28/6/24

مجلہ ’عالمی اردو ادب ‘ ایک اجمالی جائزہ، مضمون نگار: سرتاج احمد میر

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2024


اردو کے بھولے بسرے مجاہد نند کشور وکرم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار، مضمون نگار، تذکرہ نویس، مترجم و مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ادبی صحافی بھی تھے۔ انھوں نے اپنی صحافت نگاری کا آغاز تقسیم ہند کے بعد 1948 میں مشہور صحافی اور شاعر میلارام وفا کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبارات ’قومی اخبار‘ اور ’امرت‘ سے کیا۔ کچھ مدت تک ان اخبارات سے وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے اپنے قریبی دوست دیویندر اسر کے ساتھ مل کر 1949 میں کانپور سے ایک ترقی پسند رسالہ ’ارتقا‘ جاری کیا۔ بدقسمتی سے اس رسالے کا ابھی صرف ایک ہی شمارہ منظر عام پر آیا تھا کہ دیویندراسر کو رسالہ اجرا کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ کانپور چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ اس طرح یہ رسالہ جاری ہونے کے ساتھ ہی بند ہوگیا۔

نندکشور وکرم نے 1953 میں کانپور سے ہی ایک اور ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے نام سے جاری کیا جس میں ہندی زبان کے رسائل ’مایا‘ اور ’منوہر کہانیاں‘ کی طرح صرف کہانیاں ہی شائع ہوتی تھیں۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کے دو شمارے شائع کرنے کے بعد انھیں یہ احساس ہوا کہ اردو میں غزلوں اور نظموںکے بغیر کوئی رسالہ کامیابی کے ساتھ شائع نہیں ہوسکتا اس لیے انھوں نے اس ماہ نامہ میں منظوم حصہ بھی شامل کردیا لیکن اس کے باوجود اس ماہ نامہ کے صرف پانچ شمارے ہی شائع ہوسکے۔ ماہ نامہ ’نئی کہانی‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد نند کشور وکرم نقل مکانی کرکے کانپور سے دہلی آگئے۔

1964 میں نند کشور وکرم دہلی سے شائع ہونے والے اردو کے مقبول عام سرکاری ماہنامہ ’آجکل‘ کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1979 میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گئے اور اسی سال ان کا تبادلہ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ہوگیا۔ پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں تقریباً آٹھ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد 30؍ستمبر 1987 کو نندکشور وکرم سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہوگئے۔

پریس انفارمیشن بیورو نئی دہلی میں ملازمت کے دوران ہی نندکشوروکرم نے اردو کا پہلا حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘کے نام سے جاری کیا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کا پہلا شمارہ جولائی 1983 میں ’اردو ‘کے نام سے منظر عام پر آیا جب کہ اس مجلہ کے باقی تمام شمارے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے نندکشور وکرم لکھتے ہیں:

’’بہت غور و خوض کے بعد میں نے پہلی بار اسے (عالمی اردو ادب) ’اردو‘ کے نام سے 1983 میں شائع کیا مگر جب اگلے شمارے کے لیے پریس رجسٹر کے دفتر میں ’اردو‘ کے نام سے ڈیکلیریشن لینے گیا تو معلوم ہوا کہ اس نام سے کسی شخص نے حیدرآباد سے پہلے ہی ڈیکلیریشن لیا ہواہے۔ لہٰذا مجبوراً مجھے ’عالمی اردو ادب‘ کے نام پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ‘‘ 

(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 2011)جلد نمبر 32،ص 8)

نعمانی پریس دہلی سے شائع ہونے والے مجلہ کے پہلے شمارے کا سرورق نریش کمار نے تیار کیا تھا۔ اس شمارے کے پیش لفظ میں مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے برصغیر ہندو پاک میں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد، موجودہ و گزشتہ ادبا و شعرا سے متعلق مواد حاصل کرنے میں پیش آنے والی دشواریوں اور حوالہ جاتی مجلہ اجراکرنے کے وجوہات اور مقاصد وغیرہ جیسے امور پر بحث کی ہے۔

