4/7/24

مولوی ذکاء اللہ کی ادبی خدمات، مضمون نگار: محمد عاصف

ماہنامہ اردو دنیا، جون 2024


انیسویں صدی کانصف آخرجسے اردو ادب کی تاریخ میں دور جدید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اس دور میں اردو ادب نے بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کی۔ اس دور میں ایسے نامور اور بلند پایہ ادیب پیدا ہوئے جو ماہر فن اور بالغ نظر تھے۔ان ادیبوں نے اردو نثر کے قدیم انداز بیان جو’ فسانہ عجائب‘ اور دیگر تصانیف میں ملتا تھا جس میں مقفی،مسجع اور مرصع انداز بیان کی فراوانی تھی۔ انھوں نے اس قدیم اور پرتکلف انداز بیان کو ترک کیا اور اردو نثر میں پہلی بار سلاست و روانی اور سادگی کو جگہ دی،جس کے سبب اس میںہر قسم کے خیالات کو سادگی، بے تکلفی اور وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ان نثر نگاروں کی مسلسل کاوشوںسے اردو نثر میں ایک حیرت انگیز انقلاب رونما ہوا۔انھوں نے وقت کے اہم تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تحریروں سے اردو ادب کے دامن میں وسعت پیدا کی اور اردو ادب کو ایک نئی روش سے روشناس کرایا۔انہی  نثر نگاروں میں ایک اہم نام مولوی ذکاء اللہ کا بھی آتا ہے، جو ایک مورخ، مترجم، مضمون نگار، سوانح نگار، انشائیہ نگار،تبصرہ نگاراور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ان کی کتابیں اپنے  دور میں بہت مقبول ومشہور تھیں۔ یہ کتابیں اسکولوں کے نصاب میں بھی شامل تھیں۔

ذکاء اللہ ایک باشعور اورعصری آگہی سے بہرہ ور، بیدارمغزشخصیت کے حامل تھے۔ان کے آبا واجداد غزنی سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔اس خاندان کے افراد کا شمار اپنے وقت کے عالم و فاضل میں ہوتا تھا۔

مولوی ذکاء اللہ 20اپریل 1832 میںدہلی کے کوچہ بلاقی بیگم میں پیدا ہوئے۔یہ وہ محلہ تھا جہاں بڑے بڑے عالم و فاضل پیدا ہوئے۔مولانا شاہ ولی اللہ،شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بھی اسی محلے کے تھے۔سرسید بھی اسی محلے کے ایک گھر میں پیدا ہوئے تھے۔

ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد ان کاداخلہ دلی کالج میں ہوا۔جہاں انھوں نے اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور جلد ہی ان کا شمار ماسٹر رام چندر اور شیخ امام بخش صہبائی کے خاص شاگردوں میں ہونے لگا۔دلی کالج میں تعلیم مکمل کرکے وہ اسی کالج میں ریاضی کے معلم ہو ئے۔پھر اس کے بعد آگرہ، مدراس، بلند شہر اور مرادآباد وغیرہ جگہوں پر درس و تدریس کے مختلف عہدوں پو فائز ہوئے۔آخر میں وہ میور سینٹرل کالج الٰہ آباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1887 میں اس کالج سے سبکدوش ہوئے۔ انیس سال کی عمر سے لے کر آخری ایام تک  اپنی تمام عمر تصنیف و تالیف میں گزار دی۔

ذکاء اللہ ایک اچھے تبصرہ نگار تھے۔ انھوں نے کثیر تعداد میں ان کتابوں پر تبصرہ کیا ہے جو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوئے تھے۔انھیں شاعری سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے تبصرے میں ایک سائنٹفک نقاد کی طرح شاعری کے ہر نقطے پر نظر ڈالتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کا تبصرہ’ مسدس مدوجزر اسلام‘ کو لیا جا سکتا ہے، جس میں وہ ایک سائنٹفک نقاد کے طورپر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

