25/6/24

اظہار الاسلام کے افسانوں میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت، مضمون نگار: شیخ ظہور عالم

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


جدیدیت کے پیروکار اظہارالاسلام مغربی بنگال کے جید افسانہ نگار رہے جنھوں نے معیار ومقدار کا خاص خیال رکھا۔ ان کے افسانے ملک اور بیرون ملک کے معیاری رسالوں میں چھپ کر اصول نقد کے معلمین سے دادِتحسینِ حاصل کر چکے ہیں۔ان ناقدین میں شمس الرحمن فاروق،مشرف عالم ذوقی، ابوذر ہاشمی، ڈاکٹر عشرت بیتاب، ڈاکٹر مشتاق انجم اور مقصود دانش وغیرہ شامل ہیں  جنھوں نے ان کے افسانوں کے دروبست میں اپنی ناقدانہ بصیرت کا اظہار کیاہے۔ان کے افسانوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ان کی شخصیت، حیات اور فن پر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے بھی منظرِعام پر ہیںواپسی اور کانچ کا پل۔ ان کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ معیاری افسانے تخلیق کرنے کے باوجود انھوں نے افسانوی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دوست واحباب کے اصرار پر 17 سال بعد مجموعہ ’واپسی‘ کے ذریعے افسانوی کینوس میں واپسی ہوئی۔ یہ مجموعہ 1998 میں آلہ آباد،کتاب گھر’ شب خون‘ کے زیرِاہتمام شائع ہوا۔جس کے پیش لفظ میں شمس الرحمن فاروقی رقمطراز ہیں:

’’میں اظہارالاسلام کے افسانے ایک عرصے سے پڑھ رہا ہوں۔ فنی اعتبار سے انھوں نے ایک ایسی راہ ہمیشہ اختیار کی جو دو انتہائوں کے بین بین چلتی ہے یعنی وہ نہ تو بالکل شفاف اور ایک برابرایک طرح کا افسانہ لکھتے ہیںجس سے قاری کو کسی قسم کی ذہنی یا روحانی الجھن نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ تجریدی وعلامتی طرز کی ان وادیوں کی سیر کراتے ہیں جہاں قاری کو قدم قدم پر ٹھٹھک کر معلوم کرنا پڑتا ہے کہ میںکہاں ہوں۔صاف اوریک سطحی طرز کے افسانے کے مقابلے میں موخرالذکرافسانہ یقینََا بہتر ہے۔ یعنی براہ راست بات کہنے کے بجائے علامت، استعارہ اور تجرید کے پردے میں بات ہمیشہ زیادہ خوبصورت بن جاتی ہے۔اظہارالاسلام نے جو بیچ کی راہ اختیار کی تو اس کی بنا پر وہ سیدھے اور یک سطحی بیان سے محفوظ رہتے ہوئے بھی ایک طرح کی پیچیدگی اور بالواسطگی کو اختیار کر سکے۔لہٰذاوہ قاری بھی جو بالواسطہ بیان کو پسند کر تے ہیں۔اظہار الاسلام کو خوش ہو کر پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔ــــــــــ(مجموعہ’ واپسی‘ پیش لفظ)

شمس الرحمن فاروقی کے اس قول سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اظہارالاسلا م نے تین طرح کے افسانے خلق کیے ایک بیانیہ اسلوب دوسرا علامتی و تجریدی اسلوب اور تیسرا بیانیہ اور تجریدی اسلوب کے بین درمیانی راہ جن کے بیشتر افسانے اسی راہ کی زائیدہ ہیں۔ بقول شمس الرحمن فاروقی ـ :

’’افسانہ وہی اچھا ہوتا ہے جس میں نتیجہ یا نتائج خود قاری نکالے۔اظہارالاسلام اس نقطے کو بخوبی جانتے ہیں۔‘‘

