26/6/24

تہذیبی حقائق اور نسلیاتی مطالعہ، مضمون نگار: محمد آفتاب عالم

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی ہمیشہ ہی پیچیدہ اور متحرک رہی ہے،اس کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ان پیچیدہ حقائق کو سمجھنا مشکل ہونے کے ساتھ ہمیشہ سوالیہ نشان کے گھیرے میں رہا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زندگی کی مکمل تفہیم ایک نا قابل تکمیل خواب کی طرح ہے۔ انسان کے جسم کو انفرادی طور پر سمجھنے کے لیے جسم، دماغ اور روح کے مختلف فلسفے اورسو سے زائد شاخیں موجود ہیں۔ مزید انسانی ذہن ( تدبیری ڈھانچہ، تجربات اور رویے) اور مجموعی طور پر انسان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے انسان کے جسم، دماغ اور روح کے ربط کو جوڑ کر بھی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مقولہ مشہور ہے کہ ’ انسان ایک سماجی مخلوق ہے‘، ’انسان کی سماجی زندگی پیچیدہ اور متحرک فطرت کی ہے‘، ’معاشرہ سماجی رشتوں کا ایک جال ہے‘وغیرہ سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو زندہ رہنے اور اپنی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سماج میں زندگی گزارنا اور سماجی تعامل بنائے رکھنا بہت اہم ہے۔سماجی حقیقت کو سمجھنے کے لیے مختلف طریقے موجود ہیں جسے ’میتھڈولوجیکل ڈومین‘ کہا جاتا ہے جس کا استعمال سماجی حقائق کو سمجھنے میں کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر میتھڈولوجیکل ڈومین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک مقداری تحقیق جس سے سماج کا عددی تفہیم ممکن بنا جاتا ہے اور دوسرا معیاری تحقیق جس کے ذریعے غیر عددی تفہیم کو ممکن بنا یا جاتا ہے مگر دونوں ڈومینس کی اہمیت کو یکساں مانا جاتا ہے جو ایک دوسرے کی تفہیم یا نتائج کی تکمیل کرتے ہیں۔یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ کسی بھی طرح کی ریسرچ میں دو مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا تجرباتی مرحلہ اور دوسرا تشریحی مرحلہ۔جس میں ایک ڈیٹا اکٹھا کرنے سے متعلق ہے اور دوسرا نتائج  یا نتائج کی اہمیت سے تعلق رکھتا ہے۔ مقداری  یا معیاری نظریات یا تکنیکس کا استعمال تحقیق کے موضوع یا مقاصد پر منحصر ہے۔ مقداری تحقیق میں بنیادی طور پر سروے کو ایک طریقے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں جواب دہندگان کی ایک بڑی تعداد پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جنہیں نمونہ نگاری کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے اور ان سے تفتیش کاروں کے ذریعے منظم طریقے سے انٹرویو کیا جاتا ہے یا ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے جوابات دیے گئے سوالنامے پر لکھ کر بھیج دیں۔اس کے بعد جوابات کو عددی طور پر کوڈ کیا جاتا ہے اور شماریاتی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے تجزیہ کیا جاتا ہے۔لیکن اگر ریسرچر کا مقصد اس حقیقت کو بیان کرنے کا ہے جیسا کہ جواب دہندگان روزمرہ کی زندگی میں تجربہ کرتے ہیں (نا قابل پیمائش حقیقت) مثال کے طور پر رویے، ثقافتی خصائص، برتاؤ یا طرز عمل وغیرہ۔بنیادی طور پر سماجیات اور سماجی بشریات میدانوں میں زیادہ تر مطالعات معاشرے یا کمیونٹی کے مختلف گروپس یا اداروں، واقعات اور افراد کی زندگی کی تاریخ کے تفصیلی بیانات پیش کرتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ دونوں (مقداری اور معیاری) تحقیقی نظریات کو ایک دوسرے کے مخالف دیکھنے کے بجائے انھیں مربوط کیا جا سکتا ہے اور تحقیق کے نتائج کو گہرا اور با معنی بنانے کے لیے ایک دوسرے کے نتائج کی تکمیل کی جاتی ہے۔اس کے تعلق سے میرڈل (1944) نے کہا ہے کہ ’’ایک بہتر کمیونٹی اسٹڈی اس کمیونٹی کے افراد اور خاندانوں سے متعلق سماجی اور اقتصادی ڈیٹا کے تجزیے کی شروعات شماریاتی یا مقداری تجزیے سے ہونی چاہیے اور پھر انفرادی و سماجی رویے، ثقافتی خصائص اور طرزعمل سے متعلق کم پیمائشی اعداد و شمار جن سے سماجی سطح بندی کا اظہار کیا جاتا ہے اور جن میں کمیونٹی کے مختلف گروپس کے اراکین کی جانب سے سماجی حیثیت کا اظہار کیا جانا چاہیے اور دونوں کے نتائج کو شماریاتی علم کے فریم ورک میں ضم کیا جانا چاہیے‘‘۔  اس نقطۂ نظر کے بر عکس بھی بے شمار بحثیں موجود ہیں جو ان دونوں (مقداری اور معیاری) نظریات کو الگ الگ استعمال کی وکالت کرتے ہیں۔

