2/7/24

اردو شاعری اور ہندوستانی تہذیب، مضمون نگار: شکیل احمد خان

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


اردو زبان اپنے تشکیلی دور سے لے کر موجودہ دور تک کسی بھی سطح پر ہندوستانی ماحول، معاشرے اور مشترک مزاج اور سماج سے بے نیاز نہیں ہوئی ہے۔ یہ اس کے خمیر میں شامل ہے۔ یہ اخوت و محبت کی زبان ہے اور اتحاد و اتفاق کی علامت بھی، وطن دوستی، وطن پرستی، مساوات، رواداری اور قومی یکجہتی کی ضمانت بھی، اس کا ادب، اس کی شاعری اسی کی ترجمان ہے۔ داستان ہو کہ ناول، افسانہ ہو کہ انشائیہ، طنزومزاح ہو کہ سفر نامہ، مرثیہ ہو کہ قصیدہ، غزل ہو کہ نظم سبھی مشترکہ تہذیب کی آئینہ دار بھی ہیں اور اس زبان کو تقویت پہنچانے کا باعث بھی۔

اردو زبان گنگا جمنی تہذیب اور ہند ایرانی کلچر کی منہ بولتی تصویر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ادب اپنے ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ مقامی عناصر، جغرافیائی حالات، عقائد ورسوم، تہذیب وتمدن، تقریبات و تہوار غرض معاشرتی زندگی کے تمام پہلو اپنے عہد کی ادبی تخلیقات میں مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اردو زبان پر عربی اور فارسی کا اثر ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو اردو ادب میں ہندوستانی عناصر سے آمیز ہو کربڑی رنگ برنگی تصویریں تخلیق کی ہیں اور ہماری گنگا جمنی تہذیب کے حسین مرقعے اپنے دامن میں محفوظ کرلیے ہیں۔ جہاں تک عربی کا تعلق ہے اردو پر اس کے اثرات براہِ راست نہیں بلکہ بیشتر فارسی کے ذریعے مرتب ہوئے ہیں اور اردو نے جس فارسی کے زیرِ سایہ تربیت پائی  وہ بیرونی زبان نہیں بلکہ ہندوستانی فارسی تھی، جس کی روایت صدیوں سے ہندوستانی فضا میں پروان چڑھ رہی تھیں اور اسے ’سبکِ ہندی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور یہ ہندوستانی فارسی عوام کے بڑے حلقے اور خواص میں استعمال کی جاتی تھی۔ بہت سے ہندوستانی شاعر اسی  ’سبکِ ہندی ‘ میں شاعری کرتے تھے۔

اردو زبان کی مختلف اصنافِ سخن میں شاعری ایک اہم وسیلہ قرار پائی ہے، جس نے مشترکہ تہذیب کی علامت کواجاگر  کرنے میں اہم اور قابلِ اعتنا کردار نبھایا ہے۔ شاعری میں بھی صنفِ نظم ہی نے سب سے زیادہ ہندو مسلم میں اتحاد، بھائی چارگی،باہمی اختلاط،اخوت، ہمدردی، یگانگت،مساویانہ حقوق ، میل جول اور اپناپن کے احساس کو نمایاں کرنے میں معاون کردار ادا کیا ہے، اردو صنف نظم میں ایسے شعرا کی کمی نہیں ہے جنھوں نے ان موضوعات کو اپنی شاعری کا اہم وسیلہ بنا کر عوام کے دلوں پر راج کیا۔ مختلف ادوار میں مختلف شعرا حضرات کی آمد نے صنف نظم کے دامن کو مالا مال کیا۔ اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے آب و گِل کی خوشبو ابتدا سے ہی ادبی فضا کو معطر و معتبر کیے ہوئے ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظموں پر نظر ڈالیے۔ نظیر اکبر آبادی اُردو کے پہلے عوامی اور پہلے ترقی پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ایک ایسے خودروپودے کی مانند ہے جو چمن بندی کے تکلفات سے آزادرہ کر کھلی فضا میں پھلتی پھولتی ہے۔

حالی، آزاد، سرسید کی نیچرل نظم و نثر کو پرکھیے ،جن میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی حقیقت کی نادر و نایاب جھلکیاں نمایاں نظر آئیں گی۔ ہندوستان میں جب وطنیت اور قومیت کا سیا سی تصّور پیدا ہوا تو شعرائے کرام کے لب و لہجے میں خود بہ خود تبدیلی پیدا ہوئی۔ شروع شروع میں اکبر الہ آبادی، برج نرائن چکبست، ظفر علی خاں، درگا سہائے سرور، علامہ اقبال، تلوک چند محروم، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، ساغر نظامی، اور دوسرے شعرائے کرام کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔ 

آزاد ہندوستان اور جمہوریت میں یقین رکھنے والا ہندوستان، ہندوستان کی ساری تاریخ، اس کے سارے سرمائے، اس کی کثرت نما اوروحدت اساس تہذیب، کشمیر سے کنیا کماری اور گجرات سے گوہاٹی تک اس کی بساط رنگین اور اس کے سارے نقش اور آثار، اس کی زبانوں، اس کے کھیت اور کھلیان، اس کے صنعتی اداروں اور کارخانوں، اس کے پہاڑ، دریا، جنگل اور میدان، اس کے اونچے ابرو والے شہری اور اس کے بھولے بھالے عوام، اس کے پنڈت اور ودوان اور اس کے اَن پڑھ دیہاتی، سبھی کو اپناتا ہے، سب پر نظر رکھتا ہے اور اس کے دل کی دھڑکن میں سبھی کے دل کی دھڑکن شامل ہے  

اردو زبان جدید ہندوستانی زبان ہے۔ یہ کھڑی بولی کا ادبی روپ ہے۔ کھڑی بولی کا علاقہ دہلی، میرٹھ اور روہیل کھنڈ ڈویژن پر مشتمل ہے۔ دھریندر ورما نے بھی یہ تسلیم کیا ہے ’’تاریخی نقطۂ نظر سے کھڑی بولی ہندی کی بہ نسبت... کھڑی بولی اردو کا چلن بہت پہلے ہونے لگا تھا۔‘‘

اردوکے قدیم ترین نمونے صوفیہ کے جستہ جستہ فقروں یا جملوں کے علاوہ صرف منظوم شکل میں ملتے ہیں۔ ان دستیاب نمونوں کی بحر عموماً ہندی ہے۔ ہندی کا مخصوص چھند دوہا ہے۔ ہندی کے مسلمان صوفی شعرا کے یہاں دوہا اور چوپائی بے حد مقبول چھند ہیں۔ اردو نظم کے قدیم ترین نمونے دوہے کی بحر میں ملتے ہیں۔ بابا فرید کا وہ کلام جو گرنتھ صاحب میں محفوظ ہے، دوہا چھند ہی میں ملتا ہے۔ امیر خسرو کی ہندوی یا ہندی شاعری کا پہلا مستند نمونہ دوہے کی شکل میں ملتا ہے۔ سودا، حاتم، انشا، جرأت، نظیر سب کے یہاں دوہے ملتے ہیں۔

چوپائی کی بحر دکنی شعرا کے یہاں ملتی ہے۔ بعض دکنی شعرا نے غزلوں تک میں ہندی بحریں استعمال کی ہیں۔ ولی سے پہلے دکنی ادب پر ہندی اور ہندو دیومالا کا گہرا اثرہے۔ سترہویں صدی میں دکن میں اردو کا خاصا ادبی سرمایہ ملتاہے، جس پر ہندوستانی مزاج کی چھاپ مسلم ہے، یہاں تک کہ قدیم اردو کے اس سرمایے کو تمام تر ہندی کہنے کا میلان ہندی والوں میں ملنے لگا ہے۔ جیسے ہندوستانی موسم اور ہندوستانی عورت کے داخلی جذبات ایک دوسرے سے مل کر شیر وشکر کا سا لطف پیدا کرتے ہیں۔

دکنی غزل گویوں کے سرتاج ولی کے یہاں بھی بکثرت ہندوستانی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں۔ یہاں یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ  قلی قطب شاہ اور ولی دکنی کا کلام ہندوستانی عناصر سے لبریز ہے۔ اسی طرح  میر تقی میر کی مثنویاں ہوں یا شکار نامے ہر جگہ مقامی رنگ اور ہندوستانی فضا نظر آتی ہے۔نعتیہ قصائد کی تشبیب میں ہندوستانی فضا نہایت حسن کے ساتھ محسن کاکوری  کے مشہور نعتیہ قصیدے میں ملتی ہے۔

انیس  ودبیر کے مرثیے واقعاتِ کربلا سے متعلق ہیں اور ان کے کردار عربی ہیں لیکن ان کی روح ہندوستانی ہے۔ ان کی نشست و برخاست، طرزِ گفتگو، رسم ورواج حتیٰ کہ مزاج تک ہندوستانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اردو مثنویاں بھی ہندوستانی عناصر سے عاری نہیں ہیں۔  سحرالبیان، گلزارِ نسیم، زہرِ عشق، میں ان کی جھلک قدم قدم پر نظر آتی ہے واجد علی شاہ کا رہس، امانت کی اندر سبھا اور واسوخت رنگین اور جان صاحب کی ریختی غرض کوئی صنف ایسی نہیں جو ہندوستانی رنگ میں رنگی ہوئی نہ ہو۔

 محمد حسین آزاد نے نیچرل شاعری کا پرچم بلند کیا تو اس کے تلے جمع ہونے والے نظم گویوں کے لیے لازم ہوگیا کہ اپنے معاشرے اور ماحول کی حقیقی ترجمانی کریں۔  حالی کی مسدّس اپنے سماج کا آئینہ ہے۔ رفتہ رفتہ اردو نظم کی روایت جوان ہوئی۔ اکبر، چکبست، اقبال، اختر شیرانی، جوش، احسان دانش، میراجی، فیض وغیرہ کے کلام میں ان کے عہد کی ہندوستانی زندگی مختلف انداز میں جلوہ گر ہوئی۔

1960کے آس پاس، جب اردو ادب میں جدیدیت کا دوردورہ ہوا تو اس کے بڑے مفید نتائج بر آمد ہوئے اور اردو شاعری میں ہندوستان زیادہ پھیل کر داخل ہوا اور دیو مالائی علامت نگاری کو فروغ ملا۔  اردو کی نئی نظموں میں ہندوستانیت جس حد تک رونما ہوئی ہے اور ان میں ہندوستانی دیومالا سے جتنا استفادہ کیا گیا ہے۔

ہندوستانی شہروں کے نام بھی اردو شاعری کے لیے نئی چیز نہیں تھی۔ ولی نے سورت کی تعریف کی تو میر، ذوق اور کئی دوسرے شعراکے پاس دلّی کا ذکر مختلف پہلوؤں سے کیا گیا ہے۔ نازنینانِ کلکتہ غالب کی غزل کا موضوع بن چکی ہیں۔ کبھی مجاز نے لکھنؤ کی تعریف میں اشعار کہے تو کبھی اقبال نے فرزندانِ علی گڑھ سے خطاب کیا۔ بمبئی کا ذکر بھی بہت سے شعراکے یہاں آیا ہے۔ صبح بنارس اور شامِ اودھ کے حسن و جمال کی تعریف وتوصیف میں بے شمار شاعروں کے اشعار ملتے ہیں۔ نئی غزل نے بھی اس صحت مند روایت کو کافی آگے بڑھایا ، چنانچہ کلکتہ سے متعلق تو باقاعدہ ایک طویل نظم ’کلکتہ ایک رباب‘  (حرمت الاکرام) کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ غرض یہ کہ کلکتہ، گوہاٹی، بھوپال،  رام پور، دہلی وغیرہ شہروں کا ذکر مختلف نہج سے آیا ہے۔

دراصل اردو کی پیدائش ہی دو بڑی تہذیبوں کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔یوں تو ہر زبان دلوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے ،لیکن اردو بطور خاص یہ فریضہ انجام دیتی آئی ہے کیونکہ محبت، وسیع النظری اس کی سرشت میں داخل ہے۔ تہواروں کی بات کریں تو ہولی کا رنگین اور جھمکتا ہوا روپ ہمیں نظیر اکبر آبادی نے دکھایا ہے۔

اردو غزلیات میں ماحول ومعاشرت، تہذیب وتمدن، رسوم وروایات، رہن سہن، توہمات پرستی، زیورات، دیومالائی اثرات اور مقامات وغیرہ کی جو جھلکیاں نظر آتی ہیں، انھیں دیکھ کر ہندوستان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نئی غزل کے شعرانے بہت حد تک عجمی تلمیحات وتشبیہات سے کنارہ کشی اختیار کرکے ہمارے ملک کی تلمیحات و تشبیہات  مثلاً: کوہِ الوند، طورِ سینا، کوہِ بیستوں کے استعمال سے پرہیزکرکے ہمارے ملک کے پہاڑ، دریا جنگلات اور تالاب وغیرہ کا استعمال کرنا شروع کردیا۔پرانی علامات کی جگہ نئی علامات نظر آنے لگی۔ ہندوستانی موسم ،ہندوستانی چاند سورج، یہاں کے جنگلات ،یہاں کے درخت،غرض یہ کہ تمام عالم گیر علامات کے ساتھ خالص ہندوستانی جنگلات اور پہاڑوں کا ذکر ہماری اردو غزلیات میں نظر آتا ہے۔

اکثر غزل گو شعراکے اشعار میں کہیں دیپک راگ، کہیں برکھا رُت، شامل ہے تو کہیں ہندوستانی سرزمین میں پائے جانے والے درخت اور پودوں کی بھر مار نظر آتی ہیں۔کئی شعراکے اشعار میں آپ کو چھتوں پر نیم کی ہری ہری شاخیں نظر آئے گی، تو کہیں نیم کی پتّیوں کا ذکر ملے گا ، کہیں نیبو کی کیاری، تو کہیں پیپل کی بلندی، اور اس پیپل کی گھنے سائے کا تذکرہ، آم جو خاص طور سے ہندوستانی درختوں کا سرتاج ہے۔

اردو غزل گویوں کے موضوعات میں چنار کی شاخیں، کیکر اور جامن کے درخت ، ببول اور شہتوت، بانسوں کے جھنڈ ناگ پھنی اور بیر کے پودے ،مہوے کے درخت، شیشم کے تناور پیڑ صندل کے پودے، کیلے کے پودے، برگد کا پیڑ، اسی طرح شریفے بھی اس ہندوستانی فضا میں نظر آتے ہیں۔

اسی کے ساتھ ہمیں اردو غزل میں کھیتوں کا تذکرہ، چنچل پنچھیوں کا ذکر ، گندم ،سرسوں ،کپاس کی فصلوں کا ذکر،غرض ہندوستان میں اگائی جانے والی تمام فصلیں بھی موجود ہے۔

اردو غزل ہندوستانی پھولوں کی خوشبوں سے مہک رہی ہے۔جہاں اردوغزل گویوں کی فکر کورات کی رانی کی خوشبو بھی معطر کرتی ہے وہی ہندوستانی روایت کے مطابق اس کے آس پاس سانپوں کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان کا قومی پھول کنول بھی اردو غزل میں جلوہ گر ہے، سورج مکھی کی موجودگی بھی ہے، اور متعدد شعراکے یہاں سرسوں کے پیلے پیلے پھولوں کا تذکرہ بھی موجود ہے، ان ہندوستانی پھولوں کے ساتھ ساتھ سبزہ بھی ہندوستانیت سے بیگانہ نہیں ہے۔

اردو غزل میں پروانے کے ساتھ ساتھ جگنوبھی نظر آتا ہے، ہرنوں کی قلانچوں کے ساتھ جنگل میں ناچتے مور بھی، پہاڑوں کی چوٹیوں پر گلہریاں دکھائی دیتی ہیں، درختوں پر کوئل کی کوک سنائی دیتی ہے تو کہیں مٹھو میاں،تو کہیں مینا پنجرے میں نظر آتی ہے ،غرض ہر ہندوستانی چرند پرند کا ذکر اردو غزل میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اردوغزل میں ہندوستانی موسم، رسم ورواج، کا بھی تفصیلی تذکرہ موجود ہے، اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں ’بارہ ماسہ‘ جیسی خالص ہندوستانی صنف سخن موجود ہے۔جس پر ہندوستانیت کا ایک خاص اثر نظر آتا ہے اور اسی طرح کسی ملک کے تیوہار بھی اس ملک کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں،ہندوستان میں مختلف فرقوں کے لوگ بستے ہیں، ان فرقوں کے تیوہاروں کا ذکر بھی اردو غزل میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے، اور ان تیوہاروں پر ہندوستانی مشترکہ کلچر کا بہت گہرا اثرہے،جس کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش یہاں نہیں،جہاں عید، شب برات، محرم اشعار میں موجود ہیں، وہی دیوالی، دسہرہ، گنگا اشنان، درگا پوجا ، ہولی، کا بھی ذکر غزل میں نظر آتا ہے۔

اردو غزل میں سوت کاٹنے، دھان کوٹنے، ساحلوں پر مانجھیوں کے گیت ، دل کے دیے میں لہو جلا کر کاجل پارنے کا ہندوستانی عمل، غرض یہ کہ خالص ہندوستانی زندگی، ہندوستانی کھیل تماشے، تفریحی مشغلے، کبوتر بازی،  شادی بیاہ کی تقریبات اور ان سے متعلق رسم ورواج، ثقافت، تمدن، سکھیوں کی ٹولی کا بابل کے گیت گانا، مانگ میں سندور بھرا جانا، ہلدی ملنے سے بدن کا زرد ہونا، یہی نہیں بلکہ دیگر علاقائی عقائد کی آمیزش بھی ہماری مشترکہ تہذیب کی جھلکیاں اردو غزل کے اشعار میں موجود ہیں۔

اردو غزل کے ہی اشعار میں آپ نے دیکھا رادھیکا بھی ہے شوخ کنہیا بھی، رام بھی ،راون بھی،لچھمن بھی، بلکہ یوں سمجھیے کہ مہابھارت، رامائن، اور میگھ دوت وغیرہ کے تمام کردار نظر آتے ہیں۔ آپ نے اردو غزل میں ہی محسوس کیا ہوگا کہ رام چندر جی کے بن باس کا واقعہ پوری اردو غزل کے لیے کشش کا باعث ہے۔

آخر میں یہ جانناضروری ہے کہ اردو غزل میں تاریخ ہند کی بھی بھر پورعکاسی ملتی ہیں  اور ہر ایک ہندوستانی تاریخ سے واقف ہے، اردو غزل نے ہندوستان کی تاریخ سے بھی اپنے لیے تشبیہات وتلمیحات اور مواد اخذ کیا ہے اور ہندوستانی سماج کے تصورات ورجحانات اجاگر کیے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول سے اردو زبان وجود میں آئی اور ایک مشترکہ تہذیب بھی۔ اسی لیے یہ تمام عناصر ایک دوسرے کو بھی متاثر کرتے رہے ہیں اور اردو غزل کے یہ تمام اشعار اردو شاعری کی اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں،جو ہندو مسلم گنگا جمنی تہذیب کا مظہر ہے۔ مشہور ماہرِ لسانیات اور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ’مراثی انیس میں ہندوستانیت ‘ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔‘‘

یہ واقعہ ہے کہ زبان کا استعمال اپنے ساتھ ایک مخصوص ذہنی فضا ، ایک مخصوص ملکی مزاج اور ایک مخصوص سماجی رنگ لے کر آتا ہے اور جس شاعر کی لفظیات اور ان کے استعمال کا دائرہ جتنا بڑا ہوگا اسی نسبت سے زبان کا اپنا مخصوص سماجی رنگ اس کی شاعری میں زیادہ سے زیادہ جھلکے گا۔‘‘  

( ماہنامہ آجکل ، جون 1975،دہلی ،میر انیس نمبر  ص29 )

غرض یہ کہ اردو غزل جس مجموعی فضا کی تخلیق کرتی ہے۔ وہ خالص ہندوستانی فضا ہے  اور اردو میں ایسے اشعار موجود ہیں جن میں غیر مرئی ہندوستانیت رچی و بسی ہے اور اردو غزل میں بہت کثرت سے شامل ہے، جن کی نشاندہی کے لیے سیکڑوں صفحات بھی ناکافی ہیں۔

 

Dr.  Shakeel Ahmad Khan

Dept of URDU

Government Vidarbha Institute of

Science & Humanities

Amravati- 444 604  (MS)

shakeelykhan@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...