ـ(مجموعہ’ واپسی‘ پیش لفظ)ــ

مجموعہ’ واپسی‘ میں کل 18 افسانے ہیں اور مجموعہ ’کانچ کا پل‘ میں 21 افسانے اس طرح دونوں مجموعوں میں شامل افسانوں کی تعداد 39 ہے لیکن بعض افسانے دونوں میں مشترک ہیں۔اس طرح کل افسانوں کی تعداد 31  بنتی ہے۔ بنگال کے آسنسول کے شہر رانی گنج میں ان کی پیدائش 10 فروری 1949 کو ہوئی۔ بالکل سنِ صغیر میں والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔پرورش والدہ کے بغیر والد اور بڑی بہن اقلیمہ کے ہاتھوں ہوئی۔وہ بچپن سے ہی تنہائی کے عادی تھے۔ہر روز جب والد صبح سویرے کام پر روانہ ہوتے تو دونوں بچوں کو ایک کمرے میں بند رسالوں کے سپرد کر جاتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچپن سے ہی کہانیوں کو پڑھنا اور خیالوں میں غرق رہنا شروع کر دیا۔رسالوں اور کتابوں کے مطالعے، شہر رانی گنج کا قدرتی ماحول، دوست و احباب کی بزم اور جغرافیائی خدوخال نے بہت جلد ان کی ذہنی آبیاری شروع کر دی۔ اوائل عمری میں انھوں نے مشرق و مغرب کے بڑے بڑے ادیبوں، فلسفیوں، مفکروںاور دانشوروں کو پڑھ ڈالا۔ان ادیبوں میں پریم چند، بیدی، منٹو، کرشن چندر، قرۃالعین حیدر، الیاس احمد گدی، عبداللہ حسین،انتظار حسین،مشتاق احمد یوسفی،ابن صفی، قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد وغیرہ مشرق کے ہیں جب کہ مغربی مفکر ین میں ورجینا وولف، موپاساں، ہنری۔ جیمس جوائس، سارترے، کامیو،  چیخوف، گراہم گرین وغیرہ کے نام آتے ہیں جن کی تحریروں نے ان کے اندر بیٹھے تخلیق کار کو بیدار کیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک کہانی کار اورافسانہ نویس تھے۔جن کو کہانیوں کے گھڑنے کا اچھا سلیقہ آتاتھا۔پہاڑی علاقے،سطح مرتفع،قدرتی چٹان اور کالے ہیرے کے شہر سے قریب ہونے کی وجہ سے ان کی تحریروں میں منظر کشی، واقعہ طرازی، جزئیات نگاری، کردار بندی اور ماحول تراشی درجۂ کمال کی ہے۔ ان کے افسانوں میں ہندوستان کے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ اس تخلیقی سفر میں وہ ہمیں نئی دنیا کی سیر کراتے ہیں ایک ایسی دنیا جن کے پردے ہم پر دھیرے دھیرے وا ہوتے ہیں۔ ہندوستانی تہذیب ومعاشرت کی کارفرمائیاں ان کے افسانوں کا طرہ ٔ امتیاز بنی۔بقول شمس الرحمن فاروقی :

’’یوں تو اظہارالاسلام کے افسانے بہار اور بنگال کے اس علاقے سے متعلق ہیں جسے سیاہ الماس (Black Diamond)یا کوئلے کا علاقہ (Coal Field)کہا جاتا ہے لیکن ان کے افسانوں کا فکری پس منظر کوئلے کے میدانوں تک محدود نہیں وہ اکثر ہمیں نئی دنیا ؤںکی سیر کراتے ہیں لیکن بالواسطہ اور خفیف اشاروں کے ذریعہ۔ اس طرح ان کا افسانہ یک سطحی ہونے سے بچ جاتا ہے۔‘‘

ـــــــــ (مجموعہ ’واپسی‘ پیش لفظ)

ان کی تخلیقی اپج میں سیر و سیاحت کا برابر عمل دخل ہے۔ ایام جوانی میں انھوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر پوری دل جمعی کے ساتھ کیا۔ انھوں نے کشمیر کی وادیوں، دہلی کے گلیاروں، ممبئی کی چوپاٹیوں، گوا کی لہروں، دارجلنگ اور گینگٹاک کی پہاڑیوں اور کلکتہ کی سڑکوں کا گہرا مشاہدہ کیا۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت، معاشرتی زندگی، سیاسی سرگرمیاں، تمدّنی ماحول، اقتصادی لین دین، بنگالی کلچر، کردار، بھاشائیں، کلکتہ اور اس کے مضافاتی علاقے ان کے افسانوی سیاق کا حصّہ بنے،جس کا پر تو ان کی کہانیوں میں صاف نظر آتا ہے۔ اس زمرے میں آنے والے ان کے افسانوں میں وہ آدمی، الائو، موہن دھیبر، پرندے، کانچ کا پل، دھنک کا ساتواں رنگ، چہکار، چوبارہ، دائرے، پوسٹ مارٹم، اجالے کی مہک، جہاں اندھیرا ہانپتا ہے، ڈیڑھ منزلہ سورج، دھواں اور آخری شب کا کرب وغیرہ میں ہندوستانی عناصر کی بھر مار دکھائی دیتی ہے۔

