25/6/24

دشینت کمار ہندوستانیت کا نمائندہ قلم کار، مضمون نگار: رؤف خیر

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


دشینت کمار اردو کا ایک ایسا جینوئن Genuine شاعر ہے جسے ہندی والوں نے کھلے دل سے اپنا لیا ۔ اردو میں بحر وو زن ،قافیہ، ردیف، عروض، ایطا، اعراب زبان و بیان کی اتنی باریکیاں ہیں کہ شعر کہنا آسان نہیں رہ جاتا۔ فطری بہائو کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو شعر میں ڈھالنے والے کے سامنے فنی رچائو چٹان بن کر آتا ہے اور کوئی اسے سر کر لے تو پھر وہ کامیاب شاعر ہو جاتا ہے اور جو ہمت ہار جاتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہندی میں اتنی پابندیاں نہیں ہیں اس لیے شاعر کے لیے جذبات و احساسات کا اظہار آسان ہو جاتا ہے۔

1960 سے 1975 تک دشینت کمار کے بہت چرچے رہے۔ 1965 کے آس پاس ایک افسانہ نگار دوست انور رشید کے ذریعے ہندی کے ادیبوں شاعروں سے ملاقاتیں ہوتی تھیں جیسے راجا دوبے، اوم پرکاش نرمل وغیرہ جو دشینت کمار کا بہت ذکر کرتے تھے۔ اس زمانے میں گوپال متل کے ماہ نامہ تحریک دہلی میںدشینت کی غزلیں گاہے گاہے پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اردو میں دشینت کمار کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی حالاں کہ دشینت کمار عام فہم اردو میں اور عوام و خواص تک پہنچنے والے اسلوب میں شعر کہتے تھے۔ہندوستانیت کے اس نمائندہ قلم کار نے بعض الفاظ کو اپنے اشعار میں اُسی طرح باندھا جس طرح وہ عام طور پر بولے جاتے ہیں جیسے وزَن، شہرَ، فصَل، بحَث (متحرک انداز میں) جو اردو والوں سے برداشت نہیں ہوپائے اس لیے دشینت نے ہندی کا رخ کیا۔

اس زمانے میں اردو ہندی میں کوئی فصل نہیں تھی۔ ہندی میں دشینت کمار کی خوب پذیرائی ہوئی۔ دشینت کمار جو کچھ لکھتے تھے وہ اردو زبان میں ہوتا تھا یہ الگ بات ہے کہ ر سم الخط دیونا گری ہوا کرتا تھا۔ اردو ہندی کی تفریق سے ماورا ہوکر دشینت کمار کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔آج بھی یو پی اور بہار کے بعض شاعر اردو زبان کی بجائے ہندی رسم الخط میں اپنا کلام لکھ کرلاتے ہیں اور مشاعرے لوٹتے ہیں۔ (اس میں مسلم غیر مسلم کی قید نہیں ہے)۔

ہندی کو یتا دو ہے اور دیگر اصناف میں جو کچھ کہا جاتا رہا ہے وہ اپنا آب و روغن کھوتا جارہا تھا۔ عوام تو عوام خواص بھی اردو غزل کی مقبولیت سے متاثر ہوتے جارہے تھے۔ ہند و مسلم مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کی وجہ سے زبان وہی بولی جاتی رہی ہے جو بلا لحاظ مذہب و ملت سب کی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ عام فہم اسلوب شعرو ادب میں بھی در آیا۔ البتہ بعض شاعروں نے اردو غزل اپنائی ضرور مگر اُسے ’ہند یا لیا‘ تھا جیسے جے شنکر پرساد (1889-1937) برج بھاشا سے کھڑی بولی میں آئے ضرور مگر غزلیں بھی کہیں تو سنسکرت آمیز ہندی میں۔

چھایا وادی ہری کرشن پریمی نے اپنے شعری مجموعے ’روپ ریکھا‘ میں کھلے دل سے اعتراف کیا:

’’غزل کو ہندی ادب میں لانے کی کوشش تو بہت پہلے سے چل رہی ہے اور مہاکوی کہے جانے والے ماہرین بھی کثرت سے غزل کہتے رہے ہیں لیکن اردو والے نکھار، شوخی اور ادا کے درشن ابھی تک نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

مرزا غالب کے زیر اثر پریمی کہتے ہیں         ؎

ہزاروں صورتیں سندر کہ جن پرمن مچلتا ہے

مگر ادِھکار کر سکنا بہت مشکل ہوا جگ میں

بنا کر کوئی سیمائیں ہر دے کو باندھتی دنیا

وِشُدھ دِستار کر سکنا بہت مشکل ہوا جگ میں

پریوگ وادی شمشیر بہادر سنگھ کی ہندی غزلیں اردو سے بہت قریب ہیں           ؎

 وہی عمر کا ایک پل کوئی لائے

تڑپتی ہوئی سی غزل کوئی لائے

حقیقت کو لائے تخیل سے باہر

مری مشکلوں کا جو حل کوئی لائے

تر لوچن شاستری کے ہندی کلام کے مجموعے کا نام ہے ’گلاب اور بلبل‘ جس میں جو غزلیں ہیں وہ اردو کی نہیں لگتیں         ؎

اندھیری رات ہے میں ہوں اکیلا دیپ جلتا ہے

ہوا جگ جگ کے سوتی ہے پتھک اب کون چلتا ہے

دھرا کو کون آکرشن تمر میں کھینچ لایا ہے

کشتج سے دیوم میں کوئی ترل تارا نکلتا ہے

ترلوچن بھائو آتے ہیں تو پھر روکے نہیں رکتے

کبھی جھرنے کو دیکھا ہے جو اپنی ڈھا ل ڈھلتا ہے

(بحوالہ ہندی غزل تاریخ و تنقید: ڈاکٹر انیس النساء 2014)

دشینت کمار اردو غزل کو سینے سے لگالینے کے تعلق سے فرماتے ہیں:

’’میں نے اپنی تکلیف کو ،اس تکلیف کوجس سے سینہ پھٹنے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ سچائی اور بھر پور انداز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا نے کے لیے غزل کہی ہے۔ یہاں یہ صاف کردوں کہ غزل مجھ پر نازل نہیں ہوئی ہے۔ میں پچھلے پچیس برسوں سے اسے سنتا اور پسند کرتا آیا ہوںاور میں نے کبھی چوری چھپے اس میں ہاتھ بھی آزمایا ہے لیکن غزل لکھنے یا کہنے کے پیچھے ایک جستجو اکثر مجھے تنگ کرتی رہی ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان کے شاعروں میں سب سے بلند تخیل کے حامل شاعر مرزا غالب نے اپنے درد کے اظہار کے لیے غزل ہی کو ذریعہ کیوں بنایا اور اگر غزل کے وسیلے سے غالب اپنے کرب کو اتنا عام بنا سکتے ہیں تو میری دوہری تکلیف جو ذاتی بھی ہے اور سماجی بھی، اس صنف کے ذریعے عام قارئین تک کیوں نہیں پہنچ سکتی۔ مجھے اپنے بارے میں کبھی مغالطے نہیں رہے۔ میں مانتا ہوں کہ میں غالب نہیں ہوں۔ اس صلاحیت کا سواں حصہ بھی شاید مجھ میں نہیں ہے لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ میری تکلیف غالب سے کم ہے یا   میں نے اُسے کم شدت سے محسوس کیا ہے۔ ہو سکتا ہے اپنی اپنی تکلیف کے بارے میں ہر آدمی کو یہ وہم ہو لیکن تاریخ مجھ سے جڑی ہوئی میرے درد کی، تکلیف کی گواہ خود ہے۔بس تجربے اور ادراک کی اسی ذرا سی پونجی کے سہارے میں اُستادوں اور ماہرین ِ فن کے اکھاڑے میں اُتر پڑا۔ میں جانتا تھا کہ نرالا سے لے کر شمشیر تک کئی بڑے شاعروں نے غزل کی صنف کو آزمایا ہے۔ غزل کا چسکا مجھے خود شمشیر بہادر سنگھ کی غزلیں سُن کر لگا تھا۔‘‘

