24/6/24

ممبئی عرب تاریخی مطالعے کا ایک اہم ترین مرکز، مضمون نگار: صہیب عالم

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


’عروس البلاد‘ ممبئی طویل زمانے سے ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ شہر کے چپے چپے پر عرب تجارتی قافلوں کی گواہی موجود ہے۔ یہ وہی شہر ہے، جہاں عرب تاجر خیمہ زن ہوئے تھے۔انھوں نے اس کے سمندر، زمین، گلیوں اور کوچوں کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا، عرب میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ : ’الہند ھندک، اذا قل ما عندک‘، یہ کہاوت عرب تاجروں پر صحیح ثابت ہوتی ہے، کیونکہ وہ سرزمین عرب سے خالی ہاتھ آئے تھے، اور ممبئی شہر میں رہ کر انھوں نے تجارت کے ذریعے کافی مال ودولت جمع کرلیا تھا، جنھیں آج کے حساب سے ارب پتی کہنا غلط نہ ہوگا۔ کچھ کپڑوں کے برانڈ جو عرب تاجروں نے ممبئی میں شروع کیا تھا آج بھی وہ برانڈ عرب دنیا کا سب سے اعلی برانڈ مانا جاتا ہے، جسے ہم ’شماغ احمر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

ممبئی میں کچھ عمارتیں، لائبریریاں، محلے، اورگلیاں آج بھی ان کی یادوں سے معمور ہیں۔ یہ عرب وہند کی تاریخ کا سنہری باب ہے، جو ہمیں ان تجارتی قافلوں کی کہانیاں، اوران کی تاریخ کو محفوظ کرنے پر مہمیز کرتا ہے۔ عرب وہند کی تاریخ کا یہی باب ہے جس کا شوق مجھے کشاں کشاں ممبئی لے گیا۔ شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی کے صدرڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد اور ان کے رفیق کار ڈاکٹر محمد تابش خان نے اس شوق کوپورا کرنے میں میری معاونت کی۔ ہمارے احباب،جن میں خاص طور پر عبد الحسیب جامعی، جمال اصلاحی اور فیضی علی اصلاحی، نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا اور اپنی مہمان نوازی سے ہماری حوصلہ افزائی کی۔

 ممبئی تجارتی، اقتصادی اور تفریحی دارالحکومت ہے، جہاں زیادہ تربڑی بڑی ہندوستانی وکثیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر، بیشتر ہندوستانی بینکوں کے ہیڈ کوارٹرس ہیں۔ ممبئی شہر بحر عرب کے مغربی ساحل پر واقع ہے اور عالمی مالیاتی بہاؤ کے لحاظ سے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے تجارتی مراکز میںہوتا ہے،  یہ ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار کا 6.16% پیدا کرتا ہے۔ مصنوعات، صنعتی پیداوار کا25%، اور سمندری تجارت کا 70% کی نمائندگی ممبئی ہی کرتا ہے۔ ہندوستانی معیشت کے 70% سرمائے کا لین دین یہیں سے ہوتا ہے۔ یہ ہندوستانی فلمی صنعت کا مرکز بھی ہے، جسے بالی ووڈ کے نام سے ہم جانتے ہیں، نیز ہندوستان کے کچھ معروف سائنسی اور جوہری اداروں کا مرکز بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممبئی کے کاروباری مواقع نے پورے ہندوستان سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

امریکی خانہ جنگی (1861-1865) کے دوران، ممبئی دنیا میں کپاس کی تجارت کی ایک بڑی منڈی بن کر ابھرا، جس کی وجہ سے اس کی معیشت مضبوط ہوئی، اور اس کی اقتصادی حیثیت نمایاں ہوئی۔  برطانوی استعماریت نے ممبئی کو ہندوستان اور خلیج عرب کاانتظامی مرکز کے طورپر استعمال کیا، کیونکہ ممبئی بحر عرب کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں سے ایک تھا، اس طرح یہ ایک قدیم ماہی گیر برادری اور تجارتی نوآبادیاتی مرکز کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ پارسی، گجراتی، میمنی اور بوہرہ برادریوں نے اس کی ترقی میںاہم کردارادا کیا۔ ہندوستانی اور برطانوی مورخین نے اسے مشرق کا سب سے خوبصورت شہر قرار دیا، کیوں کہ یہ مغرب کے کسی بھی شہر سے کمتر نہیں تھا، اس کی جغرافیائی، تجارتی اور ثقافتی اہمیت اور اس میں منفردشاندار تاریخی آثار کی موجودگی نے ’عروس البلاد‘ کا خطاب حاصل کیا۔

