلاش دلربا میں حور کا قائل نہیں

خلد بھی اک رہ گذر ہے یہ مری منزل نہیں

پستیِ اندیشۂ انساں اگر حائل نہیں

منزل و رہرو میں کوئی بھی حدِ فاصل نہیں

موت کیا ہے کشمکش میں التوائے عارضی

بحر ہستی میں جزیرہ سا ہے یہ ساحل نہیں

سیل عصیاں اس طرف طوفانِ رحمت اس طرف

 میں ادھر غافل نہیں ہوں وہ ادھر غافل نہیں

سجدہ ہائے بے تمنا اور دعا بے آرزو

عاشق مخلص ہوں ناظم میں کوئی سائل نہیں

کرپا رام شرما ناظم کی غزلوں میں حسن و عشق کے مضامین میں جہاں ایک طرف داخلی کیفیت ملتی ہے تو دوسری جانب زندگی کے تقاضے بھی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں زندگی کے حسن سے واقف کراتے ہوئے حسن و عشق کی کہنہ حقیقت کو بے نقاب بھی کیا ہے۔ وہ اپنے عہد کے ایسے باکمال اور باوقار شاعر تھے جن کے افکار و خدمات کو ادب کا کوئی بھی ناقد نظر انداز نہیں کرسکتا۔

کرشن کمار عادل امرتسری

امرتسر میں اردو شاعری کے حوالے سے جن شعرا کے نام آتے ہیں ان میں ایک اہم نام مسٹر کرشن کمار عادل کا بھی ہے۔ وہ امرتسر کی انجمن ایوان ادب کے سیکریٹری بھی رہے۔ صداقت تو یہ ہے کہ ان کی سعی پیہم کے سبب اس انجمن کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس پس منظر میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی خدمت شعری زیادہ قابل قدر ہے۔

عادل امرتسری کو شعر و ادب سے ذوق قدرت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ انھوں نے مختلف اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی خصوصاً غزل ان کی پسندیدہ صنف تھی جس میں انھوں نے خوب گل بوٹے کھلائے ثبوت کے طور پر ان کی ایک غزل ملاحظہ ہو:

کوئی سکوں سے کبھی زیر آسماں نہ رہا

لبوں پہ کس کے یہاں نالہ و فغاں نہ رہا

وفورِ شوق سے سجدے کیے وہاں اتنے

مری جبیں نہ رہی ان کا آستاں نہ رہا

ہمارے عشق کی شہرت کہاں کہاں نہ ہوئی

تمھارے حسن کا چرچا کہاں کہاں نہ رہا

تری نگاہِ محبت ہے کیا مسرت خیز

قدم زمیں پہ نہیں سر پہ آسماں نہ رہا

وہ دن گئے کہ حسینوں سے چھیڑ تھی عادل

جواں ہوں اب بھی مگر دل میرا جواں نہ رہا

کرشن کمار عادل کی غزلوں میں ہمیں روایتی مضامین اور حسن و عشق کا بیان خوب ملتا ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں ایسی ہیں جن میں ہندوستانی زبان کا اثر غالب ہے۔عادل کے کلام میں سلاست اور نغمگی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اردو غزل میں حسن و عشق کے مضامین کے ساتھ تخیل کی بلندی کا ثبوت بھی خوب دیا اور اس طرح اردو غزل کو فنی و فکری بلندی عطا کی۔

امرتسر کے مندرجہ بالا شعرا کے کلام اس بات کے شاہد ہیں کہ انھوں نے اپنے تجربات،مشاہدات اور خیالات کو نظم کر کے ادب فہموںاور ناقدوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیا ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان شعرا نے اپنے قلم کے جوہر بکھیر کر اپنی اور پنجاب کی ایسی پہچان بنائی ہے جو مٹنے والی نہیں ہے۔

حواشی

1        مدیر فیض سرحدی، پرواز ادب، غزل نمبر، جولائی اگست 1979، ص:28

2        باوا بلونت سنگھ، ایک ادھین، ڈاکٹر دھرم پال سنگل، پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ

3        رسالہ چمن، ج:2، جنوری:1929، ص:42

4        بہارستان، مرتبہ ریاض قریشی،مطبوعہ مجلس منتظمہ آل انڈیا مشاعرہ امرتسر، ص:208

5        جذبات ہوش، بار اول، مطبوعہ آزاد بک ڈپو ہال بازار، امرتسر، ص:16

6        مدیر فیض سرحدی، پرواز ادب، غزل نمبر جولائی اگست1979، ص:142

7        مضطر،چمنستان( مجموعۂ کلام ) مطبوعہ آزاد بک ڈپو ہال بازارامرتسر، اکتوبر 1928، ص:66

8        ایضاً، ص:147

9        درِ مرشد پر، سیتہ پال ملہوترہ عارف، مطبوعہ خواجہ پریس، دہلی2005، ص:59

10      مدیر فیض سرحدی، پرواز ادب، غزل نمبر جولائی اگست1979، ص:38

 

Dr. Raihan Hasan

Dept of Urdu

Guru Nanak Dev University

Makka Singh Colony,

Amritsar- 143005 (Punjab)

drraihanhasan@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...