ہاں! میں نے غزل کو اپنے چاروں طرف بُنی جارہی شاعری کی یکسانی کوتو ڑنے کے لیے شروع کیا ہے۔‘‘

دشینت کمار اپنے دور کی ہندی شاعری کی صورت حال سے غیر مطمئن تھے۔ا ُن کا خیال تھا کہ جدید شاعری کا رشتہ سامعین اور قارئین سے ٹوٹ چکا تھا۔

(دشینت کمار نمبر میری غزلیں ’ساریکا‘ مئی 1976 بحوالہ ڈاکٹر انیس انساء بیگم)

اردو میں ترقی پسند ادب اور حلقۂ ارباب ذوق کے دور میں غزل سے بے اعتنائی برتی گئی اور نظموں کو فروغ دیا گیا۔ ساحر، سردار جعفری، مخدوم، جوش، فیض، ن م راشد، میراجی اور اختر الایمان وغیرہ۔ بعد میں فیض، مخدوم، جاں نثار اختر، ساحر نے بڑی کامیاب غزلیں بھی کہیں۔ اس کے بعد 1960 کے بعد جدیدیت نے ادب پر جو شب خون مارا اس نے قاری کو ادب سے دور کردیا۔ جیسے افتخار جالب، عادل منصوری، محمد علوی، ظفر اقبال وغیر ہ کی شاعری۔ فکشن کا حال بھی ایسا ہی کچھ تھا۔ تفصیلات سے بچتے ہوئے ہم ہندی ادب کی اسی طرح کی صورت حال کی طرف آتے ہیںکہ 1950کے آس پاس ہندی شاعری بھی دیو مالائی استعارات، دور ازفہم علامات اور سنسکرت آمیز زبان و بیان کی وجہ سے عام قاری کی سمجھ سے بالا تر ہو گئی تھی۔ نرالا نے ’مکت چھند‘ کے نام پر ہندی شاعری کو بحر اور وزن کی قید سے بھی آزاد کردیا۔ ثقیل زبان اور نثری اسلوب نے ہندی شاعری کو بے رس بنا دیا تھا۔ مگر اردو غزل کی سخت جانی نے اپنی نغمگی ،سلاست اور موسیقیت کی وجہ سے عوام و خواص کے دلوں پر بہ ہر حال راج کرنا شروع کردیا۔ فلموں کی غزلوں کے علاوہ غزل گائیگی کی محفلوں نے اسے قبول عام بخشا۔  1960 کے آس پاس ہندی شاعری کی جو صورت ِ حال تھی اس کے بارے میں خود دشینت کمار کہتے ہیں:

’’میں برابر محسوس کرتا رہا ہوں کہ جدیدیت کا یہ نیا اور مصنوعی لہجہ شاعری کو برابر قارئین سے دور کرتا گیا ہے۔ شاعری اور قاری کے بیچ اتنا فاصلہ کبھی  نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ شاعری لمحہ لمحہ اپنی پہچان اور شاعر اپنی شخصیت کھوتا گیا ہے۔  ایسا لگتا گویا دو درجن      شاعر ایک ہی انداز ایک سی لفظیات میں ایک ہی کویتا لکھ رہے ہیں۔ اس شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کررہی ہے۔ میری سمجھ میں ایسا تصور محض خوش فہمی ہے اور یہ دلیل کھوٹی ہے۔ جو شاعری لوگوں تک پہنچتی نہیں، اُن کے گلے نہیں اترتی وہ کسی بھی انقلاب کا سبب کیسے ہو سکتی ہے۔ پچھلی پیڑھی کے شاعروں کے بر عکس آج کی ان کویتائوں میں یہ طے کرپانا بھی مشکل ہے کہ یہ کس کی کویتا ہے اور     یہ کویتا ہے بھی کہ نہیں۔ اسی لیے میں نے کویتا کی یکسانیت یا پھر جدید کویتا کے اُلجھائو اور سپاٹ بیانی سے اُکتا کر اُردو کی اس پرانی اور آزمودہ صنف (غزل) میں پناہ لی ہے۔‘‘

