26/6/24

راہی معصوم رضا کا فلمی سفرِ مضمون نگار: جگدمبا دوبے

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


کہا جاتا ہے کہ ادب کی دنیا سے آنے والے لوگ فلموں میں کامیاب نہیں ہو پاتے لیکن راہی معصوم رضا نے اس غلط فہمی کو دور کر دیا۔انھوں نے عام کامرشیل فلموں میں رہ کر بھی بہترین کام کیا اور اپنا ایک مقام حاصل کیا۔ایسا بھی نہیں تھا کہ فلموں میں لکھنے کی وجہ سے ان کی ادبی تحریر پیچھے رہ گئی تھی۔راہی نے دونوں طرف اپنی سرگرمی برقرار رکھی تھی۔تقسیم ہند کے بعد ہندی افسانوی ادب میں میلا آنچل، آدھا گاوں،تمس اور راگ درباری کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔جب کہ ان سبھی ناول کا موضوع الگ الگ ہے پھر بھی ایک ساتھ مل کر ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’آدھا گاؤں‘ کا شمار ہندی میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناول میں کیا جاتا ہے۔ راہی معصوم رضا کا یہ ناول اپنے موضوع، مواد اور انسانی حساسیت کی پیشکش کی وجہ سے ہی نہیںبلکہ اپنی زبان کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔مشرقی اترپردیش کے بھوجپوری علاقے کی کہانی ہونے کے باوجود یہ علاقائی ناول نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہونے اور فحاشی کے الزامات اور اس کے اخراج کی وجہ سے سرخیوں میںضرور آیا تھا لیکن 1966 میں اس کی اشاعت کے بعد سے یہ آج تک ہندی کے مقبول ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ 1995 میں اس کا انگریزی ترجمہ  The fuding families of village Gangoliکے نام سے آیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اس کا نام A village Dividedکر دیا گیا۔

راہی معصوم رضا کے والد جناب  بشیر حسن عابدی غازی پور ضلع کچہری کے مشہور وکیل  تھے۔اس لیے پورا خاندان وہیں رہا اور وہیں پر تعلیم حاصل کی،لیکن محرم اور عید کے دوران عابدی خاندان کا تعلق گنگولی سے رہا کرتا تھا۔غازی پور میں ایک مشہور وکیل کے طور پر برسوں تک کام کرنے والے جناب بشیر حسن عابدی کی وجہ سے خاندان میں خوشحالی تھی اور کسی طرح کی کوئی کمی نہیں تھی۔اس لیے راہی معصوم رضا کا بچپن بغیر کسی پریشانی کے گزرا۔خاندان بھی مکمل تھا۔گھر میں بڑے بوڑھوں کی سرپرستی حاصل تھی۔گھوڑے کی سواری،کرکٹ کھیلنا اور اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حویلی کے لان میں پتنگ بازی،کھاتے پیتے گھرانے کے بچوں کی طرح معصوم رضا کا  بچپن گزرا۔راہی معصوم رضا کے بچپن میں شوخی زیادہ تھی اس لیے گھر کے بڑے بوڑھوں کے ساتھ ساتھ بھائی بہنوں کو بھی اپنی شوخی سے تنگ کیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں سید زہیر احمد زیدی لکھتے ہیںکہ:

’’خاص طور سے چھوٹی بہن افسری بیگم کو راہی معصوم رضا ’سڑی بو‘کہا کرتے تھے کیونکہ ان کے چہرے پربہت زیادہ پھوڑے پھنسی ہوا کرتے تھے۔سڑی بو معصوم سے اکثر پٹ جاتیںاور معصوم پٹائی کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوتے۔‘‘

(اپنیاس کار راہی معصوم رضا: سید زہیر احمد زیدی، ص 4)

