2/7/24

دکنی ادب کے فکری اور ثقافتی حوالے، مضمون نگار: عبد الحق

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


وقت ایک تسلسل کا نام ہے۔جو ازل سے ابد تک ایک لمحے کا وقفہ کیے بغیر آگے کی طرف گامزن ہے۔ اسے قیام ہے اور نہ آرام۔ قدرت نے تکوینی نظام کے تحت رات اور دن کو اندھیرے اور اجالے میں تقسیم کیا ہے، جو بشری ضرورتوں کی کفالت کے لیے ہے۔ ہرلمحہ ماضی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔گزرے ہوئے زمانے کو قدیم شمار کرتے ہیں، جو اسی زمانِ تسلسل کا حصہ ہوتا ہے۔گویا جدید وقدیم کا شمار انسانی تصورات کا پیدا کردہ ہے۔مکاں کا بھی یہی معاملہ ہے۔شمال وجنوب بھی تکوینی اشارات ہیں۔ انسان کو ان حدود سے بے نیاز اور بالاتر آفاق سے بھی پرے اور بے کراں پہنائی کے حامل تصورات کا پیکر بنایا گیا ہے۔ اسے ان تعینات میں محدود ہونے سے منع کیا گیا ہے۔بندوں کو شب وروز یا شمال وجنوب کے پھندوں میں گرفتار نہ ہونے کی تاکید وتنبیہ کی گئی ہے۔ دستورِ دین کا بھی یہی منشا اور ماحصل ہے۔ مگر اولاد آدم کی بدنصیبی دیکھیے کہ وہ آفاقی وسعتوں سے قطعِ نظر ملکوں اور شہروں کے ساتھ مختلف اطراف کے محدود تصورات میں گم ہوگیا ہے۔ذہنِ انسانی کی بد مذاقی قابل افسوس ہے کہ ہم شہروں اور علاقوں کی عصبیت کے شکار ہوگئے۔ہمیں آفاقی اور چرخِ نیلی فام سے بھی پرے کی بے کراں وسعتوں سے آشنا کیا گیا تھا۔ مردِ آفاقی جو ارض وسماں کی پہنائیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتا ہو وہ شمال وجنوب میں دربدری کا شکار ہوجائے یہ کسی بوالعجبی سے کم نہیں۔

دکن کے دیدہ ور سخن ور ولی کی وسعت ِ نظر ملاحظہ ہو:ولی کی وسعتِ فکر سے دبستانِ دکن کے فکری رویے اور رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ دکن کے شعرا کا یہ رویہ ان کے فکری امتیاز کی علامت ہے۔ولی کو بطور مثال ملاحظہ فرمائیں          ؎

ہرگز ولی کے پاس تم باتاں وطن کی مت کہو

جو نیہہ کے کوچے میں ہے اس کوں وطن سے کیا غرض

اسی وسعتِ نظر کی وجہ سے ولی جنوبی ہند سے شمال کی طرف طویل سفر کی تکلیفوں کو گوارا کرتے ہیں۔ دہلی کے شعرا نے لکھنؤ کا سفر کیا۔ وہ بھی تلاشِ معاش یا ذاتی آرام و آسائش کی خاطر۔جب کہ ولی نے ان سب سے بے نیاز ہوکر دہلی میں قدم رنجہ فرمایا۔ میر نے لکھنؤ میں پناہ لی مگر دہلی کی یادیں دل سے زائل نہ ہوئیں۔ دہلی اندوہِ دل کا سبب بنا رہا وہ لکھنؤ کو کوستے بھی رہے۔ انھیں کا قول ہے       ؎

خرابہ دہلی کا دہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا

وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتایاں

متاعِ ہنر پھیر کر لے چلو

بہت لکھنؤ میں رہے گھر چلو

شایدہی کسی ادب کو یہ تخلیقی امتیاز حاصل ہو کہ اس کا پہلا فن کار اتنی ضخامت رکھتا ہو۔ اور پھر شعری اعتبار سے دیکھیے کہ روایتی غزل کے علاوہ دوسرے اصناف پر بھی عبور رکھتا ہو۔ کرۂ زمین کے ہر خطے کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ جو ادب و دانش کے ساتھ ذکر وفکر کے سرچشموں پر مخصوص اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ ایک لاشعوری عمل ہے جو نوعِ بشر کے باطن کو غیر محسوس طور پر تغیرات سے دوچار کرتا رہتا ہے۔

راقم کے نزدیک دکنی ادب کا ایک نمایاں امتیاز قلی قطب شاہ کا وجود ونمود ہے جو ایک بے مثال گراں مایہ سرمایۂ سخن کا خالق ومالک ہے ان کی بے کراں تخلیقی فعالیت اور شعری ثقافت کی جامعیت حیرت فروز ہے۔ اردو ہی نہیں عالمی ادب کی بیش تر ترقی یافتہ تخلیقات میںیہ مثال موجود نہیں ہے کہ اسی سے سخنوری کا آغاز ہو اور ایک عظیم فن کا ر بن کر عرصۂ ادب پر نور فشاں ہو وہ لاکھوں اشعار کی تخلیق کا باعث بنے۔ اور صدیوں تک فن کی تخلیق وتزئین کی فیض رسانی کا سرچشمہ قرار پائے ساتھ ہی نظم ِسلطنت اور امور ِسیاست کے معاملات کی پاسبانی بھی کرتا رہے۔ تخلیق کے کاتب ِ تقدیر نے یہ سعادت دکنی ادب کے مردِ دانش کی پیشانی جمالی پر رقم کی تھی۔

آپ اندازہ لگائیں کہ دکنی تخلیق کے سرمایے میں کیسے کیسے نابغۂ روزگار ہیں جو ہماری حیرت فزائی میں اضافہ کرتے ہیں۔قلی قطب شاہ (1525-1612)  پہلے صاحبِ طرز تخلیق کار تصور کیے جاتے ہیں۔قلی قطب شاہ عالمی ادب میں ایک بے مثل فن کار ہیں۔ وہ ایک مملکت کے مالک اور پوری ریاست کے حکمراں ہیں۔ امور ِ سلطنت کی مصروفیت دیکھیے اور سرمایۂ سخنوری کا وزن ووقعت ملاحظہ ہو جس کے دامن سخن میں تقریباً تین لاکھ اشعار موجود ہوں۔ دنیائے تخلیق کا یہ معجزہ ہے کہ پہلا شاعر شعری ثروت سے اس حد تک گراں بار ہے TGraham Bailyنے اپنی کتاب میں اس عجوبے کا اظہار کیا ہے:

"It is astonishing that the first poet should have been so well equipped"    

شاید ہی کسی ادب کو یہ تخلیقی امتیاز حاصل ہو کہ اس کا پہلا فن کار اتنی ضخامت رکھتا ہو۔ اور پھر شعری اعتبار سے دیکھیے کہ روایتی غزل کے علاوہ دوسری اصناف پر بھی عبور رکھتا ہو اور انسانی محسوسات کے لطیف ترین عنوانات ان کے کلام میں کثرت سے موجود ہیں۔ جس نظم نگاری کا ذکر انگریزوں کی آمد سے کیا جاتا ہے اس کی ابتدا ہی نہیں بھر پور صورتوں میں معانی کے یہاں کثرت سے موجود ہیں۔ ہندوستان کے خاک وخمیر اور دین وثقافت کی تصویروں کے مرقعے قلی قطب شاہ نے جس کثرت سے قلمبند کیے گئے ہیں وہ ادب میں ایک مدت تک موقوف رہے ہیں۔ ان کی غزل آج بھی شہرۂ عام کی صورت رکھتی ہے          ؎

پیا باج پیالا پیا جائے ناں

پیا باج یک تل جیا جائے ناں

کتے ہیں پیا بن صبوری کروں

کیا جائے اما کیا جائے ناں

قلی قطب شاہ نے مظاہرِفطرت کے آغوش میں پلنے والے انسانی جذبات کی ترجمانی کو معراجِ کمال کی بلندی بخشی ہے وہ مقامی مزاج ومظاہر کو شعری اسالیب کے پیراہن میں پیش کرنے والے پہلے فن کار ہیں۔ دکنی ادب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں عجم کے ساتھ عربی ثقافت کی بھی نمایاں طور پر ترجمانی ہوتی رہی ہے۔قلی قطب شاہ کے کلام میں وافر مثالیں موجود ہیں ایک مثال ملاحظہ ہو        ؎

کروں ابتدا حمد کرتار کا

کہ منعم ہے کرتار سنسار کا

وہی رب نرنجن ہے لاریب فیہ

ثقافتی اسالیب کا اظہار قلی قطب شاہ کا وصفِ خاص ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو       ؎

یوسفِ گم گشتہ آئے گا بہ کنعاں غم نہ کھا

گھر ترا امید کا ہوگا گلستاں غم نہ کھا

خواجہ حافظ کا شعر ہے        ؎

یوسفِ گم گشتہ آید بہ کنعاں غم مخور

کلبۂ احزاں شود روزے گلستاں غم مخور

خواجہ شیراز کی کئی غزلوں کے تراجم ان کا منفرد شعری اسلوب ہے۔تہذیبی کثرتوں کے علائم وآثار سے قلی قطب شاہ کی شہرت ومقبولیت اور مطالعہ وتحسین میں متواتر اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہماری کم نگہی ہے کہ ہم نے بارہ پیاریوں تک اپنی تنقید کو محدود کرکے ایک عظیم فن کار کی ذہنی وفکری وسعتوں کو نظر انداز کیا ہے         ؎

نیناں اجھوں سو دھووں پگ اپ پلک سو جھاڑوں

جے کوئی خبر سوں لیاوے مکھ پھول کا تمہارا

تج خیال کی ہوس تھی ہے جیو ہمن سو زندہ

اوخیال کد نہ جاوے ہم سر تھے ٹک بہارا

قلی قطب شاہ کے پیشِ نظر ثقافت کے مختلف رویے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، جن سے ہندوستانی تہذیب عبارت ہے۔عرب کے سوزِ اور عجم کے ساز کے ساتھ ہندی نغمے کا آہنگ قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں سے اردو ثقافت کا خمیر تیار ہوا ہے۔ قلی قطب شاہ نے اپنے فکروفن کی ترکیب وتطہیر میں ان عناصر کو شریکِ فن بنایا ہے وہ اپنا تقابل انھیں تہذیبی تلازموں سے کرتے ہیں۔

معانی شعر تیرا ہے یا کہ شعرِ خاقانی

ولی کا مصرع یاد آتا ہے       ؎

سنیں تو وجد کریں انوری وخاقانی

معانی پروردۂ دکن تھے۔ مگر عرب وعجم کے ثقافتی سرمایے سے بھر پور آگہی رکھتے تھے۔ نوع ِ بشر کے جذبہ واحساس کی دنیا بھی ان کے دامن ِ نگاہ سے دور نہ تھی۔ لطیف محسوسات سے دنیائے تخلیق منور کی            ؎

اے خوش خبر صباتوں لے جا جواں قداں کن

چمناں کی آرزو میں بیٹھے ہیں مے پرستاں

گلالی ہیں گالاں پیالے ملھاری

نویلی نئی کونپلیاں تھے جو انی

یہ امتیاز بھی قابلِ ذکر ہے کہ تخلیق کے معیار اور محاسن پر حکیمانہ گفتگو کے نکات دکن کے سخن وروں نے پیش کیے ہیں۔ بلکہ ان کی ترجیحات میں یہ موضوع ناگزیر اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے شعریات کے ضابطوں کی حنا بندی کی ہے دنیائے فن کا دستور ِ دین رقم کرنے میں دکن کے شعرا کی بصیرت افروز نگاہوں کو آفریں کہتا ہوں۔ جنھوں نے ادب وتخلیق کے آغاز میں ہی انتقادی اصول واسالیب متعین کیے اور شعری تنقید کے ضابطوں کی بنیاد رکھی۔ وہ ضابطے بھی ایسے مستحکم اور منظم ہیں کہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی معنویت اور اہمیت آج بھی مسلم ہے اور نقدِ شعر کے لیے مستعمل ومتداول ہیں۔ ان سے انحراف یا چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ وہ اصول بلند تخلیقی اقدار کے حامل ہیں جن پر اسلاف نے غور وفکر کے بعد انتقادی آئین کی اساس قائم کی تھی۔ انتقادی آئین کے اصول دکن کے فن کاروں کے لیے انتقادی حکم نامے کی حیثیت سے محترم تھے وہ خلوص کے ساتھ ان ضابطوں پر کاربند رہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی انھیں لازم قرار دیا۔ ان کے قلم سے رقم کیے ہوئے ان انتقادی اصولوں میں آج ابدیت کی تصویر محفوظ ہے۔ یہ دکنی ادبیات کا ایک امتیاز ہے کہ شعری انتقادیات کے اصول واسالیب منضبط کیے گئے۔ اور ان کی مربوط اور بلند تخلیقی ہنر مندی سے معمور مثالیں بھی پیش کی گئیں۔ شمال میں دور دور تک ایسی نظیر نہیں ملتی۔مختلف فن کاروں نے منتشر اور غیر مربوط طور پر کہیں کہیں فن میں اظہار کیا۔ اس انتقادی بحث کی بہترین مثال ملاوجہی کی تخلیقات ہیں۔

دکنی سرمایۂ ادب کا ایک دوسرا دُرِ شاہ وار ملاوجہی (وفات1659)ہے۔ راقم کے نزدیک ملاوجہی ایک حیرت فروز شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو ادب میں ان کا کوئی حریف نہیں ہے۔ وہ ایک گراں قدر شعری تخلیق مثنوی اور بے مثل تمثیل کے موجد ومالک ہیں۔ نیرنگ خیال کے مصنف کے نوشتۂ تقدیر میں دو ہزار سے زائد بیانیہ اشعار پر مشتمل کوئی کتاب نہیں ہے۔ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ وجہی کے روبرو اردو میں کوئی ایسی نظیر نہ تھی۔تمثیلی ادب کے وہ معمار ِ اول ہیں۔ وہ بجا طور پر ملک الشعرائی کے مستحق تھے۔ اردو کو یہ پہلا اعزاز بھی ان کے توسط سے حاصل ہوا۔  فنی یا شعری اصولِ نقد پر قطب مشتری کے منظوم بیانات کو اولین نقوش میں شمار کرسکتے ہیں۔ اشاروں میں دراصل پوری شرح وبسط موجود ہے یہ اصول قدما کے زمانے سے مروج ومعروف تھے۔وجہی نے ان ضابطوں کو نئی زبان کے تخلیقی مزاج کو متعین کرنے کے لیے لازمی سمجھا اور مثنوی میں منظوم کیا۔ اس پر قدرے تفصیل سے گفتگو درکار ہے۔ دراصل قطب مشتری کسی جہاں نما سے کم نہیں۔ وجہی نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہ مثنوی نگاری کا طرزِ بیان بن کر مقبول ہوا۔ وجہی نے انتقادی بصیرت کو بروئے کار لاکر تنقیدی ضابطے متعین کیے ہیں۔جنھیںہم کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان اصولوں کو شعری سخن وری کا دستور دین کہہ سکتے ہیں۔

مثنوی کی ابتدا میں حمد ونعت ومنقبت کے بعد ’در شرحِ شعر گوید‘ کا باب ایک انوکھی نظیرہے۔وجہی نے انتقادی آگہی کے ساتھ شعری تخلیق کے اصولِ فن مرتب کیے ہیں۔تقریباً 72  اشعار پر مشتمل یہ شعری انتقاد نامہ اور نقدِ شعر کا ضابطۂ تخلیق ہے۔ ان اصولوں کی شرح وتفسیر کے لیے پوری کتاب رقم کی جاسکتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تنقید کے ان حکیمانہ نکات کی معنویت ابتدائی دور کے فن کاروں کی انتقادی فرزانگی کی فکر انگیز مثال پیش کرتی ہے۔ ربطِ کلام کو دستور ِ شعر کا اساسی رکن قرار دیا گیا ہے۔ بے ربط گفتگو کو ممنوع اور ناسزاوار دید کہہ کر اس سے پرہیز کرنے کی دعوتِ فکر دی گئی ہے۔ دوسرا اہم رکن کلامِ سلیس ہے سلاست سے معمور ایک شعر ’غیر سلیس‘ پچیسوں اشعار سے بہتر اور معتبر ہے۔وجہی کی جرأت ِ گفتار دیکھیے کہ وہ اعلان کرتے ہیں کہ جسے مربوط شعر کہنے کا ملکہ نہیں اسے شاعری سے سروکار رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بسیار گوئی بڑا عیب ہے۔ خوب سے خوب ایک شعر ہزاروں شعر پر سبقت رکھتا ہے ایک اور اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ومعنی میں ہم آہنگی یا ارتباط لازم ہے ورنہ شعر اثر آفرینی اور رعنائی خیال کے اظہار سے محروم ہوگا۔ ملاوجہی کے فکر افروز شعری بیان ملاحظہ ہوں          ؎

جو بے ربط بولے بتیاں پچیس

بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس

جسے بات کے ربط کا فام نئیں

اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں

نکوکر توں لئی بولنے کا ہوس

اگر خوب بولے تویک بیت بس

علامہ اقبال نے ارتباطِ لفظ ومعنی پر حکیمانہ گفتگو کی ہے۔ اسے جان وتن کے ارتباط سے تعبیر کیا ہے۔جدید اردو تنقیدکی پہلی کتاب مقدمہ شعر وشاعری کے مباحث پیش نگاہ ہیں۔ا رتباط ِ کلام،سلاست اور لفظ ومعنی کے رشتوں پر حالی نے بہت زور دیا ہے۔یہ سارے نکات اسلاف اور قدما کے اصولوں سے ہی ماخوذ ومستعار ہیں۔ مگر ان کی تجدید اور تفکیر پر دکن میں بڑی توجہ دی گئی ہے وجہی کی بصیرت کو آفریں ہوکہ انہوں نے تین سو سال قبل ان اصولوں کی حنا بندی کی۔ انہوں نے لفظ ومعنی کے ارتباط کے ساتھ لفظوں کے انتخاب کا شعور بھی لازم قرار دیا ہے۔یہ بھی ہے کہ اساتذہ کے مستعمل ذخیرۂ الفاظ سے استفادہ ضروری ہے        ؎

چنے لفظ لیا ہور معنی بلند

کتنے پتے کی بات کہی ہے کہ لفظوں کے انتخاب کے ساتھ معنی کی بلندی سے معمور الفاظ ہی مستعمل ہوں تاکہ عظمت ِشعر قائم ہو۔ یہ ایک کلیہ ہے جو تخلیقی ہنر مندی کے لیے جوہرِفن کی حیثیت رکھتا ہے۔معنی کی تہہ داری اور تمازت سے ہی فنی محاسن ممکن ہے۔ اس باب میں کئی اور بھی اہم اصولوں کا ذکر ہے۔وجہی نے بڑی دردمندی سے جاوداں فن کے لیے انھیںلازم قرار دیا ہے گویا جگر کاوی یا خونِ جگر کے بغیر کوئی فن پارہ دیر پا نہیں ہوسکتا۔

وجہی نے اپنی زبان میں اس نکتے کو اس طرح بیان کیا ہے        ؎

ہنروند اس کون کھیا جائے گا

جکوی اپنے دل نے نوا لیائے گا

ان کے علاوہ وجہی نے فن کو مقدس اور وہبی فیضان بتایا ہے۔ اس کے دائرہ اظہار میں پاکیزہ مضامین کی ہی گنجائش ہے         ؎

ہر ایک بول ہے وحی یو بول نین

اس سلسلۂ کلام کے اختتام پر ایک اور مثال حاضر کرنا چاہوں گا۔وجہی نے شعری فن کو نگینہ سازی سے تشبیہہ دی ہے گویا آراستگی یا حسن آفرینی کو تلازمۂ فن بتایا ہے۔ساتھ ہی اس عمل میں مشقت و مزاولت کو تقاضائے فن قرار دے کر ایک بڑی حقیقت کا اعتراف کیاہے       ؎

سنار ہوکے سننے کے لفظاں گھڑیا

تن معنی چن چن انن پر جڑیا

مشق ومحنت کے بارے میں وجہی نے لکھا ہے        ؎

یتا میں مشقت کیا اس سبب

کہ پڑھ کر اسے منج کریں یاد سب

دیگر فن کاروں کی طرح ولی نے بھی جگہ جگہ شعری صنعت گری کے اصولوں پر اشارے کیے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے        ؎

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں

تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

جہانِ تازہ کی افکار ِ تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

 ولی نے نازک خیالی پر زور دیا ہے اور اپے فن کی خوش نمائی میں اسے تحسین کے طور پر پیش کیا ہے         ؎

ہوا ہے شہرہ عالم میں مری نازک خیالی کا

اپنی طبیعت کے فطری تقاضے یا خمیر میں شامل اس عنصر کو نشان زد کیا ہے         ؎

ولی ہر شعر میں میرے نزاکت جلوہ پیرا ہے

عزیزاں طبع میں میری عجب نازک خیالی ہے

یہی نازک خیالی ہے جو فکر ِعالی کے وجود ونمود کا سبب بنتی ہے ولی کی نازک خیالی کے یہ لطیف اشارے خود ان کے کلام کی سب سے ممتاز خوبی ہے۔ جن میں حسن ولطافت اور پاکیزگیِ خیال کو فکرِ عالی سے ہم کنار کیا گیا ہے        ؎

جگ کے ادا شناساں ہیں جن کی فکر عالی

رنگیلے شعر کا کہنا کیا تھا ترک مدت سوں

بلند خیال رکھنے والے ہی مرے اشعار کی قدر کرسکتے ہیں        ؎

اے ولی جوکہ ہیں بلند خیال

شعر میرا پسند کرتے ہیں

وجہی نے فکر ِ بلند کو خوش آمدید کہا تھا۔ولی بھی اس فکرِ عالی کو سربلندی عطا کرتے ہیں۔فن میں فکر کی بلندی وبرنائی ملزوم ہے۔ولی کے نزدیک فکر ِ عالی رکھنے والے ہی جذب وجنوں کے کیف سے سرشار ہوسکتے ہیں        ؎

کہ عشق سروقد رکھتا ہے جس کی فکر عالی ہے

دوسری جگہ اسی کو فکر ِ رسا سے تعبیر کیا ہے۔خود ستائی میں یہ خیال در آیا ہے      ؎

پڑھتے ہیں ولی شعر ترا عرش پہ قدسی

باہر ہے تری فکرِ رسا حدِّ بشر سوں

ولی نے نقدِ شعر کی نسبت سے ایک اور حکیمانہ راز بیان کیا ہے جس کی ادب میں بڑی اہمیت ہے۔ فن کو خواص پسند نہیں بلکہ اسے جمہور کے جذبات کا ترجمان ہونا چاہیے۔ تصورِ تخلیق کی یہ عمومیت پسندی قابل ذکر ہے        ؎

اپنے اشعار کو ہرگز توں نہ دے جذبۂ خواص

ولی کا یہ نکتہ ان کی شعری وفکری تخلیق کا آئینہ ہے۔ ادب کو عوام سے تعلق ہے مخصوص اشرافیہ سے نہیں۔فن کو عوام کے جذبہ واحساس کی ترجمانی کے لیے وقف ہونے کی ضرورت ہے        ؎

میر نے بھی شعر میرے ہیں گو خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

کہہ کر ولی کے نقطۂ نظر کی تائید کی ہے۔ دکن کے سخن وروں کی تنقیدی نظر پر مزید غور وفکر کی ضرورت ہے۔وجہی کی طرح لفظ ومعنی کے ارتباطِ حسن پر بھی ولی کی نظر ہے۔جس میں ان کی شعری اور حکیمانہ بشارت بھی شامل ہے۔ معانی کی پُر نور معنویت ولی کے پیشِ نظر ہے۔ اور لفظ رنگیں کی سحر آفرینی سے آگہی اس ارتباطِ حسن کی محکم دلیل ہے        ؎

نورِ معنی ہے آفتابِ سخن

لفظِ رنگیں ہے مطلعِ رنگیں

جلوہ پیرا ہو شاہد ِ معنی

جب زباں سوں اٹھے نقابِ سخن

قلی قطب شاہ کا کلام بھی فن کے نقد وانتقاد کی نکتہ آفرینوں سے بھر پور ہے۔محمد نصرت نصرتی(وفات 1674) نے کلام رنگیں کو  گھنیرے شعر شوقِ افزا سے تعبیر کیا ہے۔ اس ترکیب کی وسعت اور بے کراں معانی کی پہنائی قابل غور ہے      ؎

بکھاں اے نصرتی ہر دم گھنیرے شعر شوق افزا

فن اور نقدِ فن کے نظریات پر دکن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ایک جامع مقالے کی متقاضی ہے۔ یہاں چند فن کاروں پر اشارے کیے گئے ہیں         ؎

شعر ی انتقاد کا احساس اور اظہار تقریباً ہر فن کار کے پیشِ  نظر ہوتا ہے۔ یہ دکن پر ہی موقوف نہیں۔ راقم کا معروضہ یہ ہے کہ ہمارے قدیم کلاسیکی فن کاروں نے اصولِ فن پر بہت ہی مفید اور اہم گفتگو کی ہے۔ فن کے محاسن ومعائب پر اصولی کتاب نہ سہی مگر اشعار میں ان کے مباحث اور محاسبے منتشر صورتوں میںموجود ہیں۔

بعض مفروضات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ بلکہ وہ بڑے مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ لمحوں کی بے بصیرتی نے قرنوں اور صدیوں تک گمراہی پھیلائی ہے۔ دکنی ادب کی تفہیم وتحسین بھی ایک بے بنیاد مفروضے کی ہدف بنی رہی۔ حیرت ہے کہ اردو کے ایک بڑے فن کار جس کو ہم خدائے سخن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ میر تقی میر نے اپنے تذکرہ نکات الشعرا کے آغاز میں ایک انتہائی اندوہ ناک بات لکھ دی:

’’ریختہ از دکن است۔ چوں از آنجا یک شاعر ِ مربوط برنخواستہ لہٰذا شروع بنام آنہا نکردہ‘‘

گویا پورے دکنی ادب کو لائقِ اعتنا نہ سمجھا اور کسی بھی فن کار کو شاعرِ مربوط نہ کہہ کر اردو ادب کی پہلی تاریخی کتاب یا تذکرے میں پہلا پتھر غلط مفروضے پر رکھا گیا۔ کج فہمی کی وہ دیوار آج تک درست نہ ہوسکی۔

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر

ایک دوسرا مفروضہ ایہام گوئی کی تاریخ سے شروع ہوا۔ جب اردو کو ’بموافقِ محاورۂ شاہ جہان آباد‘ کے اعلامیہ سے سابقہ پڑا۔ زبان وبیان کی بے کراں وسعتوں کو شہروں اور علاقوں میں محدود کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔اس بیش بہا سرمایۂ ادب کی باز آفرینی کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس ذخیرے کے امتیاز اور امکانات بے حد وسیع اور وقیع ہیں۔ اس ادب نے اردو ادب کی تاریخ کی قدامت کو تین سو سال سے زائد اضافے کی صورت بخشی ہے۔ اردو کی تاریخ اٹھارہویں صدی یاشاہ حاتم وآبرو سے نہیں شروع ہوئی۔فخرالدین نظامی کی مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ (1421- 1434) کو ابتدائی تخلیق کہا جاتا ہے۔ راقم کی نظر میں ہماری ادبی تخلیق نظامی سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل ملا داؤد (ولادت1286)کی مثنوی چندائن سے شروع ہوتی ہے۔یہ ہماری بدتوفیقی نہیں بلکہ حرماں نصیبی ہے کہ ہم نے ملا داؤد کو دوسروں کے حوالے کرکے ناقابلِ تلافی نقصان کیا ہے۔ یہ خسرو کے معاصر ہیں۔ خسرو کا سارا کلام مشکوک ومشتبہ ہے مگر ملا داؤد کا نہیں۔وہ متعین اور تحقیق شدہ ہے۔نمونۂ کلام ملاحظہ ہو        ؎

پرش ایک سرجس اجیارا

ناؤں محمدؐ جگت سوں پیارا

جبہ لگ سبے پرتھمی سری

او تہ ناؤں منادی پھری

فخرالدین نظامی کی زبان بھی دیکھ لیں         ؎

محمدؐ بڑا راوتِ جگ تھا

کہ شجرا چرن رائے جگ مگ تھا

نبی یار تھے یار تھے جھار جھار

بچارن نبی کام کرتے بچار

دکن نے مقامی زبانوں اور بولیوں کو ہم قبول کیا اور وسعتِ نظر کا ثبوت دیا۔ جو بعد میں متروک ہوگیا۔

دکنی ادب کو قدامت کے اعتبار سے بڑا امتیاز حاصل ہے۔ ہماری ادبی تاریخ صدیوں پرانے سرمایۂ تخلیق کے بہت بڑے ذخیرہ سے گراں بار ہے۔یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ قدیم دور میں قابلِ رشک فن کاروں کی ایک کہکشاں آباد ہے۔ قلی قطب شاہ کے علاوہ وجہی، نصرتی، غواصی، ابن نشاطی جیسے سخنور اپنی مثال آپ ہیں۔ زمانی اعتبار سے اس ادب کو ایک فوقیت اور اولیت حاصل ہے۔ اس ذکر کے بغیر ادب کا تصور محال ہے۔ ابتدائی دور ہونے کے باوجود تخلیقی سرمایہ بے کراں وسعتوں سے ہم دوش ہے۔ بیانیہ شاعری کی ایسی مثال مشکل سے ملے گی۔ دکن کا یہ بھی ایک مخصوص امتیاز ہے بیانیہ شاعری نے مثنوی نگاری کو فروغ بخشا۔ یہ شاعری جذبہ واحساس کے ساتھ مظاہرِ عالم کی ترجمانی کا مؤثر وسیلہ ہے۔

اردو اور ولی دونوں مخلوط معاشرہ کے پروردہ تھے۔ دونوں کی سرشت میں لسانی اور ثقافتی سرشاری کا جوہر خاکِ وطن سے عبارت ہے۔ ولی صاحب نظر اور دور اندیش لسانی مبصر تھے۔ وہ مستقبل اور مقبولیت حاصل کرنے والی زبان کو اپنے آئینہ ادراک میں محسوس کرچکے تھے وہ جنوب وشمال کے فرق اور فاصلے کے قصے کو ایک جست میں تمام کرنے والے لسانی مفکر کی حیثیت سے پردہ ٔتخلیق پر نمودار ہوئے۔ کلام میں بکھرے جابجا اشعار کے حوالے ہی کافی نہیں ہیں پوری پوری غزل مذکورہ بحث کی حمایت میں موجود ہے جن سے ولی کی بصیرت کا عرفان ہوتا ہے۔ کلیات کی غزل 441کے چند اشعار لسانی حوالوں کے لیے توجہ طلب ہیں          ؎

کوچہ یار عین کاسی ہے

جوگی دل وہاں کا باسی ہے

اے صنم تج جبیں اپر یہ خال

ہندوئے ہر دوار باسی ہے

زلف تیری ہے موج جمنا کی

تل نزک اس کے جیوں سنیاسی ہے

اس امتیاز کی دل کشا روایت کی مثالیں قلی قطب شاہ اور ولی کے کلا م میں کثرت سے موجود ہیں۔ راقم کے نزدیک یہ عنصر دکنی ادب کی ایک نمایاں شناخت ہے۔ بلکہ اسے ایک عام رجحان یا رویہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جلیل القدر شاعر ولی پر اکتفا کرکے تفصیل سے گریز کررہا ہوں۔ ولی نے مذہبی اقدار واعمال کے خمیر سے اپنی شعری تخلیق کا ایوان تعمیر کیا ہے۔ تلمیحات واشارات کی یہ کثرت اور تکراراقبال کے علاوہ اردو کے کسی دوسرے فن کار کے شعری مجموعے میں موجود نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کئی امور میں ولی واقبال ایک دوسرے سے قریب نظر آتے ہیں۔ ولی کی شاعر میں مذہبی حوالوں یا اقدار کا اجتماع ایک خوش نما کشکول ہے۔

تہذیبی علائم وآثار کے ذکر سے دکنی ادب خصوصیت کے ساتھ قابلِ رشک ہے۔ مثنویوں کے ساتھ غزلوں میں بھی روشن مثالیں ملتی ہیں۔تینوں ثقافتی زاویے معاشرتی زندگی کی ہم آہنگی کی دلیل ہیں۔ یہ صرف ان کے ذاتی دین ومذہب تک محدود نہیں ہے۔ عقیدہ ومسلک کے اساطیری اثار وعلائم کے وافر اشارات ولی کے کلام میں موجود ہیں          ؎

ہوتا ہے جیو مرا شاد اس کی بنسی سوں

گنگارواں کیا ہوں اپس کے نین سیتی

آ رے صنم شتاب ہے روزِ نہان آج

جودھا جگت کے کیوں نہ مریں تج سوں اے سجن

ترکش میں تج نین کے ہیں ارجن کے بان آج

گرچہ لچھمن ہے تیرا نام ولی

اے سجن تو کسی کا رام نہیں

یاد کرکے خط کوں زلف صنم

کام ہندو کا بید خوانی ہے

کیا وفا دار ہیں کہ ملنے میں

دل سوں سب رام رام کرتے ہیں

تری زلفاں کے حلقہ میں رہے یوں نقشِ رخ روشن

کہ جیسے ہند کے بھیتر لگیں دیوے دوالی کے

ہندو عرب کے ثقافتی آثار کے ساتھ ایران کے شعری وثقافتی نشانات بھی کم نہیں ہیں۔ولی کے کلام میں فارسی شعراء کا کثرت سے ذکر ہے۔ولی کے یہ حوالے اردو شاعری میں غالب واقبال کے علاوہ کہیں یہ کثرت نظر نہیں آتی۔ولی نے محبوب کے سراپائے حسن کی شبیہہ سازی میں فارسی شعرا کے ناموں سے حیرت خیز فائدہ اٹھایا ہے        ؎

ترا مکھ مشرقی حسن انوری جلوہ جمالی ہے

نین جامی جبیں فردوسی وابرو ہلالی ہے

یہ چھ شعرا کے جمال آفریں ناموں سے نسبت رکھتے ہیں         ؎

ان عناصر کے تذکرے میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ دکنی ادب کا قابلِ ذکر پہلو اخلاقی اقدار کی ترسیل وترجمانی بھی ہے، جو اس کے امتیازات میں شامل ہیں۔ بیشتر سخنورانِ دکن نے اس پہلو کا احترام کیا ہے اور ان اقدار سے تخلیق کو آراستہ کیا ہے۔ایک دو مثالوں سے وضاحتی اشارہ مقصود ہے۔ولی درویش ہیں۔مفکر یا مصلح نہیں ہیں اپنے شعارِ دین کی پاسبانی کرتے ہیں مگر وہ روئے زمین کے تمام ابنائے آدم کو رشتۂ بشریت میں برابر کی فضیلت کے قائل اور وحدتِ آدم کے ہر رنگ میں اختلاط پر قائم ہیں شہر سورت پر لکھی جانے والی نظم کے اشعار میں ان تصورات کا برملا اظہار ہے        ؎

اِتی آتش پرستاں کی ہے بستی

سکھے نمرود واں آتش پرستی

فرنگی اس میں اِتے ہیں کلہ پوش

عدواں جن کی گنتی میں ہو بے ہوش

وہاں ساکن اتے اہل مذہب

کہ گنتی میں نہ آویں ان کے مشرب

اگرچہ سب ہیں وہ ابنائے آدم

ولے بینش میں رنگا رنگ ِ عالم

انھیں قدروں سے متعلق ان کے اخلاقی محسنات بھی ہیں۔ جوہر بشر کے لیے دائمی اقدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ولی نے فلاح انسانی کے لیے انھیں مشروط قرار دیا ہے۔ دوسری اعلیٰ قدروں پر بھی نظر ہے

قسمت تری ہو حق پہ ناہونا امیدیاں

حاجت اپس کی کہنہ ونو اوس سوں کہہ ولی

سب کام اپس کے سونپ کے حق کوں پخت ہو

یہ ہے تمام مقصدِ گفت وشنید کا

زندگی کی کامرانیوں کے یہ زریں اصول اور اعمالِ حسنہ کے ضابطے اسرارِ فطرت کے تقاضے ہیں۔ ان اقدار کے نہاں خانوں میں فوز وفلاح کے راز مضمر ہیں۔ شاعر کی تاکید ہے کہ تقدیر کو سنوارنے کے لیے جولاں وسرگرداں رہنا پڑے گا۔ پوری غزل انقلابی بیداری کا پیغام پیش کرتی ہے         ؎

غفلت میں وقت اپنا نہ کھو

ہوشیار ہو ہوشیار ہو

کب لگ رہے گا خواب میں

بیدار ہو بیدار ہو

ایسی آوازیں دوسرے سخن وروں کے یہاں بھی موجود ہیں۔ قلی قطب شاہ کی قناعت واطاعت پسندی کی تاکید ملاحظہ ہو          ؎

سب اختیار میرا تج بات ہے پیارا

جس حال سوں رکھے گا ہے اوخوشی ہمارا

زیر مطالعہ ادب کا ایک اور امتیاز ہے۔ جو فطری اور انسانی نفسیات کے لطیف ترین محسوسات سے وابستہ ہے۔محبت انسانی سرشت کا سب سے محترم اور محرک جذبہ ہے۔ جس کے مضمرات وممکنات کی بے کراں کیفیات ہیں۔ یہ حدود وقیود سے آزاد ہے۔ یہ شاعری کا سب سے محبوب موضوع بھی ہے۔ اس جذب وکیف میں کرۂ ارض کے تمام انسان شریک ہیں۔ تاریخ عالم کے ہر دور میں حوادث اور واردات کا مختلف صورتوں میں اظہار ہوتا رہا ہے۔ فطرت نے اسی سبب مرد وزن کے مراسمِ محبت کو تکوینی نظام کے طور پر فروغ دیا ہے۔ہماری شعری تخلیق میں خاص طور پر غزل کی شاعری کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ غزل نے لطیف سے لطیف اور نازک سے نازک محسوسات کو پیش کرکے سب سے زیادہ اعتبار حاصل کیا ہے۔ فارسی شاعری کی پیروی کے ساتھ دوسرے اسباب کے تحت صنفِ نازک سے مردوں کا اظہارِ محبت محبوب تھا۔ دکنی ادب میں اس جذبے کی ترجمانی جنسِ لطیف کی جانب سے بھی ہوا ہے۔ جسے عینِ فطرت کہا گیا ہے۔ قلی قطب شاہ کے کلام میں مثالیں موجود ہیں           ؎

سہیلی بنے نیلی رت میں شوانی

مگھا چھائے انبر رنگا رنگ نہانی

عشق کے بنے بن سوپک نادگاوے

پپیہا کے بولاں سوں پیو پیو فغانی

 

کلیاتِ ولی اور ولی پر مونو گراف مرتب کرتے وقت دکنی ادب کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ اس ادب میں ہزاروں گہرہائے آب دار موجود ہیں۔

مصادر

1              کلیاتِ ولی،مرتبہ پروفیسر عبدالحق،مینکرپٹ مشن نئی دہلی 2019

2        دیوانِ حاتم،مرتبہ پروفیسر عبدالحق دہلی 2010

3        قطب مشتری،مرتبہ پروفیسر م۔ن سعید کرناٹک اردو اکیڈمی بنگلور 2017

4        متاعِ فن،مرتبہ پروفیسر عبدالحق قومی کونسل نئی دہلی 2013

5        دیوانِ غالب مرتبہ پروفیسر عبدالحق مینکرپٹ مشن،نئی دہلی 2021

6        اقبال اور آرزوئے انقلاب،پروفیسر عبدالحق،نئی دہلی 2022

7        A History of Urdu Literature T.Graham Baily.      

8        دکن میں اردو،ڈاکٹر نصیر الدین ہاشمی،نئی دہلی

 

Prof. Abdul Haq

2315, Hudson Line

Kingsway Camp

Delhi - 110009

Mob.: 9350461394

akhtarmazahiri@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...