3/7/24

سرزمین جاؤرہ اور ساحر افغانی، مضمون نگار: نارائن پاٹیدار

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


مالوہ کی بااختیار ریاست جاؤرہ (گلشن آباد) میں اردو شعر و ادب کا سلسلہ عرصۂ طویل پر محیط ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین بجا طور پر اس خطے کو ایک جزیرۂ اردو کہا ہے وہ اپنے مضمون ’جاؤرہ:ایک جزیرۂ اردو‘ میں جاؤرہ میں اردو شعر و ادب کی روشن اور تابناک روایات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعدتحریر فرماتے ہیں:

’’ مجموعی طور پر اردو زبان وادب کی ترقی و ترویج، ثروت مندی اور برومندی میںریاست جاؤرہ نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیںان کے پیش نظر اگر اسے مدھیہ پردیش کا ’ جزیرۂ اردو‘ کہا جائے تو درست ہوگا۔ اب بھی اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ بطور مسودہ، مخطوطہ اور قلمی نسخہ پردہ خفا میں ہے جو محتاج تحقیق و اشاعت ہے۔ اگر یہ مایہ ناز ادبی سرمایہ منظر عام پر آ جائے تو اردو ادب کی تاریخ میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔‘‘

(  بحوالہ سہ ماہی فکروتحقیق، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی  اکتوبر تا دسمبر  2023، ص23  )

بانیِ ریاست افتخارالدولہ نواب عبدالغفور خان بہادردلیر جنگ (دور حکومت تقریباً 1808 سے 1825 تک) کے زمانے سے لے کر آزادیِ ہند (1947)تک اس ریاست پر چار نوابین کی حکمرانی رہی ہے۔ نواب عبدالغفور خان کے بعد محتشم الدولہ نواب غوث محمد خان بہادر شوکت جنگ (دور حکومت تقریباً 1825 سے 1865  تک) اس کے بعد احتشام الدولہ نواب محمد اسمعٰیل خان بہادر فیروز جنگ  (دور حکومت تقریباً 1865 سے 1895 تک) اور پھر آخر میں فخر الدولہ نواب محمد افتخار علی خان بہادر صولت جنگ (دور حکومت تقریباً1895 سے 1947 تک) والی جاؤرہ رہے ہیں۔متذکرہ نوابین کے ادوار حکومت میں اردو شعر و ادب نے ترقی کی مختلف منازل طے کیں اس لیے کہ والیان ریاست خود ادب پرور اور ادب نواز ہونے کے ساتھ ساتھ جوہر قلم سے آراستہ تھے۔ نواب غوث محمد خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوںنے نہ صرف اردو ادب کی بے لوث خدمت کی بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے الگ الگ فنون کے قابل اور منتخب ماہرین کو جاؤرہ بلایا جس سے یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ اور یوں اس خطّے میں اردو شعر و ادب کی روایت مستحکم ہوتی گئی۔ پروفیسر وسیم الدین اپنے مضمون ’ جاؤرہ میں اردو زبان و ادب‘ میں نواب غوث محمد خان کے متعلق رقم طراز ہیں:

’’ نوابین میںغوث محمد خان کا زمانہ (1825 سے1865 تک) ریاست کا سنہرا زمانہ کہلاتا ہے... یہ نہایت بیدار مغز اور سلجھے ہوئے نواب تھے۔ لکھنؤ، دہلی، بریلی، شاہجہاںپور، کانپور وغیرہ مقامات سے قابل ہستیوں کو چن چن کربلایا اور ریاست کا کام کاج ان کے سپرد کیا۔ نواب غوث محمد خان خود بھی ایک اچھے ادیب تھے اور ادب نوازی  میں اپنی مثال آپ تھے۔ان کی ذاتی تصانیف میں سیر المحتشم، سیر گاہ محتشم اور تذکرۂ سلاطین مغلیہ بہت مشہو ر کتابیں ہیں۔ ‘‘

(  بحوالہ مدھیہ پردیش میں اردو زبان و ادب:پروفیسر آفاق احمد، مدھیہ پردیش اردو اکادمی،بھوپال  1996، ص150  )

ما قبل آزادی جاؤرہ میںجن شاعروں اور ادیبوں نے اردو شعر و ادب کی ترقی و ترویج میں نمایاں رول ادا کیا ان میں نوابین کے علاوہ خصوصاً مرزا عظیم بیگ عظیم، پیرجی محمد یوسف خاں یوسف، نظام الدین نظام، عالم گیرمحمد خاں عالم، فرحت گلشن آبادی، مشرف یار خاں شرف، حیا گلشن آبادی،ضیا گلشن آبادی، متین الدین خان متین  گلشن آبادی، مفتی احمد علی احمد گلشن آبادی، بیدل گلشن آبادی، خواجہ اکبر حسین اکبر گلشن آبادی، خستہ گلشن آبادی، ادیب گلشن آبادی اور محمد شفیع گلشن آبادی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔            