ابھی راہی معصوم رضا کی تعلیم بھی اچھے سے شروع نہ ہوئی تھی کہ گھر والوں کو احساس ہوا کہ راہی معصوم رضا لنگڑا کر چل رہے ہیں۔ شروع میں ان کی شوخی سمجھ کر نظر انداز کیا گیالیکن کچھ دنوں بعد حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ٹیسٹ کرایا گیا تو پتہ چلا کہ راہی کو بون ٹی بی کا مرض ہے۔اس ٹی بی کے مرض نے راہی معصوم رضا کی زندگی میں نیا موڑ لا دیا اور مستقبل کے ادبی کیریئر کے پس منظر کے طور پر ایک اہم کردار ادا کیا۔شوخی ٹھہر سی گئی۔  ٹانگوں پر پلاسٹر لگنے کی وجہ سے زندگی میں پیدا ہونے والی خلا میں چنچل پن چھوٹ گیا۔ وہ نہ اب گھوڑے پر سوار ہو سکتے تھے اور نہ ہی حویلی کے لان میں کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ایک چھت سے دوسری چھت تک دوڑنا اور آسمان میں پتنگیں اڑانا خوابوں کا سامان بن گیا۔ان دنوں انہیں اپنی والدہ کی طرف سے جوخصوصی لاڈ پیار ملا اس نے راہی معصوم رضا میں اپنی والدہ سے ایک خاص لگائو پیدا کیا جس کا کمال بعد میں ان کے پورے ادب میں دیکھا جا سکتا ہے۔بیماری کی وجہ سے انھیں فلمیں دیکھنے کا شوق بھی پورا کرنے کا موقع ملا۔دوستوں اور ہم جولیوں کے ساتھ پالکی پر بیٹھ کر فلمیں دیکھنے جاتے تھے۔شاید بیمار بچے کا ذہن فلموں سے بہل جائے شاید اسی لیے خاندان کے بزرگوں نے انھیں فلمیں دیکھنے سے روکنے کے بجائے حوصلہ دیا۔ان کے فلمی کیرئیر کے لیے بچپن میں ان کے فلم دیکھنے کے شوق نے یقیناًکہیں نہ کہیں ایک پس منظر کے طور پر کام کیا ہے۔اگر فلمیں ان کی اداسی اور تنہائی کو دور کرنے میں ناکام رہی ہوتیں تو انھیں اردو رسائل اور اخبارات کی پناہ لینی پڑتی۔علی حسین صاحب جنھیں سب کالو کاکا کہتے تھے خاندان کے گھریلو اور دیگر کاموں کے علاوہ ان کا پسندیدہ کام قصہ سنانا تھا۔کالو کاکا طلسم ہوش ربا سنانے بیٹھ جاتے۔رفتہ رفتہ دوسرے بچے تھک جاتے لیکن راہی معصوم رضا کبھی نہیں تھکتے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے راہی معصوم رضا نے کسی تعلیمی ادارے سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔بیماری کی وجہ سے ٹانگیں پہلے ہی ٹیڑھی ہو چکی تھیں۔ڈاکٹروں نے مسلسل علاج کا مشورہ دیا تھا اس لیے پرائیویٹ امتحانات کے ذریعے رفتہ رفتہ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ راہی معصوم رضا کی شادی کے ساتھ ہی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور تبدیلیوں کا نیا دور شروع ہو گیا۔ ادب کا بیج راہی معصوم رضا کے  ذہن میں اپنی جگہ پہلے ہی بنا چکا تھا لیکن شادی اور اس سے پیدا ہونے والے حالات ان کے نظریاتی عزم کو سمت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان کی شادی اترپردیش، ضلع امبیڈکر نگر کی تحصیل ٹانڈہ میں واقع گاوں کلاپور میں مہربانو سے ہوئی تھی۔ مہربانو کا تعلق ایک روایتی قدامت پسند گھرانے سے تھا،جب کہ راہی معصوم رضا کا گھر مغربی تہذیب سے رابطے میں آنے کی وجہ سے زیادہ تر جدید سوچ کا حامل تھا۔