سماجی حقیقت سے مراد انسانی معاشرے کی حقیقت ہے جو کثیر جہتی، متعدد درجے، مختلف رنگ و روپ کے ساتھ پیچیدہ اور گہری ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج میں مختلف علامتیں (جیسے کھانا پینا، کپڑے، رسومات، فنون، عقائد اور اقدار وغیرہ)، چھپی ہوتی ہیں۔ تیش سبروال کے نزدیک حقیقت کی کئی جہتیں ہیں: طبعی حقیقت اور ثقافتی حقیقت۔ مثال کے طور پر کسی شخص کی موت کو مختلف سماج میں مختلف طریقے سے تصور کیاجاتا ہے۔کسی معاشرے میں خاموش اور غم کا ماحول ہوتا ہے تو کسی میں اونچی آواز میں قرآن خوانی کا موقع ہوتا ہے۔ لہٰذا ثقافتیں طبعی حقیقت کی تشریح یا تعبیر کرتی ہیں اور ایک مجموعی معنی دیتی ہیں۔ اسی طرح  ہرایک کمیونٹی میں مسائل بھی مختلف نوعیت اور پیمانے کے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی بھی کمیونٹی کے فزیکل لوکیشن (دیہی، شہری، قبائلی)کی وجہ سے مسائل کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک کمیونٹی کو بنیادی سہولیات (کھانا، پانی، صفائی، تعلیم، بجلی وغیرہ) کی کمی ہو سکتی ہے اور دوسری کمیونٹی کو جرائم اور انحراف کے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اوراسی طرح تیسری کمیونٹی کو جدید وسائل تک رسائی کی کمی ہو سکتی ہے۔ ان مسائل کی وجوہات بھی مختلف ہو سکتی ہیں۔اس کی وجہ سماجی اداروں میں عدم فعالیت، حکومت کی بے حسی، ثقافتی طور طریقے (جیسے ستی پرتھا، لڑکیوں کو شکم مادر ہی میں مار دینا، دیو داسی پرتھا وغیرہ)، ذات پات، نسل پرستی، عمر پرستی، ہیٹرو سیکسزم، معذوری اور موسمی حالات وغیرہ ہو سکتی ہے۔ اسی طریقے سے کسی بھی سماج کی ثقافتی حقیقت بھی مختلف ہو سکتی ہے جو بہت سی ذیلی حقیقتوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے، جس میں اس کمیونٹی کا نام، جغرافیائی لوکیشن، تاریخ کے آثار، سماجی و ثقافتی طور پر کمیونٹی گروپس، انتظامی اور حکمرانی کا ڈھانچہ شامل ہے۔مزید کسی بھی کمیونٹی کا اپنا ایک سوشل کمپوزیشن بھی ہوتا ہے جس میں مکانوں یا گھروں کی تعداد، مرد و خواتین کی تعداد، بچوں کی تعداد، نو عمر و نو جوانوں اور بزرگوں کی تعداد، مستقل یا نقل مکانی کی گئی آبادی، تعلیمی پروفائل (خواندہ، نا خواندہ، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ، اہل اور غیر اہل وغیرہ)آمدنی کا پروفائل (کم، درمیان اوراعلیٰ آمدنی)، پیشے کا پروفائل (ہنر، نیم ہنر اور ہنر مند پیشہ) شامل ہے۔ ساتھ ہی ہر ایک کمیونٹی کی اپنی رسومات، معمولات، تقریبات اور تقاریب ہوتی ہیں جن کا اظہار روزمرہ کی زندگی میں بعض مواقع پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کمیونٹی کے اپنے اندرونی وسائل(قدرتی طور پر یا دستیاب کیے گئے) بھی ہوتا ہے جسے کمیونٹی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔اس طرح یہ سبھی عناصر مل کر ایک کمیونٹی یا سماج کی تشکیل کرتے ہیں جن کی اپنی منفرد پہچان ہوتی ہے۔ ایسی حقیقتوں اور سماجی تانے بانے کو سمجھنے، وجوہات معلوم کرنے اور دلیل پیش کرنے کے لیے تحقیق کے مختلف طریقے، ٹولز اور تکنیکس کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا انتخاب کسی حقیقت کو سمجھنے، رجحانات سے واقفیت حاصل کرنے، نئی بصیرت معلوم کرنے اور حقیقتوں کے درمیان رشتوں کو سمجھنے کے مقصد کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔

لفظ ایتھنوگرافی یا انتھروپو گرافی (ابتدائی دور میں استعمال کیا جانے والا لفظ) دو یونانی الفاظ ’ایتھنوس‘ جس کا مطلب ’لوک یا لوگ‘ہے اور ’گرافو‘ کا مطلب’لکھنا‘ ہے جس کا لفظی معنیٰ ’لوگوں کے بارے میں لکھنا‘ہے۔ مزید لفظی طور پر ایتھنوگرافی کا مطلب ’پوٹریٹ آف پیوپل‘ ہے۔ ابتدا میں اسے بشریات کی ایک شاخ کے طور پر سمجھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے  ساتھ یہ سماجی علوم جیسے ثقافتی، سماجیات، معاشیات، تعلیم، سوشل ورک، نظم و نسق اور نفسیات وغیرہ میں مقبول ہوتا گیا۔ اسکالرس نے تاریخی درجہ بندی کرتے ہوئے، لیوس ہنری مورگن سے پہلے جو بھی کوششیں کی گئی تھیں انہیں ’پری۔ایتھنو لوجی‘مانا جس میں ’شدت یا ریگر‘کی کمی تھی اور شوقیہ طور پر کیا جاتا تھا۔میٹکاف (2004) نے ذکر کیا ہے۔ برینسلو ملینوسکی کو  ایتھنوگرافی کی دنیا میں اہم ترین سمجھا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے جدید سائنسی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ’پارٹیسی پینٹ آبزرویشن‘کا استعمال کیا تھا۔ لیکن  چیڈی اگوو (2017) نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایتھنو گرافی کی تاریخ کے بارے میں جو کہا گیا ہے جس میں مورگن کو ایتھنو گرافی کا بانی بتایا گیا ہے اور مالینوسکی کو منظم طور پر پارٹیسی پینٹ آبزرویشن کی شروعات کرنے والا تسلیم کیا جاتا ہے۔ چیڈی کے مطابق ہیروڈوٹس نے پہلی بار ایتھنوگرافی لکھی جو موجودہ دور کی ایتھنوگرافی سے ملتا جلتا ہے۔ اوک پوکو اور ایزے (2005 اور 2011) نے بیان کیا ہے کہ ماضی میں بہت سے مسافر، تاجر،مشنری اور سرکاری افسران نے لوگوں سے غیر رسمی پوچھ گچھ کی اور ان کے تجربات کے بارے میں لکھا ہے اور اس طرح کی تمام تحریروں کو ’پری ایتھنولوجی‘کا نام دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر رسمی اور شوقیہ تھیں۔ ہیروڈوٹس نے اپنی کتاب ’ہسٹریز‘ لکھی۔ ہیروڈوٹس سفر کے دوران لوگوں سے بات کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، ان کے ساتھ رہتے اور وقت گزارتے تھے اور ان کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہیروڈوٹس جس طور طریقوں (ٹریپ انٹرویوز، معلومات کی کروس چیکنگ، تحریری یا زبانی شواہد، اوبزرورس وغیرہ) کا ذکر کرتے ہیں جو موجودہ ایتھنوگرافک اسٹڈیز سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔ لافیتاو، جو ایک فرانسیسی مشنری تھا، ایروکوئس کی زندگی پر ریسرچ کے لیے چھ سال تک ان لوگوں کے بیچ رہا، ان کی زبان اور کلچر سیکھی اور اس بنیاد پر ایک کتا ب لکھی جو 1724میں شائع ہوئی۔ کننگھم (1997) ایروکوئس پر کی گئی تحقیق کو   پہلی جدید فیلڈ ایتھنوگرافی کا درجہ دیتے ہیں۔مزید کننگھم امیریکہ کے ایف۔ایچ۔ کشنگ کو پہلا پارٹی سپنٹ آبزرور مانتے ہیں لیکن عام طور پر ماہرین کے درمیان ٹروبرینڈ آئی لینڈر پر کی گئی مالینوسکی کے ریسرچ کو اس سے منسلک کیا جاتا ہے۔