آزادی کے بعد علاقۂ مالوہ کی اس خود مختار ریاست (جاؤرہ) کا ہندوستان میں انضمام ہو گیا اور پھر اسے مدھیہ پردیش کے ضلع رتلام کی ایک تحصیل بنا دیا گیا۔ یہ جاؤرہ کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں نوابین کے ادوار حکومت سے لے کر آج تک مذہب کے نام پر کوئی فساد نہیں ہوا۔ما قبل آزادی یہاں شعر و سخن کا جو چراغ روشن ہوا تھا آزادی کے بعد کچھ عرصے تک اس کی لو مدھم ہو گئی۔ اس عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر وسیم الدین تحریر فرماتے ہیں:

’’1947 کے بعد، ریاستی نظام ختم ہوا جمہوری نظام آیا۔ قدروں کی شکست و ریخت ہوئی...  اس دوران ادبی سطح پر مکمل جمود طاری رہا۔ ادبی سرگرمیوں میں تعطل آیا 1960 کے بعد صاحبزادہ سلطان حامد خاں ثروت نے اپنی کوششوں سے جاورہ کی ادبی فضا کو متحرک بنایا  طرحی مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا شاعروں کی بڑی تعداد ابھری۔ ان میں بزرگوں کے ساتھ ساتھ نوجوان شعرا بھی شامل تھے۔ استادی اورشاگردگی کی روایت بھی چلتی رہی اساتذہ میں ناداں، بیدل، خستہ، شفیع،عزیز الرحیم  عشرت مشہور تھے۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔‘‘           

(بحوالہ مدھیہ پردیش میں اردو زبان و ادب: پروفیسر آفاق احمد، مدھیہ پردیش اردو اکادمی،بھوپال  1996،  ص157  )

آزادی کے بعد جاؤرہ میںجن شعرا و ادبا حضرات نے اردوشعر و ادب کی آبیاری میں اپنا خون جگر صرف کیا ان میںمتذکرہ بزرگ اساتذہ شعرا کے علاوہ خطیب گلشن آبادی، ادیب گلشن آبادی، معظم خان ساحر افغانی، مرزا غفاربیگ اثر گلشن آبادی، سیف الدین سیف گلشن آبادی، پروفیسر وسیم الدین، سردار سنگھ ساتھی، صابر گلشن آبادی، واقف حیدری اور باحیات بزرگوں میں غیاث الرحیم شکیب، شباب گلشن آبادی اور محمد رفیع گلشن آبادی وغیرہ کے نام قابل ستائش ہیں۔ عارف علی قریشی عارف، یوسف سحر،غلام معین الدین خاں معین، حیات  گلشن آبادی، عبدالنوری گلشن آبادی، افضل نوری گلشن آبادی، عاصی گلشن آبادی، جہانگیر نیازی اور احمد رضا گلشن آبادی وغیرہ موجودہ عہد کے اہم شعرا ہیں۔ اس کے علاوہ شہرجاؤرہ میں نوجوان شعرا کی جو نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے ان میں شاکر رضا گلشن آبادی، شاد گلشن آبادی، حسّان گلشن آبادی، عرفان حسین گلشن آبادی، فیضان گلشن آبادی، سہیل گلشن آبادی، حنیف گلشن آبادی اور فرحان گلشن آبادی وغیرہ کے نام قابل تعریف ہیں۔