ذکاء اللہ کے مطابق شاعری کیا ہے اس کی وضاحت اپنے تبصرہ ’ مسدس مدوجزر اسلام‘  میں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’شاعر کا فقط یہی کام نہیں کہ وہ اپنے اشعار میں کسی چیز کی تصویر آنکھوںکے سامنے کھڑا کر دے بلکہ اصل کام اس کا یہ ہے کہ اس تصویر کو دکھا کر دل و دماغ میں اس کی تصویر کو جگا دے اور ایک استعجاب اور بوا لعجمی پیدا کر دے اور اس کے تمام اسرار کھول دے اور تعلق کو انسان کے ساتھ بتلا دے۔اسی کو شاعر کا معجزہ یا سحر حلال کہتے ہیں اور اسی کا نام شاعری ہے۔‘‘1

اردو انشائیہ نگاری میں ذکاء اللہ نے اپنے دلکش اور شگفتہ انداز بیان کی وجہ سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ان کی تحریروں سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ انگریزی کے نامور مضمون نگار بیکن سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔انھوں نے اپنے انشائیہ میں معلومات کا دفتر بھر دیاہے۔خوبصورت تشبیہات اور خیالی استعارات سے اپنے انشائیہ کو دلکش اور جاندار بنایا ہے۔اس سلسلے میں ان کا ا نشائیہ’ آگ‘کی یہ عبارت دیکھیے جس میں آگ کی مختلف کیفیات کو کتنے نرالے ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ آگ کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے مولوی ذکاء اللہ لکھتے ہیں:

ــ’’آگ ہی  ہماری دشمن جاں سوز بھی ہے اور دوست دل افروز بھی، وہ گھر گھر مبارک مہمان ہے، مہربان دوست ایسی کہ ہماری راحت کے لیے ہمارے رنج وتکلیف کو دور کرنے کے لیے آسائش و آرام کے واسطہ صدہا ضرورت زندگی کے رفع کرنے کے واسطے وہ سامان مہیا کرتی ہے۔ ہمارے چولہے پر ماماگری کرتی ہے۔اپلے  کنڈے جلاکر روٹی اور کھانا پکاتی ہے۔آگ ہی نے انسان کو پکانا سکھایا ہے۔جس کے سبب سے وہ اور حیوانوں سے ممتاز ہو گیا ہے،جیسا کہ انسان حیوان ناطق کہلاتا ہے۔‘‘2

ذکاء اللہ ریاضی داں بھی تھے۔ ان کی ریاضی کی صرف وہی کتابیں مشہور نہیں ہوئیں جو درس و تدریس کے نصاب میں شامل تھیں بلکہ ان کی غیر درسی کتابوں کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ان کا پسندیدہ موضوع ریاضی تھا۔اسی لیے اس موضوع پر انھوں نے کثیر تعداد میں کتابیں لکھی ہیں۔ ان کتابوں کا کمال یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے طا لب علم میں رٹنے والی شکایت ختم ہو جائے گی۔ انھوں نے نہ صرف ریاضی کی کتابیں تصنیف کی ہیں بلکہ انگریزی میں لکھی ریاضی کی معتبر کتابوںکو اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کتابوں کی خوب تعریف ہوئی ہے۔

لارڈ نارتھ بروک نے ان کی اس محنت کی بہت تعریف کی ہے۔وہ کہتے ہیں :

’’ریاضی کی کتابوں کے جس سلسلہ کو منشی ذکاء اللہ نے شائع کیا ہے اور جس کی شمال مغربی صوبہ کے ڈائرکٹر محکمۂ تعلیم نے بے حد تعریف و توصیف کی ہے اس کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ وہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کی درخواست پر اور اس کی مدد سے شروع کیا گیا ہے۔منشی ذکاہ اللہ بدیہی طور پر یہ کام نہایت اچھے طریقے سے انجام دیا ہے۔اور توقع کی جاتی ہے کہ مزید اعتراف اور مدد سے وہ اسی کام کو جاری رکھ سکیں گے اور سائنس کی دوسری شاخوں کی جانب اپنی توجہ مبذول کر سکیں گے۔‘‘3

وہ بلا کے لکھنے والے تھے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم کاری کر کے اردو کے نثری سرمائے میں مزید اضافہ کیا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق ذکاء اللہ نے 157کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔بقول عبدالحق خود ایک چھوٹا سا کتب خانہ بن سکتی ہے۔ہر قسم کے موضوعات پر قلم اٹھانے کے سبب ہی خواجہ الطاف حسین حالی نے ان کے متعلق کہا تھا کہ :