 کشنگ نے امیریکن انڈین گروپ پر ایک مطالعہ کیا اور ایک اہم کتاب شائع ہوئی،جیمس جارج فریزر نے بھی ایک ایتھنو گرافک اسٹڈی کی ہے اور ایک معلوماتی کتاب بھی شائع ہوئی ہے، لیکن میلونسکی کی کتاب ’دی آرگونٹس آف دی ویسٹرن پیسیفک‘کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔سماجی علوم کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے محققین اور اسکالرز نے ایتھنوگرافی یا ایتھنوگرافک اسٹڈی کے اصطلاح کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے لیکن ’محققین کی ذمے داریوں‘ پر خاص زور دیا جاتا ہے کیونکہ ’پارٹی سیپنٹ آبزرویشن کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے میں سب سے اہم رول محقق کا ہوتا ہے‘۔

ایتھنوگرافی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں محقق ایک کمیونٹی پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور فیلڈ آبزرویشن کے ذریعے سماجی و ثقافتی حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ والکوٹ نے اسے ایک سائنس سے تعبیر کیا ہے جس کے ذریعے تھیم ایٹک طور پر سماجی و ثقافتی حقیقت بیان کیا جاتا ہے۔ گیٹز کے مطابق یہ ایک کوشش ہے جس میں محقق سماج کی فطری حقیقت اور گروپس کے درمیان انٹر ایکشن کی تشریح اور مشاہدہ کرتا ہے۔ ایرکسن روایتی طور پر ایتھنوگرافی کو پوری کمیونٹی کے کلچر کی وضاحت کرنے کے طریقہ کار کے طور پر مانتے ہیں،مگر موجودہ دور میں یہ لوگوں کے کسی بھی گروپس کے درمیان سماجی انٹر ایکشن کی وضاحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکول اور کلاس رومس اور دیگر تعلیمی ترتیبات کو سمجھنے میں ایتھنوگرافک اسٹڈی کی جاتی ہے، اگرچہ دائرہ کار اور ترتیب میں فرق کرنے کے لیے مخصوص موافقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایمرزن،اگر اور ڈیوس نے ایتھنوگرافی کو فیلڈ ورک پر مبنی تحقیقی عمل کے طور پر بیان کیا ہے جس میں مختلف قسم کی تحقیقی تکنیکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس طرح کے ریسرچ میں ایتھنوگرافر طویل عرصے تک فیلڈ کے تجربات سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے ا ور عام طور پر وضاحتی تفصیلات پر زور دیتا ہے۔ مالینوسکی کا کہنا ہے کہ ایتھنوگرافک اسٹڈی ہمیں دنیا کو ’نیٹیو پوائنٹ آف ویو‘ یعنی آبائی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ کلیم کا مانناہے کہ ایتھنوگرافی وضاحتی اہداف کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے بنیادی طور پر ’فیلڈورک کنسیپٹ‘کہا جاتا ہے جس کے ذریعے فیلڈ میں فطری طور پر ہونے والی ترتیبات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایتھنوگرافک اسٹڈی میں استعمال ہونے والے طریقہ کار ’لوگوں سے سیکھنے‘ کے خیال کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں محقق کی ذاتی شمولیت ایک بنیادی شرط ہے۔ اس میں پارٹی سیپنٹ ابزرویشن (شرکا کا مشاہدہ)، انڈیپتھ۔ انٹرویوز (تفصیلی انٹرویوز)  اور آرٹی فیکٹس (دستاویز یا ریکارڈس) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ پارٹی سیپنٹ ابزرویشن ایڈورڈ لنڈمین (1924) سے منسلک ہے جس کا مطلب ’فیلڈ میں محقق اور زیر تحقیق کمیونٹی کے لوگوں کے درمیان شدید تعامل ہے‘۔ اس کے ذریعے کمیونٹی کی روزمرہ کی زندگی کے طرز عمل کی ٹھوس تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گولڈ (1958) کے لیے یہ ایک ’مکمل  مبصر‘ ہے اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے دوران اس کی ’مکمل شمولیت ‘کی ضرورت ہوتی ہے جسے ایتھنوگرافک ڈیٹا کا بنیادی طریقۂ کار سمجھا جاتا ہے۔انٹرویو کا استعمال لوگوں کے لفظوں میں وضاحتی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ لوگ کس طرح دنیاکی ترجمانی کرتے ہیں۔اس طرح کی تحقیق میں انٹرویوز بنیادی طور پر ’اوپن اینڈڈ‘، ’غیر ساختہ‘ اور ’غیر ہدایتی‘ ہوتے ہیں۔ اس میں منتخب یا فیلڈورک کے دوران پہچان کیے گئے ‘کی انفارمینٹس’سے سوالاتی گائیڈکا استعمال کرتے ہوئے متعدد بار اچھی طرح سے انٹرویو کیا جاتاہے جس میں روزمرہ کے واقعات اور مخصوص مواقع سے متعلق بہت سے سوالات ہوتے ہیں۔آرٹی فیکٹس یا دستاویز جنھیں ہوڈر (1998) نے ’میوٹ اویڈینس‘ یعنی خاموش ثبوت کہا ہے۔ اس میں ذاتی ڈائریاں، سرکاری ریکارڈس، میمو، لوگوں یا مخصوص لوکوں کے درمیان گفتگو کی ریکارڈنگس وغیرہ شامل ہیں۔