الغرض دورجدید میں بھی سر زمین جاؤرہ اردو شعر و ادب کے لحاظ سے سرسبز و شاداب ہے۔ ساحر افغانی کا تعلق اسی زرخیز زمیں سے ہے۔ ان کا اصل نام معظم خان اور تخلص ساحر تھا۔ ان کے آبا و اجداد افغانستان اور پاکستان کے درمیانی سرحدی علاقے(سوات گھاٹی) میں سکونت پذیر تھے۔ یہاں آئے دن غدر ہوتا تھا۔اس افرا تفری سے تنگ آکر وہ مع اہل و عیال ہندوستان آگئے۔ اسی نسبت سے انھوںنے اپنے تخلص کے ساتھ افغانی لفظ کا اضافہ کیا ہے۔ طبابت ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ ان کے دادا حدّاد محمد خان کرنال (جو فی الحال صوبۂ ہریانہ کا ایک ضلع ہے) کے نواب یاقوت علی خان کے یہاں حکیم تھے اور ان کے والد محترم پیارے میاں ریاست جاؤرہ کے آخری نواب محمد افتخار علی خان کے یہاں حکمت کا کام کرتے تھے۔ ساحرکی ولادت 1936میںجاؤرہ میں ہوئی۔ پیدائش سے کچھ دن پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ ہی نے ان کی پرورش کی۔ اس وقت ان کے گھر کے معاشی حالات ناگفتہ بہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مہاتما گاندھی اسکول جاؤرہ سے حاصل کی۔  جیسے تیسے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد ان کا فوج میں سلیکشن ہو گیا مگر ان کی دادی نے انھیں فوج میں جانے نہ دیا۔ گھریلو ذمے داریوں کے تحت انھوںنے مختلف قسم کی دکانوں(جس میں سٹّے کی دکان بھی شامل ہے) اور مقامات مثلاً حسین ٹیکری، شوگر میل وغیرہ میں کام کیا۔ اس طرح ان کی زندگانی بہت ہی پریشانیوں میں گزری، غربت نے ان کا خوب امتحان لیامگر انھوںنے کبھی ہار نہ مانی اور اس یقین کے ساتھ امید کا دامن تھامے رکھا کہ    ؎ 

ظلمت شب کا بے کراں لشکر

ایک جگنو سے ہار  جاتا  ہے

 ساحر افغانی نے مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ان کی غزلیں ملک کے علاوہ بیرون ممالک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتی تھیں۔ وہ محب اردو تھے۔ طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کا ذہن شعر و سخن کی طرف مائل تھاچنانچہ کمسنی میں ہی شعرکہنے لگے اورجلد ہی ایک پختہ شاعر بن گئے۔ انھوںنے ملک کے مختلف علاقوں میں منعقدہونے والے یادگار کل ہند مشاعروں میں شرکت کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو کے زیر اہتمام ہونے والے کئی مشاعروں میں بھی حصّہ لیا۔ ایک بڑا کامیاب مشاعرہ بمبئی کے نہرو سینٹر میں (مشہور فلمی اداکاردلیپ کمار کی صدارت میں) منعقدہو ا تھا جس میںموصوف نے اردو کے بڑے بڑے اور با کمال شعرا مثلاً کیفی اعظمی، ندا فاضلی، جاوید اختر وغیرہ کی موجودگی میں اپنا کلام سنایا اور اپنے پر کشش و منفرد اشعار کے ذریعے شعرا اور سامعین سے خوب داد  وتحسین حاصل کی۔ اس مشاعرے میں انھوں نے ایک نظم بعنوان ’وراثت‘  پڑھی تھی۔

ساحر صاحب ڈاکٹر اختر نظمی (جو ایک مدت تک کملا راجہ گرلز کالج گوالیار میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے ) کو اپنا استاذ مانتے تھے اور مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے کلام کو پسند کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی سے متاثر ہوکر ہی انھوںنے اپنا تخلص ساحر اختیار کیا۔ بمبئی ریڈیو اسٹیشن کے ایڈیٹر ہارون الرشید صاحب اور بہترین نغمہ نگار نوشاد صاحب ان کے خاص دوستوں میں شامل تھے۔ عارف علی قریشی عارف گلشن آبادی، فضل حیات گلشن آبادی، یوسف سحر گلشن آبادی، صبر گلشن آبادی اور احمد رضا گلشن آبادی وغیرہ ان کے عزیز شاگرد ہیں۔ ساحر افغانی بہت ہی خوددار انسان تھے۔کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انھیں گوارا نہ تھا۔ وہ تا عمر معاشی بدحالی سے لڑتے رہے۔ جب زندگی کے آخری ایاّم میں شدید بیمار پڑے تو کہنے لگے    ؎ 

سلگتی  بھوک سسکتی  ہوئی  یہ   بیماری

نہ تابِ ضبط ہے  مجھ میں نہ  حوصلہ  باقی

 ہیں چند سکّے  بشکلِ عذاب  ہاتھوں  میں

 شدید جنگ ہے اس وقت دو تقاضوں میں

 دوا خریدیں کہ  بچوں  کے  واسطے  روٹی

 گلشن آباد کی شعری دنیا کا یہ درخشاں ستارہ21 مئی2016  کو غروب ضرور ہو گیا مگر ان کے اشعار اب بھی اہل جاؤرہ کو ازبر ہیں، جو ان کی شعری عظمت کی دلیل ہے۔ ان کے ہم عصر شعرا ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کی وفات پر ان کے عزیز دوست استاذ غیاث الرحیم شکیب نے اظہار غم کے ساتھ بطور خراج عقیدت غالب کا یہ شعر پڑھا تھا         ؎   

