27/6/24

رشید احمد صدیقی بحیثیت مکتوب نگار، مضمون نگار: محمد امام الدین

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


رشیداحمدصدیقی اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی ایک ہرفن مولا ادیب کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ سنجیدہ مضامین، مزاحیہ مضامین، طنز و ظرافت نگاری، انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، خطوط نگاری، خطبات نگاری یا تنقید نگاری وغیرہ اِن تمام اقسام نثر پر رشیداحمدصدیقی نے اپنے جادوئی قلم سے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں جب بھی ان اقسامِ نثر کی بات ہوگی تو رشیداحمدصدیقی کے ذکر کے بغیر اردو نثر کی وہ تاریخ نامکمل اور ادھوری رہے گی۔ رشیداحمدصدیقی یوں تو تمام غیر افسانوی نثر کے میدان کے شہ سوار ہیں لیکن خاکہ نگاری اور طنز و مزاح نگاری میں ان کے بلند مقام و مرتبے کا ناقدین نے اعتراف کیا ہے۔ طنزو مزاح نگاری کے بعد ان کی جس نثر نگاری کو ناقدین نے اہم اور قابل تحقیق و تنقید بتایا ہے وہ ان کی خطوط نگاری ہے۔ حالی نے غالب کے بارے میں کہا تھا کہ خطوط نگاری میں ان کا ہم مثل نہ ان سے پہلے کوئی تھا نہ ان کے بعد کسی سے ان کی تقلید ہوسکی۔ گویا وہ اپنی خطوط نگاری کے میدان میں یکتا تھے۔ حالی کی بات من وجہ درست ہوسکتی ہے۔ لیکن غالب نے خطوط نگاری میں جس طُرح کی بنیاد ڈالی تھی اسی پر تقلیدی یا تعمیری عمارت کھڑی کرنے والوں میں رشیداحمدصدیقی اپنے ہم عصروں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ رشیداحمدصدیقی کا اسلوب بھی اپنے ہم عصروں سے کچھ کم منفرد نہیں ہے۔ منفرد، دلچسپ، دلکش اور ناقابل تقلید۔ جس طرح انشائیہ نگاری میں وہ معمولی باتوں میں غیر معمولی شگفتگی اور معمولی مزاح میں گہرا طنز پیدا کردینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ویسے ہی خطوط نگاری میں بھی عام اور معمولی گفتگو میں وہ ایسی معنویت اور گہرائی پیدا کردیتے ہیں کہ قاری غور و فکر کرنے پر مجبور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بلکہ ان کے بیان کی گہرائی اور معنویت پر قاری جس قدر غور کرتا ہے اسی قدر حظ اٹھاتا ہے۔ رشیداحمدصدیقی کے خطوط کے وہ اسرار پنہاں جو ان کی عبارتوں کی تہوں میں لپٹے ہوئے ہیں ابھی طشت از بام نہیں ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ان کے ایک شاگرد رشید پروفیسر عبدالقادر میسوری نے ان کے خطوط کے بارے میں اس وقت لکھا تھا جب ان کے خطوط شائع ہوکر منظر عام پر نہیں آئے تھے:

’’ان مضامین کے علاوہ ان کا ایک سب سے بڑا ادبی کارنامہ جو صفحۂ قرطاس پر تو آگیا ہے لیکن منظر عام پر ابھی نہیں آیا یہ ان کے خطوط ہیں جو انھوں نے اپنے بے تکلف دوستوں کے نام لکھے ہیں ان کو شائع ہونے دیجیے۔ وہ دن دور نہیں جب کہ بابائے اردوبھی ان کے بارے میں کہہ اٹھیں گے۔ ’’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاک ستر میں تھی۔‘‘

(پروفیسرمحمدعبدالقادر، حنائے علی گڑھ، صف4، سالار پبلی کیشنز، بنگلور،1986)

اب رشیداحمدصدیقی کے خطوط کافی حد تک شائع ہوکر منظر عام پر تو آچکے ہیں لیکن ان کے خطوط کے حسن و قبح، اسرار و رموز اور اسلوبیات پر محققین اور تنقید نگاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔

خطوط کے بارے میں خود رشیداحمدصدیقی کا اپنا ایک نقطہ نظر تھا۔ غالب نے خطوط کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کردیا تھا کہ خطوط غائبانہ گفتگو اور مکالمہ بازی ہے۔ رشیداحمدصدیقی کا بھی خطوط کے تعلق سے یہ نظریہ تھا کہ خطوط نثری غزل گوئی ہے۔ انھوں نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید رشیداحمدصدیقی کے خیالات کے سہارے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے غزل کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے کم و بیش وہ سب خیالات اچھے مکتوبات کے بارے میں بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشاہیر کے مکاتیب ادب لطیف کی آبرو ہیں۔ اختصار غزل کی طرح مکاتیب کا بھی حسن ہے اور طویل غزل کی طرح طویل مکتوب اپنا حسن کھودیتا ہے۔ غزل کا شاعر بے ربط خیالات کا ترتیب وار اظہار کرتا ہے تو خطوط میں بھی ربط و تسلسلِ خیالات کی تلاش فضول ہے۔ رشید احمد صدیقی نے خطوط کو عشق و محبت سے تشبیہ دی ہے۔ وجہ شبہ یہ ہے کہ اچھے خطوط بھی عشق و محبت کی طرح منہ زور اور روانی میں مانندِسیلاب ہوتے ہیں۔ اچھے خطوط لکھے نہیں جاتے بلکہ عشق کی طرح از خود لکھ جاتے ہیں۔ موضوعات و عنوانات کی ضرورت مضامین و مقالات کے لیے ہوتی ہے۔ خط بغیر کسی موضوع اور عنوان کے غیر ارادی طور پر لکھا چلاجاتا ہے۔ یعنی خطوط نگاری غائبانہ گفتگو اور آدھی ملاقات ہے جس میں مکتوب نگار مکتوب الیہ سے نیم ملاقات کرتاہے اور غیر ارادی طور پر مخاطب سے گفتگو شروع کردیتا ہے۔ اسے اپنی بات کہنے کے لیے نہ کچھ سوچنا پڑتا ہے نہ احتیاط برتنا پڑتا ہے بس وہ اپنی بات کہتا چلاجاتا ہے۔ رشیداحمدصدیقی اپنے ایک خطبے میں خطوط کے تعلق سے اس طرح اظہارِ خیال کرتے ہیں:

’’خطوط کو نہ پکا گانا ہونا چاہیے، نہ فلمی قوالی۔ خط لکھنا دراصل اتنا خطبۂ صدارت تصنیف کرنے کا فن نہیں ہے جتنا گفتگو کرنے کا سلیقہ ہے اور گفتگو کرنا گفتگو ہی کرنے کا نہیں خاموش رہنے کا بھی فن ہے اس اعتبار سے بڑا سخت گیر فن ہے..... اچھی گفتگو کرنے والے کی گفتگو میں نقش، رنگ، رقص، آہنگ اور شخصیت کی بیک وقت جلوہ گری ملتی ہے۔ شخص کی عدم موجودگی میں یہی کرشمہ اس کے خطوط میں نظر آئے گا۔‘‘

(غالب کی شخصیت اور شاعری، ص32، شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، 1976)

رشیداحمدصدیقی کے خیال میں خطوط نگاری میں خطوط نگار اپنی شخصیت کو چاہے جتنے پردوں میں چھپادے اس کی شخصیت از خود ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ بلکہ صرف شخصیت ہی نہیں اس کے جذبات و احساسات، اس کا زاویۂ فکر و نظر سب کچھ اس کی تحریر کے پردے میں منعکس ہوکر رہتے ہیں۔ گویا خط شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ بے تکلف احباب کو لکھے جانے والے خطوط میں انسان سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ اپنا آپ اس طرح ظاہر کرنے لگتا ہے کہ دوئی کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ اور بسااوقات اپنا دل چیر کر رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشیداحمدصدیقی خطوط کی اشاعت کے سخت خلاف تھے۔ خطوط نگار خطوط لکھنے میں ذاتی اور عمومی کا فرق ملحوظ نہیں رکھ پاتا لہٰذا کسی قاری کے لیے بھی یہ امتیاز کرپانا بے حد مشکل ہے کہ کسی کے کون سے خطوط ذاتی ہیں اور کون سے عمومی۔پھر بھلا جو چیز جرم کے دائرے میں آتی ہو وہ کسی خوبصورت عنوان سے جواز کے خانے میں کیسے آسکتی ہے ؟ رشیداحمدصدیقی مولانا عبدالماجد دریابادی کو لکھے گئے 26جون1963 کے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’نجی خطوط شائع نہ کرنے کے جواز میں دوستوں سے گفتگو اور بحث کے دوران میں مثال بجنسہ وہی دیتا تھا جو آپ نے دی ہے یعنی غسل خانے میں تاک جھانک کس صیغۂ اخلاق میں روا ہے؟‘‘

رشیداحمدصدیقی اپنے خطوط کی اشاعت کے اس قدر خلاف تھے کہ اگر کوئی ان کے خطوط شائع کرنے کا ارادہ کرتا تو اسے روکنے کے لیے سخت ناراضگی تک کا اظہار کرتے۔ اور یوں گویا ہوتے کہ میرے روکنے کے باوجود اگر کوئی نہ رکے تو میں بھلا اس کا کیا بگاڑ سکتا ہوں یا کوئی اور کیا بگاڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسی حرکت کر کے وہ مجھے سخت تکلیف اور اذیت پہنچائے گا۔ وہ اپنے اکثر خطوط میں مکتوب الیہ کو تاکید کرتے کہ میرا خط پڑھ کر تلف کردیا جائے۔ اپنی بیٹی سلمی کو 21 اگست 1972 کے ایک خط میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میں چاہتاہوں اور اکثر لکھتا بھی رہا ہوں کہ  میرے خطوط پڑھ کر فورا تلف کردیا کرو۔ مجھے اس خیال سے بڑی تشویش رہتی ہے کہ میرے خطوط میرے بعد شائع کیے جائیں گے۔ اوروں سے تو کچھ کہہ نہیں سکتا اور ان پر اختیار بھی نہیں ہے۔ لیکن اپنے بچوں سے تو اس کی امید کرسکتا ہوں۔ ایسے خطوط اپنے بچوں کو لکھتا ہوں جو پرسنل اور پرائیویٹ ہوتے ہیں تو ان کو شائع کرنا بڑی نازیبا بات ہے۔‘‘

اسی طرح کی ہدایت جزوی تبدیلی و تخفیف کے ساتھ ان کے اکثر خطوط میں موجود دیکھی جاسکتی ہے۔

’’اس خط کو پڑھنے کے بعد بالضرور تلف کردینا۔ اس میں بعض باتیں ایسی لکھ گیا ہوں جن کے عام ہونے سے فتنے کھڑے ہوجائیں تو عجب نہیں۔‘‘

’’پچھلے خط کو تلف کردیجیے گا۔‘‘

’’بقول غالب..... یہ عریضہ چھاپنے کے لیے نہیں چُھپانے کے لیے ہے۔‘‘

’’امید ہے آپ میرے سارے خطوط ملاحظہ فرمانے کے بعد بالضرور تلف فرمادیتے ہوں گے۔‘‘

’’میرے خط پڑھ کر ہمیشہ تلف کردیا کرو۔ تاکید جانو۔‘‘

ایسے لاتعداد فقرے ان کے خطوط کے اختتام پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ خطوط کی اشاعت کے سلسلے میں ان کے رویے میں آخری عمر تک کوئی تغیر یا لچک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ سلیمان اطہر جاوید نے ان کے خطوط جمع کرکے شائع کرنے کے قصد سے رسالہ ہماری زبان کے توسط سے اہل ادب سے درخواست کی کہ جن کے پاس رشیداحمدصدیقی کے خطوط ہوں وہ فراہم کریں۔ رشید احمدصدیقی کو اس کا پتہ چلا تو انھوں نے اس رسالے کے ایڈیٹر کو خط لکھ کر بے حد لجاجت سے اس سے باز رہنے کی درخواست کی اور ایڈیٹر کے توسط سے سلیمان اطہر جاوید کو بھی اس سے باز رہنے کی تاکید کی۔ ان کی اس کوشش اور ممانعت کا لحاظ کرکے ان کی زندگی میں بہت سے محققین نے ان کے خطوط شائع کرنے کے خیال کو ترک کردیا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد اس کافری سے کوئی باز نہ رہ سکا۔ سلیمان اطہر جاوید نے اچھے خطوط کے شائع نہ کرنے یا تلف کردینے کو کفر اور قتل سے تشبیہ دی ہے۔ وہ رشید احمد صدیقی کے اس نظریے کے سخت خلاف تھے۔ رشید احمد صدیقی کا قول ہے کہ اچھے خطوط وہ ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر تلف کردیا جائے۔ سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں:

’’رشیدصدیقی کی اس منطق کو کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر کچھ دیر کے لیے کوئی تسلیم کربھی لے تو کیا عجب کوئی دل جلا کہہ بیٹھے کہ اچھے انسان کی پہچان یہ ہے کہ گفت وشنید کے بعد اس کو ہلاک کردیا جائے۔ رشیدصدیقی نے اصغر گونڈوی مرحوم کے موسومہ ڈھیر سارے مکاتیب لکھے ہوں گے۔ اصغر کی وفات کے بعد مرحوم کی اہلیہ سے انھوں نے سارے مکاتیب حاصل کیے اور اپنے ہی ہاتھوں تلف کردیا۔ یوں کون جانے کتنے گوہر یکتا تہہ خاک ہوگئے۔ رشیدصدیقی نے اپنے مکاتیب کو تلف کردیا ہو لیکن کسی اور سے یہ کفر ممکن نہیں۔ یہ ادبی قتل کون کرے گا؟‘‘

 (سلیمان اطہر جاوید، مکاتیب رشید، صف16، نیشنل بک ڈپو حیدرآباد،1980)

ایسا نہیں ہے کہ رشیداحمدصدیقی صرف اپنے خطوط کی اشاعت کے خلاف تھے بلکہ وہ اپنے نام لکھے گئے دوسروں کے نجی خطوط کے تحفظ کا بھی خیال رکھتے تھے اور انھیں یا تو تلف کردیتے تھے یا مکتوب نگار کو واپس کردیتے تھے۔ ان کے نام بہت سے مشاہیر کے خطوط آتے رہتے تھے جن میں ڈاکٹر علامہ محمداقبال، ڈاکٹر ذاکرحسین، پطرس بخاری، جگر مرادآبادی، مولانا سہیل، سجاد انصاری، سلطان حیدر جوش، فانی بدایونی، سرتیج بہادر پسرو، آل احمد سرور، مسعود حسین خان، ڈاکٹر محمد حسن، نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، سید احتشام حسین وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ان سب کے خطوط کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات  کے بعد ان کے گھر سے کسی طرح کے کوئی خطوط برآمد نہ ہو سکے۔ خط محفوظ نہ رکھنے کے بارے میں محمدطفیل مدیر رسالہ نقوش کے موسومہ مکتوب مورخہ 13اکتوبر 1956میں اپنی اس عادت کا ذکر مزاحیہ اسلوب میں اس طرح کرتے ہیں:

’’میرے پاس مشاہر کی خطوط تو آتے ہیں لیکن میں جواب دے کر ان کو تلف کر دیتا تھا۔ سبب یہ تھا کہ جہاں تک مشاہیر کا تعلق ہے میں خود کو ان سے زیادہ مشاہیر سمجھتا تھا۔ لیکن اب جب کہ وہ مجھ سے پہلے اس جہاں سے گزر گئے اصلی مشاہیر وہی تھے۔ صرف مجھے خط نہ لکھ سکتے تھے۔‘‘

رشیداحمدصدیقی کا خیال تھا کہ خطوط میں مکتوب نگار کی جو نجی باتیں ہوتی ہیں ان کے طشت ازبام ہوجانے سے مکتوب نگار کو کوئی فرق پڑتا ہو یا نہ لیکن اس کا امکان ضرور ہوتا ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں مکتوب الیہ ان نجی باتوں سے کوئی ایسا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے جس سے مکتوب نگار کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔ چنانچہ وہ خلیل الرحمن اعظمی کو لکھے گئے اپنے5جنوری 1952کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’اس خط کو آپ ہی رکھ لیں۔ میں ایسے خطوط کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا جس میں لکھنے والے نے نجی باتیں لکھی ہوں اور اس کا امکان ہو کہ جس کو لکھا گیا ہے وہ کبھی اس سے اِس طور پر فائدہ اٹھائے کہ لکھنے والے کو شرمساری ہو۔‘‘

خطوط نگاری کو جو ادیب اپنی عادت بنالیتے ہیں خطوط نگاری ان کی صرف ضرورت نہ ہوکر وقت گزاری کا مشغلہ بن جاتی ہے۔ غالب کی دیگر خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ بلاضرورت اور بغیر کسی بات کے محض دل لگی اور وقت گزاری کے لیے بھی خطوط لکھتے تھے۔ یہی حال رشیداحمدصدیقی کا بھی تھا۔ انھوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے کہ بے تکلف دوستوں کو خطوط لکھنا لطف و تفریح کا ذریعہ ہے۔ اور انھیں اچھا لکھنے پر جو قدرت حاصل تھی اس کی سچی خوشی تب حاصل ہوتی تھی جب وہ بے تکلف احباب اور عزیز دوستوں کو خطوط لکھنے بیٹھتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کو خطوط لکھتے وقت اپنی شخصیت کے تہوں کو کھولنے اور اپنا آپ ظاہر کرنے میں کوئی باک نہ ہوتا۔ بلکہ فطری طور پر مکتوب نگار اپنی خوبیوں و خامیوں سمیت اپنے خطوط میں جلوہ گر ہوجاتا ہے۔ اسی لیے رشیداحمدصدیقی اکثر اس بات کے اندیشے میں مبتلا رہتے تھے کہ کہیں ان کے خطوط منظر عام پر نہ آجائیں۔ انھوں نے اس تمنا کا اظہار بھی کیا ہے کہ خدا کرے میرے اس قسم کے خطوط جن بزرگوں، عزیزوں اور دوستوں کے پاس ہوں وہ ان کو تلف کرچکے ہوں۔ رشیداحمدصدیقی کی روش خطوط نگاری کے سلسلے میں یہ تھی کہ وہ اپنے چھوٹے بڑے اعزہ اقارب، دوست احباب اور بزرگوں و شاگردوں کو خطوط لکھنے میں پہل کرتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے منتسبین کے بارے میں بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ وہاں کے لوگ خطوط نگاری تو دور خطوط کے جوابات لکھنے میں بھی تساہل برتتے ہیں۔ آپ کسی علیگ کو دس خط لکھیے تو جواب مشکل سے ایک کا آئے گا۔ یہ وہاں کی عام روایت بیان کی جاتی ہے۔ استثنا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ اسی استثنا میں رشیداحمدصدیقی کا نام سرفہرست آتاہے۔ وہ کسی بھی چھوٹے بڑے کو یہ تاثر دینا نہیں چاہتے کہ میں بہت بڑا آدمی ہوں ہر کس و ناکس کے خط کا جواب دینا کسر شان سمجھتا ہوں۔ یا میں بڑا مصروف آدمی ہوں ہر طرح کے خطوط کا جواب دینا میری مصروفیت میں خلل کا باعث ہے۔ بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے خطوط کا بھی پابندی سے جواب لکھتے تھے۔ ان کے بعض شاگردوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے جن میں پروفیسر عبدالقادر میسوری بھی تھے۔ رشیداحمدصدیقی نے انھیں جو خطوط لکھے تھے انھوں نے ان کو مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ رشیداحمدصدیقی کے روز مرہ کے معمولات میں خطوط نگاری بھی شامل تھی۔ آنے والے ڈاک پڑھنے اور خطوط کے جوابات لکھنے کے لیے ان کا وقت مختص تھا۔ وہ سفر میں ہوتے تب بھی خطوط لکھنے کا معمول برقرار رکھتے۔ ان کے بہت سے خطوط حیدرآباد اور مسوری وغیرہ کے سفر کے دوران لکھے ہوئے ہیں۔ 1955 میں جس روز وہ دل کے دورہ سے متاثر ہوئے اس دن انھوں نے ایک درجن کے قریب خطوط لکھ دیے تھے۔ خطوط لکھنے اور جواب ارسال کرنے کی یہ پابندی اور عادت تادم آخریں قائم رہی۔ زندگی کے آخری چند برسوں میں ان کی بینائی کمزور ہوگئی تھی اور ہاتھوں میں رعشہ آگیاتھا لیکن وہ پابندی سے خط لکھتے رہے۔ ان کا آخری خط وفات سے دو دن پہلے کا لکھا ہوا ہے جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ خط لکھنے کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے اور اگر کوئی خط کا جواب لکھنے میں کاہلی یا کسالت کا مظاہرہ کرتا تو وہ اسے پسند نہ کرتے تھے۔ اپنے بیٹے احسان رشید کے بارے میں مسعود حسین خان کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’وہ ان لوگوں میں ہیں جو خط کا جواب دینے میں کسرشان سمجھتے ہیں یا کاہلی کو سندجواز مانتے ہیں حالانکہ یہ دونوں باتیں نالائقی کی دلیل ہیں۔‘‘

رشیداحمدصدیقی کا خیال تھا کہ انسان کی اصل سیرت کی عکاسی اکثر دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ اگر وہ سامنے موجود ہو تو اس کے ساتھ کُھلیے وہ کھل جائے گا اور نظروں سے اوجھل ہو تو اس کے نجی خطوط پڑھیے وہ پہچانا جائے گا۔ اس کلیے کے مطابق رشیداحمدصدیقی کے خطوط پڑھیے تو وہ ان میں چلتے پھرتے بولتے چالتے نظر آئیں گے۔ ان کے خطوط میں ان کی شخصیت، ان کا اسلوب، ان کے افکار و نظریات، مختلف مشاہیر کے بارے میں ان کے خیالات کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ مکتوبات کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے مکتوب نگار کی زندگی کا سوانحی خاکہ مرتب کیا جاسکتاہے۔ غالب کے خوشہ چینوں نے ان کے خطوط کی مدد سے نہ جانے ان کی زندگی کے کون کون سے گوشوں کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ لیکن رشیداحمدصدیقی کا اپنے خطوط میں محتاط انداز رہتاتھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے ان کے چاہنے والے ان کے رقعے پرزے تک سے محبت کرتے ہیں لہٰذا بہت بعید ہے کہ وہ ان کی تشہیر سے باز آئیں گے۔ لہٰذا رشید احمدصدیقی کے خطوط غالب کے خطوط کی طرح ان کی زندگی کی مکمل کتاب تو نہیں البتہ ان کی شخصیت کی معرفت کے لیے ناکافی بھی نہیں ہیں۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید لکھتے ہیں:

’’اگر آپ نے رشیدصدیقی سے ملاقات کی ہو، تبادلۂ خیال کیا ہو، ان کو دیکھا ہی نہیں ان کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہو اور سمجھا بھی ہو تو ان کے مکاتیب میں آپ ان کو بولتا ہوا پائیں گے۔ یہ ان کے مکاتیب کی بہت بڑی خوبی ہے اور پھر ان کے اسلوب کی طرفگی، شائستگی، شگفتگی، بات کو دھیمے دھیمے کہنے کا انداز اور کیف میں ڈوبا ہوا لب و لہجہ۔ لگتا ہے پیاری سی موسیقی کے ریکارڈ ہیں جو آپ ہی آپ بجتے جا رہے ہیں مدھم سروں میں۔‘‘

(سلیمان اطہر جاوید، مکاتیب رشید، صف20، نیشنل بک ڈپو حیدرآباد، 1980)

رشیداحمدصدیقی اپنے خطوط میں مزید کئی رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ خطوط میں انھوں نے اپنی پسند ناپسند، اپنے ذاتی و خانگی مسائل، روزہ مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں مثلا پاندان، سیوئیاں، گلاب وغیرہ کے علاوہ اپنی بیماریوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان تمام کا تفصیلی مطالعے اور احاطے کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے رشیداحمدصدیقی کا مطالعہ اہمیت، افادیت اور دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔

 

Mohd Imamuddin

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 110007

mdimamrahi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...