کانچ کا پل، ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جو مغربی بنگال اردو اکادمی کے مالی تعاون سے 2015 میں شائع ہوا۔ اس کا پہلا افسانہ’ وہ آدمی‘ ہے۔ کہانی میں آغاز سے انجام تک تسلسل کی لے باقی ہے۔کہانی کے اختتام پر اس راز سے پردہ اٹھتا ہے کہ وہ آدمی جو راوی کا پیچھا کرتا ہے وہ کوئی اور نہیں خود اس کا ضمیرہے۔ جو اب مر چکا ہے اور موسلا دھار بارش میں اس کی لاش بھیگ رہی ہے۔ اس افسانے کی خاص خوبی اس کی عصری معنویت ہے۔یہ ایک ایسا موضوع چھیڑتا ہے جس پر کم و بیش تمام افسانہ نگاروں نے لکھاہے لیکن اس کی خاص خوبی اس کا علامتی اور تجریدی اسلوب ہے۔ ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال پر بحث کرتے ہوئے افسانہ نگار نے رشوت ستانی (Bribe) کو اپنا موضوع بنایا۔ یہاں ہر دس میں سے آٹھ اس جرم میں ملوث ہے۔اگر کوئی اس جرم سے بچنا چاہیے تو ہاتھوں میں انگارہ لینے کے مترادف ہوگا۔کہانی کار نے بھی شروع شروع میں رشوت لینے سے انکار کیا۔لیکن کب تک؟ بالاآخر اس طاغوتی نظام نے اسے رشوت لینے پر مجبور کر دیا۔دراصل اس کے پیرائے میں افسانہ نگار نے اس نظام (system)کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے جس کی تبدیلی انفرادیت میں رہ کر ممکن نہیں بلکہ اجتماعیت پر مبنی ہے۔

پیش خدمت ہے افسانہ کا یہ اقتباس :

’’ایک بڑا سا لفافہ میرے اور باس کے درمیان جھول رہا ہے۔ میرا جی چاہا لفافہ باس کے منہ پر کھینچ ماروں۔ پھر ریاض کا خیال آیاپتہ نہیں اسے کیوں معطل کر دیا گیا۔ وہ اب بھی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔کہیں میں بھی ... ؟میں ہاتھ بڑھا کر لفافہ دبوچ لیتا ہوں۔ ــ‘‘

(مجموعہ ’کانچ کا پل‘ ص13)

ان کا ایک افسانہ ـــــ’رات اور سمندر‘ہے۔اپنی باتوں کی ترسیل کے لیے انہوں نے استعاراتی جملوں، تجریدی اسلوب اور معنی خیز علامتوںکا سہارا لیا ہے۔جہاں ان کا فن بلندیوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے معاصر فکشن نگاروں میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے جملے کے در وبست میںوہ اساسی پہلوئوں کو رواں رکھتے ہیں۔ جہاں قاری کا رشتہ مواد سے گہرا نظر آتا ہے۔ممبئی کی بھاگتی دوڑتی زندگی کو پیش کرتا ہوا اسمگلنگ کے موضوع پر لکھا افسانہ ’رات اور سمندر‘ دلکش بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ دلکش اس لیے کہ اس میں ممبئی کے قدرتی مناظر کو افسانوی لباس پہنا کر اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا گیا ہے جو دیکھنے سے علاقہ رکھتا ہے اور دلچسپ اس لیے کہ اس میں کہانی کو اپنی رنگین بیانی اور جادو بیانی سے اسلوبیاتی سطح پر ڈھال کر علامت اور تجرید کا حق کما حقہٗ ادا کیا ہے۔بمبئی سنٹرل، بھنڈی بازار، فلورا فائنٹین، گیٹ وے آف انڈیا، میرن ڈرائیو، ہینگینگ گارڈن،جوٹ ہائوس، مہا لکشمی ریس کورس اور جوہو چوپاٹی وغیرہ قابل دید جگہیں ہیں جہاں کا منظر آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ممبئی اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود اپنے دامن میں کچھ منفی اثرات بھی  رکھتا ہے۔جس نے بہتوں کو تباہ و برباد کیا۔جیسے کہانی کے کردار ریٹا اور راجو۔ریٹا کو اس کے باس نے ہی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کی برہنہ لاش کو ریت میں دفن کر دیا۔