(میری غزلیں: دشینت کمارنمبر، ساریکا، مئی 1976)

(بحوالہ ہندی غزل تاریخ و تنقید:ڈاکٹر انیس السناء بیگم، 2014، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی 6 )

دشینت کی زد میں کھوکھلے سماج کے سفید پوش White Collar لوگ آتے ہیں :

کھڑے ہوئے تھے الائو کی آنچ لینے کو

سب اپنی اپنی ہتھیلی جلا کے بیٹھ گئے

دکان دار تو میلے میں لٹ گئے لیکن

تماش بین دکانیں لگا کے بیٹھ گئے

لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو

شریف لوگ اٹھے دور جاکے بیٹھ گئے

دشینت کی زبان وہی ہے جو فراق گورکھپوری ،جگر مرادآبادی، نریش کمار شاد ،بانی بولتے تھے۔صاف سیدھی دل میں اترجانے والی زبان ۔چند شعر دیکھیے        ؎

حالاتِ جسم ،صورت ِ جاں اور بھی خراب

چاروں طرف خراب یہاں اور بھی خراب

روشن ہوئے چراغ تو آنکھیں نہیں رہیں

اندھوں کو روشنی کا گماں اور بھی خراب

دشینت کمار کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو محسوس کرتے ہیں ببانگ ِ دہل کہتے ہیں۔دل میں کچھ زبان پر کچھ والا معاملہ ان کے پاس نہیں ہے۔ مردانہ لہجے میں کہہ گزر تے ہیں       ؎

ہمت سے سچ کہو تو بُرامانتے ہیں لوگ

روروکے بات کہنے کی عادت نہیں رہی

کچھ دوستوں سے ویسے مراسم نہیں رہے

کچھ د شمنوں سے ویسی عداوت نہیں رہی

ہم نے تمام عمر اکیلے سفر کیا

ہم پرکسی خدا کی عنایت نہیں رہی

1950 سے 1975 کا ایسا دور تھا جس میں بیشتر ادیب و شاعر یا تو مادّہ پرست تھے یا مادہ پرست۔ اس میں بادہ پرستی بھی عیب نہیں سمجھی جاتی تھی۔دشینت بھی اسی دور کے شاعر تھے۔ وہ مانیں نہ مانیں مگر اُن پر خدا کی بڑی عنایتیں رہیں کیونکہ ان کی تحریر یں ضائع نہیں ہوئیں بلکہ کتابی صورت اختیار کرتی گئیں۔

’سوریہ کا سواگت‘ دراصل دشینت کا ادبی سواگت ہے۔

’آواز وں کے گھیرے‘میں دشینت کی آواز الگ پہچانی گئی۔

’سائے میں دھوپ‘بن کر دشینت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی صورت بے نام و نشاں ہونے والا نہیں ہے۔

’چھوٹے چھوٹے سوال‘ داغ کر دشینت نے لاجواب کردیا۔

’آنگن میں اک ورش‘ لگا کردشینت نے دھوپ چھائوں اور موسموں کو محسوس کیا اور کروایا۔

’جلتے ہوئے وَن کابسنت‘ میں دشینت نے رُتوں کی سفاکی دکھائی ہے۔

’ایک کنٹھ وِش پائی‘ میں آکاش وانی کے لیے لکھے ہوئے ڈراموں کے ذریعے زہراب و شہداب (سوم رس) کا فرق دکھایا۔