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی  ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

ساحر افغانی ایک حساس ذہن کے مالک اور زود گو شاعر تھے۔بجا طور پر ان کا شمارجاؤرہ کے استاد شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں عمدہ اور گراں قدر فن پاروں کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ غزل گوئی ان کا خاص اور پسندیدہ میدان رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزلوں کی تعداد زیادہ ہے،جو صنف غزل سے ان کی گہری دلچسپی کا مظہر ہے۔ غزل کے متعلق ان کا یہ خیال واقعی حق بجانب ہے    ؎ 

غزل کے نام پر میں ذہنی عیاّشی نہیں کرتا

 میرے اشعار سن کر مسکرانا بھول سکتے ہو

ساحر افغانی نہایت ہی بے باک انسان تھے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے وقت جو خوبی ہمارے ذہن کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ہے ان کی جسارت اور دیانت داری۔ وہ جس جرأت کے ساتھ سوچتے تھے اتنی ہی سچائی سے اس کا اظہار کرتے تھے۔ سیاسی پیچیدگیوں کے متعلق ان کا روّیہ بہت ہی بے باکانہ تھا۔

موصوف نے اس عجیب و غریب دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور اس کی نیرنگیوں سے واقف ہوئے۔ انھوںنے انسانی زندگی سے متعلق مختلف اسرار و رموز کو اپنے منفرد انداز میں یوں بیان کیا ہے    ؎ 

کاندھے پے اس کا بوجھ اٹھانے کے بعد بھی

 دیوا ر  عمر بھر  رہی  چھت  کے  دباؤ میں

  رشتے  بھی گھر  کے ساتھ  ہی تقسیم ہو  گئے

  آنگن میں  کیسے  بیٹھ  کے اب گفتگو کریں

  تنہاں  ہوا  تو  جھیل  کا  پانی سسک  اٹھا

  پنچھی  تو  اپنی  پیاس  بجھا  کر  چلے  گئے

  برگد  کا   بوڑھا   پیڑ  انھیں  دیکھتا    رہا 

  خانہ  بدوش   ڈیرا   اٹھا  کر   چلے   گئے

  جھلس رہے ہیں حوادث کی آگ میں انساں

  امیرِ شہر  کے چہرے پہ  تازگی  کیوں ہے

  کوئی حل نہیں یارو  ذہن میں دماغوں  میں 

 زندگی بھٹکتی ہے  آج  تک  سوالوں میں

 محنت پیہم زندگی کی علامت ہے۔ محنت و مشقت کے بغیر کامیابی کا تصور ممکن نہیں۔ ساحر اس خیال کے فرماںبردار تھے۔ اپنے مخصوص انداز میں تحریر فرماتے ہیں         ؎

پی کے محنت کا لہو  اگتی ہیں فصل بے مثال

ورنہ کھیتوں میں تو مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں

 ساحر نے غم زندگی کا اظہار اس طرح کیا ہے    ؎ 

 سوچتا ہوں کہ زمانے سے مٹا دوں  تجھ کو

 زندگی  اتنا  پریشان  کیا   ہے   تونے

 زندگی کے دامن پر  کتنے  زخم  لگتے ہیں

 شام کے اندھیروں میں صبح کے اجالوں میں

 اس فانی دنیا میں ہماری حیات دو روزہ کب ختم ہو جائے کوئی نہیں جانتا اور یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ آج انسانی دنیا نے ترقی کی بے شمار منزلیں ضرور طے کر لی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسے ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جو چند لمحوں میں پوری دنیا کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فاضل شاعر فرماتے ہیں           ؎      

حیران کرنے والی ترقی کے باوجود 

 دنیا ملی  تباہی کے  نزدیک تر  مجھے

ساحر کا یہ شعر حال اور مستقبل دونوں کی غمازی کرتا ہے۔ ان کی رحلت کے بعدکوویڈ 19 کی وجہ سے تباہی کے جو منظر دیکھے گئے وہ موجودہ نسل کبھی نہیں بھول سکتی۔

ساحر افغانی نے چھوٹی چھوٹی بحروں میں بہت ہی موثر غزلیں لکھی ہیں۔جاؤرہ میں ان کی غزلیں آج بھی لوگ گنگناتے ہیں         ؎