نسلیاتی مطالعے  میں ایتھنوگرافی کے عمل کو مطالعے کے نتیجے (پروڈکٹ) اور مطالعے کے سفر (پروسس) دونوں سمجھا جاتا ہے۔ ہر ایک ایتھنوگرافک اسٹڈی میں تحقیق کا عمل، مراحل، مواد،محقق کے تجربے، اس کے احساسات اور عزم مختلف ہوتا ہے۔  عالم (2021) کا یہ کہنا ہے کہ تحقیق کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب ’کسی کو تحقیق کرنے کا خیال آتا ہے‘۔ایتھنوگرافی کے پروسس میں تمام چھوٹی سے چھوٹی باریکی حقیقت کو بھی نوٹ کیا جاتا ہے۔ایتھنوگرافک اسٹڈی کے نتائج کی اہمیت کا انحصار اس سائنسی پروسس پر ہوتا ہے جس میں محقق اس بات پر غور کرتا ہے کہ ہر اسٹیپ اپنے آپ میں ایک پروسس ہے۔ عام طور پر ایتھنوگرافی میں پروسس کی شروعات ڈیٹا اکٹھا کرنے سے ہوتی ہے لیکن اس کے پہلے کے مراحل اتنے ہی لازمی اور متعلقہ ہیں کیونکہ اس مرحلے میں بھی واقعات اورجزیات شامل ہوتی ہیں اور اسے بھی ایتھنوگرافک پروسس میں شامل کیا جانا  چاہیے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے پہلے کے مراحل یا فیلڈورک کے عمل کو مزید مختلف مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جیسے سائٹ یا فیلڈ کا انتخاب، تحقیقی فیلڈ میں داخل ہونے کی تیاری، فیلڈ میں داخل ہونا،کمیونٹی کے مختلف ممبران تک رسائی حاصل کرنا، ڈیٹا اکٹھا کرنا اور فیلڈ سے رخصت  ہونا شامل ہے۔ یہ سبھی ذیلی مراحل اپنے آپ میں ایک مکمل پروسس ہیں۔

انسان اور معاشرے کے درمیان ایک منفرد اور گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں: انفرادی اور سماجی۔کسی سماج یا معاشرے میں موجود مختلف ادارے، وسائل کی موجودگی، معاشرے کو درپیش مسائل کی نوعیت، علاقائی پہلو، سماجی، ثقافت،مذہب اور ذات پات کا نظام یہ سب مل کر معاشرتی زندگی کو اور بھی پیچیدہ بناتے ہیں اور ان پیچیدگیوں کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ان سماجی حقیقت جو کثیرالجہتی، ہمہ جہتی،متنوع اور گہری ہوتی ہے جسے سمجھنے کے لیے  ایتھنوگرافی اپنی منفرد خصوصیات اور طریقہ کار کی وجہ سے ممکن بناتا ہے۔ اس طریقہ کار کی کلیدی خصوصیت یہ ہے کہ جواب دہند گان یا خصوصی جواب دہندگان کی جانب سے غیر سیاسی جوابات ملنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جس کی تصدیق کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔

 

Dr. Md. Aftab Alam

Asst Prof. Dept of Social Work

Maulana Azad National Urdu University

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 9391478880

Email.: aftabmsw@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...