’’ذکاء اللہ کا دماغ بنیے کی دوکان ہے۔ جس کو جس چیز کی ضرورت پیش آئی وہاں سے مل گئی۔‘‘

ان کی کثیر تصانیف کے سلسلے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر ان کی ساری تصانیف کا وزن کیا جائے تو  جملہ تصانیف کا وزن ذکاء اللہ پربھاری پڑے گا۔

انھوں نے اپنی تصانیف کے ذریعے اردو ادب کے نثری ذخیرے میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔اس کے علاوہ بے شمار مضامین اخبار و رسائل میں بھی لکھے ہیں۔ ان کے ہم عصروں میں کسی نے بھی اتنی کثیر تعداد میں کتابیں نہیں لکھی ہیں جتنی ذکاء اللہ نے لکھی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود انھیں وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جو ان کے ہم عصر ادیبوں کو ہوئی تھی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کتابوں کی طوالت۔معمولی کاغذ اور ظاہری حسن میں دلکش نہ ہونے کے باعث لوگ اس سے مستفیض نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے آج ان کی کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔بس ان کے بعض مضامین کہیں کہیں درسی کتابوں میں نظر آجاتے ہیں۔

مولوی ذکاء اللہ علی گڑھ تحریک کے معاون و مددگار تھے۔انھیں ’مدرسۃ العلوم ‘سے جذباتی لگاؤ تھا۔اس کالج سے بے پناہ جذبۂ عقیدت و محبت کا اندازہ ذکاء اللہ کے اس انمول جملے سے لگایا جا سکتا ہے:

’’میری ساری زندگی کی امیدیں اس کالج سے وابستہ ہیں،اگر اسے کوئی نقصان پہنچا تو میری زندگی کا کام تباہ اور برباد ہو جائے گا۔‘‘4

یہی محبت ہے جو ذکاء اللہ کو بار بار علی گڑھ لاتی رہی ہے۔جب بھی وہ میور کالج الہ آباد میں پڑھانے کے لیے دلی سے آتے تو پہلے وہ علی گڑھ جاکر رات بھر سر سید کے یہاں قیام کرتے پھر صبح علی گڑھ سے الہ آباد کے لیے روانہ ہوتے تھے۔اسی رغبت کی بنا پر انھوں نے اپنے بیٹے مولوی عنایت اللہ کو علی گڑھ میں ہی تعلیم دلائی تھی۔

ذکاء اللہ شروع ہی سے مدرسۃ العلوم کی ترقی کے خواہاں تھے۔اس کی قیام کے لیے انھوں نے سرسید کو مزید امداد دی۔وہ ہمہ وقت اس کالج کی خدمت میں پیش پیش رہے۔کالج کے سبھی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1866 میں ذکاء اللہ نے سائنٹفک سوسائٹی کی رکنیت اختیار کی تب انھوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اردو زبان کو درس و تدریس کا ذریعہ بنایا جائے اور اس کے دامن کو مغربی علوم کے جواہرات سے مالامال کیا جائے۔جبکہ ایسے وقت میں ہر شخص ان کے خلاف تھا۔انھوں نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ اعلیٰ مغربی تعلیم ملکی زبانوں کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔اپنے اس نقطہ ٔ خیال کو ثابت کرنے کے لیے وہ برابر لڑائی لڑتے رہے، جس میں ان کی ہار یقینی تھی تب بھی وہ ہار نہیں مان رہے تھے بلکہ ہمت و بہادری کے ساتھ اردو ذریعہ تعلیم کے لیے برابر لڑتے رہے۔

ذکاء اللہ سچے وطن پرست تھے انھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبت تھی۔وہ اپنی تاریخ میں ملک کے شاندار ماضی کا حال بیان کرتے ہیں۔وہ اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔وہ ملک کی سربلندی کے خواہاں تھے۔انھیں اپنے ملک سے والہانہ محبت تھی۔وہ اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان کا اپنے وطن سے محبت کے جذبے کا اندازہ اس عبارت سے لگایا جا سکتا ہے:

’’ ہندوستان ہماری مادرِ وطن ہے۔ ملک جس نے ہمیں جنم دیا۔ ہم نے یہاں اپنے گھر بنائے، یہاں شادی بیاہ کیے، بچے پیدا کیے، یہیں اس سر زمین، جس کی خاک میں ہمارے پرکھوں کی خاک ملی ہوئی ہے۔ ایک ہزار سال سے خود ہمارا مذہب اسلام ہندوستان سے بڑے مستحکم اور قریبی بندھنوں سے بندھا ہوا ہے اپنے مخصوص تمدن کی بعض عظیم ترین کا میابیاں اسلام نے یہیں ہندوستان ہی میں حاصل کی ہیں۔ اسی لیے ہمیں ہندوستان کی تاریخ اور یہاں کی حکومت سے محبت کرنا چاہیے۔‘‘5

انھوںنے سائنس اور جدید علوم پر نہایت پر اثر، مفید اور معلوماتی مضامین لکھ کر اردو مضمون نگاری کی سمت میں کشادگی پیدا کی۔ ان کی کتابوں نے اردو زبان کو سادہ، آسان اور عام فہم اسلوب عطا کیا۔آج ان کی کتابوں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ان کتابوں کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے جبکہ ان کی بعض شاہکار تصنیف جیسے کہ ملکہ وکٹوریہ،کرزن نامہ،تاریخ ہند جیسی کتابوں سے لوگوں کی دلچسپی برقرار رہی لیکن اس کی طوالت کی بنا پر ان کتابوں سے استفادہ نہیں کر سکے۔اس بات کا ذکاء اللہ کو بہت افسوس تھا بقول ذکاء اللہ:

’’مسرت سے فرماتے تھے کہ جن علوم و فنون کی کتابوں کا میں نے ترجمہ کیا وہ اب الماریوں میں بند پڑی رہے گی۔‘‘6

ادبی حیثیت سے ذکاء اللہ کا کارنامہ بے مثال ہے۔ یہ  الگ بات ہے کہ ان کے کارناموں کا چاہے اعتراف نہ کیا جائے،چاہے ان کو پوری طرح بھلا دیا جائے تب بھی ان کا نام اردو زبان و ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔ جب بھی دلی کالج کے طلبہ اور استاد کا نام لیا جائے گاتو اس میں مولوی ذکاء اللہ کا نام بھی آئے گا۔جو اس کالج کے طالب علم بھی تھے اور استاد بھی۔

ذکاء اللہ کی کثیرتعداد میں کتابیں ان کی خدا داد صلاحیت اور ان کے کمالات کا ذکر مولوی بشیر الدین  صاحب اپنے مضمون ڈپٹی نذیراحمدواقعات دارالحکومت جلد دوم میںکچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’ میں تاریخ اور ریاضی میں علی الخصوص مسلمانوں میں آپ کا جواب نہ تھا۔ آپ کی تصانیف ایک نہیں دو نہیں سیکڑوں ہیں۔ جتنی ضخیم کتابیں آپ نے تصنیف کیں اور ترجمہ کیں، کسی نے نہیں کیں۔... بالکل عالمانہ فلسفیانہ رنگ تھا۔ گو شمس العلماء تھے مگر کہلائے ہمیشہ منشی اور یہ لفظ تھا بھی بہت موزوں، اتنا بڑا منشی ہی لکھاڑ دیکھنے میں نہیں آتا۔ خدا جانے قلم تھا یا مشین دماغ تھا۔ یہ معلومات کا لا محدود و غیر متناہی ذخیرہ۔ ایسے لوگ کہاں پیدا ہوتے اور شاید پیدا ہوتے ہوں مگر فی زمانہ مسلمانوں میں تو ہوتے نہیں اور سارا ہندوستان چھان مارو ایک بھی ان جیسا نہیں ملے گا۔‘‘