نندکشور وکرم نے اردو ز بان و ادب کی ترقی و ترویج کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایاتھا۔ اس حوالہ جاتی مجلے کو شائع کرنے کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد کا رفرمانہ تھا بلکہ انھوں نے اس رسالے کو بغیر کسی سرکاری یا غیر سرکاری امداد کے اپنی نجی آمدنی سے شائع کیا۔ وہ کسی شہرت اور مقبولیت کے خواہاں نہ تھے بلکہ وہ خلوص نیت سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے اجرا کرنے کا مقصد نہ صرف ہندو پاک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے شعرا و ادبا کی تخلیقات سے بھی قارئین کو روشناس کرانا تھا۔ اس حوالہ جاتی مجلہ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے نندکشور وکرم یوں رقم طراز ہیں:

’’حوالہ جاتی مجلہ عالمی اردو ادب کی اشاعت کا مقصد اردو قارئین کو سال بھر کا منتخب اردو ادب پیش کرنے کے علاوہ ہر طرح کی ادبی سرگرمیوں سے روشناس کرانا نیز تخلیقی اور معلوماتی مضامین پیش کرنا ہے۔‘‘

(نند کشور وکرم،عالمی اردو ادب ( پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرزکرشن نگر دہلی، 1986)، جلد نمبر3،ص 5)

در حقیقت اس طرح کے حوالہ جاتی مجلے کی ترتیب و تدوین کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا کام ہے لیکن نند کشور وکرم نے ایک ادارے کا کام انفرادی طور پر انجام دے کر ثابت کیا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ نہ صرف اس مجلے کے مدیر تھے بلکہ اس کے کمپوزر، کلرک بھی خود ہی تھے۔ اردو کے چند قارئین نے انھیں مالی معاونت کی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے صاف انکار کیا اور آخری دم تک اس مجلے کو اپنی ذاتی کمائی سے شائع کرتے رہے اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے آج تک جو بھی نمبر نکالے ہیں وہ اپنے پلے سے پیسے خرچ کرکے نکالے ہیں یعنی گھر پھونک تماشا دیکھا ہے... اگر مجھے ان نمبروں سے کوئی مالی منفعت حاصل کرنا ہوتی تو میں مرحوم ادبا وشعرا پر خصوصی نمبر کیوں نکالتا۔ ان تھرڈ اور سیکنڈ گریڈ ادبی شخصیتوں پر کیوں نہ نکالتا جو بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے مختلف رسائل میں اپنے خصوصی گوشے یا خصوصی نمبر نکلواتے ہیں۔‘‘  

(مشرف عالم ذوقی،نند کشور وکرم مشترکہ وراثت کا آخری داستان گو (ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی، 2019)،  ص 352)

نند کشور وکرم بھارت اور پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی رسائل و جرائد کا ہر سال مطالعہ کرکے معیاری تخلیقات کا انتخاب ’عالمی اردو ادب‘ کے لیے کرتے تھے۔ بھارت اور پاکستان کے رسائل و جرائد میں ہر سال شائع ہونے والے مضامین، افسانوں، نظموں اور غزلوں کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اوّل تو ایسے تمام رسائل و جرائد تک رسائی کا مرحلہ ہی خاصا دشوار تھا پھر ان سب کا مطالعہ اور چھان بین کے بعد اچھی تخلیقات کا انتخاب یقینا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن نند کشور وکرم یہ کام آخر تک بڑی فراخ دلی اور باقاعدگی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ سال میں ایک بار شائع ہوا کرتاتھا۔ ابتدا میں مجلے کو بہت کم لوگوں نے پسند کیا لیکن آہستہ آہستہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر مدیر مجلہ نندکشور وکرم نے 1994 میں اسے ششماہی کردیا۔ ایک شمارے میں معمول کے مطابق گزشتہ سال کے دوران بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہونے والی شعری و نثری تخلیقات کا انتخاب ہوتاتھا۔ شعری انتخاب میں نظمیں، غزلیں، دوہے، گیت، رباعیات اور قطعات ہوتے تھے جب کہ نثری انتخاب افسانوں اور مضامین پر مشتمل ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ کچھ اہم شاعروں اور ادیبوں کے سوانحی اشارے اور ’وفیات‘ کے زیر عنوان مرحومین ادبا کا تذکرہ بھی شامل ہوتاتھا نیز خراج عقیدت کے طو ر پر اہم شعرا اور ادبا پر مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ ’بخط شاعر‘ کے زیر عنوان مشہور شعراکے ہاتھ سے لکھی ہوئی تخلیقات شامل ہوتی تھیں۔ سال بھر کی ادبی خبروں کے علاوہ اہم اردو کتابوں کی فہرست، کتب خانوں کی فہرست، بھارت اور پاکستان کی مختلف دانش گاہوں میں کیے جانے والے تحقیقی کام کا جائزہ بھی دیکھنے کو ملتاتھا۔

مجلے کا کوئی شمارہ خصوصی نمبر بھی ہوتاتھا جس میں باری باری بھارت اور پاکستان کی ممتاز ادبی ہستیوں کے فن، شخصیت اور ادبی خدمات کا سیر حاصل جائزہ پیش کیا جاتا تھا۔ 2019 تک اس مجلے کے 44 شمارے شائع ہوچکے ہیں جن میں عام حوالہ جاتی شماروں کے علاوہ 14 خصوصی نمبرات بھی شامل ہیں۔ ان خصوصی نمبرات میں حبیب جالب نمبر 1994، احمد ندیم قاسمی نمبر  1996، علی سردار جعفری نمبر 2001، اشفاق احمد نمبر 2006، گوپی چند نارنگ نمبرفروری 2008، کشمیری لال ذاکر نمبر 2009، محمد حسن نمبراپریل2011،دھارمک ادب نمبرمئی 2012، سینما صدی نمبراگست 2013، کرشن چندر نمبر 2014، دیویندر اسر نمبر 2016، انتظار حسین نمبر دسمبر 2016، مصوّر یادگار غالب نمبردسمبر7 201 اور مشتاق احمد یوسفی نمبر 2018 شامل ہیں۔یہ نمبرات اتنے مقبول ہوئے کہ ہندو پاک کے بڑے بڑے ادیبوں اور قلم کاروں نے ان خصوصی نمبرات پر تعریفی و توصیفی الفاظ میں تبصرے کیے ہیں۔ذیل میں چند اہم خصوصی نمبرات کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نمبر:’ گوپی چند نارنگ :بین الاقوامی اردو شخصیت‘ کے عنوان سے شائع شدہ یہ خصوصی نمبر 415صفحات پر مشتمل ہے۔یہ ضخیم نمبر فروری2008 میں منظر عام پر لایا گیا۔اس خصوصی نمبر کو چھ حصّوں میں تقسیم کیا گیاہے۔پہلا حصہ’اوراقِ داستان ‘ کے عنوان سے ہے جس میں گوپی چند نارنگ کے مختصر سوانحی کوائف کے تحت ان کی تاریخ و مقامِ پیدائش،تعلیمی سفر،ملازمت،علمی و ادبی مشاغل،مختلف اداروں سے وابستگی،ان کی تخلیق کردہ اور ان پر تحریر شدہ کتابوں کی مکمل فہرست،قومی و بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے علاوہ انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل تفصیل بھی درج ہے۔اس حصے میں ’بقلمِ خود‘کے عنوان سے نوصفحات پر مشتمل گوپی چند نارنگ کی تحریر کردہ مختصر آپ بیتی بھی شامل ہے جس میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش سے لے کر اپنے ادبی سفر کے عروج تک کی داستان بیان کی ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’آئینہ زندگی۔ تصویریں ‘ کے عنوان کے تحت ہے جس میں گوپی چند نارنگ کی زندگی کے اہم موقعوں پر لی گئی یاد گار تصویریں شامل ہیں۔ان تصویروں میں گوپی چند نارنگ اپنے افرادِ خانہ،اردو کی مشہور اور نامور شخصیات کے علاوہ ملک کے سابقہ وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔اس خصوصی نمبر کا تیسرا حصہ گوپی چند نارنگ سے متعلق مشاہیر ِادب کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیرِ ادب میں احمد ندیم قاسمی،مشفق خواجہ،مجتبیٰ حسین اورمظہر امام وغیرہ شامل ہیں۔ چوتھا حصہ انٹرویوز پر مبنی ہے جب کہ پانچویں حصّے میں گوپی چند نارنگ کی سات اہم تحریروں کو شامل کیا گیا ہے جن میں ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘، ’ سانحہ کربلا بطورِ شعری استعارہ: اردو شاعری کا ایک تخلیقی رجحان‘ اور ’سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری اور اہم حصہ ’نقدونظر ‘ کے عنوان کے تحت درج ہے۔ اس حصے میں اردو کے بڑے بڑے محققین و ناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس حصے میں حامدی کاشمیری،شمس الرحمن فاروقی، عتیق اللہ، قمر رئیس،گیان چند جین، ناصر عباس نیرّاور وہاب اشرفی وغیرہ کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ غرض یہ خصوصی نمبر اس قدر مکمل اور بھر پور انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی شخصیت اور فکرو فن کا کوئی بھی پہلو نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔

کشمیری لال ذاکر نمبر: اپریل 2009 میں شائع شدہ یہ خصوصی نمبر چار حصوں پر مشتمل ہے۔’شخصیت‘کے عنوان سے شامل پہلے حصّے میں مختلف قلم کاروں نے کشمیری لال ذاکر کے سوانحی کوائف اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی تمام تصنیفات (اردو،ہندی، پنجابی)اور انھیں ملنے والے انعامات و اعزازات کی مکمل فہرست بھی درج کی گئی ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا دوسرا حصہ ’فکشن ‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں تین ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ ’ ناول نگاری‘ کے عنوان کے تحت درج پہلے حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے ناولٹ ’ سمندری ہوائوں کا موسم‘ کا متن دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری سے متعلق دو مضامین بھی شامل ہیں۔ دوسرے ذیلی حصّے کا عنوان ’ افسانے‘ رکھا گیا ہے۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کے سات افسانوںکو شامل کیا گیا ہے۔ان افسانوں میں ’اس صدی کا گرہن‘، ’ پھولا پتھیرن‘، ’شام بھی تھی دھواں دھواں‘ اور ’کورے تہمدکا درد‘ وغیرہ شامل ہیں۔تیسرا ذیلی حصہ ’ نقدونظر ‘ کے تحت درج ہے۔ یہ ذیلی حصّہ پہلے دو حصوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ حصہ پندرہ مضامین پر مشتمل ہے۔یہ مضامین اردو ادب کی مشہور و معروف ہستیوں جیسے بلونت سنگھ، جوگندر پال، خلیق انجم،رتن سنگھ،رشید حسن خان،شمس الرحمن فاروقی اور قمر رئیس وغیرہ کے رشحاتِ قلم کی دین ہے۔

اس خصوصی شمارے کا تیسرا حصہ ’ خاکہ نگاری‘ کے عنوان سے ہے۔اس حصے کی ابتدا میں ’کشمیری لال ذاکر: بحیثیت خاکہ نگار‘ کے عنوان سے آزاد گلاٹی کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں اردو ادب کی اہم شخصیات سے متعلق کشمیری لال ذاکر کے لکھے ہوئے چھ خاکے شامل ہیںجن میں جان نثار اختر،خواجہ احمد عباس،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی پر لکھے گئے خاکے قابلِ ذکر ہیں۔ زیرِ نظر خصوصی نمبر کا آخری حصہ شاعری کے عنوان سے ہے اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی شاعری سے متعلق اہم ادبا و شعرا کے مضامین شامل کیے گئے ہیں ایسے ادبا و شعرا میں علی سردار جعفری،قتیل شفائی، کیفی اعظمی اور گوپی چند نارنگ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس حصّے میں کشمیری لال ذاکر کی کچھ غزلیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اب تو اپنی چھائوں میں بیٹھا ہوں‘ کے عنوان سے ہے جو خود کشمیری لال ذاکر کا تحریر کردہ ہے جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔

کرشن چندر نمبر:  یہ خصوصی نمبر 2014 میں شائع ہوا۔ یہ خصوصی نمبر کرشن چندر کے صدسالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں انھیں خراجِ عقیدت کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ضخیم نمبر گیارہ حصّوں پر مشتمل ہے۔اس میں کرشن چندر کی شخصیت اور فن کا بھر پور انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خصوصی نمبر کا پیش لفظ ’ کرشن چندر زندہ ہیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر مجلہ نند کشوروکرم نے کرشن چندر کے فن پر بحث کرتے ہوئے انھیں ایک عظیم المرتبت افسانہ نگار اور زندہ جاوید فکشن نگار قرار دیا ہے۔

زیرِ نظر خصوصی شمارے کا پہلا حصہ ’ شخص اور شخصیت‘  کے عنوان سے ہے جس میں بلونت سنگھ،جگن ناتھ آزاد، خواجہ احمد عباس اور سلمیٰ صدیقی وغیرہ جیسے قلم کاروں نے کرشن چندر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔’اٹوٹ یادیں ‘ کے عنوان سے شامل دوسرے حصے میں کرشن چندر کے ہم عصر ادبا و شعرا جیسے جیلانی بانو،ساحر لدھیانوی،قرۃ العین حیدر،کشمیری لال ذاکر وغیرہ نے کرشن چندر سے وابستہ اپنی اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر سے بلونت سنگھ کا لیا ہوا ایک انٹر ویو بھی شامل ہے۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے حصے میں کرشن چندر سے متعلق مختلف ناقدین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے۔ پانچواں اور چھٹا حصّہ کرشن چندر کی افسانہ نگاری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔پانچویں حصے میں کرشن چندر کی افسانہ نگاری پر چھ مضامین شامل ہیں جب کہ چھٹے حصّے میں کرشن چندر کے آٹھ مشہور افسانوں کا متن دیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں اَن داتا، آدھے گھنٹے کا خدا،  پشاور ایکسپریس اور ’ مہالکشمی کا پُل‘ وغیرہ شامل ہیں۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا ساتواں حصہ ’کرشن چندر بحیثیت ناول نگار‘کے عنوان سے ہے۔اس حصے میں کرشن چندر کی ناول نگاری پر چار اہم مضامین کے علاوہ ان کے دو ناولوں ’ جب کھیت جاگے‘ اور ’ شکست‘ کے دو اہم حصّوں کا متن شامل کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس خصوصی نمبر میں کرشن چندر کے تحریر کردہ انشائیہ ’ دلیپ کمار کا نائی‘، ان کے تحریر کردہ ایک خط کا عکس،مختصر کوائف اور تصویریں بھی شامل ہیں۔اس خصوصی نمبر کا اختتامیہ ’اردو ادب میں ایک نئی آواز‘ کے عنوان سے ہے جومحمد حسن کی تحریرہے۔مختصراً یہ خصوصی نمبر کرشن چندر سے متعلق ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

مصور یاد گارِغالب نمبر: 448صفحات پر مشتمل یہ ضخیم نمبر دسمبر 2017 میں شائع ہوا ہے۔  ’ عالمی اردو ادب‘  کے تمام خصوصی نمبرات میں اس نمبر کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ وہ واحد نمبر ہے جو کسی متقدّم شاعر یا ادیب پر شائع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے یا اس کے بعد نند کشور وکرم نے جتنے بھی خصوصی نمبرات نکالے ہیں وہ تمام نمبرات انھوں نے اپنے ہم عصر ادبا و شعرا پر ہی نکالے ہیں۔

زیرِ مطالعہ خصوصی نمبر کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اوّل میں غالب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’توقیت غالب‘ کے عنوان سے شامل اس باب کے پہلے مضمون میں مالک رام نے 1750 سے 1880 تک غالب سے متعلق تمام اہم واقعات کو تاریخ وار درج کیا ہے۔اس باب کے دوسرے اہم مضامین میں محمد حسین آزاد  کا تحریر کردہ مضمون ’نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خاںغالب‘ اور محمد عتیق کا مضمون ’غالب  کی کہانی۔ غالب کی زبانی‘ شامل ہیں۔

’ مصور یاد گارغالب نمبر‘ کا دوسرا باب ’نقدونظر ‘ کے عنوان سے ہے۔اس اہم حصے میں اردو کے جن مشہور ومعروف محققین وناقدین کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ان میں امتیاز علی عرشی،عبدالرحمن بجنوری،قاضی عبدالودود، گوپی چند نارنگ اور گیان چند جین قابلِ ذکر ہیں۔ امتیاز علی عرشی غالب کی اپنے کلام پر اصلاحوں کو زیرِ بحث لائے ہیں اور غالب کے کئی ایسے اشعار کی نشاندہی کی ہے جن پر غالب نے خود اصلاحیں کی ہیں۔عبدالرحمن بجنوری نے اپنے مقالے میں کلامِ غالب  کے فنی محاسن کا جائزہ پیش کیا ہے۔قاضی عبدالودود کا لکھا ہوا تحقیقی مضمون ’جہانِ غالب ‘ غالب کے تحریر کردہ اردو اور فارسی خطوط کی عبارتوں سے مملو ہے۔’حالی،یادگارِ غالب اور ہم‘ کے عنوان سے شامل مقالے میں گوپی چند نارنگ نے مولاناحالی کی مشہورومعروف تصنیف ’یادگارِغالب‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کئی اہم سوالات قائم کیے ہیں۔یہ مقالہ نارنگ کی کتاب ’غالب معنی آفرینی،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات ‘ سے ماخوذہے۔گیان چند جین نے اپنے مضمون میں غالب کے ابتدائی کلام کا جائزہ لیتے ہوئے کلام ِ غالب میں فارسی کے استعمال کو اپنے مضمون کا محور بنایا ہے۔

زیرِ نظر خصوصی نمبر کے تیسرے باب میں غالبیات سے متعلق تحریر و ترتیب کردہ کتابیات کی فہرست درج کی گئی ہے۔16صفحات پر مشتمل اس طویل فہرست میں اردو کے علاوہ ہندی، پنجابی اور انگریزی کتابوں کی فہرست بھی شامل ہیں۔اس حصے میں مختلف رسائل وجرائد کے ان خصوصی نمبرات کی فہرست بھی درج ہے جو غالب پر شائع کیے گئے ہیں۔اس خصوصی نمبر کے چوتھے باب میں دیوان غالب  مرتبہ عبدالرحمن چغتائی بعنوان ’نقش چغتائی: دیوان غالب‘ کو شامل کیا گیا ہے۔یہ دیوان ’نسخہ حمیدیہ ‘ کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے۔ اس دیوان کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر تین چار صفحات کے بعد ایک صفحے پر ایک رنگین تصویر کے ساتھ غالب کا ایک شعر دیا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

زیرِ بحث خصوصی نمبر کا آخری باب ’دیوان غالب بخط غالب‘ کے عنوان سے ہے۔اس باب میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ سے متعلق تین اہم مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون امتیاز علی عرشی کا تحریر کردہ’غالب کا خود نقل کردہ دیوان اردو‘ کے عنوان سے ہے جس میں امتیاز علی عرشی نے ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو نہ صرف اہم اور نادر نسخہ قرار دیا ہے بلکہ اسے زمانی اعتبار سے ’ نسخہ حمیدیہ ‘ سے مقدم قرار دیا ہے۔اس حصّے میں شامل دیگر دو مضامین نثار احمد فاروقی کے تحریر کردہ ہیں۔انھوں نے اپنے مضامین میں ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے غالبیات کے سلسلے میں تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا ہے۔اس باب کے آخر میں 125صفحات پر مشتمل ’دیوان غالب نسخہ امروہہ‘ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ غرض اس خصوصی نمبر میں جہاں غالب کی سوانح، شخصیت اور شاعری پر مشاہیر ادب کے بہترین مضامین اور مقالات شامل ہیں وہیں دیوان غالب کے دو نسخوں کی اضافت سے اس خصوصی نمبر کی قدرومنزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

مذکورہ بالا خصوصی نمبرات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نندکشور وکرم نے بھارت کے علاوہ پاکستانی ادبا و شعرا پر بھی خصوصی نمبرات شائع کیے ہیں۔ جن کی اشاعت پر انھیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر انھوں نے اس مخالفت اور تنقید کی پروا کیے بغیر اپنا کام خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رکھا جس سے ان کا غیر جانب دارانہ رویہ و کردار نمایاں ہوجاتاہے۔

اس حوالہ جاتی مجلے کی ضخامت ابتدا میں 150 صفحات تھی جو آخر پر 450 صفحات تک پہنچ گئی۔ نندکشور وکرم نے اس مجلے کو ہر لحاظ سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس مجلے کے سرورق اور پشت پر اکثرو بیشتر مختلف ادبا و شعرا کی تصویریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ مجلے میں شعرا و ادبا کے قلمی نسخے بھی شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ 1993 کے شمارے کے سرورق پر اردو کے مشہور و معروف ادباو شعرا کے دستخط بھی موجود ہیں جن میں فراق گورکھپوری، دیویندر اسر، جمیل جالبی، اختر اورینوی، جوگیندر پال، شمس الرحمن فاروقی، بلراج کومل، مالک رام، خواجہ احمد فاروقی، صالحہ عابد حسین، ساحر لدھیانوی، راجندر سنگھ بیدی، قمر رئیس اور ندیم احمد قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مجلے میں مختلف ادبا و شعرا کی تخلیقات کے علاوہ مدیر مجلہ نند کشور وکرم کی تخلیقات و نگارشات بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتی تھیں۔

’عالمی اردو ادب‘ 1983 سے 2019 تک نند کشورو کرم کے نجی ادارے ’پبلشرز اینڈ ایڈ ورٹائزرز ‘ کرشن نگر دہلی سے مسلسل شائع ہوتارہا۔ اگست 2019 میں اس کے مدیر جناب نند کشور وکرم کے اچانک انتقال کے سبب اس کی اشاعت کا سلسلہ بند ہوگیا تھا لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور اس کا اڑتالیسواں شمارہ پروفیسر کوثر مظہری کی سرپرستی اور نوجوان اسکالر محمد یوسف رضا کی ادارت میں اکتوبر 2022 میں ’اکادمی اردو زبان و ادب‘ دہلی کے زیراہتمام شائع ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ یہ خصوصی شمارہ اردو کے مشہور ادیب ستیہ پال آنند کے احوال و کوائف اور ادبی کارناموں پر محیط ہے۔

حوالہ جاتی مجلہ ’عالمی اردو ادب‘ کے اداریوں کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ نند کشور وکرم ایک نڈر، بے باک اور تعصب سے پاک ادبی صحافی تھے۔ نند کشور وکرم نے علاقائی و مذہبی سطح اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی صحافتی کاوشوں کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دی ہے۔ اردو زبان و ادب کو کسی مذہب سے وابستہ کرنے کی شدید مذمت و مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے اردو زبان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ عالمی اردو ادب کے اداریوں میں انھوں نے اس بات کا تذکرہ بارہا کیا ہے۔

 الغرض ’عالمی اردو ادب‘ جیسا ضخیم حوالہ جاتی مجلہ جاری کرکے نند کشور وکرم نے ادبی صحافت کے میدان میں ایک بہترین اور قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے جو لائق تحسین ہے۔

 

Sartaj Ahmad Mir

Research Scholar, Dept of Urdu

University of Hyderabad

Hyderabad- 500046 (Telangana)

Mob.: 9469422228

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...