راہی کے دوستوں نے غازی پور کو بنیاد بنا کر ایک ناول لکھنے کا مشورہ دیا تھا اور راہی کی نظموں میں غازی پوربار باردستک بھی دیتا ہے ،اس لیے انھیں یہ مشورہ بے حد پسند آیااور ’آدھا گاؤں‘ لکھنا شروع کر دیا۔ راہی اس وقت شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں عارضی طور پہ لیکچرر ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر میں شمار ہونے لگے تھے۔ ’چھوٹے آدمی کی بڑی کہانی‘ عنوان سے پرم ویر عبدالحمید کی حیات کے ساتھ ساتھ اردو میں ان کے سات شعری مجموعے شائع ہو چکے تھے جس میں نیا سال، موج گل:موج صبا،رقص مہ،اور ’اجنبی شہر اجنبی راستے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ علی گڑھ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم قائم کی جس کا نام ’سنگم‘ رکھا، جس کے بینر تلے اردو اور ہندی ادب کے تمام پروگرام ہوتے تھے۔ ’آدھا گاؤں‘ سب سے پہلے فارسی رسم الخط میں لکھا گیا تھا بعد میں راہی نے اپنے دوست کنور پال کے ساتھ لمبے بحث مباحثے کے بعد اس کو دیو ناگری میں کیا۔ راہی اردو میں الگ الگ نام سے رومانی ناول لکھتے تھے اور پوری سنجیدگی سے ہندی میں لکھنے کے خواہش مند تھے،ان کی یہ خواہش ’آدھا گاؤں‘ میں پوری ہوئی۔ اسی طرح ان کا ایک دوسرا ناول ’ٹوپی شکلا‘ (1968) بھی پہلے فارسی رسم الخط میں لکھا گیا تھا۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ ترجمہ نہیں تھا بلکہ رسم الخط بدلا گیا تھا۔

فلموں کے جراثیم بچپن سے ہی راہی کے ذہن میں تھے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد وہ تحقیقی کام میں لگ گئے لیکن ان کی ہمہ گیر شخصیت متحرک رہی۔ راہی معصوم رضا ادبی سرگرمیوں کے علاوہ کچھ دنوں تک یونیورسٹی کے تھیٹر اسٹیج سے بھی وابستہ رہے۔ان کی ہدایت کاری میں ’گونگی زندگی‘ نامی ڈرامہ بھی پیش کیا گیا۔راہی کا ڈرامہ ’ایک پیسے کا سوال ہے بابا‘ بھی اس وقت بہت مشہور ہوا تھا۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ان کا رابطہ مشہور اداکار بھارت بھوشن کے بھائی رمیش چندر سے ہوا۔ راہی معصوم رضانے ان کے ساتھ 1963 میں ممبئی کا سفر کیا۔ ان کی تھیٹر کی سرگرمی، رمیش چند کے رابطے اور راہی کی فلموں سے محبت نے پس منظر کے طور پر کام کیا۔ دوسری طرف ان کی ذاتی زندگی کے ہنگاموں نے بھی انھیں فلموں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔

راہی معصوم رضا کی شناخت اردو میں ایک شاعراور ہندی ادب میں خاص طور سے ’آدھا گاؤں‘کے ناول نگار کے طور پر ہوتی ہے،لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔جس طرح ’آدھا گاؤں ‘ صرف آدھے گاوں کی کہانی نہ ہو کرپورے ہندوستان کی کہانی ہے اسی طرح راہی کی مقبولیت شاعر اور  افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ فلمی دنیا میں بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ راہی کے فلمی سفر کا آغازستر کی دہائی میں ہوا تھااور فلمی دنیا میں وہ تقریباًدو دہائی سے زیادہ فعال رہے۔ اس دوران انھوں نے مختلف طرح کی فلمیں لکھیں۔ ان کے دل میں ایک بات صاف تھی کہ وہ فلمی دنیا میں پیشہ ور ادیب کی حیثیت سے آئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے خود کو خاص طرح کی فلموں تک محدود نہیں رکھا۔ستر کی دہائی میں مکل دت کی فلم ’راستے کا پتھر‘لکھی جس میں امیتابھ بچن اورشتروگھن سنہا تھے۔ ان کی تمام فلمیں مارپیٹ اور فارمولے  والی کامرشیل فلمیں تھیں۔اس طرح راہی نے اس طرح کی ٹھیٹھ بمبیا فلمیں لکھنے میں کامیابی حاصل کی وہیں دوسری طرف انھوں نے کچھ سنجیدہ فلمیں لکھیں۔ اس طرح کی فلموں میں ’ملی‘ اور ’جھوٹی‘ شامل ہیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر اور بھی ضروری ہے اور وہ ہے راہی کی شاعری کا۔اسکول اور کالج کے زمانے سے ہی راہی کو شاعری کا شوق تھا۔ان کا ایک شعر اس طرح ہے   ؎

سوچتا تھا کیسے کٹیں گی راتیں پر دیسی کی

 یہ ستارے تو وہی ہیں میرے آنگن والے

اس کے علاوہ راہی معصوم رضاکی کچھ غزلیں بھی دل پہ اثر کرتی رہیں۔مثلاً اشوک کھوسلا کی گائی ہوئی غزل           ؎       

اجنبی شہر کے اجنبی راستے ،میری تنہائی پر مسکراتے رہے

 میں بہت دیر تک ساتھ چلتا رہا،تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

البم ’مسنگ یو‘ میں راہی کی کئی غزلیں شامل ہیں جس میں ان کی بہو پاروتی خان نے آوازدی ہے۔ پاروتی خان ڈاکٹر راہی معصوم رضاکے بیٹے اور مشہور سنیمٹوگرافر ندیم خان کی ہم سفر ہیں۔ عام طور پرشاعری کا شوق رکھنے والے راہی صاحب کو رشی کیش مکھرجی کی فلم ’آلاپ‘ میں گانے لکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس فلم میں ان کا سب سے اچھا گیت تھا           ؎

زندگی کو سنوارنا ہوگا

 دل میں سورج اتارنا ہوگا

 اس گیت کے کچھ حصے غور کرنے لائق ہیں           ؎

 زندگی دھوپ نہیں ،سایۂ دیوار بھی ہے

زندگی دھار نہیں،زندگی دلدار بھی ہے

 زندگی پیار بھی ہے،پیار کا اقرار بھی ہے

زندگی کو ابھارنا ہوگا

 اسی فلم میں راہی معصوم رضا نے ’چاند اکیلا جائے سکھی ری‘ جیسا عمدہ کلاسکل گیت بھی لکھا تھا۔ گیت تو راہی معصوم رضا نے کچھ ہی فلموں میں لکھے لیکن فلمی دنیا میں ان کا اہم کام رہامکالمہ لکھنے کا۔ 1978میں راج کھوسلا نے چندر کانت کاکوڑکر کے ناول پراپنی فلم بنائی ’میں تلسی تیرے آنگن کی‘۔ راہی نے اس فلم کے ڈائیلاگ تحریر کیے اور خوب داد بٹوری۔ اس فلم کے لیے انھیں بہترین مکالمہ نگار کافلم فیئرایوارڈ بھی حاصل ہوا۔ 1980 میں سبھاش گھئی نے اپنی پروڈکشن کمپنی مکتا آرٹس کے نام سے بنائی، جس کی پہلی فلم’قرض‘ تھی جس کے ڈائیلاگ راہی معصوم رضا نے لکھے تھے۔ اسی سال انھوں نے ’ہم پانچ‘جیسی خالص کامرشیل فلم کے ڈائیلاگ بھی لکھے۔ 1981میں فلم ’راکی‘ سے سنجے دت کا فلمی سفر شروع ہوا، اس فلم کے ڈائیلاگ بھی  راہی صاحب نے لکھے۔ 1983 میں سبھاش کی طوفانی فلم آئی تھی ’ڈسکو ڈانسر‘۔ اس نے متھن چکرورتی کو فلمی دنیا کا چمکتا ستارہ بنا دیا تھا۔ اس کی فلم کی کہانی اور ڈائیلاگ دونوں ہی راہی معصوم رضا  نے لکھے تھے۔یہ فلم راہی کے لیے بے حد اہم تھی کیونکہ اس فلم کے سنیمٹوگرافر ان کے اپنے بیٹے ندیم خان تھے۔آگے چل کر ایسا کئی فلموں میں ہوا۔ 1985میں بی آر چوپڑا صاحب کی فلم ’طوائف‘کی کہانی راہی صاحب اور علیم مسرور صاحب نے مل کر لکھی تھی۔

راہی معصوم رضا ہندی ادب کا ایک ایسا نام ہے جو صرف ادبی تحریر تک محدود نہیں ہے۔یوں کہا جائے کہ ان کے ادبی کام کو نثر یا نظم کے کسی خاص فریم ورک میں یا اسے کسی ایک زبان  ہندی یا اردوسے جوڑنا آسان نہیں ہے۔جہاں انھوں نے ہندی میں ناول آدھا گاؤں،ٹوپی شکلا،ہمت جونپوری،اسنتوش کے دن،کٹرہ بی آرزو اور سین 75لکھے وہیں ’محبت کے سوا‘اردو میں بھی ایک ناول لکھا ہے۔ ان کا مشہور مہا کاویہ ’1857‘بھی ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں ہے۔ممبئی جا کر فلم لکھنے کی شروعات کے ساتھ’نیم کا پیڑ‘ اور مشہور مہاکاویہ ’مہابھارت‘ کے مکالمے لکھ کر تاریخ رقم کرنے والے راہی معصوم رضا کی شخصیت کے بارے میں سب کو جاننا چاہیے۔ ’گنگا اور مہادیو‘نظم  یہاں آکر پوری ہوتی ہے۔

اپنی نظم وصیت میں لکھتے ہیں          ؎

مگر شاید وطن سے دورموت آئے بہت ہی دور

اتنی دور موت آئے کہ مجھ کو میری ماں کے پاس لے جانا نہ ممکن ہوتو میری یہ وصیت ہے          ؎

اگر اس شہر میں یا گاوں میں چھوٹی سی اک ندی بھی بہتی ہو

تو مجھ کو اس کی گودی میں سلا کر اس سے کہہ دینا

کہ وہ گنگا کا بیٹا آج سے تیرے حوالے ہے

وہ ندی بھی میری ماں ،میری گنگا کی طرح ،میرے بدن کا زہر پی لے گی                             (نظم: وصیت)     

راہی معصوم رضا کی صلاحیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے مہابھارت کے لیے لکھا۔اس کا ایک ایک ایپی سوڈ لوگوں نے بے حد غور سے دیکھا اور کئی مرتبہ دیکھا اور اس کی تعریف کی۔ مہابھارت کے راہی معصوم رضا کے لکھے ہوئے مکالمے  اتنے اچھے ہیں کہ ان کی وجہ سے نہ صرف ملک بلکہ دوسرے ممالک میں بھی کافی مقبول ہوئے۔آج وہ ہمارے درمیاں نہیں ہیں لیکن وہ اپنے مکالموں،اپنی نظموں، اپنے ناولوں کے ذریعے دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

 

Dr.  Jagdamba Dubey

Asst. Prof., Deptt. of Urdu

Halim Muslim P.G.College

Kanpur- 208001 (UP)

Mob.: 9415280915

jagdamoba720@GMAIL.COM

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...