سر سید احمد خان جب1896میں انگلستان کے لیے روانہ ہوئے،تو ممبئی تشریف لے گئے اور اس کے بارے میں لکھا: ’’ممبئی ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہے، اور اس شہر میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو کسی ہندوستانی شہر سے تعلق رکھتی ہو، جیسا کہ یہ انگریز شہر جیسا لگتا ہے۔ ـ‘‘ بہت سے ہندوستانی مسافرین، جو ممبئی سے جدہ یا خلیج عرب جیسے احسا، شارجہ، دبئی، ابوظہبی، اور مسقط، گئے، انھوں نے ممبئی کی تجارت، عرب اور ہندوستانی تاجروں کاذکر اپنے سفرناموں میں کیا ہے۔

1970 کی دہائی سے ممبئی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ممبئی میں جگہ کی کمی کی وجہ سے، اس کے مضافاتی علاقے جیسے: باندرہ اور واشی وغیرہ میں تیزی سے تعمیر ی کام شروع ہوئے، جلد ہی یہ علاقے گنجان شہر میں تبدیل ہوگئے۔ ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق اتر پردیش، بہار، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو سے ہے، جو اپنے گھر بار چھوڑ کر کام اور ملازمت کے مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کر کے آئے اوریہیں آباد ہو گئے۔

’کوکن‘ ہندوستان کے تین ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے، عرب تاجرنہ صرف سندھ بلکہ ان علاقوں میں کثرت سے آئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے بھی ان کی آمدورفت تھی، اور ان کی تجارت ان علاقوں کے علاوہ بھٹکل، کیرالہ اور سرندیپ وغیرہ (سری لنکا) میں بھی تھی۔ نتیجتاً، ان میں سے بہت سے تاجر یہیں آباد ہوگئے، اور مقامی لوگوں میں شادیاں کیں، جس کے سبب بعض کوکنی برادری کے افراد کا تعلق عرب نسل سے ہے، اس لیے آپ کو بھیونڈی، بھٹکل اور کیرالہ میں ایسے لوگ ملیں گے جن کی شکل عرب باشندوں سے ملتی جلتی ہوگی، ان میں اکثریت ان عرب تاجروں کی اولاد ہے، جو عراق اور جزیرہ نما عرب سے آئے تھے۔ بہت سے مقامی لوگ عربوں کی ایمانداری اور حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئے، اوران عربوں کا اثر اس قدرہوا کہ ساحلی علاقوں کے لوگوں کی اکثریت خواہ ان کا تعلق کوکن، بھٹکل یا کیرالہ سے ہو، شافعی مسلک کی پیروی کرنے لگے۔ کوکن کے لوگ کوکنی زبان بولتے ہیں، جو مراٹھی، عربی اور فارسی زبانوںسے قدرے مشترک ہے۔ جب حجاج کے لیے سمندری جہاز اکلوتا ذریعہ تھا توممبئی ہندوستان بھرکے حجاج کرام کے لیے ایک بڑا اور اہم مرکز تھا، سمندری تجارت کی تاریخ بھی ممبئی کی اہمیت اورمرکز کی تصدیق کرتی ہے، جس پر پرتگالیوں کے قبضے سے قبل عربوں کی اجارہ داری تھی۔