ان کا رناموں کے علاوہ اُسی خدا کی عنایت سے دشینت نے بعض دل چسپ کہانیاں بھی لکھیں جو مختلف رسائل میں چھپتی رہیں۔ وہ کہتے ہیں        ؎

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں

میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہیے

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے

 

نظر نواز نظارہ بدل نہ جائے کہیں

ذرا سی بات ہے منہ سے نکل نہ جائے کہیں

چلے ہوا تو کواڑوں کو بند کرلینا

یہ گرم راکھ شراروں میں ڈھل نہ جائے کہیں

تمام رات ترے مے کدے میں مے پی ہے

تما م عمر نشے میں نکل نہ جائے کہیں

یوں مجھ کو خود پہ بہت اعتماد ہے لیکن

یہ برف ،آنچ کے آگے پگھل نہ جائے کہیں

شمس العلما مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کی مسدس مدو جزر اسلام، علامہ اقبال کا نیا شوالہ اور شکوہ و جواب ِ شکوہ کی گونج بھی دشینت کمار کے شعروں میں سنائی دیتی ہے         ؎

غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ

پُران و اُپنشد کھولے ہوئے ہیں

مزاروں سے دعائیں مانگتے ہیں

عقیدے کس قدر پولے ہوئے ہیں

حوصلہ مند دشینت کی لغت میں بھی ’ناممکن‘ لفظ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ حوصلہ بڑھاتا ہے کہ           ؎

رہنمائوں کی ادائوں پہ فدا ہے دنیا

اِس بہکتی ہوئی دنیا کو سنبھالو یارو

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہوسکتا

ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

یہاں طبیعت کا لفظ کس سلیقے سے عوامی لہجے میں برتا گیا ہے۔ یہی دشینت کا کمال ہے۔ذرا حسن ِ معذرت کی داد تو دیجیے         ؎

آپ کے قالین دیکھیں گے کسی دن

اس سمے تو پائوں کیچڑ میں سنے ہیں

دشینت کمار نہ لکھنؤ کا ہے نہ دہلی کا مگر اہلِ زبان اس کی زبان کی داد دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ۔خالص زبان کا شعر دیکھیے: وہ کہتا ہے          ؎

جس نے نظر اٹھائی وہی شخص گم ہوا

اُس جسم کے طلسم کی بندش تو دیکھیے

سفاکانہ سچائی کا بے با کانہ اظہار تو دیکھیے:

اس سرے سے اُس سرے تک سب شریک جرم ہیں

آدمی یا تو ضمانت پر رِہا ہے یا فرار

دشینت کے ایسے اشعار میں زبان کی چاشنی ہی نہیںسماج کی کڑوی سچائی بھی پوشیدہ ہے۔

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا

میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا

یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں

مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھیرا ہوا ہوگا

یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں

خدا جانے یہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا

اتنی اچھی زبان بولنے والا دشینت کیا اردو کے دوچار الفاظ صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں باندھ سکتا تھا مگر اس نے عمداً بعض الفاظ ’ہند یاکر‘ باندھے جیسے وہ عام طور پر بولے جاتے ہیں           ؎

اس شہَر میں اب کوئی بارات ہو یا واردات

اب کسی بھی بات پر کھلتی نہیں ہیں کھڑکیاں

ایک بازو اکھڑ گیا جب سے

اور زیادہ وزَن اٹھاتا ہوں

بھوک ہو تو صبر کر روٹی نہیں تو کیا ہوا

آج کل دلّی میں ہے زیر بحَث یہ مدّعا

شہر،وزن اور بحث کو متحرک کرکے دشینت کمار نے دراصل عام بول چال کی پابندی کی ہے۔’مدّعا‘ کا لفظ بالکل صحیح صورت میں Issueکے معنی میں اس نے باندھا ہے حالاں کہ ہندی والے اسے مُدّا بولتے ہیں۔ بمعنیٰ نکتہ Point۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس قسم کی چھوٹ شاعر کو ملنی چاہیے مگر صوتی قافیے کے نام پر اردو کے شاعر بھی تو ہنگامہ کررہے ہیں بقول رئوف خیر           ؎