افسانہ’الائو‘ ہندوستان کے گائوں کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ جہاں سردی کے موسم میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے لوگ الائو سلگاتے ہیں اور اس کے ارد گرد جمع ہو کر ایک دوسرے کی بپتا سنتے ہیں۔ اس اثنا میں ایک مسافر راستہ بھٹک کر ان میں شامل ہو جاتا ہے اور اپنی رودادِ سفر ان سے بیان کرتا ہے۔آدمی چونکہ شریف اور پڑھا لکھا معلوم ہوتا ہے اس لیے گائوں والوں کو جلد اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی مجر م یا مخبر نہیں بلکہ بھٹکا ہوا مسافر ہے جو صبح اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔گائوںوالوں نے اسے ٹھنڈ سے بچنے کے لیے اپنا کمبل تو دینا چاہا لیکن کسی نے اسے اپنے ساتھ گھر لے جانے کی زحمت گوارہ نہ کی۔ مسافر چونکہ خوددار تھا۔ اس نے کمبل لینے سے صاف منع کر دیا۔ نتیجتاً صبح ہونے تک وہ کڑاکے کی سردی سے جاں بحق ہو جاتا ہے اور بجھے ہوئے الائو کے پاس اس کی اکڑی ہوئی لاش ملتی ہے اور کہانی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اور پھر ایک نئی کہانی یہاں سے شروع ہو جاتی ہے۔اس میں افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ جس نقطے سے کہانی کا آغاز کیا تھااسی نقطے پر آ کر کہانی ختم ہوتی ہے۔ یہ ایک چونکا دینے والا اسلوب ہے جہاں قاری کا ذہن کچوکے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ان کے اس اسلوب سے متاثر ہو کر بنگال کے معروف افسانہ نگار جناب محترم صدیق عالم نے اپنے ایک خط میں افسانہ’الائو‘ کے متعلق کلمات لکھے ہیں۔

’’آخری افسانہ جس نے مجھے متاثر کیا وہ اظہارالاسلام کا ’الائو‘ ہے۔اظہارالاسلام نے اپنے افسانوں کے ذریعے ہمیشہ مجھے چونکا یا ہے اور ان دنوں مغربی بنگال سے لکھنے والے افسانہ نگاروں میں وہ میرے سب سے محبوب افسانہ نگار ہیں۔افسانے کا آخری جملہ:

’’دور اندھیرے میں کوئی ہاتھ میں ٹارچ لیے ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پورے افسانے کو روشن کر جاتا ہے۔‘‘ 

(اظہارالاسلام :حیات اور فن، مقدمہ ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا،ص 11)

افسانے کے کچھ چنندہ جملے دیکھیں جو گائوں کی یاد ذہن میں تازہ کرتے ہیں۔

’’وہ معمولی پتلون قمیض اور سویٹر پہنے ہوئے تھا۔ چہرے مہرے سے وہ اس گائوں کا نہیں لگ رہا تھا۔‘‘

’’ابے گلٹنو!ذرا جا کر دیکھ،چوڑا ہو گا تو لے آنا اور ساتھ میں تھوڑا پانی۔پہلے آتے تو لٹی مل جاتی۔‘‘

’’ارے میرے گھر جا اور ببوا کی مائی سے کہہ کر تھوڑا گرم دودھ ہلدی میں ملا کر بھیج دے۔رات بھر میں آرام ہو جائے گا۔‘‘(کانچ کا پل۔افسانہ ’الائو‘)

اظہارالاسلام کی کہانیوں میں مقامی رنگ صاف جھلکتا ہے۔ وہ بنگال کے رہنے والے تھے۔کیسے ممکن تھا کہ ان کی کہانیوں میں بنگال دکھائی نہ دے۔ انھوں نے بنگال کی راجدھانی کلکتہ اور اس کے مضافاتی علاقوں سے سفر کیا تھا۔ان اسفار کو اپنے مشاہدات کی گہری بھٹی میں تپا کر افسانے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ وہ پیدائشی طور پر آسنسول کے شہر رانی گنج کے رہنے والے تھے۔قدرتی طور پر یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے معدنیات سے گھرا ہوا ہے۔ پہاڑی علاقے،اونچے نیچے ٹیلے اور کوئلے کی کانوں سے گھرایہ شہر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ایسے موضوعات پر مبنی ان کے افسانوں میں جہاں اندھیرا،ہانپتا ہے،موہن دھیبر، ڈیڑھ منزلہ سورج،وہ آدمی،اجالے کی مہک اور دھواں کو پڑھا جا سکتا ہے۔جہاں بنگالی زبان،کردار اور کلچر کی بھی بھر مار ہے۔

افسانہ ’جہاں اندھیرا ہانپتا ہے‘کوئیلری میں کام کرنے والے مزدوروں کی دکھ بھری کہانیاں ہیں۔ایسے مزدور جو اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔جن کی زندگی بے وفائی اور موت وفا داری نبھاتی ہے۔ہریا، ردھوا، جگن، دینوا، پھیکنوا، سرجوا، درعید وا اسی ماحول کی پیداوار ہیںجو ہر روز اپنے سر پر کفن باندھ کر اس نیت کے ساتھ کان میں اترتے ہیں کہ نہ جانے کس روز اپنی زندگی کی شام ہو جائے۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھیں:

 ’’پربتیا جانتی تھی وہ بازی ہار چکی ہے۔ دینو کے بعد اس نے بہت کچھ دُکھ جھیلے تھے۔اس نے کیا کیا نہیں سہا تھا،مگر آج اس کی ساری تپسیا ایک ضد کے آگے دھری کی دھری رہ گئی۔اسے لگا کہ جیسے کالے پتھروں کے ساتھ اس کا مقدر لکھ دیا گیا ہے۔‘‘

(مجموعہ کانچ کا پل ’افسانہ جہاں اندھیرا ہانپتا ہے)

افسانہ’ اجالے کی مہک ‘ڈیڑھ منزلہ سورج اور وہ آدمی ایسے ہیں۔جن میں شہر کلکتہ اپنے پورے آب و تابـــــ کے ساتھ روشن ہے۔اس شہر کی گہما گہمی، عوامی ہجوم، گاڑیوں کے ریل پیل،یہاں کی چاق و چوند زندگی اور برٹش راج کی عمارتیں اور کچھ خاص نشانیاںجو آج بھی فن تعمیرات کے بہترین نمونوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ٹرام، ٹرین، رکشہ، پائدار اور مستحکم عمارتیں آج بھی بر ٹش کی یادوں کو ذہن میں تازہ کیے ہوئے ہیں۔ 

اُجالے کی مہک میں رکشہ کو موضوع بنایا گیا ہے کہ کتنی محنت سے یہ ان پڑھ گنوار رکشہ چالک دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر پاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں ہوڑہ پل، ہوڑہ اسٹیشن، پارک سرکس، زکریا اسٹریٹ،نیو مارکٹ، بالی گنج، اسپلینڈ، پارک اسٹریٹ، میدان،شہر کلکتہ اور اس کے اطراف جگمگ جگمگ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کی سڑکیں، سڑکوں پر چلنے والی سواریاں،فٹ پاتھ پر دست بستہ ہاکروں کا ہجوم،ہگلی ندی، بڑے بڑے تعلیمی ادارے،ٹرافک پر قابو پانے کے لیے فلائی اوور اور زیرِزمین میٹرو ٹرین اس شہر کی گہما گہمی کو پیش کرتے ہیں۔پیش خدمت ہیں یہ اقتباسات جن میں شہر نشاط اپنی جملہ تر خوبیاں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔

’’سڑک کے اس پار سبزہ زار اسپلینڈ، کچھ فاصلے پر شہید مینار، آگے ریڈیو اسٹیشن، بائیں جانب وکٹوریہ میموریل پھر نیتاجی انڈور اسٹیڈیم اور ایڈن گارڈن۔ میرے قدم آگے برھتے ہی جاتے ہیں۔ سامنے اوٹرم گھاٹ جس کے دائیں بائیں رابندر سیتو اور ودیاساگر سیتو اندھیرے میں جگمگا رہے ہیں۔‘‘

’’کبھی کبھی میٹرو ٹرین کا سفر، اسپلینڈ اور رابندر سدن کے درمیان دو ہی اسٹیشن آتے ہیں،پارک اسٹریٹ اور میدان۔زیر زمین ٹھنڈے ٹھنڈے پلیٹ فارم پر معلق ٹی وی اسکرین مجھے اچھے لگتے ہیں،میٹرو ٹرین کے آتے ہی پل بھر میں پلیٹ فارم خالی ہو جاتا ہے۔ٹرین چلنے سے پہلے ایک گھسی پٹی نسوانی آواز ابھرتی ہے۔

’’دروازہ بند ہو رہا ہے!‘‘

’’ اگلا اسٹیشن پارک اسٹریٹ  !‘‘

’’پلیٹ فارم بائیں طرف !‘‘                        

(مجموعہ کانچ کا پل افسانہ ’وہ آدمی‘)

بنگال میں رہ کر بنگالی کلچر کو پیش کرنا ایک فطری تقاضا ہے۔ اظہارالاسلام نے اپنے افسانوں کی بنت میں بنگالی زبان،کردار اور کلچر کی بھی نشاندہی کی ہے۔جو ان کے افسانوںکی جان اور شان ہے۔ ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں:

’’کوتھائے جابین آپنی ……؟‘‘

’’دوٹی بالی گنج ۔‘‘ (افسانہ ڈیڑھ منزلہ سورج )

’’کی رے بیٹا !کی ہوئے چھے؟‘‘

’سپنو دیکھ چھلیس نا کی…؟‘‘

’’دھواں …؟کی آبول تا بول بوک چھس …سن ایک ٹی بھالو بوتول جوگاڑ کورے چھی،چولبی …؟‘‘

’’تور مور جی…‘‘ (افسانہ۔دھواں)

کرداروں میں منورنجن داس، سنہا، رام شنکر، مایا، موہن، آنند، رمیش، ورما، شیکھا، نیہا ورما، بخیا، پربتیا، ہریا، ردھوا، دینوا، سرا جوا،  پھینکوا، جگن، کویتا، نمرتا، دلیپ بندھوپادھیائے اور تلک دھاری سادھو بنگالی کرداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

’’اس دن اسکول جاتے ہوئے دھیبر پارا سے گزرا۔ ایک سجے سجائے پنڈال کے نیچے رنگ برنگ کپڑوں میں بچے چہک رہے تھے اور بوڑھے خوش گپیوں میں مگن۔جگہ جگہ پوشاک میں عورتیں گنگا پوجا کی تیاری میںمشغول تھیں۔میری نظر موہن دھیبرپرپڑی اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔

’’نمشکار بابو...‘‘ موہن دھیبر میرے سامنے تھا۔

’’بابو !آپ کا بابابھی اسی کارخانے میں چاکیری کرتا ہے۔وہ مانس نہیں تھا بابو،دیوتا تھا،دیوتا،ہمارا اوپر کیا کیا اپکار کیا تھا وہ ہم بولنے نہیں سکتا،سارا جیون اسے بھولنے نہیں سکتا۔‘‘ (مجموعہ کانچ کا پل افسانہ موہن دھیبر)

’’سائے کے پیچھے مت بھاگ مورکھ۔‘‘

 ’’تلک دھاری سادھو کے کھڑائوں کی کھٹ کھٹ سنسان سڑک پر دور ہوتی گئی اور اس کا گیرواہیولا نقطہ در نقطہ بٹتا گیا۔‘‘        

(آخرِ شب کاکرب۔افسانہ)

مندرجہ بالا اقتباسات ان کے افسانوں سے اخذ شدہ ہے جن سے بنگالی کلچر کی ترجمانی ہوتی ہے۔

 

Sk. Zahur Alam

Dept. of Urdu, Research Scholar,

Calcutta University

5/H/9, Motihjeel Lane,

Kolkata-700015

Mobile : 9163245420

E-mail : armanalam7@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...