ممبئی کا سب سے قدیم، مشہور اور تھوک بازار ’کرافورڈ مارکیٹـ‘ ہے، جس کی تعمیر 1869 میںہوئی۔ یہ بازار 1864-1884 کے دوران ممبئی میونسپلٹی کا ہیڈ کوارٹر بھی تھا، اور اس کا ڈھانچہ کرلا نامی کھردرے قسم کے نارنجی پتھروں سے بنا ہوا ہے، جس میں باسین کے سرخ پتھر کا استعمال ہوا ہے۔ یہ برطانوی فن تعمیر کا بہترین نمونہ کے طور پر جانا جاتا ہے، اور ہندوستان میں جدیداہم تاریخی یادگاروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ بھنڈی بازار کرافورڈ مارکیٹ کے پیچھے واقع ہے، جو کبھی کچھ عرب گھوڑوں کے تاجروں کا صدر دفتر تھا، انھوں نے یہاں اپنا اصطبل بھی بنایا تھا، اور اس وقت تھوک تجارت کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ عرب تاجر یہاں طویل عرصے تک مقیم رہے، اور ان میں سے کچھ لوگ ممبئی میں وفات پائے، ممبئی کے قبرستان کے بعض کتبے آج بھی اس کے گواہ ہیں۔ کرافورڈ مارکیٹ کے قریب ’بدری بلڈنگ‘ ہے، جو کبھی کچھ نجدی سوداگروں خاص طور سے ـ’بسام کا خاندانـ‘کی رہائش گاہ تھی۔ یہاں عبدالرحمن اسٹریٹ بھی ہے، جو نجدی گھوڑوں کے سوداگر ’عبدالرحمن منیع‘سے منسلک ہے، یہ بحث و تحقیق کا موضوع ہے۔

 اس گلی کے قریب ایک ’سنٹرل ریسٹورنٹ‘ ہے، جو ہندوستان کی آزادی سے قبل عرب تاجروں کی مجلس اور ان کے کیفے کے نام سے جانا جاتا تھا، اور عرب تاجر یہاں اکثر آتے، بیٹھتے، کافی پیتے، باتیں کرتے تھے۔ اسی جگہ سوتر چال اسٹریٹ  بھی ہے، یہ گلی کاٹن اور کپڑوں کا ایک مشہور بازار ہے، یہاں عرب تاجروں کی کچھ دکانیں ہوا کرتی تھیں، اور اسی کے ساتھ ’زیوری بازار‘ ہے جو اس وقت ’موتی بازار‘ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ بازار جزیرہ نما عرب اور خلیج عرب کے موتیوں اور زیورات کے تاجروں کا صدر مقام تھا۔ ان تاجروں نے ممبئی کے باشندوں میں اچھی شہرت حاصل کی،اوران عربوں نے یہاں ایک  بحری ٹرانسپورٹ کمپنی  انگلش ٹرانسپورٹ کمپنی  کے مقابلے قائم کی، جو کافی کامیاب تھی۔

ممبئی کی شہ سواری کی تاریخ گھوڑوں کے عرب تاجروں کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے،ان تاجروں میں عبدالرحمن منیع، عیسیٰ راشدقرطاس اور ابراہیم بن علی کے نام اہم ہیں جنھیں ہندوستان کے تجارتی حلقوں میں ایک نمایاںحیثیت حاصل تھی، ان لوگوں کا تجارتی اور اقتصادی طور پر مقامی اور غیر ملکی تاجروں میںگہرا اثر تھا۔ عبدالرحمٰن منیع نے عرب سوداگروں کے ساتھ مل کر ممبئی  کے ’بھنڈی بازار‘  میں گھوڑوںکے اصطبل قائم کیے۔ اگر ہندوستان کی شہ سواری کی تاریخ پرنظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ گھوڑوں کے عرب تاجر وںنے اس کی حوصلہ افزائی کی، اور اسے فروغ دیا،اور پھر یہ فن ہندوستان اور یورپی ممالک میں مشہور ہوگیا۔