بظاہر استفادہ ہوگیا ہے

حقیقت میں تو سرقہ ہوگیا ہے

ترے آتے ہی مطلع ہوگیا تھا

ترے جاتے ہی مقطع ہو گیا ہے

شہر، وزن،بحث ،فصل و غیرہ الفاظ کو’ ہند یا لینے ‘کے باوجود دشینت کمار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے کبھی بے بحر شعر نہیں کہا ورنہ ہندی کے بیشتر شاعروں کے پاس بحر کا تصور ہی نہیں ہے۔ دشینت کہتے ہیں        ؎

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں

میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

میں کسی پُل سا تھر تھراتا ہوں

بحر چھوٹی ہو کہ بڑی دشینت کمار نے اس میں بے پناہ شعر نکالے ہیں جیسے          ؎

ایک عادت سی بن گئی ہے تو

اور عادت کبھی نہیں جاتی

کیسے منظر سامنے آنے لگے ہیں

گاتے گاتے لوگ چلانے لگے ہیں

اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو

یہ کنول کے پھول کمھلانے لگے ہیں

وہ صلیبوں کے قریب آئے تو ہم کو

قاعدے قانون سمجھانے لگے ہیں

قبرستانوں کی پلاٹنگ کرکے بیچ کھانے والوں پر دشینت کمار کا انوکھا طنز ملاحظہ فرمائیے       ؎

ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے

جس میں تہہ خانوں سے تاخانے لگے ہیں

کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لیے

کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لیے

یہاں درختوں کے سائے میں دھوپ لگتی ہے

چلو یہاں سے چلیں اور عمر بھر کے لیے

دشینت کمار نے صرف غزلوں ہی سے شہرت ضرور پائی ہے مگر اس نے کہانیاں بھی لکھیں، ڈرامے بھی لکھے۔ ہر چند وہ بنیادی طور پر ایک باغی قلم کار شمار ہوتا ہے مگر اس کی ایک رومانی نظم دیکھیے:

رات کے گھنے کالے سمے میں

میری ہتھیلی پر

تم نے بنایا جو سورج

مہندی سے

کہیں صبح تک رچے گا

لال ہوگا

یکم ستمبر 1933 کو بجنور کے راج پور گائوں میں وہ پیدا ہوا۔ مراد آباد سے گریجویشن کی۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہا مجاز، اختر شیرانی ،نریش کمار شاد کے نقش قدم پر چلتا رہا۔ 29/30دسمبر 1975ء کی رات پچھلے پہر سینے میں شدید دُکھن کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی سے کہا:

’’بس بیٹے ۔لگتا ہے۔ہم تو چل دیے‘‘۔ اور سدا کے لیے خاموش ہوگیا۔‘‘

 اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مشہور قلم کار کملیشور نے اپنے رسالے ’ہنس ‘ کا دشینت کمار نمبر نکالا۔ ساہتیہ اکادمی دہلی نے مونو گراف لکھوایا جس کے لکھنے والے ہندی کے مشہور قلم کار وجے بہادر سنگھ ہیں۔بے ثباتیِ حیات کے تعلق سے دشینت کمار چوکنا کرتے ہیں         ؎

تمھارے پائوں کے نیچے کوئی زمین نہیں

کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمھیں یقین نہیں

 

Dr. Raoof Khair

Moti Mahal, Golconda

Hyderabad - 500008 (Telangana)

Cell : 9440945645

Email : raoofkhair@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...