آنے والے وقت کے تقاضوں کی اہمیت کا اندازہ وہ پہلے ہی لگا چکے تھے۔اس لیے انھوں نے نئی سائنسی معلومات اورمغربی علوم کی ضروریات کے پیش نظر کتابیں لکھیں۔ان کا نظریہ ادب افادی اور اخلاقی تھا۔وہ ادب کے ذریعے قوم کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔رسکن  (Ruskin) کی طرح انھیں بھی ادب اور اخلاقیات میںایک اٹوٹ رشتہ نظر آتا تھا۔ان کے مضامین کے مجموعے تہذیب الاخلاق آریہ ہند، مکارم الاخلاق اور’محاسن الاخلاق‘ اس حقیقت کے مظہر ہیں۔ان مجموعوں کے ناموں سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ ادب اور اخلاقیات کے باہمی ربط کے قائل تھے۔ان کے مطابق مضمون نگاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سنجیدہ مقصد ہو۔اسی مقصد کے تحت ان کے بیشتر مضامین اخلاقیات پر لکھے گئے ہیں۔انھوں نے صنف مضمون میں تمثیل نگاری کی اہمیت کا  احساس دلایا۔

ذکاء اللہ کا عہداردو ادب کے لیے اصلاح کا دور تھا۔انھوں نے پہلی بار  صنف مضمون نگاری پر تنقیدی نظر ڈالی تھی اور ’ایسے‘کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ان کے مطابق مضمون نگاری کا مقصد مقفیٰ و مسجع جملوں یا الفاظ و تراکیب کی شو بازی نہیں بلکہ سادہ نثر کو ترجیح دینا ضروری ہے۔اردو نثر کی اس ادبی ہیٔت کی ترقی میںذکاء اللہ کی نثری خدمات ناقابل فراموش ہے۔

یہ ذکاء اللہ کا ہی کارنامہ تھا کہ انھوں نے یورپ اور ہندوستان کے درمیان ایک پل باندھنے کا کام کیا ہے۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مشرق کوترک کیے بغیر مغرب کو کیسے اپنایا جا سکتاہے۔مغربی علوم کو حاصل کرنا اس وقت کا اہم تقاضا تھا لہٰذا انھوں نے مغربی علوم کی اہمیت و افادیت کا احساس اپنے ہم وطنوں کو دلایا۔وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر مغربی تعلیم کے قوم کے نونہالوں کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ اسی خیال کو ضروری سمجھتے ہوئے انھوں نے سائنسی اور معلوماتی کتب لکھے ہیں۔

وہ اردو ذریعہ تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ذکاء اللہ نے طلبہ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مغربی علوم کی کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا ہے۔تاکہ قوم کے نونہال اس سے فیض یاب ہو سکیں۔وہ مادری زبان اردو کو درس و تدریس کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔اسی لیے انھوں نے اردومیں کتابیں لکھ کر لوگوں کو مادری زبان کی اہمیت کا احساس دلایا۔

حواسی

1        تبصرہ یعنی ریویو مسدس مدوجزر اسلام،مولوی ذکاء اللہ،علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 1296ھ،1880،ص160تا168

2        فکر نو، مولوی ذکا ء اللہ نمبر، مجلہ ذاکر حسین کالج نئی دہلی، (مدیرہ) ڈاکٹر ممتاز فاخرہ مجیب،2010، 2011،ص200

3        سی ایف اینڈریوس،تذکرہ ذکاء اللہ دہلوی،(مترجم)،ضیا الدین احمد برنی،مشہور پریس کراچی1952، ص134-35

4        مضمون،سرسیدکانسائی جہت:اصغرعباس،مرتب قیصرجہاں، ص103                                     

5        مشیر الحسن، دہلی کے مسلمان دانشور (مترجم)مسعود الحق، انجمن ترقی اردو ہند،نئی دہلی2006، ص 259

 

Mohammad Asif

Research Scholar, Urdu Dept

Allahabad University

Allahabad- 211002 (UP)

Cell.: 7800496829

asifmoha2018@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

قومی یکجہتی، ماخذ: ابتدائی علم شہریت، مصنف: شریف الحسن نقوی

  اردو دنیا، ستمبر 2024 اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہندوستان انقلابات سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ یہاں سیاسی انقلابات آئے۔ کبھی ترقی سے ہم...