ہندوستانی اور نوآبادیاتی کھیلوں کی تاریخ اس کی گواہ ہے، اور اس کے شائقین جوق در جوق اس میں شرکت کے لیے آنے لگے۔اسی طرح ہندوستان، خاص طورسے ممبئی میں،عرب کے گھوڑوں کی اہمیت بڑھتی گئی۔  نجدی گھوڑوں نے کئی بارشہ سوار کپ جیتے، اور ممبئی میں ایک شہ سواری کا میدان بھی بنایا گیا، جسے ہم ’مہالکشمی اسکوائر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ تقریباً 1880 میں، بائی کلا سے یہ ریس ٹریک اسی میدان میں منتقل ہوا، ممبئی میں بائی کلا عربی گھوڑوں کا سب سے مشہور بازار تھا۔ اس کے سب سے اہم حامیوں میں عرب تاجر بھی شامل تھے، جن کے پاس عالیشان ریسنگ گھوڑے تھے، اور اس وقت پانچ سو سے چھ سو گھوڑے اس میدان میں دیکھے جاسکتے تھے۔ اس لیے ممبئی عرب ریسنگ کا مرکزی ہیڈ کوارٹر بن گیا، ممبئی میونسپلٹی نے شہر کے قلب میں سیاہ گھوڑے کا ایک مجسمہ نصب کیا ہے جسے ’’کالا گھوڑا‘‘ کے نام  سے جانا جاتا ہے۔ یہ ممبئی کی شہ سواری کی پرانی ثقافت کی یادگار نشانی ہے۔ ہندوستان کے سر کاری دورے پر آئے ہوئے شاہ سعود بن عبدالعزیز کا ہندوستانی اور عرب شخصیات کی موجودگی میں اسی میدان میں پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔

میں نے ممبئی کی جامع مسجد کی زیات بھی کی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1775میں قاضی حسین بلاکر کے ہاتھوں رکھا گیا اور تعمیر کا کام 1802 تک مسلسل جاری رہا، اور اس مسجد کا نام ’آخرت کا جہاز‘ رکھا گیا۔  اس مسجد سے ملحق ایک محمدیہ اسکول کی بنیاد  رکھی گئی جو آ ج ’محمدیہ سیکنڈری اسکول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی مسجد سے ملحقہ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی۔ یہ لائبریری مسجد کی بالائی منزل پر ہے۔ اس لائبریری کو دیکھنے،  یہاںبیٹھنے اوراس سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ اس میں ہزار سے زائد عربی، فارسی اور اردو کے مخطوطات ہیں، یہ علمی خزانہ ان قیمتی خزانوں میں شمار ہوتا ہے جو نایاب اور کمیاب ہیں۔ ان مخطوطات کی دیکھ بھال عبدالمتین بستوی مفتی اشفاق قاضی کی سربراہی اور نگرانی میں کررہے ہیں، مفتی اشفاق اسی مسجد میں فیملی گائیڈنس سینٹر بھی چلارہے ہیں۔  ان کے ہمراہ میںنے مسجد، لائبریری اورفیملی گائڈینس مرکز کی زیارت کی۔

میں نے مہاراشٹر آرکائیوز کا بھی دورہ کیا،جو جنوبی ممبئی میں ایلفنسٹن کالج کے اندر واقع ہے۔ اس ارکائیوز کی بنیاد اگست 1821 میں رکھی گئی، جس کا مقصد سیکرٹری کے دفتر، اور پریذیڈنسی اور دیگر دفاتر کا ریکارڈ حاصل کرنا اور جمع کرنا  تھا۔ مسٹر ولیم ویزن کرافٹ اس دفتر میں ریکارڈ کے پہلے کیپر تھے،اوراس ارکائیوز میں 1630 سے 1955 تک کے ریکارڈ ہیں، اور ان میں حجاز، نجد، خلیجی ممالک،عرب ممالک اور بحر احمر پر واقع ممالک سے متعلق بہت سے اہم دستاویز اور فائلیں موجود ہیں۔مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے ہندوستانی اخبارات خاص طور پر ٹائمز آف انڈیاکے تراشے بھی کچھ فائلوں میں محفوظ کیے گئے ہیں۔  ان دستاویزوں میں جزیرہ نما عرب، شخصیات اور ان کی تجارت کے بارے میں قیمتی معلومات موجود ہیں۔ ہندوستان اور جزیرہ نما عرب کی تاریخ پر کسی بھی سنجیدہ تحقیق کے لیے ایک اہم مرجع ہے، کیونکہ یہ ایک اہم اور انمول تاریخی ورثہ ہے۔ یہ بحر ہند کی تاریخ کا ایک بڑا اور اہم ذخیرہ  بھی ہے، میں نے ’جزیرہ نما عرب کی تاریخ‘ سے متعلق کچھ اہم دستاویزات دیکھے، مجھے ان میں محمد مشاری، مقبل ذکیر اور دیگر عرب تاجروں کا ذکر ملا، نیر ان کے دفاتر کے پتے، اور ان بینکوں کے ناموں کا ذکر بھی ملا جس سے ان کالین دین تھا، ان کی کمپنیوں کے نام، تجارت کی اقسام وغیرہ سے بھی واقفیت ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تاریخی ذخیرہ ایک ا ہم قومی ورثہ اور خزانہ ہے۔