تم   ہمیشہ  یہ  سلسلہ   رکھنا

ملنے  جلنے  کا   راستہ   رکھنا

تجربہ  قربتوں  کا کہتا   ہے

درمیاں  تھوڑ ا  فاصلہ   رکھنا

یہ بھی  آداب ہیں  محبت  کے

دشمنوں  سے بھی  رابطہ   رکھنا

موت رقصاں ہے ہر طرف لیکن

زندہ  رہنے  کا  حوصلہ   رکھنا

عادتاً   لوگ   مشورہ    دیں گے

معتبر   اپنا   فیصلہ      رکھنا  

خط  مٹاتے  ہیں غم  جدائی کے

آپ  جار ی  یہ  سلسلہ  رکھنا

عافیت  چاہتے  ہو گر  ساحر

یاد ہر ایک حادثہ رکھنا

 ساحرافغانی نے عمدہ نظمیں بھی تحریر کی ہیں۔ان میں  واپسی،وراثت، زندگی اور پاگل وغیرہ کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ آزاد نظم ’پاگل‘ میں انھوں نے شرافت کی آڑ میں ہو رہی زیادتیوں کو اجاگر کیا ہے اور ایک پاگل کے ذریعے عوام کے مختلف مسائل پر سوالات کیے ہیں۔ وہ ایسے سماج کے خواہاں تھے جہاں خون کی ندیاں نہیں بلکہ امن و شانتی کا ماحول ہو۔نظم ملاحظہ ہو          ؎ 

کاش تم نہیں ہوتے

کاش میں نہیں ہوتا

 یہ زمیں نہیں ہوتی آسماں نہیں ہو تا

  چانداور سورج سے

  بیکراں خلا میں بھی روشنی نہیں ہو تی

   کیا کہا میں پاگل ہوں

   میں یہ مان لیتا ہوں

  باوجود اس کے اک سوال ہے مرا؟

   جانے کتنی صدیوں سے

   رزم گاہِ عالم میں

   ہم سبھی کے ہاتھوں میں

   چمچماتی تلواریں

   مختلف طریقوں سے مختلف مسائل پر

   روز ایک دوجے کو

   قتل کرتی رہتی ہیں

   یعنی رسم چنگیزی

   یعنی جبر فرعونی

   چہاردانگ عالم میں ختم ہو نہیں سکتا

   پھر بھی آپ کہتے ہیں

   میں توایک پاگل ہوں

  باوجود اس کے میں بار بار کہتا ہوں

   کاش تم نہیں ہوتے

   کاش میں نہیں ہوتا

   یہ زمیں نہیں ہوتی، آسماں نہیں ہو تا

   صرف ایک سناٹا

   اور کچھ نہیں ہو تا

اس کے علاوہ ساحر افغانی نے قطعات بھی لکھے ہیں۔ غزل سے علیحدہ ہوئی یہ صنف غزل کی طرح ہر بحر میں لکھی جاتی ہے۔ ساحر کا ایک قطعہ پیش خدمت ہے    ؎

محدود روشنی ہے ذہن  سوچتا  نہیں

 تاریکیوں کی سمت کوئی   دیکھتا  نہیں

 قبروں پہ لوگ آج بھی بنواتے ہیں محل

 انمول زندگی کو کوئی پوچھتا  نہیں 

 مختصر اًیہ کہ آزادی کے بعد جاؤرہ (گلشن آباد) میں جن شاعروں نے بے غرض و غایت اردو شعر وسخن کی خدمت کی ان میں ساحر افغانی کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان کے کلام میں خصوصیت کے ساتھ نئے تقاضوں کا احساس جابجا نظر آتا ہے۔ ان کے شعری محاسن کے متعلق پروفیسر وسیم الدین بجا فرماتے ہیں:

’’ ساحر افغانی جدید لہجہ کے شاعر ہیں ان کی شاعری میں عصری مسائل کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ان کی تلاش و جستجو بھی متاثر کرتی ہے۔‘‘ 

(بحوالہ مدھیہ پردیش میں اردو زبان و ادب: پروفیسر آفاق احمد،  مدھیہ پردیش اردو اکادمی،بھوپال  1996، ص159 )

ساحر افغانی کا کلام فکر و فن ہر دو لحاظ سے پختہ اور زوردار ہے۔ ان کی شاعری فن شعر گوئی اور طرز تحریر کی نزاکتوں سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ انھوںنے اپنے گہرے تجربات، مشاہدات اور احساسات کی مدد سے نہایت ہی خوش فکر اشعار تحریر کیے ہیں۔بلا شبہ ان کا کلام اردو شعر و ادب کا بیش قیمتی سرمایہ ہے۔مگر افسوس اب تک ان کا یہ کلام شائع نہ ہو سکا۔

 

Dr. Narayan Patidar

Bhagat Singh Govt. PG College

Jaora, Distt.: Ratlam- 457226 (MP)

Cell.: 8305365238

narayanpatidar.ujn1984@gmail.com

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن...