27/6/24

اردو ادب میں اساطیر (داستان اور ناول کے حوالے سے) ، مضمون نگار: طیبہ بانو

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


ادب میں اساطیر کی روایت اور دائرہ کار کے بارے میں گفتگو کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اساطیر نے تمام اصناف ادب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اساطیری یا دیومالائی قصوں کا تعلق ماضی سے ہی ہے او ریہ کہانیاں قدیم ترین انسانوں کی الجھنوں اور پریشانیوں سے بھری ہوئی زندگی کی آئینہ دار ہیں۔ قدیم تہذیب اور رسم ورواج، ان کے جذبات و احساسات کا علم ان کہانیوں سے ہوتا ہے، جس طرح ادب ان کو پیش کرتا ہے وہ کوئی اور شعبۂ علم نہیں بیان کرسکتے۔انھیں قصے کہانیوں کے ذریعے آج اس گلوبل ولیج نمادنیا نے قدیم انسانوں کے حالات و واقعات سے آشنائی ادب کے ذریعے حاصل کی اور قدیم و جدید زندگی کے مابین ایک ربط بنانے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں سے اساطیر بھی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لیے قدیم ترین لوگوں کی تہذیب، ان کا رہن سہن، ان کے حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اساطیری مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ ہرنئی سے نئی تہذیب وثقافت کی بنیادی جڑیں اس کے قدیم نظامِ اساطیر میں پوشیدہ ہیں جو آج بھی زندگی کے تمام تر شعبوں میںموجود ہے اور موجودہ عہد کی حقیقتوں سے آشناہونے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔

قصے کہانیوں کے اساطیری جہان کا منبع اگر چہ زبانی بیانیہ ہے لیکن یہ سب اب تحریری شکل میں  موجود ہے جس کے سبب اسے آفاقیت کا درجہ ملا۔ جب بات اساطیر کی تحریری شکل کی جائے تو سب سے پہلا نام اس حوالے سے ہومرکی رزمیہ نظم ایلیڈ کا آتا ہے۔ اس نظم میں یونانی اساطیر کے اولین نقوش ملتے ہیں اور اس کے ذریعے ہی یونانی اساطیر کا در وا ہوتا ہے۔ اس کی نظم ایلیڈ میں ٹرائے کی جنگ کا تفصیلی بیان ہے۔ ہومر کی رزمیہ نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی یونانی اساطیر کا مظہر ہونے کے ساتھ اساطیری ادب کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ ہومر کے بعد ہسیاڈ (Hesiod)  نے یونانی اساطیر پر قلم اٹھایا ہے اور اس کی دو تصنیفات قابل قدر ہیں، ان میں "Works and days" اور دوسری "Theogony"ہے۔ ان کے علاوہ یونانی صنمیات میں پنڈار Pindar، سوفوکلیز Sophocles، اسلیکس Diorus Siculus، یوری پڈیز Euripides، ارسٹوفینز Aristophanes وغیرہ یونانی اساطیر کے مشہور مصنف گزرے ہیں، جنھوں نے اساطیر کے در وا کیے اور اساطیر کے لیے راہیں ہموارکیں۔

ان کے علاوہ جن لوگوں نے اساطیری جہان میں گراں قدر اضافہ کیا، ان میں لوسیس اپولیوس Apulius اور لوسین قابل ذکر ہیں۔لوسیس اپولیس کی تصانیف کیوپڈ اور سائیکی Cupid and Psychi مشہور زمانہ شاہکار ہیں۔ ان کے علاوہ رومی اور لاطینی دیومالائی ادب کی دریافت و بازیافت کرنے والوں میں ورجل Virgilاورا ووڈOvidنے بھی گراں قدر کارنامے انجام دیے۔ رومن عہد کی مشہور ومعروف شاہکار نظم اینیڈورجل کی ہی تخلیق ہے اور اووڈ کی دیومالائی حوالے سے مشہور زمانہ نظم میٹامورفوسس Metamorphoses ہے۔ ورجل کی نظم Aineidکئی حصوںمیں منقسم ہے اور اس میں دیومالائی عناصر ملتے ہیں اس کے بارے میںکہاجاتا ہے کہ اس نے اس نظم کے ذریعے سے دیومالائی جہان کے کردار و شخصیات کو حقیقی زندگی اور ہستیوں سے قریب تر کرکے دکھایا ہے۔

اردو ادب میں دیومالائی عناصر سے کوئی صنف اچھوتی نہیں ہے۔ تمام اصناف پر دیومالائی اثرات مرتب ہیں، ان میں ایک اہم صنف داستان ہے۔

جب ہم ان داستانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کے واقعات و جذبات سے بحث کرتی ہیں لیکن اپنی رنگ آمیزی اور تخیلی فضا کی وجہ سے عام انسان کی زندگی سے حالات و واقعات سے مختلف لگتی ہیں۔ اسی لیے جب ہم داستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تمام داستانوں پردیومالائی اثرات موجود ہیں چاہے وہ پہلی نثری داستان سب رس ہو یا پھر فسانۂ عجائب یا باغ وبہار اور دیگر داستانیں، ان تمام میںاساطیری عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے دیومالائی عناصر اور داستا ن کو لازم وملزوم کہنا بجا ہوگا۔

یعنی دنیا کی تمام داستانوں کا سرا کہیں نہ کہیں جاکر دیومالائی عناصر سے ضرورملتا ہے۔ داستانوں میں توہمات و عقائد، انسانی کرداروں کے ساتھ بھوت جن دیو عفریت یا جانوروں کے سروالے کردار یا پرندے اور جانور وغیرہ ان تمام کا تعلق دنیا کی قدیم مختلف اقوام کی اساطیر بھی ہے۔ اس لیے داستان کے ذکر کے ساتھ اساطیر کا ذکر لازم وملزوم ہے کیونکہ اس کا پایاجانا ناگزیر ہے۔

اردو میں سب سے پہلی باضابطہ طور پرنثری داستان ’سب رس‘ ہے۔ اس میں ملاوجہی نے کرداروں کو جس طرح تشکیل دیا ہے وہ غیرمجسم جذبوں کی شکل ہے۔ ان کرداروں کے نام عقل، حسن، عشق، توبہ، خضر، غمزہ،، وہم، زلف،وفا، نظر، زہد وغیرہ ہیں۔ ان کرداروں کے نام اور ان کی پیشکش سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس داستان میں اسلامی اساطیر کا تانا بانا بُنا گیا ہے اورپوری داستان میں آغاز تااختتام اسطوری فضا چھائی ہوئی ہے۔

باغ وبہار‘کا جب مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس داستان میں بھی جس طرح سے قصہ درقصہ بیان کیا گیا ہے اور تحیر خیزفضا پیدا کی گئی ہے،تمام تر قصے ماورائیت پر مبنی نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے داستان کا شمار دیومالائی ادب میں ہوتاہے۔

دیومالائی عناصر کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

’’…میں نے اس کے سرہانے ایک دیو دیکھا کہ کتاب لیے کھڑا ہے۔ چاہا کہ پکڑ کر خوب ماروں اور کتاب چھین لوں، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کتاب دوسرا لے بھاگا۔ میںنے جو افسوں یاد کیے تھے، پڑھنے شروع کیے، وہ جن جو کھڑا تھا بیل بن گیا۔‘‘

(باغ و بہار،مرتبہ رشید حسن خان،انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی،1992، ص112)

یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ منتر پڑھ کر جن پر پھونکنے کی روایت قدیم دور کی اساطیر کا حصہ ہے اور یہاں بھی جن کو بیل کی شکل میں دعا یامنترکے ذریعے ہی ڈھال دیا گیا۔ یہ اساطیری تصور اس داستان میں بھی موجود ہے۔

اسی طرح دیگر داستانیں خواہ وہ ’آرائش محفل‘ ہو یا ’مذہب عشق‘ تمام داستانوں میں دیومالائی اثرات پائے جاتے ہیں۔ ’آرائش محفل‘ میں جس طرح حاتم طائی کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے پوری داستان میں دیو، جن، پری، جادو، سحر سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ واقعات کے ان تصادم سے پوری داستان میں دیومالائی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ’مذہب عشق‘ کے قصے میں دلبر بیسوا کی پالتو بلی، چوہا اس کے علاوہ ممالہ دیوی کی مدد سے تاج الملوک کا بکاولی کے پھول تک پہنچنا اور اس سے اپنے والد کی بینائی کا واپس لانا، بچھو، سانپ اور پری کے کردار کا ہونا یہ سب اساطیر ہیں۔

داستان امیرحمزہ‘ کا مطالعہ کیاجائے تو اس کا تانا بانا اسلامی اساطیر کے ارد گرد بنا گیا ہے۔ پوری داستان میں آغاز تا اختتام طلسماتی فضا چھائی رہتی ہے، جس کی بنیاد میں اسلامی اساطیر پنہاں ہیں۔ اس کے بعد ’قصہ مہرافروز دلبر‘ میں بھی دیومالائی عناصر ملتے ہیں۔

داستان ’نوآئین ہندی‘ ’المعروف ملک محمدگیتی افروز‘ میں بھی اساطیری عناصر موجود ہیں، اس میں ملک محمد کا کئی بار تبدیلیِ قالب کا عمل اساطیر کے زمرے میں ہی شامل ہوتا ہے۔

داستان ’رانی کیتکی کی کہانی‘ میں ہندوستانی دیومالائی عناصر واضح طور پر موجود ہیں۔ اس میں ایک کردار ’اندر‘ بذات خود دیومالائی کردا رکے نام پر ہے، اس کے علاوہ سورج بھان اس کی بیوی اور ادے بھان کو ہرن کے روپ میں ڈھال دینا دیگر کرداروں کا بھبھوت لگاکر اوجھل ہوجانا، گٹکے کھاکر ہوا میں اڑجانا یہ سب ہندو دیومالا کے واضح نقوش ہیں۔ داستان رانی کیتکی کی کہانی میں ہندو اساطیر کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اور یہ داستان ہندوستانی دیومالا کے ذریعے ہندوستانی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

مذکورہ بالاداستانوں کے علاوہ اور بھی داستانیں مثلا بوستانِ خیال، الف لیلیٰ، فسانۂ عجائب، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، شکنتلا اور قصہ مادھونل کام کنڈلا قابل ذکر ہیں۔ الف لیلیٰ میں تبدیلیِ قالب کا قصہ، سندباد جہازی، کرداروں کو آدھا پتھر اور آدھا کسی جانور کا کردینا، دیونما انسان، آدم خور، سفید انڈا، الہ دین کا چراغ وغیرہ اساطیری جہت کے حامل ہیں۔ اس کے بعد ’فسانۂ عجائب‘ کا اثر اسطوری پہلو سے مطالعہ کیاجائے تو اس میں بھی اساطیر ساحرہ کا پایاجانا، جانوروں کا انسانوں کی طرح بولنا، اسم اعظم، جادو سے انسانوں کا پتھر کردینا، شہزادی کے خون سے دریا کا لعل موتی میں تبدیل ہوجانا اور ہیرو کا ہرنیوں کے پیچھے اپنے گھوڑے ڈال دینا جب کہ وہ ہرن نہیں جادوگرنیاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی اساطیری زمرے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تبدیلیِ قالب کا واقعہ بھی اساطیری عمل ہے۔ اس طرح یہ داستان بھی ہمیں اساطیر سے لبریز نظر آتی ہے۔

بیتال پچیسی‘ اپنے موضوع سے ہی اساطیری عناصر لیے ہوئے ہے۔ بیتال ایک قسم کے بھوت ہوتے ہیں جو انسانوں کی لاشوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اس میں پچیس کہانیاں ہیں او ران تمام کہانیوں میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ ہندودیومالا اساطیر کے زمرے میں آتے ہیں، جیسے اس میں ایک کہانی بنارس کے راجہ پرتاپ مکت کی کہانی ہو یا مدھومالتی کی کہانی، مہادیو کاواقعہ ہو یا برہمن کے لڑکے کی کہانی سب میں اساطیری عناصر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’سنگھاسن بتیسی‘ کے حوالے سے ڈاکٹر گیان چند مزید لکھتے ہیں کہ:

’’ان کہانیوں میں دیومالا کا گہرا اثر ہے۔ بیتال پچیسی سے زیادہ پاتال، اندرلوک، اندر،سمندر، دیوتا، چاند دیوتا، شیر، شیش ناگ، جم کے دوت، دیوی، گندھرویہ سب بار بار رونما ہوتے ہیں… ایسی تھیلی کہ اس میں کھانے کی جو چیز چاہو نکال لو، ایسی چھڑی جسے لینے والا سب کو دیکھے اور اسے کوئی نہ دیکھے، ایسا لعل جس سے جتنی دولت چاہو مل جائے۔‘‘

(اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین، 1978، میسرس نشاط آفسٹ پرنٹرس ٹانڈہ،ص397)

مذکورہ بالا اقتباس سے بیان کردہ تمام کردار اور نشانیاں ہندواساطیر کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس پوری داستان میں حیرت و استعجاب کے ذریعے دیومالائی عناصر کی فضا واضح طورپر پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد شکنتلا داستان کا ذکر کریں تو اس داستان میں ایک کردار کانام اندر ہندواساطیر کی علامت ہے اور خود شکنتلا نام بھی ہندو اساطیر کا کردار ہے۔ جس کا ذکر مہابھارت میں کیاگیا ہے۔

مذکورہ بالا داستانوں میں اساطیرکے اس مختصراً جائزے سے اس بات کی توضیح ہوتی ہے کہ داستان اور اساطیر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں اور بسا اوقات ان میں فرق واضح کرنا مشکل امر بھی ہوتا ہے لیکن دیومالائی عناصر ہر داستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ اساطیر کے تخلیقی استعمال سے داستانوں میںزندگی کے مختلف پہلوئوں کی معنویت کو اجاگر کیا گیاہے اوراساطیر کے ذریعے کائنات اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لیے اس سے کام لیا جاتا رہا ہے اور اس کے ذریعے کائنات کی تشریح کی کوشش دلچسپ اور بصیرت افروز ہے۔

داستانوں کے علاوہ اساطیر نے اپنے اثرات ناول پر بھی مرتب کیے ہیں۔ ناول جو کہ زندگی کا عکاس ہے، اس میں مافوق الفطری عناصر کا ہی نام نہیں بلکہ موت کی حقیقت اور اس کے اسرار و رموز بھی شامل ہیں۔ اس لیے زندگی کے حقائق کی عکاسی کرنے والی صنف ناول میں بھی اساطیر کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اردو ادب میں اگر دیکھاجائے تو سب سے پہلے ناول نگار نذیراحمد کے پہلے ناول ’مراۃ العروس‘ میں بھی اساطیری عناصر کی جھلک مل جاتی ہے لیکن ان کے ناول ’رویائے صادقہ‘ میں زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ ناول ایسے کردار کی کہانی ہے جو اپنی آنکھوں میں خواب سجانے کا عادی ہوتا ہے اور اپنے شوہر کی تمام ترباتوں کا جواب اپنے سچے خوابوں کی روشنی میں دیتی ہے۔ اس لیے یہ طرزبیان خواب دیکھنا اور خواب کی رہنمائی میں جواب دینا اساطیری اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ نذیراحمد کے بعد اردو ناول میں واضح طور پر اساطیری عناصر پریم چند کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں بیوہ، پردۂ مجاز اور گئودان شامل ہیں۔ ان کا ناول ’بیوہ‘ میں بیوہ عورت کی زندگی کے بارے میں جس طرح اس کے احساسات و جذبات کا بیان کیا گیا اس کی خواہشات کی جو تصویرکھینچی گئی ہے اس سے ناول کی فضا میں ہندو اساطیر کے رمز پیدا ہوتے ہیں۔ ’پردۂ مجاز‘ کے ذریعے ہندومذہب میں مروج عقیدہ جنم کا سات بار ہونے کو آشکار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہندومذہب میںیہ ایک راسخ عقیدہ ہے کہ ہر انسان سات بار جنم لیتا ہے اوراپنے ہر نئے جنم میںپچھلے جنم کی کمیوں او رنامکمل کام کو پورا کرتا ہے۔ اس ناول میں اس کے کردار چکردھر اورمہندر کمار اور دیگر کردار ہیں اور ان کامختلف جگہ اور موقع پر الگ الگ جنم ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس عقیدے کے مطابق ’پردۂ مجاز‘ بھی ہندو اساطیر کے زمرے میں شامل ہے۔

ان کا تیسراناول ’گئودان‘ جو کہ اپنے نام سے ہی ہندو دیومالاکی عکاسی کرتا ہے۔

ناولوں میں اساطیری عناصر کا پایاجاناا بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غضنفر بھی اپنے ناول ’کینچلی‘ کے ذریعے دروپدی کے تناظر میں یہی موضوع قلمبند کرتے ہیں۔

قرۃ العین حیدر کے ناولوںمیں بھی اساطیری علامتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے ان کا شاہکار ناول ’آگ کا دریا‘ قابل ذکر ہے۔ آگ کا دریا یہ موضوع بہت وسیع معنویت کا حامل ہے، بڑے بڑے فلسفی، ادیب اور دانشور جس عمل کو زندگی سے موت تک کا سفر کہتے ہیں اس کو قرۃ العین حیدر نے آگ کا دریا کہا ہے۔ اس ناول میں بھی اساطیرپائی جاتی ہیں۔ اس ناول کے بارے میں ایک رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ اس میںایک ہی کردار کے جو مختلف روپ پائے جاتے ہیں وہ ہندو اساطیر کے آواگون یا عقیدئہ تناسخ کا حصہ ہیں،جب کہ قراۃالعین حیدر نے ان کرداروں کو مختصر تبدیلی کے ساتھ اس لیے پیش کیا ہے کیونکہ وہ بدلتے ہوئے ہرعہد کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی لیے کرداروں کی ان تبدیلی کو آواگون کی اساطیر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ کردار موت سے دوچار ہوکر دوبارہ جنم نہیں لیتے ہیں،بلکہ وقت کے ساتھ تبدیلی کو اختیار کر لیتے ہیں۔ناول میںمشترکہ تہذیب کی بہترین مثال قراۃالعین حیدر نے جس طرح مختلف تہذیب کے اساطیری نقوش کو جمع کرکے پیش کی ہے وہ قابل غور ہے،کہ کس طرح انھوں نے اپنی تحریر میں معنویت اور گہرائی پیدا کرنے کے لیے اساطیر کا استعمال کیا ہے۔

قرۃ العین حیدر نے جس خوبصورتی سے مشترکہ اساطیر کو بیان کیا ہے اس کی مثال خال ہی ملتی ہے۔

آگ کا دریا‘ کے بعد ان کے دوسرے ناول ’آخرشب کے ہمسفر‘ میں بھی دیومالائی عناصر پائے جاتے ہیں۔ یہ ناول تمام فنی لوازمات پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ اساطیری تخلیقات کا بھی حامل ناول ہے، جس سے اس ناول کی معنویت اور وسعت میں اضافہ ہوگیاہے۔

قرۃ العین حیدر کا ایک ناولٹ ’سیتاہرن‘ رامائن سے ماخوذ ہے جو کہ ہندو دیومالا کا شاہکار ہے۔ اس ناولٹ میں سیتا کے کردار کے ذریعے جدید عہد کی عورت کی زندگی کو رامائن کی سیتا کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔

اس پورے ناولٹ کو ہندوستانی اساطیر کا ناولٹ کہاجاسکتا ہے کیونکہ کردار کے ساتھ ساتھ پوری کہانی اسی طرز پر لکھی گئی ہے اس لیے اس کو ہندوستانی اساطیر کا بہترین عکاس کہاجاسکتا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کے ناول ’ایک چادرمیلی سی‘ کا شماربھی ہندودیومالائی عناصر میں ہوتا ہے۔ اس ناول میں اساطیر کی بڑی واضح مثالیں پائی جاتی ہیں، اس ناول میں انھوں نے اساطیر کے ذریعے ہی کردار کی نفسیات او رتہذیب واقدار کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کے آغاز سے ہی ہمیں دیومالائی فضا ملتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہوـ:

’’آج شام سورج کی ٹکیا بہت لال تھی۔ آج آسمان کے کوٹلہ میں کسی بے گناہ کا قتل ہوگیا تھا۔‘‘

(ایک چادر میلی سی،راجندر سنگھ بیدی، 1964، پربھات آفسیٹ پریس،دہلی،ص13)

اس اقتباس سے ہی ایسی فضا کا تصور ہوتا ہے جس میں قتل وخون کا احساس روح کو جھنجھوڑدیتا ہے اور سورج کابیان ایک استعارہ ہونے کے ساتھ ہندودیومالا میں دیوتا اور طاقت کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کا لال ہونا اس کے غیظ وغضب کا اشارہ ہے۔ ناول میںجگہ جگہ واقعات کے بیان میں دیومالا کا سہارا لیا گیاہے جیسے ترشول، دھرم شالہ، بھیرو، بھبھوکا، کرشن، کالی، شیو، پاروتی، دیوی ماں وشنو یہ سارے کردارو علامات ہندوستانی اساطیر کا ناگزیر حصہ ہیں، جس کو بیدی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے ناول میں شامل کیا ہے۔

ان ناولوں کے علاوہ بہت سے ناول ایسے ہیں جن میں اساطیری عناصر موجود ہیں لیکن تمام کا ذکر بغرض طوالت نہیں کیاجاسکتا۔ ان کا محض ذکر کرنا ہی مناسب ہوگا۔ ان ناولوں میں جیلانی بانو کا ’ایوانِ غزل‘ ہے۔ اس میں بھی ہندوستانی اساطیر کی کارفرمائی ہے۔ اس کے علاوہ ’ٹیڑھی لکیر‘ یا اور اس سے آگے بڑھیں توخدیجہ مستور کے ’آنگن‘ کے چوکھٹوں میں بھی اساطیر مل جاتی ہیں۔ کرشن چندر کے ناول ’دل کی وادیاں سوگئیں‘ اور ’شکست‘ کا بیان ہوان تمام ناولوں میں اساطیری عناصر کی کارفرمائی پائی جاتی ہے۔

جدید دور کے ناول نگاروں میں صلاح الدین پرویز کا ناول ’نمرتا‘بھی اساطیری ناول ہے۔ اس کے علاوہ شموئل احمد کا ناول ’اے دل آوارہ‘، سید محمد اشرف کا ’آخری سواریاں‘،  ’نمبردار کا نیلا‘، پیغام آفاقی کا ناول ’مکان‘، عبدالصمد کا ’دوگززمیں‘، کوثرمظہری کا ’آنکھ جوسوچتی ہے‘ اورخالد جاوید کا ’موت کی کتاب‘ اور ’نعمت خانہ‘ یہ وہ ناول ہیں جن میں اساطیری عناصر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

 

Tayyaba Bano

Research Scholar, Dept of Urdu,

Aligarh Muslim Univrsity

Aligarh- 201001 (UP)

Email.: tayyababano5@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...