ایشیاٹک سوسائٹی آف ممبئی کی بنیاد سر جیمز میکنٹوش نے رکھی تھی، جو ممبئی میں برطانوی بادشاہ کے رجسٹرار یا جج تھے، اور یہ مشرقی علوم و فنون اور مختلف ادب کا اہم علمی ذخیرہ ہے، اور اس میں سنسکرت، عربی، فارسی، اردو اور پراکرت زبان کے3,000 سے زیادہ مخطوطات موجود ہیں جو ہندوستان اور نیپال کے مختلف حصوں سے جمع کیے گئے ہیں۔ ان مخطوطات کا تعلق لسانیات، علم طب، علم نجوم، علم فلکیات، قصے کہانیوں  وغیرہ سے ہے۔ اس سوسائٹی میں عربی خطاطی، ڈرائنگ، اور  پینٹینگ کے اعلی نمونے بھی ہیں۔ علم انساب، سفرنامے اور مختلف علوم وفنون اور ادب سے متعلق 15,000 سے زیادہ نایاب اور 250,000 سے زیادہ کتابیں، اخبارات اورنادر اخبارات کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔

1874 میں، مسلمانوں کے ایک نمائندہ گروہ نے ’انجمن اسلام‘ کے نام سے ایک اسلامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسی کی نگرانی میں ’کریمی لائبریری‘ کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم کی گئی، جس میں عربی، فارسی، اردو، سنسکرت اور ملیالم کی 50,000 سے زیادہ نایاب کتابیں موجود ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں مخطوطات بھی محفوظ ہیں۔ اس میں مختلف زبانوں میں جاری ہونے والے ہندوستان کی آزادی سے پہلے شائع ہونے والے اخبارات اور ان کی کاپیاں بھی ہیں۔

1912 میں صابو صدیق مسافرخانہ کے باضابطہ افتتاح سے پہلے، برصغیر پاک و ہند میں ڈھاکہ سے دہلی تک کے زائرین ممبئی کی بندرگاہ کے قریب خیمے لگا تے تھے اور وہیں جہازوں کا انتظار کرتے تھے، جو انھیں جدہ لے جاتے اور واپس لاتے۔  جس کی وجہ سے وہ لوگ کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے اور بہت ساری مشکلات اور اذیتوں سے دوچار ہوتے تھے۔ ایک باوقار سرائے کا قیام وقت کی ضرورت تھی، اس غرض کے لیے حاجی صابو صدیق نے 5 ہزار روپے کی رقم عطیہ کی، جو اس وقت ایک بڑی رقم تھی، اور اس وقت کے گورنر جارج سڈنیم کلارک نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کی عمارت 1909 میں بننی شروع ہوئی۔ اب ممبئی کی تاریخ ایک صدی قبل قائم ہونے والے صابو صدیق ہاسٹل کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔  یہ ہندوستانی زائرین کے لیے گیسٹ ہاؤس کے طور پر معروف ومشہور ہو گیا۔ یہ سرائے ایک صدی تک عازمین حج کے لیے سرائے کا کام کرتی رہی۔ اس کی ایک شاندار تاریخ ہے، جس کے بارے میں لکھا جانا اہم ضرورت ہے۔تاکہ ہندوستان میں حج اور عازمین کی خدمت میں اس کے کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ اسے کبھی ''باب مکہ'' کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، آج نئی نسل کرافورڈ مارکیٹ میں موجود اس تاریخی عمارت کے قدیم محراب والے دروازوں سے گزرتی ہے، لیکن اس کے تاریخی ورثے کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ یہ سرائے چار منزلہ عمارت 114 سال سے قائم ہے، اس میں 89 کمرے اور زیریں منزل پر ایک مسجد ہے۔ ہمارے موجودہ دور میں، بالخصوص 1995 سے ہندوستانی حکومت نے بھارت سے سمندری راستے سے حج کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ اس سے اب کوئی ہندوستانی حاجی سمندری سفر نہیں کرتا ہے، یہ سرائے اس سے متاثر ہوئی، کیونکہ اب یہ ان زائرین کے لیے جگہ نہیں رہی، جو انفرادی طور پر یا گروہوں میں آتے تھے، اور اب یہ ان مریضوں کی پناہ گاہ بن چکی ہے جو ممبئی میں علاج کے لیے  آتے ہیں، اور بہت کم تعداد میں حج اور عمرہ کے زائرین اس سرائے میں اب قیام کرتے ہیں۔مزید یہ کہ یہ عمارت بڑی حدتک ہاسٹل، اسکول اور ووکیشنل کورس سینٹر کے طور پر استعمال  ہورہی ہے۔

ممبئی میں اپنے قیام کے دوران خلافت سوسائٹی کے ہیڈ کوارٹر جسے ’خلافت ہاؤسز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  اس کے بانیوں کے جزیرہ نمائے عرب کے حکمرانوں اور شخصیات سے گہرے روابط تھے اور وہاں ایک پرانی لائبریری موجود  تھی جوبند کر دی گئی، لیکن میں نے سنا ہے کہ اس میں عرب رہنماؤں کے اہم دستاویزات، رسائل، مکتوبات اور تحریریں محفوظ تھیں، اور اب اس خلافت ہاؤس کو خلافت ایجوکیشنل کالج میں تبدیل کر دیا گیا، اس طرح میں نے الصباح اور الجبریہ کمپلیکس کو دیکھا جو کبھی کویت کے حکمران خاندان کی ملکیت میں تھا، یہ کمپلیکس میرین ڈرائیو پر واقع ہے، یہ میرین ڈرائیو ’ملکہ کا نیکلس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو بحرعرب کے ساحل کے ساتھ نیرمن پوائنٹ اور ملبار پہاڑی کے درمیان واقع ہے۔

میں نے ممبئی شہر کا سفر کیا، جو جزیرہ نمائے عرب کی اقتصادی تاریخ کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔میں اس کی بہت سی گلیوں میں گھوما، جو عرب تاجروں کے دفاتر اور رہائش گاہوں کے لیے مشہور تھیں، جیسے: بھنڈی بازار، محمد علی روڈ، عرب اسٹریٹ، عبدالرحمن اسٹریٹ، ناگ دیوی سٹریٹ، وغیرہ۔ میں نے ان کی رہائش گاہوں اور دفاتر کی کچھ تصویریں لیں، لیکن اب یہ پرانی عمارتیں نئے 50  منزلہ رہائشی ٹاورز میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہیں، جنھیں بوہرہ کمپنی تیار کر رہی ہے، اورانھیں وہ عربی نام دے رہی ہے، جیسے کہ ’السعادہ ٹاور‘، ’النصر ٹاور‘ وغیرہ۔  یہ کمپنی بھنڈی بازار اور آس پاس کے علاقے میں 11 ٹاور بنائے گی۔ ان جگہوں کی تاریخ کو قلم بند کرنا  وقت کی اشد ضرورت ہے، جو پہلے عرب تاجروں کی ملکیت میں تھیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہم ان رہائش گاہوں اور دفاترکو دستاویزی شکل دینے کے بارے میں سوچیں، کیونکہ ان کی موجودگی ہند-عرب تعلقات کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور ممبئی کی تاریخ خاص طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور میںان کی تجارتی اور اقتصادی تاریخ ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ جہاں ہمیں دونوںممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں ان کے نمایاں کردار کو یاد رکھنا چاہیے، تاکہ ان کی تاریخ کو فراموش نہ کردیاجائے۔

 

Dr. Suhaib Alam

Asst. Prof. Dept of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9811159071

Email.: salam5@jmi.ac.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...